ایک تازہ ترین سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں ۷۵ کروڑ افراد ایسے ہیں کہ ’محمد‘اُن کے نام کا حصہ ہے۔ آپؐ کی ذاتِ ستودہ صفات پر لکھی جانے والی کتابوں میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ مؤلف کے بقول وہ یہ کتاب ایک نئے انداز سے ضبط ِ تحریر میں لائے ہیں۔ (صxiv)
کتاب کے آغاز میں زمانہ قبل اسلام کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر قرآنی آیات کی روشنی میں دعوت کے پہلے دور کا جائزہ لیاگیا، اور آپؐ کی تعلیمات کو مختصراً پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہودیت، عیسائیت، بدھ مت اور ہندومت کے حوالے سے مختصر نوٹ شامل کیے گئے ہیں اور دیگر مقدس کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ آپؐ کی آمد کی اطلاع اُن میں موجود ہے۔ آپؐ کے شخصی حُسن و جمال کے حوالے سے بھی احادیث مختصراً درج ہیں۔
اسی طرح نبی علیہ السلام کے غزوات و سرایا کو تفصیلاً پیش کیا گیا ہے اور آپؐ کے فوجی اقدامات کی توجیہہ کی گئی ہے۔ فتح مکہ کی تفصیلات ہیں اور آپؐ نے دیگر سربراہانِ مملکت کو دین اسلام کی طرف جو دعوت دی وہ پیغامات بھی شامل ہیں۔
پروفیسر خورشیداحمد کتاب کے ابتدایئے میں لکھتے ہیں کہ وقت کا اہم ترین تقاضااخلاقی و روحانی نشاتِ ثانیہ ہے۔ انسانیت کو ہلاکت و تباہی سے بچانے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے نبی کریمؐ کی تعلیمات کو مخلصانہ انداز میں اپنانا ہی راہِ نجات ہے۔ اس کتاب میں نبی کریمؐ کی تعلیمات اور مشن کو اختصار و جامعیت، عام فہم انداز اور مستند طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یقینا یہ کتاب عام افراد بالخصوص نوجوانوں کے لیے نبی کریمؐ کی سیرت اور پیغام کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوگی۔
اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی اپنے نصب العین اور اپنے قائدانہ کردار سے غافل ہے۔ ان حالات میں ایسی مؤثر کتابوں کی اشاعت قابلِ تحسین ہے۔(محمد ایوب منیر)
مغرب میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے جو لوگ کام کر رہے ہیں ان میں شمیم صدیقی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا ایک منفرد مقام ہے۔ ایک امریکی شہری کے ساتھ ساتھ وہ ایک صاحب ِ دل دانش ور بھی ہیں۔اس مختصر سی کتاب میں وہ نہایت وسعت ِ نظر سے یہ بتاتے ہیں کہ اسلام، جو دنیا کی بہترین اصلاحی تحریک کے طور پر نمودار ہوا تھا، کس المیے سے دوچار ہے۔ اسلام، حقیقی معنوں میں محض رسمی عبادات کامجموعہ نہیں، جیساکہ اس کے داعی اُسے پیش کر رہے ہیں، بلکہ ایک ہمہ جہتی نظامِ حیات ہے ۔ بدقسمتی سے ۵۷مسلم ممالک میں کہیں اُسے ایک عالمی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے طور پر پیش نہیں کیا جا رہا۔ جہاں کہیں اسلامی تحریکیں سر اُٹھاتی ہیں، انھیں ’بنیاد پرست‘ اور ’دہشت گرد‘ کے ناموں سے نوازا جاتا ہے اور انھیں کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پوری مسلم دنیا آج ’یورو امریکی صہیونیت‘ کی غلامی کا قلاوہ گردن میں ڈالے پڑی سورہی ہے، اور حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے فریضے سے غافل ہے۔
