قرآنِ پاک کی ہر آیت ہدایت کا منبع اور نور کا سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب حق اور صرف حق کا ایک نہ خشک ہونے والا سمندر ہے۔ یہ بھی اس قرآن کا معجزہ کے کہ اس کی ایک ایک آیت میں ایسے حقائق کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے جن کا مکمل احاطہ فکرِ انسانی کی پوری تاریخ اورقوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی صدیوں کی داستان بھی کماحقہ نہیں کرپائے۔ ایسی ہی ایک آیت میں فرد اورگروہ، معاشرہ اور قوم، اُمت اور انسانیت کے عروج و زوال، بنائو اور بگاڑ، ترقی اور تنزل، کامیابی اور ناکامی کے عمل (process) کی کنجی کو سنت ِالٰہی کے ایک بنیادی نکتے کی صورت میں پیش کردیا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کا ذکرکرتے ہوئے اسی اصول کو یوں بیان کیا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ لا وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (الانفال ۸:۵۳) یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔
دونوں آیات میں تبدیلی کا مدار ’انفس‘ کی تبدیلی کو قرار دیا گیا ہے جو فرد یا قوم کے اندرون کی پوری دنیا پر حاوی ہے۔ گویا انفس ہی وہ زمین ہے جہاں عروج و زوال کی تخم ریزی ہوتی ہے اور پھر یہی وہ بیج اور جڑ ہے جس سے تبدیلی اور انقلاب کا تناور درخت نشوونما پاتا ہے۔ تبدیلی محض بیرونی عوامل کا کرشمہ نہیں ہوتی، یہ اندر کے ایک گہرے اور ہمہ جہتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’انفس‘ سے مراد اندر کی دنیا کا ایک پورا عالم ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ’آفاق‘ سے باہر کی دنیا کا عالم مراد ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ (حم السجدہ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے نفس میں بھی‘‘___ انفس میں وہ تمام قوتیں شامل ہیں جن کا اثر کسی نہ کسی شکل میں انسانی عزائم، اعمال اور اس کی سعی و جہد پر پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انفس عبارت ہے تمام ذہنی اور نفسی، اخلاقی اور عملی قویٰ سے___ تبدیلی اور انقلاب کا آغاز دل و دماغ اور ذہن و اِدراک سے ایک اندرونی تبدیلی کی شکل میں ہوتا ہے جو ایمان و ایقان، افکار و احساسات، تصورات اور زندگی کے عزائم کی صورت میں فکروعمل کی صورت گری کرتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس سے عروج و ترقی کے سوتے ُپھوٹتے ہیں۔ فرد ہو یاقوم، وہ اپنے اخلاق اور اعمال ہی کے ذریعے بلندی یا پستی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے قرآن کے اس اصول کو بڑے سادہ اور دل نشین انداز میں یوں بیان کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اُمت مسلمہ کے حالات پر نظر ڈالیے یا پاکستان کے نصف صدی سے زائد کے شب وروز کا تجزیہ کیجیے، صاف نظر آتا ہے کہ بیرونی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور شرانگیزیوں کو اگر کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے تو وہ اسی اندرونی کمزوری کی وجہ سے۔ خرابی کی جڑ قلب و نظر کا فساد اور اندرون (انفس) کا بگاڑ ہے جس کی اصلاح کے بغیر صورتِ حال میں حقیقی تبدیلی کا امکان معدوم ہے۔ محض در و دیوار کی لیپاپوتی سے اُمت کی نشاتِ ثانیہ کا حصول ممکن نہیں۔ بلاشبہہ نظام کی اصلاح مطلوب بھی ہے اور ناگزیر بھی لیکن اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب اس کا نقطۂ آغاز اور محور و مرکز دلوں کی اصلاح، ایمان کی آبیاری اور انفرادی اور اجتماعی تقویٰ کا حصول اور اخلاق کی بہار ہو۔
مغربی تہذیب نے تبدیلی اور انقلاب کا جو فلسفہ پیش کیا ہے، اس کا سارا انحصار بیرون کی اصلاح اور معاشرے، ریاست اور معیشت کے نظام (structures) کی تبدیلی پر ہے، جب کہ اسلام جس انقلاب کا داعی ہے، وہ ’اندرون‘ کی اصلاح سے شروع ہوکر فرد اور معاشرہ دونوں کی مکمل قلب ِ ماہیت کردیتا ہے اور اس طرح پورے نظام کی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ اسلام اجتماعی زندگی کے بگاڑ کو اس سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہے جس کا اظہار مغرب کی فکرودانش میں کیا جاتا ہے لیکن اسلام کا دعویٰ اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اجتماعی بگاڑ کی اصلاح محض اجتماعی زندگی کے دَروبست کو تبدیل کرنے سے نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت میں برائی نت نئے رُوپ دھار کر طرح طرح کی نئی شکلوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے اور مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اجتماعی بگاڑ کی اصلاح کا راستہ بھی نفس کی اصلاح ہی کی وادی سے گزرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے نہ سمجھ پانے کی وجہ سے مغربی تہذیب کے علَم بردار اور محض سیکولر بنیادوں پر زندگی کی تعمیر نو کے داعی برابر تاریکیوں ہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور انسانیت کے مصائب اور آلام کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ عالم یہ ہے کہ:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
بیسویں صدی اپنے بہت سے مثبت اور منفی پہلوئوں کی وجہ سے یاد کی جائے گی لیکن عالمِ اسلام کے نقطۂ نظر سے دو پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپایدار ہوگا
اسلام کی اس دعوت کو تحریکِ اسلامی اس لیے کہا گیا کہ صدیوں کے جمود کو توڑ کراسلام کو پھر اسی طرح ایک دعوت اور پیغام کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جس طرح سرورِعالم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین اور صحابہ کرامؓ نے پیش کیا تھا۔ قول و فعل کی ہم آہنگی، اللہ کی رضا اور اس کے دین کے قیام کو ہر دوسری مصلحت پر غالب رکھنا اور فرد کے فکرونظر اور سیرت واخلاق سے لے کر معاشرے کے ہرہرپہلو کی اصلاح اس کا ہدف اور مزاج ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر دعوت ہے جس کا مقصدزندگی کے ہر شعبے میں اہلِ ایمان کی قیادت میں، شریعت کے مطابق اسلام کے نظامِ عدل و صلاح کا قیام ہے۔ اس تحریک نے دین و دنیا کی تفریق اور مذہب و سیاست کی دوئی کے جاہلانہ تصورات کو چیلنج کیا اور شریعت کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کی۔ لیکن نظام کی تبدیلی کی یہ جدوجہد مغربی ماڈل پر نہیں بلکہ خالص اسلامی منہج پر ہے جس کی جڑیں ایمان، عملِ صالح،انفرادی اور اجتماعی تقویٰ اور دعوت الی الخیر میں پیوست ہیں۔ قانون اور نظام کی اصلاح، اس ہمہ گیر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہے، اور یہ اس لیے کہ اجتماعی زندگی کی اصلاح کے بغیر انقلاب کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن نظام کی تبدیلی ایک وسیع تر تبدیلی کا حصہ ہے، اس سے ہٹ کر اس کا کوئی وجود نہیں۔
اجتماعی زندگی کی اصلاح اور اسلامی حکومت کے قیام پر زور دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال اسلامی تاریخ کا وہ منفرد دور ہے جب اسلام اور ملت اسلامیہ قوت و اقتدار سے محروم ہوگئی اور اس کی گرفت رفتارِ زمانہ پر ڈھیلی پڑگئی۔ جو اُمت گیارہ بارہ سو سال تک ایک عالمی طاقت رہی وہ عملاً مغلوب اور محکوم ہوگئی۔ بالآخر ۱۹۲۴ء میں خلافت ِ عثمانیہ کی تحلیل سے وہ عالمی سیاسی اُفق پر سے معدوم کردی گئی۔ فطری طور پر جو چیز چھین لی گئی ہو اس کی بازیافت کو نئی جدوجہد میں ایک مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی اور ملّی زندگی میں جہاں خلا واقع ہوگیا تھا اسے بھرنے کی ضرورت کو نمایاں کرنا اور اُبھارنا وقت کی ضرورت تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات کے پروگرام میں اُمت کی سیاسی آزادی اور متوازنِ قوت کی اسلامی تسخیر کو اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن اسلامی تحریکات کا یہ پروگرام ایک وسیع تر پروگرام کا حصہ ہے جو فرد کی اصلاح، معاشرے کی تعمیرنو، خیر کی قوتوں کی نظم بندی، نئی صالح قیادت اور اسلامی بنیادوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی تعمیر سے عبارت ہے۔ یہ محض ’سیاسی اسلام‘ کا کوئی رُوپ نہیں، اسلام کی اصل دعوت کو دورِحاضر کے تناظر میں کسی سمجھوتے اور کسی مداہنت کے بغیر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ان تحریکات کے امتیازی کردار کو سمجھے بغیر ان پر فتویٰ زنی حق و انصاف سے رُوگردانی اور دورِحاضر میں دعوت و تربیت کی مساعی اور ان کے تقاضوں کو سمجھنے میں ناکامی ہے۔
جس طرح ڈاکٹر یا حکیم مریض کو وہی دوا دیتا ہے جو مرض کا مداوا کرسکے اور وہی مقوّیات تجویز کرتا ہے جن کی کمی ہو، اسی طرح تحریکاتِ اسلامی نے بھی ان پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے جو نظروں سے اوجھل یا معدوم ہوگئے تھے۔
