حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو مسجدنبویؐ میں تشریف لے گئے اور دو رکعتیں پڑھیں۔آپؐ کو یہ طریقہ پسند تھا کہ سفر سے واپس آئیں تو مسجد جائیں اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، پھر اَزواجِ مطہراتؓ کے پاس چلے جاتے۔ چنانچہ ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو مسجد کے بعد حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے گھر کے دروازے پر آپؐ کا استقبال کیا، آپؐ کے چہرۂ انور کو بوسے دینے لگیں اور رونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس لیے رو رہی ہوں کہ مشقت اُٹھانے کے سبب آپؐ کی رنگت بدل گئی ہے اور آپؐ کے کپڑے بوسیدہ ہوچکے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہؓ! اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو ایسا دین دے کر بھیجا ہے کہ زمین پر کوئی مٹی کا گھر باقی رہے گا اور نہ خیمے مگر اللہ تعالیٰ اس میں عزت داخل کرے گا یا ذلت (ایمان والوں کے لیے عزت اور کافروں کے لیے ذلّت)۔ یہاں تک کہ یہ عزت اور ذلت وہاں وہاں پہنچ جائے جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں (اس لیے کامیابی ہمارے لیے ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کے لیے عزت ہے اور کفرکے لیے ذلّت ہے۔ جب نتیجہ بہتر ہے تو مشقت اور تکالیف کا احساس نہیں ہونا چاہیے)۔(کنزالعمال، طبرانی، حاکم)
اسلام کی دعوت دینے کے لیے پوری قوت صرف کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دن رات ایک کیا۔ دعوت بھی دی اور قتال بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا نے دین کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگادی۔ حضرت نوحؑ نے ۱۴۰۰ سال عمرپائی اور دن رات ایک کیا۔ سورئہ نوح میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کررہے ہیں کہ اے میرے رب! میں نے دن اور رات ان کو دعوت دی لیکن میری دعوت کے نتیجے میں یہ لوگ راہِ راست پر آنے کے بجاے مزید دُور ہوتے چلے گئے۔ جب میں انھیں دعوت دیتا یہ اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے اور کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور کفر پر اصرار کرتے اور انتہائی تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرتے۔ چنانچہ حضرت نوحؑ نے ان پر عذاب کے لیے دعا کی جس کے نتیجے میں روے زمین کو ان سے پاک و صاف کردیا گیا۔ اس طرح زمین اسلام کے لیے ہموار ہوگئی اور اسلام غالب ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کفر وجود میں آیا تو پھر انبیاعلیہم السلام کو مبعوث کیا گیا اور اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کا آخری مرحلہ وہ ہے جس کی پیش گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ اب یہ کام ہمیں کرنا ہے تاآنکہ یہ دین غالب ہوجائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کا دنیا اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کرلے۔
m
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو دیکھا کہ مہاجرین اور انصار صبح کے وقت سخت سردی میں خندق کی کھدائی کر رہے ہیں۔ انصار اور مہاجرین خود یہ کام کر رہے تھے، ان کے خادم نہ تھے جو ان کی جگہ یہ کام کرتے۔ جب آپؐ نے ان کی مشقت اور بھوک کی حالت کو دیکھا تو دُعا کی: اے اللہ! اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ انصار اور مہاجرین نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے۔ ہم اس بیعت اور عہد پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے کیسی غربت اور فاقہ کشی کے ساتھ محنت و مشقت اُٹھاتے ہوئے دین کو غالب کیا، اس کا ایک منظر غزوئہ خندق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین اور یہود کی متحدہ ۱۲ہزار فوج کا مقابلہ خندق کی کھدائی کے ذریعے کیا۔ مدینہ طیبہ کی جس جانب سے حملہ ہوسکتا تھا، اس طرف خندق کی کھدائی کرکے مدینہ میں داخلے کا راستہ روک دیا۔ چھے دن کے اندر ساڑھے تین میل لمبی خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے مل کر حصہ لیا۔
