حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ابن آدم! تو (میرے ضرورت مندوں پر) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔(بخاری، مسلم)
یعنی تو اگر لوگوں پر خرچ کرے گا تو میں تجھے مفلس نہ ہونے دوں گا بلکہ میری بخشش تجھ پر مزید ہوگی۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ، رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دفع کرتا ہے۔
کسی شخص نے اگر کسی لغزش اور معصیت سے اپنے کو اللہ کے غضب کا مستحق بنالیا ہے تو صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ صدقہ دے کر بندہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صدقے کی برکت سے آدمی سوے خاتمہ اور بُری موت سے محفوظ رہتا ہے۔ صدقے کی برکت سے اچھے اور نیک کاموں کی دل میں رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ایمان مضبوط اور کامل ہوتا ہے۔ آدمی کو حق پر ثبات و استقامت کی توفیق ملتی ہے۔ اس لیے صدقہ کرنے والے کا انجام بخیر ہوگا۔ قرآنِ مجید میں بھی فرمایا گیا: وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲) ’’اور اچھا انجام تقویٰ کے لیے ہے‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقے سے مال میں کمی نہیں آتی ہے۔ اور قصور معاف کر دینے سے اللہ آدمی کی عزت ہی بڑھاتا ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو سربلندی ہی عطا فرماتا ہے۔(مسلم)
بالعموم لوگ صدقہ اس خوف سے نہیں دیتے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی۔ فرمایا گیا کہ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صدقے سے مال گھٹتا نہیں، اس میں برکت آتی ہے۔ صدقے کے سبب دنیا میں بھی خدا کی مزید بخشش ہوتی ہے۔ آخرت میں جو کچھ عطا ہوگا وہ الگ ہے۔ جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ارشاد ہے: اَنْفِقُ یُنْفَقُ عَلَیْکَ (بخاری، مسلم بروایت ابوہریرہؓ) ’’خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا‘‘۔ قرآن میں بھی فرمایا گیا ہے: وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ (السبا۳۴:۳۹) ’’تم جو کچھ خرچ کرتے ہو (اللہ) اس کی جگہ تمھیں اور دیتا ہے‘‘۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ کسی کا قصور معاف کر دینے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا بلکہ اخلاقی لحاظ سے وہ بہت اُونچا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کے درمیان اللہ اس کو باعزت زندگی عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی خوشنودی کے لیے تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے تو اس عمل سے وہ اپنے کو پستی میں نہیں گراتا، بلکہ اپنی فطرت کے تقاضے پورے کرکے بلندی اور رفعت حاصل کرتا ہے۔ اللہ اسے ایسی عزت اور سربلندی عطا فرماتا ہے جس کا حصول کسی دیگر تدبیر سے ممکن ہی نہیں ہے۔
مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَۃً صَبَرَ عَلَیْھَا اِلَّا زَادَہُ اللہُ بِھَا عِزًّا وَّلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْئَلَۃٍ اِلَّا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ بَابَ فَقْرٍ (ترمذی، ابواب الزہد، ۲۳۰۳) بندے کا مال صدقے سے کم نہیں ہوتا، اور جس بندے پر ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرجائے تو لازماً خدا اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جس بندے نے سوال کا دروازہ کھولا، خدا اس کے لیے فقروافلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
حضرت مصعب بن سعدؓ کہتے ہیں کہ سعدؓ نے اپنے بارے میں یہ خیال کیا کہ انھیں اپنے سے کم تر پر فضیلت حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں (اللہ کی طرف سے) مدد اور رزق تمھارے انھی کمزوروں (اور فقیروں) کی وجہ سے ملتا ہے۔(بخاری)
