اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو کچھ قوتیں، قابلیتیں اور صلاحیتیں دے کر ایک متعین مدت اور ایک متعین وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ وہ ان قوتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں کو اور اُن وسائل کو جن سے اس کو مسلح کیا گیا ہے، وہ کن مقاصد کے لیے اور کن کاموں میں صرف کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک تو انسان کے اندر نیکی اور بدی کی امتیازی صلاحیت خود ہی رکھ دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انبیا علیہم السلام اور وحی کے ذریعے سے اس کو یہ بھی بتادیا ہے کہ تمھارے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اور جس نے تمھیں یہ سب کچھ عطا کیا ہے اور جس کی تم مخلوق ہو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے، جو تمھاری پرورش کر رہا ہے اور جس کے پاس پھر تمھیں لوٹ کر جانا ہے، وہ تمھارے لیے کس قسم کی زندگی اس دنیا میں پسند فرماتا ہے اور کن چیزوں کو وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ان ساری چیزوں کا انتظام کرکے اس نے انسان کو ایک متعین مدت اور وقت کے لیے اس دنیا میں بطورِ امتحان بھیجا ہے۔
اسی بات کو مولانا مودودی نے اس طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جیسے آپ ایک طالب علم ہیں۔ جس طرح طالب علم کمرئہ امتحان میں ہفتہ دس دن یا پندرہ دن مختلف امتحانوں میں سے گزرتے ہیں، اسی طرح آپ کو مختلف پرچے دیے جاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک متعین وقت دیا جاتا ہے کہ ان کو تم حل کرو اور آپ کو جتنا وقت دیا جاتا ہے، اس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا۔ آپ کا جس طرح سے جی چاہے پرچہ حل کریں یا نہ حل کریں۔ آپ جو جی چاہے کریں، آپ کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے ، لیکن جب وقت ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو مہلت ِ عمل دی ہے اور آپ کو بھیجا ہے۔
اس سلسلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو بنیادی باتیں قرآنِ مجید میں ہمارے سامنے رکھی ہیں، ان میں سے کچھ آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ط وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۵۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مالِ متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ عطا کیا ہے___ مال عطا کیا ہے، دولت عطا کی ہے، زمین عطا کی ہے، قوتیں عطا کی ہیں، دل و دماغ عطا کیا ہے، جذبات عطا کیے ہیں، عقل عطا کی ہے، سوجھ بوجھ عطا کی ہے، فہم و فراست عطا کی ہے، سوچنے سمجھنے کی قوتیں عطا کی ہیں، نیکی اور بدی کی تمیز کرنے کی قوتیں عطا کی ہیں__ ان ساری کی ساری چیزوں کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ ، ان کو خرچ کرلو اس غرض کے لیے کہ تم اپنے حق میں کوئی چیز کمالو۔ اس وقت کے آنے سے پہلے کہ جب یہ پرچہ تمھارے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا اور تمھیں ایک لمحے کے لیے بھی مہلت عطا نہیں کی جائے گی اور کمرئہ امتحان سے تمھیں اُٹھا دیا جائے گا۔ پھر جب اس پرچے کو جانچنے کا وقت آئے گا تو نہ تمھاری کوئی سفارش چلے گی، نہ کوئی چھرا یا پستول دکھا کر تم اپنے نمبروں میں کمی بیشی کروا سکو گے، اور نہ کسی کو کچھ دے دلا کر ہی کسی سے کوئی رعایت حاصل کرسکوگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح سے جو نصاب مقرر کیا ہے، اس طرح سے آپ کو اپنے پرچوں کو حل کرنا چاہیے۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، دوستوں اور ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، زیردستوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے اور اپنے سے اُوپر والوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے، اپنوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور پرائیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ اسی طرح روپے کا صرف کس طرح کرنا چاہیے، عدالت کس طرح سے چلنی چاہیے اور اپنے جھگڑے کس طرح سے نبٹانے چاہییں۔ اس طرح سے اگر آپ نے پرچہ حل کیا ہوگا، کسی کی حق تلفی نہ کی ہوگی تو ٹھیک ہوگا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اپنے اُوپر بھی ظلم کیا اور ان چیزوں پر بھی ظلم کیا، جن کو آپ نے استعمال کیا، کیوں کہ ان کا حق یہ ہے کہ جس مالک کی یہ اشیا ہیں اس مالک کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کیا جائے۔ دل و دماغ، ہاتھ پائوں، عقل اور فہم و فراست، سوچ سمجھ، اولاد، بھائی بند، دوست احباب اور جو چیزیں بھی آپ کو عطا کی گئی ہیں، ان کا حق آپ پر یہ بنتا ہے کہ آپ اس مالک کی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کریں جس کی وہ چیزیں ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ ہرچیز جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے صواب دید اور اختیار (disposal) میں دی ہے، وہ آپ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس لیے آپ کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس مالک کی مرضی کے خلاف ان کے اندر آپ تصرف کریں۔ آپ میں سے ہرشخص جو بھی معاملات کی کچھ بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ جوچیز بھی آپ کے پاس کسی نے امانت رکھی ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس امانت میں اس کے مالک کی مرضی کے خلاف تصرف کرے، اور اس کے خلاف تصرف کرنے کا نام خیانت ہے، بے ایمانی ہے، بددیانتی ہے اور غبن ہے۔ اگر وہ امانت میں خیانت کرتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی، خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور وہ اپنے اُوپر بھی ظلم کرے گا۔ اگر وہ جیل جائے گا تب بھی، جرمانہ ہوگا اور سزا ملے گی تب بھی۔ جو بھی ایسا کام کرتا ہے وہ خود پر ظلم کرتا ہے اور کوئی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ، جو لوگ خدا کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں، خدا کے قانون کو توڑیں، خدا کی مرضی کے خلاف ان چیزوں کا استعمال کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق انھیں استعمال نہ کریں، وہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ وہ دوسروں کے اُوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور ان اشیا پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کا حق مارتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ خود کو بھی سزا کا مستحق ٹھیراتے ہیں اور اس طرح خود اپنے اُوپربھی ظلم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اللہ جس کی اطاعت اور فرماں برداری کی طرف آپ کو بلایا جاتا ہے اور متوجہ کیا جاتا ہے، جس کی مرضی کو ملحوظ رکھنے کی آپ کو دعوت دی جارہی ہے، وہ خدا کون ہے؟ اس کے بارے میں فرمایا:
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَ لَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا ج وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُo (البقرہ۲:۲۵۵)اللہ وہ زندۂ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اُس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
گویا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ نہ اِس زمین کا خدا ہے، نہ اُس آسمان کا خدا ہے، نہ ان چیزوں کا خدا ہے اور نہ آپ کا خدا ہے۔ اور وہی خدا ہے جس کے سامنے آپ کو جاکر پیش ہونا ہے اور جو ہمیشہ سے زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کو کسی اور نے زندہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی ذات سے خود زندہ ہے۔ وہ زندئہ جاوید ہے۔ یہی نہیں کہ وہ خود زندہ ہے بلکہ تمام کائنات میں جو کچھ ہے سب کا وہی صانع ہے، پیدا کرنے والا ہے۔ اگر اس کا سہارا ہٹ جائے تو سب کچھ اسی وقت دھڑام سے گرپڑے۔ آپ کا وجود بھی اسی کی ذات سے قائم ہے۔ اگر اس کا سہارا ختم ہوجائے تو یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر انسان پر فالج گرتا ہے تو کس چیز کی کمی واقع ہوجاتی ہے؟ اس خدا نے انسانی وجود کو جو سہارا دے رکھا ہے دراصل سہارا دینے کا وہ وسیلہ معطل ہو جاتا ہے اور انسان مٹی کے ڈھیرکی طرح سے زمین پر جاگرتا ہے۔ نہ اس کی انگلی ہلتی ہے ، نہ اس کا پائوں ہلتا ہے، نہ اس کا سر حرکت کرتا ہے اور نہ وہ اپنا پہلو بدل سکتا ہے اور اکثر اوقات تو بول بھی نہیں سکتا۔سب کچھ موجود ہوتا ہے، اس کے اندر جان بھی ہوتی ہے لیکن صرف خدا کا وہ سہارا اس سے ہٹ جاتا ہے۔
پھر فرمایا: لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط،وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔
ایک سیکنڈ تو درکنار، ایک سیکنڈ کا کروڑواں ، ارب واں حصہ بھی اس پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ وہ ہروقت اور ہر آن alertہے۔ وہ ہروقت باخبر ہے۔ اس کے اُوپر کبھی بے خبری کی حالت طاری نہیں ہوتی۔ نہ وہ سوتا ہے اور ذرا برابر اُونگھ تک بھی اس پر طاری نہیں ہوتی۔ کسی بھی وقت اس پر کسی قسم کی کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی۔ کسی حالت میں بھی وہ آپ سے غافل نہیں ہوتا۔ جہاں بھی آپ ہیں، جس حال میں بھی ہیں، جو کام بھی کر رہے ہیں، دنیا کے جس گوشے میں بھی ہیں، ہروقت وہ آپ سے باخبر ہے، چوکنا ہے اور چوکس ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟
ایک دوسری جگہ فرمایا: کون ہے جو اس کی جناب میں زبان بھی کھول سکے۔ کوئی نبیؑ ، کوئی ولی، کوئی بزرگ، کوئی بڑا یا کوئی چھوٹا، اس کی مرضی کے خلاف اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ یہاں سفارش کرنا اور شفاعت کرنا کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی اس کے سامنے زبان کھولے گا، اس کی اجازت اور مرضی سے کھولے گا، اور اجازت بھی وہ اسی کو دے گا جس کے بارے میں خود اس کا منشا ہوگا۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج، جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے۔
اس کو خود معلوم ہے کہ آپ کے آگے کیا ہے اور آپ کے پیچھے کیا ہے؟ آپ کے دائیں کیا ہے اور بائیں کیا ہے؟ آپ نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے اور کس نیت سے اور کس ارادے سے کیا ہے؟ کس وجہ یا مجبوری سے کیا ہے؟ بدنیتی سے کیا ہے یا خوش نیتی سے کیا ہے___ وہ سب جانتا ہے، اسے کوئی کیا بتائے گا۔ کسی کے پاس کوئی سفارش اسی بنا پر کرتا ہے کہ حاکم کو بتائے کہ: ’حضور اس نے مجبوری اور لاچاری سے یہ جرم کیا ہے اور آپ کو جو اطلاع ملی ہے اس میں یہ غلطی ہے۔ فلاں شخص نے اس میں یہ غلط بات بیان کی ہے اور فلاں نے اس شخص کی اس طرح سے شکایت کرکے آپ کو بدظن کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کو بدظن کون کرے گا؟ اسے غلط اطلاع کون دینے کی ہمت کرے گا؟ اور اسے دھوکے میں کون ڈالے گا؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ جو دنیا کو نہیں معلوم وہ سب کچھ اس کو معلوم ہے۔
وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ ج، اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت اور ادراک میں نہیں آسکتی، اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔
کوئی دوسرا اس کو جو کچھ بتانا چاہتا ہے وہ علم تو اسی کا دیا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہ کیا بتائے گا؟ جو پیغمبرؑ ، یا ولی، یا کوئی دوسرا شخص بھی اس کو بتائے گا، وہ تو اللہ ہی کا اسے دیا ہوا علم ہے۔ اگر وہ کسی کی شفاعت یا سفارش سنے گا تو دنیا کو دکھانے کے لیے کہ اس شخص کا میرے دربار میں یہ مرتبہ ہے۔ اور اس کو میں نے یہ مقام دیا ہے کہ اس کی سفارش پر میں تمھیں معاف کررہا ہوں تاکہ وہ اس کے احسان مند ہوں کہ یہ ہمارا مقرب بندہ تھا۔ اس کو دنیا میں بھی ہم نے تمھاری رہنمائی کے لیے بھیجا تھا اور تم نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ دیکھو! اس کا ہمارے ہاں کیا مرتبہ ہے۔ جس کو تم نے دنیا میں رد کر دیا تھا، ہمارے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے۔ اس لیے ہم اس کی بات سن رہے ہیں۔
وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ،اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔
آپ کبھی اس کی حدود سلطنت سے نکل کر باہر نہیں جاسکتے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی اس کائنات کے اندر ہے، سب پر اس کی حکومت ہے۔ ہرجگہ اس کی سلطنت چھائی ہوئی ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ ہرجگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ ہرچیز اس کے دائرۂ اختیار کے اندر ہے۔ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔
وَ لَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
اللہ وہ ہستی ہے جو ہمیشہ سے اس کائنات پر حکمرانی کرر ہی ہے، اس کی نگرانی کر رہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے۔انسان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ کام کرنے کے بعد تھک جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ کھاپی لے، کچھ آرام کرلے اور کچھ سستا لے تاکہ مزید کام کے لیے تازہ دم ہوجائے۔ لیکن وہ ذاتِ باری تعالیٰ ایسی ہے اور ایسی زبردست قوت والی ذات ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے، اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے، اس کی ضروریات کو پورا کررہی ہے، اس کے تمام انتظامات کو چلارہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے۔ اس کی حفاظت ، اس کے انتظامات اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے سے ذرہ برابر بھی اس پر تھکاوٹ طاری نہیں ہوتی۔ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،لہٰذا وہ سب سے بزرگ و برتر، سب سے اعلیٰ و ارفع اور سب سے بلند ہے۔
یہ ہے وہ خدا جس کی طرف آپ کو اور تمام انسانیت کو بلایا جارہا ہے اور یہ ہے وہ اسلام، جس کی طرف انسانوں کو اور آپ کو اور آپ اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو بلارہے ہیں کہ اس کے سامنے سرجھکائو اور اس کی رہنمائی کو قبول کرو۔ اس کے دین کو اور اس کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو۔ دنیا میں بھی سرفراز ہوجائو اور آخرت میں بھی اس کی جنّت میں داخل ہوجائو اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوجائو۔
یہی ہے دین کی وہ بنیادی دعوت، جس کو لے کر آپ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس خدا کے تصور کو آپ جتنی مضبوطی کے ساتھ اپنے ذہن میں بٹھالیں گے، اتنا ہی آپ کے اندر بے پناہ ہمت و حوصلہ اور نہ ختم ہونے والا جوش پیدا ہوگا۔ اسی طاقت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ کے خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے دنیوی وسائل کے لحاظ سے تہی دامن ہونے کے باوجود بڑی بڑی سلطنتوں، بڑی بڑی سوپرپاورز کو انھوں نے اُکھاڑ کر پھینک دیا۔
آج ہم سے چند میل کے فاصلے پر افغانوں نے، جن کے پاس نہ دنیا کا مال و دولت ہے، نہ جدید اسلحہ ہے، نہ کوئی ٹینک اور توپ خانے ہیں، نہ ہوائی جہاز ہیں، لیکن دنیا کی دو بڑی سوپرپاورز کو جن کے مقابلے میں دنیا کی ساری سلطنتیں مل کر بھی کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کر رہی تھیں، ان کو اسی خدا پر یقین رکھنے والوں نے، جن کو اس بات کا یقین تھا کہ العلی العظیم ہماری پشت پر ہے، انھوں نے اس طاقت کا منہ پھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے آپ کو اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی ذات بابرکات ہے اور صرف اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
اس چیز کو منوانے کے لیے کوئی تلوار استعمال نہیں کی جائے گی، کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ زبردستی آپ کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں کہ وہ طاقت کے سامنے زیر ہوکر زبانی کلامی آپ کو دھوکا دے ڈالے، لیکن زبردستی آپ اس کو مومن نہیں بناسکتے۔ اس لیے کہ مومن آدمی اپنی مرضی سے بنتا ہے۔ اگر اس کے دل کے اندر بات اُترے، اُس کا دماغ اس کو قبول کرے ، اس کے دل میںیہ بات بیٹھ جائے، اس کے ذہن میں یہ بات اُتر جائے، تب تو حقیقت میں آدمی مومن بنتا ہے اور صحیح معنوں میں خدا کافرماں بردار بن سکتا ہے۔ اسی صورت میں وہ جنّت کا اور خدا کے ہاں مقبولیت کا مستحق قرار پائے گا۔ اگر آپ نے اسے ڈنڈا دکھا کر کلمہ پڑھا دیا تو کسی بھی وقت وہ آپ کو بھی دھوکا دے گا اور آپ کی قوت کا بھی ذریعہ نہیں بنے گا۔ آخرت میں بھی اس کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ دوزخ کا بدترین ٹھکانا اس کا مقدر ٹھیرے گا۔ جیساکہ قرآن پاک میں منافقوں کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج (النساء ۴:۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنّم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے‘‘۔ وہ جہنّم کے سب سے نچلے گڑھے میں ڈالے جائیں گے جہاں سے وہ شاید کروڑہا برس کی مسافت طے کر کے جہنّم کے کنارے پر پہنچ سکیں گے۔ وہ اتنا گہرا گڑھا ہوگا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ،یعنی یہ بات ہم زبردستی کسی سے نہیں منوا سکتے۔ یہ ہم نے بتا دیا کہ وہ خدا کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کی قوت کیا ہے؟ لیکن اس بات کو ہم زبردستی نہیں منوا سکتے، اس لیے کہ دین میں جبر نہیں ہوسکتا۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
صحیح بات کو جو عقل اور معقولیت کے مطابق بات ہے اس کو بالکل منزہ کر کے، واضح کرکے اور صاف کرکے تمام آلایشوں سے پاک کر کے ہم نے سامنے رکھ دیا ہے اور غلط بات کو الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کرلے اور جس کا جی چاہے اس کو رد کردے۔
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَا انْفِصَامَ لَھَا ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ۲:۲۵۶) اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
پھر جس نے ’طاغوت‘ کو رد کر دیا اور اللہ کو تسلیم کرلیا اور اللہ کے سامنے سر جھکا دیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا پکڑ لیا ہے جو کبھی دھوکا دینے والا نہیں، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ جس میں کوئی کمزوری نہیں ہے، جو ہروقت سہارا دینے والا ہے۔ اس کو پکڑ لینے کے بعد کبھی آپ کے پائوں میں لغزش نہیں آئے گی، جو آپ میں کبھی کمزوری نہیں پیدا ہونے دے گا۔ اس لیے آپ اس سہارے کو تھامیں۔ پھر اگر آپ کسی وقت اس کو پکارنے کی ضرورت محسوس کریں تو جہاں آپ نے زبان سے بات نکالی تو فوراً اس تک پہنچ جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں پھینکنے کا انتظام کیا اور اس کے لیے آگ کا ایک بڑا خوف ناک الائو تیار کیا اور آگ میں پھینکنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو منجنیق میں ڈالا کہ اُس کی قوت کے جھٹکے سے انھیں دہکتی آگ میں پھینکے۔ اس وقت حضرت جبریل امین ؑ ان کے پاس آئے اور عرض کیا: یاخلیل اللہ! آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپؑ کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اگر آپ مدد کے لیے آئے ہیں تو آپ کی مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت جبریلؑ نے کہا کہ خدا سے مدد مانگیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ یہ سب کچھ تو میرے رب کے سامنے ہو رہا ہے۔
گویا خدا تو وہ ہے جسے پکارنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، جس کے علم میں سب کچھ ہے، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سن رہا ہے، وہ سمیع ہے، وہ علیم و بصیر اور خبیر ہے۔ اس کو خبر بھی ہے اور علم بھی۔
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o ( ۲:۲۵۷) جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنیوں سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ ان لوگوں کا سرپرست، ساتھی اور ولی اور دوست ہے جو اس کو مان لیں، اس پر ایمان لے آئیں۔ وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔ اور جو لوگ اس کا انکار کریں، اس سے سرکشی کا راستہ اختیار کریں وہ ان کو طاغوت کے سپرد کردیتا ہے۔ یعنی جو خدا کے سرکش ہیں، خدا کے منکر ہیں اور خدا کے نافرمان ہیں، اور یہ کہ وہ نہ صرف خود خدا کے نافرمان ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر اپنے تابع فرمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ،اور وہ ان کو روشنی سے نکال کر، عقل اور فراست کے راستے سے نکال کر اندھیروں اور تاریکیوںکے راستے میں بھٹکنے پر ڈال دیتے ہیں۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔
اس کے بعد ایک مثال بیان فرمائی کہ کس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اُوپر بھروسا کرنے والوں اور اپنے اُوپر ایمان لانے والوں کی مدد فرماتا ہے اور ان کو راستہ دکھاتا ہے اور ان کو تاریکی میں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ ط اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ م اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ لا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ ط قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o (البقرہ۲: ۲۵۸) کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا رب کون ہے، اور اس بناپر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سن کر وہ منکرِحق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔
یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کس کس اسلوب میں اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے، ایسے دلائل اور باتیں سجھاتا ہے کہ وہ اپنے بالمقابل لوگوں کو خاموش کرا دیتے ہیں اور ان کو کوئی بات سوجھتی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اس آگ کے الائو سے زند ہ نکلنے کے بعد نمرود کے پاس گئے، تو اس نے آپؑ سے کہا کہ:’ تُو کس کو ربّ مانتا ہے؟‘ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ:’ میرا ربّ وہ ہے، جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے اور جو موت دیتا ہے‘۔ اس نے کہا کہ:’ زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں ہے۔ میں جس کو چاہوں زندہ رکھوں اور جس کو چاہوں قتل کروا دوں، پھانسی دے دوں اور اس کی زندگی ختم کر دوں‘۔ جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس کے حکم سے روز مشرق سے سورج نکلتا ہے تُو اگر خدا ہے تو ذرا مغرب سے اسے نکال کر دکھا دے؟‘ ظاہر بات ہے کہ اس کا کوئی جواب نمرود کے پاس نہیں تھا۔
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo( ٰال عمرٰن ۳:۸۳) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچاراللہ ہی کی تابع فرمان (مُسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
یہ فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ لوگ اللہ کے اس دین کو چھوڑ کر کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے سامنے گردن جھکائیں، اس کی اطاعت کو قبول کریں، اس کے دیے ہوئے طریقِ زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس کے قانون کو تسلیم کریں، اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کریں۔ اس کے حلال کو قبول کریں اور اس کے حرام سے اجتناب کریں۔ اس کی پسندیدہ چیزوں کو اختیار کریں اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب کریں، اور جو راستہ اس نے بتایا ہے اسے اختیار کریں۔ مگر یہ لوگ اس کو اختیار کرنے کے بجاے کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، یا یہ کوئی اور راستہ خود بنانا چاہتے ہیں یا لوگوں کا بنایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ زمین و آسمان میں ہرچیز اللہ کے مقرر کردہ راستے پر چلی جارہی ہے۔ سورج، چاند، ہوائیں، پہاڑ، سمندر، دریا، زمین و آسمان کی تمام قوتوں کو دیکھیں ، بارشوں کو دیکھیں،فصلوں کو اُگتا ہوا دیکھیں، زندگی اور موت کو دیکھیں، اپنے حجم کو دیکھیں، اپنے سانس کی آمدورفت کو دیکھیں،دنیا کا جتنا بھی نظم و نسق ہے اس کو کون چلا رہا ہے؟ دنیا کے اندر جو قوانین فطرت (Laws of Nature) رائج ہیں، یہ کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ کیا کسی بادشاہ کے بنائے ہوئے ہیں یا کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا کا نظام اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہا ہے، اللہ کے بنائے ہوئے قوانینِ فطرت کے تحت چل رہا ہے اور پوری دنیا کا نظام خدا کے بنائے ہوئے ایک راستے پر چل رہا ہے، تو کیا تم اس راستے سے ہٹ کر کسی اور راستے پر چلنا چاہتے ہو؟ دراصل ہمیں دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پرخدا کے قوانینِ زندگی کے مطابق چلنے کا اہتمام کرو۔ کل مرنے کے بعد تمھیں اسی کے سامنے جاکر پیش ہونا ہے اور تمھاری جانچ پڑتال ہوگی کہ تم اپنی زندگی کے معاملات کو کس قانون کے مطابق چلارہے تھے؟ کیا اسی قانون کے مطابق جس کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا تھا اور خود تمھارا جسم پل بڑھ رہا تھا، بیمار ہوتا اور تندرست و توانا ہوتا تھا، تمھاری سانس چل رہی تھی، دماغ کام کر رہا تھا اور تمھارے اعضا حرکت کررہے تھے؟ تم نے اسی قانون کے مطابق اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اپنے معاملات کو چلایا، یا تم نے کسی من گھڑت قانون کے تحت اپنی زندگی بسر کی؟
قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ ص لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۴) اے نبیؐ، کہو کہ ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مُسلم) ہیں‘‘۔
اس کے بعد راہِ نجات کو واضح کیا گیا ہے کہ اے نبیؐ، آپؐ یہ فرما دیں کہ ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرلیا اور تسلیم کرلیا ہے اور اس دین کو مان لیا ہے جو ہمیں براہِ راست بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا دین ہے۔ وہ دین جو اس نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ ، موسٰی ، عیسٰیؑ اور ان کے بعد جتنے بھی انبیاؑ آئے ان سب کو بتایا تھا۔ ہم ان سب کے دین کو قبول کرتے ہیں اور ان سب انبیاؑ کے پاس ہمیشہ ایک ہی دین آتا رہا ہے اور ہم نے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ وہ دین پوری دنیا کا دین ہے اور اس میں نافذ ہے۔ سورج سے لے کر ذرّے تک، اور آسمان سے لے کر تحت الثریٰ تک، اور پہاڑوں سے لے کر دریائوں تک، گویا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز، اور ہرچیز کا وہی دین ہے اور ہم نے بھی اسی دین کو اختیار کرلیا ہے۔
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o ( ۳:۸۵) اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگزقبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
کہا جارہا ہے خدا کے سامنے سرجھکا کر اس کے قانون کے سامنے سرتسلیم خم کردو۔ جو کوئی زندگی بسر کرنے کے اس طریقے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ نہ اس کو اس دنیا میں پنپنےدے گا اور نہ آخر ت میں پنپنے دے گا۔
اب ہم اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں تک خدا کے دین کا تعلق ہے، خدا کے قانون کا تعلق ہے، یہ آدم ؑ سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی دین رہا ہے کہ اس خدا کے سامنے سرجھکا کر، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو پسند کیا ہے ا ن کو اختیار کیا جائے اور جن چیزوں کو خدا نے ممنوع قرار دے دیا ہے ان سے اجتناب کیا جائے، اور جن کو اس نے جائز رکھا ہے ان کو اختیار کیا جائے اور جن کو اس نے ناجائز رکھا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔
اسلام ، دینِ حق کے مقابلے میں جو باطل نظامِ زندگی اختیار کیے جاتے رہے ہیں، آدم ؑ سے لے کر آج تک ہزاروں نظام اختیار کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک بھی آزمائے جانے کے بعد پھر دوبارہ اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ کہیں سرمایہ داری ہے، جاگیرداری اور قبائلی نظام ہے، برادری ہے، کہیں بادشاہی ہے، کہیں ڈکٹیٹرشپ ہے، کہیں جمہوریت ہے۔ جمہوریت کی بھی آج بیسیوں قسمیں ہیں۔ ہرملک کی جمہوریت الگ ہے۔
اسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے گا، اس کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا۔ اس دنیا میں بھی حقیقت میں جو بھی نظام کوئی اختیار کرتا ہے، وہ وقتی طورپر کچھ دیر کے لیے چلتا ہے اور اس کے بعد وہ مٹ جاتا ہے۔ ہرحکمران آکر اس کے اندر مداخلت کرکے اپنے حسب ِ منشا اس کو ڈھالنے کی کوشش کرتاہے، لیکن صرف ایک اسلام کا نظام ہے جو ایک خدا کے قانون کے تحت چلتا ہے۔
کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَ شَھِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۶) کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالاں کہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسولؐ حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہی بتائو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے کہ جنھوں نے ایمان لانے کے بعد نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ ایمان لائے اور انھوں نے تصدیق کی کہ اللہ کا رسول سچا رسول ہے اور اس کے بعد پھر کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔
اس وقت یہی ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کی صورتِ حال ہے کہ وہ شہادت دیتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسولؐ ہیں ۔ شہادت دیتے ہیں کہ قرآن، اللہ کی کتاب ہے۔ شہادت دیتے ہیں کہ اسلام ہمارا دین ہے۔شہادت دیتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا۔ شہادت دیتے ہیں کہ ہم اسلام کے نام پر منتخب ہوکر اسمبلی میں آئے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی شریعت کو قبول نہیں کریں گے۔ اسی بات پر اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جولوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ کا رسولؐ سچّا ہے، اسلام سچّا دین ہے اور اس کے بعد پھر وہ کفر کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دے۔
اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ زبردستی ہتھکڑی لگاکر لوگوں کو اسلام کے راستے پر چلائے۔ اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان کو یہ بات سمجھا دے اور ان کی زبان سے اس کا اقرار کروا دے کہ اللہ ایک ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ کی کتاب قرآن ہے اور وہ اسے مان لیں۔ اس کے بعد دین پر چلنا یا نہ چلنا اس نے ان کی آزاد مرضی پر چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں پہاڑوں کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہوں، دریائوں، ہوائوں اور ستاروں کو چلا رہا ہوں، زمین و آسمان کی بڑی بڑی قوتوں کو چلا رہا ہوں، تو کیا انسان کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا تھا؟
انسان کو چوںکہ میں نے پیدا اس لیے کیا ہے کہ اس مخلوق کو آزادی دی جائے۔ اگر یہ اپنی مرضی سے میری مرضی پر چلے تو اسے جنّت دی جائے اور اپنی مرضی سے نافرمانی کی راہ پر چلے تو پھر اسے جہنّم میں ڈالا جائے۔ یہی ایک صاحب ِ اختیار مخلوق ہے۔ اسی بنا پر اسے جنّت دی جائے گی اور اس بنا پر اسے سزا دی جائے گی۔ باقی تمام مخلوق کو ہم نے زبردستی اپنی مرضی پر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لیے نہ اس کے لیے جنّت ہے اور نہ جہنّم۔ یہ مرے گی تو ختم ہوجائے گی، اور اس کا سلسلۂ حیات ختم ہوجائے گا۔ صرف انسان ایسی مخلوق ہے جس کے لیے جنّت بھی ہے اور جہنّم بھی، جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ اس لیے مَیں انسان کو نہ زبردستی نیکی کے راستے پر چلاتا ہوں اور نہ زبردستی بدی کےراستے پر، بلکہ یہ اس کی مرضی پر چھوڑا ہے۔ اسے عقل دے دی ہے، پیغمبروں ؑ کے ذریعے سے نیکی بدی کا راستہ بتا دیا ہے، اور اس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز دے دی ہے۔
ایک بُرے سے بُرا انسان بھی جانتا ہے کہ جھوٹ اور فریب غلط ہے، چوری بدکاری اور زناکاری غلط ہے، بے حیائی غلط ہے اور لوگوں کا مال کھانا غلط ہے۔دوسری طرف سچائی صحیح ہے، دیانت داری صحیح ہے، لوگوں کا حق ادا کرنا صحیح ہے، والدین کا حق ادا کرنا صحیح ہے۔ جو نیکی ہے اس کو بھی بیان کر دیا ہے اور بُرائی کو بھی بیان کردیا ہے۔ لہٰذا نیکی کو بھی ہرشخص جانتا ہے اور بُرائی کو بھی ہرشخص جانتاہے۔ اب انسان کا اختیار ہے کہ وہ سیدھا راستہ اختیار کرے یا غلط راستہ اختیار کرے۔
دین کی یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو مَیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین! (مرتب: امجد عباسی)