اپریل ۲۰۱۵

فہرست مضامین

حکمت و دانائی کا راستہ

ڈاکٹر عائشہ یوسف | اپریل ۲۰۱۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹)اور جس کو حکمت ملی،اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔

عربی زبان میں لفظ حکمت کا مادہ ،تین حروف ’ح ،ک اور م‘ ہیں۔اس مادے سے مختلف الفاظ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تویہی لفظ حکمت ہے، جسے عام فہم زبان میں دانائی اور فراست کہا جاتا ہے اور جس کے حامل کو حکیم(جمع حکما )کہتے ہیں۔ دوسرا  لفظ حُکم ہے ،جس کے معنی فیصلہ کرنا   (اور حکم دینا)ہیں ،اور فیصلہ کرنے والے کو حَکَم کہتے ہیں۔اس فیصلے میں بھی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس مادے سے تیسرا لفظ حکومت ہے ،جس کاحامل حاکم(جمع حکام)ہوتا ہے۔اس حاکم کے لیے بھی دانائی اور فیصلہ کرنا ناگزیر ہیں۔

حکمت: لغوی و اصطلاحی معنی

  • حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوت فیصلہ ہے ۔(تفہیم القرآن)
  • کسی عمل یا قول کو اس کے تمام اوصاف کے ساتھ مکمل کرنا ۔(تفسیر بحر محیط)
  •  بہترین چیز کوبہترین علم کے ذریعے سے جاننا ۔(لسان العرب)
  • حکمت علم ہے ، حکیم  عالم اور کاموں کو خوبیوں سے کرنے والا ہے۔(صحاح اللغۃ)
  • علم اور عقل کے ذریعے صحیح بات تک پہنچنا۔(مفردات القرآن)
  • ہر وہ بات جو تجھے سمجھائے یا تنبیہہ کرے،یا کسی اچھی خصلت کی طرف بلائے، یا کسی بُری چیز سے روکے،وہ حکمت اور حکم ہے۔(جمھرۃ اللغۃ)

اس کے علاوہ لغات میں یہ الفاظ بھی دیے گئے ہیں:علم،فلسفہ اور کلام، استدلال،بردباری اور حوصلہ،عدل و انصاف،علاج۔

علم اور حکمت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ علم جاننا ہے ،اور حکمت علم سے آگے کا مرحلہ ہے۔علم کا استعمال صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، لیکن حکمت علم کو صحیح استعمال کرنے کا نام ہے۔

حکمت کے اجزا

حکمت کے لغوی اور اصطلاحی معنی دیکھتے ہوئے اور اس لفظ کے متعلق تفصیلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمت ایک جامع صفت ہے،جو کئی صفات کا مجموعہ ہے ۔ ان صفات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

۱-صحیح سمجھ اور فھم:معاملہ فہمی، مردم شناسی،  واقعات کو سمجھنا، صورتِ حال کو سمجھنا، مسلّمہ امور؍اصول میں پوشیدہ حکمت کو سمجھنا۔

۲- درست فھم کے لوازمات:کثرتِ علم، مشاہدہ، نتیجہ اخذ کرنا۔ مشاہدات اور تجربات سے استنباط۔ قوتِ حافظہ،غور و فکر، تدبر، تفقہ، تحمل،برداشت اوربردباری۔ اپنے جذبات پر قابو، وسعتِ قلب و نظر اور اپنے علم کا اطلاق کرنا۔

۳- صحیح فھم کے اجزا:  باریک بینی (معاملے کی گہرائی پر نظر)، بصیرت (معاملے کے پوشیدہ پہلوئوں تک پہنچ جانا)، اندرونِ معاملہ یا تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر نظر ، بیرونِ معاملہ یاتمام متعلقہ دائروں پر نظر ، معاملے کو جامع تناظر میں دیکھنا، مختلف رخ سے یا کسی دوسرے کی نظر سے یا معروضی نظر سے دیکھنا، دُوربینی(کوئی معاملہ آگے جاکر کہاں منتج ہو سکتا ہے؟)، پیش بینی، آگے کیا ہونے والا ہے؟(انسان کے پاس علمِ غیب نہیں ، لیکن کڑیاں جوڑکر اندازہ لگانے کی صلاحیت ہے)۔