ہمارے پیش نظر پوری انسانی زندگی کی حقیقی اصلاح و فلاح ہے۔ ہم نہ محدود معنوں میں مذہبی جماعت ہیں، جس کی دل چسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی و اخلاقی مسائل سے متعلق ہوں اور اجتماعی زندگی کے بنائو اور بگاڑ پر اثرانداز ہونے کی عملی کوشش کرنا، جس کے دائرۂ فرض سے خارج ہو۔ اور نہ ان معنوں میں سیاسی جماعت ہی ہیں جس کی سرگرمیوں کا ہدف ہر حال میں اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی ہو۔ ہم پورے کے پورے دینِ حق کے علَم بردار ہیں جو دعوت و تربیت کے عمل سے گزر کر ایک مکمل نظامِ عدل کی شکل میں عملاً نفاذ بھی چاہتا ہے۔ ہم جس پیغامِ ہدایت و فلاح کے امین ہیں وہ اشخاص اور گروہوں کی دوستی اور دشمنی سے بالاتر ہے۔ ہم کسی فرد، گروہ یا طبقے کے مخالف نہ کبھی پہلے تھے نہ آج ہیں۔ فی الحقیقت ہم اپنی پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کے بہی خواہ ہیں، حتیٰ کہ وہ تمام عناصر جو ہمارے مشن کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمیں خواہ مخواہ اپنا دشمن تصور کربیٹھے ہیں، ہم ان کے لیے بھی اپنے ذہن کے کسی گوشے میں خیرخواہی کے سواکوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ ہم الدین النصیحۃ (دین خیرخواہی ہے)کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔
جس طرح ہماری دعوت ایک اصولی انقلاب کی دعوت ہے، اسی طرح ہماری کش مکش بھی ایک اصولی کش مکش ہے۔ دعوت و کش مکش کے اس سار ے کام سے ہمارا اصل مطلوب خدا پرست، خدا کی رضا ہی کے طالب اور بے لوث انسانوں کو تیار کرنا، ان کو منظم کرنا اور تربیت دے کر احیاے اسلام کے کام میں لگانا ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے قطع نظر کرکے بے لوثی کے ساتھ تعمیرملت اور اصلاح اُمت کا عظیم فریضہ سرانجام دے سکیں۔ اور جن کے ذریعے ایک طرف ہم عوام کی صحیح ذہنی اور اخلاقی نشوونما کا کام کرسکیں اور دوسری طرف سیاسی نظام اور معاشی ادارات کو اسلامی تصورات کے ڈھانچے میں ڈھال سکیں۔ ہر کارکن کو اور بالخصوص ہرسطح کے ذمہ دار کو ان بنیادی حقیقتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
سب سے پہلے ذہنوں میں اس بات کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دعوت کیا ہے جس کی طرف جماعت اسلامی پاکستان اپنے اہلِ وطن اور پوری اُمت مسلمہ کو، اور بالآخر پوری انسانیت کو بلاتی ہے؟ اس کی دعوت نہ کسی شخصیت کی طرف ہے اور نہ کسی مخصوص مسلک کی طرف۔ اس کی دعوت صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کے رسولؐ کی پیروی کی دعوت ہے۔ یہ اسی راستے کی دعوت ہے جس کی طرف تمام انبیاے کرام نے انسانیت کو بلایا اور جس کا آخری نمونہ اسوئہ محمدیؐ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ دنیا کی زندگی کو آخرت کی کامیابی کے تابع کرنے کی دعوت ہے۔ یہ دین کے کسی جز یا اخلاق کے ایک یا چند پہلوئوں کی نہیں، پورے دین اور پوری زندگی کو صبغۃ اللّٰہ (اللہ کے رنگ) میں رنگ دینے کی دعوت ہے۔ یہ مسجد اور میدانِ کارزار، خانقاہ اور جہاد، مدرسہ اور کاروبارِ حیات، ذکروفکر اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک لڑی میں پرونے اور ایک مربوط جہادِ زندگانی کے ناقابلِ تقسیم اجزا بنانے کی دعوت ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے اپنے اور پرائے دونوں ہی غتربود کردیتے ہیں اور تحریکی ترجیحات کو اپنے اپنے ذاتی ذوق کے مطابق نہ پاکر نکتہ سنجی فرمانے لگتے ہیں۔ ’سیاسی اسلام‘، ’راہِ تقویٰ سے انحراف‘ اور ’مسلک سلف سے فرار‘ کے طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ ان تمام کرم فرمائیوں پر دعوتِ اسلامی کے علَم برداروں کا ردعمل مخاصمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری خود احتسابی کے ساتھ اپنی دعوت اور اس کے ہمہ پہلوئوں کی مخلصانہ پابندی اور وفاداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ صحیح مثالیہ (model) سامنے آسکے اور زبانِ حال سے غلط اندیشیوں کی تردید ہوسکے۔
اس دعوت کا خلاصہ جماعت اسلامی کے مؤسس نے دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں یوں بیان کیا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کو ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اورفساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنینِ صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔
اس دعوت کو جماعت اسلامی کے دستور میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے، اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے، پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے یا تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیرممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
فرد اور معاشرے کی اصلاح اور بالآخر انقلاب قیادت اور اسلامی نظام عدل و مساوات کے قیام کا یہ کام بہ یک وقت دو جہتوں سے مساعی کا متقاضی ہے۔ اپنی اصلاح، ایک دوسرے کی اصلاح، اور نظامِ زندگی اور قوت و اقتدار کی اصلاح___ ایک ہی کوشش اور جدوجہد کے مختلف رُخ اور پہلو ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت اور تکمیل کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ الگ الگ دنیا نہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کو یہ دعوت دی جائے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے، اس سے کیے ہوئے عہد (کلمہ طیبہ) کے تقاضوں کو جاننے اور پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اپنی، اپنے خاندان، اہلِ و عیال اور اہلِ محلہ کی اصلاح کی کوشش کرے، اللہ کے تمام بندوںتک پہنچے اور انھیں بندگی کی دعوت دے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اجتماعی زندگی کے نظام اور محرکات کو اسلامی زندگی کے قیام اور فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام اجتماعی قوتوں، اور خصوصیت سے ریاست کے وسائل کو، ایمان کی آبیاری، صالحیت کے فروغ، نواہی کے خاتمے اور معروف کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، ایک طرف ’خود اپنے کو بدلو‘ کی کوشش ہوتو دوسری طرف اجتماعی ماحول اور ریاست کے وسائل، اوامر کے نفاذ اور بدی، ظلم اور طغیان کے استیصال کے لیے استعمال ہوں، تاکہ خداکی زمین پر خدا کی مرضی پوری ہوسکے اور اس کا قانون جاری و ساری ہوسکے۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے کے معاون اور تکمیل کرنے والے ہیں۔ ان میں ’یہ یا وہ‘ (either / or) کا تعلق نہیں بلکہ یہ دو جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے:
اسلام اور حکومت و ریاست دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس کا کوئی نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاسکتا ہے۔(کنز العمال)
آج کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اسلام کی یہ عمارت اپنے ارکان کی بنیاد پر معاشرے میں مستحکم ہو اور حکومت وریاست اس کی نگہبانی کی ذمہ داری مؤثرانداز میں ادا کرے۔
اصلاحِ فرد و معاشرہ اور اصلاحِ حکومت اور انقلابِ قیادت ایک ہی جدوجہد کے دو پہلو اور محاذ ہیں اور ہرمحاذ اپنی جگہ اہم اور دوسرے محاذ کو تقویت دینے والا ہے۔ دعوت و تربیت کا ہدف یہ دونوں محاذ ہیں۔ کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عوامی اصلاح اور تربیت، جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا اتنا ہی اہم پہلو ہے جتنا انقلابِ قیادت اور اسلامی حکومت کا قیام۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۵۱ء میں لائحہ عمل کے جو چار نکات پیش کیے اور پھر ۱۹۵۷ء میں جن کو جماعت کی پالیسی کا مرکز و محور قرار دیا گیا تھا، انھیں آج تک جماعت کی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مولانا مرحوم کے الفاظ میں اس کام کے بڑے بڑے شعبے اور پہلو یہ ہیں جن کی تذکیر، دعوت و تربیت کے حوالے سے ضروری معلوم ہوتی ہے تاکہ ہدف اور وژن میں کوئی ابہام نہ رہے۔
۱- عوام الناس کو اطاعت ِ خدا و رسولؐ کی طرف بلانا، ان میں آخرت کی بازپُرس کا احساس بیدار کرنا، ان کو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا، اور انھیں اسلام کی حقیقت سمجھانا۔
۲- عام لوگوں کو ان ضروری احکامِ دینی سے باخبر کرنا جن کا جاننامسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
۳- مساجد کی حالت درست کرنا اور ان کے لیے مسلم معاشرے میں مرکزی اہمیت پیدا کرنا۔
۴- مذہبی جھگڑوں کوروکنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا۔
