اپریل ۲۰۱۵

فہرست مضامین

سیرتِ رسولؐ اور ہمارے مسائل

محمد کمال | اپریل ۲۰۱۵ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

اللہ رب العالمین قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

ایک اور جگہ فرمایا:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج (الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔

قرآنِ مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان تمام انسانوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے یوں فرماتا ہے:

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (اعراف ۷:۱۵۸)     اے نبیؐ، کہو کہ ’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں‘‘۔

ان قرآنی تصریحات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم بعثت سے لے کر قیامت کی گھڑی قائم ہونے تک تمام انسانوں کے لیے ہادی اور رہنما ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وہ سیرت عطا فرمائی تھی جو تمام انسانوں کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے کامل نمونہ تھی۔ دنیا کا کوئی شخص اور کسی بھی زمانے کا انسان، انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے رسولؐ اللہ کی زندگی میں اپنے لیے بہترین نمونہ پاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے تمام مسائل جو کسی بھی ملک میں ہوں یا کسی بھی زمانے میں ہوں، ان کا حل بھی رسولؐ اللہ کے لائے ہوئے دین اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ میں موجود ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت جن مسائل و مشکلات کا شکار ہے، کیا اُن کا حل بھی آپؐ کے اسوئہ حسنہ میں پایا جاتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپؐ کے دورِ سعید اور آپؐ کے خلفاے راشدین کے زرّیں دور میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

رسولِ اکرمؐ کی حکمت عملی

پاکستان کے تمام مسائل کو چار عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱- بدامنی ۲- غربت ۳-جہالت ۴- قومی وحدت کا فقدان۔ان مسائل کا حل اسوئہ حسنہ میں تلاش کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ رسولؐ اللہ نے مسائل کے حل کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی تھی۔

رسولؐ اللہ کی نبوت کے بعد کی زندگی دو اَدوار پر مشتمل ہے: ۱-مکی دور جو ۱۳برسوں پر مشتمل ہے، اور دوسرا مدنی دور جو ۱۰برسوں پر مشتمل ہے۔ مکی دور میں رسولؐ اللہ نے ان مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں فرمائی بلکہ اس کے بجاے آپؐ نے دو کاموں کی طرف توجہ فرمائی: ایک عوام الناس تک دین پہنچانا (دعوت)، اور دوسرا کام ایمان لانے والوں کی تربیت کرنا (تربیت)۔

دعوت اور تربیت دونوں کے ایک ہی موضوعات تھے، یعنی توحید، رسالت اور آخرت۔ جو لوگ ایمان لاتے آپؐ ان کو کتاب اللہ کی آیات سناتے ،ان کو تعلیم دیتے، ان کا تزکیہ کرتے اور حکمت اور دنائی کی باتیں بتاتے تھے۔ جیساکہ قرآن میں ہے:

یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) مسلمانوں کے سامنے کتاب اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں، ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی مسائل کی طرف توجہ کیوں نہ دی، اس لیے کہ :

ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو ایمان اور سیرت کے لحاظ سے ایک پختہ اور مثالی گروہ ہو، تاکہ وہ عظیم الشان اسلامی ریاست کا بوجھ سہار سکے اور دنیا کی قیادت کرسکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان تمام مسائل کا حل اقتدار اور حکومت سے وابستہ ہے، جب کہ رسولؐ اللہ مکہ میں صاحب ِ اقتدار نہ تھے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مظلومانہ زندگی گزار رہے تھے اور اقتدار کفار کے ہاتھ میں تھا۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ سارے کے سارے ۱۳نبوی میں (یکم ہجری) مکہ سے مدینہ ہجرت فرما گئے تو ایک اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی، جس کے سربراہ  خود رسولؐ اللہ تھے۔ جب آپؐ صاحب ِ اقتدار ہوگئے اور مدینہ اسلامی ریاست کی شکل میں آپؐ کو   مل گیا تو آپؐ نے ان تمام مسائل کے حل کی طرف توجہ فرمائی۔

آج بھی ملک کو درپیش بنیادی مسائل کے حل کے لیے اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ملک میں موجود دیانت دار، شریف اور صالح عنصر کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھراس قوت کے ذریعے اقتدار کی راہ ہموار ہونے کے نتیجے میں اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے ذریعے ان مسائل کو عملاً حل کیا جاسکے گا۔