۴- راے قائم کرنے کی صلاحیت:صاحب الراے ہونا(گومگو کی حالت میں نہ رہنا)، راے مضبوط ہونا(بے جا اصرار نہ ہولیکن راے پر دلائل کے ساتھ قائم ہو)، صائب الراے ہونا یا اصابتِ راے کی صفت ہونا، مختلف پہلوئوں میں توازن ملحوظ رکھ کر(حکمت کا لغوی مطلب  عدل بھی ہے)،ہرچیز کو اس کا صحیح مقام دے کر،ہر چیز کی صحیح  قدر کا تعین کر کے، نتائج اور اسباب اور مقاصد کے ادراک کے ساتھ، دلیل سے راے پر پہنچنایا قوتِ استدلال ہونا(حکمت کے   لغوی معنی فلسفہ اور استدلال بھی ہیں)۔اس راے کو بنانے میں: حالات کے مطابق ڈھلناآتاہو (اصول بھی برقرار رہیں)، جذبات پر قابو ہواور ردِّعمل جذباتی نہ ہو(جذبات کا لحاظ بھی رہے)، حزم و احتیاط ہو (پیش قدمی بھی ہو)۔ صحیح کو صحیح سمجھنا اور غلط کو غلط سمجھنا،دو صحیح آرا میں سے صحیح تر کو ترجیح دینا،صحیح اور غلط اگر خلط ملط ہوں تو چھانٹ کر صحیح راے بنانا اور امتیازی حد کو پہچان جاناخواہ وہ نظریے میں ہو یا کلام میں یا عمل میں۔

۵-  قوتِ فیصلہ:حدیث کے مطابق قابلِ رشک ہے وہ شخص جسے حکمت دی گئی اور وہ اس سے فیصلے کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ قوتِ فیصلہ کے ضمن میں درج ذیل اُمور اہم ہیں:

(ا)کیا کام صحیح ہے؟ اس نتیجے پر پہنچنا، کئی کاموں میں سے ترجیح کس کو دینا ہے؟ جگہ، وقت، انسانوں، مضمرات کے لحاظ سے،اہم اور کم اہم اور غیر اہم کام کون سے ہیں؟اہم میں سے فوری کام کون سے ہیں؟، کام کا احسن طریقہ کیا ہے؟ منصوبہ بنانا۔ وسائل و استعداد اور مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مقصود کی طرف پیش قدمی اور غیر مطلوب و لا یعنی کو الگ کرنا۔ سارے کاموں کا آپس میں اعتدال و توازن رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا کہ کسی صحیح کام کے لیے صحیح وقت کون سا ہے؟ 

(ب) اس وقت کے لیے کون سا کام صحیح ہے؟کسی بھی درپیش صورتِ حال میں، مسائل کا حل نکال لینااور راستہ بنالینا(حکمت کا لغوی مطلب ’حوصلہ‘ بھی ہے)۔ اصول بدلے بغیرحالات کے لحاظ سے تدبیر کرلینا ، لکیر کا فقیر نہ ہونا۔کئی تدابیراور کئی راستوں پر نظر ہونا، کئی راستوں میں سے مناسب ترین راستہ یا حل چننا۔

(ج)موقع شناسی،کوئی کام بے موقع نہ کرنا،اور موقع ہو تو اسے ضائع نہ کرنا۔

(د) منفی عوامل کا رخ ممکنہ حد تک اپنے حق میں کرنا، مشکلات کو آگے بڑھنے کا ذریعہ بنانا۔

(ہ) فیصلے کا مضبوط ہونا،تلون مزاجی نہ ہونا (ایک دفعہ سوچ کر سو دفعہ فیصلے نہ کرنا بلکہ   سو دفعہ سوچ کر ایک دفعہ فیصلہ کرنا)۔

(و)کس انسان سے کس طرح معاملہ کرنا ہے؟کس وقت کون سی بات ،کس طرح کرنا ہے؟ ہمیشہ صحیح اور نافع بات کرنا۔مختصر گفتگو میں سارے نکات کو سمیٹنا۔