ان اغراض کے لیے ہم صرف اخلاقی تلقین ہی پر اکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ معاشرے کے شریف عناصر کو ان بُرائیوں کے مقابلے میں منظم کر کے ان کے خلاف عملی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں۔
۱- تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُـرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں، محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔
۲- سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو، ان کی مدد کرنا۔
۳- بستیوں کے لوگوں میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا تاکہ خود ہی مل جل کر اپنی بستیوں کی صفائی اور راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کرلیا کریں۔
۱- بستیوں اور محلوں میں دارالمطالعے کھولنا۔
۲- تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کرنا۔
۳- جہاں جہاں بستیوں کے لوگ مالی ذرائع فراہم کرنے پر تیار ہوں وہاں ایسے پرائمری اسکول قائم کرناجن میں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہو۔
جماعت اسلامی کے سامنے ایک مکمل اسلامی معاشرے اور ریاست کا قیام ہے اور اس کے کارکن اس جدوجہد کو وقت کا اہم ترین چیلنج سمجھتے ہیں۔ وہ دلوں کی نگری کو ایمان اور احتساب سے منور کر کے پورے معاشرے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے منور کرنا چاہتے ہیں اور ساری جدوجہد اللہ کے بھروسے پر اس یقین کے ساتھ انجام دے رہے ہیں کہ ع
جان چو دیگر شد ، جہاں دیگر شود
( انسان کی جان (سوچ، نقطۂ نظر) صحیح سمت میں بدل جائے تو اس کے لیے یہ جہاں بھی بدل جاتا ہے)۔
ہماری دعوت کا مرکزی نکتہ قرآن کی طرف دعوت اور قرآن کے ذریعے زندگی اور نظامِ زندگی کو بدلنے کا عزم اور سعی ہے۔ الحمدللہ اس وقت بھی مطالعہ قرآن کے ہزاروں حلقے مردوں اور خواتین میں قائم ہیں۔ ہدف یہ ہے کہ پورے ملک میں مردوں اور عورتوں کے لیے بہت بڑی تعداد میں قرآن سرکل قائم کیے جائیں۔ جگہ کی قید نہیں، گھر کی بیٹھک ہو، مسجد کا دالان ہو، مدرسے کا حجرہ ہو، کالج کی کلاس ہو، درخت کی چھائوں ہو یا کمیونٹی ہال کی آسایش__ اسے قرآن کے اجتماعی مطالعے کا گہوارا بنادیا جائے۔ چھوٹا اجتماع ہو یا بڑا مجمع__ ہرمسلمان مرد اور عورت اوربچے اور جوان کو آمادہ کیا جائے کہ قرآن سے اپنا رشتہ جوڑے، اس کے معنی و مفہوم کو سمجھے اور اسے اپنے لیے کتاب ِ ہدایت بنالے۔ لمبی چوڑی علمی بحثوں اور تفسیری محفلوں کا اپنا مقام ہے اور ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس پروگرام کا اصل مقصدہرمسلمان کو، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ، قرآنِ پاک کو پڑھنے اور اس کے ترجمے اور مفہوم سے واقفیت پیدا کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی یہی کتاب ہے۔ جب بھی مسلمانوں نے اس کا دامن تھاما اور اس کے پیغام کو لے کر اُٹھے وہ بلندیوں اور کامیابیوں سے شادکام ہوئے، اور جب بھی وہ اس سے غافل ہوئے وہ پستیوں اور ذلتوں کی طرف لڑھک گئے۔ سب سے سچے انسان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللّٰہ یرفع بھذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین (مسلم) ’’بے شک اللہ اس کتاب (قرآن پاک) کی بدولت بہت سی قوموں کو بامِ عروج پر پہنچائے گا اور اس (کو ترک کرنے) کے باعث دوسروں کو رُسوا کردے گا‘‘۔ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے خاص انداز میں بیان کیا ہے ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
(اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ زندگی قرآنِ پاک کے بغیر ممکن نہیں)۔
اور ؎
ازیک آئینی مسلماں زندہ است
پیکرِ ملّت ز قرآں زندہ است
(مسلمان وحدت آئین ہی سے زندہ ہے، اور وہ آئین قرآن ہے)۔
اس کتاب پر ثبات نے دورِ اوّل میں مسلمانوں کو اوجِ ثریا سے ہم کنار کیا تھا اور یہی آج بھی ان کی قسمت بدل سکتی ہے اور انھیں ذلت اور پستی سے نکال کر امامت اور قیادت کے اعلیٰ مقامات پر متمکن کرسکتی ہے۔ سچ کہا امام مالکؒ نے: لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ الامۃ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اوَّلَھَا، اس اُمت کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی مگر اس طریقے کے اختیار کرنے سے جس سے اس کے اوَلیں دور میں ترقی اور اصلاح پائی__ اور وہ ہے قرآن!
