بنگلہ دیش ملت ِ اسلامیہ سے وابستہ اور مسلم قومیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا وطن ہے۔ ان کے آباواجداد نے کبھی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ ہزار سالہ مسلم دورِحکومت میں بھی یہ لوگ خودمختاری اور خودداری کا حوالہ بنے رہے۔ پھر انگریزوں سے آزادی اور برہمنی سامراج سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود تاریخ کا یہ تکلیف دہ سوال ہے کہ :
گذشتہ ۴۰برسوں سے یہی مظلوم بنگلہ دیشی، برہمنی آلۂ کار عوامی لیگ کے پھندے میں کیوں پھڑپھڑا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی ماہرین تاریخ و سماجیات پر قرض ہے۔ تاہم، اس وقت رنج و اَلم کا معاملہ آج کے لہورنگ بنگلہ دیش سے وابستہ ہے۔
۵ جنوری ۲۰۱۴ء بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ ملکوں کے لیے بھی ایک شرم ناک دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز عوامی لیگ کی حکومت نے یک طرفہ انتخابی یلغار کرکے پوری پارلیمنٹ پر قبضہ جمالیا تھا۔ اس قبضے کو پہلے پہل یورپی یونین اور امریکا تک نے مسترد کیا، مگر آہستہ آہستہ حسینہ واجد کی سربراہی میں قابض ٹولے سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے اور عوامی لیگ نے بھی بھارت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لیے اُوپر تلے فیصلے شروع کر دیے۔ بھارتی مفادات کے تحفظ اور بنگلہ دیشی مفادات کی نفی پر مبنی اس ’لوٹ سیل‘ پر محب ِ وطن حلقے چیخ اُٹھے۔
جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP ) کے ساتھ مزید ۱۸پارٹیوں نے اس عوامی لیگی قبضہ گروپ کے خلاف ۵جنوری ۲۰۱۵ء کو ’یومِ قتلِ جمہوریت‘قرار دے کر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ غاصب حکومت نے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے ۲۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل اور ۱۵ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوام نے جوش و خروش سے حکومتی اقدامات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ریل کی پٹڑیوں، قومی شاہرائوں اور دریائی آبی راستوں پر آمدورفت کو معطل کر دیا۔ حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج ۵جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک جاری ہے۔ اس دوران حکومت نے نہ صرف طالب علموں اور مزدوروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، بلکہ بزرگوں، مریضوں اور چھوٹے بچوں تک کو خون میں نہلادیا۔
صرف مارچ کے دوران جماعت اسلامی اور بی این پی کے ۵۰ سے زائد کارکنوں کو مختلف شہروں (چٹاگانگ، رنگ پور،جیسور، سلہٹ، میمن سنگھ، فینی، ڈھاکہ وغیرہ) میں چھرا گھونپ کر ہلاک کیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کارروائی عوامی لیگ کے کارکنوں نے کی، جن میں سے بیش تر کی نشان دہی گواہوں نے کی، مگر پولیس انھیں پکڑنے یا مقدمہ دائرکرنے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس سے عوامی لیگ اور پولیس کی ملی بھگت بے نقاب ہوجاتی ہے، اور عوام میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۷ مارچ کو آدھی رات کے وقت گورنمنٹ کالج چٹاگانگ اور گورنمنٹ محمد محسن کالج چٹاگانگ سے اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش) کے ۸۰ کارکنوں کو بلاوجہ اُٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ جب پولیس طلبہ کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول رہی تھی تو چھاترو لیگ، یعنی عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے مقامی کارکن پولیس کو نشان دہی کرکے شبر کے کارکنوں کو گرفتار ہی نہیں کرا رہے تھے بلکہ دھکے دیتے ہوئے گھسیٹ بھی رہے تھے۔ اس طرح کے دل دوز واقعات آج کے بنگلہ دیش میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر براڈ ایڈم نے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’مارچ ۲۰۱۵ء میں بی این پی کے ترجمان اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل صلاح الدین احمد(جو وزیر بھی رہے) کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں اغوا کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ۱۰مارچ کی رات صلاح الدین کے ہمسایے کے مطابق سادہ کپڑوں میں پولیس کے کارندے ان کی قیام گاہ پر آئے۔ انھوں نے چندگھنٹوں کی پوچھ گچھ کا وعدہ کرکے انھیں ساتھ لیا، اور بعد میں انکار کردیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کے بے شمار واقعات شہر شہر میں دُہرائے جارہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے زیادہ نشانہ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو بنایا جا رہا ہے، جن میں سے بعض کی لاشیں ندی نالوں اور جوہڑوں میں تیرتی پائی گئی ہیں، یا پھر اُن کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں اپاہج بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ وحشیانہ تکنیک ہے جو بھارت میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) اپناتی ہے۔