حکمت کے ذرائع

حکمت کن ہستیوں میں پائی جاتی ہے؟ اس کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:

اس کائنات کی وہ ہستی جو ہر تعریف اور کمال کی مرجع و منبع ہے ، اس میں حکمت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔اس کی یہ صفت ’حکیم‘ قرآن میں۹۴جگہ آئی ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا ’حکمت کی ذیلی صفات یا اجزا ‘ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہی کامل درجے میں موجود ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا اطلاق صرف انسان پر ہوتا ہے۔علم اور حکمت میں یہ فرق ہے کہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جب کہ حکمت خداداد ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمہ پہلو حکمت عطاکی گئی (النساء ۴:۱۱۳،بنی اسرائیل ۱۷:۳۹)۔تمام انبیاے کرام ؑ حکمت سے متصف تھے۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۱ )۔جن نبیوں کے ساتھ خصوصاً حکمت کا ذکر ہے،وہ درج ذیل ہیں (ابراہیم ۱۴:۳۶-۴۱،حضرت داود ؑ: (البقرہ ۲:۲۵۱)۔ حضرت عیسٰی ؑ (اٰل عمرٰن۳:۴۸،المائدہ ۵:۱۱۰،زخرف ۴۳:۶۳)

اس کے علاوہ مختلف انبیا کو’حکم‘ عطا ہونے کا ذکر ہوا ہے،جس سے مراد مفسرین نے حکمت ہی لی ہے۔لقمان کی حکمت ضرب المثل ہے،جس کا قرآن میں بھی ذکر ہے (لقمٰن، ۳۱:۱۲-۱۹)۔صحابہ کرامؓ میں سے بھی بہت سے،حکمت میں ممتاز ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے منکرینِ زکوٰۃ کے متعلق دین کے منشا کو باقی صحابہ سے بہتر سمجھ لیا تھا۔ حضرت عمرؓبہت سے معاملات میں وحی کے نزول سے پہلے دین کا منشا سمجھ جاتے تھے۔مثلاً شراب کی حرمت،پردے کا حکم،اذان کا طریقہ، قیدیوں کی سزا اور منافقوں کی نمازِجنازہ کے متعلق احکامات۔

حکمت و دانائی کی باتوں کو بھی حکمت کاہی نام دیا جاتاہے۔

اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآنِ کریم حکمت سے بھرپور ہے، جس کی یہ صفت بیان ہوئی ہے:

الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ (یٰٓس۳۶:۲)، الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ (یونس۱۰:۱، لقمان۱۳:۱)، الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ (اٰل عمرٰن۳:۵۸)۔

اس کتاب کی ترتیب،اس کی زبان کی فصاحت اور اس کے مضامین ،سب میں حکمت موجودہے۔

اسی طرح قرآن میں چار جگہ رسولؐ کے چار فرائضِ منصبی بتائے گئے ہیں (البقرہ ۲: ۱۲۹، ۱۵۱، اٰل عمرٰن۳:۱۶۴،جمعہ۶۲:۲)۔ یہ چار فرائضِ منصبی ہیں: تلاوتِ آیات،تزکیہ،تعلیمِ کتاب،   تعلیمِ حکمت۔ علما نے حکمت کی تعلیم کے الگ ذکر سے مراد ’حدیث‘کی تعلیم کو لیا ہے،اور حکمت کو حدیث یا سنت کا ہم معنی قرار دیا ہے۔پھر دین کی ساری تعلیمات حکمت ہیں۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۸)، زبور حکمت ہے (بقرہ، صٓ)، انجیل حکمت ہے۔(زخرف )

 سورئہ قمر میں عبرت کے واقعات کے بعد ’حکمۃ بالغۃ‘کہا گیا ہے،جس سے مراد یہ ہے کہ ان واقعات میں سبق پوشیدہ  ہے اور یہ صحیح اور صاف بات حکمت ہے۔اور بالغہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسی بات جو دل تک پہنچنے والی ہو۔