آیئے مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے، تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ پاکستان کے مسائل کا حل ان کی روشنی میں کیونکر ممکن ہے۔

بدامنی و لاقانونیت

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کسی ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کا دارومدار امن و امان پر ہے۔ جس ملک میں امن ہوگا، انسانی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت ہوگی تو وہاں پر ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں، کاروبار کو ترقی مل جاتی ہے، لوگ سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، صنعتیں لگتی ہیں اور یوں ملک شاہراۂ ترقی پر گامزن ہوجاتا ہے۔

رسولؐ اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے سب سے پہلے امن و امان کی طرف   توجہ فرمائی۔ یہود کے ساتھ تاریخی معاہدہ کیا جو میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے، جس کے اندر امن و امان کے لحاظ سے یہ دفعات شامل تھیں:

۱- بنی عرفہ کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک قوم کی طرح ہوں گے۔ یہود اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر۔

۲- اس معاہدے کے سارے شرکا پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت و خون حرام ہوگا۔

۳- کوئی یثرب (مدینہ) پر دھاوا بول دے تو اس سے لڑنے کے لیے سب باہم تعاون کریں گے اور ہر فریق اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا۔ (الرحیق المختوم،ص ۲۶-۲۷)

اس معاہدے کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام باشندوں کے درمیان امن و امان قائم کیا۔

قانون سازی اور اس کا نفاذ

دوسرا کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قانون سازی اور اس کا نفاذ تھا۔ چونکہ مدینہ میں اب ایک ریاست وجود میں آچکی تھی جس کے سربراہ رسولؐ اللہ تھے، لہٰذا ریاست کی ضروریات، معاشرے کے مسائل، نئے تہذیب و تمدن کا فروغ اور دیگر مسائل کے حل کے لیے   اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل قوانین نازل ہورہے تھے۔ ان قوانین کی رُو سے مندرجہ ذیل جہتیں متعین ہوگئیں:o حقوق و فرائض کا تعین ہوا oجرائم کے سدباب کے لیے حدود مقرر کی گئیںoاور قانون کا نفاذ یقینی بنایا گیا۔

رسولؐ اللہ نے ان قوانین کو مدّون اور نافذ کیا۔ قوانین چاہے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، لیکن اگر ان کا نفاذ نہ ہو، یا بعض لوگوں پر تو قانون کا نفاذ ہو اور بعض پر نہ ہو، تو وہ کبھی بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے۔ آپؐ نے مدینہ میں امن و امان قائم اور برقرار رکھنے کے لیے قوانین کا سختی کے ساتھ نفاذ کیا اور کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی۔ یہی رویہ خلفاے راشدین کا تھا۔

  •  چند اھم واقعات: ۱- ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی۔ آپؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ بنی مخزوم نے حضرت اسامہ بن زید کو سفارشی بنا کر حضوؐر کے پاس بھیجا، تو    رسولؐ اللہ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: تم سے پہلے جو اُمتیں گزری ہیں وہ اس لیے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم تر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اُونچے درجے والوں کو   چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے! اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو مَیں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری، کتاب الحدود)

۲- حضرت ماعزاسلمی سے زنا کا فعل سرزد ہوا اور انھوں نے خود آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ مجھے پاک کر دیں، میں نے یہ عمل کیا ہے۔ جب حضوؐر نے ان سے کئی بار پوچھا اور انھوں نے اقرار کیا تو آپؐ نے ماعز اسلمی پر حد جاری کی اور صحابہ نے ان کو رجم کیا۔ (مسلم)

۳- حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے والوں کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ نے سورئہ نور میں آیتیں نازل کیں اور کہا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں تو حضوؐر نے ان کو قذف (۸۰کوڑے) کی سزا دی۔ ان میں شاعر حسان بن ثابتؓ بھی تھے۔

۴- حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود رسولؐ اللہ کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ (اسلامی ریاست بحوالہ کتاب الخراج، الامام ابویوسف)

۵- خلفاے راشدین نے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کیا۔ عدالتوں سے ان کے خلاف فیصلے ہوئے اور انھوں نے ان فیصلوں کو قبول کیا ۔رسولؐ اللہ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک شخص تنِ تنہا صنعا سے حضرموت تک جائے گا اور اسے سواے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ یہ وقت خلفاے راشدین کے دور میں آیا تھا اور بلادِ اسلامی میں مثالی امن قائم ہوا تھا۔