اپریل کا مہینہ اس اعتبار سے بڑی نزاکت رکھتا ہے کہ اس ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کے لیے عوامی لیگی حکومت آخری ڈراما رچانے جارہی ہے۔
مئی ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد قمرالزماں کو جھوٹے مقدمے میں سزاے موت سنائی گئی۔ ان کی طرف سے کی گئی نظرثانی کی اپیل کو ایک جج نے منظور اور تین نے مسترد کیا، اور ۱۹فروری کو نام نہاد کرائمز ٹربیونل نے سزاے موت کے وارنٹ پر دستخط کیے۔ اب یکم اپریل سے قمرالزماں کی حتمی اپیل کی سماعت شروع ہورہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی مسترد کی جائے گی۔ اسی طرح ٹریبونل کی جانب سے سزاے موت کے خلاف امیرجماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت بھی ۳۰ مارچ سے ہورہی ہے، جب کہ ۱۸فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالسبحان کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عبدالسبحان صاحب نے ۱۸مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ یہ اپیل ۸۹ صفحات، ۹۲ دلائل اور ۱۱۸۲ صفحات کے دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل ہے۔
یاد رہے جماعت کے دو اور مرکزی رہنمائوں: میرقاسم علی کو اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اور اظہرالاسلام کو ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عدل کے نام پر عدل کے قتل اور انسانیت کی تذلیل کا یہ کھیل بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نام نہاد سول سوسائٹی اس باب میں چپ سادھے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اس صورتِ حال کو چند لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش سخت بے یقینی، انتشار، حکومتی جبر اور عوامی لیگی فسطائیت کا شکار ہے۔ ۱۶کروڑ عوام کا ملک بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتی پشت پناہی میں تشدد کی لہر نے ہرغیرت مند شخص کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ روزانہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد، قتل اور سیاسی بنیادوں پر جبری اغوا کی خبریں روزناموں کے صفحۂ اوّل پر اس کربلا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ ملک جس میں حسینہ واجد کی غیرنمایندہ، غیراخلاقی اور غیرقانونی حکومت نے عوامی حقِ حکمرانی غصب کر رکھا ہے، اس کے حالات کو درست سمت دینے کا واحد حل یہ ہے کہ حسینہ واجد ٹولے کو عوام کا خون چُوسنے اور خون بہانے کے بجاے برطرف کیا جائے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور کھلے عام عوامی شرکت یقینی بنانے والے انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طریقے سے اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔
بنگلہ دیش میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو ہندستانی شکنجے سے باہر نکال کر خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے حصول کی قیادت پر دیکھتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھارت، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، عوامی لیگ کی پشت پناہی میں کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد نے پولیس کو احکامات دیے ہیں کہ: ’’اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے آپ جس انتہا تک بھی جائیں، اس کی ذمہ داری میں قبول کروں گی، آپ بے خوف انھیں کچل دیں‘‘۔ یہ احکامات کوئی خفیہ سرکلر نہیں، بلکہ حسینہ کے روزانہ کے بیانات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تحریر کے ابتدا میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ حریت اور خودداری کا یہ خطۂ مسلم بنگال، جس نے ہندو کی غلامی کو قبول نہیں کیا تھا، گذشتہ ۴۰برس سے کیوں غلامی اور خودکشی کی زنجیروں پر جھول رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں۔ جب کسی قوم، ملک یا قبیلے کے اپنے لوگ، دشمن کا آلۂ کار بننے کو تیار ہوجائیں اور پھر انھیں دشمن سے بھرپور کمک بھی مل جائے، تو شب ِ غم طویل تر ہوجایا کرتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جموں وکشمیر میں جواہر لال نہرو کے دست ِ شر انگیز پر بیعت کر کے جموں و کشمیر کو بھارتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے، تو بنگال کے شیخ مجیب نے نہرو کی بیٹی اندراگاندھی کے قدموں کو چھو کر مسلم بنگال کو بھارتی مفادات کی چراگاہ بنادیا ہے۔ جب اپنے، دوسروں کے وفادار بنتے ہیں تو ان کے لیے انسانی جان اور قومی غیرت کچھ معنی نہیں رکھتی اور ان بدقسمت قوموں کو صبحِ آزادی کا نظارہ کرنے کے لیے طویل عرصے تک قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