واضح تعلیمات اور علم کے بعدحکمت ہر انسان کے فہم کا نام ہے،جو علما و مفسرین  کے مختلف الفاظ میں یہ ہے: تفقہ فی الدین،دین کی معرفت؍سمجھ بوجھ، حق و باطل؍خیر و شر میں تمیز و فیصلہ، قرآن کا فہم، رسولؐ کے دیے گئے احکام؍ سنت ِ نبویؐکا علم، معرفت، قولِ صادق، فہمِ علم، اصابت ِ راے،  قوتِ فیصلہ، اس علم پرعمل اور عملِ صالح۔ ان سب کی مراد ایک ہی ہے، یعنی دین کا فہم اور عمل۔

اللّٰہ تعالٰی اور بندوں کی حکمت میں فرق

لفظ ’حکمت‘ جب حق تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جائے تو معنی تمام اشیا کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں، اور جب غیراللہ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تو موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔(مفردات القرآن)

انسانوں کی حکمت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ جائے کہ اس کی یہ زندگی جو اسے ظاہری آنکھوں سے نظر آرہی  ہے،اس کی اصل  زندگی کا محض ایک جزو ہے۔سب سے بڑی ہوشیاری اور عقل مندی یہ ہے کہ وہ کل کے لیے ذخیرہ کر لے،مختصر زندگی سے طویل زندگی کی خوش حالی کا بندوبست کرلے۔اِس زندگی کے لیے لامتناہی زندگی کو خراب کرلینے سے بڑھ کر کوئی بے وقوفی نہیں۔ دنیا اور آخرت کی حقیقت  پہچاننے سے بڑی کوئی حکمت نہیں۔ اس لیے ہر خیر پر عمل اور ہر برائی سے بچنا حکمت ہے۔

ایمان باللہ اور حکمت کابراہِ راست تعلق  ہے جو  درج ذیل نکات سے معلوم ہوتا ہے:

۱- بعض علما نے کہا ہے کہ معرفت باللہ ہی حکمت ہے۔یہ حکمت ہی ہے کہ اس کائنات کا مشاہدہ کر کے،غور و فکر کر کے،یہ استنباط کیا جائے کہ یہ نظام خود بخود نہیں چل سکتا اور نہ بہت سے خدا اسے چلا سکتے ہیں۔اور اس طرح  غیب کے پردے کے پار ، حقائق تک پہنچا جائے۔

۲-  راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ (ابوداؤد) اللہ کا خوف،حکمت کی چوٹی ہے۔

۳-اللہ  کے شکر کی اساس بھی حکمت  ہے،جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے‘‘۔(لقمٰن ۳۱:۱۲)

دوسرے الفاظ میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ،یا اسلام کے دائرے میں داخل ہونا سب سے بڑی حکمت ہے۔ پھر یہی حکمت قدم قدم پر حق اور باطل کو الگ الگ کرکے دکھاتی ہے۔     یہ حکمت دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں کھول کے دکھادیتی ہے  ، اور پھر اس کے علاج کے طریقے بھی واضح کرتی ہے۔ اور یہی حکمت زبان پر  اور عمل میں جاری ہو جاتی ہے۔

  اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد بھی حکمت کابہت بڑاکردارہے۔

