یہ ہیں وہ سوالات، جو ممکن ہیں کہ جماعت کے پرانے ارکان و کارکنان کے نزدیک زیادہ دلچسپی کا باعث نہ ہوں، لیکن جو بے شمار نئے رفقا جماعت کو میسر آئے ہیں، اور مستقبل میں جو ان شاء اللہ جماعت اسلامی کے قریب آئیں گے، اُن کے لیے یہ یقینا دلچسپی کے حامل ہوں گے۔ کیونکہ ایسے حضرات اور خواتین کو کماحقہٗ علم نہیں کہ جماعت اسلامی کی غرض اور مقصد ِ وجود کیا ہے؟ وہ شاید اس کو بھی دیگر دینی و مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرح کی ہی یا اُن سے نسبتاً کچھ زیادہ منظم جماعت خیال کرتے ہوں۔ ایسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں، جو رُکن سازی کا کام ماتحت جماعتوں کے سپرد ہوجانے کے بعد جگہ جگہ نیم پختہ کارکنوں کو جماعت میں شامل کرلینے کے نتیجے میں جماعت میں پیدا ہوگئی ہیں، اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی اصل حیثیت کو واضح کردوں۔
جماعت اسلامی ایک ہمہ گیر جماعت: جماعت اسلامی نہ عام مذہبی اور دینی و مذہبی جماعتوں کی طرح محض ایک مذہبی و دینی جماعت ہے اور نہ عام سیاسی یا اصلاحی جماعتوں کی طرز کی کوئی محض سیاسی، اصلاحی اور رفاہی جماعت ہے۔ یہ دراصل اللہ کے اُن صاحب ِ احساس و شعور بندوں کی جماعت ہے، جواپنے اُس فرض کی ادائیگی کے لیے اُٹھے ہیں جو انسان کی تخلیق و آفرینش کا اصل مقصد ہے، جسے ہمارے خالق و مالک اور پروردگار نے ہمیں انسان اور مسلمان کی حیثیت سے پیدا کرکے ہمارے ذمے لگایا ہے، اور جس کی ادائیگی کے بغیر بحیثیتِ انسان اور بحیثیتِ مسلمان ہم اپنے انسانی و اسلامی منصب کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں۔ صرف آخرت ہی نہیں بلکہ اس دُنیا میں بھی ہم اس شرف اور مقام سے ہم کنار نہیں ہوسکتے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا اور اس کی دسترس میں رکھا ہے۔
یہ فریضہ اور یہ ذمّہ داری کیا ہے؟ اسے خالق کائنات نے اِس طرح بیان فرمایا ہے: ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو وہ اسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور وہ اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اس کو اُٹھا لیا‘‘۔(الاحزاب۳۳:۷۲)
یہ امانت جسے انسان نے آگے بڑھ کر اُٹھا لیا، کیا تھی؟ دراصل یہ ’خلافت‘ کی ذمہ داری تھی، چنانچہ اس عظیم منصب پر انسان کے تقرر کی رسم یوں ادا کی گئی:
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے لگا ہوں‘‘، تو انھوں نے عرض کیا: ’’ آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)
اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرشتوں کو اس بات کا مشاہدہ کرایا کہ مَیں انسان کو ’خلافت‘ ہی نہیں اس کے ساتھ علم اور ہدایت بھی دے رہا ہوں اور اس کے بعد فرشتوں کو بھی آدم کی اطاعت کا پابند کردیا: ’’اور ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائو‘‘(البقرہ ۲: ۳۴)۔ درحقیقت ’خلافت‘ کا یہ منصب صرف حضرت آدم ؑ کے لیے خاص نہیں تھا۔ ہرانسان اس منصب پر فائز ہے۔
قرآنِ مجید میں وضاحت ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے تم لوگوں کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (الانعام ۶:۱۶۵)
پھر یہ منصب ِ خلافت کسی ایک دور کے لوگوں تک محدود نہیں رکھا گیا ہے، ہر دور اور ہرنسل کے لوگ اس منصب ِ خلافت پر فائز ہیں اور ان کا امتحان لیا جارہا ہے کہ وہ اس کا حق کیسے ادا کرتے ہیں؟ ارشاد ہوتا ہے: ’’پھر ان کے بعد ہم نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا کہ دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو‘‘۔ (یونس۱۰:۱۴)
’خلیفہ‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس دائرئہ زندگی میں خلافت (آزادی سے کام کرنے کا اختیار دیا ہے) وہ خود بھی خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اور اس کا پسندیدہ نظامِ زندگی اختیار کرے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دے اور اس کا پابند بنائے اور انھیں خالق کی سرکشی سے باز رکھے۔
احکامِ الٰہی کی پابندی کیوں؟ :انسان کو آزادی اور حقِ خود اختیاری حاصل ہونے کے باوجود اِسے احکام و ہدایاتِ خداوندی اور اس کے مقرر کردہ نظامِ زندگی کی پابندی کیوں کرنی چاہیے؟ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دلیل ارشاد فرمائی ہے :
آگاہ رہو کہ مخلوق اس کی ہے تو پھر اُس پر حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے۔(الاعراف ۷:۵۴)
نیز فرمایا کہ تمھارے چاروں طرف زمین و آسمان کی ہرشے اپنے خالق و مالک کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہے تو کیا تم باقی ساری مخلوق سے الگ کوئی اور طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہو؟
اصل الفاظ یہ ہیں: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقِ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اللہ ہی کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہیں اور آخرکار ان سب کو پلٹ کر بھی اُسی کے پاس جانا ہے‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۸۳)
خدا کی مخلوق بسے اس کی زمین پر، تمام سامانِ زندگی وہ عطا فرمائے، پھر اطاعت اور بندگی اُس خالق و مالک کی چھوڑ کر کسی اور کی کیوں اور کیسے کرنے کا حق دار ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے: یہ خدا کا مقرر کردہ نظامِ زندگی (دینُ اللہ) کیا ہے؟
بلکہ جو لوگ یہ صحیح راہ پالینے کے بعد اسے چھوڑ کر کوئی دوسری راہ اختیارکریں ان کے لیے تو پھر سیدھی راہ پانے کا راستہ ہی بند کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے کج رو لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے:
كَيْفَ يَہْدِي اللہُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۸۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۸۶)آخر اللہ ایسے لوگوں کو کیسے اور کیوں صحیح راہ دکھائے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے اور رسول کے حق ہونے کی گواہی دینے کے بعد پھر کفر کی راہ اختیار کرلی اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تمام انبیائے علیہم السلام کا دین ایک ہی رہا ہے اور وہ اسلام ہے۔ یہ ایک ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان وہی ہے، کائنات اور ماحو ل وہی ہے، انسان کی فطرت اور جذبات و نفسیات اور ضروریاتِ زندگی بنیادی طور پر وہی ہیں، تو اس کے لیے زندگی کا نظام اور قانون بھی وہی رہے گا، جو ابتدا سے انسانی فطرت پر مبنی رائج ہے۔ پانی، ہوا، روشنی، گرمی، سردی، نباتات و جمادات اور ذرّے سے لے کر آفتاب تک کے لیے اوّل روز سے آج تک قوانینِ قدرت کا ایک ہی مجموعہ رائج ہے، جن کے تابع یہ تمام اشیاء کام کرتی ہیں اور جن کی وہ پابند ہیں۔ ان میں کبھی کسی ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے کیونکہ اُن کی فطرت و ماہیت، اُن سے متعلق قوانین میں بھی کسی ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ آئے گی۔
جب تک پانی پانی ہے اور ہوا ہوا ہے، ان سے متعلق قوانینِ قدرت وہی رہیں گے جو اوّل روز سے ان پر لاگو ہیں۔ بلکہ ان کے اٹل اور غیرمتبدل ہونے پر ہی علومِ طبیعی اور تمام سائنسی ترقیات کا مداروانحصار ہے۔ جس قدر انسان ان قوانین کے بارے میں اپنی معلومات اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل درآمد کرنے کی استعداد بڑھاتا جارہا ہے، اس کے علمی اور سائنسی کمالات حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے جارہے ہیں۔ ہر صاحب ِ عقل انسان یہ امرواقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ انسانی ترقی کا سارا راز اللہ تعالیٰ کے قوانین کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور زیادہ سے زیادہ خوبی کے ساتھ ان پر عمل درآمد کرنے میں پوشیدہ ہے، خواہ اس کا تعلق انسان کی مادی اور طبعی زندگی سے ہو، جدید سائنس کا میدان ہو یا اخلاقی اور دینی زندگی کا، جس کے بنیادی قوانین و ضابطے ہمیں قرآن و سنت بتاتے ہیں۔
انسانی فطرت کی پکار :ان حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر انسان اپنی اختیاری زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بھی وہ ضابطے اور قواعد و آداب سمجھتے ہوئے اختیار کرلے جو انسانی فطرت کے ٹھیک اسی طرح مطابق ہیں جیساکہ پانی، ہوا اور روشنی اور انسانی جسم کی طبعی صحت سے متعلق خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانینِ قدرت ہیں، پھر اُن کے مطابق اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرے تو وہ اپنی معاشرتی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں بھی مطابقت، باہمی اتفاق اور تعاون کے وہی کرشمے دیکھے گا، جو لوہے اور دھات کے ٹکڑوں کو قانونِ خداوندی میں جکڑ کر چاند اور مریخ تک پہنچنے کی شکل میں دیکھ رہا ہے۔
اس کائنات اور خود انسان کی زندگی کے طبعی دائرے کے لیے مقرر قوانینِ قدرت، اور انسانی زندگی کا اختیاری شعبوں کے لیے مقرر قوانینِ خداوندی دونوں کا سرچشمہ اورقانون ساز وہی قادرِ مطلق خالق ارض و سما ہے۔ مثال کے طور پر خالق نے کائنات اور خود انسان کے ذرّے ذرّے پر کچھ قوانین کو جبری طور پر نافذ کردیا ہے۔ اس لیے اس سے انحراف کی سزا اور انجامِ بد فوراً ظاہر ہوجاتاہے۔ جیسے: کوئی شخص زہر کھالے، یا آگ میں ہاتھ ڈال دے، یا بجلی کی رو کو چھوجائے تو نتیجہ خود واضح کردے گا کہ یہ غلط کام کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے جبری قوانین کو سکھانے کے لیے کسی نبی اور رسول کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انسانی تجربہ و مشاہدئہ قدرت ہی اس کے لیے کافی تھے۔
اسی طرح ایک دوسری قسم ہے قوانین کی، جن میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے، آزادی دی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے: سچائی میں ہمیشہ فائدہ اور فریب میں ہمیشہ نقصان نہیں ہوتا۔ انصاف و شرافت برتنے کا انجام ہمیشہ بھلائی اور ظلم و سفاکی سے ہمیشہ خرابی نمودار نہیں ہوتی۔ خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرکے آدمی بسااوقات مشکلات و مصائب میں گھر جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی و سرکشی کی راہ اختیار کرکے عیش و فراوانی کی زندگی بھی گزارتا ہے۔ اس لیے کہ اس دائرئہ زندگی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانینِ قدرت کو جبری طور پر نافذ نہیں کیا، بلکہ ان کو اختیار کرنا، یا ان کو رَد کرنا انسان کے اختیاراتِ تمیزی پر منحصر رکھا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آزمایش و امتحان اور خلافت کا سوال ہی باقی نہ رہتا۔ ان قوانین کو چونکہ انسان تجربے و مشاہدے اور سائنسی طریقوں سے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کرسکتا تھا، اس لیے پہلے ہی روز انسان کو بتادیا کہ دائرئہ خلافت میں اس کے لیے ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ خود بتائے گا:
ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اُتر جائو۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرہ ۲: ۳۸-۳۹)
lدین ، دُنیا میں عملًا قائم کرنے کے لیے ہـے :چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو طریقِ زندگی (دین) مقرر کیا ہے، وہ ہر دور اور ہرنبی اور رسول کے زمانے میں ایک ہی رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اس کائنات کی دوسری چیزوں کی طرح انسان ہمیشہ سے وہی ابنِ آدم اور اسی فطرت پر ہے جس فطرت پر وہ آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، تو اس کی زندگی کے لیے مقرر کردہ اللہ کا دین اور ضابطۂ حیات مختلف زمانوں میں مختلف کیسے ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
اے محمدؐ! کہہ دو کہ ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں، اُس کے اس دین کو مانتے ہیں جو ہم پر اُترا، جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر اُترا اور جو موسٰی اور عیسٰیؑ کو اور دوسرے انبیاؑ کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم تو صرف اللہ کے تابع فرمان ہیں۔(اٰلِ عمرٰن ۳:۸۴)
دوسری جگہ اس صراحت کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ دین زبانی اور صرف انفرادی طور پر ماننے اور عمل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ دُنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے ہے:
اُس (اللہ) نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب (قرآن کی صورت میں) تمھاری طرف وحی کیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیمؑ، موسٰی اور عیسٰیؑ کو دیا تھا۔ (اور سب کو یہ حکم دیا تھا) کہ اس دین کو قائم کرو اور اس کام میں کوئی اختلاف نہ کرو۔(شوریٰ۴۲:۱۳)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض :حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ وضاحت سے فرمایا:’’اس نے اپنے رسولؐ کو دین حق اور اس بارے میں ضروری ہدایات دے کر اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہ خدا کے دین کو دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کردے‘‘۔(التوبہ۹:۳۳ ، الکہف۱۸:۲۸، الصف۶۱:۹)
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ہیں اور آپؐ کے بعد اب کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس لیے آں حضورؐ کے بعد آپؐ کے مشن کو تاقیامت جاری اور برپا کرنے کی ذمہ داری آپ سے آپ آپؐ کی پیرواُمت پر آجاتی ہے، لیکن اسے قیاس اور اندازے لگانے پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ اُمت کو صاف صاف بتا دیا گیا:
اللہ نے تمھارا نام مسلمان (اپنی تابع فرمان رعیّت) رکھا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس منصب پر فائز لوگوں کا یہی نام رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی تمھارا نام یہی رکھا گیا ہے (اور یہ اس لیے کیا گیا ہے) کہ رسولؐ تم پر خدا کے دین کی شہادت قائم کرے اور تم دوسرے لوگوں پر اس کی شہادت قائم کرو۔ (الحج۲۲: ۷۸)
اور اس طرح ہم نے تمھیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر خدا کے دین کے گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔ (البقرہ۲:۱۴۳)
اس فریضے کی ادائیگی سے کسی حال میں کوئی مسلمان سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ حضورؐ نے فرمایا:
تم میں سے جو کوئی خدا کی نافرمانی کی حالت کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے قوتِ بازو سے اطاعت ِ الٰہی کی حالت سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لازم ہے کہ اس صورتِ حال کے خلاف آواز بلند کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ اس سے دل سے نفرت کرے۔[مسلم، باب النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۱۸۶]
بـے وفائی کا مسئلہ :ان تمام حقائق و احکام کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کو اپنی مملکت کے کسی حصے کا گورنر یا کسی ضلع کا حاکم بنا کر بھیجے، اور وہ اپنی حکومت کے احکام بجا لانے اور نافذ کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرنے لگ جائے، یا کسی دوسری حکومت کی اطاعت کرنے لگے، تو اس کو مقرر کرنے والی حکومت ایسے نمک حرام گورنر اور ضلعی افسر سے کیا سلوک کرے گی؟ وہی جو ایک نمک حرام کے ساتھ ہونا چاہیے یا کچھ اور؟
اسی طرح اگر ہم لوگ، جن کو خو د خالقِ کائنات نے انسان کی حیثیت سے پورے کرئہ ارض کی مخلوق میں سے چُن کر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا، اسلام کی روشنی اور اس پر ایمان کی نعمت سے نوازا۔ ہم نے گلی گلی اعلان کیا کہ ہمیں اگر تو انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزاد ملک عطا فرمائے، تو ہم تیرے شکرگزار بندے بن کر تیرا پسندیدہ نظامِ زندگی یہاں قائم کریں گے اور تیرے دین کی شہادت ایک مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کی صورت میں ساری دُنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ اس پر اُس نے ہمیں دُنیا کی ایک بڑی مسلم مملکت عنایت فرمائی، لیکن ہماری طرف سے بحیثیت قوم سوائے بے وفائی اور وعدہ خلافی کے کوئی چیز سامنے نہ آئی، تو مالک ِ کائنات سے ہمیں اپنے ساتھ کس سلوک کی توقع کرنی چاہیے؟
آدھے سے زیادہ ملک کھو چکے ہیں اور باقی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کا مقصد :جماعت اسلامی زمین پر خلافتِ الٰہی کے اسی انسانی فرض اور فریضۂ اقامت ِ دینِ حق کو واحد نصب العین قرار دے کر وجود میں آئی ہے۔ اوّل روز سے اس کے سامنے یہی ایک مقصد رہا ہے۔ آج بھی اُسی کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور جب تک ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہرشعبے میں شریعت ِ الٰہی کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، جماعت اسلامی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اس نصب العین کو جماعت کے دستور کی دفعہ۴ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’جماعت اسلامی کا نصب العین اوراس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔
جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں فرق :ملک میں بہت سی مذہبی اور سیاسی اور اصلاحی جماعتیں کام کر رہی ہیں، جن کی کاوشوں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ ان سے ہماری کوئی رقابت نہیں ہے۔ لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا اصلاحی جماعتیں ہیں ___ ان میں سے کوئی بھی جامع اسلامی جماعت نہیں کیونکہ اگر وہ مذہبی ہیں تو ان میں ہرمسلمان شامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کوئی دیوبندی مکتب ِ فکر کی ترجمان جماعت ہے، کوئی بریلوی مسلک سے وابستہ ہے، کوئی اہل حدیث، کوئی سنیوں کے کسی ایک گروہ کی اور کوئی شیعوں کی نمایندہ۔ ان کا اصل زور اپنے اپنے فقہی مسائل کی ترویج، اشاعت اور دفاع پر ہے۔ سیاسی اور اجتماعی حصہ صرف انتخابات میں شرکت کی حد تک ہے۔
سیاسی جماعتیں ہیں تو ان کے پروگرام بیش تر یکساں اور سیکولر ہیں۔ صرف شخصیتوں کے اختلافات نے ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اسلام اور دین کا نام وہ ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے تو لیتی ہیں، لیکن ان کی سوچ اور پروگراموں کو اسلام سے عام طور پر اس سے زائد تعلق نہیں کہ ان کے بنانے والے مسلمان ہیں۔ اسلام سے رہنمائی لینا اور اس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ ذہنی انتشار و پراگندگی کا اندازہ اس ایک بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت میں کوئی تضاد نہیں نظر آتا۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتی ہیں اور مسلمانوں کو امیر اور غریب، مالک اور مزارع اور کارخانہ دار اور مزدور میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی کررہی ہیں۔
جماعت اسلامی ان کے برعکس اسلام کے عقیدے، طریقِ تنظیم اور اخلاقی پابندیوں پر قائم کی گئی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر کسی جماعت کے کارکن تو درکنار لیڈر تک فرائضِ اسلام کی پابندی، کبائر سے اجتناب اور صریح حلال و حرام کا امتیاز بھی نہیں کرتے، اپنا جماعتی نظام آمریت پر چلا رہے ہیں، تو ایسے لوگ ملک کو اسلام اور جمہو ریت پر کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے قائم کریں گے؟
اسی طرح اگر مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کے پیش نظر وہی مقصد ہو، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کا مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا اور نہ ہونا چاہیے، تو سو چنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو فرائض کی پابندی اور کبائر سے بھی اجتناب نہ کرتا ہو، اور حرام و حلال کی پروا تک نہ کرے اور نظامِ جماعت کا پابند نہ ہو، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوسکتا تھا یا اس میں شامل رہ سکتا تھا؟ وہاں تو منافقین تک کو یہ سارے کام مخلص مومنین کی طرح کرنے پڑتے تھے، لیکن ہمارے یہاں تو کسی جماعت کے کسی چھوٹے یا بڑے لیڈر کے لیے بھی فریضۂ دین کی پابندی یا کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی ضرورت نہیں ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم اور نظام :جماعت اسلامی اپنے کام کا آغاز ملک کے تمام لوگوں کو اسلام کے عقیدے اور اس کے کم سے کم تقاضوں پر عمل کی دعوت سے کرتی ہے۔ جو لوگ اس عقیدہ کا احترام کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہوں، اُن کو اپنے سے باقاعدہ وابستہ کرتی ہے۔
جماعت اسلامی اپنی ’رکنیت‘ صرف ان لوگوں کودیتی ہے جو کلمۂ توحید اور اُس کے تقاضوں کو اچھی طرح سے سمجھ کر اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کا عہد کریں۔ خدا کو حقیقتاً اپنا مالک و معبود اور ہادی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً اپنا رہنما و پیشوا بناکر کلمۂ طیبہ کی شہادت دیں۔ اسلام کے عائد کردہ فرائض کی پابندی، کبائر سے اجتناب، حرام و حلال کی تمیز اور جماعت کے نظم کی پابندی کا عہد کریں اور اپنے عمل سے اِن سب باتوں کا ثبوت فراہم کردیں۔ جماعت کا ’رکن‘ ان شرائط پر پورا اُترنے والے لوگوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔
جو حضرات مذکورہ بالا باتوں سے اتفاق اور اس کے اہتمام کی کوشش کا عہد کریں، اقامت ِ دین یعنی اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کو اپنا نصب العین بنالیں لیکن رکنیت کی ذمہ داریاں پوری طرح اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں یا کسی وجہ سے اس بارے میں معذور ہوں۔ اُن کو ’متفق‘ بنا لیا جاتا ہے اور ان کی مزید تربیت کی جاتی ہے کہ وہ آیندہ رکنیت کے لیے آمادہ اور تیار ہوجائیں۔
جماعت کی مالیات کا سارا انحصار جماعت کے ارکان، متفقین اور عام حامیوں کی اعانت، زکوٰۃ، عشر اور جماعتی لٹریچر کی فروخت کی آمدنی پر ہے۔ ہرسال مرکزی مجلس شوریٰ سال بھر کے کاموں اور اخراجات کا تخمینہ لگاکر مرکزی بجٹ تیار کرتی ہے اور اسے صوبائی جماعتوں پر تقسیم کردیا جاتا ہے۔ صوبائی جماعتیں اپنے ذمّے کی رقم میں اپنے سال بھر کے اخراجات شامل کرکے صوبائی مجلس شوریٰ کے ذریعے صوبائی بجٹ تیار کرتی ہیں اور اسے اپنی ضلعی جماعتوں پر تقسیم کردیتی ہیں، اور پھر ضلعی جماعتیں اسی طرح مقامی جماعتوں، حلقہ ہائے جماعت اور منفرد ارکان پر اُسے عائد کردیتی ہیں۔ اس طرح نیچے سے رقم جمع ہوکر مرکز تک پہنچتی ہے اور جماعت کے سارے کام چلتے ہیں۔
جماعت میں فیصلے کا طریقہ یہ ہے کہ:
۱- قرآن و سنّت کے واضح احکام کی پیروی کی جاتی ہے۔
۲- پالیسی اور پروگرام اور دوسرے اُن اُمور جن میں قرآن و سنت میں واضح ہدایات موجود نہ ہوں، ان کے آخری فیصلے کا اختیار ارکانِ جماعت کے اجتماع عام کو حاصل ہوتا ہے۔ اجتماع عام کی غیرموجودگی میں یہ فیصلے مرکزی مجلس شوریٰ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی مجلس شوریٰ میں عام طور پر اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، خواہ اس میں زیادہ وقت صرف ہوجائے، لیکن اختلاف باقی رہنے کی صورت میں آخرکار فیصلہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہوتا ہے، جس کی پابندی پھر سب پر لازم ہوتی ہے۔
۳- جماعت اسلامی، کسی قسم کے تشدد، سازش، خفیہ جوڑ توڑ، اداروں سے سازباز یا اسلحے کے زور پر کسی قسم کی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ دستوری، اصولی اور اخلاقی بنیادوں پر ان کی سخت مذمت بھی کرتی ہے، اور ایسے عناصر کو جماعت کی تنظیم کے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتی۔
جماعت اسلامی فی الحقیقت اسلام کی عالم گیر دعوت کی علَم بردار ہے۔ اپنے ملک میں اپنی کوششوں کو اس امر پر مرتکز کیے ہوئے ہے کہ اسے ایک مثالی اسلامی ریاست اور معاشرہ بناکر دُنیا کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا جائے کہ کس طرح اسلام انسان کے تمام مسائل کو بہترین طریق پر اور پورے انصاف کے ساتھ حل کرتا ہے۔
جماعت کی دعوت خدا کے فضل سے دُنیا کے بیش تر ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ ۴۵ سے زائد زبانوں میں اس کے لٹریچر کی متعدد کتابوں کے تراجم شائع ہورہے ہیں۔ بیرونِ ملک تبلیغ کا کام ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں اس دعوت سے متاثر لوگوں نے خود دعوتی مشن شروع کردیے ہیں اور وہ بہت خوبی سے اس کام کو کر رہے ہیں۔
گیارہ مئی ۱۹۵۳ء، جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی، جو بعد میں عوامی اور عالمی دبائو کے سبب عمرقید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ ۶۸برس بعد اس خبر سے منسلک جذبات، احساسات اور اُمور کو مولانا مودودی کے چند قریبی رفیقوں کی زبانی پیش کیا جارہا ہے۔ (س م خ)]
ہم لاہور جیل کے ’دیوانی گھروارڈ‘ کے صحن میں مولانا مودودی کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے، جب پندرہ بیس افراد اور وارڈر صحن میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد ہم آنےوالوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
ایک افسر ، جس کے ہاتھ میں فائل تھی، پوچھا: ’’ملک نصراللہ خان عزیز؟‘‘
ملک نصراللہ صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔
’’آپ کو روزنامہ تسنیم ۵مارچ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے‘‘۔
پھر اسی افسر نے پوچھا : ’’سیّد نقی علی؟‘‘
نقی علی صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔
’’آپ کو مولانا مودودی کا پمفلٹ قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔
پھر وہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا:
آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے… آپ چاہیں تو سات دن کے اندر [پاکستان کی مسلح افواج کے]کمانڈر انچیف [جنرل محمد ایوب خان] سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا:
’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے‘‘۔
جیل کے ا فسروں نے ان تینوں حضرات سے کہا: ’’آپ لوگ جلدی تیار ہوجائیں۔ ملک نصراللہ خان اور سیّد نقی علی سزایافتہ قیدیوں کی بارک میں جائیںگے اور مولانا مودودی پھا نسی گھر میں‘‘۔
مولانامودودی صاحب نے جیل کے افسروں سے دریافت کیا: ’’کیا اپنا بستر اور کتب وغیرہ ساتھ لے لوں؟‘‘
انھوں نے جواب دیا کہ ’’بس ایک قرآنِ مجید چاہیں تو لے لیں اور کچھ نہ لیں۔ بستر، کپڑے آپ کو وہاں مل جائیں گے‘‘۔
چنانچہ مولانا نے چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی اور ہم لوگوں سے گلے مل کر اس طرح سے روانہ ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاًایک احاطے سے دوسرے احاطے کی طرف جارہے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ایک وارڈر آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی،قمیص، پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’انھیں جیل کے قاعدے کے مطابق کھدر کا کُرتا اور آزاربند کے بغیر کھدر کاپاجامہ اور پھانسی گھر میں فرشی ٹاٹ کا بستر دے دیا گیا ہے۔ وہاں وہ اپنے کپڑے اور آزاربند والا پاجامہ رکھ بھی نہیں سکتے‘‘۔
سزائے موت کے اس انتہائی فیصلے سے پوری جیل پر ایک دہشت اور خاموشی طاری تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مَیں، یعنی تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔
مولانا مودودی صاحب کے ان پارچات کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان پارچات کو کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زاروقطار روتے ہوئے فرمایا: ’’مودودی کو مَیں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے ہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے‘‘۔
ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر صاحب بھی دھاڑیں مارمار کر رونے لگے، اور معاً مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے حکم کے کسی عدالت کے رُوبرو قابلِ اپیل نہ ہونے اور مولانا مودودی کی طرف سے رحم کی اپیل کی پیش کش کو صاف مسترد کردینے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
یہ احساس ہوتے ہی مَیں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا۔
اگلے روز جیل کے وارڈروں کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت یہ معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھرگئے۔ پھا نسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے۔ کوٹھڑی کے جنگلے سے باہر رکھی ہوئی پانی کی گھڑیا سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دوفٹ چوڑے اور ساڑھے پانچ فٹ لمبے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے خراٹے سن سن کر پہرے دار حیرت میں ڈوبے رہے کہ ’’یااللہ، عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے کہ گویا اس لمحے اس کے سارے فکر اور تردّد دُور ہوگئے ہیں‘‘۔
[سزائے موت سنائے جانے سے چار روز پہلے فوجی عدالت میں ۷مئی ۱۹۵۳ء کو اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں مولانا مودودیؒ نے بتایا]:
۲۷اور ۲۸مارچ [۱۹۵۳ء] کی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کےتمام رجسٹروں پر، اور میرےاور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے بیت المال کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میںلے لی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شہرلاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوںکو بھی اسی رات گرفتار کیا گیا۔
اس کے بعد ایک مہینہ چھے دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خوردبین لگالگا کر دیکھا گیا۔ مجھ پر اور جماعت کے دوسرے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا Interrogation ہوتا رہا۔ جس کے سوالات کا انداز صاف بتارہا تھا کہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت کا تعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس عدالت کے سامنے دومقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں،[۱] جن میں سے ایک [پمفلٹ] قادیانی مسئلہ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے، جو آخر فروری اور ۷مارچ ۵۳ء کے درمیان مَیں نے پریس کو دیئے۔
اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگانا تھا، مگر جب کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی ،جن پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کر پیش کیےگئے ہیں۔ ورنہ ظاہرہے کہ اگر میرے ’گناہ‘ صرف وہی دو تھے جو پیش کیے جارہے ہیں، تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اوردوسرے ریکارڈ پر اور جماعت کے بیت المال پر قبضہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔
جماعت اسلامی نے ابتدا سے آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیا.....