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری دعوت میں مرکزیت صرف قرآن کی تعلیم کو حاصل ہے۔ قرآن کو باترجمہ پڑھنا اور اس کے پیغام کو سمجھنا اور سمجھانا، نیز اس کام کو انجام دینے کے لیے ہرضلع میں ایسے افراد کو تیار کرنا جو صحت کے ساتھ قرآن پڑھ سکیں، دوسروں کو پڑھاسکیں اور اس کا مطلب سمجھا سکیں۔ دعوت و تربیت کے اس پروگرام کا مقصد قرآن سے اس رشتے کو مضبوط کرنا اور اس کے ذریعے قوم کو روشنی کی راہ دکھانا اور اپنی کھوئی ہوئی منزل کی طرف گامزن کرنا ہے۔
گھر کی اصلاح اور خاندان کے یونٹ کو اقامت دین کی جدوجہد کا بنیادی مرکز بنا دینا ہماری اس دعوت کا دوسرا ہدف ہے۔ خاندان کی بنیاد محض ایک رسمی رشتہ نہیں۔ یہ تہذیب کا گہوارا اور اسلامی سیرت و کردار کی تعمیرکے لیے سب سے اوّلیں اور کارفرما ادارہ ہے۔ شریعت میں ایمانیات اور عبادات کے بعد سب سے زیادہ ہدایت جس ادارے کے بارے میں ہے وہ خاندان ہی کا ادارہ ہے۔ خود حضورپاکؐ کو دعوت کے باب میں ہدایت فرمائی گئی کہ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۱۴) ’’(پس اے نبیؐ) اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈرائو‘‘ ___ تمام مسلمانوں سے فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کو جنت کی بشارت دی جو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اور جو امانت ان کو سونپی گئی ہے اس کا حق پورا پورا ادا کردیں۔
آج خاندان کا نظام اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہے۔ اپنوں کی جہالت اور غفلت اور بیرونی دشمنوں کی ہمہ گیر یلغار دونوں کے باعث دین و تہذیب کا یہ حصار تباہی کی زد میں ہے۔ اس قلعے کی حفاظت اور اسے ایک بار پھر اسلامی قوت کا منبع بنانا ہماری اولیں ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمان خواتین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن وہ اپنا کردار اسی وقت ادا کرسکتی ہیں جب ہم ان کے حقوق پورے ادا کریں اور انھیں عضو معطل بناکر نہ رکھیں بلکہ ان کو وہی مقام دیں اور مواقع فراہم کریں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو مطلوب ہے۔ قرآن حق و باطل کی کش مکش کے سلسلے میں مردوں اور عورتوں کو ایک ہی زبان میں خطاب کرتا ہے اور ایک ہی ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف بلاتا ہے، لیکن ہم قرآن کی اس پکار کو غفلت سے نظرانداز کردیتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے دعوت و تربیت کے پروگراموں میں گھر کی اصلاح، اہلِ خاندان اور قرابت میں دعوتی کام اور مردوں اور خواتین کا دعوت الی الخیر، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داریوں کو اپنے اپنے دائروں، صلاحیتوں اور امکانات کے مطابق انجام دینے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
اس پروگرام کا ایک اور بڑا اہم حصہ بامقصد اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم کا فروغ ہے۔ موجودہ تعلیمی صورتِ حال میں ضروری ہوگیا ہے کہ اہلِ خیر اچھی اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم کی فراہمی کا انتظام نجی شعبے میں کریں اور ایک ایسی ملک گیر تعلیمی تحریک برپا کریں کہ ایک متبادل صحت مند نظام وجود میں آجائے۔ سرکاری سطح پر اصلاح کے امکانات کم سے کم ہونے کے بعد اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک و ملّت کے بہی خواہ اُوپر سے تبدیلی کا انتظار کیے بغیر اپنی نسل کو آگ کی لپیٹ سے بچانے اور اپنے دین و ثقافت کی حفاظت کے لیے جس طرح بیرونی استعمار کے دور میں اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے خود کوشاں ہوئے تھے،اسی طرح اندرونی استعمار سے ٹکر لینے کے لیے خود ہی اپنے بچوں کی بہترتعلیم کا بندوبست کریں۔ جماعت اسلامی نے ’اسلامی نظامت تعلیم‘ قائم کی ہے اور صوبائی اور مقامی سطح پر وقف کی بنیاد پر، یا خود کفالت کے نظام کے تحت ملک بھر میں اچھے تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دینا چاہتی ہے۔ الحمدللہ، پچھلے چند برسوں کی کوشش سے کئی ہزار پرائمری اور سیکنڈری اسکول اس منصوبے کے تحت قائم ہوئے ہیں۔ اس سال ان میں خاطرخواہ اضافے کی کوشش کی جائے گی اور جن شہروں یا دیہات میں ابھی ایسے ادارے قائم نہیں ہوسکے ہیں وہاں مقامی آبادی اور اہلِ خیر کے تعاون سے جلد از جلد ان کے قیام کا اہتمام کیا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح مغرب کے زیراثر تعلیمی تحریک نے بقول اقبال، تعلیم کے ’تیزاب‘ میں مسلمان قوم کی خودی کو ڈال کر اپنے مفید مطلب انداز میں بگاڑنے کی کوشش کی، یہ اصلاحی تحریک اس قوم کی نئی نسلوں کو پھر اسلام کا سپاہی اور پاسبان بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی اور ان شاء اللہ ’دل بدل جائیںگے تعلیم بدل جانے سے‘۔