آج کی دنیا، اپنی ساری پیش رفت کے باوجود اُسی ’جاہلیت‘ کے دور سے گزر رہی ہے جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تحریک شروع کی تھی (ص ۲۷-۲۸)۔ آج مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے، لیکن منتشر اور اپنے اصل مشن سے غافل ہیں۔ قرآنِ مجید میں مسلمانوں کو ’اُمت ِوسط‘ کہا گیا ہے ، اور شہادتِ حق ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کو ایک ’دین‘ کے طور پر سمجھیں اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنا اپنا مشن قرار دیں اور اسے محض ’پوجاپاٹ‘ کا مذہب نہ بنالیں۔ نظامِ صلوٰۃ کے ساتھ نظامِ زکوٰۃ (مالیاتی نظام) قائم کریں اور عدل و انصاف کی حکمرانی کا اسلامی نمونہ ساری دنیا کے سامنے پیش کریں۔
کتاب کے ضمیمے میں مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے دنیا کے ۲۳۱ ملکوں کے کوائف جمع کیے ہیں اور ان میں کُل آبادی اور مسلمانوں کے تناسب کے اعداد وشمار پیش کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں انسانی مسائل کے حل کے لیے ایک ’عالمی اسلامی تحریک‘ کی ضرورت ہے، جس کے لیے اس مختصر کتاب میں بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں۔
کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد رفعت نے لکھا ہے۔ سیّدمنورحسن اور ڈاکٹر کوکب صدیق کے تبصرے بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
یہ درست ہے کہ ہمارے علما ، حکما اور صوفیہ (صوفیہ درست ہے نہ کہ صوفیا) نے مذہبی ادب کا نہایت گراں قدر ذخیرہ فراہم کردیا ہے (حرفِ ناشر)۔ لیکن اس ذخیرے کا اسلوب، ترتیب و تدوین اور پیش کش ایسی ہے کہ اسے دیکھ کر اس کی ساری ’گراں قدری‘ختم ہوجاتی ہے۔ زیرنظر کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زُہد کے موضوع پر احادیث ِ نبویؐ کو اس اندازو اسلوب، ترتیب اور خوب صورتی سے جمع کیا ہے (اور ناشر نے مصنف کی محنت کی قدر کرتے ہوئے اسے اشاعت و طباعت کے ایسے اُونچے معیار پر پیش کیا ہے کہ اُردو میں خال خال کتابیں ہی اس معیار پر چھپتی ہیں) کہ پڑھی ہوئی حدیثیں بے اختیار دوبارہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ہر حدیث کے ساتھ سنددی ہے۔
مفصل دیباچے میں مؤلف نے بڑی جامعیت سے ’زہد‘ کا تعارف کرایا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیرسٹر صاحب نے صرف حدیث ِ نبویؐ کا نہیں بلکہ صوفیہ کے فرمودات و ملفوظات کا دقّت ِ نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ایسی کتاب جس کی ترتیب میں مرتب کی اپنی شخصیت بھی گھلی ملی نظر آتی ہو، ایک باکمال بات ہے۔ پس یہ فقط ایک علمی (academic) کاوش ہی نہیں، وارداتِ دل کا بیان بھی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے قرآن و سنت کا انسانِ مطلوب کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
جملہ مذہبی اوردینی طبقوں ، گروہوں اور جماعتوں کی کاوشوں کا مقصود اسلامی ریاست اور حکومت کا قیام ہے۔ (کم از کم وہ کہتے تویہی ہیں) مگر ’اسلامی ریاست‘ ہے کیا؟ اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ دورِ جدید میں وہ معاصر دنیا کے ساتھ کیسے نباہ کرسکے گی؟ اس کی وضاحت کی طرف ہمارے علما نے کم ہی توجہ دی ہے۔البتہ جدید تعلیم یافتہ مسلم مصنّفین نے اس پر کچھ نہ کچھ کام کیا ہے۔ خود مولانا مودودی کی اسلامی ریاست مسلمانوں کی مطلوب ریاست کے اصول پیش کرتی ہے۔
مؤلف نے اسلامی ریاست کا فلاحی چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے، مگر دیگر پہلوئوں (معیشت، تعلیم، خواتین کے کردار، غیرمسلموں کی حیثیت، ذرائع ابلاغ، اُمورِ خارجہ، جہاد، بنیادی انسانی حقوق) کو بھی واضح کیاہے۔انھوں نے ان تمام مباحث پر مضبوط دلائل کے ساتھ کلام کیا ہے اور زبان نسبتاً عام فہم ہے۔