 اسلام میں حکمت کا کردار

  •  آیاتِ انفس و آفاق: ۱- آیات انفس و آفاق میں پوشیدہ حکمت دریافت کرکے اللہ و آخرت پر ایمان کو پختہ کرنا۔
  •  احکامِ شریعت: احکامِ شرع کی حکمت و مصلحت دریافت کر کے ایمان پختہ کرنا اور نئے مسائل میں اجتہاد کے لیے بھی مدد لینا۔
  •  عمل میں احتیاط:عمل اس طرح کرنا کہ اس کا اجر زیادہ سے زیادہ ملے ،اور احتیاط کرنا کہ عمل کا اجر ضائع نہ ہو۔ مقولہ ہے:’’اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں کوئی تفقہ نہیں، اور نہ اس علم میں کوئی بھلائی ہے جس میں سمجھ بوجھ نہیں ،اور نہ تدبر کے بغیر قرآن کی قراء ت میں کوئی بھلائی ہے‘‘۔
  •  احکام میں درجہ بندی:اسلامی احکام کی درجہ بندی کا علم ہو اور عمل میں یہ حکمت ظاہر ہو-مثلاً اصول کون سے ہیں اور جزئیات کون سے؟ حرام کیا ہے اور مباح کی حد کہاں تک ہے؟ فرض کیا ہے اور نفل کیا ہے؟ ان میں جزئیات،مباح اور نفل میں نرمی کو برقرار رکھنا بھی حکمت ہے۔
  •  حکمتِ معاملات:حقوق العباد میں توازن،مشکل مزاج انسان سے معاملات میں اخلاقیات کی پاس داری، اور مراتب و صورتِ حال کے لحاظ سے نرمی و سختی  کے لیے، سیرت النبیؐ سے اس حکمت کے متعدد نمونے مل سکتے ہیں،مثلاً ازواجِ مطہراتؓ کے درمیان معاملات، حجرِاسود کے تنازعے میں سردارانِ قریش سے معاملہ،یہود اور منافقین کے ساتھ ایک ریاست میں رہنا،  اُجڈ بدؤوں اور دیگر مذاہب کے وفود سے معاملات،مالِ غنیمت کی تقسیم پر شاکی مسلمانوں سے معاملات۔
  •  حکمتِ تبلیغ:تبلیغ کے لیے حکمت کا قرآن میں خصوصاً ذکر ہے (النحل ۱۶:۱۲۵)۔ اس موضوع پر بہت سی کتب دستیاب ہیں۔ انسانی نفسیات کی عمومی سمجھ،مختلف گروہوں اور افراد کے مزاج کی سمجھ، ان کو قائل کرنے اور ان سے کام لینے کے لیے مختلف تدابیر نکالنا۔

۷- حکمتِ انقلاب: رسولؐ اللہ کا مشن اپنانے والی اسلامی تحریکوں کو اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کے لیے حکمت ِ تحریک اپنانا چاہیے، مثلاً کس مرحلے پر،کس محاذ پر کس کام کی ضرورت ہے؟ہر معاملے میں متوازن حکمتِ عملی کیا ہو؟ مکمل کام کیا ہے اور کس میدان میں کیا ترجیحات ہیں ؟ حالات، جگہ اور وقت کے لحاظ سے ان میں کسی تبدیلی کا امکان یا جواز ہے؟بنیادی نظریے کے مطابق کون سے اصول ہیں جو ناقابلِ تغیر ہیں؟ دین کا مکمل نظام اوراس میں احکام کی حکمت کیا ہے اور اس لحاظ سے کیا تدریج ہو سکتی ہے؟ مختلف مواقع پر دین کو کس طرح پیش کرنا چاہیے؟

انقلاب کی جد و جہد میں کسی بھی کام یا پیش قدمی کے لیے کون سا موقع مناسب ہے؟ اور کوئی موقع موجود ہو تو اس کی پہچان میں غفلت یا غلطی کیے بغیر زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟

اپنی قوت ِکار اور وسائل کی صحیح صورتِ حال اور ان میں اضافے کی تدابیر کیا ہیں؟ کسی خاص کام کے لیے کون سے وسائل اور طریقِ کار مناسب ہے؟کس کام کے لیے کتنی قوتِ کار اور کتنے فی صد وسائل کاارتکاز چاہیے؟ضرورت پڑنے پر کم سے کم وقت میں وسائل اور قوت کیسے مہیا کی جائے؟

کسی مزاحمت کا پسِ منظر کیا ہے اورکس مزاحمت کا کس جگہ، کس وقت، کس طرح سامنا کرنا ہے؟کس مزاحمت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ،اپنا راستہ نکالناہے؟

 متوازن اور مؤثر نظامِ جماعت کیسے ترتیب دیا جائے ؟اجتماعی وقت اور وسائل کو ضیاع سے بچاتے ہوئے، تمام افراد کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیسے کیا جائے؟