رات ہی رات میں تقریباً ساری جیل میں یہ خبر پھیل گئی تھی، مگر ہم اس خبر سے بالکل بے خبررہے،یا بے خبر رکھے گئے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ، آہ! کیا آخری گھڑی آگئی؟ کیا دین کے دیے اب یہاں گُل کر دیے جائیں گے؟ کیا واقعی ہمارے ملک میں دشمنانِ دین کی حقیر اقلیت کے نمایندے اتنی قوت رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کےگلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیں؟
مگر معلوم نہیں کیسے،اگلے ہی لمحے دل میں نئے جذبے نے کروٹ لی، خیال آیا کہ یہ لوگ مولانا مودودی کو پھانسی دے بھی ڈالیں، تو کیا یہ مودودی کے پیغام اور فکر کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکا ہے، اور جس نے نوجوان نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر دین حنیف کے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے۔ اب مودودی کا پیغام موجودہ دور کی تاریخ کی رگوں کے اندر اُتر چکا ہے۔ اس کے خیالات اس کے مخالفین تک کے ذہنوں میں بولتے ہیں۔ اس کی اصطلاحات، اس سے حسد کی آگ میں جلنے والوں تک کا جزوِ دماغ ہوچکی ہیں۔ اس کی آواز کی گونج اب دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ جس تحریک کو اس نے اپنے پسینے سے پرورش دی ہے، اگر اس کی جڑوں کو اس کے خون کے قطروں سے سیراب کردو گے، تو وہ آناًفاناً ایک تناور درخت بن جائےگی۔ اس کی موت، اس کے پیغام کو زندہ تر کردےگی۔
یہ سوچتے سوچتے ہم ’دیوانی گھر‘ کے پاس آپہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا اصلاحی، چودھری محمداکبر، میاں طفیل محمد سبھی دروازے پرآگئے۔ تاثرات کا دوطرفہ یہ عالم تھا کہ نہ ہم بات میں پہل کرنا چاہتے تھے اور نہ وہ حضرات اس ذکر کو چھیڑناچاہتے تھے۔ ہماری نگاہوں ہی نگاہوں نے استفسار کیا اور ان کی نگاہوں ہی نگاہوں نے خبر کی تصدیق کردی۔
[۱۲مئی ۵۳ء کی صبح، امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے بیان دیا]:
’’اگر اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ’جرم‘ ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’اسی جرم‘ کے ارتکاب کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو پُرمن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان شاء اللہ آخری سانس تک جاری رکھا جائےگا، چاہے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘۔
۱۲مئی کی صبح، اباجان نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
بیٹا، ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے، تو بندہ بخوشی اپنے ربّ سے جاملے گا۔ اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں، تو پھر چاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔
محترم شیخ سلطان احمد صاحب کے ہمراہ یہ ملاقات ہوئی تھی، ان سے مخاطب ہوکر اباجان نے کہا:’’بھائی، میرا مسلک آپ کو معلوم ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے، جو میرا اصل جرم خوب جانتے ہیں، معافی کا طلب گار بننے سےیہ زیادہ قابلِ برداشت ہے کہ آدمی پھانسی پر لٹک جائے‘‘۔
مزید فرمایا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی۔ اور اگروہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔
میں اس زمانے میں بطور طالب علم ایم اے کی تیاری کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ سے، جس کی کراچی کی شاخ اور حلقہ سندھ کا مَیں ناظم تھا، ۲۴دن کی چھٹی لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں لگا ہوا تھا کہ اسی دوران ۱۲مئی کی صبح روزنامہ Dawn گھر آیا، تو اس کے صفحۂ اوّل پر نمایاں سرخی تھی: Maududi to Die
میرے لیے سزا کی اطلاع کا ذریعہ اخبار کی یہی خبر تھی۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی تو پہلا تاثر یہ تھا کہ ’’یہ خبر غلط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر خیال آیا: ’’یہ تم کیا کہتے ہو، جفاکار اقتدار نے منصوبے تو ہمیشہ ایسے ہی بنائے ہیں‘‘۔ پھر دل بیٹھنے لگا تو آنکھوں کی برکھا نے دل کا ساتھ دیا۔
کیفیت عجیب تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟___ اور عقل کہتی تھی کہ ’’ہاں، کیوں نہیں ہوسکتا۔ بارہا ایسا ہوا ہے اور اگر آج بھی یہی ہونے جارہا ہے، تو کون سی عجیب بات ہے‘‘۔ لیکن دل کہتا تھا کہ ’’نہیں، ایسا ہونہیں سکے گا، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بناہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام کے ایک خادم کو پھانسی دے دی جائے؟‘‘
انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ والدہ محترمہ نے پکارا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں۔ پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مجھے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے لرزتے ہاتھ سے اخبار ان کے آگے کر دیا،اور انھوں نے پڑھ لیا۔
کتابیں بند کرکے میں نے کپڑے بدلے اور اجازت لے کر باہر نکلنے لگا تو والدہ سخت پریشانی کے عالم میں مجھ سے باربار پوچھ رہی تھیں: ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا، مگر تحت الشعور میں جگر مراد آبادی کے یہ اشعار تھے:
یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاکِ وطن ساقی
خدا حافظ چلا میں باندھ کر دارورسن ساقی
سلامت تُو ،ترا میخانہ ، تیری انجمن ساقی
مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رَسن ساقی
اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر ۲۳، اسٹریچن روڈ پر خرم، راجا، منظور، عمر، انور، مرغوب، محمد میاں دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی۔ سب ایک جیسے ذہنی اور جذباتی سفر میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ چندمنٹ کی گفتگو کے بعد منصوبہ یہ بنا کہ عوام سے ہڑتال کی درخواست کی جائے اور ہم سب اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگ بھی عجیب عالم میں تھے۔ یہ جذبات و احساسات میں یگانگت کا عالم تھا۔ ہمیں ہڑتال کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی۔ ہم جہاں جاتے، لوگوں کو پہلے ہی سےآمادہ پاتے۔ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ یہ احتجاج کا پہلا بھرپور اظہار تھا۔ داعی تحریک اسلامی کے لیے اس سزا کے اعلان نے فکروعمل کی یکسوئی کا جوسوال پیش کیا تھا، ہم سب یکسوئی کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لیے ہم قدم اور یک زبان تھے۔
ہم وطنوں کے جس سوال کا ہم سامنا کررہے تھے، وہ یہ تھا کہ ’’مولانا مودودی کے لیے یہ سزا کیوں؟ اور اگر اسلامی نظام کا مطالبہ ہی اس سزا کی بنیاد ہے تو پھر مولانا یہ سزا پانے والے پہلے فرد تو ہوسکتے ہیں آخری کیوں کر ہوں گے؟‘‘
میں ڈھاکا میں دفتر جماعت سے دو تین میل دُور مقیم تھا، اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کا قیم تھا، جب کہ امیرچودھری علی احمد خان صاحب تھے، جو مارشل لا کےتحت مولانا محترم کی گرفتاری کی خبرسننے کےبعد مغربی پاکستان تشریف لےگئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آسکے تھے کہ ۱۲مئی کی صبح کو ہمیں یہ خبر ملی۔یہ خبر ہم میں سب سے پہلے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ریڈیو پر سنی اور فوراً دفتر میں پہنچے۔ وہاں منیرالزمان صاحب یہ اطلاع ملتے ہی میری طرف روانہ ہوگئے۔
منیر الزماں صاحب کے اس وقت آنے پر مجھے کچھ اچنبھا سا محسوس ہوا۔ باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ فوجی عدالت نے…‘‘۔ منیرالزمان صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے، لیکن میرے لیے یہ خبر ’’مولانا مودودی کو موت کی سزا‘‘ پر آکر ختم ہوچکی تھی کہ یہ ایک مکمل خبر تھی۔ آگے میں کچھ نہ سننا چاہتا تھا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ منیرالزمان صاحب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں فوراً سنبھل گیا۔
اب ہم دفتر جماعت اسلامی کی طرف آرہے تھے۔ اس لمحے ایک دم بہت سے سوالات ذہن میں آگئے: کیا تحریک اسلامی اسی لیے اُٹھی تھی کہ یوں ختم کردی جائے؟ کیاداعی تحریک کی زندگی کا خاتمہ واقعی اس قدر قریب آگیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا؟ یہ سوالات یکے بعد دیگرے تیزی سے یلغار کر رہے تھے۔ لیکن میرے اندر کی معلوم نہیں کون سی دُنیا سے، ہربار اور ہرسوال کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں پلٹ رہا تھا۔ دل و دماغ کا یہی جواب تھا کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔
اس روز مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب اورمولانا مفتی دین محمد صاحب ڈھاکا میں موجود تھے۔ ہم ان کے پاس گئے۔ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی اور ان کے احساسات کا عالم بھی وہی تھا جو ہمارا تھا۔ مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب کے الفاظ تھے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جیسے لوگ دُنیا میں رہیں اور سیّد کا گلا کاٹ دیا جائے۔ اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو ہم اپنی گردنیں پیش کردیں گے‘‘۔
عشاء کے بعد مولانا مفتی دین محمد صاحب کی صدارت میں ڈھاکا شہر کی سب سے بڑی مسجد میں احتجاجی جلسۂ عام ہوا۔اس جلسے میں مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب اور میری تقریر کے بعد سزائے موت کی تنسیخ کے لیے قرارداد منظور ہوئی اور اعلان ہوا کہ ’’۱۴مئی کو پلٹن میدان میں جلسہ ہوگا‘‘۔
چاٹگام، کھلنا، کشتیا، باری سال اور دوسرے مقامات پر بھی جماعت کے کارکنان احتجاج میں مصروف کار تھے۔ دن تاریکی میں داخل ہوچکا تھا مگر نگاہیں بدستور روشنی کی راہ ڈھونڈ رہی تھیں۔
مولانامودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کی خبر ہمیں ملتان جیل میں ملی، اور چندسیکنڈ کے اندر پوری جیل میں پھیل گئی۔ خبر کانوں میں پہنچنےکے بعد پہلے دل پر اثرانداز ہوئی اور پھر دماغ پر۔ دل نے کہا: ’’اب جینابے کار ہے‘‘۔ دماغ نے سوچنے کی کوشش کی: ’’اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘
پھر ایسامعلوم ہواجیسے جیل کی دیواریں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں، اور میں بے بسی کے عالم میں ڈوب رہاہوں، اور یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسی دوران گوجرانوالہ کے ایک قیدی محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا، اور مجھے کچھ کہے بغیر وہیں کھڑے قیدیوں کی طرف متوجہ ہوکر کمال درجہ یقین سے مختصراً خطاب فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے درجات کو بلند کرتاہے تو اس پر بظاہر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخیروخوبی آفتوں سے نکال لیتاہے اور ظالموں کا ظلم اس شخص کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمیں خضوع و خشوع سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا چاہیے۔ سب دیکھیں گے کہ ظالموں کی رُسوائی کاانتظام ہوگا اورمولانا مودودی دین کی خدمت کے لیے بچ جائیں گے۔
ہم دُعا میں مشغول ہوگئے۔ ایسی کیفیت میں دُعا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضری کا احساس ہوا، اور پھر جیسے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کر کہہ رہا ہو کہ ’’زندگی اور موت تواللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہے، اگر یہ اختیار انسانوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں انسان ہوتے ہی کہاں؟‘‘
کشتیا ٹائون میں ’پاکستان تمدن مجلس‘ کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی کہ یہ خبر وہاں پہنچی: ’’فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی ہے‘‘۔ میں اس سزا کے پس منظر اور سزا پانے والے کی شخصیت سے بھی لاعلم تھا اور اس سے بھی بے خبر تھا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک موجود ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے۔ صرف مکتبہ جماعت اسلامی کا نام سن رکھا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والا کوئی اشاعتی ادارہ ہے۔
جس وقت مولانا مودودی صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کی خبر ’پاکستان تمدن مجلس‘ کے اجلاس میں پہنچی، جس کا مَیں کا رکن تھا، تو مجلس کے بعض ارکان: جناب ابوالقاسم، مولانا سخاوت الانبیاء اور مولانا عبدالغفور صاحبان نے اپنی تقاریر میں اسلامی دستور کے لیے جماعت اسلامی کی مہم اور خدمات کا ذکر کیا۔ اس طرح مجھے جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے مشن کے بارے میں چند سرسری سی معلومات حاصل ہوئیں۔
ان دنوں میں رنگ پور کالج میں پڑھا رہا تھا۔ چونکہ شروع سے دینی ذوق رکھتا تھا، اس لیے تبلیغی جماعت اور تمدن مجلس دونوں سے منسلک تھا۔ تبلیغی جماعت میں سیاسیات، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور تمدن مجلس میں باقی سب موضوعات تھے، مگر نماز، روزے کی کمی تھی۔ میں ان دونوں سے وابستہ ہوکر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کسی بڑے تعارف کے بغیر ایک عام مصنف کے طور پرمولانا مودودی کے خطبے ’دینِ حق‘ کا بنگلہ ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ سزائے موت کی خبر سننے کے اگلے چند ماہ کے دوران مولانا مودودی صاحب کی کچھ مزید کتابیں پڑھیں۔ چونکہ کالج کی میلادکمیٹی کا صدرتھا، اس لیے مَیں نے جلسوں میں مٹھائی کے بجائے اسلامی لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔
رنگ پور ہی میں ۱۹۵۴ء میں مولانا عبدالخالق صاحب سے جمعہ کے روز ایک مسجد میں ملاقات ہوئی۔ اعلان ہوا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا عبدالخالق صاحب اورتبلیغی جماعت کی طرف سے غلام اعظم خطاب کریں گے۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہمیں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو جس کش مکش سے گزرنا پڑرہاہے، اس میں ہمیں اپنے بنیادی فرض کو سمجھنا چاہیے‘‘۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پہلے لوگوں کو صحیح کلمہ توپڑھنا بتایئے ،پھرانھیں اسلامی کتاب پڑھایئے‘‘۔
لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔مولانا عبدالخالق صاحب نے رخصت ہونے سے پہلے مجھے دو سوالات پر غور کرنے کی دعوت دی:
پہلا سوال یہ تھا کہ ’’آپ بھی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی مصلح تودرکنار کوئی نبی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دین کی دعوت دی ہو اور وقت کےاقتدار نے اسے برداشت کرلیا ہو۔ مگر آپ جو دعوت دیتے ہیں کوئی اقتدار اور کوئی صاحب ِ اقتدار اس سے کبھی برافروختہ نہیں ہوا؟ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘
ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’آج بھی جب دین کی مؤثر دعوت دی جاتی ہے توہرقوت اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ آپ تمام حقائق کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ مولانا مودودی کے لیے پہلے سزائے موت اور پھر موت کی سزا عمرقید بامشقت میں بدلنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟‘‘
مولانا عبدالخالق صاحب تو چلتے ہوئے سوال کرکے چلے گئے، لیکن میں بے چینی کے سمندر میں جاگرا۔ جوچیز مجھے بار بار بے چین کر رہی تھی، وہ یہ کہ اگر میں اب تک حق کی جدوجہد کے لیے وقف رہا ہوں توایسا کیوں ہے کہ سارے سفر میں ایک کانٹا بھی میرے پائوں میں نہیں چبھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ باطل نے مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھ کر میرے کام سے یہ سمجھوتہ کرلیا ہے کہ ’’مجھے نہ چھیڑو، مجھے میری راہ پر چلنے دو، میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا؟‘‘ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ جسے باطل بے ضرر سمجھ لے وہ حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر میری موجودہ مصروفیات اور جدوجہد ہی حق کو سربلندکرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے تو باطل نے مجھے نظرانداز کیسے کر دیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات اور پھر داخلی دُنیا میں جوابات نے میری نیند اچاٹ کر دی۔ بھوک پیاس کسی چیز کا خیال نہ رہا۔ پندرہ دن اسی حالت میں گزر گئے۔ میری بے اطمینانی اور پریشانی کی حالت دیکھ کر جب تین چار احباب نے مجھ سے گفتگو کی اور میں نے اپنے دل کا درد ان کے سامنے رکھا، تو وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔
اسی دوران ایک روز مولانا عبدالخالق صاحب کا مختصر سا خط آیا کہ ’’جماعت اسلامی کی دوروزہ کانفرنس گائے باندھا کے مقام پر منعقد ہورہی ہے، آپ اس میں شرکت کریں‘‘۔میں کانفرنس میں شریک ہوا۔کانفرنس ختم ہوئی تو اسی کمرے میں مختلف حضرات سے گفتگو شروع ہوئی۔ رات کے تین بج گئے تو باقی گفتگو کو نمازِفجر کےبعد تک ملتوی کرکے سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسرے حضرات سوگئے، لیکن میری نیند ایک بار پھر اُچاٹ ہوچکی تھی۔
اسی کمرے میں جماعت اسلامی کے ایک معمر رکن شیخ امین الدین صاحب (بہار) بھی موجود تھے۔ وہ میری حالت کو دیکھ رہے تھے۔جب کروٹیں بدل بدل کر کسی طرح نیند نہ آئی تو مَیں اُٹھا اور تہجد پڑھنے لگا۔ دُعا کے وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں باربار کہہ رہا تھا:
’’یااللہ! میری رہنمائی کر۔ یااللہ! میری رہنمائی کر‘‘۔
نمازِ فجر کے بعد جب ہم سب گفتگو کے لیے اکٹھے ہوئے تو شیخ امین الدین صاحب نے کوئی بات کیے بغیر میرے سامنے متفق کا فارم رکھ دیا۔ میں نے پڑھا اور بلاتامل فارم پُرکرکے دستخط کردیئے۔ یہ ۲۲؍اپریل ۱۹۵۴ء کا دن تھا۔ اس کے بعد سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ میں نے وہیں سے ’پاکستان تمدن مجلس‘ کو استعفیٰ بھیج دیا۔ پھر جماعت کے ایک پندرہ روز تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔ متفق بننے کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں رکنیت کی درخواست تحریر کی۔
۱۹۵۴ء ہی میں میجر جنرل سکندر مرزا، مشرقی پاکستان کے گورنر [۲۹مئی - ۲۳؍اکتوبر] بن کر آئے۔ ان کی آمدسے پہلے تک وہاں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہواتھا۔ مگر سکندرمرزا صاحب نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا اور نچلی سطح تک مختلف کمیٹیاں بن گئیں۔ جماعت کے خلاف شکنجہ کسنےکے جس کام کا آغاز مرزا صاحب نے شروع کیا تھا، ان کی گورنری ختم ہونے کے بعد بھی وہ کام ایک ’مقدس ذمہ داری‘ کے طور پر خفیہ پولیس اور انتظامیہ نے جاری رکھا۔
مجھے کالج کے پرنسپل اور سینیر اساتذہ کی کمیٹی نے طلب کرکے کہا کہ ’’کالج چھوڑدو یا پھر جماعت کا کام چھوڑدو‘‘۔میرا جواب بہت واضح نفی میں تھا۔ فروری ۱۹۵۵ء میں مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری پر کالج میں ہنگامہ ہوگیا اورپھر ہڑتال۔ ۲۱طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے کالج سے الگ کر دیا گیا۔ ہنگامہ اور بڑھا تو کالج بند کر دیا گیا۔
جیل کے یہ دوماہ میرے لیے تربیت کا زمانہ ثابت ہوئے۔ اُدھر مولانا مودودی مغربی پاکستان کی کسی جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اِدھر مَیں مشرقی پاکستان کی ایک جیل میں اس مختصر مدت کی قید کا سامنا کر رہا تھا۔ ان لمحات نے مجھے مولانا مودودی کے بہت قریب کردیا تھا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان دنوں امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو خط میں لکھا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیل میں دیوارکے اِس طرف مَیں ہوں اور دوسری طرف مولانا مودودی ہیں‘‘۔
مَیں ابھی جیل ہی میں تھا کہ ایک روز سیّد اسعدگیلانی صاحب ملنے آئے اوربتایا: ’’آپ کو جماعت اسلامی کا رکن بنا لیا گیا ہے‘‘۔ اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران جب جیل سے رہا ہوا، تو مجھے جماعت اسلامی راج شاہی ڈویژن کا قیم مقرر کردیا گیا۔ جون ۱۹۵۵ء میں، مَیں نے پہلی مرتبہ مولانا مودودی کو دیکھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا سادہ سا آدمی، اندر سے اتنا زبردست انسان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سادہ سا انسان وہی تو تھا، جس نے موت کے چہرے پر پوری بے خوفی کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اس کی یہی بےخوفی ہم سب کا سرمایہ، سرمایۂ افتخار بن گئی۔
یہ ۱۵مئی ۱۹۵۳ء کی رات تھی۔ وزیراعظم پاکستان کا جہاز رات کو آٹھ بجے آنےوالا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تاخیر سے آئے گا، یعنی رات بارہ بجے۔ کراچی کےعوام اپنی وارفتگی کے اظہار کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ ایک مطمئن اضطراب فضا میں لہریں پیدا کر رہا تھااور ایک بے چین طوفان سینوں میں مچل رہا تھا۔
اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ بلڈنگ تک سڑک کےدو طرفہ، تار کے ایک سوبائیس کھمبے تھے، جن میں ۶۶ فلڈ لائٹ پوسٹ تھے۔ ہرکھمبے پر بجلی کی لمبی لمبی فلورسنٹ ٹیوب لائٹ لگی ہوئی تھیں۔ انھی کھمبوں کے نیچے ۶۶طوفان پوشیدہ تھے۔ کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ تھوڑی دیرمیں اس سڑک پر احتجاج کا ایک طوفان ٹھاٹھیں مارنے والا ہے: سنجیدہ، متین اور یادگار طوفان، زندہ، پُرجوش اور باعزم طوفان۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کھمبوں کے ان روشن سایوں میں متفرق مقامات پر جومعزز شہری بکھرے بکھرے سے بیٹھے مطالعہ یا گفتگو کر رہے ہیں، یہ کتنے بڑے انقلابی، سرفروش اور مجاہد ہیں؟
آئینی اور جمہوری جدوجہد کے اس احتجاج کا بھی ایک ناظم تھا، اور وہ اسٹارگیٹ اور ایئرپورٹ بلڈنگ کے درمیان دو چکّرلگا چکا تھا اور اب صرف وزیراعظم کا انتظار تھا۔ ایئرپورٹ کے احاطے میں پولیس گردش کر رہی تھی۔ گیلری میں آدمیوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی قطار لگ گئی تھی اور اب ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔
ایئرپورٹ کے اندرونی احاطے میں تمام کارکنوں کو، جو بیس گروپوں پر مشتمل تھے، ناظم نے کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے اپنے بینرز کھول سکتے ہیں‘‘۔اور پھر اچانک یہاں سے وہاں تک سفید بینر، سرخ حروف کے ساتھ ہوا میں لہرانے لگے:
’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔
’’مولانا مودودی کو سزا ،جمہوریت کا خون ہے‘‘۔
تاہم، ابھی یہ نعرے سینوں میں گنگ تھے۔ ایئرپورٹ گیلری میں حاضرین نے ہڑبونگ کے بجائے اپنے آپ کو ایک غیرمحسوس نظم کےتحت محسوس کیا: ایک سنجیدہ احساس ماحول پر چھایا ہوا تھا۔گیلری کے ساتھ مختلف ٹریڈ یونینوں اور انجمنوں کے جھنڈے عوامی احتجاج کی تائید کررہے تھے اور لوگ اس گوشے کی طرف متوجہ تھے، جس طرف کھلی جگہ کو میزوں، کرسیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور جہاں استقبالیہ کمیٹی کے صدر،وزیراعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنے والے تھے۔
اور پھر مشرق سے ایک گونج سنائی دی ۔ سب نگاہیں اس طرف متوجہ تھیں۔ وہ آیا،وہ اُترا اور وہ شدید شور کے ساتھ رن وے کا چکر لگاکر دھاڑتا ہوا، گیلری کے عین سامنے نیم سرکاری استقبالیہ ہجوم کے قریب آکھڑا ہوا۔تو گویا گیلری میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ ان جذبات کے خرمن میں بھڑک اُٹھی تھی، جو دھیمی آنچ سے سلگ رہے تھے۔ جنھوں نے مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر سن رکھی تھی اور جسے اب چودہ سالہ قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
___ کیا ان کا ’جرم‘ مسلمانوں کے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کرنا تھا۔
___ کیا ان کا جرم ’ڈائرکٹ ایکشن‘ کے ہنگاموں سے جماعت اسلامی کو علیحدہ رکھنا تھا؟
ان ’جرائم‘ کے سوا تو ان کا جرم آج تک سننے میں نہ آیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مقتدر قیادت کے نزدیک ان کا کون سا جرم زیادہ سنگین تھا۔ بہرحال، اس طیارے کی آمد پر ان جذبات میں آگ لگ گئی، جو پہلے سے محض سلگ رہے تھے۔
اس زخم سے کون نہیں کراہ رہا تھا؟ کیا پورے ملک میں صف ماتم و احتجاج نہیں بچھ گئی تھی؟ کیا یوں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ملت اسلامیہ کے قلب پر ایک زبردست چوٹ لگائی گئی ہے؟ کتنے لوگ تھے جو اس الم ناک خبرسننے کے بعد روتےرہےتھے اور کتنے تھے جنھوں نے اپنے جذبات کے سامنے ضبط کے ہمالے کھڑے کیے رکھے تھے۔
لیکن جب وہ طیارہ آیا جس میں وزیراعظم صاحب آئے تھے، تو پھر مظلوموں کے منہ سے وہ چیز بلندہوئی جو ڈائنامیٹ دھماکے سے زیادہ تیز اور شدید تھی۔ ایک رو آئی اور ضبط کے سارے پیمانے بہہ گئے۔ جہاز کے دروازے کھلنے ہی والے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان اپنی ٹائیوں کو درست کر رہے تھے۔ بینڈ سلامی دینےکے لیے ہوشیار باش تھا۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدرصاحب جیب میں آخری بار سپاس نامہ ٹٹول رہے تھے۔ طیارے کے دروازے ابھی کھلے نہ تھے کہ اچانک ہجوم کے اس حصے میں سے، جو اس کونے میں سمٹ آیا تھا، ایک آواز بلند ہوئی:
’’مولانا مودودی کورہا کرو‘‘۔
یہ ایک پُردرد صدا تھی اور ضبط کابند بھک سے اُڑگیا تھا۔ یہ نعرہ موسلادھار بارش کا پیش خیمہ اور طوفان کی آمد کا پتا تھا۔ گیلری سے نعرے بلند ہوئے:
’’جمہوریت کا خون ___ بند کرو‘‘
’’اس ملک کو ___ تباہ نہ کرو‘‘
’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔
اب ساری فضا ان نعروں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ دروازے کھلے اوروزیراعظم محمدعلی بوگرہ صاحب جہاز سے اُتر کر لائوڈاسپیکر کے قریب پہنچے۔ دوسری طرف نعروں کی یلغار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گیلری کے دوسرے سرے تک طلبہ چارچار کی قطار میں، کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھوں میں بینرز لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم قیادت کر رہا تھا:
یہ نعرہ تھا اس متحرک طوفان کے لبوں پر۔ ایک شان دار نظم و ضبط اور انتہائی وارفتگی کے ساتھ یہ دستہ اس گوشے کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں وزیراعظم کے استقبال کا سامان تھا۔ یہ دستہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا گیلری کے اس کٹہرے سے جاملا، جہاں جناب وزیراعظم کے سامنے سپاس نامہ پڑھاجارہا تھا۔
طلبہ کے بعد ادیبوں کا ایک گروپ بڑی متانت، اور وقار سے نعرے لگاتا ہوا اس گوشے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان ادیبوں میں شاعر، طنزنگار، افسانہ نویس، دانش ور، مدیرانِ کرام اور نقادشامل تھے۔ یہ سبھی اہلِ قلم و حرف سمجھتے تھے کہ نئے ادب کا سوتا بند ہوا جارہا ہے، نئے تخیلات کو پھانسی دی جارہی ہے، نئی شاہراہِ زندگی پر بم باری کی جارہی ہے، اور وہ جو ایک حقیقی اشرف المخلوقاتی انقلاب کو نئے روپ میں لےکر اُبھر رہاتھا،اس کاراستہ روکا جارہا ہے۔ ادیب اپنے فن کےغدار ہوتے اگر آج احتجاج کے لیے جمع نہ ہوتے۔ ان کی تحریروں کی قوت اس نعرے میں سمٹ آئی تھی:
’’مولانا مودودی کی سزائے قید ___ جمہوریت کا خون ہے‘‘۔
یہ ادیب بالکل نہیں تسلیم کرتے کہ جمہوریت کا خون بہایا جائے۔ یہ ان کی اپنی زندگی کا معاملہ تھا، جس سے وہ ادب کے لطیف خیالات چنتے تھے۔ وہ بازارِادب کے سودےباز ادیب نہ تھے۔ وہ جو اپنی ادبی مجالس میں بلندآواز سے بات کرنے کو بھی خلافِ ادب سمجھتے تھے، یہاں پوری طاقت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔
پھر یہ رو پھیلتی اور بپھرتی چلی گئی۔سب لوگ بھول گئے کہ کیمرے کس مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی بھول گئی کہ بینڈ کا کیا مصرف تھا؟ لائوڈاسپیکر کس مرض کی دوا تھا؟ پولیس بے دست و پا تھی، پھول، ہار اور طرے محروم زیب گلو تھے۔ وہاں توایک ہی پکارتھی: ’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔ ہرطرف ایک ہی نعرہ، ایک ہی جنون اور ایک ہی آواز انسانی احتجاج کا پُرشوکت مظاہرہ۔
ان مظاہرین نے خود بخود دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے اس نعرے کو کورس کی شکل دے دی تھی:
ایک گروپ کہہ رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو…‘‘
دوسرے گروپ کی پکار تھی: ’’رہاکرو…‘‘۔
یہ نعرے نہ بے اثر تھے، اور نہ بے معنی تھے۔ لگانے والے بھی اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ تھے اور سننےوالے بھی پوری طرح سمجھ رہے تھے کہ جو لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں، یہ کرائے کے دل، دماغ اور زبان نہیں رکھتے۔
پولیس نے لاٹھیوں کی مدد سے وزیراعظم کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا تاکہ ایئرپورٹ بلڈنگ سے گزر کر اپنی کار تک جاسکیں۔ یہ دیکھ کر مظاہرین نے بھی اِدھر کا رُخ کیا اوراس طرح وہ سارا مظاہرہ بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ وہ مظاہرے کےانتہائی عروج کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کے دامن میں کسی عظیم چٹان کو اُڑایا جارہا تھا۔ یا شاید کسی سمندری جزیرے کے اندر اچانک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ بندبلڈنگ میں انسانوں کے ہجوم نے ایک مضطرب چیخ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا آوازوں کی اس اجتماعی قوت کے زور سے وہ عمارت بھک سے اُڑ جانے والی تھی۔
طلبہ نے کاروں کوگھیر لیا تھا۔ وہ مسلسل نعرہ زن تھے:
’’امریکی حاکمیت ___ مُردہ باد‘‘
’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔
اب نعرے بلا کی شدت اختیار کرکے سارے ماحول کو محیط کیے ہوئے تھے۔ یہ بہتا ہوا سیل رواں تھا اور ایک طوفان کا تندوتیز دھارا تھا، جو ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک بہہ رہا تھا۔ مظاہرے کا ناظم چند منٹ قبل دوڑتا ہوا بلڈنگ کے اسٹارگیٹ تک گیا تھا اور اس نے اشارہ کر دیا تھا کہ ’’وہ وقت آگیا ہے جس کے تم منتظر تھے‘‘۔
اب سڑک کا چپہ چپہ سراپا احتجاج تھا۔ گاڑیوں کے اس کارواں کا استقبال ایک میل تک اس طرح ہوا کہ ہرچند قدم پر روشنی کے کھمبے کے پاس فلڈلائٹ کے عین نیچے ایک لہراتا اور پھڑپھڑاتا بینر یاد دلا رہا تھا کہ ’’مودودی محض ایک گوشت پوست کا انسان نہیں ہے۔ وہ اس ملک کے قلب کی دھڑکن ہے،وہ اس ملّت کا دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ بہار کا پیغام برہے، وہ تمنائے دل ہے، وہ شمع آرزو ہے، وہ نشانِ منزل ہے، وہ آنےوالے انقلاب کا داعی اور رہنما ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک اصول ہے، وہ ایک تحریک ہے۔ تم اسے یوں ملت سے چھین نہیں سکتے، تم تاریخ کے سینے پر لکھی تحریر مٹا نہیں سکتے، تم پوری ملت کی آواز کو دبا نہیں سکتے، تمھاری جہل پر مبنی ساری گھن گرج کو ملّت کی یلغار اپنی گونج میں دبا سکتی ہے۔ تم پانی میںتیرنے والی بے جڑ کائی ہو، تم درخت کے ٹوٹے ہوئے پتّے ہو، تم لہروں میں اُٹھنے والے بلبلے ہو، تم ملّت کے شعور اور قلب سے بہت دُور ہو‘‘۔