یعنی کسی شخص کا کمزور اور غریبوں کے مقابلے میں اپنے کو بلند مرتبہ سمجھنا نادانی ہے۔ اللہ کتنے ہی لوگوں کو محض کمزوروں اور مسکینوں کی وجہ سے اور ان کی دعائوں کی برکت سے رزق دیتا ہے اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا فرماتا ہے۔ اس لیے کمزوروں اور غریبوں کی وقعت گھٹانا ٹھیک نہیں ہے بلکہ ما ل داروں کا فرض ہے کہ وہ ضعیفوں اور غریبوں کے حقوق کو پہچانیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بے حد پریشان اور غبارآلود ہیں، اور جنھیں دروازوں سے دھکّے دے کر ہٹایا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو خدا ان کی قسموں کو لازماً پوری کردے۔(مسلم)
یعنی کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر پریشان حال اور بے وقعت ہوتے ہیں۔ کوئی انھیں خاطر میں نہیں لاتا۔ حالانکہ خدا سے ان کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اگر خدا کے بھروسے پر کسی بات پر قسم کھا لیں تو خدا ان کی قسم کو پوری کر کے رہے گا۔ ان کی بات اور درخواست رد نہیں ہوسکتی۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے جنّت میں داخل ہوتے ہوئے زیادہ تعداد مسکینوں کی دیکھی۔ دولت مندوں کو دیکھا کہ انھیں روک لیا گیا ہے۔ (بخاری، مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخیل اور صدقہ دینے والوں کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے، جنھوں نے لوہے کی زرہیں پہن رکھی ہوں اور ان دونوں کے ہاتھ سینے اور حلق تک جکڑے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ دیتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہوجاتی ہے اور بخیل جب صدقہ دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ تنگ ہوجاتی ہے اور زرہ کا ہرحلقہ اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔(بخاری، مسلم)
زرہوں کی تنگی کے سبب ہاتھ اُوپر سے نیچے تک بالکل جسم سے چمٹ گئے ہوتے ہیں۔ فیاض شخص جب صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کشادہ ہوجاتا ہے۔ وہ کھلے دل سے صدقہ دیتا ہے۔ وہ تنگ دل نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف بخیل شخص جب کچھ دینے کو سوچتا ہے تو اس کا سینہ اور تنگ ہوجاتا ہے۔ گویا اس کا جسم کسی تنگ زرہ میں ایسا کسا ہواہے کہ وہ ہاتھ باہر نکال کر کسی کو کچھ دینے کی قدرت ہی نہیں رکھتا۔ پیسہ دیتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیسے کے ساتھ اس کی روح بھی نکل جائے گی۔
زرہ جسم کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ جب وہ کشادہ ہوجاتی ہے تو پورا جسم محفوظ ہوجاتا ہے، یعنی صدقے کے سبب آدمی کو پورے طور پر خدا کی حفاظت حاصل ہوتی ہے۔ رہا بخیل شخص تو وہ ضیق اور تنگ دلی میں مبتلا ہوتا ہے۔ نہ وہ محفوظ ہوتا ہے اور نہ اسے حقیقی آرام و چین حاصل ہوتا ہے۔ روایت میں ہے کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ زرہ کشادہ ہو مگر وہ کشادہ نہیں ہوتی۔ (مسلم)
حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے بچو، آدھے چھوہارے کے ذریعے سے ہی سہی۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص تم میں سے اس کی استطاعت رکھتا ہو کہ آگ سے بچ سکے آدھے چھوہارے کے ذریعے سے ہی سہی، اسے ضرور بچنا چاہیے۔(بخاری، مسلم ، نسائی )
یعنی صدقہ ضرور دو۔ یہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرنے اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی چیز ہے۔ اگر زیادہ صدقہ دینے کی استطاعت نہ ہو تو جو بھی ہوسکے اگرچہ وہ نہایت قلیل مقدار ہو، صدقہ کرو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کہ آپؐ منبر پر تشریف رکھتے اور صدقے کا اور سوال سے بچنے کا ذکر فرماتے تھے، اُوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اُوپر کا (ہاتھ) دینے والا ہے اور نیچے کا مانگنے والا۔(بخاری، مسلم )
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں کس کو اپنے مال سے بڑھ کر اپنے وارث کا مال زیادہ عزیز ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں تو ہر ایک کو اپنا ہی مال سب سے زیادہ عزیز ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھیجا اور وہ اس کے وارث کا مال ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔ (بخاری، مسلم)
