گھر کی رونق مکینوں سے ہوتی ہے، اور گھر کا حسن رشتوں کی استواری اور مضبوطی میں ہوتا ہے۔ کرۂ زمین کی ساری رونق انسانوں سے ہے، اور روے زمین کا سارا حسن انسانی تعلقات کی سازگاری اورخوش گواری سے ہے۔ اس بے بہا رونق اور اس بے پناہ حسن کی حفاظت کے لیے فکرمند رہنا زمین کے مکینوں، یعنی سارے انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پوری زمین کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے حفاظت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا جذبہ ہر انسان کے اندرون سے اُبھرنا چاہیے، خواہ اس کے بیرون سے اسے کوئی ترغیب ملے یا نہ ملے۔
قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تعلقات کی خرابی دراصل زمین کی خرابی ہی کی ایک صورت ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو نفرتیں اور دشمنیاں جنم لیتی ہیں، اور پھر خون خرابہ ہوتا ہے۔ جس خوب صورت زمین میں محبتوں کی ندیاں رواں رہنی چاہییں، وہاں نفرت کی آگ سب کچھ جلادیتی ہے اور خون کا دریا سب کچھ بہا لے جاتا ہے، رشتے بھی اورقدریں بھی ۔ جو لوگ زمین کو سنوارنے کا شوق اور جذبہ رکھتے ہیں، وہ تعلقات بنانے کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اور جو طاقتیں زمین کو فساد اور خرابی سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، وہ تعلقات بگاڑنے کے درپے رہتی ہیں: فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo (محمد۴۷: ۲۲) ’’پس اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ تم زمین میں فساد کرو اور آپس کی قرابتوں کو قطع کرو‘‘۔
زمین کو درپیش خطرات کی طویل فہرست ہے۔ ان کے سلسلے میں تشویش اور بے چینی کا اظہار بھی مختلف فورمز میں ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، سمجھنا چاہیے کہ ان خطرات میں سرفہرست، اور ان میں سے بہت سے خطرات کی اصل وجہ انسانوں کے درمیان وسیع پیمانے پربڑھتی ہوئی خود غرضی ، خراب ہوتے تعلقات، اور کم ہوتی محبت ہے۔ انسانوں سے انسانوں کی محبت جس قدر عام ہوگی اسی قدر زمین کو درپیش خطرات کم ہوں گے۔
انسان دشمن طاقتیں انسانوں کو نقصان پہنچانے کے جو منصوبے بناتی ہیں، ان میں وہ رشتے توڑنا سرفہرست ہوتا ہے، جن کی استواری سے پورے معاشرے کی استواری ہوتی ہے، جیسے شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہِ بَیْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ ط البقرہ۲: ۱۰۲) ’’پس یہ لوگ ان سے وہ بات سیکھتے جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں‘‘۔ یہ بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، کہ جب وہ کج روی کے شکار ہوئے تو ان کی سوچ اور پسند بھی نہایت گندی اور حد درجہ تخریبی ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ یہ بھی سیکھ لینا چاہتے تھے کہ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال کر کس طرح آباد گھروں کو برباد کریں۔ یہ ماضی کی بات ہے، اب تو انسانیت کے بدخواہ ایسے سماج کا تصور پیش کررہے ہیں، جہاں شوہر اور بیوی کے رشتے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔ یہ انسانی سماج کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ انسانوں کے خالق نے تو انسانوں کی فطرت میں ایسا انتظام رکھا ہے کہ شوہر اور بیوی کے ذریعے صرف اولاد ہی نہ ہو، بلکہ اس رشتے کے بعد ہونے والی اولاد سے مزید نئے رشتوں کی تعمیر وتشکیل ہو، اور زمین کا حسن بڑھتا ہی جائے: وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا ط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا o الفرقان ۲۵: ۵۴) ’’اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو نسبی اور سسرالی (دادھیالی اور نانھیالی)رشتوں کا ذریعہ بنایا‘‘۔
