ہمیشہ کی طرح آج بھی رفاہِ عام اور سماجی خدمت کے کام بہت ضروری ہیں اور کچھ پہلوؤں سے قدرے مشکل بھی۔ اسلام اور اسلامی تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جائے تو قدم قدم پر خدمت کی ترغیب ملتی ہے۔ اسلام میں نیکی اور رفاہِ عامہ کا تصور بہت وسیع ہے۔ اس میں پس ماندہ افراد کے حقوق کی ادایگی کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے۔خدمت خلق کادائرۂ کار اپنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سب تک پھیلاہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنادل پسند مال رشتے داروںاور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ (البقرہ۲:۱۷۷)
اسلام نے نہ صرف فرد بلکہ ریاست کو بھی عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا پابند بنایا ہے اور حکمرانوں کو جواب دہ بنایا ہے کہ وہ رعایا کی ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔ اسلام انفرادی، اجتماعی اور ریاستی و حکومتی سطح پر انسانوں کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اسلام میں رفاہِ عامہ کا تصور ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ کا آغاز ظہور اسلام کے ساتھ ہی نظر آتا ہے اور مسلمان ہردور میں سماجی ومعاشرتی بہبود انسانی کی خاطر مسلسل مصروف عمل رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مسلمان، حاجت مند اور محتاج افراد کی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری کتاب و سنت کے عائد کردہ احکامات کے مطابق محسوس کرتا ہے۔
رفاہی کاموں اور انسانی خدمات کے سلسلے میں ہمارے سامنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ موجود ہے۔آپؐ انسانی خدمت کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ بعثت نبویؐ سے قبل کے دور میںبھی آپؐ ہی تھے جو دُکھی لوگوں کی دست گیری کرتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کا تعارف ان سنہرے اور جامع الفاظ میںکرایا :
کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیَکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِ یْ الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ(بخاری ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ، حدیث:۳) اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رنج نہ دے گا ، آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپؐ ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، آپؐ ناداروں کے لیے کماتے ہیں ، آپؐ مہمان نوازی کرتے ہیں ، آپؐ حوادث کے زمانے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
ایثاراور خدمت کے اسی جذبے سے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایک مثالی ٹیم بنا دی تھی۔ اللہ کے رسو لؐ سے تربیت پاکروہ ہر معاملے میں دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ، خود تکلیف برداشت کرتے اور دوسروں کو آرام پہنچاتے تھے۔ خدمت خلق اور جذبۂ ایثار صحابہؓ کی زندگی کا مقصد بن گیا۔ ہر کمزور اور مظلوم کو ان سے اُمید پیدا ہوگئی کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی ظالم و جابر ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا۔
پس ماندہ طبقوں کی مدد : یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد نہ صرف خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہے بلکہ و ہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ ان طبقات میں غربت اتنی چھائی ہوئی ہے کہ ان کے بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ایک محتاط عالمی اندازے کے مطابق صرف ہندستان میں ۳۰کروڑ افراد خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کہ جن کو ایک دن میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں فٹ پاتھ پر رہنے والے بچوں کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔کروڑوں کی تعداد میں لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کو پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔یہ منظرنامہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ پس ماندہ علاقوں میں رفاہ اور دعوت کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں رسولؐ کی مثال ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ آپؐ نے پس ماندہ افراد پر خصوصی توجہ دی۔ ایک مغربی مصنّف نے صحیح کہا ہے کہ: ’’ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے میں مبعوث ہوئے، جو دنیاکا پس ماندہ ترین خطّہ تھا۔ یہ علاقہ دنیا بھر کے علوم و فنون کے مرکز سے دُور تھا،اور وہاں انسانی اقدار کی ترویج کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا تھا، لیکن رسولؐ اللہ تھوڑے ہی برسوں میں اس علاقے میں ناقابلِ یقین حد تک جو حیرت انگیز انقلاب لے آئے، وہ آپؐ کے علاوہ کسی اور شخصیت سے ممکن ہی نہیں تھا۔یہ آپؐ کی رہنمائی کا اعجاز تھا کہ انسانی کردار کی عظمت سے محروم اس خطے سے عالم انسانیت کی رہنمائی کا آغاز ہوا‘‘۔
موجودہ زمانے میں، رفاہِ عام کی مختلف سرگرمیوں اور کاموں کے حوالے سے یہ کام توجہ چاہتے ہیں:
اسکالرشپ وغیرہ متعارف کروانا:بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری اسکیمیں اور وظائف ہیں، جن سے اکثر مستحق لوگ ناواقف رہتے ہیں۔ ان اسکیموں اور اسکالر شپس کو متعارف کروانا بھی ایک اہم کارِ خیر ہے۔ اس کے علاوہ غریب طلبہ و طالبات اور مستحقین کو اسکالرشپ فراہم کرنے کے لیے فورم اور ٹرسٹ قائم کیے جائیں۔ ان کے لیے مفت کوچنگ سنٹرز کابھی قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ نادار مگر محنتی طلبہ آگے بڑھ سکیں۔
طبّی امداد بہم پہنچانا: دورِ حاضر میں متنوع بیماریوں نے جنم لیا ہے اور کچھ بیماریوں کے علاج پر ۱۰ سے ۱۵لاکھ تک کا خرچ آجاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایسے بے سہارا مریضوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جنھیں دوائوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔یہ مریض کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس پہنچنا اور دوائیوں کا انتظام کرنا ایک بڑی نیکی اور انسانی خدمت ہے۔ طبی امداد کے سلسلے میں ایک پہلو یہ ہے کہ جگہ جگہ میڈیکل کیمپوں کا اہتمام کیا جائے، جن سے لوگ بڑی تعداد میں استفادہ کرسکیں۔مزید یہ بھی کہ کلینکل ٹیسٹ کرانے کے لیے دُور دراز اور غریب آبادیوں میں کیمپ لگا کر نمونے اکٹھے کیے جائیں اور مریضوں کی مدد کی جائے۔ اسی طرح سے ناگہانی آفات زلزلہ ، سیلاب وغیرہ کے موقع پر متاثرین کو امداد و طبی سہولیات پہنچانے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔اس موقع پر دینی اداروں اور تنظیموں کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے، رسمی نہیں۔
تعمیراتی کام:عام انسانوں کی سہولت کے لیے پُل ، سڑک ، سرائے وغیرہ کی تعمیر کرنا ایک عظیم انسانی خدمت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بڑے وسائل چاہییں جو عام آدمی کی دسترس میں نہیں ہوتے، لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ کے قریب میں اگر کہیں تھوڑی بہت ٹوٹ پھوٹ ہو تو اسے مرمت کرا دیا جائے۔ اگر اُس وقت یہ نہیں کیا جائے گا تو سڑک کا بڑا حصہ تباہ ہوجائے گا اور تعمیر قسمت سے ہوگی۔ اس طرح کا کام کرنا مفادِ عامہ کے لیے مفید ہے۔ عالمِ اسلام میں ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو جھونپڑیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے ایک ایک دو دو کمروں پر مشتمل مکانات کی تعمیر کا انتظام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