یعنی اگر تمھیں اپنا مال عزیز اور پیارا ہے تو تمھارا مال تو وہ ہے جو تم خدا کی راہ میں صرف کرکے اپنی دائمی زندگی کے لیے بھیجتے ہو۔ جو کچھ جمع کر کے تم اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑتے ہو توو ہ تمھارا نہیں تمھارے ورثا کا مال ہے۔ اگر تم نے اپنے لیے آگے کچھ نہیں بھیجا ہے یا بہت کم بھیجا ہے تو تم مفلس ہو، خواہ دنیا میں قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ جمع کر رکھا ہو۔ لیکن اگر تم نے آگے کے لیے سامان کرلیا ہے اور کرتے رہتے ہو تو تم مفلس ہرگز نہیں ہو۔ دنیا تمھیں مفلس سمجھتی ہے تو اس کی نظر کا قصور ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا گیا)۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: اس میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اس کا صرف ایک شانہ بچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: سب باقی ہے سوا ےاس شانے کے (جو تقسیم نہیں کیاگیا)۔(ترمذی)
یعنی جو گوشت تقسیم کر دیا گیا حقیقت میں وہی باقی ہے اور کام آنے والا ہے، ہمیشہ کا فائدہ اسی سے اُٹھایا گیا۔ جو حصہ اپنے لیے روک لیا گیا وہ ختم ہونے والا ہے۔
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کعبہ کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! وہ بڑے خسارے میں ہیں۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:وہ لوگ جو بڑے سرمایہ دار ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہرطرف بھلائی کے کام میں) خرچ کیا اور ایسے لوگ کم ہیں۔(بخاری، مسلم)
مطلب یہ ہے کہ مال و دولت بڑی آزمایش کی چیز ہے۔ اس آزمایش میں کامیاب وہی ہوسکتے ہیں جن کے دل میں مال کی محبت نہ ہو، جو اپنے مال کو کشادہ دلی کے ساتھ کارخیر میں خرچ کرتے رہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ دولت پانے کے باوجود بڑے خسارے میں ہیں۔
حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افضل دینار وہ ہے جس کو آدمی اپنے بال بچوں پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار افضل ہے جسے آدمی خدا کی راہ میں سواری کے لیے خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار افضل ہے جسے وہ خدا کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔ (مسلم)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مال اور دینار کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے بال بچوں پر خرچ کیا جائے۔ پھر اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ جہاد کے لیے گھوڑا وغیرہ خریدنے میں صرف کیا جائے۔ اور پھر یہ کہ اسے اپنے ان ساتھیوں اور رفقا پر خرچ کیا جائے جو خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہوتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دینار وہ ہے جو تو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ ایک دینار وہ ہے جو تو کسی غلام کو آزاد کرانے میں خرچ کرتا ہے، اور ایک وہ دینار ہے جو کسی مسکین پر خرچ کرتا ہے، اور ایک دینار وہ ہے جو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے ۔ ان میں سب سے بڑھ کر باعث ِ اجر وہ دینار ہے جسے تو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے‘‘۔( مسلم)
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی تعلیم دی ہے وہ حددرجہ متوازن ہے۔ اس میں بے اعتدالی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت قریب ترین فرائض کی بجاآوری ہے۔ اہل و عیال کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ اس سےفارغ ہونے کے بعد نفل کی باری آتی ہے۔ ہر ایک کے حق کو سمجھنا چاہیے اور مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے حقوق ادا کرنے چاہییں۔
فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا) حق ہے۔پھر آپؐ نے آیت تلاوت فرمائی:
نیکی اور وفاداری یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرلو، بلکہ وفاداری ان کی ہے جو اللہ، یومِ آخرت، فرشتوں، (اللہ کی) کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا مال اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دے اور گردنیں چھڑانے (غلام آزاد کرانے) میں خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے(البقرہ ۲:۱۷۷)۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی آدمی کی ذمہ داریاں باقی رہتی ہیں۔ زکوٰۃ دینے کے بعد آدمی کو اپنا ہاتھ بالکل کھینچ نہیں لینا چاہیے اور نہ اجتماعی تقاضوں اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کی طرف سے غافل ہونا چاہیے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ضرورت مند اور مصیبت زدہ آجائے یا کوئی اجتماعی تقاضا سامنے آجائے تو آدمی کو اس سلسلے میں مال خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استشہاد کے طور پر سورئہ بقرہ کی آیت (۱۷۷) کی تلاوت فرمائی جس میں نیکی کے کاموں کے ذیل میں ایمان کے بعد رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں وغیرہ کے مالی تعاون کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محتاجوں اور ضرورت مندوں کے مالی تعاون کا جو ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان نے کسی مسلمان کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا، کپڑا پہنایا، اللہ اس کو جنّت کا سبز لباس پہنائے گا، اور جس مسلم نے کسی مسلم کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا، اللہ اس کو جنّت کے پھل کھلائے گا، اور جس مسلم نے کسی مسلم کو پیاس کی حالت میں پانی پلایا، اللہ اس کو (جنّت کی) سر بہ مہر شراب پلائے گا۔(ابوداؤد، ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے پاس اُحد کے برابر سونا ہو تو میرے لیے خوشی کی بات یہی ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے میرے پاس اس میں سے کچھ بھی نہ رہے سواے اس کے کہ قرض ادا کرنے کے لیے اس میں سے کچھ بچا لوں۔(بخاری)
یعنی میرے لیے مسرت کی بات یہ نہیں ہے کہ مال میرے پاس جمع ہو بلکہ مسرت کی بات میرے لیے یہ ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہو میں اسے جلد سے جلد اللہ کی راہ میں خرچ کروں یہاں تک کہ اپنے پاس کچھ بھی نہ رہنے دوں۔ انبیا علیہم السلام کی شان یہی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی اس کی کھلی شہادت پیش کرتی ہے کہ وہ سچے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ حق و صداقت کی جو تحریک وہ دنیا میں چلاتے ہیں اس کے پیچھے ہرگز ان کا کوئی مادی یا دُنیوی مفاد نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں حق و صداقت کے لیے کرتے ہیں نہ کہ کسی ذاتی منفعت کے لیے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینار و درہم کا بندہ ملعون ہے۔(ترمذی)
یعنی جو لوگ مال و دولت کے پرستار ہیں، خدا کی راہ میں جنھیں اپنا مال خرچ کرنا حددرجہ گراں گزرتا ہے، وہ خدا کی رحمتوں سے دُور ہیں۔ان کے حصے میں پھٹکار اور لعنت کے سوا اور کچھ نہیں آسکتا۔
مال و دولت کی پرستش بہت ہی بُری خصلت ہے۔ اسی لیےصدقہ لینا صرف اسی کو روا ہے جو محتاج ہو۔محتاج شخص کو اگر خدا نے صحت اور طاقت دی ہے تو اسے بھی حتی الامکان صدقہ و زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہیے۔ اسے محنت و مشقت کے ذریعے سے اپنی گزراوقات کا سامان بہم پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:
لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ وَّلَا لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، احمد، ابن ماجہ) مال دار کے لیے صدقہ (زکوٰۃ) حلال نہیں ہے، اور نہ اس شخص کے لیے جو توانا و تندرست ہو۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو عادتیں کسی صاحب ِ ایمان میں جمع نہیں ہوسکتیں: بخل اور بدخلقی۔
یعنی بخل اور بدخلقی کی ایمان سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ ایمان تو آدمی کو کشادہ دل، عالی ظرف اور باحوصلہ بناتا ہے، جب کہ بخل اور بدخلقی درحقیقت تنگ نظری، تنگ دلی، دنائت کی پیداوار ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سخی قریب ہے اللہ سے، قریب ہے جنّت سے، قریب ہے لوگوں سے، دُور ہے دوزخ سے ،اور بخیل شخص دُور ہے اللہ سے، دُور ہے جنّت سے، دُور ہے لوگوں سے، قریب ہے دوزخ سے۔ اور جاہل سخی اللہ کو بخیل عابد سے زیادہ پسند ہے۔(ترمذی)