شیطان انسانوں کا دشمن ہے۔ اس کو نہ یہ پسند ہے کہ یہ زمین انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے سازگار رہے، اور نہ یہ گوارا ہے کہ اس زمین پر رہنے بسنے والے انسانوں کے آپس کے رشتے اور تعلقات خوش گوار رہیں۔ اس کی کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ زمین میں تباہی پھیل جائے، اور رشتوں کی خرابی عام ہوجائے۔ اسے نہ زمین کا کارِ خلافت کے لیے موزوں ہونا منظور ہے، اور نہ انسانوں کا منصب خلافت ہی کے قابل ہونا۔اس دشمنِ ازلی کی ساری تگ ودو یہ ہوتی ہے کہ انسانوں کو ہر طرح کی برائیوں میں ملوث کیا جائے۔ اس سے اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ سے دور ہوجائے، اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان برے کاموں میں پڑ کر انسانوں میں دشمنی اور بغض ونفرت عام ہوجائے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ج (المائدہ ۵:۹۱) ’’شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگاکر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے‘‘۔
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی ہدایت سے دور ہوگا وہ منصب خلافت کے تقاضے بھول جائے گا، اور بلندیوں کو سر کرنے کے بجاے پستیوں میں جا گرے گا۔ وہ اتنا گرجائے گا کہ جس زمین پر وہ رہتا ہے اسی زمین میں بگاڑ پھیلائے گا، اور آپس میں خون خرابہ کرے گا ۔ فرشتوں نے اللہ کے حضور یہی اندیشہ ظاہر کیا تھا: اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ (البقرۃ ۲:۳۰) ’’ اے رب کیا تو اس زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے گا؟‘‘
زمین میں فساد پھیلانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ گویا دونوں ایک ہی طرح کے کام ہیں۔ مفسدوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں نہ انسانی تعلقات کی کوئی قدر وقیمت ہوتی ہے، اور نہ انسانی جان کا کوئی احترام ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سارے انسان جو قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہوں اور اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ ہوں، دشمنی اور نفرت سے محفوظ رہیں، اور الفت ومحبت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ جب قرآن مجید اہل ایمان کو باہمی اُلفت ومحبت کا درس دیتا ہے، تو اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ سارے انسان اہل ایمان بن جائیں، اور سارے ہی انسان نفرت وعداوت کی آگ میں جلنے اور جھلسنے کے بجاے، اُلفت ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون اور راحت کی زندگی گزاریں۔
قرآن مجید میں تعلقات کی خوش گواری کے موضوع کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ عام انسانوں سے اہل ایمان کے تعلقات نفرت، ناانصافی اور زیادتی پر مبنی نہ ہوں، اور اہل ایمان کے آپس کے تعلقات محبت واخوت پر استوار ہوں۔ یہ تعلقات کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی تربیت سے فیض یاب ہونے والا انسان اہل ایمان سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور نفرت کسی سے نہیں کرتا۔ اسے ہر انسان سے ہم دردی ہوتی ہے، خواہ وہ اس سے کتنی ہی دشمنی رکھتا ہو۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس کی ترغیب کہیں نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنے دل میں دوسروں سے دشمنی اور نفرت رکھیں، البتہ یہ حقیقت بار بار یاد دلائی گئی ہے کہ کفر کے سرغنہ اہلِ ایمان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان کی دشمنی سے اہل ایمان کو ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں دشمنی کے مقابلے میں دشمنی رکھنے یا اس دشمنی کو بڑھانے کی تعلیم بالکل نہیں ملتی ہے۔ صرف ان کی دشمنی کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے، اور ان کے سلسلے میں حد درجہ محتاط رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی امید دلائی گئی ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے جو دشمنی پیدا ہوگئی ہے وہ ختم بھی ہوسکتی ہے، اور اس کی جگہ دوستی آسکتی ہے، کیونکہ اللہ رحیم ہے، اور اس کی طرف سے تمام بندوں کی ہدایت کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے ہیں۔قرآن مجید کی تربیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اہل حق کی دشمنی میں کتنی ہی دور جاچکا ہو، اگر راہ حق کی طرف لوٹ آئے تو اہل حق کی طرف سے اس کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے، اور وہ اہل حق کا دوست بن جاتا ہے: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً ط وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الممتحنۃ: ۶۰:۷)’’عین ممکن ہے کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم نے دشمنی کی، دوستی پیدا کردے۔ اور اللہ قدرت والا اور بخشنے والا، مہربان ہے‘‘۔