سیّد مودودیؒ کے مطابق: دنیا میں جو نظام غالب ہیں،ان کے چلانے والے اپنے دائرے میں بہترین عقلی و علمی طاقتیں رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں اسلامی نظام لانے اور پھربرقرار رکھنے کے لیے گہری بصیرت، تدبر، دانش مندی، معاملہ فہمی، موقع شناسی، باتدبیر ہونا، مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت کو انھوں نے حکمت کا جامع نام دیا ہے۔اور لکھا ہے کہ اس کا اطلاق دانائی و زیرکی کے مختلف مظاہر پر ہوتا ہے۔

  •  حکمتِ تفّقہ: جدید مسائل کے لیے حکم یا اسلامی مزاج سے قریب ترین عمل کے لیے حکمت ِتفقہ ہونا چاہیے۔ اسلام کے مجموعی مقاصد کی سمجھ،مصلحتوں کی ترتیب،مفاسد کی ترتیب،ترجیح کے اصول، احکام کے اسرار،اضطرار کے لیے احکام،تدریج،نتائج کا لحاظ، عمل کی روح اور ظاہر دونوں کا لحاظ-فقہ کے اصول اور قواعد ایک مدّون علم ہے جو بہت سے لوگوں کی حکمت کا نچوڑ ہے۔

حکمت ،دنیوی اُمور میں

مختلف دنیوی معاملات میں حکمت کا ظہور ہوتا ہے،یا اس کی ضرورت ہوتی ہے،مثلاً: mگھریلو امور  mملازمت و پیشہ ورانہ امور mکسی تنظیم کو چلانے mکسی مقصد کو آگے بڑھانے mحکومتی معاملات چلانے mانسانوں کو آگے بڑھانے کے لیے___  بچوں یا بڑوں کو،،، نظریاتی، عملی ،مہاراتی اور پیشہ ورانہ تربیت mکسی علم یا فن کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے۔

انھی چھوٹے دائروں کے اندر حکمت ِ عملی اور کچھ طریقے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوذ نہیں ہوتے ،بلکہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ عقل اور تجربے سے انھیں اخذ کیا ہوتا ہے۔انھیں اپنانے میں مومن کاکیا رویہ ہونا چاہیے؟ اگر یہ حکمت اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں ،تو اسے اپنانے میں مومن کو نہیں ہچکچانا چاہیے،کیونکہ ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں اس کو  پائے، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے‘‘ (ابن ماجہ،ترمذی)۔ وہ حکمت اسلام کا ہی حصہ ہے۔

ان امور میں ایک اور ،بڑا نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ سب سے بڑی حکمت اللہ پر ایمان اور آخرت کی تیاری ہے۔اگر مندرجہ بالا دائرے اس بڑے دائرے کے اندر ہوں تو ان میں حکمت، اسی بڑی حکمت کا حصہ ہو گی، اور اگر ان کا مطمحِ نظر  صرف یہ دنیا ہو ، تو ان میں حکمت محدود ہو جائے گی۔اسی طرح  جیسے کہ ایک مومن اور غیر مومن کی حکمت میں فرق ہوتا ہے۔

یہ سوال کہ اللہ اور آخرت کو نہ ماننے والوں میں حکمت ہوتی ہے یا نہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ دینی اصطلاح میں تو حکمت نہیں ہوتی لیکن دنیوی معاملات کی سمجھ ہو سکتی ہے، اور یہ سمجھ بھی محدود ہوتی ہے۔اسے ہم محدود حکمت یا حکمت کا جزو کہہ سکتے ہیں۔

مومنانہ فراست و حکمت

۱-اسلام وہ دین ہے جس میں زندگی کے دائرے الگ الگ نہیں ،بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور سب کاموں کی آخری نیت ایک ہی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی ایک معاملے یا دائرے  میں مومن کی حکمت، اس معاملے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔

۲- مومن کی حکمت یک رُخی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دائرے میں ہوتی ہے اورمقصدِحقیقی کو  مضبوط کرتی ہے۔ اس طرح مختلف دائروں میں حکمت مختلف اور متصادم نہیں ہوتی۔