اگلی اشاعت میں مآخذ و مصادر کی فہرست بھی دے دیں تو مناسب ہوگا۔ مغرب کے جن دانش وروں (یا مغربی عینک سے دیکھنے والے ہمارے اپنے دانش وروں) نے اسلامی ریاست کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں، مختصراً اُن سے بھی تعرض ہوجاتا تو بہتر تھا۔ کتاب اچھے کاغذ پر معیاری طباعت کے ساتھ چھپی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
گذشتہ ۴۰، ۴۲ برسوں میں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے ایک خاصا بڑا شعری اور ادبی ذخیرہ وجود میں آچکا ہے۔ جس میں مضامین، ناول، افسانے، ڈرامے، نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔ زیرنظر مجموعہ اس موضوع پر ۲۲منتخب افسانوں کا مجموعہ ہے۔ لکھنے والوں میں اُردو کے چوٹی کے افسانہ نگار (انتظار حسین، مسعود مفتی، رضیہ فصیح احمد اور اے حمید وغیرہ) شامل ہیں۔ تاریخِ انسانی، سیاسی اور تہذیبی سانحات، دوعظیم جنگوں، تقسیم ہند اور فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے اُردو میں اچھے بُرے کئی مجموعے شائع ہوئے۔
یہ افسانے کچھ تو عین زمانۂ جنگ میں، کچھ سقوط کے زمانے میں، اور کچھ زمانۂ مابعد میں تحریر کیے گئے۔ بعض افسانہ نگاروں کے لیے مشرقی پاکستان اَن دیکھے محبوب کے مانند تھا۔ یہ اَن دیکھا محبوب دسمبر ۱۹۷۱ء میں بچھڑ گیا، اور ناراض ہوکر الگ ہوگیا تو اس المیے کی شدت ان کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔مرتب نے اپنی تحقیق کے دوران میں سیکڑوں کتابوں اور رسائل میں بکھرے ہوئے افسانوں کا سراغ لگایا۔ پھر افسانوں کا یہ انتخاب مرتب کیا۔ ان افسانوں میں انسان کا ذہنی کرب، اس کے جذباتی رویّے، سیاسی اور معاشرتی حالات کا جبر، اور سیاست کا خود غرضانہ چہرہ سامنے آتا ہے۔
یہ سانحۂ سقوطِ مشرقی پاکستان کی ایک ایسی تصویر ہے جسے افسانوں کے فنی پیرایے میں پیش کیا گیا ہے۔یہ بامقصد کہانیاں افسانوں کے طور پر تو د ل چسپ ہیں ہی، ان میں سبق آموزی کے بہت سے پہلو بھی موجود ہیں۔ اس طرح یہ کتاب محض ایک افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ کسی سنجیدہ کتاب کی طرح تاریخِ پاکستان کے ایک اَلم ناک باب کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتی ہے۔
دیباچہ نگار ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول: یہ ایک بہت نایاب، نہایت بامعنی، جامع اور معیاری انتخاب ہے۔ ڈاکٹر عقیل کا مفصل ’پیش لفظ‘ بجاے خود سقوطِ مشرقی پاکستان اور ہمارے قومی ادب سے متعلق قیمتی معلومات پر مبنی ہے۔ طباعتی معیار اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب مصنف کے چند مضامین اور خطبات کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں میں انسانی سیرت و کردار کے بعض مخفی گوشوں کی تعمیر کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ چند عنوانات: راہِ نجات، ذکراللہ، حقیقت عملِ صالح، حدود اللہ کی حفاظت، خواتین کا جہاد، تعمیرسیرت و کردار، تقرب الٰہی کا راستہ۔ انسانی معاملات میں اصلاحِ احوال کا واحد ذریعہ توبہ ہی ہے اور ایمان بالآخرت اور متعدد دیگر عنوانات کے تحت عام فہم زبان میں اظہارخیال کیا گیا ہے۔ تفہیم و تشریح کے لیے انبیا ؑکے واقعات، ان کی زندگی کی مثالیں اور نہایت گہرائی میں جاکر حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ، آپؐ کی سیرت و کردار کی مثالیں اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ کے نمونے بیان کیے ہیں۔ اسلوبِ بیان اتنا دل کش ہے کہ قاری لفظ بہ لفظ مصنف کے ساتھ چلتا ہے،کہیں اٹکائو، الجھائو اور ابہام سے واسطہ نہیں پڑتا۔ یوں قاری اپنی فکرونظر کو قرآنی آیات اور سنت ِ نبویؐ کی روشنی میں نکھارتا چلا جاتا ہے۔