پے بہ پے، لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا احتجاج کا سمندر ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک لہریں اُٹھا رہا تھا۔لیکن وہ اس راستے سے نہ آیا جس راستے کو اس کا انتظار تھا، وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی دوسرے ویران راستے سے نکل گیا تھا۔
_______________
حواشی
[۱] l ۳مئی ۵۳ء کو مولانا مودودی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔ l ۵مئی کو فوجی عدالت نے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳، الف تعزیرات کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ l ۷مئی کو مولانا نے فوجی عدالت میں بیان دیا۔l ۹مئی کوگورنر جنرل نے مارشل لا کےفیصلوں اور اقدامات کے تحفظ [انڈیمنٹی]کا قانون جاری کیا اور ساتھ ہی مولانا مودودی کے مقدمے کی فوجی عدالتی سماعت ختم ہوگئی۔ l ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزا کا اعلان کردیا گیا۔ lعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق ۲۸؍اپریل ۱۹۵۵ء کو رہائی عمل میں آئی۔ مرتب
ہمارا فرض ہے کہ حق و صداقت کی دعوتِ اسلام کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے بھی پیش کریں اور پوری دل سوزی اور برادرانہ ہمدردی سے انھیں سمجھائیں کہ ’’بھائی یہ اسلام، ہماری یا کسی کی بھی ذاتی میراث نہیں ہے۔ یہ تمام اولاد آدم کی مشترک متاع ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق و مالک اور ربّ کے بتائے ہوئے وہ اصول ہیں، جنھیں اختیار کرکے انسان دنیا و آخرت دونوں جگہ نجات سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ اس لیے انھیں قبول کرنا آپ کی اپنی بھلائی ہے۔ اور اگر انھیں قبول نہیں کرتے تو ان اصولوں کا یا کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑتا، خود اپنے آپ ہی کو خسران میں ڈالتے ہو۔ اپنے سامنے پھیلی ہوئی خدا کی اس کائنات کا کھلی آنکھوں اور کھلے دل سے مشاہدہ کیجیے۔ ہر شے اصل حقیقت کی نشان دہی کرتی چلی جائے گی‘‘۔
یہ سورج، چاند اور ستارے، یہ آگ، پانی اور ہوا، یہ پھل پھول اور نباتات، یہ لوہا، تانبا، سونا اور ساری کی ساری جمادات اور اس زمین و آسمان کی ایک ایک چیز ایک اٹل اور بے لچک قانون میں جکڑی ہوئی ہے، جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ آپ کے یہ دن رات اور ماہ و سال اور موسموں کی آمد و رفت اسی پر تو موقوف ہے کہ سورج، چاند اور زمین ایک قطعی اور اٹل قانون کے ماتحت بلا چون و چرا اپنے اپنے مقرر راستوں پر اپنی مقرر رفتار کے ساتھ مسلسل چلے جارہے ہیں۔ آپ کے پھل پھول اور باغات کی ساری رونق اسی کی تو مرہونِ منت ہے کہ زمین کی ہر پیداوار مختلف موسموں، اقسام زمین اور آب و ہوا کی اس طرح پابند بنا دی گئی ہے کہ ہر شے اپنے موسم، اپنے لیے مقرر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں بے چون و چرا پیدا ہوتی، نشوونما پاتی اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ آپ کی یہ ساری صنعتی ترقیاں اور کارخانے اسی وجہ سے توممکن ہوئے کہ ساری جمادات، آگ، پانی، بجلی اور دوسری سب اشیا اور قوتیں جو اس کام کے لیے درکار ہیں، اٹل اور بالکل معین قوانین طبیعی اور کیمیاوی کی بے عذر اطاعت پر مجبور کر دی گئی ہیں۔
اور پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ان قوانین سے انحراف اور ان کی خلاف ورزی ہی کا دوسرا نام بگاڑ ہے۔ مثلاً آپ ذرا مشینی ضوابط (Laws of Mechanics) کی خلاف ورزی کیجیے، وہیں آپ کی مشین میں اس انحراف کے تناسب سے نقص پیدا ہو جائے گا۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو توڑئیے، آپ کی صحت و تندرستی رخصت ہو جائے گی۔ قوانین زراعت کی پابندی میں کوتاہی برتئے، آپ کے سب پھل پھول اور پودے برباد ہو جائیں گے، حتیٰ کہ زندگی کے کسی گوشے میں بھی قوانین فطرت کو نظر انداز کرکے دیکھیے وہیں خرابی و بگاڑ کی کوئی شکل سامنے آجائے گی۔ یہی نہیں بلکہ ہر مشین کی کارگزاری (efficiency)، صحت کی درستی، فصل کی افزونی اور دنیا کی ہر چیز کی ترقی اسی پر موقوف ہے کہ اس قانون قدرت کی زیادہ سے زیادہ پابندی کی جائے جو اس کے لیے خالق کی طرف سے مقرر کردیا گیا ہے۔ جو جس قدر زیادہ ان قوانین، ضوابط اور اصولوں کو جانے اور برتے گا اسی قدر اس کو اس دنیا میں کامیابی اور ترقی اور اس کے ذرائع و وسائل پر تسلط و تصرف حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ اس صورت حال سے کم سے کم طبعی زندگی کی حد تک تو یہ بات تجربے سے ثابت ہو جاتی ہے کہ ترقی و ارتقا اور کامیابی اور غلبہ کا حصول قوانین قدرت کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے ہی کی صورت میں ہوتا اور ہوسکتا ہے۔ اور یہ قوانین و ضوابط سب اس خدا کے بنائے ہوئے اور جاری کردہ ہیں، جس نے اس کائنات کو بنایا ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کے لیے اور خود انسان کی طبیعی اور تکوینی زندگی کے لیے اٹل قوانین فطرت (Laws of Nature) بنادیے ہیں جن کی پابندی اور پیروی ہی میں انسان کے لیے امن و فلاح اور ترقی و ارتقا ہے، عین اسی طرح سے انسان کی اخلاقی، سماجی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اٹل اور قطعی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں جن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنے سے ہی انسانوں کو اس دنیا میں مکمل امن اور سکون کی زندگی اور مرنے کے بعد نجات اور سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے، مگر اس دنیا میں طبیعیات و تکوین اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین قدرت (Laws of Nature) میں فرق یہ ہے کہ طبعی و تکوینی دائرے میں ان قوانین کو اللہ نے اپنی قوت قاہرہ سے بہ جبر نافذ کردیا ہے اور انسانیت (اخلاق، معاشرت، معیشت و سیاست وغیرہ) کے دائرے میں ان کو بہ جبر نافذ کرنے کے بجائے اولاد آدم کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ چاہے تو ان پر چلے اور نہ چاہے تو نہ چلے۔
چونکہ اس کائنات کا پورا طبعی نظام، خدا کے طبعی قوانین (Laws of Nature)کے تابع ہے۔ اس لیے ان قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو فوراً سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کے خلاف ورزی کا بُرا انجام فوراً ظاہر نہیں ہوتا اور بعض اوقات برسوں اور صدیوں تک اور کبھی اس دنیا میں سرے سے ہی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک قوانین طبعی (سائنسی علوم) کا تعلق ہے، ان کو معلوم کرنے کاکام خود انسان ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مشاہدہ و تحقیق اور تجربات کے ذریعے ان کا علم خود حاصل کرے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبی اور رسول مقرر فرمائے، جنھوں نے نہ صرف یہ کہ خدا کی ساری کی ساری تعلیمات من و عن اور بلاکم و کاست اپنی اپنی قوم تک پہنچا دیں، بلکہ ان میں سے ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظام زندگی ’’انبیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا، یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارا بن گئی۔ چنانچہ کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں جس گذشتہ، ’سنہری زمانے‘کے قصے اور کہانیاں اب تک مشہور چلے آتے ہیں، یہ سب دراصل اسی زمانے سے متعلق ہیں، جب کہ اس قوم یا ملک کی زمام کار اور انتظام ملکی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یا ان کے ماننے والو ں کے ہاتھ میں تھے، یا پھر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے بیش تر حصے کو لوگ عملاً اختیار کیے ہوئے تھے۔
اللہ کے ان سب نمایندوں نے اپنے اپنے وقت میں ہر جگہ لوگوں کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر ایک ہی دین (خالق کل اور معبود حقیقی کی اطاعت و بندگی کے طریقے) پر جمع کیا اور انھیں بتایا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی بھی تم اطاعت و بندگی کرتے ہو، وہ سب تمھاری طرح اس کے بندے اور غلام ہیں۔ زمان و مکان اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں تمدن کے فرق کی بنا پر بعض تفصیلات کے سوا ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی اور وہ یہ کہ، یہ چاند، یہ تارے، یہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمھارا پیدا کرنے والا ہے، وہی رزق دینے والا ہے، وہی مارنے والا اور جِلانے والا ہے۔ سب کو چھوڑ کر اسی کو پوجو، سب کو چھوڑ کر اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو۔ یہ چوری، یہ لُوٹ مار، یہ شراب خوری، یہ جوا، یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ہیں، انھیں چھوڑ دو۔ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو، نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو، جو کچھ لو، حق کے ساتھ لو، جو کچھ دو، حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو، انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ بزرگی اور شرافت انسان کی نسل اور نسب میں نہیں، رنگ و روپ اور مال دولت میں نہیں، خداپرستی، نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور نیک و پاک ہے، وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا، وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی، جس کے پاس یہ سامان ہوگا، وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہوگا، وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
اللہ کے سب نبیوںؑ نے اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو دین کی یہی تعلیم دی۔ دین کے جو اختلافات انبیا علیہم السلام کو ماننے والوں میں آپ پا رہے ہیں، یہ درحقیقت ان انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی و اتباع کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے انحراف و غفلت اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور طلب دنیا کی دوڑ میں مجنونانہ مسابقت کی پیداوار ہیں۔ اس بات کی صحت کا اندازہ اس امر سے بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور اقوام میں آنے والے انبیا علیہم السلام کے نام لیوا تو رہے ایک طرف، خود اس وقت موجودہ امت مسلمہ کا حال دیکھ لیجیے کہ خدا کی شریعت (قرآن و سنت)، جن کے وہ ہر معاملے میں آخری سند ہونے پر متفق اور ایمان رکھتے ہیں، اور وہ دونوں ان کے درمیان اپنی اصل صورت میں موجود اور مکمل طور پر محفوظ ہیں، مگر اس کے باوجود مسلمان محض تاویل و تعبیر کے اختلافات کو طول دے کر مختلف فرقوں میں اس طرح بٹ گئے ہیں گویا کہ وہ مختلف مذاہب ہی نہیں، مختلف ادیان کے پیرو ہیں۔
پھر یہ بات بھی ساری دنیا کے مسلم و کافر تمام انسانوں کے سامنے بطور حقیقت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی مختلف انواع و اجناس (خواہ وہ جان دار ہوں یا بے جان) کے لیے جو قوانین (Laws of Nature)مقرر فرمائے ہیں وہ ہر نوع اور ہر جنس کے تمام افراد و اجزا کے لیے بھی اور ان کے اجتماعی وجود و بقا اور نشوونما کے لیے بھی ایک ہی ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف کی بنا پر کسی نوع یا جنس کے افراد و اجزا کے درمیان ان کے متعلق قوانین قدرت میں یا ان کے ان پر اطلاق میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یعنی ہر نوع اور ہر جنس کے لیے جو ’دین‘ اور ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ نے اول روز تجویز اور مقرر فرما دیا وہی تاابد اس کا دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انسان گورے ہوں یا کالے اور گندمی ہوں یا زرد اور شرقی ہوں یا غربی، سب ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہوں، ایک ہی فطرت کے مالک ہیں، تو ان کے لیے ان کے خالق کی طرف سے زمان و مکان کے فرق کی بنا پر مختلف دین کیسے آسکتے تھے؟ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا علیہم السلام کا ایک ہی دین لے کر آنا عقل کا تقاضا اور نقل سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ہم انسانوں پر واضح کرنے کے لیے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید میں فرمایا کہ: تمھیں کوئی نیا دین دے کرنہیں بھیجا گیا بلکہ یہ وہی دین ہے جسے پہلے انبیا علیہم السلام لے کر آتے رہے ہیں:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ۴۲: ۱۳) اس (اللہ) نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ابراہیم ؑ اور موسٰی اورعیسٰیؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۰ۭ (ال عمرٰن۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جن کو کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔
آسمانی مذاہب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی اصل وجہ کو مذکورہ بالا آیت میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
یہ امر بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے نمایندگان فی الارض (انبیا و رسل علیہم السلام) میں سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جہاں گذشتہ انبیا علیہم السلام کے اسوہ اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار، ان کے دو چار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا، وہاں گذشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور’مسلمان قوم‘ کی ساری نالایقیوں اور گراوٹوں کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھوڑا تھا اور یہ کوئی اتفاق زمانہ کی بات نہیں، قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ، قرآن اللہ کی آخری کتاب اور یہ دونوں آیندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور اس نور ہدایت کو متلاشیانِ حق کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹) اس ذکر (قرآن کریم) کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں۔
اس بات کا ثبوت کہ یہ بات برحق ہے، کہیں باہر سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، کتاب و سنت کا ایک ایک شوشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’طالبان حق‘ کے لیے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام سرچشمہ ہاے ہدایت (جنھیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں، اور انھی سے رہنمائی حاصل کریں۔ ان اختلافات مذہب کو دور کرنے کے لیے ہی تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتدا سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی رہی تھیں، یک جا کرکے قرآن کریم اور خاتم النبیین ؐ کی سیرتِ مقدسہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا، اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی۔ وہ سب اللہ کے سچے پیغامبر اور برگزیدہ بندے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے، اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرۂ حق پرستی (دین اسلام) سے خارج کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۰۠ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۰ۡوَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۸۴ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۸۵(اٰل عمرٰن۳:۸۴-۸۵) اے محمدؐ ، کہو، ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ، یعقوب ؑ اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر نازل ہوئی تھیں اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسٰیؑاور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم) ہیں۔ اس فرماںبرداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
پس ہم لوگ جو قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے عمل کو اب واحد سرچشمۂ ہدایت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم خدانخواستہ خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے پہلے رسولوں کے خلاف کسی تعصب یا ضد میں مبتلا ہیں۔ ایسی کسی بات کا ادنیٰ ارتکاب بھی خود اسلام کی رو سے کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ مذکورہ چشمۂ ہدایت کے سوا کسی اور نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصل اور بے آمیز صورت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ خدا کے دین اور اس کے تعلیم کردہ ضابطۂ حیات کو معلوم کرنے کی اب ایک ہی ممکن صورت ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش کائنات میں پھیلے ہوئے کھلے ہوئے حقائق سے آنکھیں بند کرکے قیاس، فلسفوں اور تقلید آبا کی راہ پر چل رہے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ خدا کے رسول تو انسانوں کو بہت سے خداؤں سے چھڑا کر ایک خدا کی بندگی اور حق پرستی، عدل و انصاف، سچائی، امانت و دیانت، پاکیزہ عائلی زندگی اور امن و سلامتی کی راہ دکھانے اور ان کی تعلیم دینے آتے ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا ایک خالقِ کائنات کے بجائے بہت سے رب، خالص حق پرستی کے بجائے یہ تعصبات و تنگ نظری، سچائی کے بجائے مکر و فریب، عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم، امانت و دیانت کے بجائے خیانت و بے ایمانی، نکاح و پاکیزگیِ اخلاق کے بجائے روز افزوں جنسی آوارگی، امن اور سلامتی اور صلۂ رحمی کے بجائے مردم آزاری اور برادر کشی، مختصراً یہ کہ کیا خدا اور اس کے رسولوں کی تعلیمات اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز زندگی کو کسی طرح سے بھی مذہبی تو درکنار شریفانہ زندگی بھی قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو کم سے کم ’دین حق‘ اور اس کے لانے والے کی سیرت سے واقف ہونے کی تو تکلیف فرمائیے۔
کسی بات یا طریقے کو قبول یا رد کرنے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس طرزِ عمل کو آپ کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں کہ آدمی دوسرے سے ضد کی بنا پر اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال دے اور بھلائی کو صرف اس لیے جاننے کی بھی کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی (جس سے اسے کسی بناپر نفرت ہوگئی ہے) اسے اختیار کیے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس تعصب کی وجہ سے جو آپ کو اپنے ملک کی ’مسلم قوم‘ سے مادی مفادات کے لیے مدتوں کی کش مکش کے نتیجے ہی سے پیدا ہوگیا ہے، ان سب سچائیوں اور بھلائیوں کو چھوڑ دیں گے جنھیں ان مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یا جن کی نسبت انھوں نے اپنی طرف کر رکھی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کو تو کوئی دانشمند آدمی عاقلانہ رویہ نہیں کہہ سکتا۔ نیکی اور بھلائی اور فلاح کی راہ تو انسان کو دوست دشمن جہاں سے ملے، حاصل کرلینی چاہیے اور پھر جب مسلمانوں سے تعصب کی بنا پر آپ نے وہ پانی پینا نہیں چھوڑا جو مسلمان پیتے ہیں، وہ رزق کھانا نہیں چھوڑا جو مسلمان کھاتے ہیں۔ زراعت، حفظان صحت، سائنس اور دوسرے قوانین طبعی اور وہ کاروبار کے اصول نہیں چھوڑے جو مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں، تو آخر انسانی فلاح کے لیے ان اصولوں کی جن کا نام عربی زبان میں ’اسلام‘ یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ ہے، صرف اس بنا پر کیوں چھوڑ رہے ہیں کہ مسلمان بھی اسے اپنا دین کہتے ہیں اور وہ بھی اسے اختیار کیے ہوئے ہیں؟
’اسلام‘ کسی کی آبائی جایداد نہیں، یہ تو اسی کا ہے جو اس پر چلے۔ پاکستان یا ہندستان کے لوگ اس پر چلیں تو ان کا ہے، عرب والے اس پر چلیں تو ان کا ہے، اور یورپ کے لوگ اسے اختیار کرلیں تو ان کا ہے۔ عبداللہ، رام داس، یا کرتارسنگھ کسی سے بھی ملک، قوم یا خاندان کی بنا پر اسے کوئی تعلق یا نفرت نہیں۔ اسے تو بس ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کی راہ پر چلنے والے ہوں خواہ ان کا کوئی ملک، قوم، رنگ یا خاندان ہو۔ حد یہ ہے کہ کسی بت گر کافر کا بیٹا اسے اختیار کرلے تو خلیل اللہ اور خدا کا دوست بن جائے گا اور نبی کا بیٹا اس پر چلنا چھوڑ دے تو وہ کفار و مشرکین میں شمار ہوگا، اور طوفان نوح میں غرق ہونے والوں کے ساتھ ڈبو دیا جائے گا۔
اور پھر یہ دانش مندی تو نہیں ہے کہ انسانی فلاح کا ایک مکمل نظام جو خود خالق کل نے اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے دیا، چودہ سو برس سے اپنی اصل صورت میں سرتاپا محفوظ ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ اس پر عملاً قائم ہونے والا نظام زندگی امن و سلامتی اور عدل و انصاف میں بس آپ ہی اپنی مثال تھا۔ اس نظام کا مطالعہ اور اس پر غور تک کرنے سے آدمی اس وجہ سے اجتناب کرے کہ اسے ایک ایسی قوم نے اپنی طرف منسوب کر رکھا ہے جس سے اس کی قوم کی سیاسی اور معاشی کش مکش ہے۔ حالانکہ اگر اس ملک کے مسلمانوں نے اس نظام زندگی کو فی الحقیقت اپنایا ہوتا اور اپنا طریقِ زندگی بنایا ہوتا تو یہاں کی پوری آبادی حق و صداقت اور فلاح انسانیت کی اس راہ پر متحد ہو کر شیر و شکر ہوگئی ہوتی۔ جن مسلمانوں سے ناراضی کی بنا پر ہمارے غیر مسلم بھائی اسلام سے تعصب برت رہے ہیں، ان کا بحیثیت مجموعی اسلام سے اس سے زائد کیا واسطہ ہے کہ اپنے جلسوں جلوسوں میں ’نعرہ تکبیر… اللہ اکبر… اور’اسلام زندہ باد‘ کے نعرے لگا لیتے ہیں اور جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر کچھ لوگ رکوع و سجود کر لیتے ہیں، باقی معاملاتِ زندگی، ان کے کاروبار، لین دین، تجارتیں، سیاست، معیشت، قانون، حکومت اور دوسرے قومی اور اجتماعی امور اور طور طریقے سب اسلام سے آزاد و بے نیاز اور اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو دوسری اقوام کی ہے۔ اس لیے مسلمانوں سے ضد میں اس خدا کے مقرر کردہ نظام سے تعصب برتنا، جو صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ہے بلکہ رب الناس، ملک الناس اور الٰہ الناس ہے، کسی اور کا نہیں، اپنا ہی سب کچھ بگاڑنا ہے۔
پھر جب آپ پانی تک اسی خداوند عالم کا پیتے ہیں، رزق اس کا کھاتے ہیں، سانس اس کی ہوا میں لیتے ہیں، اپنے کھیت، کارخانے اور ورکشاپ میں اسی کے قوانین قدرت (Laws of Nature)کے مطابق عمل کرتے ہیں، صحت و تندرستی، دیکھنے، سننے، سونگھنے، چھونے، گرمی و سردی سے استفادہ کرنے اور اپنے دل و دماغ اور اپنے گرد و پیش پھیلے ہوئے وسائل اور قوتوں کے سلسلے میں خدا ہی کے قوانین اور ضوابط قدرت پر چلتے ہیں اور یہ امر واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ طبعی و تکوینی دائرۂ زندگی میں انسانی کامیابی و ترقی کا سارا انحصار خالق کائنات کے مقرر کردہ قوانین قدرت کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق کام کرنے پر ہے، تو یہ بات سمجھنے میں کیا اور کیوں دشواری پیش آرہی ہے کہ انسانی زندگی کے اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی و سیاسی، یعنی اختیاری و تشریعی دائرے میں بھی انسانی فلاح و عافیت اور حقیقی و پایدار ترقی و کامیابی کی راہِ خدا کے مقرر کردہ قوانین قدرت (شریعت الٰہی) پر چلنے پر ہی منحصر ہے؟ لہٰذا طبعی و تکوینی زندگی کی طرح اپنے اختیاری دائرۂ زندگی میں بھی سرکشی اور دوسروں کی غلامی اور نقالی چھوڑ کر اس کے مقرر کردہ قوانین حیات پر چل کر ذرا دیکھ تو لو۔
خدا کے لیے ان بے اصل تعصبات اور عصبیتوں کو بالاے طاق رکھ کر کھلے دل سے خدا کی آخری کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کیجیے۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور زندگی گھڑی کی چابی کی طرح سے ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ کیا عجب ہے کہ اللہ کے دین کا پرچم از سر نو بلند کرنے کاکام اب اسی ملک کے بسنے والوں سے لیا جائے اورپوری انسانیت جو اس وقت انسان نما درندوں کے ہاتھوں جان بلب ہو رہی ہے، اس تک اب انھی کے ہاتھوں یہ آب حیات پہنچایا جانا مقدر ہو چکا ہو۔ دعوت حق کا اس منزہ شکل میں اس دیار سے اٹھنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پونے چودہ سو برس پہلے یہ مژدہ سنانا کہ مشرق سے مجھے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، کیا عجب کہ اس کے رنگ لانے کا وقت آگیا ہو اور یہ سعادت اللہ اسی دور کے لوگوں کو عطا فرما دے۔
انسانی تاریخ کے اس نازک ترین مرحلے پر اب مسلمانوں کو بھی متنبہ ہو جانا چاہیے کہ یا تو وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر اور شاہراہ اسلام پر سیدھی طرح قائم ہوکر اس کی طرف دنیا کی رہنمائی کریں اور انبیا علیہم السلام کے صحیح جانشین بن کر اپنے سپرد خدائی مشن کو سرانجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں، یا پھر اپنے اعمال و اخلاق سے اسلام کے لیے بدنامی کا موجب نہ بنیں کہ دنیا ان کے اخلاق اور طرزِ عمل کو اسلامی اخلاق اور اسلامی طرز عمل کا نمونہ سمجھ کر اسلام سے بدظن ہو رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کے دین کی اس غلط نمایندگی پر غضب الٰہی بھڑک اٹھے:
اللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي (وَ قُلُوْبِ قَوْمِنَا) عَلٰی دِیْنِکَ، اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ اے دلوں کے بدلنے والے! میرے (اور میری قوم کے) دل کو اپنے دین پر جما دے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۸ (اٰل عمرن۳:۸) اے پروردگار! ہمیں راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ ہونے دے، ہمیں اپنی رحمت سے نواز، تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔
محترم رفقا! آپ جانتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام دنیا میں ایک خاص مشن لے کر تشریف لائے تھے۔ ان کے مشن کی تفصیلات ہمیں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک میں ملتی ہیں۔ کوئی بھی شخص جو انبیاے سابقہ ؑ کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہے، اس کے لیے آں حضورؐ کی زندگی کو رہنما بنائے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ تحریک اسلامی بھی اسی کام کو لے کر اُٹھی ہے، جس کی تفصیلات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات میں پائی جاتی ہیں۔
سیّدنا ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد بارگاہِ الٰہی میں دُعا فرمائی تھی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۹)، یعنی اے ہمارے رب، ان کے درمیان سے ایک رسول اُٹھا جو ان کے سامنے تیرے احکام پیش کرے۔ انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دُعا قبول فرمائی اورجس نبی کو مبعوث فرمایا، وہ آں حضوؐر تھے۔ فرمایا: ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ(الجمعہ۶۲:۲) ’’وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اُٹھایا، جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور پھر ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔گویا آں حضوؐر کی بعثت کے مقاصد بعینہٖ وہی تھے، جس کے لیے سیّدنا ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ نے دُعا فرمائی تھی اور یہ مقاصد چار تھے:
۱- اللہ کی کتاب کو من و عن اس کے بندوں تک پہنچانا،
۲- اس کتاب کے مطابق تعلیم دینا،
۳- ان میں حکمت و دانائی اور فہم و فراست کا شعور پیدا کرنا،
۴- ان کا تزکیہ کرنا۔
تزکیے کا منشا یہ ہوتا ہے کہ افراد کلیتاً اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بن جائیں۔ دو افرادمل کر خاندان کی بنیاد رکھیں، تب بھی اس پر عمل کیا جائے اور پھر پورے کنبے، خاندان، قوم اور ریاست میں بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھا جائے۔ تجارت، عدالت، تعلیم، زراعت، معیشت، سیاست، قانون سازی، غرض یہ کہ تمام شعبوں میں معاملات اسی کی روشنی میں طے کیے جائیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے یہی وہ مقصد اورمشن ہے جس کے لیے نبیؐ اور آپؐ سے پہلے دیگر انبیا علیہم السلام مختلف وقتوں میں دنیا میں تشریف لائے۔
جب فرد سے لے کر قوم تک کا تزکیہ ہوجائے، یعنی بُرائیاں رخصت ہوجائیں اور بھلائیاں رائج ہوجائیں، تب ہم کہیں گے کہ دین قائم ہوگیا۔ اس لحاظ سے ’تزکیہ‘ اور ’اقامت ِ دین‘ ہم معنی الفاظ ہیں اور اس کا نام ’اصلاحِ معاشرہ‘ ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور اصلاحِ معاشرہ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
ہم اور ہمارے تمام ذرائع، زندگی کے ہرمیدان میں راست روی اختیار کرنے کی تعلیم دینے کے لیے وقف ہیں۔ ہمارا بنیادی کام پوری قوم اور پورے معاشرے سے متعلق ہے۔اگر ہم بھلائی کا فروغ اور بُرائی کا سدباب چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے آپ کو پوری طرح نظم جماعت کے حوالے کر دینا ہوگا۔ اصلاح چاہنے والے لوگ اگر نظم جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو گویا وہ اس جدوجہد سے دُور ہیں، جس کا وجود اصلاحِ معاشرہ کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو لوگ جماعت اسلامی سے باہر ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے دُور ہیں، لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ کوئی جہاں بھی ہے اسے حقیقی بھلائی کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہیے۔ اگر آپ نبیؐ کے طریقے کو برحق مانتے ہیں اور نیکیوں کو پھیلانے اور بُرائی کومٹانے کے خواہاں ہیں تو پھر عملاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کیجیے اور عملی طور پر اس کا ثبوت بھی دیجیے۔
پس، اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جماعت اسلامی کا بنیادی کام اصلاحِ معاشرہ ہے، یعنی لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا، انھیں بھلائیاں اختیار کرنے اور بُرائیاں چھوڑ دینے کی دعوت دینا۔ انفرادی سطح پر اس کا نام تزکیہ ہے اور اجتماعی و معاشرتی سطح پر اسی کو اقامت ِ دین کی جدوجہد کہتے ہیں۔ یہ کام ہمیں اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انجام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے، آمین!