قرآن مجید کی رُو سے کسی امت کے اندر محبت اور اخوت کا فروغ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو امت اللہ کی اس نعمت سے خود کو محروم کرلیتی ہے، وہ تباہی کی طرف بڑھتی ہے۔ اخوت و محبت کی یہ نعمت امت مسلمہ کو زیادہ اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا امت مسلمہ کے لیے لازم ہے، اور اگر کبھی یہ محسوس ہو کہ امت اس نعمت سے محروم ہورہی ہے، تو امت کے ہر فرد کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوجانا چاہیے، کیوںکہ امت کے اندر نفرت وعداوت کا پایا جانا کینسر جیسے خطرناک اور مہلک مرض کی علامت ہے۔ اس بیماری کے اسباب سے جتنی جلدی ہوسکے واقف ہونا اور اس کے علاج کی فکر کرنا فوری طور پر نہایت ضروری ہوجاتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور پراگندا نہ ہو۔ اور اپنے اُوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘۔
محبت واخوت کی اس نعمت سے ماضی میں بہت سی قوموں کو نوازا گیا مگرانھوں نے اس کی قدر نہیں کی اوروہ اس سے محروم ہوگئیں۔ ان کی محرومی کے اسباب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تاریخ کا اس پہلو سے بھی خصوصی مطالعہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندر بغض وکینہ اور نفرت وعداوت جیسی بیماریوں نے کیسے جڑ جمائی۔قرآن مجید میں یہودیوں کی آپسی دشمنی کو ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اور عذاب الٰہی بتایا گیا ہے: وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (المائدہ ۵:۶۴) ’’ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھادے گی جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی ہے۔ اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔جب جب لڑائی کی آگ انھوں نے بھڑکائی اللہ نے اسے بجھادیا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ نہ صرف یہودی بلکہ عیسائیوں کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے: وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ص فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (المائدہ ۵:۱۴) ’’اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ، ہم نے ان سے بھی عہد لیا، تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاددہانی کی گئی وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے، پس ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آگ بھڑکادی۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عن قریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا‘‘۔ اوّل الذکر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم دشمنی اور عداوت کی بیماری میں گرفتار ہوتی ہے، وہ زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانے میں بھی بہت سرگرم رہتی ہے، کیونکہ دشمنی اور بُغض ونفرت سے فساد فی الارض کے راستے کھل جاتے ہیں۔
ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، خواہ وہ انفرادی برائیاں ہوں یا سماجی برائیاں۔ سماجی برائیوں کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک قسم وہ ہے جس سے تعلقات میں رخنے پڑ جاتے ہیں اور نہ صرف گھر، خاندان بلکہ پورا سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اس قسم کی برائیوں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے،اور ان برائیوں کا اصل علاج یہ بتایا گیا ہے کہ جذبۂ اخوت کو مضبوط اور طاقت ور کیا جائے۔ جذبۂ اخوت کمزور ہوتا ہے تبھی یہ برائیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ برائیاں جیسے جیسے پھیلتی ہیں، جذبۂ اخوت رخصت ہوتا جاتا ہے۔ جذبۂ اخوت کی حفاظت کے لیے دل میں تقویٰ، یعنی اللہ کا خیال رہنا بہت ضروری ہے۔ تقویٰ سے آدمی نہ صرف اللہ سے قریب ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے بھی بہت قریب ہوجاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں جہاں تعلقات کی حفاظت کی تاکید کی گئی، وہاں دومرتبہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات۴۹: ۱۰-۱۲) ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب وہ ان سے بہتر ہوں۔اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو اور ایمان کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے، اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ اے ایمان لانے والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟سو اس چیز کو توتم نے ناپسند کیا۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا، مہربان ہے‘‘۔
سورۂ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالی نے ایک اصول بیان کیا کہ ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ اور ساتھ ہی ایک اصولی ہدایت دی کہ ’’اس اخوت کی حفاظت تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے‘‘۔ اور اس ہدایت پر احسن طریقے سے عمل درآمد کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے رہنمائی فرمائی ’’کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ان اصولی اور بنیادی تعلیمات کے بعد پھر کچھ ایسی حرکتوں اور عادتوں کا ذکر کیا جو اخوت کے رشتوں کو خراب کردیتی ہیں، اور ان سے بچنے کی تاکید کی۔ یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے بس ان ہی سے بچنا مطلوب ہے، بلکہ جاننا چاہیے کہ تعلقات کو خراب کردینے والے رویوں کی یہ کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔ایسی اور بھی بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں، جن سے تعلقات میں دراڑ پڑجائے، اور رشتوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ اب یہ ہر مومن کے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہیے کہ وہ کیا امور ہیں، جو رشتۂ اخوت کی حفاظت میں معاون ومددگار ہوسکتے ہیں، اور وہ کیا باتیں ہیں جو رشتوں کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید جب کچھ باتوں کا حکم دیتا ہے، اور کچھ باتوں سے روکتا ہے، تو دراصل وہ سوچنے کا ایک رخ متعین کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس رخ پر بہت دور تک سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اور سوچنے کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے۔
قرآن مجید کا اندازِ تربیت یہ ہے کہ وہ حکمت کا ایک اصول دیتا ہے، اور اس اصول کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہے، اور اس کے بعد قاری کے اوپر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ان مثالوں پر غور کرکے اس اصو ل کے اندر مزید جتنی صورتوں تک رسائی ہوسکے انھیں اخذ کرتا رہے۔ اس طرح قاری کو متعین طور پر کچھ حکمتیں تو بغیر محنت وجستجو کے مل جاتی ہیں، اور پھر مزید حکمتیں تلاش کرنے کی رغبت اور تربیت حاصل ہوتی ہے۔ جو اس جستجو میں جس قدر آگے بڑھتا ہے، اسی قدر اس پر آگاہی کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہ قرآن مجید کی منشا سے قریب ہوتا ہے۔
دراصل ایک بندۂ مومن کو یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کے باہمی تعلقات کی بہتری مطلوب ہے، اور خرابی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس منشا کو جان لینے کے بعد یہ شاہراہ پوری طرح روشن ہوجاتی ہے، اور بندۂ مومن اللہ کی منشاکی روشنی میں سامنے آنے والے ہررویے کے خوب وناخوب ہونے کا فیصلہ آسانی سے کرسکتا ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ سورۂ حجرات میں تعلقات کی حفاظت کے ذیل میں جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بات بھی انسانوں کے لیے نئی اور انوکھی نہیں ہے۔ یہ ایسی باتیں بھی نہیں ہیں جن سے کوئی اختلاف کرے۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ ان کا تذکرہ نہیں ہوتا تب بھی انسانوں کو وہی کرنا چاہیے تھا جس کی اس قدر تاکید اور اہتمام کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے۔ تاہم اہتمام کے ساتھ تذکرہ کردینے سے اللہ کی منشا اچھی طرح واضح ہوگئی، اور وہ یہ کہ تعلقات کی حفاظت کو انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