مصنف نے اپنی تحریر کو علامہ اقبال کے اُردو اور فارسی اشعار سے مزین کیا ہے۔ یہ اشعار موقع و محل کے لحاظ سے نہایت موزوں ہیں، تاہم بعض مقامات پر ان کی صحت متاثر ہوئی ہے، آیندہ اڈیشن میں ان کی تصیح ضروری ہے (صفحات: ۱۰۰، ۲۰۳، ۲۰۷، ۲۱۲، ۲۱۴، ۲۱۷)۔ ص ۲۵۴ پر لکھا ہے:’’ حضرت محمدؐ آسمانوں پر تشریف لے گئے… واپس آکر طائف کی بستی جیسے حالات میں پتھر کھانا… محبوب کی رضا کے لیے ہے‘‘، جب کہ اہلِ علم کے نزدیک واقعہ معراج طائف کے سفر سے پہلے ہوا تھا۔ ص۱۵۷ پر لکھا ہے کہ [سیّد سلیمان ندوی] نے ’’مدراس میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر لیکچر محمڈن ایجوکیشن سوسائٹی میں دیے تھے‘‘،جب کہ صحیح یہ ہے کہ مدراس میں سیٹھ جمال محمد کی قائم کردہ ’مسلم ایسوسی ایشن‘ میں یہ لیکچر دیے گئے تھے۔(پروفیسر ظفر حجازی)
۱۵؍ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق سارے ہی معروف عنوانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حیوانات اور نباتات سے متعلق عنوان غالباً سہواً رہ گیا ہے۔ ابواب سے متعلق رنگین تصاویر اور خاکے خوب صورت ترتیب سے شائع کیے گئے ہیں اور بڑے جاذبِ نظر ہیں۔ ہرباب میں شرح و بسط اور دلائل کے ساتھ ابتداے اسلام سے لے کر جدید دور تک سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کی قابلِ قدر سرگرمیوں کو بڑی خوب صورتی اور شواہد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔’ علمِ کیمیا اور کیمیکل ٹکنالوجی‘ باب۵، ص ۸۷ تا ۱۰۶ کے چند حوالوں سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے: ’’چونکہ قرآن انسان کو مادے کی ساخت پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے اس لیے مسلمانوں نے شروع دور ہی سے علمِ کیمیا پر توجہ دی۔ مدینہ منورہ میں درس و تدریس کے دوران میں حضرت جعفرصادقؒ نے چار عناصر والے ارسطو کے نظریے کا رد پیش کیا اور واضح کیا یہ چار عناصر مزید کیمیائی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہوا میں ایک ایسی چیز ہے جو جلنے میں مدد دیتی ہے اور اس وجہ سے دھاتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ جزو ہے جو زندہ رہنے کے لیے اشدضروری ہے اور وہ بھاری بھی ہوتی ہے (آج ہم اسے آکسیجن کے نام سے جانتے ہیں)۔ مشہور کیمیادان جابر بن حیان (۷۲۱ئ-۸۱۵ئ) نے یہ بنیادی علوم مدینہ شریف میں ہی سیکھے ۔ان کا شمار حضرت جعفرصادقؒ کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ مسلمانوں سے قبل کیمیا دان عموماً سونا بنانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے۔ مسلمانوں میں الکندی، البیرونی، بوعلی سینا اور ابن خلدون سمیت عموماً کیمیادانوں نے اس کی مخالفت کی اور عملی کیمسٹری پر توجہ دی۔ مغربی مؤرخین گبن اور سنگر نے علمِ کیمیا کو اپنی اصلیت اور ارتقا کے اعتبار سے عربوں (مسلمانوں) کی ایجاد قرار دیا ہے‘‘۔
کتاب کے ۱۵؍ابواب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی اختراعات اور ایجادات میں اور علم سائنس کی مختلف شاخوں کی ابتدا اور اس کی ترقی میں شروع سے آج تک مسلمان سائنس دان نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور کو سائنسی تاریخ لکھنے والے نہ صرف نظرانداز کرتے رہے بلکہ اس دور کو تاریک دور (Dark Ages) قرار دیتے رہے۔ حالانکہ عراق اور اندلس کی یونی ورسٹیوں سے تعلیم پاکر نکلنے والے یورپ اور مغرب کے طلبہ ہی تھے جنھوں نے اس تعلیم کے زیراثر واپس جا کر یونی ورسٹیاں قائم کیں اور ان سائنسی علوم کو رواج دیا۔