[میانوالی میں جماعت اسلامی کی ضلعی تربیت گاہ سے خطاب، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ہفت روزہ آئین، لاہور، ۹مارچ ۱۹۶۶ء]
حکومت کی ساری رکاوٹوں، زیادتیوں اور طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود، پاکستان میں اسلامی دستور کی جدوجہد جاری رہی۔ حکومت کو اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (BPC) کی رپورٹ میں ترمیم کر کے آئین کے جمہوری اور اسلامی کردار کو بحال کرنا پڑا۔ چنانچہ خواجہ ناظم الدین صاحب [م:۱۹؍اگست ۱۹۶۳ء]کی صدارت میں کمیٹی نے نئی رپورٹ، اَزسرِنو مرتب کرکے ۲۲دسمبر ۱۹۵۳ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں پیش کردی۔
۱۹۵۴ء کا دستور اسی رپورٹ کی بنیاد پر بنا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ پہلی مجلس دستور ساز نے دستور مرتب اور پاس کردیا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرا [م:۲۳جنوری ۱۹۶۳ء]نے یہ اعلان بھی کردیا کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کو قائداعظم کی سالگرہ کے موقعے پر ہم ان شاء اللہ قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ لیکن اس سے پیش تر کہ صدر مجلس دستور ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین خان [مارچ ۱۸۸۹ء- ۱۹؍اگست ۱۹۶۳ء]دستور پر اپنے دستخط ثبت کرتے، گورنر جنرل ملک غلام محمد [م:۲۹؍اگست ۱۹۵۶ء]نے نہ صرف محمدعلی بوگرا کی حکومت برخاست کردی، بلکہ اس کے ساتھ ہی [۲۴؍اگست ۱۹۵۴ء کو]پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی اور پورے ملک میں سناٹا چھا گیا۔
گورنر جنرل کے اس غیرآئینی اور آمرانہ اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے کی سب سے بڑی محرک جماعت اسلامی ہی بنی۔ یہاں پر ملک غلام محمد کے اس اقدام کے پس پردہ اصل حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ ملک صاحب کے ہاتھوں اکتوبر ۱۹۵۴ء میں پاکستان کی مجلس دستور ساز کو جو ملک کی پارلیمنٹ، یعنی مرکزی قانون ساز اسمبلی بھی تھی، توڑنا اس کش مکش کا نتیجہ تھا، جو پاکستان کی بڑی اکثریت کے نمایندہ اسلامی جمہوری عناصر، اور ہمارے دورِ غلامی، یعنی برطانوی راج کی باقیات کے مابین قیامِ پاکستان کے فوراً بعد چند ماہ کے اندر ہی شروع ہوگئی تھی۔
مارچ ۱۹۴۹ء میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہونے کے بعد، دستور کے بنیادی اصول مرتب کرنے کے لیے مجلس دستور ساز نے ایک کمیٹی مقرر کی، جس نے ۱۹۵۰ء میں ایسی رپورٹ پیش کی، جو ’قرارداد مقاصد‘ کے بالکل برعکس، سیکولر دستوری خاکے پر مبنی تھی۔ یہ رپورٹ جمہوری اور وفاقی نقطۂ نظر کے بھی منافی تھی۔ مولانا مودودی نے اس رپورٹ پر نہایت مفصل، مدلل اور بھرپور تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا، اور اس کے خلاف پورے ملک سے نامنظوری کی قراردادوں، ٹیلی گراموں اور محضرناموں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ حکومت کو اسے واپس لے کر خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کرنی پڑی۔ لیکن اس کمیٹی نے بھی ٹال مٹول کا سلسلہ شروع کر دیا۔
۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی میں وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک غلام محمدپاکستان کے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بن چکے تھے۔ خواجہ صاحب اور مشرقی پاکستان کے متعدد مسلمان ارکانِ دستور ساز اسمبلی، نسبتاً مذہبی ذہن کے لوگ تھے۔ وہ اسلامی دستور کے مطالبے کی بنیاد، ’قرارداد مقاصد‘ کے لیے جدوجہد کے موقعے پر بھی اسلام کے بارے میں پُرجوش رویہ دکھا چکے تھے۔ اس لیے مرکز کے سیکولر عناصر کو اندیشہ ہوا کہ خواجہ صاحب کی صدارت میں دستوری کمیٹی اس مطالبے کے آگے سپر ڈال دے گی۔ اس کی پیش بندی کے لیے جماعت اسلامی کی طرف سے اُٹھائی گئی ’اسلامی دستور مہم‘ اور ’آٹھ نکاتی مطالبے‘ کے مقابلے میں، کچھ علما صاحبان کو آگے لایاگیا۔ یہ محترم حضرات بلاشبہہ انگریزی دور میں بھی قادیانیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے رہے تھے، مگر اب بعض حکومتی حلقوں نے اچانک اس پاکیزہ جذبے کی بنیاد پر قادیانیوں کے خلاف ہنگامے شروع کروا کر عوام کا رُخ دستوری مطالبے سے موڑنے کی کوشش شروع کر دی۔
خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں دستوری خاکہ تجویز کرنے پر مامور کمیٹی کی رپورٹ ۲۲دسمبر ۱۹۵۲ء کو سامنے آئی۔ اس رپورٹ پر ملک کے سیکولر عناصر، جن کا حکومت پر پورا کنٹرول تھا، مزید برہم ہوگئے۔ انھوں نے قادیانی مسئلے پر شروع ہنگاموں کو، خصوصاً پنجاب کے شہروں اور سب سے زیادہ لاہور شہر میں فسادات اور قتل و غارت تک پہنچا کر لاہور کارپوریشن کی حدود میں مارشل لا لگوا دیا۔
لاہور سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نمایاں رہنمائوں سمیت پنجاب اور دوسرے صوبوں کے مختلف مقامات سے ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مولانا مودودی کو مذکورہ فسادات میں بحالیِ امن کی تجاویز پر مشتمل ایک بیان جاری کرنے پر سات سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی، جب کہ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مارشل لا کی فوجی عدالت نے ۱۳مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزاے موت کا اعلان کیا۔یہ حکم سنا کر سمجھ لیا گیا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی دستور کا مطالبہ دونوں ختم ہوجائیں گے، مگر اندرون ملک اور دنیا بھر میں مولانا کی سزاے موت کے خلاف عالم گیر احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ: ’’مولانا مودودی کی سزاے موت چودہ سال قید میں تبدیل کردی گئی ہے‘‘۔
اب لادین عناصر کے غصے کا ہدف خواجہ ناظم الدین بن گئے۔ چنانچہ باوجود اس امر کے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے انھوں نے پارلیمنٹ سے ملک کا بجٹ پاس کروا لیا تھا، گویا کہ پارلیمنٹ نے ان پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا، گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ صاحب اور ان کی کابینہ کو برطرف [۱۷؍اپریل ۱۹۵۳ء] کردیا اور مسٹر محمدعلی بوگرا کو، جو امریکا میں پاکستان کے سفیر اور ایک الٹراسیکولر (ultra secular) شخص سمجھے جاتے تھے، انھیں وزارتِ عظمیٰ پر فائز کرنے کے لیے بلالیا۔
مولانا مودودی کی عمرقید کو برداشت کرنے کے باوجود، جماعت کے کارکن ملک میں اسلامی دستور کی پُرامن تحریک چلاتے رہے، یہاں تک کہ ملک غلام محمد جو من مانا دستور بنا کر ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، ان کی ساری کوششوں کے علی الرغم ۱۹۵۴ء کے موسم گرما میں، دستور سازی کے لیے منعقدہ مجلس دستور ساز کے اجلاس میں، محمد علی بوگرا کو مجبور ہونا پڑا کہ خواجہ ناظم الدین کی تیار کردہ نظرثانی شدہ رپورٹ، جسے سردخانے میں ڈال دیا گیا تھا کو بنیاد بنا کر ہی دستور بنائیں۔ آخرکار یہ دستور بنا اور مجلس دستور ساز نے اسے پاس بھی کردیا۔
وزیراعظم بوگرا نے جیسے ہی قوم کو خوش خبری سنائی کہ: ’’۲۵ دسمبر ۱۹۵۴ء کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘، تو گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر ۱۹۵۴ء میں وہ اسمبلی ہی توڑ دی، جس نے دستور پاس کیا تھا۔ صوبائی حکومتیں بھی ختم کردیں اور مرکز میں اپنی مرضی کی نئی وزارت بنالی۔ اس طرح ملک غلام محمد نے ملک کے سارے نظامِ حکومت کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔
گورنر جنرل کے اس اقدام کے نتائج تو ساری قوم کے سامنے تھے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ چوٹ ان معنوں میں جماعت اسلامی پر پڑی کہ ایک اسلامی جمہوری دستور کے لیے جماعت کی سات سالہ دستوری جدوجہد کا حاصل خاک میں ملا دیا گیا تھا۔ پورے ملک میں اس جابرانہ اقدام کے نتیجے میں سناٹا چھا گیا تھا۔ کسی طرف سے اس اقدام پر کوئی اختلافی آواز نہ سنائی دی۔
مولانا مودودی جیل میں تھے۔ محترم مولانا امین احسن اصلاحی [م:۱۵دسمبر ۱۹۹۷ء] رہا ہوکر جیل سے باہر آچکے تھے۔ اس لیے شیخ سلطان احمد صاحب کی جگہ اب محترم امین احسن اصلاحی امیرجماعت تھے، اور مجھے قیم جماعت مقرر کیا جاچکا تھا۔
میں نے مولانا اصلاحی صاحب سے عرض کیا: ’’ہمیں گورنر جنرل کے اس فیصلے کا نوٹس ضرور لینا چاہیے، اور پھر اس کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔
اصلاحی صاحب نے فرمایا: ’’تو پھر آپ بطورِ قیم ہی اس کے متعلق بیان دے دیں‘‘۔
چنانچہ میں نے ہرقسم کے سود وزیاں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر یہ بیان جاری کر دیا: ’’دستور ساز اسمبلی کو توڑنے پر مبنی گورنر جنرل کا یہ اقدام اپنے اختیارات سے تجاوز ہی نہیں، بلکہ غلط بھی ہے، اس لیے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے‘‘۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے کسی اخبار نے میرے بیان کو شائع کرنے کی ہمت نہیں کی، جس سے ملک پر خوف و ہراس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسروں کا ذکر چھوڑیں، روزنامہ نوائے وقت ، لاہور جیسے قومی اخبار نے تو گورنر جنرل غلام محمد کے اس سراسر غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدام کے حق میں اداریہ تک لکھ ڈالا تھا۔
خیر، مسعود کھدر پوش صاحب [م:۲۵دسمبر ۱۹۸۵ء]، جو گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج میں میرے کلاس فیلو اور عزیز دوست بھی تھے، انھوں نے مجھے بتایا: ’’میں ان دنوں جاپان میں تھا، ٹوکیو ریڈیو سے میں نے آپ کا وہ بیان سنا، جس میں اسمبلی توڑنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ ریڈیو کے مبصر نے یہ بھی کہا تھا کہ گورنر جنرل کے حالیہ اقدام پر صرف جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کا ردعمل سامنے آیا ہے، جس نے یہ اور یہ کہا ہے‘‘۔
پہلی دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو پاکستان میں دین اور لادینیت، دستور اور آمریت، جمہوری اور سول و فوجی بیوروکریٹک قوتوں کی کش مکش کا منظرنامہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
جناب تمیزالدین خان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی سے پہلے ایم اے انگریزی کیا اور پھر قانون میں ڈگری لی تھی۔ تحریکِ خلافت میں بھی حصہ لیا۔ ان کی بالغ نظری کے باعث ہی قائداعظم محمدعلی جناح نے انھیں پہلی دستور ساز اسمبلی کا اسپیکر نامزد کیا تھا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلم لیگ کے کسی آدمی سے یہ توقع رکھنا ہی غلط ہے کہ وہ حکومت ِوقت کے کسی حکم سے سرتابی کرے گا۔ دوسرے یہ کہ مولوی تمیزالدین صاحب میں اتنی مالی استطاعت نہیں کہ وہ اپنے طور پر اس مقدمے کو عدالت میں لے جائیں۔ مزیدبرآں جن حالات سے سابقہ درپیش ہے، ان میں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے وہ تب ہی آمادہ ہوسکیں گے، جب انھیں سیاسی حمایت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ میں نے امیرجماعت محترم مولانا اصلاحی صاحب کی اجازت سے کراچی جاکر مولوی تمیزالدین صاحب سے رابطہ کرنے کا پروگرام بنایا۔
مجھے اندازہ تھا کہ اس مقصد کے لیے وہاں پیسوں کی ضرورت پڑے گی۔ اس سلسلے میں اچھرہ میں جماعت اسلامی کے ایک مخلص پشتی بان اور اپنے عزیز ٹھیکے د ار میاں عبدالرشید صاحب کے ہاں گیا۔ ان کے سامنے ساری صورت حال رکھی اور دستِ تعاون بڑھانے کی درخواست کی۔ چنانچہ انھوں نے بلاتامل اس مقصد کے لیے پانچ ہزار روپے کی خطیر رقم مجھے عطا کردی۔{ FR 644 }
۱۱ نومبر ۱۹۵۴ء کو کراچی پہنچ کر میں نے امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد صاحب [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء] کو ساتھ لیا اور مغرب کے بعد کلفٹن پہنچے، جہاں مولوی تمیزالدین خان، ابھی تک اسپیکر کی سرکاری رہایش گاہ میں قیام پذیر تھے، جہاں سناٹا طاری تھا۔ گیٹ پر دو تین سپاہیوں کی گارد موجود تھی۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولوی صاحب سہمے ہوئے باہر نکلے، دعا سلام کے بعد وہ ہمیں اندر لے گئے۔ مکان میں ان کا صرف ایک ملازم تھا۔ اس وقت تو وہ اپنے ملازم سے بھی خوف زدہ تھے کہ: ’’یہ مجھ پر جاسوسی کے لیے مقرر ہے‘‘۔ خود مَیں بھی پہلی بار تمیزالدین خان صاحب سے مل رہا تھا۔
ہم نے تمیز الدین صاحب کے سامنے اپنی آمد کی غرض بیان کی، پیداشدہ صورت حال پر روشنی ڈالی، اور پھر یہ بھی عرض کیا: ’’جناب، اب آپ ہی دستورساز اسمبلی کے اسپیکر ہونے کے ناتے ملک کے سب سے بڑے، ذمہ دار اور محترم انسان ہیں۔ اگر آپ بھی اس صورت حال پر خاموش رہیں گے تو اس ملک پر ہمیشہ کے لیے آمریت مسلط ہوجائے گی۔ اس لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں‘‘۔
پہلے تو انھوں نے کہا: ’’حکمرانوں نے عملی طور پر مجھے یہاں پر نظربند کر رکھا ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ باہر مسلح گارد کھڑی ہے۔ اس صورت حال میں بھلا میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
آخر خاصے پس و پیش کے بعد وہ اس پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن کہنے لگے: ’’اس کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں گے؟ میرے پاس تو اتنے وسائل نہیں ہیں۔ اور خود اپنی پارٹی مسلم لیگ سے بھی مجھے تعاون کی کوئی توقع نہیں‘‘۔
میں نے کہا: ’’آپ مسلم لیگ کے نہایت قابلِ احترام رہنما ہیں۔ مسلم لیگ ہی اس وقت حکمران پارٹی ہے، جس میں ملک کا دولت مند ترین طبقہ شامل ہے۔ لیگ نے یہ جاگیردار، اور وڈیرے آخر کس لیے پال پوس رکھے ہیں؟‘‘
جواب میں انھوں نے فرمایا: ’’بھائی، سچی بات پوچھتے ہیں تو یہ لوگ صرف اقتدار کے بندے ہیں‘‘۔
اس پر مَیں نے پانچ ہزار روپے کی وہ رقم جو میاں عبدالرشید صاحب سے لے کر گیا تھا، اپنی اچکن کی جیب سے نکال کر ان کے حوالے کی اور کہا: ’’آپ اللہ کا نام لے کر قدم بڑھائیں، اللہ کی نصرت اور قوم کی تائید آپ کے ساتھ ہے‘‘۔
وہاں سے اُٹھے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ہم دونوں سیدھے پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منظرعالم صاحب [م:۱۵؍اپریل ۱۹۷۰ء]کے ہاں ناظم آباد پہنچے۔ ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ: ’’مسلم لیگ، اسپیکر صاحب کا ساتھ دے‘‘۔ منظرصاحب نے معروضات سن کر ہمارے موقف سے اتفاق کیا۔
پھر ہم مولانا ظفراحمد انصاری [م:۲۰دسمبر۱۹۹۱ء]، ڈاکٹر الٰہی علوی، قاضی شریح الدین سے ملنے چلے گئے۔ قاضی شریح الدین صاحب ان دنوں کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ ظفراحمد انصاری صاحب کو تو لوگ پہلے ہی ’جماعت اسلامی‘ کا آدمی کہتے تھے، اور وہ ہمارے ہم خیال تھے بھی۔ ان ملاقاتوں میں رات کا ایک بج گیا۔ اگلی صبح ہم دونوں سردار عبدالرب خان نشتر [م:۱۴فروری ۱۹۵۸ء]سے ملے، جو وزارت کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد حیدرآباد روڈ پر چھوٹے سے بنگلے میں رہتے اور کراچی ہی میں وکالت کرتے تھے۔ اور پھر اسی روز بعد نمازِ مغرب، سردار عبدالرب خان نشتر کے دفتر واقع بندر روڈ بالمقابل سعید منزل میں اکٹھے ہوئے۔
اس میٹنگ میں سردار عبدالرب نشتر، مولوی تمیزالدین خان، مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل منظرعالم، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی، چودھری غلام محمد، مَیں اور شاید ایک دو مزید افراد بھی شامل تھے۔ بڑی مفصل گفتگو کے بعد ہمارے درمیان طے پایا کہ: ’’مولوی تمیزالدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف رٹ دائر کی جائے‘‘۔ چنانچہ سندھ ہائی کورٹ میں یہ رٹ دائر کردی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ نے [۹ فروری ۱۹۵۵ء کو]فیصلہ سناتے ہوئے، اسمبلی توڑنے کے حوالے سے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فل بنچ میں چیف جسٹس کانسٹن ٹائن، جسٹس حسن علی آغا، جسٹس ویلانی اور جسٹس محمد بخش میمن شامل تھے۔
مرکزی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل [سپریم] کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ فیڈرل کورٹ کے لیے تمیزالدین صاحب نے وکیلوں کی فیس میں مدد کے لیے اپنے گہرے رنج اور دُکھ کا اظہار ان لفظوں میں کیا: ’’قومی اہمیت کے اس معاملے میں بھی، مسٹرابراہیم اسماعیل چندریگر [م:۲۶ستمبر ۱۹۶۰ء]فیس لیے بغیر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں‘‘۔
چنانچہ دوبارہ میری درخواست پر جماعت اسلامی کے انھی ہمدرد میاں عبدالرشید صاحب نے دوسری بار پھر پانچ ہزار روپے عنایت کیے۔ ایک جانب جماعت اسلامی کے ایک عام ہمدرد کے ایثار کا یہ عالم تھا، تو دوسری جانب جو صفِ اوّل کے مسلم لیگی رہنما اور قائداعظم مرحوم و مغفور کے دست راست کہلانے والے مسٹر ابراہیم اسماعیل چندریگر صاحب تھے۔ ان کا یہ حال تھا کہ وہ فیس لیے بغیر مولوی تمیزالدین کے مقدمے کی پیروی کے لیے آمادہ نہ ہوئے، جو درحقیقت پاکستان کے عوام اور جمہوریت کے مستقبل کا مقدمہ تھا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی ’مشکوک‘ اور یہ لوگ پاکستان کے مختار اور اس وطنِ عزیز کی ہرشے کے بلاشرکتِ غیرے مالک!
فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کثرت راے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم اور گورنر جنرل مسٹر غلام محمد کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔ فیڈرل کورٹ کے اس فل بنچ میں، چیف جسٹس محمد منیر[م:۲۶جون ۱۹۸۱ء]، جسٹس ایس اے رحمان [م:۲۵ جولائی ۱۹۹۰ء]، جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس[م:۲۱دسمبر ۱۹۹۱ء]، جسٹس محمد شریف [م: ۱۹؍اکتوبر ۱۹۷۲ء] اور جسٹس ابوصالح محمد اکرم [م: ۵؍اکتوبر ۱۹۶۸ء]شامل تھے۔ تاہم، فیڈرل کورٹ نے دستور سازی کے لیے اسمبلی ازسرِنو تشکیل دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’دستور بنانے کا ذریعہ مجلس دستور ساز ہی ہے‘‘۔ یاد رہے گورنر جنرل ملک غلام محمد چاہتے تھے کہ تشکیلِ دستور کے لیے اپنے نامزد لوگوں پر مشتمل مجلس دستور ساز بھی بنا دیں، جسے عدالتِ عظمیٰ نے منظور نہیں کیا۔(ماخذ: مشاہدات)
اپنی ہم عصر اسلامی تحریکوں پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے پہلوئوں سے اثر ڈالا ہے۔ جن میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ دین دُنیا ، سیاست اور مذہب کی ایک دوسرے سے علیحدگی ، دورنگی اورثنویت کا جو تصور ایک مدت سے چلا آ رہا تھا، وہ عوام تو کیا ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ علما تک میں راسخ ہو چکا تھا۔ اس خام اور مہمل تصورِ دین کو مولانا مودودی نے قرآن وسنت سے فراہم کردہ دلائل کی بنیاد پر دُور کیا۔ آج اندرون یا بیرون ملک کوئی ایسی دینی تحریک نہیں ہے کہ جس نے اس باب میں مولانا مودودی کی تحقیق اور فکر کو قبول نہ کر لیا ہو۔ وہی لوگ جو کل تک مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو ’گمراہی‘ اور ان کی اصطلاحات کو ’کفر ‘ کے درجے تک پہنچانے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے، آج ان لوگوں کی بھی تحریروں اور تقریروں میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ مولانا مودودی کا علم کلام بول رہا ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف کرنا یا نہ کرنا دوسری بات ہے، لیکن اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تصور دین کی اس دورنگی کو دُور کر کے، اسلامی نظام حیات پر از سرِ نو غوروفکر کی لہر پیدا کرنے کا سہرا مولانا مودودی کے ہی سر ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی نظریاتی جہت کو مولانا مودودی کے ان مضامین نے غذا فراہم کی ، جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش اول، دوم میں شامل ہیں۔ یہ انھی مضامین کا اثر تھا کہ نواب بہادر یار جنگ اور دوسرے کئی نمایاں لوگ، علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی مرحوم کی خاکسار تحریک کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گئے ۔ اور پھر اپنی خداداد قابلیت، بے پناہ محنت اور جوہرِ خطابت سے جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریب اور عوام میں بے پناہ مقبول ہو گئے۔
اسلامی تحریکوں سے فکری ربط کے حوالے سے بعض لوگ پوچھتے کہ اخوان المسلمون نے فکر وعمل میں مولانا مودودی سے کس پہلو سے اثر لیا، تو ان کے سامنے یہ بات رہنی چاہیے:
قیام پاکستان تک، بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک ہمیں یہاں پر اخوان المسلمون کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اسی طرح خود اخوان المسلمون کو بھی جماعت اسلامی کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اس لیے دیکھا جائے تو نہ جماعت اسلامی نے اخوان المسلمون سے کوئی چیز لی، اور نہ اخوان المسلمون نے ہی جماعت اسلامی سے کچھ اخذ کیا۔
بعض لوگوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی دعوت اور مقاصد میں مماثلت اور مطابقت سے از خود یہ بات فرض کر لی ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کا عکس ہیں اور ایک ہی پروگرام کے تحت بنائی گئی ہیں۔ حالاں کہ اخوان المسلمون نے بھی جماعت اسلامی کی طرح ہرچیز براہِ راست قرآن وسنت اور اسلامی روایت وتاریخ سے اخذ کی ہے۔ دونوں اکابرین ملت اسلامیہ، یعنی امام حسن البنا شہیدؒ اور سید مودودی علیہ الرحمہ کی دعوت کا ماَخذ اور منبع چوںکہ مشترک اور ایک ہے، تو اسی منبعے کا یہ فطری نتیجہ ہے کہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے کا پر تو نظر آتی ہیں۔ ورنہ سرچشمہ ایک ہونے کے سوا اُن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہا۔
جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ ایک مدت تک تو نہ جماعت اسلامی کو اخوان المسلمون کی خبر تھی اور نہ اخوان ہی جماعت اسلامی سے واقف تھے، یہ تو کہیں ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء میں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ اخوان المسلمون نام کی ایک تحریک ہے جو عرب ممالک میں اسی مقصد کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح اخوان المسلمون کو بھی کہیں بعد میں معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک ہے، جو برصغیر پاک وہند میں اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہے، جس کے لیے وہ جان کی بازی لگا رہے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مولانا مودودی نے اخوان سے کچھ سیکھا ہے یا مرشد عام حسن البنا شہیدؒ نے مولانا مودودی سے کچھ سیکھا ہے۔ البتہ دونوں حضرات (اور پھر حسن البنا شہید کے ساتھی ) ایک دوسرے کے کام سے جب باخبر ہوئے اور ایک دوسرے کے لٹریچر کو دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ دونوں جانب تقریباً ایک ہی فکر کار فرما ہے۔ بلاشبہہ اخوان المسلمون کے لٹریچر میں شدت اور انقلابیت نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے، جب کہ مولانا مودودی کے ہاں زیادہ زور تفہیم، توضیح، استدلال ، گہرائی ، ٹھیرائو اور اپنی بات مخاطب کے ذہن نشین کرنے اور دل ودماغ میں اتارنے پر ہے۔ مولانا کی انقلابیت کا راستہ ، جمہوری اور عمومی سطح پر تفہیم وقبولیت کے ذریعے نکلتا ہے۔ اخوان نے بھی یہی راستہ اختیار کیا، مگر وہاں کے حاکموں نے ان کے لیے تمام کھلے اور جمہوری راستے بند کر دیے ، جس سے بعض جگہ اور بعض افراد میں کچھ شدت پیدا ہو گئی۔
مصر کے مغرب نواز بادشاہ فاروق اور پھر فوجی آمر جمال عبدالناصر کی جانب سے اخوان المسلمون کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کے بعد ، اخوان المسلمون کی توجہ جماعت اسلامی کے طریق کار کی طرف مبذول ہوئی۔ ان کے صف اول کے اکثر رہنمائوں کو پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ مرشد عام امام حسن البنا کو شاہراہ عام پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ ۲۰،۲۵ ہزار اخوانی کارکنوں کو گرفتار کر کے صحرائی علاقے کی جیلوں میں ناقابل برداشت اذیتوں سے دوچار کیا گیا۔ سیکڑوں کارکنان ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اور مصر میں تواخوان المسلمون کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ان حالات میں اخوان المسلمون نے ملکی قیادت میں تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کے طریق کار کی افادیت کو محسوس کیا، کہ اگر چہ یہ راستہ طویل اور صبر آزما ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہی طریقہ مؤثر اور پائے دار ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلح قوت کی فراہمی اور اس کے ذریعے طاغوت کے غلبے کو ختم کرنے کا جو راستہ اخوان المسلمون کے بعض جوشیلے حامیوں نے ، اخوان کی تنظیم سے الگ ہو کر اختیار کیا تھا، وہ ان مظالم ، غیر منصفانہ واقعات وحالات کا ایک منطقی نتیجہ تھا، جن سے ان کو دوچار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کر کے نہایت ظالمانہ طریقے سے قوت استعمال کی گئی تھی اور انھیں بدترین تعذیب سے دوچار کیا گیا تھا۔ جب سید قطب اور جسٹس عبدالقادر عودہ جیسے عظیم لوگوں کو پھانسی دے ڈالی گئی اور نہایت پاکیزہ کردار کے انسانوں پر محاورتاً نہیں بلکہ عملاً وحشی کتے چھوڑے گئے تو اس شیطانی عمل کا آخر ردعمل کیسے نہ ہوتا ؟
ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے اور شرف انسانیت کی تذلیل آخری حدود کو چھونے لگتی ہے تو یہ منظر کمزور سے کمزور آدمی کو بھی مرنے مارنے کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ پھر ستم زدہ عوام ، بالخصوص نوجوان کسی سنجیدہ نصیحت (sana advice)پر کان نہیں دھرتے ۔ چنانچہ سنجیدہ لیڈر شپ روز بروز بے اثر ہوتی چلی جاتی ہے، اور قوت کے ذریعے حالات کو بدلنے کی راہ دکھانے والے عناصر رفتہ رفتہ غالب آ جاتے ہیں۔ آخر کار ایسے انتہا پسند لیڈر ہی میدان میں رہ جاتے ہیں، فہمیدہ اور دُور اندیش لیڈر شپ بے بس ہو جاتی ہے ۔ طاغوتی طاقتیں چاہتی بھی یہ ہیں کہ انسانی قوت برداشت کو توڑ کر اپنے مخالف کو تشدد پر اُبھارا جائے اور پھر ریاستی مشینری کی قوت سے اسے کچل کر رکھ دیا جائے۔ مولانا مودودی نے ریاستی مشینری کی ایسی ہر کوشش اور سازش کے دام ہم رنگ سے اپنے آپ کو اور جماعت اسلامی کو بچایا۔
یہی بات میں نے مصر کے صدر حسنی مبارک اور ان کے مشیروں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی تھی، جب ۱۹۸۲ء میں ان کی دعوت پر مصر گیا تھا۔ ادھر اخوان المسلمون کے لوگوں کو بھی سمجھایا تھا کہ موجودہ حالات میں اسلامی تحریک کے لیے صحیح ، قابل عمل اور مؤثر طریق کار وہی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کیا ہے، یعنی آئینی اور جمہوری طریق پر دعوت کو آگے بڑھانے کا راستہ۔ بالفاظِ دیگر تبلیغ وتلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے راے عامہ کو متاثر کیا جائے۔ پھر راے عامہ کی قوت سے قومی اور اجتماعی قیادت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس راستے کو اختیار کرنے میں آپ کو ابتدا میں کچھ دِقّت اور مشکل ضرور پیش آئے گی، لیکن آخر کار اس کے فوائد خود تحریک، دعوت اور اشاعت اسلام کے لیے ثمر بار ثابت ہوں گے۔
اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام جب بھی ابھرتا ہے تو شیطان اور اس کے پیرو کار برہم ہو جاتے ہیں، اور ہر نوع کے ظلم وستم پر اتر آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اس دین حق کا کمال ہے کہ جس نے اس کا دامن تھاما، وہ کندن اور قابلِ صد افتخار کردار بن گیا۔ اخوانی رہنمائوں کی یادداشتیں اس پہلو سے بڑی سبق آموز داستانیں ہیں کہ ان میں ان مراحل کے مناظر بار بار سامنے آتے ہیں، جن سے ہر داعی حق کو گزرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلے میں احمد رائفؒ کی رُوداد ابتلاء ، محترمہ زینب الغزالیؒ کی رُوداد قفس تیسرے مرشد عام اخوان المسلمون محترم عمر تلمسانیؒ کی یادوں کی امانت اور حامد ابو نصرؒ کی وادی نیل کا قافلہ سخت جان وغیرہ اُردو میں موجود ہیں۔ پہلی دو کتابوں کا ترجمہ ہمارے رفیق خلیل احمد حامدی مرحوم و مغفور نے کیا تھا، جب کہ دوسری دو کتابوں کا ترجمہ حافظ محمد ادریس صاحب نے کیا ہے۔ ان یادداشتوں کی اشاعت میں ہمارے بھائی چودھری غلام جیلانی مرحوم نے خاصی دل چسپی لی تھی۔ یہ تمام خود نوشت مشاہدات بڑے مؤثر، سبق آموز اور اسلامی تحریک دعوت وعزیمت کے ناقابلِ فراموش ابواب ہیں۔ ہمارے لوگوں کو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ یہ محض باطل اور ظالم حکمرانوں کی وحشت ناکی پر مشتمل ڈائریاں نہیں ہیں، بلکہ خود احتسابی وجاں سپاری کا ایمان افروز ریکارڈ بھی ہے۔
شام کے آمر مطلق صدر حافظ الاسد کا تعلق نصیری فرقے سے تھا۔ وہ شامی فضائیہ کا چند برسوں کے اندر سربراہ بن گیا، پھر اس نے حکومت پر قبضہ جما لیا ۔ تین عشروں تک بلا شرکت غیرے شام کے عوام پر حکومت کی، اور اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد شام کا سربراہ بن گیا۔
۱۹۸۴ء میں جب اخوان المسلمون کے نوجوانوں نے اسد کی بعث پارٹی کے ذلت آمیز طرز حکومت کے خلاف احتجاج کیا تو، اس کے بھائی رفعت اسد کی نگرانی میں آپریشن شروع ہوا۔ جس میں شام کے شہروں حلب ، جسر اور انطاکیہ وغیرہ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا، جب کہ حماۃ شہر کو ، جو اخوان المسلمون کے عابدوں اور زاہدوں کا مرکز تھا، اس کا محاصرہ کیا، اور پھر ہوائی جہازوں توپوں اور میزائلوں سے گولہ باری کر کے پورے شہر کو، شہریوں کے ساتھ کھنڈرات اور قبروں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی کیا اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت مآب مسلمان اخوانی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور انھیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا۔ جیلوں میں ان پاک باز خواتین پر جو ہولناک مظالم ڈھائے گئے ، ان کی نہایت دل خراش داستانیں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ ہے ایک ’ترقی پسند اور روشن خیال ‘ حکمران کا اپنے بے بس شہریوں سے سلوک ۔
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ جماعت اسلامی ہو یا اخوان المسلمون یا کوئی اور اسلامی یا حتیٰ کہ غیر اسلامی جماعت ، جب اس کے کارکنوں پر ان کے نظریات اور خیالات سے ضد کی بنا پر تشدد کیا جاتا ہے اور پکڑ دھکڑ اور تعذیب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو وہ اپنے نظریے اور عقیدے میں مزید پختہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں اپنے مقصد کے لیے قربانی دینے کا جذبہ اور زیادہ نشوونما پاتا ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں، خصوصاً اخوان المسلمون نے اپنے ہاں برسرِ اقتدار طبقات کے ہاتھوں بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اس سلسلے میں مصر کے جمال ناصر، شام کے آمر مطلق حافظ الاسد اور عراق کے صدام حسین جیسے آمروں نے تو ظلم وتشدد اور وحشت ودرندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ لیکن اس کے باوجود نہ صرف ان تحریکوں کو نہایت قابل اعتماد اور مضبوط کارکنوں کی بڑی بڑی ٹیمیں میسر آ گئی ہیں، بلکہ دنیا کے ہرحصے اور ہرملک میں اقامت دین کا کام شروع ہو گیاہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسلامی نظام عدل کے احیا کی تحریکوں کے یہ تمام مخالفین آزادی وحریت کے نعرے اور بلند بانگ پروگرام لے کر اٹھے ۔ عرب قوم پرست اور سوشلزم کا علَم بردار صدر ناصر، جس کا دورِ جبرواستبداد اس عہد میں فرعون کی زیادتیوں پر بھی بازی لے گیا، وہ بڑے فخر سے کہا کرتا تھا:’’ میں استعمار کے خلاف حریت وآزادی کا پرچم بلند کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔ میرے منشور میں آزادی (لبرٹی ) کا نعرہ سر فہرست ہے‘‘۔ لیکن اس کی جھلک اس کی قوم کو دیکھنا نصیب نہ ہوئی اور نہ اُن سے اختلاف رکھنے والے آزادی حاصل کرپائے۔
اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو صدر ناصر کے حکم سے بلا کسی وارنٹ اور کوئی وجہ بتائے بغیر گرفتار کر کے برسوں تپتے صحرائی جیل خانوں میں بند رکھا گیا۔ ان کو زمین میں گاڑ کر ان پر بھوکے کتے چھوڑے جاتے۔ کوڑے مار مار کر ان کی کھال ادھیڑ دی جاتی ۔ ناصر کی موت کے برسوں بعد ہی کہیں ان جیلوں میں کوئی جگہ خالی ہوئی۔ گویا صدر ناصر کے نزدیک آزادی وحریت صرف اس کی غیر مشروط بندگی و غلامی کرنے والے کے لیے ہی تھی، اللہ تعالیٰ کی بے آمیز بندگی کرنے والوں کے لیے نہ کوئی آزادی تھی ، نہ کوئی انسانی حق۔
اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اقامت دین کی تحریک کو اس نام نہاد روشنی کے دور میں غیرمسلموں سے زیادہ خود مسلمان حکمرانوں، ان کے پروردہ مسلمان دانش وروں ، صحافیوں، فوجیوں اور طبقہ علما کی کچھ شخصیتوں کے ہاتھوں بڑے دُکھ اٹھانے پڑے ہیں۔ [مشاہدات، ص ۲۷۹-۲۸۷]
جب ہم اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم وہ گروہِ انسانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اس دنیا میں انبیا کرام ؑ کا جانشین ہے۔ جس کے ایک ایک فرد نے اپنی منفرد حیثیت میں اور پورے گروہ نے بحیثیت مجموعی اپنے آپ کو کلیتاً اپنے رب کے حوالے کر دیا ہے اور اپنی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات کو غیرمشروط اور برضا و رغبت خدا کی اطاعت و بندگی میں دے دیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں، کہ ہم نے ہر طرف سے منہ موڑ کر پوری یکسوئی اور طمانیت ِ قلب کے ساتھ فقط اللہ رب العالمین کو اپنا الٰہ و رب، خالق و مالک، حاکم اور واضع قانون مان لیا ہے۔ سب کو چھوڑ کر فقط محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما اور قائد و پیشوا بنا لیا ہے۔ سب نظام ہاے زندگی اور نظریہ ہاے حیات کو ترک کر کے صرف اسلام اور قرآن کو بطور نظامِ زندگی اور دستورِحیات کے قبول کرلیا ہے۔ ہر دوسری بازپُرس کا خیال دل سے نکال کر محض اپنے الٰہ واحد کی بازپُرس کو قابلِ لحاظ تسلیم کرلیا ہے۔
مختصر یہ کہ ہرطریق زندگی کو ترک کر کے، ہراقتدار کو ٹھکرا کر، ہرحاکمیت و عقیدت سے بغاوت کرکے اور ہرخوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ واحد کی غلامی و وفاداری اور اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ باہم میل ملاپ، لین دین، نکاح و طلاق اور نماز روزے سے لے کر تنظیم و سیاست، قانون وعدالت، صلح و جنگ اور ملکی نظم و نسق تک ہمارا ہرانفرادی، اجتماعی ، تمدنی اور سیاسی معاملہ، سرتاپا خدا کی حاکمیت کے تحت، اس کے قانون کے مطابق، اس کے رسولؐ کی رہنمائی میں اور محض آخرت کی بازپُرس کا لحاظ کرتے ہوئے انجام پائے۔
لیکن، ذرا انصاف سے اور کھلے دل سے موجودہ مسلمان سوسائٹی پر تنقیدی نگاہ ڈالیے اور شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک ان کی کروڑوں کی آبادیاں دیکھتے چلے جایئے اور بتایئے، کیا ان میں کہیں کوئی ایسا گروہ موجود ہے جو ان اسلامی اساسات پر پورا اُترتا ہو؟ ہاں، منفرد طور پر کچھ اللہ کے بندے ضرور ایسے مل جائیں گے، جنھوں نے اسلام کے اُس حصےکو، جو انسان کی انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، پورے شدومد کے ساتھ اختیار کر رکھا ہوگا اور اعتقاداً بھی اللہ کے سوا کسی اور کو الٰہ و رب، محمدؐ کے سوا کسی اور کو رہنما، کتاب و سنت کے سوا کسی اور شے کو قانون اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی اور بازپُرس کو قابلِ اعتنا نہ سمجھتے ہوں گے۔
لیکن، ان بزرگوں سمیت جہاں تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، ان کی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کا تعلق ہے، ان کو آپ اسی طرح سرتاپا غیراسلامی پائیں گے اور اسلام کے بجاے مغربی نظریہ ہاے حیات کے پابند دیکھیں گے، جس طرح اللہ کے باغیوں اور اس سے پھرے ہوئے انسانوں کی اجتماعی زندگیوں، تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کو۔ ان سب کے نزدیک کتاب و سنت نہیں بلکہ جمہوری اصول، اسوئہ فرنگ اور مغربی قوانین و آئین ہی حجت و بُرہان اور سند و سلطان کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس اَمر کی بین دلیل ہے کہ اگرچہ مسلمان اور ان کے رہنما زبان سے اس کا اقرار کریں یا نہ کریں، لیکن عملاً ان کے نزدیک اب اسلام محض ایک شخصی معاملہ (Personal Affair) اور اعتقادی چیز ہے، جسے ان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔
لیکن، جن لوگوں نے قرآنِ کریم ، اسوئہ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ پر سرسری نظر بھی ہدایت حاصل کرنے کے لیے ڈالی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اسلام موجودہ زمانے کے عام رائج الوقت مفہوم میں کوئی مذہب یا Religion نہیں ہے، جو محض عبادات، ریاضات، اور کچھ انفرادی دین دارانہ اعمال و افعال پر مشتمل ہو، بلکہ وہ ایک مستقل نظریۂ حیات ، ایک مکمل نظامِ زندگی اور ایک بین الاقوامی دستورالعمل ہے، جو افراد کی انفرادی سیرتوں سے لے کر پوری دنیا کے اجتماعی نظم تک، ہرچیز کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ تمام کافرانہ نظام ہاے زندگی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ کر پوری انسانی سوسائٹی کی تعمیر سراسر میری اساس پر اور میرے نظریہ و مسلک کے مطابق کرو۔ وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی پوری زندگی کا ایک مفصل اور متعین پروگرام پیش کر کے ایمان والوں سے مطالبہ کرتاہے کہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً [البقرہ ۲:۲۰۸] ، اسے پورے کا پورا قبول کرو۔ اس کے وضع اور مرتب کرنے والے، یعنی اللہ رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف صاف بتا دیا کہ اُسے یہ دین د ے کر دنیا میں اس غرض سے بھیجا جا رہا ہے کہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ [التوبہ ۹:۳۳]، تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ، سب نظریہ ہاے حیات اور کُل نظام ہاے زندگی پر غالب کردے اور اس وقت تک وہ اور اس کے ماننے والے دم نہ لیں، جب تک کہ اس روے زمین پر اللہ کی حاکمیت و اطاعت کے علاوہ کوئی اور حاکمیت و اطاعت بھی باقی ہے، خواہ ان کا ایسا کرنا منکرین حق کو اپنی نفس پرستی، انسان دشمنی اور حماقت و ہٹ دھرمی کی بنا پر کتنا ہی ناگوار محسوس ہو۔
اسلام کے اساسی عقائد اور اس کا پوری انسانی زندگی پر حاوی ہونا معلوم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی حیثیت،ان کے فرائض اور ان کی زندگی کا مقصد آپ سے آپ متعین ہوجاتا ہے، اور یہ حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ: ’’مسلمان‘ نام ہے اس بین الاقوامی اصلاحی و انقلابی پارٹی کا جو اسلام کے نظریہ و مسلک کے مطابق انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اس کارزارِ دنیا میں قدم رکھے، اور اس کام کی تکمیل کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے، جو ان کے آقا و مالک نے اپنے رسولؐ کے ذمے اور اس کی وساطت سے خود ان کے ذمے کیا ہے‘‘۔ لیکن، اس کام کے دین کی غایت الغایات اور اس کا اساسی کام ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو ہمارے اتنے سے اجتہاد پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ صاف صاف فرما دیا کہ:
لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ [المائدہ ۵:۶۸]،
شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ [الشوریٰ ۴۲:۱۳]،
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط [اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴]، وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط[البقرہ ۲:۱۴۳]
یعنی تمھاری یہ ساری رسمی دین داریاں اُس وقت تک ہیچ ہیں، جب تک کہ تم کتابِ الٰہی کو عملاً قائم نہ کرو، اور اس کے منشا کو پورا کرنے کے لیے سربکف نہ ہوجائو۔ تمھارے لیے وہی دین اور نظامِ زندگی مقرر کیا گیا ہے، جو نوح علیہ السلام کو دیا گیا تھا (اور اے محمدؐ! جس کی تیری طرف وحی کی گئی ہے) اور جو ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ (سب انبیا ؑ) کو دیا گیا تھا (اور اس کی غرض یہ ہے کہ) تم اس دین کو دنیا میں برپا کرو۔ تم میں ایک گروہ تو لازماً ایسا موجود رہنا چاہیے، جو لوگوں کو نیکی (اطاعتِ ربّ) کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکتا رہے۔ مسلمانو! ہم نے تمھیں دنیا کے لیے عدل و انصاف اور راست روی و حق پرستی کا نمونہ (اُمت ِ وسط) بنایا ہے، تاکہ تم دوسرے لوگوں پر دین حق کی حجت تمام کرنے کا ذریعہ بنو جس طرح ہمارا رسولؐ تم پر اتمامِ حجت کا ذریعہ بنا۔
ظاہر ہے کہ دین کو دنیا میں برپا کرنا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اور بندگانِ خدا پر زندگی کے ہرشعبے میں اس کے دین کی حجت تمام کرنا منفرد اشخاص کے بس کا کام نہیں۔ ان میں سے ہرکام اجتماعی نظم اور منظم جدوجہد چاہتا ہے، جیساکہ قرآن کا منشا اور نبیؐ کا اسوہ ہے ، جس کے بقا و استحکام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے جانیں لڑائیں اور جسے زندہ رکھنے کی خاطر خلفاے راشدین اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قربانیاں کیں۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمان اُمت ِ وسط اور خیرِ اُمت کے فرائض انجام دےسکیں، اور خدا کے [راستے سے] بھٹکے ہوئے بندوں اور گروہوں کے سامنے اس کے دین کی وہ زندہ شہادت بن سکیں کہ ان کے قول اور عمل اور برتائو ہرچیز کو دیکھ کر لوگ زندگی کے ہرشعبے میں صحیح راہ پاسکیں۔ دین کو بالفعل برپا کیے بغیر شہادت علی الناس اور اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا تو درکنار، اسلام کے احکام و ضوابط کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی پوری طرح کارفرما کرنا ممکن نہیں۔
لہٰذا، مسلمانوں کا یہ دینی فرض ہے کہ دنیا میں ایک ایسی منظم سوسائٹی بنائیں، جو اقامت ِ دین کا یہ فرض انجام دیتی رہے، اور جس کی حدود کے اندر اللہ کی حاکمیت کے سوا کسی دوسرے اقتدارِ اعلیٰ کو، اس کے قانون کے سوا کسی دوسرے قانون کو ، اس کے رسولؐ کے سوا کسی دوسرے کی رہنمائی کو، اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی دوسرے کی بازپُرس کو کوئی دخل نہ ہو۔ یہ کام ایمان کا عین تقاضا ہے، مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہے اور انبیا علیہم السلام کی بعثت سے مقصود یہی تھا۔ اسی کام کے لیے جماعت اسلامی وجود میں آئی ہے اور اسی کو بالفعل انجام دینا ہمارا نصب العین ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں، جب کہ اسلامی اصولوں کے بالکل برعکس ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہم پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، اور اس نے ہمیں اپنے اندر اس طرح جکڑ لیا ہے کہ روز کی روٹی بھی، جب تک اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ملنی محال ہے۔ اس کام کو کیسے کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ٹھیک اسی طرح، جس طرح اس کام کے اصل علَم برداروں، یعنی انبیا علیہم السلام نے اسے آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک کیا۔ یہ طریقہ ایک ہی ہے اور بلااستثنا ہر زمانے، ہر ملک اور ہرقوم میں اس کام کے لیےاسی کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اجتماعی کاموں کے لیے خواہ وہ حق ہوں یا باطل، اللہ تعالیٰ نے شاید ایک ہی طریقہ خلق کیا ہے اور وہ یہ کہ انسان پہلے زیربحث نظریہ و مسلک کو سامنے رکھ کر اس کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے پر اپنی ساری ذہنی اور عقلی قوتیں صرف کردے۔ پھر اگر دل و دماغ اس کے حق ہونے کی گواہی دیں اور عملاً اس پر چلنے اور نظامِ حیات تعمیر کرنے سے زندگی کی ہرکل ٹھیک بیٹھتی چلی جاتی ہو، تو مردانہ وار اس پر ایمان لے آئے اور اپنی پوری زندگی کی باگ ڈور اس نظریہ و مسلک کے ہاتھ میں دے دے۔ جو کچھ وہ کرنے کا تقاضا اور حکم کرے، اسے پورے شدومد، خلوص و دیانت اور خوش دلی سے کرنے پر کمربستہ ہوجائے، اور جس سے وہ منع کرے یا جو کچھ اس پر ایمان کے منافی ہو، اسے بلاچون و چرا چھوڑتا چلا جائے۔