سورۂ حجرات میں مذکور تعلیمات کا تقاضا ہے کہ اہل ایمان اپنے باہمی تعلقات کی حفاظت کے سلسلے میں تمام انسانوں سے زیادہ سنجیدہ اور حساس ہوجائیں۔ باہمی تعلقات کی حفاظت لوگوں کے غوروفکر کا خاص موضوع بنے۔ اس موضوع پر بھرپور علمی وفکری سرمایہ تیار کیا جائے، اور اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو علم وعمل کی سطح پر تشنہ نہیں رہنے دیا جائے۔
قرآن مجید میں خاص طور سے سورۂ مجادلہ میں نجویٰ (سرگوشی) کے سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے: اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (المجادلہ ۵۸: ۱۰) ’’یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو رنج پہنچائے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ نجویٰ کے ماحول میں دشمنی کے ماحول کو پنپنے کا بہت زیادہ موقع ملتا ہے۔ شرپسند عناصر نجویٰ کو نفرت وعداوت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بہت سے بھولے بھالے لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں، کیوںکہ بے باکی اور شفافیت کے ماحول میں تو سازشیں آسانی سے بے نقاب ہوجاتی ہیں، لیکن اگر نفرت وعداوت کا گندا کھیل نجویٰ کے پردے میں کھیلا جارہا ہو، تو بہت سے لوگ غلط باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔وہ اپنی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ نہیں کرپاتے ہیں اور بلاتحقیق دشمنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں نجویٰ کے بجاے شفافیت اور صاف گوئی کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملنا چاہیے۔
غیبت تو ایک ہلاکت خیز زہر ہے۔ وہ جس معاشرے میں سرایت کرجاتا ہے، اس معاشرے میں ساری اعلیٰ قدریں مرجھانے لگتی ہیں۔ غیبت دراصل سماج میں نفرت کی کانٹے دار جھاڑیاں ہر طرف بونے کی ایک مکروہ شکل ہے۔ ایک شخص پہلے اپنے دل میں نفرت کا پودہ اُگاتا ہے، اورپھر غیبت کے راستے سے اس کی قلمیں تیار کرکے سب کے دلوں میں اسے اُگانے کی کوشش کرتا ہے۔ غیبت کے سلسلے میں قرآن مجید کا انداز بیان بہت سخت ہے، اور غور کیا جائے تو واقعی غیبت ایسی برائی ہے کہ اس سے جتنی نفرت کی جائے کم ہے، کیوںکہ سماج میں نفرت اگر سب سے زیادہ پھیلتی ہے تو غیبت کے ذریعے ہی سے پھیلتی ہے۔ ان لوگوں کی عقل اور ذوق پر ماتم کرنا چاہیے جو غیبت سے نفرت کرنے کے بجاے غیبت کے جال میں پھنس کر انسانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے انسانوں کے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ رہنمائی بہت قیمتی اور اہم ہے۔ شراب اور جوئے میں وہ کیا چیزیں ہیں جو انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنادیتی ہیں، اس کا گہرا تجزیہ ہو، اور پھر تلاش کیا جائے کہ وہ اور کون کون سے امور ہیں، جن کے اندر تعلقات کے سلسلے میں شراب اور جوئے جیسی تاثیرِ بد پائی جاتی ہے۔غرض شراب اور جوئے ہی سے نہیں، ایسی ہر چیز سے پرہیز لازم ہے جس کے اندر دشمنی اور نفرت کے جراثیم پائے جاتے ہوں۔
سماج میں مثالی تعلقات کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جذبۂ اخوت کی دل پر حکمرانی ہو۔ اس جذبے کو انانیت اور نفسانیت کے مقابلے میںہمیشہ ترجیح دی جائے۔ آدمی ایسے رویوں سے دور رہنے کی کوشش کرے جو اخوت کے شیرازے کو کمزور کرتے ہیں۔ فرد اور اجتماعیت کی سطح پر جذبۂ اخوت کو بہترین اور قوت بخش غذائیں پہنچانے کی تدبیریں اختیار کی جائیں۔ اورکبھی نہیں بھولنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان غذاؤں کا بھرپور انتظام موجود ہے۔