کتاب کا ’مقدمہ‘ اور ’حرفِ آخر‘ پُرمغز ابواب ہیں۔مقدمے میں مذہب اور سائنس کی بنیادوں پر جامع گفتگو کی گئی ہے اور یہ کہ دونوں کس حد تک ایک دوسرے کے معاون ہیں اوردونوں سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ ’حرفِ آخر‘ میں مسلمانوں کے سائنسی میدان میں تنزل کی وجوہات بیان ہوئی ہیں اور اس میں نشاتِ ثانیہ کے لیے کیا منصوبہ بندی کی جانا چاہیے، اس کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ (پروفیسر شہزاد الحسن چشتی)
کامیاب لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ان میں جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے وقت کا بہترین استعمال۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ وقت کی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی ہے اور صلاحیتوں کے باوجود ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے ایک عرصے سے پاکستان میں اس موضوع پر مضامین اور کتابیں لکھی جارہی ہیں اور خاطرخواہ پذیرائی بھی پاتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع وقت کی تنظیم ہی ہے۔ مؤلف نے وقت کے اسلامی تصورات قرآن و سنت ، اقوال، حکایات، ضرب الامثال اور کہیں کہیں اشعار کی مدد سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے نجی معاملات سے لے کر زندگی کے بیش تر معاملات پر حاوی اس کتاب میں ہر کام کی منصوبہ بندی، بہتر طریقے سے کرنے کا طریقۂ کار اور لائحۂ عمل جائزہ فارم کے ساتھ دیا گیا ہے۔ آخر میں اللہ سے استعانت کے لیے مختلف دعائیں بھی ہیں۔
یہ وقت کی تنظیم کے لیے بلاشبہہ ایک مفید کتاب ہے ۔ کتاب کے نام میں ’چار میم‘ کے اضافے سے ایک طرف جدت پیدا کی گئی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو جو وقت کی قدروقیمت سے عموماً غفلت برتتے ہیں، اس کے بہتر استعمال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)
سرفراز سیّد بنیادی طور پر شعروادب کے آدمی ہیں، چنانچہ بطور شاعر (مشاعرہ پڑھنے) وہ آٹھ ممالک میں جاچکے ہیں مگر ان کی عملی زندگی کوچۂ صحافت میں گزری ہے۔ بطور صحافی گذشتہ ۴۵برس سے وہ روزناموں میں مختلف ذمہ داریاںادا کرتے رہے جس میں کالم نویسی بھی شامل ہے۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے نسبتاً قریبی زمانے کے اپنے کالموں کا ایک انتخاب پیش کیا ہے۔ اس میں ایسے کالم شامل ہیں جن کا تعلق زیادہ تر عدلیہ سے یا موجودہ سیاسی صورتِ حال کے نشیب و فرازسے ہے۔ اسی مناسبت سے چھے صاحبان کے انٹرویو بھی کتاب میں شامل ہیں۔
دیباچے میں انھوں نے سیاست دانوں کی ’بے عملیوں بلکہ بداعمالیوں‘ اور جمہوریت کے ساتھ فوجی جرنیلوں کے ’وحشت ناک سلوک‘ کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’سب سے زیادہ افسوس ناک کردار ہمارے بعض قانون دانوں، صحافیوں اور نام نہاد دانش وروں کا رہا ہے، جنھوں نے بھاری معاوضوں، پلاٹوں، اعلیٰ ملازمتوں اور بیرونی دوروں کے عوض اپنا علم اور ضمیر فروخت کر دیا۔ اس کے برعکس وہ عدلیہ کے مداح ہیں۔ اس لیے مشرف دور کے چھے جج صاحبان (جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس خواجہ شریف، جسٹس ثائرعلی، جسٹس میاں محمد محبوب، جسٹس اقبال حمیدالرحمن، جسٹس چودھری محمد عارف) کے انٹرویو کتاب میں شامل کیے ہیں۔ ان جج صاحبان کی گفتگوئوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنھوں نے جنرل مشرف کی دھونس اور لاقانونی اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے مالی طور پر بھی خاصا نقصان اُٹھایا مگر اُن کی استقامت کے نتیجے میں عدلیہ کا وقار بحال اور بلند ہوا۔ سرفراز سیّدنے عدلیہ کے موضوع پر براہِ راست کچھ کالم بھی لکھے ہیں۔ انھوں نے جسٹس کارنیلیس اور جسٹس کانسٹنٹ ٹائن کو بجاطور پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