منافقین مختلف قسم کے بہانے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ اب ۱۲ہزار فوج مسلمانوں کو ختم کرکے رکھ دے گی۔ دوسری طرف یہود بنی قریظہ نے بھی عہدشکنی کر کے متحدہ محاذ کا ساتھ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بنوقریظہ کی سازش اور متحدہ محاذ کو ناکام و نامراد کر دیا۔ ۲۵دن متحدہ محاذ نے محاصرہ کیا تو اس کے بعد بے حوصلہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی بھی چلا دی جس نے ان کے کیمپ اور چولھوں پر چڑھی دیگیں اُلٹ دیں۔ بنوقریظہ ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے اور یوں یہ دونوں گروہ خائب و خاسر ہوگئے۔ مشرکین بھاگ گئے اور بنوقریظہ بدعہدی کے انجام سے دوچار ہوئے۔ بنوقریظہ کی گڑھیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کیا۔ انھوں نے کچھ دیر تو مزاحمت کی لیکن بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں اس شرط پر کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کریں۔ چنانچہ سعد بن معاذؓ نے فیصلہ دیا کہ ان کے جنگی مردوںکو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ یہ فیصلہ انھوں نے تورات کے مطابق کیا تھا۔ تورات میں آج بھی ’غدر عہد‘ کی یہی سزا لکھی ہوئی ہے۔ دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق قرار دے کر اس پر عمل درآمد فرمایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی کس مپرسی کی حالت کے موقعے پر انھیں یاد دلایا کہ اس مشقت کے عوض میں تمھیں جنت ملنے والی ہے اور وہی اصل زندگی ہے۔ رہی دنیاوی زندگی تو وہ فانی ہے اور اس دنیا میں جتنی بڑی نعمتیں مل جائیں وہ بالآخر زائل ہونے والی ہیں۔ اس لیے دنیوی عیش و عشرت کی طلب اور خواہش سے بے نیاز ہوکر اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
m
محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے روایت ہے کہ خالد بن سعید بن العاص قدیم الاسلام ہیں۔ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہیں۔ ان کے اسلام کا سبب ایک خواب ہوا جو انھوں نے دیکھا تھا کہ وہ جہنم کے کنارے پر کھڑے ہیں اور انھیں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے والد انھیں دوزخ میں دھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کمر سے پکڑ کر روک رہے ہیں اور دوزخ میں گرنے سے بچارہے ہیں۔ وہ نیندسے گھبرا کر بیدار ہوئے تو کہا: میں اللہ کی قسم اُٹھاتا ہوں کہ یہ برحق خواب ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ سے ملے اور اپنا خواب سنایا تو انھوں نے کہا: دیکھو رسولؐ اللہ تو ہمارے پاس ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ بھلائی کا فیصلہ فرمایا۔ رسولؐ اللہ کی اتباع کرو، رسولؐ اللہ کی اتباع کروگے تو اسلام میں داخل ہوکر آپؐ کے ساتھ چلو گے اور دوزخ سے بچ جائو گے۔ اسلام تجھے دوزخ سے بچالے گا اور تیرا والد دوزخ میں ہوگا۔
خالدؓ بن سعید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجیاد کے مقام پر ملے تو آپؐ سے پوچھا: آپؐ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میں تجھے اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف کہ محمدؐ اس کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں۔اور میں دعوت دیتا ہوں کہ ان معبودوں کو چھوڑ دو جن کی عبادت میں تم مشغول ہو۔ تم پتھروں کی عبادت کر رہے ہو جو نہ تو نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے، جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ انھیں خبر ہی نہیں کہ ان کی عبادت کرنے والے کون ہیں۔ توخالد نے کہا: میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ان سے یہ کلمۂ ایمان سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔ (بیہقی)
اسلام کا اصل فائدہ تو لوگوں کو دوزخ سے بچاناہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان کی کمروں سے پکڑپکڑ کربچایا۔اس کے لیے دوڑ دھوپ کی۔ توحید ورسالت کی طرف دعوت دی۔ مشرکین کو ان کے باطل عقائد کے بے بنیاد ہونے سے آگاہ کیا۔ یہی کام آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے کیا۔ اب بھی یہ کام اسی جذبے اور جوش و خروش سے کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی کام اور دعوت یہی ہے۔
m
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان اچانک حملے کی بیڑی ہے۔ مومن اچانک بے خبری میں حملہ نہیں کرتا (ابوداؤد)
ایمان کا تقاضا ہے کہ بے گناہوں پر حملہ نہ کیا جائے مومن جس سے برسرِپیکار نہیں ہوتا یا جن سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوتا ہے، ان پر بھی حملہ نہیں کرتا۔ جن سے معاہدہ ہوتا ہے جب تک معاہدے کو توڑ دینے کا اعلان نہیں کرتا، ان پر حملہ نہیں کرتا۔ اس طرح مومن سے دنیا بے خوف ہوتی ہے ۔ دنیا کومومن سے یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ وہ ان پر اچانک حملہ کر کے ان کی جان و مال کی حفاظت کو ختم کردے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: المومن من امنہ الناس علٰی دمائھم واموالھم، ’’مومن تو صرف وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اور مال کے معاملے میں بے خوف ہوں‘‘۔ اس وقت دنیا میں جو دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں وہ ایمانی تقاضوں کے منافی ہیں۔