  •  ملک میں بدامنی کا خاتمہ: ۱-پاکستان میں بدامنی کی جڑیں یہ ہیں: دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، چوری ڈکیتی، لینڈمافیا اور ڈرگ مافیا وغیرہ۔ ان سب کا علاج یہ ہے کہ: قانون سب کے لیے ہو، کوئی شخص چاہے حکومتی اعلیٰ عہدے دار ہو یا معاشرے کا بااثرشخص، قانون سے بالاتر نہ ہوگا۔ کوئی مجرم سزا سے نہ بچ پائے۔ جرم و سزا کا تعین کرنے والے اداروں (پولیس، عدالت) کے اندر کوئی مداخلت برداشت نہ کی جائے۔ کسی کی سفارش قابلِ قبول نہ ہو، بلکہ ناجائز سفارش کرنے والے کو سزا دی جائے۔ رشوت (کرپشن) کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔ جس ملک میں آٹھ سے ۱۲؍ ارب روپے روزانہ کرپشن کی نذر ہورہے ہوں، وہاں قانون کیسے نافذ ہوگا۔ جب قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے خود کرپشن کا شکار ہوجائیں تو وہاں مجرموں کو کون پکڑے اور سزا دے گا اور جرائم کیسے ختم ہوں گے اور امن کیسے قائم ہوگا۔ اسی لیے تو حضوؐر نے رشوت کے بارے میں فرمایا: ’’اللہ کی لعنت ہو رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر‘‘۔ (متفق علیہ)
  •  قانون کا احترام: ۱-تعلیم و تربیت کے ذریعے سے لوگوں کو قانون کا احترام سکھایا جائے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف نہ پیدا ہوجائے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس نہ ہو، اس وقت تک وہ قانون کا احترام نہیں کریں گے۔ امن و امان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف ہو۔ فیصلے میرٹ پر ہوں، کسی پر ظلم نہ ہو، اور ظالم کا ہاتھ پکڑا جائے۔

ملک کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ صرف سیکورٹی اداروں کے پاس اسلحہ ہونا چاہیے اور  ان کے علاوہ کسی اور کے پاس اسلحہ نہ ہو۔ اگر طالبان افغانستان جیسے جنگ جُو لوگوں سے اسلحہ   جمع کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ جب اسلحہ نہ ہوگاتو قتل و غارت گری بھی نہ ہوگی۔

غربت و افلاس

ہمارا دوسرا مسئلہ غربت ہے۔ غربت وہ چیز ہے جس سے خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے۔آپؐ دعا فرماتے تھے: اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر وعذاب القبر (نسائی) ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے، فقر (غربت) سے اور عذابِ قبر سے‘‘۔

ہجرت کے بعد مدینہ میں ابتدائی سال بڑے غربت کے تھے۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں اچانک مہاجرین کی ایک بڑی تعدادپہنچ گئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب رسولؐ اللہ کے گھر میں کئی دنوں تک چولہا نہیں جلتا تھا تو رسولؐ اللہ نے اس اہم مسئلے کی طرف توجہ فرمائی اور مندرجہ ذیل اقدامات کیے:

o مواخات کا نظام:آپؐ نے ایک انصاری اور ایک مہاجر کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا تاکہ وہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔ انصار کھیتی باڑی کرتے تھے اور مہاجرین تجارت۔ اس طرح ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بن گئے۔

o تجارتی بازار:اُس وقت مدینہ کی تجارت پر یہود قابض تھے۔رسولؐ اللہ نے مسلمانوں کو اپنا بازار لگانے کا حکم دیا۔ آپؐ خود بازار تشریف لے جاتے تھے اور کاروبار کے بارے میں ہدایات دیتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دنوں کے بعد مسلمانوں کے بازار کا چاروں طرف چرچا ہوگیا اور کاروبار خوب چمکا، جس سے مسلمانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔

o نظامِ زکٰوۃ و عشر:اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو فرض کیا اور آپؐ نے اس کا نظام قائم کیا۔ نظامِ زکوٰۃ اور عشر سے مسلمان غربا اور حاجت مندوں کی ضروریات پورا ہونے کا اہتمام ہونے لگا۔

o انفاق فی سبیل اللّٰہ کی ترغیب: قرآن نے مسلسل مال دار مسلمانوں کو اپنے غریب رشتہ داروں اور دیگر حاجت مند مسلمانوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ رسولؐ اللہ نے بھی لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ اللہ کے نام پر دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خود ایثار و قربانی کرتے تھے اور دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔

o سود کا خاتمہ: قرآنِ مجید نے اعلان کیا: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط (البقرہ۲:۲۷۶) ’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔ آپؐ نے ہر اس شخص کے خلاف اعلانِ جنگ فرمایا جس نے سودی کاروبار نہیں چھوڑا۔ رسولؐ اللہ نے سودی کاروبار پر پابندی لگائی اور فرمایا: سود میرے قدموں کے نیچے ہے۔ سود وہ یہودی نظام ہے جس سے معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہوجاتی ہے اور عوام ا لناس غربت و افلاس کا شکار ہوجاتے ہیں۔

oمحنت مزدوری اور ہنرمندی کی حوصلہ افزائی: آپؐ نے فرمایا: ’’بہترین کھانا وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھ کی کمائی کا کھائے۔ حضرت دائود ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے‘‘۔(بخاری)

آپؐ اور  خلفاے راشدین نے ان نکات پر عمل کیا اور صورت حال یہ ہوئی کہ بلادِاسلامی میں زکوٰۃ دینے والے گھروں سے نکلتے تھے اور انھیں زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔

o ملک میں غربت کا خاتمہ: اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک اور سوال: کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے؟ جس ملک کی مٹی سونا اُگلنے والی ہو، جہاں چاروں موسم پائے جاتے ہوں اور ہر موسم کی اپنی اپنی پیداوار ہو، جو دریائوں کا ملک کہلاتا ہو، جہاں دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام ہو، جس ملک کے پہاڑ خزانوں سے بھرے ہوں، جو ملک اپنے محلِ وقوع کے  لحاظ سے مشرق و مغرب اور چین و عرب کو ملاتا ہو، جو ایشیائی ممالک کے لیے گیٹ وے کا کام دیتا ہو، جس کی افرادی قوت ۱۸کروڑ عوام ہوں اور اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہو، جو اپنی محنت، لگن اور ذہانت سے دنیا میں اپنا لوہا منوا چکا ہو، جس کے سائنس دان دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ملک کو ایٹمی قوت بناچکے ہوں___ کیا وہ ملک واقعی غریب ہے؟

پاکستان اللہ کے فضل سے دنیا کے مال دار اور خوش حال ممالک کی صفوں میں کھڑا ہوسکتا ہے اگر ہم اس پروگرام پر عمل کریں:o عدل و انصاف کا نظام قائم کیا جائے، جس میں ہر پاکستانی کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہوں اور سرمایہ محفوظ ہوoملکی وسائل کو بروے کار لایا جائے اور کسی بیرونی دبائو کو قبول نہ کیا جائے oجہاںکے حکمران تاجر کے بجاے نگران ہوں oکفایت شعاری کو قومی مزاج بنایا جائے اور حکمران اس کی مثال بنیں o وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے oنظامِ زکوٰۃ و عشر کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے oسودی نظام پر پابندی لگائی جائے oقوم کو اس طرح تربیت دی جائے کہ ہرشخص کے اندر ایمان داری ، صداقت، خوفِ خدا اور قربانی کی اعلیٰ صفات پیدا ہوجائیں ۔

یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے ملک کو دنیا کی بہترین معیشتوں میں شامل کرسکتے ہیں، جیساکہ ترکی اور ملایشیا میں ہوا۔ ترکی اور ملایشیا ہم سے زیادہ وسائل کے ممالک نہیں ہیں لیکن ان کو صحیح قیادت نصیب ہوئی اور ہم ابھی تک صحیح قیادت کی راہ تَک رہے ہیں۔

جھالت و ناخواندگی

اسلام جہالت کو مٹانے کے لیے آیا ہے۔ اسلام کی پہلی وحی اقرا سے شروع ہوتی ہے۔ رسولؐ اللہ نے ۱۳سال مکہ میں تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک ایسی نسل تیار کی جو دنیا کی   امام بن گئی۔ مدینہ میں اصحابِ صفہ کا ایک مستقل مدرسہ قائم ہوا، جہاں صحابہ کرامؓ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مختلف زبانیں سیکھنے کے لیے بھی صحابہ کرامؓ کی ذمہ داری لگائی گئی۔تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا ہی نتیجہ تھا کہ اگلی نسلیں مکمل طور پر خواندہ اور پڑھی لکھی تھیں اور ایک زمانہ آیا جب یورپ سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے بغداد آتے تھے۔