۳-چونکہ حکمت کی چوٹی ،اللہ کا خوف ہے(ابوداؤد)،اور اللہ کا خوف، باقی ہر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے، اس لیے مومن دنیوی خوف اور ہرقسم کے دبائو سے آزاد ہوکر راے بناسکتا ہے، عمل کر سکتا ہے۔اس طرح اس کا ذہن کھلا رہتا ہے جو حکمت کی نشانی ہے۔صحیح اور غلط کو الگ کرنے کی صلاحیت، حکمت کا ایک پہلوہے۔

اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا(الانفال۸:۲۹)اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔

۴-اسلام کل کے لیے تیاری اور اس تیاری کے لیے موجودہ حالت کو غنیمت جاننے کی سوچ اور فکر دیتا ہے۔ اس لیے مومن میں پیش بینی کی حکمت پائی جاتی ہے۔

۵- مومن کے سامنے عمل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اگلی سے اگلی منزل اس کے سامنے ہوتی ہے۔ یہ وسعت ِنظری بھی اس کی حکمت کو بڑھاتی ہے۔

۶-مومن جغرافیائی، نسلی حدبندیوں کو قبول کرتے ہوئے بھی ان سے بہت اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ یہ بھی اس کی وسعتِ نظری کا سبب ہے۔

۷-قرآن میں جگہ جگہ غور وفکر، تدبر، تفقہ کی ترغیب ملتی ہے۔ اس غور و فکر کی اگلی منزل حکمت ہی ہوتی ہے۔

۸-قرآن آیاتِ انفس و آفاق کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔اس سے مومن کی قوتِ مشاہدہ اور اس سے استنباط کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، جو حکمت کی طرف لے جانے والی قوت ہے۔

۹-اسلام ہی مومن کو یہ علم دیتا ہے کہ کچھ اصول غیرمتزلزل ہوتے ہیں اور پھر ان کے بعد حلال، مباحات یا لچک کا کھلا میدان ہے۔ اس لچک کو ختم کرنے کا اختیاربھی انسان کے پاس نہیں۔ حدود کے اندر رہتے ہوئے ، مختلف راستوں کو استعمال کرنے میں مومن کا جمود اور سختی ختم ہوجاتی ہے۔ نئے راستے کو اختیار کرنے کا نام بھی حکمت ہے۔

۱۰- اسلام ضبطِ نفس سکھاتا ہے___ صبروتحمل کے فضائل بتاکر ، عبادات کے نظام میں کس کر اور ہر قدم پر قربانی کا راستہ دکھا کر۔ ضبطِ نفس کی وجہ سے مومن کی معروضی سوچ اور حکمت میں اضافہ ہوتا ہے۔

۱۱-اس کے پاس انسانی سطح سے اُٹھ کروحی کی رہنمائی موجود ہے۔اس کی حکمت کتابِ الٰہی اور حکمت ِانبیا سے روشنی پاتی ہے۔ قرآن وحدیث ہر مرحلے پراس کے لیے نئے دریچے وَا کرتے ہیں۔

۱۲-مومن حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے جو خود اس کی حکمت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

۱۳- سب سے بڑھ کریہ کہ مومن کے ساتھ اللہ ہے جو ہرمرحلے پر خودمومن کا ہاتھ اور  آنکھ بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے حکمت کی راہ سجھاتا ہے۔