صفائی اور ماحول کی بہتری کے لیے مہم چلانا:اسلام نے طہارت ، اور صفائی پر بے حد زور دیا ہے۔ صرف انفرادی طور پر صاف ستھرے رہنے کا حکم نہیں دیا بلکہ پورے ماحول کو صاف رکھنے کا حکم دیا ہے اور کہا کہ راستو ں کو صاف رکھو اور گندی اور تکلیف دہ چیزوں کو وہاں سے ہٹائو،اور اس نوعیت کی خدمات کو اللہ کے رسولؐ نے صدقہ میں شمار کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَـۃٌ(ابوداؤد،کتاب الصلاۃ، حدیث:۱۱۰۶)۔اسلام نے پانی کو صاف وشفاف رکھنے کا بھی حکم دیا ہے اور سڑک ، سایہ دار درخت ، باغ، دریا ، تالاب ، ندی ، نالے اور دریا کے پانی میں پیشاب کرنے اور گندگی پھیلانے سے منع کیا ہے۔ صفائی ستھرائی اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے مہمیں چلانی چاہییں اور یہ مہمیں ہماری دعوت کا حصہ ہونی چاہییں۔
مظلوموں اور کمزوروں کی مدد: مظلوموں ، بے کسوں اور کمزوروں کی تعداد روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے اوران کی حالت روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان کا کوئی دستگیر اور پُرسان حال نہیں ہے۔اس تعلق سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ مظلوموں کی حمایت کرنا ، کمزوروں کی داد رسی اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد و اعانت کرنا دعوت دین کا جزولاینفک ہے۔
ظلم و جبر کے خلاف متحد ہونا: ظلم و ناانصافی ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے جس کو دنیاکے ہر مذہب نے ناقابل برداشت ٹھیرایا ہے۔ لیکن اسلام نے اس حوالے سے اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے اور ہر مسلمان کو اس بات کا پابند ٹھیرایا کہ وہ ظلم و ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے اوّلین فرصت میں قدم اٹھائے۔اس کے لیے اگر غیر مسلموں سے تعاون بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ ریاست اور معاشرے کو پُرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظلم و ناانصافی نہ ہو۔ظلم و جبر کو ختم کرنے کے لیے ایک بہترین مثال ’حلف الفضول‘ کی ہے، جس میں مختلف قبائل نے یہ طے کیا تھا کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کریں گے۔اس میںجن باتوں کا عہد کیا ، وہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱- مکہ کے حدود میں کسی پر ظلم نہیں کرنے دیں گے۔
۲- ہم سب مل کر مظلوم کی مدد کریں گے اور اسے اس کا حق دلوائیں گے۔
۳- کسی شخص کو کسی کے مال و آبرو پر دست درازی نہ کرنے دیں گے۔
۴- مکہ میں رہنے والے اور باہر سے آنے والوں کی یکساں داد رسی کی جائے گی۔
یہ معاہدہ اتنا عظیم الشان تھا کہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا :
لَقَدْ شَھِدْتُ فِی دَارِ عَبْدِاللہِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا مَا اُحِبُّ اَنَّ لِیْ بِہٖ حُمْرَ النَّعَمِ وَلَوْ اُدْعٰی بِہٖ فِی الْاِسْلَامِ لَأَ حْبَبْتُ (ابو محمد عبدالملک ابن ہشام ، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۱۳۴) میں عبدللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے حلف (حلف الفضول) میں موجود تھا جو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پیارا تھا اور اگر اسلام میں بھی کوئی ایسے عہد کی طرف بلائے تو میں قبول کر لوں گا۔
تعلیم کا انتظام کرنا: ایسے بچوں یا افراد کو جو معاشی تنگ دامنی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ہوںان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا دعوت کا ایک اہم حصہ ہے۔ دورِنبوت میں تعلیم نہ صرف عام بلکہ مفت بھی تھی اور تعلیم پر کسی طبقے کی اجارہ داری قائم نہیں تھی۔ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کو ہرفرد کے لیے لازم قرار دیا اور نہ صرف بچوں ، مردوں ، عورتوں بوڑھوں بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا حکم دیا۔اللہ کے رسولؐ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام جو کیا وہ مسجد کی تعمیر ہے۔اس مسجد میں درس گاہ کی بنیاد بھی رکھی گئی جس کو عربی میں ’صفہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کھلی اقامتی درس گاہ تھی، جس میں ہر چھوٹا بڑا تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔
داعی کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایسا راستہ ہے جس سے داعی اپنے مخاطب کو ابدی سچائیوں سے روشناس کرا سکتا ہے۔ اسی لیے داعی یا تحریکوں اور تنظیموں کو تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اپنے وسائل میں ایک بڑا حصہ اس پر صرف کرنا چاہیے۔ معیاری تعلیمی ادارے،تعلیم بالغاں، کیرئیر گائیڈنس اور مفت کوچنگ سنٹرزاس ضمن میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
کونسلنگ سنٹروں کا قیام:عصر حاضر میں مختلف قسم کے نفسیاتی بیماریوں نے جنم لیا ہے۔ڈپریشن اور دوسرے قسم کی نفسیاتی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ نفسیاتی صلاح کاری کے مراکز قائم کیے جائیں،جہاں سے ذہنی اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج مفت میں کیا جاسکے۔
اجتماعی زکوٰۃ کا نظم: اگر مسلمان زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کو منظم انداز سے جمع کریں تو غربت اور پس ماندگی کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ رفاہِ عامہ کا یہ ایک منفرد تصور قرآن کریم نے دیا ہے۔ قرآن کریم نے مصارفِ زکوٰۃ میں فقرا، مساکین ،مقروضوں، اسیران اور مسافروں کو شامل کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۶۰(التوبہ۹ : ۶۰) یہ صدقات تو در اصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہو ں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو ، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
روزگار کی فراہمی: ایک نوجوان کے لیے مقصد زندگی سے واقفیت بہم پہنچانے کے ساتھ روزگار کا انتظام کرانا بھی بہت عمدہ خدمت ہے۔ اس تعلق سے تحریکا ت اسلامی ، دینی تنظیموں اور اداروں کو سامنے آنے کی ضروروت ہے۔یہ ادارے اگر وسیع پیمانے پر اسکولوں، کالجوں، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس وغیرہ کو قائم کریں تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار مل سکتا ہے۔ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں طبقے کے مایوس افراد چوری ، اسمگلنگ، منشیات اور دوسرے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے مہارتوں سے آراستہ کرنے اور گھریلو صنعتوں میں خدمات کی انجام دہی کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ چیز صحت مند معاشرے اور دعوتِ دین کے لیے ایک کار گر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
میڈیا پرسنز کی تیاری:آج دُنیا بھر میں اسلام مخالف لہر زوروں پرہے۔ روز مسلمانوں کو کسی نہ کسی جگہ پریشان کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں،وہاں تو ان کو نہ صرف تعلیمی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی منصوبہ بندطریقے سے پس ماندہ رکھا جا رہا ہے۔مسلم نوجوانوں کو اسلام پسندی کی بنیاد پر گرفتار کر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا جارہا ہے یا ریاستی خوف کا شکار کیا جارہا ہے۔اس طرح مسلم شناخت کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف نسلی فسادات بھی بڑھ رہے ہیں اور اسلام کے بارے میں بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں بھی پھیلائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں سے جدید تعلیم یا فتہ نوجوان اور ماہر ین ،رپورٹرز اور تجزیہ نگار تیار ہوں، اور جو لوگوں کو حالات اور واقعات کی حقیقی شکل سے روشنا س کرا ئیںاور حق و صداقت کی سچائی کا علَم لے کر پروپیگنڈا پھیلانے والوں کاپردہ چاک کریں۔یہ تبھی ممکن ہوپائے گا، جب متمول افراد، ماہرین اور تحریکات، تنظیمیں اور ادارے اس جانب بھرپور توجہ دیں۔اسی طرح ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو ماس کام یا میڈ یا کو رس میں داخلہ لینے کے لیے تر غیب دی جا ئے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ مالی معاونت کا انتظام بھی کیا جائے۔
ایسی سرگرمیوں سے مسلمانوں کی خدمت کے ساتھ، معاشرتی امن اور دعوتِ دین کے کاموں کو زیادہ مؤثر انداز سے ترقی دی جاسکتی ہے۔