  • پاکستان کی صورت حال: پاکستان میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۳۰سے ۴۰فی صد عوام خواندہ ہیں۔ گویا قوم کا ۵/۳ حصہ اَن پڑھ اور غیرناخواندہ ہے۔ جب کسی قوم کی اکثریت ہی اَن پڑھ ہو تو وہ دنیا میں کیا ترقی کرے گی؟ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے مُردہ قومیں زندہ اور کمزور قوی ہوجاتی ہیں۔
  •  دوھرا نظامِ تعلیم:شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دہرا نظامِ تعلیم رائج ہے۔ ایک طرف اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کا نظام ہے اوردوسری طرف دینی مدارس کا نظام ہے۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں۔ کہیں بھی ان میں ملاپ اور اشتراکِ عمل نہیں ہے بلکہ رقابتیں، رنجشیںاور ناراضیاں ہیں۔ اسکول اور کالجوں سے نکلنے والوں میں اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے دین سے ناآشنا ہیں، یہاں تک کہ قرآن پڑھنا نہیں جانتے، جب کہ مدارس سے نکلنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ دنیاوی علوم سے بڑی حد تک بے بہرہ ہوتے ہیں اور موجودہ ریاستی ڈھانچے میں فٹ ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔ ایسے نظامِ تعلیم میں ہم کس طرح ترقی کرسکتے ہیں؟ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک ایسا نظامِ تعلیم تشکیل دیا جائے جس میں:

o میٹرک تک قرآن، حدیث، فقہ، سائنس اور دنیاوی علوم پڑھائے جائیں۔ میٹرک کے بعد مختلف کلیات ہوں اور طلبہ اپنے رجحان کے مطابق اس میں داخلہ لیں، مثلاً کلیہ شرعیہ، کلیہ طبیہ وغیرہ۔

o ملکی وسائل کا ایک اچھا خاصا حصہ (بجٹ) تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔

o اہلِ خیر کو اس کارخیر میں شریک کیا جائے۔

o نصاب قومی اُمنگوں کے مطابق ہو اور کسی بیرونی طاقت کو اس میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔

تعلیم کو پوری طرح اہمیت دی جائے، اور میڈیا اور تمام وسائل کے ذریعے  قوم کو تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں خواندگی بڑھے گی اور صحیح معنوں میں مسلمان اور فرض شناس شہری سامنے آسکیں گے۔

قومی وحدت کا فقدان

قومی وحدت کا نہ ہونا ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ علامہ اقبال اس ملّی المیے پر فریاد کرتے دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ان کی صدا ابھی تک صدا بصحرا ہی ثابت ہورہی ہے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

قرآن پکارتا ہے: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔ وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o   (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۵) ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے، جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے‘‘۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کرکے بتایا۔ (متفق علیہ)

  •  لائحۂ عمل:اس فقدان کا ایک ہی علاج ہے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنائیں۔ ایک قوم اور ایک ملّت بن جائیں اور فرقہ واریت پر لعنت بھیجیں۔ قومی وحدت کے لیے ضروری ہے کہ:o ایک واضح نصب العین o رواداری کے کلچر کو فروغ دیا جائے oتعلیم و تربیت کے ذریعے اخوت، بھائی چارہ اور محبت کا پیغام عام کیا جائےo فرقہ واریت کو تقویت دینے والے تمام ذرائع کا سدباب ہو۔اس کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ دشمنانِ دین و وطن کے سارے راستے مسدود کردیے جائیں اور قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنایا جائے۔ جو قرآن کے اس نقشے کے مطابق ہو۔ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹)’’جو کفار کے لیے سخت اور مومنین کے لیے رحیم ہیں‘‘۔

پاکستان ایک عظیم اسلامی مملکت ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کی وجہ سے یہ اس کا مقام ہے کہ یہ عالمِ اسلام کی قیادت کرے اور دنیا کے سامنے ایک اسلامی فلاحی مملکت کا رول ماڈل ہو۔ کیا ہم پاکستان کو ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اسے ایسا ملک بنا سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کو عزت کا مقام ملے اور  ہم عزت کے ساتھ اپنے ملک میں رہ سکیں؟ یقینا ایسا ہوسکتا ہے    ؎

نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی