نماز کو رب کائنات نے خصوصی امتیازات سے نوازا ہے۔ نماز تاکیدی عبادت اور بہترین اطاعت ہے۔ یہ قربِ الٰہی کو پانے کا آسان ترین ذریعہ اور بندے اور رب کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کو جاننے ماننے کے ساتھ ہی ادایگی نماز ہرمسلمان پر لازم قرار پاتی ہے۔ نماز ہی وہ عمل ہے جس کی قیامت کے روز سب سے پہلے پرکھ ہوگی۔ اگر نماز درست قرار پائی تو باقی کے اعمال نسبتاً درست ہوتے چلے جائیں گے، کیوںکہ نماز فواحش ومنکرات کے روکنے کا سبب ہے۔ اس کی اہمیت جاننی ہو تو دیکھ لیجیے کہ نبی مکرم ؐ کی آخری وصیت بھی اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ تھی۔ نماز کا دھیان رکھنا اور اس کی ادایگی مومن کی کامیابیوں کا زینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو قائم رکھنے والوں اور شوق وخشوع سے اس کی ادایگی کا اہتمام کرنے والوں کو قرآن واحادیث میں بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں، جن میں سے صریح و واضح تیس خوش خبریاں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
۱- افضل ترین عمل : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا: یا رسولؐ اللہ! کون سا عمل افضل ترین ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: نماز کو وقت پر اداکرنا۔میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : والدین سے نیک سلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ (مسلم)
۲- اللہ اور بندے کے درمیان مضبوط تعلق کا ذریعہ: حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو بھی جب بھی حالتِ نماز میں ہوتا ہے تو وہ اس وقت اپنے رب کے ساتھ حالتِ مناجات میں ہوتا ہے(بخاری) ۔ یعنی عبد معبود سے اثناے نماز راز ونیاز کی حالت میں ہوتا ہے جو کہ قربت کا اعلیٰ مقام ہے۔
۳- دین کے ستون کو قائم کرنے کا ذریعہ : حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمھیں اسلام کے راس العمل اور اس کے ستون اور چوٹی کے عمل کے بارے میں نہ بتا دوں؟میں نے عرض کیا: ضرور یارسولؐ اللہ! تو آپؐ نے فرمایا: راس الامر پورا دین اسلام ہے۔ نماز دین کا ستون ہے اور چوٹی کا عمل جہاد ہے(ترمذی)۔ یعنی جس طرح عمارت کا ستون کے بغیر قائم رہنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دین کا قیام نماز کے بغیر نا ممکن ہے، اور جو اس ستون کو مضبوط کرتا رہتا ہے وہ دین کی رحمتوں کو پاتا چلا جاتا ہے۔
۴- دنیاوی اور اُخروی نور : رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: الصَّلَاۃُ نُوْرٌ ، ’’نماز نور ہے‘‘۔ (مسلم ، ترمذی ) ،یعنی نماز ظلمت اور شک وشبہہ کو نُور اور یقین وسکون قلبی میں بدل دیتی ہے۔
۵- منافقت کو ختم کرنے کا سبب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر بھاری ترین نماز ، فجر اور عشاء کی ہوتی ہیں۔ اگر وہ جان لیں کہ ان کی ادایگی میں کیا فضل و انعام ہے ، تو وہ ان کی ادایگی کے لیے ضرور آئیں چاہے رینگ رینگ کر ہی آنا پڑے (بخاری ، مسلم)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے معلوم ہوا کہ جو تمام نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے جن میں یہ دو مذکورہ نمازیں بھی شامل ہیں، وہ منافقت سے بری قرار پاتا ہے۔ یہ بہت بڑی خوش خبری ہے۔
۶- جہنم کی آگ سے نجات :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہر گز جہنم کی آگ میں نہیں ڈالا جائے گا جو طلوعِ آفتاب ( فجر ) سے پہلے اور غروب آفتاب (عصر ) سے پہلے کی نمازوں کی ادایگی کرتا ہے(مسلم )۔لیجیے نارِ جہنم سے امان کی بشارت پائیے اور عمل کیجیے ۔
۷- فواحش ومنکرات سے بچاو ٔ کا ذریعہ : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ط(العنکبوت ۲۹: ۴۵) (اے نبیؐ) ’’تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ یعنی نماز یہ صلاحیت پروان چڑھاتی ہے کہ زندگی سے بد اعمالیوں سے پاک ہونے کا سامان ہوتا چلا جاتا ہے۔
۸- مشکلات میں مددگار اور سہارا : حکم خداو ندی ہے: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط (البقرہ ۲:۴۵) ’’مدد لو صبر اور نماز سے‘‘۔ کارزارِ حیات کی مشکلات میں دو عمل سہولت وآسانی کا سبب بنتے ہیں: ۱- صبر،۲-نماز ۔ معاملات حیات میں دونوں کی خا ص اہمیت ہے۔
۹- باجماعت نماز کی فضیلت : بلندیِ درجات کی یہ نوید اس فرمانِ رسولؐ میں آئی ہے: ’’ نماز باجماعت انفرادی نماز سے ۲۷درجے افضل ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
۱۰- اللہ کی حفاظت وضمانت: رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے افراد اللہ عزوجل کی حفاظت کو پالیتے ہیں۔ اگر زندہ ہوں تو ایسا رزق پاتے ہیں جو کفایت والا ہوتا ہے اور جب مر جائیں تو جنت میں داخل کیے جاتے ہیں: lجو گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کرے۔ l جو نماز کی ادایگی کے لیے مسجد میں جائے۔ lجو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جائے (ابوداؤد)
۱۱- فرشتوں کی دعاے مغفرت کا حصول : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک کوئی اپنی نماز کی جگہ وضو کی حالت میں بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں: یااللہ! اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما ۔ (متفق علیہ )
۱۲- گناہوں کی بخشش : حضرت عثمان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، آپؐ کہہ رہے تھے: جو کوئی نماز کے لیے اچھی طرح وضو کرے پھر باجماعت نماز کی ادایگی کے لیے مسجد جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے(مسلم)۔بشارت دربشارت اللہ کی کرم نوازی کی علامت ہے جو وہ نمازیوں کو دے رہا ہے۔
۱۳- گناہوں کے اثرات کو زائل کرنا : راویِ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دیکھو! اگر کسی کے گھر کے سامنے ایک نہر بہتی ہو جس میں وہ روزانہ پانچ بارنہا تا ہو تو کیا جسم پہ کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔ اس کے جسم پر کوئی میل باقی نہیں رہے گی۔ آپ ؐ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی ادایگی کی مثال ہے کہ جو ان کی ادایگی کرے گااللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو صاف کر دے گا۔ (بخاری، مسلم)
۱۴- جنت میں اللہ کی ضیافت: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسجد میں آتا ہے تو ہر بار مسجد آنے جانے پر اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی ضیافت فرمائے گا۔ (متفق علیہ)
۱۵- ہر قدم پر گناہ کی معافی اور درجات کی بلندی : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے گھر سے وضو کی حالت میں اللہ کے گھر فرض نماز پڑھنے جاتا ہے، اس کا قدم اٹھانا اس کی خطا کی معافی اور دوسرا قدم درجے کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ ( مسلم)
۱۶- نماز کا زیادہ اجر : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نمازیوں میں سے زیادہ اجر پانے والا نمازی وہ ہے جو مسجد میں زیادہ فاصلے سے آیا۔ پھر اس کا درجہ ہے جو اس سے بھی زیادہ فاصلے سے آئے۔ اور جو نمازی امام کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے انتظار میں رہتا ہے وہ اس سے زیادہ اجر پاتا ہے جو (امام کے نماز پڑھنے سے پہلے ہی ) نماز پڑھ لے اور پھر سو جائے۔ (متفق علیہ )
۱۷- مسجد میں جلد آنے پر زیادہ اجر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اگر لوگوں کو پتا چل جائے کہ اقامت کے وقت اور نماز کی پہلی صف کا کیا درجہ ہے ، تو پھر انھیں قرعہ اندازی کر کے بھی پہلی صف کو حاصل کرنا پڑے تو وہ ضرور قرعہ ڈالیں ، اور اگر وہ جان جائیں کہ نماز کے لیے جلد آنے میں کیا ہے تو وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں، اور اگر جان جائیں کہ نماز عشاء اور فجر میں کیا ہے تو چاہے گھٹنوں کے بل آنا پڑے تو ضرور آئیں۔(متفق علیہ)
۱۸- اللہ کا مہمان : حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم ؐ نے فرمایا : جو اپنے گھر سے اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں آئے تو وہ اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ یوں میزبان (یعنی اللہ) پر اس کا حق ہے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت واکرام کرے ۔( الطبرانی وحسنہ الالبانی )
۱۹- نماز کے لیے انتظار نماز ہی کا حصہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کو نماز کے انتظار نے روکے رکھا اس کا یہ انتظار نماز میں ہی شمار کیا جاتا ہے ۔( متفق علیہ )
۲۰- پہلی صف کا خصوصی اجر: رسول مکرم ؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے فرشتے پہلی صف کے نمازیوں پر (خصوصی ) رحمتیں بھیجتے ہیں۔(ابو داؤد، نسائی ، صححہ الالبانی )
۲۱- سابقہ گناہوں کی معافی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میںسے جب کوئی آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں تو اگر دونوں کی آمین ایک وقت پر ادا ہو کر مل جائے، تو اس شخص کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ (متفق علیہ )