سخاوت اور فیاضی سے آدمی کو خدا کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ فیاض اور سخی شخص سے لوگ بھی خوش رہتے ہیں اور ایسا شخص اپنے انجام کے لحاظ سے بھی کامیاب ہوتا ہے۔ جنّت اس کی دائمی جاے قرار ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بخیل شخص سے نہ خدا راضی ہوتا ہے اور نہ دنیا کے لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اپنے انجام کے لحاظ سے وہ بجاے جنّت کے دوزخ کا مستحق ہوتا ہے۔
سخاوت اور فیاضی صفاتِ رذیلہ کے دُور کرنے میں حددرجہ معاون ہے۔ آدمی کو اس کے ذریعے سے روحانی و اخلاقی بلندی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہےکہ اس کے اندر خدا کی عظمت اور بزرگی کا زیادہ سے زیادہ احساس و شعور بیدار ہوسکے۔ رہا بخیل شخص تو نفسانیت اور تنگ دلی میں کچھ اس طرح گرفتار رہتا ہے کہ اسے روحانی و اخلاقی بلندی حاصل ہی نہیں ہوتی۔ اس کا دل مادی منفعتوں ہی میں اُلجھا رہتا ہے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں سے وہ آشنا ہی نہیں ہوپاتا۔
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی قوم نے زکوٰۃ روک لی، اللہ نے اسے قحط میں مبتلا کر دیا۔(طبرانی)
اس لیے قحط کو دُور کرنے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیوب ویل اور پمپنگ سسٹم وغیرہ آبپاشی کے ذرائع فراہم کیے جائیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مال کی زکوٰۃ نکالی جائے۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی قوم نے اپنے مالوں کی زکوٰۃ روک لی اس سے آسمان کی بارش روک لی گئی اور اگر جانور نہ ہوں تو (بالکل) بارش نہ ہو۔(طبرانی)
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی بے گناہ جانوروں کی وجہ سے بارش کردیتا ہے، حالاں انسانوں کی نافرمانیوں کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ بارش بالکل نہ ہو۔
حضرت سہل بن معاذؓ اپنے والد کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک نماز ، روزہ اور ذکر ِ الٰہی میں سے ہر ایک اللہ عزوجل کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سو حصے تک بڑھ جاتا ہے۔
انفاق کے سبب نماز، روزہ اور ذکر میں ہر ایک کا درجہ و کمال سات سو گنا یا سات سو بار دوچند کرتے ہوئے جو حاصل ہو اس کے مساوی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے انفاق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرشخص کے لیے دل کے ٹھیرائو اور وابستگی کے لیے کوئی چیز چاہیے۔ اگر خدا کی ذات، ستودہ صفات، اس کے قلب اور جذبۂ شوق و محبت کے لیے پناہ گاہ نہ بن سکی تو لازماً اس کی وابستگی کا سامان یہی دنیا کے سازوسامان ہی ہوں گے۔ ایسی صورت میں اس کے لیے انفاق ایک مشکل امر ثابت ہوگا۔ ممکن ہے وہ نماز کی پابندی بھی کرے، روزے بھی رکھے اور زبان سے خدا کا نام بھی لے اور یہ خیال کرے کہ اس میں ہمارا جاتا ہی کیا ہے۔ لیکن انفاق کو ایک ایسی کسوٹی کی حیثیت حاصل ہے جس سے کھرے کھوٹے کی پہچان بآسانی ہوجاتی ہے۔ آدمی اگر خدا کا طالب ہے، مال و دولت اور دُنیوی چیزیں اس کی تمنائیں اور آرزوئوں کا مرکز نہیں ہیں، تو اس صورت میں انفاق،اس کے لیے کوئی ناخوش گوار شے نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کی نماز فی الواقع نماز ہوگی، اس کا روزہ صحیح معنوں میں روزہ ہوگا اور اس کا ذکر فی الحقیقت ذکر ہوگا۔ اعمال اور عبادات کی قدروقیمت حددرجہ بڑھی ہوئی ہوگی، اور ان کا اجروثواب ایک نعمت ِ فراواں کی شکل اختیارکرلے گا۔
اس حدیث سے اس حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ نیک اعمال اور عبادات وغیرہ کا باہم ایک دوسرے سے گہرا ربط و تعلق ہے۔ اعمال باہم ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لیے دین میں زندگی کی اصلاح اس کی مجموعی حیثیت سے مطلوب ہوتی ہے۔