پھر جب اس نظریہ و مسلک کے ایک سے زیادہ لوگ فراہم ہوجائیں، تو وہ اس کے علَم برداروں کی حیثیت سے اس عزم کے ساتھ اُٹھیں کہ پوری سوسائٹی میں اس نظریۂ حیات کو کارفرما کرکے دم لیں گے۔ اس راہ کا اوّلین قدم یہ ہے کہ اپنے اصولوں اور نظریات کو بالکل صاف اور منزہ صورت میں دنیا کے سامنے رکھ دیا جائے اور بنی نوع انسان کو اپنی کسی غرض کے لیے نہیں، بلکہ خالصتاً ان کی فلاح و بہبود اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے، ان اصولوں کی طرف دعوت دی جائےاور جو لوگ ان کے قائل ہوکر داعیانہ عزم کے ساتھ انھیں قبول کرتے جائیں، ان کو ملا کر ایک منظم گروہ بناتے چلے جائیں۔
ظاہر ہے کہ اِس گروہ میں، جب کہ یہ کسی رنگ و نسل یا قوم و وطن کی بنا پر نہیں بلکہ صرف انسانی فلاح کے عالم گیر اصولوں پر منظم ہو رہا ہے، ہررنگ و نسل، ہر قوم و وطن اور ہرفن و قابلیت کے لوگ آئیں گے اور جوں جوں اس کا دائرہ اور حلقۂ اثر وسیع ہوتا جائے گا اِس کی قوت، اِس کی قابلیت، اس کے ذرائع و وسائل اور اس کے سازوسامان ہرچیز میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اور یہ اس منظم سوسائٹی کو جنم دے گا، جس کی اُٹھان اوّل سے آخر تک ہرانفرادی اور اجتماعی معاملے میں اسلامی اساس پر ہوئی ہوگی اور جو فطرتاً اُس صاحب ِ اختیار اجتماعی نظم پر منتج ہوگی، جو اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے فرائض کو کماحقہٗ انجام دے سکے گا۔
اس دوران میں منفرد اشخاص کو بھی اور پورے گروہ کو بھی بہت سے مراحل (stages) میں سے گزرنا پڑے گا اور کئی رکاوٹیں پیش آئیں گی، جن سے ہرمرحلے کے حالات کے مطابق نمٹنا ہوگا۔
(ماہ نامہ ترجمان القرآن ، مئی ۱۹۴۶ء)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو کچھ قوتیں، قابلیتیں اور صلاحیتیں دے کر ایک متعین مدت اور ایک متعین وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ وہ ان قوتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں کو اور اُن وسائل کو جن سے اس کو مسلح کیا گیا ہے، وہ کن مقاصد کے لیے اور کن کاموں میں صرف کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک تو انسان کے اندر نیکی اور بدی کی امتیازی صلاحیت خود ہی رکھ دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انبیا علیہم السلام اور وحی کے ذریعے سے اس کو یہ بھی بتادیا ہے کہ تمھارے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اور جس نے تمھیں یہ سب کچھ عطا کیا ہے اور جس کی تم مخلوق ہو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے، جو تمھاری پرورش کر رہا ہے اور جس کے پاس پھر تمھیں لوٹ کر جانا ہے، وہ تمھارے لیے کس قسم کی زندگی اس دنیا میں پسند فرماتا ہے اور کن چیزوں کو وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ان ساری چیزوں کا انتظام کرکے اس نے انسان کو ایک متعین مدت اور وقت کے لیے اس دنیا میں بطورِ امتحان بھیجا ہے۔
اسی بات کو مولانا مودودی نے اس طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جیسے آپ ایک طالب علم ہیں۔ جس طرح طالب علم کمرئہ امتحان میں ہفتہ دس دن یا پندرہ دن مختلف امتحانوں میں سے گزرتے ہیں، اسی طرح آپ کو مختلف پرچے دیے جاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک متعین وقت دیا جاتا ہے کہ ان کو تم حل کرو اور آپ کو جتنا وقت دیا جاتا ہے، اس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا۔ آپ کا جس طرح سے جی چاہے پرچہ حل کریں یا نہ حل کریں۔ آپ جو جی چاہے کریں، آپ کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے ، لیکن جب وقت ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو مہلت ِ عمل دی ہے اور آپ کو بھیجا ہے۔
اس سلسلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو بنیادی باتیں قرآنِ مجید میں ہمارے سامنے رکھی ہیں، ان میں سے کچھ آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ط وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۵۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مالِ متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ عطا کیا ہے___ مال عطا کیا ہے، دولت عطا کی ہے، زمین عطا کی ہے، قوتیں عطا کی ہیں، دل و دماغ عطا کیا ہے، جذبات عطا کیے ہیں، عقل عطا کی ہے، سوجھ بوجھ عطا کی ہے، فہم و فراست عطا کی ہے، سوچنے سمجھنے کی قوتیں عطا کی ہیں، نیکی اور بدی کی تمیز کرنے کی قوتیں عطا کی ہیں__ ان ساری کی ساری چیزوں کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ ، ان کو خرچ کرلو اس غرض کے لیے کہ تم اپنے حق میں کوئی چیز کمالو۔ اس وقت کے آنے سے پہلے کہ جب یہ پرچہ تمھارے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا اور تمھیں ایک لمحے کے لیے بھی مہلت عطا نہیں کی جائے گی اور کمرئہ امتحان سے تمھیں اُٹھا دیا جائے گا۔ پھر جب اس پرچے کو جانچنے کا وقت آئے گا تو نہ تمھاری کوئی سفارش چلے گی، نہ کوئی چھرا یا پستول دکھا کر تم اپنے نمبروں میں کمی بیشی کروا سکو گے، اور نہ کسی کو کچھ دے دلا کر ہی کسی سے کوئی رعایت حاصل کرسکوگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح سے جو نصاب مقرر کیا ہے، اس طرح سے آپ کو اپنے پرچوں کو حل کرنا چاہیے۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، دوستوں اور ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، زیردستوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے اور اپنے سے اُوپر والوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے، اپنوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور پرائیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ اسی طرح روپے کا صرف کس طرح کرنا چاہیے، عدالت کس طرح سے چلنی چاہیے اور اپنے جھگڑے کس طرح سے نبٹانے چاہییں۔ اس طرح سے اگر آپ نے پرچہ حل کیا ہوگا، کسی کی حق تلفی نہ کی ہوگی تو ٹھیک ہوگا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اپنے اُوپر بھی ظلم کیا اور ان چیزوں پر بھی ظلم کیا، جن کو آپ نے استعمال کیا، کیوں کہ ان کا حق یہ ہے کہ جس مالک کی یہ اشیا ہیں اس مالک کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کیا جائے۔ دل و دماغ، ہاتھ پائوں، عقل اور فہم و فراست، سوچ سمجھ، اولاد، بھائی بند، دوست احباب اور جو چیزیں بھی آپ کو عطا کی گئی ہیں، ان کا حق آپ پر یہ بنتا ہے کہ آپ اس مالک کی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کریں جس کی وہ چیزیں ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ ہرچیز جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے صواب دید اور اختیار (disposal) میں دی ہے، وہ آپ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس لیے آپ کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس مالک کی مرضی کے خلاف ان کے اندر آپ تصرف کریں۔ آپ میں سے ہرشخص جو بھی معاملات کی کچھ بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ جوچیز بھی آپ کے پاس کسی نے امانت رکھی ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس امانت میں اس کے مالک کی مرضی کے خلاف تصرف کرے، اور اس کے خلاف تصرف کرنے کا نام خیانت ہے، بے ایمانی ہے، بددیانتی ہے اور غبن ہے۔ اگر وہ امانت میں خیانت کرتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی، خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور وہ اپنے اُوپر بھی ظلم کرے گا۔ اگر وہ جیل جائے گا تب بھی، جرمانہ ہوگا اور سزا ملے گی تب بھی۔ جو بھی ایسا کام کرتا ہے وہ خود پر ظلم کرتا ہے اور کوئی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ، جو لوگ خدا کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں، خدا کے قانون کو توڑیں، خدا کی مرضی کے خلاف ان چیزوں کا استعمال کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق انھیں استعمال نہ کریں، وہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ وہ دوسروں کے اُوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور ان اشیا پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کا حق مارتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ خود کو بھی سزا کا مستحق ٹھیراتے ہیں اور اس طرح خود اپنے اُوپربھی ظلم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اللہ جس کی اطاعت اور فرماں برداری کی طرف آپ کو بلایا جاتا ہے اور متوجہ کیا جاتا ہے، جس کی مرضی کو ملحوظ رکھنے کی آپ کو دعوت دی جارہی ہے، وہ خدا کون ہے؟ اس کے بارے میں فرمایا:
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَ لَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا ج وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُo (البقرہ۲:۲۵۵)اللہ وہ زندۂ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اُس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
گویا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ نہ اِس زمین کا خدا ہے، نہ اُس آسمان کا خدا ہے، نہ ان چیزوں کا خدا ہے اور نہ آپ کا خدا ہے۔ اور وہی خدا ہے جس کے سامنے آپ کو جاکر پیش ہونا ہے اور جو ہمیشہ سے زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کو کسی اور نے زندہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی ذات سے خود زندہ ہے۔ وہ زندئہ جاوید ہے۔ یہی نہیں کہ وہ خود زندہ ہے بلکہ تمام کائنات میں جو کچھ ہے سب کا وہی صانع ہے، پیدا کرنے والا ہے۔ اگر اس کا سہارا ہٹ جائے تو سب کچھ اسی وقت دھڑام سے گرپڑے۔ آپ کا وجود بھی اسی کی ذات سے قائم ہے۔ اگر اس کا سہارا ختم ہوجائے تو یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر انسان پر فالج گرتا ہے تو کس چیز کی کمی واقع ہوجاتی ہے؟ اس خدا نے انسانی وجود کو جو سہارا دے رکھا ہے دراصل سہارا دینے کا وہ وسیلہ معطل ہو جاتا ہے اور انسان مٹی کے ڈھیرکی طرح سے زمین پر جاگرتا ہے۔ نہ اس کی انگلی ہلتی ہے ، نہ اس کا پائوں ہلتا ہے، نہ اس کا سر حرکت کرتا ہے اور نہ وہ اپنا پہلو بدل سکتا ہے اور اکثر اوقات تو بول بھی نہیں سکتا۔سب کچھ موجود ہوتا ہے، اس کے اندر جان بھی ہوتی ہے لیکن صرف خدا کا وہ سہارا اس سے ہٹ جاتا ہے۔
پھر فرمایا: لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط،وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔
ایک سیکنڈ تو درکنار، ایک سیکنڈ کا کروڑواں ، ارب واں حصہ بھی اس پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ وہ ہروقت اور ہر آن alertہے۔ وہ ہروقت باخبر ہے۔ اس کے اُوپر کبھی بے خبری کی حالت طاری نہیں ہوتی۔ نہ وہ سوتا ہے اور ذرا برابر اُونگھ تک بھی اس پر طاری نہیں ہوتی۔ کسی بھی وقت اس پر کسی قسم کی کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی۔ کسی حالت میں بھی وہ آپ سے غافل نہیں ہوتا۔ جہاں بھی آپ ہیں، جس حال میں بھی ہیں، جو کام بھی کر رہے ہیں، دنیا کے جس گوشے میں بھی ہیں، ہروقت وہ آپ سے باخبر ہے، چوکنا ہے اور چوکس ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟
ایک دوسری جگہ فرمایا: کون ہے جو اس کی جناب میں زبان بھی کھول سکے۔ کوئی نبیؑ ، کوئی ولی، کوئی بزرگ، کوئی بڑا یا کوئی چھوٹا، اس کی مرضی کے خلاف اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ یہاں سفارش کرنا اور شفاعت کرنا کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی اس کے سامنے زبان کھولے گا، اس کی اجازت اور مرضی سے کھولے گا، اور اجازت بھی وہ اسی کو دے گا جس کے بارے میں خود اس کا منشا ہوگا۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج، جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے۔
اس کو خود معلوم ہے کہ آپ کے آگے کیا ہے اور آپ کے پیچھے کیا ہے؟ آپ کے دائیں کیا ہے اور بائیں کیا ہے؟ آپ نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے اور کس نیت سے اور کس ارادے سے کیا ہے؟ کس وجہ یا مجبوری سے کیا ہے؟ بدنیتی سے کیا ہے یا خوش نیتی سے کیا ہے___ وہ سب جانتا ہے، اسے کوئی کیا بتائے گا۔ کسی کے پاس کوئی سفارش اسی بنا پر کرتا ہے کہ حاکم کو بتائے کہ: ’حضور اس نے مجبوری اور لاچاری سے یہ جرم کیا ہے اور آپ کو جو اطلاع ملی ہے اس میں یہ غلطی ہے۔ فلاں شخص نے اس میں یہ غلط بات بیان کی ہے اور فلاں نے اس شخص کی اس طرح سے شکایت کرکے آپ کو بدظن کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کو بدظن کون کرے گا؟ اسے غلط اطلاع کون دینے کی ہمت کرے گا؟ اور اسے دھوکے میں کون ڈالے گا؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ جو دنیا کو نہیں معلوم وہ سب کچھ اس کو معلوم ہے۔
وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ ج، اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت اور ادراک میں نہیں آسکتی، اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔
کوئی دوسرا اس کو جو کچھ بتانا چاہتا ہے وہ علم تو اسی کا دیا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہ کیا بتائے گا؟ جو پیغمبرؑ ، یا ولی، یا کوئی دوسرا شخص بھی اس کو بتائے گا، وہ تو اللہ ہی کا اسے دیا ہوا علم ہے۔ اگر وہ کسی کی شفاعت یا سفارش سنے گا تو دنیا کو دکھانے کے لیے کہ اس شخص کا میرے دربار میں یہ مرتبہ ہے۔ اور اس کو میں نے یہ مقام دیا ہے کہ اس کی سفارش پر میں تمھیں معاف کررہا ہوں تاکہ وہ اس کے احسان مند ہوں کہ یہ ہمارا مقرب بندہ تھا۔ اس کو دنیا میں بھی ہم نے تمھاری رہنمائی کے لیے بھیجا تھا اور تم نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ دیکھو! اس کا ہمارے ہاں کیا مرتبہ ہے۔ جس کو تم نے دنیا میں رد کر دیا تھا، ہمارے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے۔ اس لیے ہم اس کی بات سن رہے ہیں۔
وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ،اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔
آپ کبھی اس کی حدود سلطنت سے نکل کر باہر نہیں جاسکتے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی اس کائنات کے اندر ہے، سب پر اس کی حکومت ہے۔ ہرجگہ اس کی سلطنت چھائی ہوئی ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ ہرجگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ ہرچیز اس کے دائرۂ اختیار کے اندر ہے۔ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔
وَ لَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
اللہ وہ ہستی ہے جو ہمیشہ سے اس کائنات پر حکمرانی کرر ہی ہے، اس کی نگرانی کر رہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے۔انسان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ کام کرنے کے بعد تھک جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ کھاپی لے، کچھ آرام کرلے اور کچھ سستا لے تاکہ مزید کام کے لیے تازہ دم ہوجائے۔ لیکن وہ ذاتِ باری تعالیٰ ایسی ہے اور ایسی زبردست قوت والی ذات ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے، اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے، اس کی ضروریات کو پورا کررہی ہے، اس کے تمام انتظامات کو چلارہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے۔ اس کی حفاظت ، اس کے انتظامات اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے سے ذرہ برابر بھی اس پر تھکاوٹ طاری نہیں ہوتی۔ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،لہٰذا وہ سب سے بزرگ و برتر، سب سے اعلیٰ و ارفع اور سب سے بلند ہے۔
یہ ہے وہ خدا جس کی طرف آپ کو اور تمام انسانیت کو بلایا جارہا ہے اور یہ ہے وہ اسلام، جس کی طرف انسانوں کو اور آپ کو اور آپ اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو بلارہے ہیں کہ اس کے سامنے سرجھکائو اور اس کی رہنمائی کو قبول کرو۔ اس کے دین کو اور اس کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو۔ دنیا میں بھی سرفراز ہوجائو اور آخرت میں بھی اس کی جنّت میں داخل ہوجائو اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوجائو۔
یہی ہے دین کی وہ بنیادی دعوت، جس کو لے کر آپ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس خدا کے تصور کو آپ جتنی مضبوطی کے ساتھ اپنے ذہن میں بٹھالیں گے، اتنا ہی آپ کے اندر بے پناہ ہمت و حوصلہ اور نہ ختم ہونے والا جوش پیدا ہوگا۔ اسی طاقت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ کے خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے دنیوی وسائل کے لحاظ سے تہی دامن ہونے کے باوجود بڑی بڑی سلطنتوں، بڑی بڑی سوپرپاورز کو انھوں نے اُکھاڑ کر پھینک دیا۔
آج ہم سے چند میل کے فاصلے پر افغانوں نے، جن کے پاس نہ دنیا کا مال و دولت ہے، نہ جدید اسلحہ ہے، نہ کوئی ٹینک اور توپ خانے ہیں، نہ ہوائی جہاز ہیں، لیکن دنیا کی دو بڑی سوپرپاورز کو جن کے مقابلے میں دنیا کی ساری سلطنتیں مل کر بھی کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کر رہی تھیں، ان کو اسی خدا پر یقین رکھنے والوں نے، جن کو اس بات کا یقین تھا کہ العلی العظیم ہماری پشت پر ہے، انھوں نے اس طاقت کا منہ پھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے آپ کو اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی ذات بابرکات ہے اور صرف اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
اس چیز کو منوانے کے لیے کوئی تلوار استعمال نہیں کی جائے گی، کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ زبردستی آپ کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں کہ وہ طاقت کے سامنے زیر ہوکر زبانی کلامی آپ کو دھوکا دے ڈالے، لیکن زبردستی آپ اس کو مومن نہیں بناسکتے۔ اس لیے کہ مومن آدمی اپنی مرضی سے بنتا ہے۔ اگر اس کے دل کے اندر بات اُترے، اُس کا دماغ اس کو قبول کرے ، اس کے دل میںیہ بات بیٹھ جائے، اس کے ذہن میں یہ بات اُتر جائے، تب تو حقیقت میں آدمی مومن بنتا ہے اور صحیح معنوں میں خدا کافرماں بردار بن سکتا ہے۔ اسی صورت میں وہ جنّت کا اور خدا کے ہاں مقبولیت کا مستحق قرار پائے گا۔ اگر آپ نے اسے ڈنڈا دکھا کر کلمہ پڑھا دیا تو کسی بھی وقت وہ آپ کو بھی دھوکا دے گا اور آپ کی قوت کا بھی ذریعہ نہیں بنے گا۔ آخرت میں بھی اس کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ دوزخ کا بدترین ٹھکانا اس کا مقدر ٹھیرے گا۔ جیساکہ قرآن پاک میں منافقوں کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج (النساء ۴:۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنّم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے‘‘۔ وہ جہنّم کے سب سے نچلے گڑھے میں ڈالے جائیں گے جہاں سے وہ شاید کروڑہا برس کی مسافت طے کر کے جہنّم کے کنارے پر پہنچ سکیں گے۔ وہ اتنا گہرا گڑھا ہوگا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ،یعنی یہ بات ہم زبردستی کسی سے نہیں منوا سکتے۔ یہ ہم نے بتا دیا کہ وہ خدا کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کی قوت کیا ہے؟ لیکن اس بات کو ہم زبردستی نہیں منوا سکتے، اس لیے کہ دین میں جبر نہیں ہوسکتا۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
صحیح بات کو جو عقل اور معقولیت کے مطابق بات ہے اس کو بالکل منزہ کر کے، واضح کرکے اور صاف کرکے تمام آلایشوں سے پاک کر کے ہم نے سامنے رکھ دیا ہے اور غلط بات کو الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کرلے اور جس کا جی چاہے اس کو رد کردے۔
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَا انْفِصَامَ لَھَا ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ۲:۲۵۶) اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
پھر جس نے ’طاغوت‘ کو رد کر دیا اور اللہ کو تسلیم کرلیا اور اللہ کے سامنے سر جھکا دیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا پکڑ لیا ہے جو کبھی دھوکا دینے والا نہیں، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ جس میں کوئی کمزوری نہیں ہے، جو ہروقت سہارا دینے والا ہے۔ اس کو پکڑ لینے کے بعد کبھی آپ کے پائوں میں لغزش نہیں آئے گی، جو آپ میں کبھی کمزوری نہیں پیدا ہونے دے گا۔ اس لیے آپ اس سہارے کو تھامیں۔ پھر اگر آپ کسی وقت اس کو پکارنے کی ضرورت محسوس کریں تو جہاں آپ نے زبان سے بات نکالی تو فوراً اس تک پہنچ جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں پھینکنے کا انتظام کیا اور اس کے لیے آگ کا ایک بڑا خوف ناک الائو تیار کیا اور آگ میں پھینکنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو منجنیق میں ڈالا کہ اُس کی قوت کے جھٹکے سے انھیں دہکتی آگ میں پھینکے۔ اس وقت حضرت جبریل امین ؑ ان کے پاس آئے اور عرض کیا: یاخلیل اللہ! آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپؑ کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اگر آپ مدد کے لیے آئے ہیں تو آپ کی مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت جبریلؑ نے کہا کہ خدا سے مدد مانگیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ یہ سب کچھ تو میرے رب کے سامنے ہو رہا ہے۔
گویا خدا تو وہ ہے جسے پکارنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، جس کے علم میں سب کچھ ہے، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سن رہا ہے، وہ سمیع ہے، وہ علیم و بصیر اور خبیر ہے۔ اس کو خبر بھی ہے اور علم بھی۔
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o ( ۲:۲۵۷) جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنیوں سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ ان لوگوں کا سرپرست، ساتھی اور ولی اور دوست ہے جو اس کو مان لیں، اس پر ایمان لے آئیں۔ وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔ اور جو لوگ اس کا انکار کریں، اس سے سرکشی کا راستہ اختیار کریں وہ ان کو طاغوت کے سپرد کردیتا ہے۔ یعنی جو خدا کے سرکش ہیں، خدا کے منکر ہیں اور خدا کے نافرمان ہیں، اور یہ کہ وہ نہ صرف خود خدا کے نافرمان ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر اپنے تابع فرمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ،اور وہ ان کو روشنی سے نکال کر، عقل اور فراست کے راستے سے نکال کر اندھیروں اور تاریکیوںکے راستے میں بھٹکنے پر ڈال دیتے ہیں۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔
اس کے بعد ایک مثال بیان فرمائی کہ کس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اُوپر بھروسا کرنے والوں اور اپنے اُوپر ایمان لانے والوں کی مدد فرماتا ہے اور ان کو راستہ دکھاتا ہے اور ان کو تاریکی میں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ ط اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ م اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ لا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ ط قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (البقرہ۲: ۲۵۸) کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا رب کون ہے، اور اس بناپر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سن کر وہ منکرِحق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔
یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کس کس اسلوب میں اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے، ایسے دلائل اور باتیں سجھاتا ہے کہ وہ اپنے بالمقابل لوگوں کو خاموش کرا دیتے ہیں اور ان کو کوئی بات سوجھتی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اس آگ کے الائو سے زند ہ نکلنے کے بعد نمرود کے پاس گئے، تو اس نے آپؑ سے کہا کہ:’ تُو کس کو ربّ مانتا ہے؟‘ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ:’ میرا ربّ وہ ہے، جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے اور جو موت دیتا ہے‘۔ اس نے کہا کہ:’ زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں ہے۔ میں جس کو چاہوں زندہ رکھوں اور جس کو چاہوں قتل کروا دوں، پھانسی دے دوں اور اس کی زندگی ختم کر دوں‘۔ جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس کے حکم سے روز مشرق سے سورج نکلتا ہے تُو اگر خدا ہے تو ذرا مغرب سے اسے نکال کر دکھا دے؟‘ ظاہر بات ہے کہ اس کا کوئی جواب نمرود کے پاس نہیں تھا۔
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo( ٰال عمرٰن ۳:۸۳) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچاراللہ ہی کی تابع فرمان (مُسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
یہ فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ لوگ اللہ کے اس دین کو چھوڑ کر کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے سامنے گردن جھکائیں، اس کی اطاعت کو قبول کریں، اس کے دیے ہوئے طریقِ زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس کے قانون کو تسلیم کریں، اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کریں۔ اس کے حلال کو قبول کریں اور اس کے حرام سے اجتناب کریں۔ اس کی پسندیدہ چیزوں کو اختیار کریں اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب کریں، اور جو راستہ اس نے بتایا ہے اسے اختیار کریں۔ مگر یہ لوگ اس کو اختیار کرنے کے بجاے کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، یا یہ کوئی اور راستہ خود بنانا چاہتے ہیں یا لوگوں کا بنایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ زمین و آسمان میں ہرچیز اللہ کے مقرر کردہ راستے پر چلی جارہی ہے۔ سورج، چاند، ہوائیں، پہاڑ، سمندر، دریا، زمین و آسمان کی تمام قوتوں کو دیکھیں ، بارشوں کو دیکھیں،فصلوں کو اُگتا ہوا دیکھیں، زندگی اور موت کو دیکھیں، اپنے حجم کو دیکھیں، اپنے سانس کی آمدورفت کو دیکھیں،دنیا کا جتنا بھی نظم و نسق ہے اس کو کون چلا رہا ہے؟ دنیا کے اندر جو قوانین فطرت (Laws of Nature) رائج ہیں، یہ کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ کیا کسی بادشاہ کے بنائے ہوئے ہیں یا کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا کا نظام اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہا ہے، اللہ کے بنائے ہوئے قوانینِ فطرت کے تحت چل رہا ہے اور پوری دنیا کا نظام خدا کے بنائے ہوئے ایک راستے پر چل رہا ہے، تو کیا تم اس راستے سے ہٹ کر کسی اور راستے پر چلنا چاہتے ہو؟ دراصل ہمیں دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پرخدا کے قوانینِ زندگی کے مطابق چلنے کا اہتمام کرو۔ کل مرنے کے بعد تمھیں اسی کے سامنے جاکر پیش ہونا ہے اور تمھاری جانچ پڑتال ہوگی کہ تم اپنی زندگی کے معاملات کو کس قانون کے مطابق چلارہے تھے؟ کیا اسی قانون کے مطابق جس کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا تھا اور خود تمھارا جسم پل بڑھ رہا تھا، بیمار ہوتا اور تندرست و توانا ہوتا تھا، تمھاری سانس چل رہی تھی، دماغ کام کر رہا تھا اور تمھارے اعضا حرکت کررہے تھے؟ تم نے اسی قانون کے مطابق اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اپنے معاملات کو چلایا، یا تم نے کسی من گھڑت قانون کے تحت اپنی زندگی بسر کی؟
قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ ص لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۴) اے نبیؐ، کہو کہ ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مُسلم) ہیں‘‘۔
اس کے بعد راہِ نجات کو واضح کیا گیا ہے کہ اے نبیؐ، آپؐ یہ فرما دیں کہ ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرلیا اور تسلیم کرلیا ہے اور اس دین کو مان لیا ہے جو ہمیں براہِ راست بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا دین ہے۔ وہ دین جو اس نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ ، موسٰی ، عیسٰیؑ اور ان کے بعد جتنے بھی انبیاؑ آئے ان سب کو بتایا تھا۔ ہم ان سب کے دین کو قبول کرتے ہیں اور ان سب انبیاؑ کے پاس ہمیشہ ایک ہی دین آتا رہا ہے اور ہم نے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ وہ دین پوری دنیا کا دین ہے اور اس میں نافذ ہے۔ سورج سے لے کر ذرّے تک، اور آسمان سے لے کر تحت الثریٰ تک، اور پہاڑوں سے لے کر دریائوں تک، گویا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز، اور ہرچیز کا وہی دین ہے اور ہم نے بھی اسی دین کو اختیار کرلیا ہے۔
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o ( ۳:۸۵) اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگزقبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
کہا جارہا ہے خدا کے سامنے سرجھکا کر اس کے قانون کے سامنے سرتسلیم خم کردو۔ جو کوئی زندگی بسر کرنے کے اس طریقے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ نہ اس کو اس دنیا میں پنپنےدے گا اور نہ آخر ت میں پنپنے دے گا۔
اب ہم اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں تک خدا کے دین کا تعلق ہے، خدا کے قانون کا تعلق ہے، یہ آدم ؑ سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی دین رہا ہے کہ اس خدا کے سامنے سرجھکا کر، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو پسند کیا ہے ا ن کو اختیار کیا جائے اور جن چیزوں کو خدا نے ممنوع قرار دے دیا ہے ان سے اجتناب کیا جائے، اور جن کو اس نے جائز رکھا ہے ان کو اختیار کیا جائے اور جن کو اس نے ناجائز رکھا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔
اسلام ، دینِ حق کے مقابلے میں جو باطل نظامِ زندگی اختیار کیے جاتے رہے ہیں، آدم ؑ سے لے کر آج تک ہزاروں نظام اختیار کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک بھی آزمائے جانے کے بعد پھر دوبارہ اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ کہیں سرمایہ داری ہے، جاگیرداری اور قبائلی نظام ہے، برادری ہے، کہیں بادشاہی ہے، کہیں ڈکٹیٹرشپ ہے، کہیں جمہوریت ہے۔ جمہوریت کی بھی آج بیسیوں قسمیں ہیں۔ ہرملک کی جمہوریت الگ ہے۔
اسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے گا، اس کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا۔ اس دنیا میں بھی حقیقت میں جو بھی نظام کوئی اختیار کرتا ہے، وہ وقتی طورپر کچھ دیر کے لیے چلتا ہے اور اس کے بعد وہ مٹ جاتا ہے۔ ہرحکمران آکر اس کے اندر مداخلت کرکے اپنے حسب ِ منشا اس کو ڈھالنے کی کوشش کرتاہے، لیکن صرف ایک اسلام کا نظام ہے جو ایک خدا کے قانون کے تحت چلتا ہے۔
کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَ شَھِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۶) کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالاں کہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسولؐ حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہی بتائو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے کہ جنھوں نے ایمان لانے کے بعد نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ ایمان لائے اور انھوں نے تصدیق کی کہ اللہ کا رسول سچا رسول ہے اور اس کے بعد پھر کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔
اس وقت یہی ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کی صورتِ حال ہے کہ وہ شہادت دیتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسولؐ ہیں ۔ شہادت دیتے ہیں کہ قرآن، اللہ کی کتاب ہے۔ شہادت دیتے ہیں کہ اسلام ہمارا دین ہے۔شہادت دیتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا۔ شہادت دیتے ہیں کہ ہم اسلام کے نام پر منتخب ہوکر اسمبلی میں آئے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی شریعت کو قبول نہیں کریں گے۔ اسی بات پر اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جولوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ کا رسولؐ سچّا ہے، اسلام سچّا دین ہے اور اس کے بعد پھر وہ کفر کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دے۔
اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ زبردستی ہتھکڑی لگاکر لوگوں کو اسلام کے راستے پر چلائے۔ اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان کو یہ بات سمجھا دے اور ان کی زبان سے اس کا اقرار کروا دے کہ اللہ ایک ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ کی کتاب قرآن ہے اور وہ اسے مان لیں۔ اس کے بعد دین پر چلنا یا نہ چلنا اس نے ان کی آزاد مرضی پر چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں پہاڑوں کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہوں، دریائوں، ہوائوں اور ستاروں کو چلا رہا ہوں، زمین و آسمان کی بڑی بڑی قوتوں کو چلا رہا ہوں، تو کیا انسان کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا تھا؟
انسان کو چوںکہ میں نے پیدا اس لیے کیا ہے کہ اس مخلوق کو آزادی دی جائے۔ اگر یہ اپنی مرضی سے میری مرضی پر چلے تو اسے جنّت دی جائے اور اپنی مرضی سے نافرمانی کی راہ پر چلے تو پھر اسے جہنّم میں ڈالا جائے۔ یہی ایک صاحب ِ اختیار مخلوق ہے۔ اسی بنا پر اسے جنّت دی جائے گی اور اس بنا پر اسے سزا دی جائے گی۔ باقی تمام مخلوق کو ہم نے زبردستی اپنی مرضی پر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لیے نہ اس کے لیے جنّت ہے اور نہ جہنّم۔ یہ مرے گی تو ختم ہوجائے گی، اور اس کا سلسلۂ حیات ختم ہوجائے گا۔ صرف انسان ایسی مخلوق ہے جس کے لیے جنّت بھی ہے اور جہنّم بھی، جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ اس لیے مَیں انسان کو نہ زبردستی نیکی کے راستے پر چلاتا ہوں اور نہ زبردستی بدی کےراستے پر، بلکہ یہ اس کی مرضی پر چھوڑا ہے۔ اسے عقل دے دی ہے، پیغمبروں ؑ کے ذریعے سے نیکی بدی کا راستہ بتا دیا ہے، اور اس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز دے دی ہے۔
ایک بُرے سے بُرا انسان بھی جانتا ہے کہ جھوٹ اور فریب غلط ہے، چوری بدکاری اور زناکاری غلط ہے، بے حیائی غلط ہے اور لوگوں کا مال کھانا غلط ہے۔دوسری طرف سچائی صحیح ہے، دیانت داری صحیح ہے، لوگوں کا حق ادا کرنا صحیح ہے، والدین کا حق ادا کرنا صحیح ہے۔ جو نیکی ہے اس کو بھی بیان کر دیا ہے اور بُرائی کو بھی بیان کردیا ہے۔ لہٰذا نیکی کو بھی ہرشخص جانتا ہے اور بُرائی کو بھی ہرشخص جانتاہے۔ اب انسان کا اختیار ہے کہ وہ سیدھا راستہ اختیار کرے یا غلط راستہ اختیار کرے۔
دین کی یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو مَیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین! (مرتب: امجد عباسی)
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب میاں طفیل محمد نے مطالبہ نظامِ اسلامی کی پاداش میں ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۱ء تک ۲۰ ماہ زندان میں گزارے۔ ان کے اس دور کے مکاتیب حکیم محمد شریف امرتسری نے مکاتیب ِ زنداں کے نام سے شائع کیے تھے۔ یہ جہاں تحریکی جدوجہد کے ایک مرحلے کا تذکرہ ہے وہاں تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب و سکینت، صبرواستقامت، خدا پر ایمان و یقین اور کامل بھروسے اور عزیمت کی راہ کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب کے خطوط سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔(ادارہ)
یہ میں آپ کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر لکھ رہا ہوں کہ اپنی صحت کی طرف سے غفلت نہ برتیں۔ میں آ پ کی مشکلات سے ناواقف نہیں، اور نہ آپ کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بے خبر ہوں، مگر ان کے باوجود آپ کو اپنی حد تک غافل نہیں ہونا چاہیے۔ دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی کیجیے۔ اپنی مشکلات کو اپنے رب کے حضور پیش کیجیے، اپنی لاچاریوں کو اسی کے دربار میں گزاریئے۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا اور اگر اس کی مشیت میں یہی ہوگا کہ آپ ان مشکلات اور خرابیِ صحت میں ہی مبتلا رہیں تو بھی وہ آپ کو اس کے بدلے میں اجرعظیم عطا فرمائے گا جس سے بڑھ کر کسی شے کی کوئی مومن آرزو نہیں کرسکتا۔
یہ میں آپ کو یونہی نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ بہن انواراختر کی بیماری کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ گذشتہ مرتبہ وہ اسی لیے مولانا [مودودی] سے ملنے آئیں کہ اب انھیں سفرِآخرت درپیش ہے اور ہر علاج سے مایوسی ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر بے بس ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں سمجھایا کہ ڈاکٹروں سے نہیں صحت مجھ سے مانگو۔ انھوں نے جب سارے آسرے چھوڑ کر فریاد کی تو اگلے ہی روز صورت بدلنے لگی۔ ڈاکٹر نے دوائی بدلی۔ جسم نے خون بنانا شروع کر دیا۔ یاد رکھیے کہ خدا اب بھی وہی ایک خدا ہے جو ابراہیم ؑ کا خدا تھا، موسٰیؑ اور مسیحؑ کا خدا تھا اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تھا۔ وہ نہیں بدلا اور نہیں بدلتا ہے۔ بندے خود بدل جاتے ہیں۔ اس لیے اسے بدلا ہوا پاتے ہیں۔ یک سُو ہوکر اس کی طرف رجوع کیجیے۔ اگر اس کی مشیت اور اس کی اسکیم میں گنجایش ہوگی تو وہ آپ کی صحت درست فرما دے گا ورنہ ان شاء اللہ یہ تکلیف ہی لذت میں بدل جائے گی۔ مگر دوا سے غافل نہ ہوں کیوںکہ اسباب کو ختم کرکے اگر بندہ خدا سے کچھ مانگے تو یہ حدِ بندگی سے تجاوز ہوگا۔ یہ خدا کی آزمایش ہوگی (کہ وہ اسباب کے بغیر آپ کی مدد کرے، یعنی معجزہ دکھائے) اور یہ کام بندگی کی حد سے آگے ہے۔ بندگی کی راہ سے بال برابر اِدھر اُدھر نہ ہوں۔(اہلیہ محترمہ کے نام، ۲۰فروری ۱۹۵۰ئ)
آپ نے ہمارے یہاں سے باہر نکلنے کے بارے میں جس خواہش اور جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے ایک محب کی خواہش اور قدرتی جذبات وہی ہوسکتے ہیںمگر اس بات کو نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اسکیم اور پروگرام کو کسی کی خاطر نہیں بدلتا ہے۔ جو وقت ہمارے یہاں پہنچنے کے لیے مقدر تھا ٹھیک اُس وقت ہمیں یہاں لے آیا اور جب وہ مقصد جس کے لیے ہمیں یہاں لایا گیا پورا ہوجائے گا تو کوئی چاہے یا نہ چاہے ہم باہر آجائیں گے۔ بہرحال ہم جن دعوئوں کو لے کر اُٹھے تھے ان کی آزمایش بھی اللہ تعالیٰ کو لازماً کرنی تھی اور جن لوگوں نے اسلام اور قرآن اور شریعت کے نعرے لگاکر ملک کے سیاہ و سپید کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا ان کو بھی اسے آزمانا تھا اور ان کے اعلانات کی صداقت و عدم صداقت کا امتحان کرنا تھا۔ یہ آزمایش و امتحان کب تک ہوگا اس کا ٹھیک اندازہ ممتحن ہی کو ہے۔ ہماری کوشش اور دُعا یہ ہے کہ ہم بھی اس آزمایش میں ثابت قدم رہیں اور اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بھی کسی بدانجامی میں مبتلا نہ ہونے دے۔ مگر اس کا دستور یہ ہے کہ وہ بدانجامی سے بچاتا اسی کو ہے جسے اپنے بچائو کی فکرہے اور وہ بدانجامی سے بچنے کی اُس طریق پر کوشش کرے جو خدا کی طرف سے مقرر ہے۔
برادرِ محترم! اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کو قطعاً کسی کی ضرورت نہیں، وہ غنی ہے، حمید ہے، قادرِ مطلق، عزیز اور حکیم ہے۔اس نے یہ کارخانۂ کائنات بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ بندوں کی آزمایش کرے۔ اس زندگی میں جو صورت بھی کسی کو پیش آتی ہے وہ آزمایش ہی کی صورت ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنی جگہ آزمایش میں ہیں، ہم بھی آزمایش میں ہیں اور جن لوگوں نے ہمیں اس حال میں مبتلا کیا ہے، وہ بھی آزمایش میں ہیں۔ اللہ کسی پر نہ کوئی زیادتی کرتا ہے، نہ ظلم و بے انصافی۔ البتہ وہ اس دنیا میں بندوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کا پورا موقع دیتا ہے تاکہ جو ظالم ہیں وہ ظالم ثابت ہوں، جو صابر ہیں ان کے صبر کا امتحان ہو، جو حق پرست ہیں ان کے جوہر کھلیں، جو بدنفس ہیں ان کی بگلا بھگتی کی قلعی کھلے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان باتوں کا موقع نہ دیتا تو پھر اس کارخانے کو بنانا بے کار تھا۔ پھر تو وہ جنت اور دوزخ ابتدا ہی میں بنا دیتا، مگر ان میں کسی کو رکھنے کا فیصلہ کرنے کی کیا صورت ہوتی؟ لہٰذا جو اسکیم اللہ تعالیٰ کے پیش نظرتھی اس کی تکمیل کی واحد صورت وہی تھی جو اس نے اختیار فرمائی کہ انسان کو ایک محدود عرصۂ حیات میں اختیار و ارادے سے مسلح کر کے اس کارگاہ میں چھوڑ دے۔ عقل و ضمیر اور نیکی و بُرائی کا شعور بھی دے دے۔ سمجھانے کا بھی معقول حد تک انتظام فرما دے اور اس کے بعد انسان جو کرنا چاہے اس کا اسے مہلت ِ زندگی تک بلا روک موقع دے۔ اس کے بعد جو ابراہیم ؑ، موسٰی ؑ، عیسٰی ؑ ، محمدؐ اور حسین ؓ کی زندگی کا مظاہرہ کریں، نیکی پھیلانے اور برائی کو مٹانے میں اپنی جان کھپا دیں، ان کو جنت دے، اور جو اُس راہ کو نظرانداز کر کے اسی چند روزہ عیش کو مقصد زندگی قرار دے لیں، انھیں موت کے بعد کے انعامات سے محروم کردے۔ کیوںکہ انھوں نے نہ اس کی ضرورت محسوس کی اور نہ اس کے لیے کوئی کوشش کی۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس مقصد میں ناکام نہ ہوں۔ جس حال میں مبتلا کیے جائیں اس پر صابر و شاکر رہیں۔ تغیر اس کائنات کی فطرت میں ہے۔ عُسر اور یسر رات اور دن کی طرح آتے اور جاتے ہیں مگر خوش قسمت وہ ہیں جو اس حقیقت کا احساس کرلیں۔(بنام حکیم محمد شریف، حافظ آباد، ۳نومبر ۱۹۴۹ئ)
مولانا [مودودی] کے نام آپ کے خط سے یہ معلوم کرکے تشویش ہوئی کہ آپ کی صحت خراب رہتی ہے اور حافظ آباد کی آب و ہوا آپ کو اب تک راس نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے اور ہم بھی دُعا کرتے ہیں کہ آب و ہوا اور صحتوں کا خالق اور مالک حافظ آباد کی آب و ہوا اور آپ کی صحت میں موافقت پیدا فرما دے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے ہیں تو وہاں کی آب و ہوا ان کے سخت ناموافق تھی مگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان مہاجرین کی دُعائوں کا نتیجہ تھا کہ مدینہ کی آب و ہوا میں زمین و آسمان کا تغیر ہوگیا۔ وہ اللہ کے لیے نکلے اور نکالے گئے تھے اور ان کا جینا اور مرنا سب اسی کے لیے تھا۔ ہمیں بھی دُعا کے ساتھ ساتھ اس حیثیت سے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے....
آپ کہتے ہیں کہ آپ کی انتہائی خواہش یہ ہے کہ مولانا کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کریں۔ بھائی جان! مولانا نے تو یہاں ایسی عمدہ تربیت گاہ قائم کر دی تھی کہ رہایش، خوراک، علاج، روشنی، پانی، نوکر، پہرے دار، ہر شے سرکاری، نہ کوئی فیس، نہ چندہ، نہ کسی طرف سے کوئی خلل اندازی کرنے والا اور نہ معاملاتِ دنیا کی کوئی فکر۔ رات دن سویئے، پڑھیے، کھایئے، کھیلئے، کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ مگر آپ میں سے کوئی آیا ہی نہیں۔ اس میں مولانا کا یا کسی دوسرے کا کیا قصور؟ ہم تو اس انتظار ہی میں رہے کہ آپ لوگ آئیں گے، کچھ پڑھیں لکھیں گے اور آیندہ کاموں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے، مگر نہ معلوم کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی یا اس تربیت گاہ میں داخلے کے لیے جو بورڈ مقرر ہے وہی یہ انتظام کرچکنے کے بعد کسی شش و پنج میں پڑ گیا ہو۔ بہرحال یہ اطمینان رکھیے کہ یہ کام کرنے والوں کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔ یہاں آئیں تو یہاں کام بہت ہے اور تربیت کا موقع بھی، اور اگر باہر ہوں تو وہاں کام اس سے زیادہ اور تربیت کے مواقع اور بھی وسیع تر ہیں۔ اگر آپ روزانہ اپنا اس نقطۂ نظر سے محاسبہ کرتے رہیں کہ آیا آپ کا اپنے خدا سے حساب صاف ہے یا نہیں، تو یہی ایک بات تربیت کے لیے بہت کافی ہے۔ میری طرف سے سب احباب کو سلام کہیں۔(بنام حکیم محمد شریف، ۳ مارچ ۱۹۴۹ئ، ۲۱ دسمبر ۱۹۴۹ئ)
آپ کے اس خط سے مجھے جس قدر خوشی ہوئی ہے اس سے زیادہ خوشی کسی کے کسی خط سے نہیں ہوئی تھی اور وہ خوشی آپ کے اس کام کی وجہ سے ہوئی جو آپ نے لاہور سے واپس آکر شروع کیا۔ جس طریق پر آپ اسے کر رہی ہیں یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ ایک ایک خطبہ اور اگر یہ زیادہ ہو تو آدھا یا اس سے بھی کم تیار کرکے اپنے لفظوں میں بیان کر دیا کریں۔ اس کے بعد گفتگو ہونی چاہیے جس میں اس مضمون پر سوال و جواب ہوں ۔ جو بات صاف نہ ہوئی ہو یا کسی کی سمجھ میں نہ آئی ہو اسے صاف کر دیا اور سمجھا دیا جائے۔ پھر اصل شے ان باتوں کو بیان کرنا اور سننا نہیں ہے بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ان کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھا اور جانچا پرکھا جائے، جو کمیاں ہوں ان کو پورا کیا جائے اور جہاں خدا کی لگائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھ گئے ہوں وہاں سے پیچھے ہٹا جائے۔ خطباتکے بعد دینیات کو لیجیے اور پھر دعوتِ اسلامی میں خواتین کا حصہ والی کتاب کو لیں۔ کم سے کم کام کیجیے، اور تھوڑے سے تھوڑا وقت دیجیے مگر جتنا کام ہو اور جتنا وقت دیا جائے پابندی سے ہو اور مستقل ہو۔ روز کوڑی بھر گھی کھا لینا اس سے کہیں زیادہ مفید اور صحت بخش ہے بہ نسبت اس کے کہ مہینے کے بعد آدھ سیر ایک ہی وقت اندر انڈیل لیا جائے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اُلٹا نقصان پہنچائے۔ ہر ایک کے ذہن میں اس بات کو بٹھایئے کہ جب ہم خدا کے، زمین خدا کی، آسمان خدا کا، کھائیں اُس کا، پئیں اُس کا، گھٹائے وہ، بڑھائے وہ، اور مرنے کے بعد حساب اس کو دینا ہے، تو پھر اس کی مرضی سے بے پروا ہوکر چلنے کا نتیجہ کیسے اچھا نکل سکتا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف چلنے کا کسی کو حق کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ مسلمان کے معنی خدا کے فرماں بردار کے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی فرماں برداری سے نکل کر انسان مسلمان نہیں رہ سکتا۔
اس کام کے ساتھ اخبار کوثر، ترجمان القرآن، چراغِ راہ وغیرہ میں جو آسان مضمون شائع ہوں ان کو بھی دوسری عورتوں کو سناتی اور سمجھاتی رہیں۔ اس سے ایک تو دل چسپی باقی رہے گی اور دوسرے عام معلومات بڑھیں گی۔ اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ کوئی شخص علم کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا اور نہ کوئی کام سیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر کام کرنے سے انسان سیکھتا ہے۔ بڑے سے بڑا آدمی غلطیاں کرتا ہے لیکن انھی کے اندر اس کو سمجھ آتی ہے۔ اس لیے جو اور جیسا کام ہوسکے کرتے رہنا چاہیے۔ کیوںکہ اگر ہم بس بھر کام کرتے رہے تو خدا کے سامنے بری ہوجائیں گے لیکن اگر کچھ بھی نہ کیا تو اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ جیسا کچھ کرسکتے تھے ویسا تم نے کیوں نہ کیا؟(ہمشیرہ اُمِ مختوم کے نام، جولائی ۱۹۴۹ئ)
oگذشتہ ملاقات پر معلوم ہوا کہ جمیلہ نے خاصی ترقی کی ہے اور قرآنِ مجید، سیرت اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی کچھ پڑھ لیا ہے اور شوق سے پڑھ رہی ہے۔ اگر میری وجہ سے میرے گھر والوں، بھائی بہنوں اور اعزہ واقربا کی دینی معلومات حاصل کرنے کے شوق، دین کی طرف ان کے رجحان اور آخرت کی فکر میں ترقی ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے اندر اس تغیر سے (جن سے وہ کبھی اس قدر نالاں تھے) دنیا میں انھیں جو نقصانات پہنچے یا جو فائدے حاصل ہونے سے رہ گئے، اُن کی ایسی تلافی ہوگئی جسے وہ اس دنیا میں محسوس کریں یا نہ کریں لیکن ایک روز جب ہرشخص کا سب کیا کرایا اس کے سامنے آجائے گا وہ جان لیں گے کہ انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ خداگواہ ہے کہ میرے نزدیک اس راہ پر قائم رہتے ہوئے ساری زندگی جیل میں گزار دینا اس سے کہیں زیادہ محبوب ہے کہ اس سے سرِمُوانحراف کرکے باطل کی بادشاہی حاصل ہو۔ (والدمحتر م کے نام، ۱۲مئی ۱۹۵۰ئ)
oکوئی انسان بھی اگر اس کے دل اور دماغ سلامت ہوں، اعزہ و احباب سے ملنے کی خواہش سے خالی نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرقیمتی شے کی طرح خدا کی رضا اور اس کی جنت بھی مشقت اور ایثار کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ ان کے لیے اُسی نسبت سے زیادہ مشقت اور ایثار سے کام لینا ہوگا، جو نسبت اس دنیا کی نعمتوں کو خدا کی رضا اور جنت کی نعمتوں سے ہے۔ معلوم نہیں مولوی لوگوں نے یہ افیون کہاں سے نکال کر مسلمانوں کو کھلانی شروع کر دی تھی کہ حلوے اور کھیریں کھاتے اور کھلاتے جنت میں جابراجیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم اپنے رسولؐ کے ذریعے دی ہے، اس میں تو یہی بات باربار دُہرائی ہے کہ جب تک وہ پوری طرح سے اسے چھاج میں پھٹک پھٹک کر اور آزمایش کی بھٹیوں میں تپاتپا کر نہیں دیکھ لیتا پروانۂ قبولیت عطا نہیں کرتا۔ آدم ؑ سے لے کر محمدؐ تک ہر نبی ؑ کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔ کیا ان سے بھی زیادہ مقرب کوئی ہوسکتا ہے؟ جب ان کو بھی تپائے اور سخت پرکھ کے بغیر خالص قرار نہ دیا تو ہماوشما کون ہیں! ہم لوگ تو اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں اس قابل تو سمجھا کہ ہمیں آزمایش میں ڈال کر دیکھے اور یہ اس کا انتہائی احسان اور فضل ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس نے متزلزل نہیں ہونے دیا۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا، ہم سے کمزور کون ہوگا؟
میں یہاں جیل میں آپ کو ایسا تحفہ بھیجتا ہوں اگر آپ اپنے آپ کو اس کے مصداق بنانے میں کامیاب ہوسکیں تو دنیا کی کوئی پریشانی آپ کو پریشان نہ کرسکے گی۔ وہ تحفہ یہ دعا ہے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ نُوْرُ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ، اَنْتَ قَیُّوْمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ اَنْتَ الْحَقُّ وَقُوْلُکَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَائُ کَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ تَحَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَاَسْرَرْتُ وَاَعْلَنْتُ ، اَنْتَ اِلٰھِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، خدایا! حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ آسمانوں اور زمین کا نور تو ہی ہے اور حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور جو بھی ان میں ہے سب کا رب ہے۔ تو خود حق ہے، تیری ہربات حق ہے اور تیرا ہر وعدہ حق ہے۔ تجھ سے ہماری ملاقات برحق، جنت برحق، دوزخ برحق، قیامت برحق۔ خدایا! میں نے تیری اطاعت اختیار کی، تجھ پر مَیں ایمان لایا، میرا بھروسا تجھ پر ہے اور تیری طرف میں نے رجوع کیا اور تیری ہی خاطر جھگڑا اور تیرے ہی حضور میری فریاد ہے۔ تو معاف فرما میرے گناہ بھی اور میری کوتاہیاں بھی۔ میرے وہ قصور بھی جو میں نے چھپا کر کیے اور وہ قصور بھی جو مَیں نے علانیہ کیے۔ توہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔(بنام طفیل محمد صاحب ڈجکوٹ، ۱۲ مئی ۱۹۵۰ئ)
یہ بات اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جما لو کہ یہ زمین اللہ کی ہے۔ یہ آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل اور ہوائیں اور جانور اور پرندے سب اسی کے ہیں۔ وہی بارش برساتا ہے، زمین سے پھل پھول اور طرح طرح کے رزق نکالتا ہے۔ مکھیوں سے شہد، کیڑوں سے ریشم اور مٹی سے روئی بنواتا ہے۔ اسی نے ہم کو پیدا کیا، بولنے کو زبان، دیکھنے کو آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، چلنے کے لیے پائوں اور کام کاج کرنے کے لیے ہاتھ دیے۔ ہمیں صحیح اور سیدھی راہ دکھانے کے لیے قرآنِ مجید اُتارا۔ اسے سمجھانے کے لیے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا۔ نیکی اور بدی کی سمجھ ہمارے اندر رکھ دی اور ہمیں کھول کھول کر بتا دیا کہ اچھے اچھے کام کرو گے تو اس زندگی کے بعد تمھیں نہایت اعلیٰ درجے کی کوٹھیاں اور سونے کے محل اور پھلوںاور پھولوں سے بھرے ہوئے باغ دیںگے جہاں تم ہمیشہ رہو گے، اور اگر بُرے کام کرو گے تو تم کو آگ میں جلائیں گے اور اس سے تم کبھی نہ نکل سکو گے۔
جو اچھے اور عقل مند آدمی ہوتے ہیں وہ اللہ کی باتوں کو مانتے ہیں، زبان سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، کانوں سے اچھی باتیں سنتے ہیں، دماغ سے اچھی اور بھلائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں یہاں جو کھانے کو دیتے ہیں وہی خوشی خوشی کھا لیتے ہیں۔ جو پہننے کو دیتے ہیں وہی پہن لیتے ہیں، اور جو لوگ بُرے اور بے وقوف ہوتے ہیں وہ اللہ میاں کی باتیں نہیں مانتے۔ وہ زبان سے جھوٹ اور گالیاں بکتے ہیں۔ کانوں سے فضول اور نکمی باتیں سنتے ہیں۔ دماغ سے شرارت اور بُرائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے بُرے بُرے اور دوسروں کو ستانے اور نقصان پہنچانے والے کام کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو آگ میں ڈال دیں گے۔