حکومت کی تعلیمی پالیسی پر تنقید، اس کی ناکامیوں کا احتساب اور صحیح نظام تعلیم کا مطالبہ اسی طرح جاری رہے گا لیکن اپنی مدد آپ کے تحت ایک متبادل نظام بھی قائم کرنا ضروری ہے۔
معاشرے سے ظلم و طغیان، فتنہ و فساد اور فحاشی اور عریانی کا خاتمہ، اور مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنے اور ظلم کے خلاف فضا بنانے کی کوشش بھی ہماری دعوت کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں میں اپنے حقوق کا احساس پیدا کرنا اور حق کے لیے کھڑے ہونے کا داعیہ اور حوصلہ پیدا کرنا بھی تحریکِ اسلامی کے اہداف میں سے ہے۔ دعوتی اور تربیتی پروگرام میں معاشرے کی اصلاح کے ان پہلوئوں کو نمایاں کرنا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے مردانِ کارتیار کرنا ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ سیاسی بیداری اور ہرسطح پر نئی اور صاف ستھری قیادت اُبھارنا بھی اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔ ممبرسازی، رابطہ کمیٹیوں کا قیام اور مجالسِ مشاورت کی تشکیل کا مقصد یہی ہے۔ یہ تمام کام اس لیے انجام دیا جا رہا ہے کہ ایک خادمِ دین اور خادمِ عوام قیادت اُبھر سکے اور بالآخر ملک کی زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آسکے جو شر اور فساد، رشوت اور غبن، حقوق کی پامالی اور ظلم و استحصال کا خاتمہ کرسکیں اور معاشرے میں خیر اور فلاح کو عام کرسکیں۔
یہ وہ تحریک ہے جو دعوت و تربیت کے ذریعے معاشرے کی اصلاح، اور نئے مردانِ کار کی تیاری کرے گی تاکہ اجتماعی جدوجہد کے ذریعے نئی قیادت بروے کار آئے اور اجتماعی نظام بشمول نظامِ حکومت تبدیل ہو۔ اگر اس کا نقطۂ آغاز اپنی اصلاح ہے تو نظام کی اصلاح اور زمانے کی رو کی تبدیلی اس کا متوقع ہدف ہے۔ اور یہ سارا کام کسی دُنیوی منفعت کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا، اللہ کے بندوں کی خدمت او ر آخرت کی کامیابی کے لیے انجام دیا جاناچاہیے۔ اگر یہ سارا کام اور ساری تگ ودو صرف اللہ کے بھروسے پر انجام دی جائے تو ان شاء اللہ لازماً ثمرآور ہوگی۔
ہم نے جماعت اسلامی کی دعوت کے چند پہلوئوں پر گفتگو کی ہے۔ ہرمنصوبہ محض کاغذ کا ایک پُرزہ ہے، اگر اس پر عمل نہ ہو اور اس کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تن، من، دھن کی بازی نہ لگا دی جائے۔ ہماری دعوت اور ہمارے منصوبے کی کامیابی کا انحصا ر اللہ تعالیٰ کی استعانت کے بعد کارکنوں کے جذبے، محنت اور قربانی پر ہے۔ یہ جہاں ایک طرف ’اپنی اصلاح آپ‘ کا نسخہ ہے، وہیں دوسروں کی اصلاح اور خدمت اور معاشرے کی تعمیروتشکیل نو کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے پہلی ضرورت اللہ پر بھروسا، اس کے دامن کو تھامنا، اس سے اپنا رشتہ مضبوط اور گہرا کرنا، اس کی رضا کی طلب اور اس کی محبت کی خواہش ہے۔ جتنا یہ جذبہ مضبوط اور صائب ہوگا اتنا ہی راستہ آسان ہوجائے گا۔
اس کے لیے دوسری ضرورت خود اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ اگر شمع خود روشن نہ ہوتو دوسروں کو روشنی کیسے پہنچائے گی۔ اگر برف میں برودت اور آگ میں حرارت نہ ہو تو دوسروں کو ٹھنڈک یا گرمی کیسے پہنچا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کا نبیؐ جو داعیِ اوّل ہوتا ہے وہ سب سے پہلے ایمان لانے والا اور سب سے پہلے اطاعت کرنے والا ہوتا ہے (انا اول المومنین وانا اول المسلمین)۔ کارکن اور قیادت، ہر سطح پر، ہم میں سے ہر ایک کو، سب سے پہلے خود اپنی فکر کرنی چاہیے اور اس جذبے سے کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خود بھی دین پر قائم رہنے اور اس راہ پر ترقی کرنے کی توفیق بخشے اور اس لائق بنائے کہ ہم شہادتِ حق کا فریضہ کماحقہٗ ادا کرسکیں۔
اس کے لیے اخلاص کے ساتھ ساتھ علم، قول و فعل کی یک رنگی، حُسنِ اخلاق، جذبۂ خدمت، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی پاس داری، صبر اور تحمل، مسلسل جدوجہد، کوشش اور قربانی کے جذبے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے کی ایک اوربڑی اہم ضرورت اپنے دائرے سے نکل کر دوسروں تک پہنچنا، عوام میں اُٹھنا بیٹھنا، ان سے محبت اور ہمدردی کا معاملہ کرنا، ان کے دُکھ درد میں شریک ہونا اور ان کے دلوں کو موہ لینا ہے۔ یہ کام خود رائی، خودپسندی اور احساسِ برتری کے ساتھ انجام نہیں پاسکتا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ مبارک میں جہاں ہمیں خوش اخلاقی کا اعلیٰ ترین نمونہ نظر آتا ہے (وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo القلم ۶۸:۴)، وہیں آپؐ کے تمام معاملات، رہن سہن اور میل جول میں بلا کا انکسار اور عام انسانوں جیسی سادگی او رملنساری پائی جاتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کی گواہی ہے: آپؐ فرماتے تھے: اِجْلِسْ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ ،میںاسی طرح اُٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا ایک عام بندہ اُٹھتا بیٹھتا ہے۔ جب آپؐ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا والی بناکر بھیجا تو نصیحت فرمائی: اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ،لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا۔
آپؐ کے شوقِ دعوت اور دوسروں کی فکرگیری کی حالت یہ تھی کہ خود اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں آپؐ کو متوجہ فرماتا ہے کہ اے نبیؐ! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَ لَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o الشعراء ۲۶:۳)۔ آپؐ کی لگن اور فکرمندی کا یہ حال تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گر رہے ہیں اور میں ان کی کمر پکڑپکڑ کر ان کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں۔ آپؐ کی استقامت کی یہ کیفیت تھی کہ آزمایش کے سخت ترین مرحلے پر بھی برملا فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دو تو پھر بھی میں بندگیِ رب کی دعوت سے قطعاً باز نہیں آئوں گا۔ میں اس راہ میں اپنی جان تو دے سکتا ہوں، پسپائی اختیار نہیں کرسکتا۔ احساسِ ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ جب تھکے ہارے بخار کے عالم میں دارارقم میں آرام کے چند لمحات کے دوران آپؐ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ایک قافلہ مکہ کے باہر آیا ہے تو دعوت پہنچانے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں اور اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں آپؐ تھکے ہوئے ہیں، طبیعت بھی ناساز ہے، اس وقت آرام فرمالیں تو آپؐ کا ارشاد یہی ہوتا ہے کہ کیا خبر کل تک وہ قافلہ رخصت ہوجائے اور کیا پتا کل تک میرا ہی بلاوا آجائے۔ آرام اور استراحت ترک کردیتے ہیں اور دعوت پہنچانے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں__ صلی اللہ علیہ وسلم!
دعوت، تربیت اور اقامت دین کا کام انجام دینے کے لیے اس عزم، اس ہمت، اس ولولے، اس احساسِ ذمہ داری اور اس مجاہدے کی ضرورت ہے ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے
بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ صرف میرکارواں ہی کے لیے نہیں، ہر کارکن اور اس منزل کے ہر راہ رو کے لیے یہی رخت ِ سفر ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ ۔ اَللّٰھُمَّ اَنْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَلَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ -
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ
اے اللہ! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مدد اور اسے قائم کرنے کی سعی کریں، تو ان کی مدد فرما اور ہمیں ان میں سے کردے۔
اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو رُسوا کرے، تو ان کو رُسوا کردے اور ہم کو ان کے ساتھ نہ کرنا۔
اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما ،اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔ آمین!
تبدیلی فون نمبر
عالمی ترجمان القرآن ادارتی دفتر، منصورہ کا فون نمبر تبدیل ہوگیا ہے۔
نیا فون نمبر: 042-35252356