۲۲- رحمٰن کے ہاں حاضر ہونے والے وفد میں شمار: ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے وضو کیا اور مسجد میں پہنچا۔ فجر کی سنتیں ادا کیں اور فجر کی باجماعت نماز کے لیے بیٹھا رہا یہاں تک کہ نماز ادا کر لی۔ اس کی نماز ابرار، یعنی نیکو کاروں کی نماز شمار ہوئی اور وہ رحمٰن کے وفد والوں میں شمار کیا گیا ۔ (الطبرانی، حسنہ الالبانی )
۲۳- اللہ کی حفاظت کی ضمانت : حضرت جندب بن سفیان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز (باجماعت ) ادا کی، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پر ہے۔ پس آدم کے بیٹے دیکھو! اللہ تم سے اپنی ذمہ داری کا مطالبہ نہ کرے (مسلم)۔ یعنی اگر باجماعت نماز فجر کی ادایگی ہو گی تو اللہ کی عنایت سے ہر قسم کے حوادث وپریشانی سے محفوظ رہے گا۔ اگر نہیں پڑھے گا تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پر نہیں رہے گی۔ اب وہ خود ذمہ دار ہوگا۔
۲۴- بروز قیامت نور تام کی بشارت : حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بشارت دے دو اندھیروں کے وقت مسجد میں جانے والوں کو کہ قیامت کے دن انھیں مکمل وتمام تر نُور سے نوازا جائے گا۔( ابوداؤد ، ترمذی )
۲۵- فجر اور عصر کی با جماعت ادایگی پر جنت کی بشارت: حضرت ابو موسیٰ الاشعری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دو ٹھنڈی نمازیں ادا کرے گا جنت میں جائے گا (بخاری، مسلم)۔ (ٹھنڈی نمازیں، یعنی فجرو عصر ) ۔
۲۶- قیام اللیل کا ثواب : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری رات کا قیام کیا ۔ (ترمذی)
۲۷- فرشتوں کی گواہی: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے صبح وشام کی ڈیوٹیوں کی تبدیلی پر نماز فجر اور نماز عصر کے وقت خصوصاً مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں، اور جنھو ں نے تمھارے ساتھ رات بسر کی ہوتی ہے جب واپس آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے (جب کہ اللہ ان سے بہتر خود جانتا ہے ) کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھنے کی حالت میں چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری، مسلم)
۲۸- یکسوئی اور خشوع سے نماز ادا کرنے والوں کی مغفرت : حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی مسلمان پر فرض نماز کی ادایگی کا وقت آئے اور وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے اور پور ے خشوع وخضوع کے ساتھ اچھی طرح قیام ورکوع وسجود بجا لائے، تو ایسی نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے سواے کبیرہ گناہوں کے ، اور مغفرت کا یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ ( مسلم)
۲۹- اللہ کا فرشتوں کے سامنے نمازیوں پر فخر فرمانا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسولؐ اللہ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی۔ جس نمازی کو جانا تھا وہ چلا گیا اور جسے رُکنا تھا وہ رُکا رہا۔ اس وقت رسولؐ اللہ اپنے گھٹنے تک کپڑا اُٹھائے جلدی جلدی ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپؐ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ آپ ؐ نے آتے ہی فرمایا: تمھیں مبارک ہو، تمھیں بشارت ہو، تمھارے رب نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھولا۔ وہ، یعنی اللہ اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا ہوا کہہ رہا ہے: دیکھو میرے (ان ) بندوں کی طرف جنھوں نے ایک فرض ادا کیا اور دوسری فرض نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ (ابن ماجہ، صححہ الالبانی )
۳۰- پل صراط سے باسلامت گزر کر جنت کی بشارت : حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپؐ کہہ رہے تھے: مسجد ہرمتقی پرہیز گار کا گھر ہے۔ جس نے مسجد کو اپنا ٹھکانا بنایا اسے اللہ تعالیٰ رحمت وراحت کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ایسا شخص پل صراط سے باسلامت گزر کر اللہ کی رضا کے ٹھکانے جنت میں بہ آسانی چلا جائے گا۔( الطبرانی وصحہ الالبانی )
یہ ہیں وہ عظیم بشارتیں جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ان افراد کے لیے عطا کی ہیں جو رب کی بندگی کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں اور صبح وشام فرائض وسنن کا اہتمام کرتے ہیں۔