تم سب خوب محنت سے پڑھنا سیکھو، پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ مجید پڑھنا اور اس کے رسولؐ کی باتیں سیکھنا اور پھر دوسرے نیک اور بھلے لوگوں کی باتیں اور انھی کی راہ پر چلنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو جب یہاں سے اللہ میاں کے پاس جائو گے وہ تم سے بہت خوش ہوں گے اور تم میں سے ہر ایک کو ایسا اعلیٰ درجے کا محل اور ایسا نفیس باغ دیں گے کہ بس تم خوش ہوجائو گے۔ ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ تمھارے اور خدا کے دوسرے بندوں کے لیے یہ راہ آسان کردیں۔ آپ سب لوگ ہمارے لیے دُعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنی امان میں رکھے۔(بچوں کے نام، ۸؍اپریل ۱۹۵۰ئ)
مسلمان کے معنی ہی اس شخص کے ہیں جو اپنے عقیدہ، اخلاق، معاملات اور اپنے سارے تعلقات میں اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے۔ ہر بات، ہر کام، ہر معاملے میں اُس کے سامنے صرف خدا کی مرضی کو پورا کرنا ہو اور یہ چیز اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کی مرضی کو جانے۔ اس لیے کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیے جس سے خدا کی مرضی خود کو بھی معلوم ہو اور دوسروں کو بھی معلوم کرائی جاسکے۔ کیوںکہ انسان پر یہی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خود راست رو ہو بلکہ اس پر یہ بھی اُسی طرح لازم ہے کہ اس کا جس پر جتنا زور چلتا اور اثر ہو اتنا ہی وہ اس کو بھی راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کے سامنے اس سے سوال ہوگا۔ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ جواب نہ بن آئے گا۔(بنام بہن اُمۃ الرحمن صاحبہ،۷جنوری ۱۹۵۰ئ)
آپ کے تازہ رجحانات اور تبدیلی کا حال معلوم کر کے انتہائی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس میں استقامت اور برکت عطا فرمائے۔ بھائی صاحب تقسیم ملک اور قیامِ پاکستان کے بعد ہم مسلمانوں کے سوچنے کی اوّلین بات یہی ہے کہ اگر ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بننا تھا، مخلص مسلمان بن کر نہیں رہنا تھا، اور ہمیں وہی کافر رعنائیاں اور طور طریقے مرغوب تھے تو ہندوئوں اور سکھوں سے علیحدگی اور آدھی قوم کو جس درندگی اور بدمعاشی کا شکار کرایا گیا، اس کا شکار کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا فقط کوٹ پتلون کو دھوتی کُرتا بننے سے بچانے کی خاطر؟ پھر اگر اسلام کا نام لینے اور اس کے لیے کام کرنے والوں سے اس درجہ چڑ اور عناد ہے تو قوم کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ پھر اس قوم کی اساس و بنیاد کیا شے بنائی جائے گی؟ کیا پنجابیت، سندھیت اور بنگالیت؟ یا لیڈر صاحبان کی شخصیتیں؟ آخر ہوائی قلعوں سے کتنے دن کام چل سکے گا؟ ہم لوگ آیندہ کے مسائل پر اسی انداز سے سوچتے ہیں اور اسی انداز پر سوچنے کی دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس ملک اور اس قوم کی فلاح ہی نہیں بلکہ ان کی بقا کا انحصار، ان کے معاشرے اور حکومت کو ایمان داری سے اسلام پر تعمیر کرنے پر ہے۔ ’اسلام کے اصولوں‘ پر نہیں، ’سراسر اسلام پر‘۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو ان شاء اللہ چند سال میں انڈونیشیا سے ترکی تک ایک قوم اور ایک ملک بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بسنے والی قومیں واہگہ کی سرحد کے دونوں طرف بسنے والی قوموں سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کی دشمن ہوں گی اور یہ کوئی خیالی فلسفہ یا مجذوبانہ بڑ نہیں، بلکہ اب واقعہ اور عینی مشاہدے کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔(بنام چودھری عبدالرسول صاحب ایڈووکیٹ، کراچی، ۱۳نومبر ۱۹۴۹ئ)
ماہ نامہ ترجمان القرآن (اپریل ۱۹۴۱ئ) میں ’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘ کے عنوان سے مولانا مودودی نے تشکیل جماعت کی تجویز پیش فرمائی تھی۔ اسی دوران یکم جون ۱۹۴۱ء کو میری شادی ہوگئی۔ میرے ولیمے کے اگلے ہی روز ایک اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔ میرے ماموں خسر فتح محمد صاحب دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے اہل و عیال کے ہمراہ اپنے گائوں صفدرپور سے ہمارے ہاں راے پور آئے ہوئے تھے۔ ولیمے کے اگلے روز میرے والد صاحب اور کچھ دوسرے رشتہ دار انھیں بیل گاڑی پر بٹھا کر نڈالہ کے لاری اڈے پر چھوڑنے جارہے تھے۔ یہ ابھی گائوں سے نکل کر آدھ پون کلومیٹر کی دُوری پر تھے کہ ماموں فتح محمدصاحب کے سینے میں درد اُٹھا، اور انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑ دیا۔ میرے والد اور دوسرے رشتہ دار ان کی میت چھکڑے پر واپس رائے پور لے آئے۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ان کی بیوی، بچے اور میری اہلیہ تیسرے روز، روتے دھوتے واپس صفدرپور روانہ ہوگئے۔
اس وجہ سے ۲۲ یا ۲۳؍اگست ۱۹۴۱ء کو، یعنی شادی کے بعد پہلی بار اہلیہ کو اپنے گھر لانے کے لیے میں روانہ ہوا۔ راستے میں کپورتھلہ پڑتا تھا۔ ابھی میں راستے میں کپورتھلہ پہنچا ہی تھا کہ مجھے چودھری عبدالرحمن صاحب نے بتایا: ’ایک صالح جماعت کی ضرورت ‘ کی تجویز کے مطابق مولانا مودودی صاحب کی دعوت پر لاہور میں اجتماع ہو رہا ہے۔ پھر مستری محمد صدیق صاحب اور چودھری عبدالرحمن صاحب نے مجھے بھی لاہور کے اس اجتماع میں شرکت کی پُرزور دعوت دی، اور میں سسرال جانے کے بجاے راستے ہی سے ان کے ہمراہ لاہور کی جانب چل دیا۔ ان دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور اور یونی ورسٹی لا کالج کی تربیت اور ماحول کے زیراثر لباس کی حد تک مکمل مغربی طرزِ معاشرت کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا۔ اسی حالت میں، مَیں لاہور کے اجتماع میں شریک ہوا۔ یہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفراقبال صاحب کی کوٹھی فصیح منزل سے متصل مسجد کے سامنے مولانا مودودی صاحب کی رہایش گاہ میں منعقد ہوا۔
یہ اجتماع ۲۵، ۲۶ ؍اگست ۱۹۴۱ء مطابق یکم، دوشعبان ۱۳۶۰ھ دو دن جاری رہا۔ پہلے دن تو جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوتی رہی۔ شرکا نے بعض ترامیم پیش کیں۔ یہ دستور ساز کمیٹی آٹھ دس آدمیوں پر مشتمل تھی۔ ان افراد میں مَیں بھی شامل تھا۔ اس پہلے اجتماع میں شریک جن لوگوں کی یاد ذہن میں محفوظ ہے، ان میں سیّد عبدالعزیز شرقی صاحب، مولانا جعفرشاہ پھلواروی صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، نعیم صدیقی صاحب، حافظ فتح اللہ صاحب، شیخ فقیر حسین صاحب، مستری محمد صدیق صاحب، چودھری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر عزیز الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔
اس کام میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بیان کردہ ایمان و اسلام کے تقاضوں کو سمجھ کر اور ’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘ والا مضمون پڑھنے کے بعد بالکل یکسو ہوگیا تھا۔ میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص (مولانا مودودی) جو کچھ کہتا ہے بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ پھر میں یقین کی اس منزل کو پہنچ گیا کہ یہ ایک ایسی سچائی اور ایسا حق ہے کہ اس دنیا میں کوئی تیسرا شخص اس فرد کا ساتھ دینے کے لیے اُٹھے یا نہ اُٹھے، مَیں بہرحال اس کا ساتھ دوں گا اور آخر دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔ ہم یہی کام کرتے کرتے اپنے خالق و مالک کے پاس چلے جائیں گے۔
تاسیس جماعت کا اجتماع بڑا رقت آمیز تھا۔ ہرشخص جو کلمۂ شہادت کی تجدید کے لیے اُٹھتا، شدتِ جذبات سے اس کی ہچکی بندھ جاتی تھی، اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہادت کی اس ذمہ داری کو وہ زمین و آسمان کے بوجھ سے بھی زیادہ وزنی سمجھ کر اُٹھا رہا ہے۔ اس کے بعد جب اجتماعی دُعا ہوئی تو وہ بڑی اثرانگیز اور شرکا پر رقت طاری کرنے والی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع میں جو لوگ شریک تھے، وہ اس کی کیفیات اور تجربے کو عمربھر نہیں بھلا سکے ہوں گے۔
یہ واقعہ میری یاد میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ اس اجتماع میں مدراس [چنائے] سے پشاور اور پٹنہ سے کراچی و بمبئی تک پورے [غیرمنقسم]ہندستان سے ۷۵ آدمی شریک ہوئے۔ اس دو روزہ اجتماع کا پہلا دن تو باہمی تعارف اور عام تبادلۂ خیالات اور ملاقاتوں میں گزرا۔ پھر جماعت کے لیے مجوزہ دستور کا مسودہ اجتماع میں پیش ہوا۔ ایک کمیٹی نے اس مسودے پر نظرثانی کی اور غوروبحث کے بعد اسے آخری شکل دے دی۔
دستور مکمل ہوجانے کے بعد اگلے روز صبح کے اجلاس میں مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے اور افتتاحی خطاب کیا (یہ خطبہ رُوداد جماعت اسلامی، حصہ اوّل میں پڑھا جاسکتا ہے)۔ اس کے بعد فرمایا: ’’اس جماعت کی رکنیت کے لیے سب سے پہلے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں اور آپ سب کو گواہ کر کے پورے فہم و شعور کے ساتھ کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت ادا کر کے ازسرِنو ایمان لاتا ہوں اور اس جماعت کی رُکنیت اختیار کرتا ہوں‘‘۔
مولانا مودودی کے بعد لکھنؤ سے محترم مولانا محمد منظور نعمانی اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے حضرات بھی کلمۂ شہادت کی تجدید کرکے جماعت میں شامل ہوتے گئے۔ پانچویں یا چھٹے نمبر پر میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت میں اپنے آبائی وطن ریاست کپورتھلہ (مشرقی پنجاب) میں وکیل تھا۔ ۲۷ برس عمر تھی اور اڑھائی تین ماہ پیش تر شادی ہوئی تھی۔ جیساکہ بتا چکا ہوں میں اہلیہ کو گھر لانے کے بجاے اجتماع میں آگیا تھا اور حسب معمول کوٹ پتلون اور ٹائی ہی میں ملبوس تھا۔ ہیٹ میرے ہاتھ میں تھا اور داڑھی مونچھ صاف۔
میں نے اُٹھ کر کہا: ’’میں بھی اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے پیش کرتا ہوں‘‘۔ اس پر ہمارے نہایت محترم شریک محفل جناب مولانا محمد منظورنعمانی جنھیں میں نے اسی اجتماع میں دیکھا تھا، انھوں نے میری وضع قطع کو دیکھ کر اعتراض کیا: ’’ان فرنگی آلایشوں کے ساتھ کسی شخص کو جماعت کی رکنیت میں کیسے لیا جاسکتا ہے؟‘‘ بعض دوسرے حضرات نے بھی مولانا نعمانی صاحب کی بات کی پُرزور تائید کی۔
میں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ آخر میں نے درد بھرے لہجے میں التجا کرتے ہوئے کہا: ’’آپ مجھے موقع تو دیجیے‘‘۔
چنانچہ مولانا مودودی کی تجویز پر مجھے آزمایشی طور پر اس شرط کے ساتھ جماعت میں شامل کرلیا گیا کہ اگر چھے ماہ کے اندر میں نے اپنے ذریعۂ معاش اور دوسری قابلِ اصلاح چیزوں کو درست کرلیا تو رکنیت برقرار رہے گی، ورنہ ساقط کردی جائے گی۔
اس طرح میں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت کی تاسیس کے روز ہی جماعت میں شامل ہوگیا۔ سراسر خداوند تعالیٰ کے فضل و توفیق سے میں نے جماعت کی طرف سے مقرر کردہ میعاد سے پہلے ۲۳جنوری ۱۹۴۲ء کو شرائط داخلہ پوری کردیں۔ اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے والدین، اعزہ و اقربا اور احباب و شناسا، سب کی شدید ناراضی کا برسوں تک سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کسی نصب العین کو اختیار کرنے کے بعد ان باتوں سے سابقہ پیش آنا ایک قدرتی امر ہے۔ مستقبل میں بھی اس راہ پر قدم بڑھانے والے ہر شخص کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس فیصلے اور اقدام کے بارے میں مجھے آج تک ذرہ بھی تردّد نہیں ہوا۔ بڑے بڑے طوفان آئے، بڑے بڑے برج گر گئے، بڑے بڑے دعوے کرنے والے ساتھ چھوڑ گئے، لیکن اللہ نے میرے پائوں میں کوئی لغزش نہ آنے دی اور نہ اس کا مجھ پر کبھی کوئی اثر پڑا کہ فلاں فرد جماعت کو چھوڑ کر چلا گیا، یا فلاں نے یہ کہہ کر راہِ فرار اختیار کرلی ہے وغیرہ وغیرہ۔ امرِواقعہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد اپنی ذمہ داری کا احساس اور زیادہ بڑھ جاتا۔
جماعت اسلامی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی ایک بنیادی مقصد لے کر میدان میں آئی ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے، صرف اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے دین کے پیرو بن کر رہیں۔ اپنی زندگیوں کا تزکیہ کریں اور نیکی کو پھیلائیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات و تعلیمات، قرآنِ مجید اور حضور نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان احکام و تعلیمات کو من و عن اور عملی طور پر ایک نظام کی صورت میں اپنے معاشرے میں برپا اور نافذ کریں۔ یہی جماعت اسلامی کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اسی کو قرآن کی زبان میں ’اقامت ِ دین‘ کہا گیا ہے۔ جس کے لیے جدوجہد کیے بغیر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے۔ رضاے الٰہی ہی انسانی زندگی کا اصل مقصود ہے۔
قرآن نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ (vice gerent) کہا ہے۔ خلیفہ اسے کہتے ہیں جو اپنے مالک کی مرضی پر خود بھی چلے اور دوسروں پر بھی اس مرضی کو نافذ کرے۔ نہ خود اس کے خلاف کوئی کام کرے اور نہ کسی اور کو ایسا کرنے دے۔(مشاہدات، مرتبہ: سلیم منصور خالد، ص ۶۱-۶۷)
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم دین کا یہ کام دنیاوی کامیابی کی شرط کے ساتھ نہیں کررہے ہیں۔ ۱۹۴۱ء میں جن لوگوں نے اس کام کا آغاز کیا تھا، پورے غیرمنقسم برعظیم پاک و ہند میں ان کی کُل تعداد ۷۵ تھی۔ ان ۷۵ انسانوں نے اس شعور کے ساتھ اور اس بات کو پوری طرح سمجھ کر یہ کام شروع کیا تھا کہ چاہے ہماری تعداد ۷۵ سے بڑھ کر ۷۶ بھی نہیں ہوتی تو نہ ہو، یہی نہیں بلکہ ان میں سے بھی اگر کچھ آدمی ہمیں چھوڑ جاتے ہیں تو چھوڑ جائیں، بہرحال ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ فریضہ ہرقیمت پر انجام دینا ہے۔
پھر دیکھیے کہ اگست ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد ہماری تنظیمی حالت اور عددی قوت کیا تھی؟ لیکن یہ حالت بھی ہمارے کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی اور ہم نے اسے اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے پاکستان میں اسلامی دستور کا مطالبہ سامنے رکھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہم ہتھکڑیوں، زنجیروں، جیل کی سلاخوں، پھانسی کے پھندوں اور کتنے ہی مرحلوں سے گزرے ہیں، لیکن ہرمرحلے پر اللہ تعالیٰ نے اس دعوت کے مخالفوں کو رُسوا کیا، ہمارے قدم آگے بڑھے اور باری تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں دین کے فروغ کا ایک ذریعہ بننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس لیے پہلی مشکلات اور آزمایشوں کے مقابلے میں موجودہ مراحل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اس چیز کو ایک اٹل اور فطری قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے ذہن نشین کرلیجیے کہ جب تک باربار آزمایشوں بلکہ شکستوں تک سے دوچار نہ کیا جائے، وہ قابلیت اور صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اقامت دین کے کام کے لیے مطلوب ہے۔ مصائب سے گزرے بغیر ہم ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ آزمایشوں کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ ہم پر کسی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ بار بار ہمیں ابتلا و آزمایش اور مصائب میں ڈال رہا ہے۔
۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی پر جو ردعمل سامنے آیا، سیاسی جماعتوں، وکلا کی تنظیموں اور سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں نے جس طرح اس اقدام کے خلاف زبردست احتجاج کیا، غیرممالک کے اہم ترین اخبارات نے جس طرح اس کے خلاف لکھا اور اندرون ممالک احتجاج کے علاوہ بیرون ملک سے جس طرح محضرنامے بھجوائے گئے، اس سے بجاطور پر جماعت کے وقار اور اس کے ٹھوس مقام کا پتا چلتا ہے۔ پھر جماعت کے خلاف کشمیر کے ’فتویٰ‘ سے لے کر صدرایوب خاں صاحب کے ایک وزیرداخلہ تک کے اعتراضات و الزامات کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح عدالت میں لانے کا بندوبست کیا اور اس سے سارے ملک پر یہ بات، ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سند کے ساتھ واضح ہوگئی کہ قانون توڑنے والی جماعت نہیں ہے، خود حکمران ہیں۔ پھر قومی آفات کے موقعوں پر عوام نے جماعت اسلامی پر جس طرح اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عوام کی نظر میں مخالفین کی طرف سے جماعت پر لگائے گئے الزامات کی کیا حیثیت ہے۔ اسی طرح تبلیغی وفود نے عوام سے جو ملاقاتیں کی ہیں، ان سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کے رجحانات کیا ہیں۔ انھی وجوہ کی بنا پر حکمران اور مخالفین نے بوکھلاکر صرف ۱۹۶۴ء میں جماعت کے خلاف ۷۳کتابیں شائع کیں مگر وہ پرکاہ جیسا وزن نہ پاسکیں۔
ہم یہ کام اس لیے نہیں کر رہے ہیں کہ اگر کامیابی ہوئی تو کام کرتے رہیں گے، ورنہ ہمت ہار کر کام کو چھوڑ دیں گے۔ دراصل ہم اپنی پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کی نجات کا انحصار ہی اس پر ہے کہ ہم کسی نقصان کی پروا کیے بغیر، اپنے جسم و جان اور مال و دولت کو اس فرض کی ادایگی اور اس جدوجہد میں لگادیں، کھپا دیں۔
دوسری طرف بتدریج میدان ہموار ہو رہا ہے۔ ہماری جدوجہد کی مثال سڑک کوٹنے والے اس انجن کی سی ہے، جو روڑوں کو ہموار کرتا ہوا دبدبے کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت کا قانون یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کردیتا ہے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون مخلص ہے اور کون محض دنیاوی مفادات کی خاطر منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ قرآن حکیم بتاتا ہے کہ اللہ کی نصرت اس وقت آتی ہے جب تمام دنیاوی سہارے مٹ جائیں اور بظاہر کوئی تدبیر کام کرتی نظر نہ آئے۔ تعاقب میں فرعون ہو اور سامنے دریا ہو، تب رحمت خداوندی جوش میں آجاتی ہے! مگر اس کے لیے شرط ہے: ایمان، اخلاص، تسلسل، تنظیم اور تربیت۔
دوسری طرف آپ دیکھیں کہ بہت سے مواقع پر جب ہمیں میدان سے ہٹا دیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے غیب سے ہماری مدد فرمائی۔ قرارداد مقاصد پاس ہوئی تو اس وقت جماعت کی مرکزی قیادت جیلوں میں قید تھی۔ ۱۹۶۴ء میں جب جماعت پر پابندی عائد کی گئی تو ملک کے تمام اہم قانون دان جماعت کے دفاع کے لیے متحد ہوگئے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ نے جماعت کی براء.ت کا فیصلہ بھی ایسے عالم میں دیا کہ تمام رہنما آہنی سلاخوں کے اس پار کھڑے تھے۔ پس اللہ کی نصرت آتی رہی ہے اور آیندہ بھی آئے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے قدم نہ ڈگمگائیں اور ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ نہ ہو، اور ہم مایوسی و بے حسی کو ختم کرتے ہوئے اپنی پوری طاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ یہ عظیم جدوجہد جاری رکھیں، اور اگر ناکامی ہوئی تو اس کا سبب بے حسی اور بے عملی ہوگی۔
جماعت اسلامی کا مقصد پوری زندگی کے نظام کو توحید پر قائم کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی اللہ کی بندگی کے گرد گھومے اور ہرشعبے میں، ہرمعاملے میں، ہر وقت اور ہرجگہ اسی کی اطاعت کی جائے اور ہرفرد خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا، بیوی ہو یا شوہر، بوڑھا ہو یا نوجوان، ہرحیثیت سے اسلام پر پوری طرح عمل پیرا ہو اور اسلامی زندگی کا مکمل نمونہ بن جائے___ اس چیز کو آپ پیشِ نظر رکھیں تو پھر آپ کو کبھی یہ پوچھنے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ: ’’ہم کیا کریں؟‘‘ آپ جہاں ہیں اور جس حیثیت میں ہیں، یہ دیکھیں کہ بحیثیت مسلم میرا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ آپ کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کو اپنے متعلق بتانے یا زبان کھولنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ آپ کا کردار ہی آپ کی نمایندگی کرے۔ سیکڑوں صوفیہ سلطانوں اور بادشاہوں کے دور میں ہندستان آئے تو ان کے پاس نہ خزانے تھے نہ جاگیریں اور نہ دیگر وسائل تھے، مگر ان کے پاس کردار کی دولت تھی جس کے بل بوتے پر انھوں نے ایمان کی شمعیں اور ہدایت کے چراغ روشن کیے۔ یہی معاملہ افریقہ، وسطی ایشیا، ایران اور انڈونیشیا کے ہزاروں جزیروں تک دکھائی دیتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے کارکن بھی اپنی بستیوں میں اسلام کے ایسے ہی چراغ ثابت ہوں۔ اب تک اس تحریک کے جو اثرات پھیلے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اس کے کارکنوں کی زندگیاں اسلام، ایمان اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہوں، ان کے خلاف نہ ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کام تو سیکڑوں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں حضرات درس و تدریس اور تقریروں کے ذریعے مسلسل کر رہے ہیں، لیکن اسلام کا اثر بڑھنے کے بجاے گھٹتا ہی چلا آیا ہے۔ اس کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے تقویٰ کو اپنی ذات تک محدود رکھا اور اپنے مریدوں اور پیروکاروں کے اخلاق و کردار کی طرف بنیادی توجہ کبھی نہیں دی۔ پس قول و فعل کی ہم آہنگی کا اہتمام ہی وہ چیز ہے جس کے سبب جماعت کے اثرات پھیلے ہیں۔ اس کا اہتمام جس قدر زیادہ کیا جائے گا اسی قدر جماعت کی دعوت پھیلے گی، ان شاء اللہ!
توجہ طلب امور: اپنے قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے آپ کو بعض امور کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے:
l ۱۹۴۷ء کے بعد کے زمانے میں ملاقات رہی۔ عبدالعزیز مطوع اور ان کے چھوٹے بھائی عبداللہ علی مطوع [م: ۲۰۰۶ء] بڑے مخیر انسان تھے۔ عبداللہ علی مطوع مولانا مودودی کی تعزیت کے لیے ۱۹۷۹ء میں لاہور تشریف بھی لائے تھے۔ ان سے تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز انھوں نے اپنی چیک بک میرے سپرد کرتے ہوئے کہا :’’یہ آ پ کے حوالے ہے۔ آپ جوچاہیں ان کا استعمال کریں‘‘۔
میں نے ان سے کہا: ’’میں آپ سے کچھ اور تونہیں کہتا ہوں۔ البتہ منصورہ میں ہمارے دفاتر کے ہمسایے میں ثنائی فلم سٹوڈیو ہمارے سرپر سوار ہے‘اس سے ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ اس کو بیچنا بھی چاہتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں آپ کوئی مدد کرسکیں تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا ‘‘۔ انھوں نے جواب میںکہا :’’ اس کا سودا کرلیں اور جتنا اس کا عوضانہ ہو وہ مجھے بتادیں‘‘۔چنانچہ ۵۷ لاکھ روپے میں متعلقہ ٹرسٹ نے ثنائی اسٹوڈیوکی یہ بلڈنگ خرید لی‘ اس کی بیش تر ادایگی عبدالعزیز مطوع اور عبداللہ علی المطوع نے کی۔ اس اسٹوڈیوکے بڑے ہال میں منصورہ ہسپتال،پروجیکشن ہال میں منصورہ آڈٹیوریم ،جب کہ لیبارٹری میں ادارہ معارف اسلامی کا دفتر اور ایک بڑی لائبریری قائم کی گئی۔
اس قیام کے دوران میں صدرحسنی مبارک سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا: ’’آپ اخوان کے قائد عمر تلمسانی سے ملیں اور ان کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ تصادم کے بجاے کوئی راستہ نکالیں اور اس طرح ایک دوسرے کو گرانے کی یہ صورت ختم ہو‘‘۔ چنانچہ میں نے اخوان کے تیسرے مرشدعام عمر تلمسانی سے ملاقاتیں کیں ، اور ان سے کہا :’’ بھائی‘ یہ جو صورت ہے‘ یہ نہ آپ کے لیے مفید ہے اور نہ ان کے لیے مفید ہے۔ کوئی ایساراستہ نکالنا چاہیے کہ وہ بھی کچھ ڈھیلے پڑیں اورآپ بھی کچھ اپنی سختی کو کم کریں، تا کہ دعوتی سرگرمیوں کے لیے بہتر صورت پیدا ہوسکے‘‘۔ اس مذاکراتی عمل کے نتیجے میں کوئی براہ راست ملاقات عمر تلمسانی اور حسنی مبارک کے درمیان تو نہیں ہوئی،تاہم ہمارے ذریعے غائبانہ طور پر اُن دونوں کی بات، ایک دوسرے تک پہنچی۔
اپنی ملاقات میں‘ مَیں نے صدر حسنی مبارک سے کہا:’’معاملات کو مثبت رخ دینے کے لیے آپ اخوان کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ حسنی مبارک اس پر راضی ہوگئے اور کہا :’’وہ اس پرچے میں زیادہ سختی نہ کریں، ہم بھی کوئی ایسی بات نہیں کریں گے۔وہ کوئی اخبار نکال کر کام شروع کردیں‘‘۔ چنانچہ اس طرح سے انھوں نے اخوان کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دی۔ اسی سفر کے دوران میں عمر تلمسانی کے علاوہ مصطفی مشہور سے قاہرہ میں میری ملاقاتیں ہوئیں۔ عمر تلمسانی کے بعد حامد ابو النصر مرشدعام بنے تھے‘ وہ بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے۔
ان تمام مظالم کے باوجود اخوان کی قیادت اور اس کے کارکنوں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ان سے وابستہ مردوں،عورتوں اور نوجوانوں نے ان تکلیفوں اور اذیتوں کا بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ زمین میں گاڑ کر ان بے گناہوں پر کتے تک چھوڑے گئے۔ حکمرانوں کے مظالم کبھی کسی تحریک اور فکرکو ختم نہیں کرسکتے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور ان سے پیش ترانبیا پر بھی ظلم ہوئے ہیں اور وہ جواب میں اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔
یہاں بھی آپ دیکھیں‘ الحمدللہ زیادہ مضبوط تو جماعت اسلامی ہی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اور مسلمانوں کو یہ قوت اور ہمت عطا فرمائی ہے کہ یہ ایسی صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس باقی تحریکیں چند دن کے لیے اٹھتی ہیں، زور دکھاتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اخوان جب سے شروع ہوئے مسلسل چل رہے ہیں۔ مولانا مودودی نے بھی جو تحریک شروع کی ہے الحمدللہ وہ بھی مسلسل آگے ہی بڑھ رہی ہے‘ پیچھے نہیں ہٹ رہی۔
یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے میں اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرتاتھا کہ اب میرے اندر کام کرنے کی زیادہ طاقت نہیں رہی، جماعت کے چند مخلص ساتھیوں نے مجھ سے کہا: ’’جس طرح مولانامودودی نے اپنی زندگی میں ہی ذمہ داریاں منتقل کردی تھیں، اس طرح کسی کو آگے لانے کی کوشش کریں‘‘۔ میں نے ارکان جماعت سے درخواست کی کہ دوبارہ مجھے منتخب نہ کیا جائے‘ ارکانِ جماعت نے قاضی صاحب کو امیرجماعت منتخب کرلیا جو میرے ساتھ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
m کیا شیطانی قوتیں اور ان کے آلہ کار کامیاب ہوجائیں گے ؟