’باتیںاسفندیارولی کی‘ کتاب کے مجموعی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔ ’بہادر آدمی‘ جو دھماکوں سے خوف زدہ ہوکر، اپنے صوبے سے بھاگ کر پریذیڈنٹ ہائوس اسلام آباد میں آچھپا، اس کے منہ سے ’حق گوئی؟‘ سبحان اللہ۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ۱۹۴۷ء کے تاریخی ریفرنڈم میں اس کے دادا باچاخان نے بھارت میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا اور پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔ اسفندیار کی باتیں کذب و نفاق کا آمیزہ ہیں۔
سرفراز سیّد کے کالموں کی اہم خوبی ان کا اختصار ہے۔ اسلوب سادہ اور انداز دوٹوک ہے۔ سیاست، قانون اور تاریخِ پاکستان کے بارے میں یہ کتاب معلومات کا ایک خزینہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اللہ کی بندگی اور تزکیہ و تربیت انبیا ؑ کی دعوت کا حصہ اور بنیادی فریضہ رہا ہے۔ اسلامی تحریک جو دعوت الی اللہ اور اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کی علَم بردار ہوتی ہے، اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ وہ لوگوں میں دین کا شعور عام کرے اور عمل کی ترغیب دے۔ اسی کے نتیجے میں اسلامی انقلاب دیرپا اور مستحکم بنیادوں پر برپا ہوسکتا ہے۔ امیرجماعت اسلامی محترم سراج الحق نے اجتماع عام (۲۱-۲۳ نومبر۲۰۱۴ئ) کے اختتام پر تحریک تکمیل پاکستان کا آغاز کرتے ہوئے شرکا سے دین کے بنیادی شعائر (نماز کی ادایگی، تلاوتِ قرآن، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب، توبہ و استغفار، والدین کی خدمت اور رزقِ حلال، دعوتی حوالے سے ایک کارکن کا ۱۰۰؍افراد کو حامی اور ووٹر بنانا) پر عمل کے لیے عہد لیا۔ مرتب کتاب نے اس عہد کی اہمیت کے پیش نظر انھی موضوعات پر مولانامودودی، خرم مراد، محمدیوسف اصلاحی، ڈاکٹر محمد علی ہاشمی، گل زادہ شیرپائو اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی مختلف تحریروں کو تجدید عہد کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔(امجد عباسی)
o معارف مجلۂ تحقیق (جولائی-دسمبر۲۰۱۴ئ)، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر: معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔صفحات: ۱۹۷+۷۱؍انگریزی صفحات۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[جدید مسائل پر تحقیق، افکار و نظریات کا علمی محاکمہ اور علوم و فنون کی اسلامی تشکیل وتعبیر کے فروغ کے لیے معارف مجلّۂ تحقیق ادارہ معارف اسلامی کراچی کے تحت شائع ہوتا ہے۔ موجودہ شمارے کے چند اہم مقالات:l سامراجیت وملوکیت پر اقبال کی تنقید: ایک تحقیقی مقالہ از شیراز زیدی l پاکستان میں صنعتوں کو قومیانے اور نج کاری کی پالیسی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں از سعدیہ گلزار، عاطفہ گلزار l مولانا مودودی، جاپان میں از معین الدین عقیل l رسولؐ اللہ کا نظامِ تربیت اور انسانی صلاحیتوں کا فروغ از محسنہ منیر lمزارعت کے بارے میں مولانا محمد طاسین کا نقطۂ نظر، ساجد جمیل۔انگریزی حصے میں چھے مقالات ہیں۔ نوجوان محققین کی رہنمائی بھی ادارے کا ہدف ہے، لہٰذا ’نئے محققین کے نام‘ سے اداریہ دیا گیا ہے۔ اہم موضوعات پر قلمی مذاکرہ کا سلسلہ بھی ہو تو مفید ہوگا۔]