اپنی ہم عصر اسلامی تحریکوں پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے پہلوئوں سے اثر ڈالا ہے۔ جن میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ دین دُنیا ، سیاست اور مذہب کی ایک دوسرے سے علیحدگی ، دورنگی اورثنویت کا جو تصور ایک مدت سے چلا آ رہا تھا، وہ عوام تو کیا ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ علما تک میں راسخ ہو چکا تھا۔ اس خام اور مہمل تصورِ دین کو مولانا مودودی نے قرآن وسنت سے فراہم کردہ دلائل کی بنیاد پر دُور کیا۔ آج اندرون یا بیرون ملک کوئی ایسی دینی تحریک نہیں ہے کہ جس نے اس باب میں مولانا مودودی کی تحقیق اور فکر کو قبول نہ کر لیا ہو۔ وہی لوگ جو کل تک مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو ’گمراہی‘ اور ان کی اصطلاحات کو ’کفر ‘ کے درجے تک پہنچانے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے، آج ان لوگوں کی بھی تحریروں اور تقریروں میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ مولانا مودودی کا علم کلام بول رہا ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف کرنا یا نہ کرنا دوسری بات ہے، لیکن اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تصور دین کی اس دورنگی کو دُور کر کے، اسلامی نظام حیات پر از سرِ نو غوروفکر کی لہر پیدا کرنے کا سہرا مولانا مودودی کے ہی سر ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی نظریاتی جہت کو مولانا مودودی کے ان مضامین نے غذا فراہم کی ، جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش اول، دوم میں شامل ہیں۔ یہ انھی مضامین کا اثر تھا کہ نواب بہادر یار جنگ اور دوسرے کئی نمایاں لوگ، علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی مرحوم کی خاکسار تحریک کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گئے ۔ اور پھر اپنی خداداد قابلیت، بے پناہ محنت اور جوہرِ خطابت سے جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریب اور عوام میں بے پناہ مقبول ہو گئے۔
اسلامی تحریکوں سے فکری ربط کے حوالے سے بعض لوگ پوچھتے کہ اخوان المسلمون نے فکر وعمل میں مولانا مودودی سے کس پہلو سے اثر لیا، تو ان کے سامنے یہ بات رہنی چاہیے:
قیام پاکستان تک، بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک ہمیں یہاں پر اخوان المسلمون کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اسی طرح خود اخوان المسلمون کو بھی جماعت اسلامی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اس لیے دیکھا جائے تو نہ جماعت اسلامی نے اخوان المسلمون سے کوئی چیز لی، اور نہ اخوان المسلمون نے ہی جماعت اسلامی سے کچھ اخذ کیا۔
بعض لوگوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی دعوت اور مقاصد میں مماثلت اور مطابقت سے از خود یہ بات فرض کر لی ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کا عکس ہیں اور ایک ہی پروگرام کے تحت بنائی گئی ہیں۔ حالاں کہ اخوان المسلمون نے بھی جماعت اسلامی کی طرح ہرچیز براہِ راست قرآن وسنت اور اسلامی روایت وتاریخ سے اخذ کی ہے۔ دونوں اکابرین ملت اسلامیہ، یعنی امام حسن البنا شہیدؒ اور سید مودودی علیہ الرحمہ کی دعوت کا ماَخذ اور منبع چوںکہ مشترک اور ایک ہے، تو اسی منبعے کا یہ فطری نتیجہ ہے کہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے کا پر تو نظر آتی ہیں۔ ورنہ سرچشمہ ایک ہونے کے سوا اُن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہا۔
جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ ایک مدت تک تو نہ جماعت اسلامی کو اخوان المسلمون کی خبر تھی اور نہ اخوان ہی جماعت اسلامی سے واقف تھے، یہ تو کہیں ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء میں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ اخوان المسلمون نام کی ایک تحریک ہے جو عرب ممالک میں اسی مقصد کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح اخوان المسلمون کو بھی کہیں بعد میں معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک ہے، جو برصغیر پاک وہند میں اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہے، جس کے لیے وہ جان کی بازی لگا رہے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مولانا مودودی نے اخوان سے کچھ سیکھا ہے یا مرشد عام حسن البنا شہیدؒ نے مولانا مودودی سے کچھ سیکھا ہے۔ البتہ دونوں حضرات (اور پھر حسن البنا شہید کے ساتھی ) ایک دوسرے کے کام سے جب باخبر ہوئے اور ایک دوسرے کے لٹریچر کو دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ دونوں جانب تقریباً ایک ہی فکر کار فرما ہے۔ بلاشبہہ اخوان المسلمون کے لٹریچر میں شدت اور انقلابیت نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے، جب کہ مولانا مودودی کے ہاں زیادہ زور تفہیم، توضیح، استدلال ، گہرائی ، ٹھیرائو اور اپنی بات مخاطب کے ذہن نشین کرنے اور دل ودماغ میں اتارنے پر ہے۔ مولانا کی انقلابیت کا راستہ ، جمہوری اور عمومی سطح پر تفہیم وقبولیت کے ذریعے نکلتا ہے۔ اخوان نے بھی یہی راستہ اختیار کیا، مگر وہاں کے حاکموں نے ان کے لیے تمام کھلے اور جمہوری راستے بند کر دیے ، جس سے بعض جگہ اور بعض افراد میں کچھ شدت پیدا ہو گئی۔
مصر کے مغرب نواز بادشاہ فاروق اور پھر فوجی آمر جمال عبدالناصر کی جانب سے اخوان المسلمون کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کے بعد ، اخوان المسلمون کی توجہ جماعت اسلامی کے طریق کار کی طرف مبذول ہوئی۔ ان کے صف اول کے اکثر رہنمائوں کو پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ مرشد عام امام حسن البنا کو شاہراہ عام پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ ۲۰،۲۵ ہزار اخوانی کارکنوں کو گرفتار کر کے صحرائی علاقے کی جیلوں میں ناقابل برداشت اذیتوں سے دوچار کیا گیا۔ سیکڑوں کارکنان ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اور مصر میں تواخوان المسلمون کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ان حالات میں اخوان المسلمون نے ملکی قیادت میں تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کے طریق کار کی افادیت کو محسوس کیا، کہ اگر چہ یہ راستہ طویل اور صبر آزما ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہی طریقہ مؤثر اور پائے دار ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلح قوت کی فراہمی اور اس کے ذریعے طاغوت کے غلبے کو ختم کرنے کا جو راستہ اخوان المسلمون کے بعض جوشیلے حامیوں نے ، اخوان کی تنظیم سے الگ ہو کر اختیار کیا تھا، وہ ان مظالم ، غیر منصفانہ واقعات وحالات کا ایک منطقی نتیجہ تھا، جن سے ان کو دوچار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کر کے نہایت ظالمانہ طریقے سے قوت استعمال کی گئی تھی اور انھیں بدترین تعذیب سے دوچار کیا گیا تھا۔ جب سید قطب اور جسٹس عبدالقادر عودہ جیسے عظیم لوگوں کو پھانسی دے ڈالی گئی اور نہایت پاکیزہ کردار کے انسانوں پر محاورتاً نہیں بلکہ عملاً وحشی کتے چھوڑے گئے تو اس شیطانی عمل کا آخر ردعمل کیسے نہ ہوتا ؟
ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے اور شرف انسانیت کی تذلیل آخری حدود کو چھونے لگتی ہے تو یہ منظر کمزور سے کمزور آدمی کو بھی مرنے مارنے کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ پھر ستم زدہ عوام ، بالخصوص نوجوان کسی سنجیدہ نصیحت (sana advice)پر کان نہیں دھرتے ۔ چنانچہ سنجیدہ لیڈر شپ روز بروز بے اثر ہوتی چلی جاتی ہے، اور قوت کے ذریعے حالات کو بدلنے کی راہ دکھانے والے عناصر رفتہ رفتہ غالب آ جاتے ہیں۔ آخر کار ایسے انتہا پسند لیڈر ہی میدان میں رہ جاتے ہیں، فہمیدہ اور دُور اندیش لیڈر شپ بے بس ہو جاتی ہے ۔ طاغوتی طاقتیں چاہتی بھی یہ ہیں کہ انسانی قوت برداشت کو توڑ کر اپنے مخالف کو تشدد پر اُبھارا جائے اور پھر ریاستی مشینری کی قوت سے اسے کچل کر رکھ دیا جائے۔ مولانا مودودی نے ریاستی مشینری کی ایسی ہر کوشش اور سازش کے دام ہم رنگ سے اپنے آپ کو اور جماعت اسلامی کو بچایا۔
یہی بات میں نے مصر کے صدر حسنی مبارک اور ان کے مشیروں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی تھی، جب ۱۹۸۲ء میں ان کی دعوت پر مصر گیا تھا۔ ادھر اخوان المسلمون کے لوگوں کو بھی سمجھایا تھا کہ موجودہ حالات میں اسلامی تحریک کے لیے صحیح ، قابل عمل اور مؤثر طریق کار وہی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کیا ہے، یعنی آئینی اور جمہوری طریق پر دعوت کو آگے بڑھانے کا راستہ۔ بالفاظِ دیگر تبلیغ وتلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے راے عامہ کو متاثر کیا جائے۔ پھر راے عامہ کی قوت سے قومی اور اجتماعی قیادت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس راستے کو اختیار کرنے میں آپ کو ابتدا میں کچھ دِقّت اور مشکل ضرور پیش آئے گی، لیکن آخر کار اس کے فوائد خود تحریک، دعوت اور اشاعت اسلام کے لیے ثمر بار ثابت ہوں گے۔
اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام جب بھی ابھرتا ہے تو شیطان اور اس کے پیرو کار برہم ہو جاتے ہیں، اور ہر نوع کے ظلم وستم پر اتر آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اس دین حق کا کمال ہے کہ جس نے اس کا دامن تھاما، وہ کندن اور قابلِ صد افتخار کردار بن گیا۔ اخوانی رہنمائوں کی یادداشتیں اس پہلو سے بڑی سبق آموز داستانیں ہیں کہ ان میں ان مراحل کے مناظر بار بار سامنے آتے ہیں، جن سے ہر داعی حق کو گزرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلے میں احمد رائفؒ کی رُوداد ابتلاء ، محترمہ زینب الغزالیؒ کی رُوداد قفس تیسرے مرشد عام اخوان المسلمون محترم عمر تلمسانیؒ کی یادوں کی امانت اور حامد ابو نصرؒ کی وادی نیل کا قافلہ سخت جان وغیرہ اُردو میں موجود ہیں۔ پہلی دو کتابوں کا ترجمہ ہمارے رفیق خلیل احمد حامدی مرحوم و مغفور نے کیا تھا، جب کہ دوسری دو کتابوں کا ترجمہ حافظ محمد ادریس صاحب نے کیا ہے۔ ان یادداشتوں کی اشاعت میں ہمارے بھائی چودھری غلام جیلانی مرحوم نے خاصی دل چسپی لی تھی۔ یہ تمام خود نوشت مشاہدات بڑے مؤثر، سبق آموز اور اسلامی تحریک دعوت وعزیمت کے ناقابلِ فراموش ابواب ہیں۔ ہمارے لوگوں کو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ یہ محض باطل اور ظالم حکمرانوں کی وحشت ناکی پر مشتمل ڈائریاں نہیں ہیں، بلکہ خود احتسابی وجاں سپاری کا ایمان افروز ریکارڈ بھی ہے۔
شام کے آمر مطلق صدر حافظ الاسد کا تعلق نصیری فرقے سے تھا۔ وہ شامی فضائیہ کا چند برسوں کے اندر سربراہ بن گیا، پھر اس نے حکومت پر قبضہ جما لیا ۔ تین عشروں تک بلا شرکت غیرے شام کے عوام پر حکومت کی، اور اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد شام کا سربراہ بن گیا۔
۱۹۸۴ء میں جب اخوان المسلمون کے نوجوانوں نے اسد کی بعث پارٹی کے ذلت آمیز طرز حکومت کے خلاف احتجاج کیا تو، اس کے بھائی رفعت اسد کی نگرانی میں آپریشن شروع ہوا۔ جس میں شام کے شہروں حلب ، جسر اور انطاکیہ وغیرہ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا، جب کہ حماۃ شہر کو ، جو اخوان المسلمون کے عابدوں اور زاہدوں کا مرکز تھا، اس کا محاصرہ کیا، اور پھر ہوائی جہازوں توپوں اور میزائلوں سے گولہ باری کر کے پورے شہر کو، شہریوں کے ساتھ کھنڈرات اور قبروں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی کیا اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت مآب مسلمان اخوانی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور انھیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا۔ جیلوں میں ان پاک باز خواتین پر جو ہولناک مظالم ڈھائے گئے ، ان کی نہایت دل خراش داستانیں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ ہے ایک ’ترقی پسند اور روشن خیال ‘ حکمران کا اپنے بے بس شہریوں سے سلوک ۔
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ جماعت اسلامی ہو یا اخوان المسلمون یا کوئی اور اسلامی یا حتیٰ کہ غیر اسلامی جماعت ، جب اس کے کارکنوں پر ان کے نظریات اور خیالات سے ضد کی بنا پر تشدد کیا جاتا ہے اور پکڑ دھکڑ اور تعذیب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو وہ اپنے نظریے اور عقیدے میں مزید پختہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں اپنے مقصد کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اور زیادہ نشوونما پاتا ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں، خصوصاً اخوان المسلمون نے اپنے ہاں برسرِ اقتدار طبقات کے ہاتھوں بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اس سلسلے میں مصر کے جمال ناصر، شام کے آمر مطلق حافظ الاسد اور عراق کے صدام حسین جیسے آمروں نے تو ظلم وتشدد اور وحشت ودرندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ لیکن اس کے باوجود نہ صرف ان تحریکوں کو نہایت قابل اعتماد اور مضبوط کارکنوں کی بڑی بڑی ٹیمیں میسر آ گئی ہیں، بلکہ دنیا کے ہرحصے اور ہرملک میں اقامت دین کا کام شروع ہو گیاہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسلامی نظام عدل کے احیا کی تحریکوں کے یہ تمام مخالفین آزادی وحریت کے نعرے اور بلند بانگ پروگرام لے کر اٹھے ۔ عرب قوم پرست اور سوشلزم کا علَم بردار صدر ناصر، جس کا دورِ جبرواستبداد اس عہد میں فرعون کی زیادتیوں پر بھی بازی لے گیا، وہ بڑے فخر سے کہا کرتا تھا:’’ میں استعمار کے خلاف حریت وآزادی کا پرچم بلند کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔ میرے منشور میں آزادی (لبرٹی ) کا نعرہ سر فہرست ہے‘‘۔ لیکن اس کی جھلک اس کی قوم کو دیکھنا نصیب نہ ہوئی اور نہ اُن سے اختلاف رکھنے والے آزادی حاصل کرپائے۔
اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو صدر ناصر کے حکم سے بلا کسی وارنٹ اور کوئی وجہ بتائے بغیر گرفتار کر کے برسوں تپتے صحرائی جیل خانوں میں بند رکھا گیا۔ ان کو زمین میں گاڑ کر ان پر بھوکے کتے چھوڑے جاتے۔ کوڑے مار مار کر ان کی کھال ادھیڑ دی جاتی ۔ ناصر کی موت کے برسوں بعد ہی کہیں ان جیلوں میں کوئی جگہ خالی ہوئی۔ گویا صدر ناصر کے نزدیک آزادی وحریت صرف اس کی غیر مشروط بندگی و غلامی کرنے والے کے لیے ہی تھی، اللہ تعالیٰ کی بے آمیز بندگی کرنے والوں کے لیے نہ کوئی آزادی تھی ، نہ کوئی انسانی حق۔
اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اقامت دین کی تحریک کو اس نام نہاد روشنی کے دور میں غیرمسلموں سے زیادہ خود مسلمان حکمرانوں، ان کے پروردہ مسلمان دانش وروں ، صحافیوں، فوجیوں اور طبقہ علما کی کچھ شخصیتوں کے ہاتھوں بڑے دُکھ اٹھانے پڑے ہیں۔ [مشاہدات، ص ۲۷۹-۲۸۷]