حکمت کا حصول

  • حکمت عطاے ربانی ہے اور اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ قرآنی آیات میں ہی حکمت کے نزول کاذکر ہے۔یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط(البقرہ ۲:۲۶۹)، ’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔لیکن انسان اپنے آپ کو حکمت کا حق دار بناسکتاہے۔ خاص کوشش کرکے اور اللہ سے حکمت کی طلب و دعا کرکے اللہ کی عطا کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
  •  اللّٰہ کی معرفت اور خوف: غیر مومن کی حکمت جزوی ہونے اور مومن کی حکمت زیادہ ہونے کے کچھ اسباب ہیں۔ اس لیے ایمان میں اضافہ اور اللہ کی معرفت اور خوف، حکمت میں اضافے کا بھی سبب ہوتا ہے۔
  •  آخرت کی یاد:سب سے بڑی حکمت ہونے کے حوالے سے،اصل منزل (آخرت) نگاہوں کے سامنے رہے،تو انسان کی بصیرت اور قوتِ فیصلہ کے لیے بہت اہم ہے۔
  •  ترکِ گناہ: امام شافعیؒ فرماتے ہیں: میں نے وقیع سے بُرے حافظے کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترکِ گناہ کی تاکید کی اور مجھے بتایا کہ علم اللہ کا نور ہے اور نور گناہ گار کو نہیں دیا جاتا، یعنی ترکِ گناہ، حکمت کے ایک جز،یعنی حافظے کے لیے ایک نسخہ ہے۔
  •  زھد اختیار کرنا: فرمایا:’’جو بندہ بھی زُہد اختیار کرے،تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے دل میں حکمت اُگائے گا،اور اس کی زبان پر حکمت جاری کرے گا،اور دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں اور اس کا علاج اس کو دکھادے گا، اور دنیا سے اسے سلامتی کے ساتھ نکال کر جنت میں پہنچادے گا‘‘۔(بیہقی)

’’جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم سُخنی عطا ہوئی ہے، تو اس کی صحبت میں رہا کرو، کیونکہ ایسے بندے پر حکمت کا القا ہوتا ہے‘‘۔ (بیہقی)

خاموشی کے وقفوں کو، یکسوئی اور ارتکاز کے ساتھ، غور و فکرکے لیے استعمال کریں۔

  •  علم میں اضافے کی کوشش: کثرتِ علم کا ہر ذریعہ استعمال کیا جائے۔حکمت کے جو اجزا جہاں سے ملیں، علم ہو یاتجربات کی شکل میں،اسے لے لیا جائے۔ مشاہدے اور مطالعے کے لیے مسلسل محنت کی جائے۔
  •  علم اور عمل:علم کو عمل میں ڈھالنے سے بھی علم کی معنویت کھلتی جاتی ہے اور حکمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بصورتِ دیگر علم بھی رخصت (زنگ آلود )ہوتا جاتا ہے۔
  •  صبروتحمل: صبر و تحمل اور بردباری کو شعوری طور پر اپنانا بھی حکمت کا ذریعہ ہے۔
  •  حکمت کا استعمال:حکمت کے استعمال سے بھی حکمت بڑھتی ہے ۔حکمت کے استعمال کا طریقہ صحیحین کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے: ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہِ حق میں خرچ کرتا ہے ۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (بخاری)
  •  دُعا: حکمت کے حصول،علم نافع اور چیزوں کے حقائق دکھانے کے لیے کیجیے    ؎

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

 رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ ۲۰:۲۵)، پروردگار! میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ ، اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔

 رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (الشعراء ۲۶:۸۳)  اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا۔

  •  اھلِ حکمت کی صحبت:اہلِ حکمت سے اپنے لیے دعا کروائیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے  مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ ’’اے اللہ ،  اسے حکمت سکھادے‘‘(بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بعد میں الحبر(بہت بڑا عالم)، البحر(علم کا سمندر)، ترجمان القرآن اور امام المفسرین کہلائے۔

وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا (البقرہ ۲:۲۶۹) اور جس کو حکمت دی گئی،اسے خیر کثیر دی گئی۔

 

سب سے بڑی حکمت

اسلام میں داخل ہونا، ایمان

ہرقدم پہ باطل کی پہچان،

صحیح راستے کی وضاحت

حکمت ِ تخلیق

حکمت ِ شرع           غور کرنا

حکمت ِ تفقہ

اسلامی    حکمت ِ تبلیغ           حکمت ِ جہاد           حکمت ِ انقلاب

احکام میں

۱- اسلامی تعلیمات سے حکمت اخذ کرنا

۲- جدید علوم و حکمت سے استفادہ

دنیوی      حکمت ِ پیشہ ورانہ                حکمت ِ

اُمور میں   اُمور                      معاملات