جون ۲۰۱۷

فہرست مضامین

کشمیر کی سنگین صورتِ حال کا تقاضا

ایس احمد پیرزادہ | جون ۲۰۱۷ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ڈگری کالج میں ریاستی پولیس،بھارتی فوج اور سی آر پی ایف داخل ہوئی۔ کالج میں ہزاروں طلبہ و طالبات نے پولیس اور آرمی کی اس کارروائی پر سخت احتجاج کیا، جس پر قابض فورسزاہل کار آگ بگولا ہوگئے اور انھوں نے پیلٹ کے چھرّوں اور آنسو گیس شیلوں کی بارش کرکے کالج کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۶۰نہتے اور معصوم طلبہ و طالبات زخمی ہوگئے، جن میں چند طالبات کو نازک حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس دوران بھارتی فوج کئی طالب علموں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اُن کا سرِراہ بڑی ہی بے رحمی سے ٹارچر کیا گیا۔

بھارتی فوج، اپنے اہل کاروں کے ہاتھوں اس وحشیانہ طرزِ عمل کی وڈیو بھی بناتی ہے اور ان وڈیوز کو بعد میں سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔ درحقیقت ان وڈیوز کے ذریعے سے   بھارتی فوج دراصل نفسیاتی طور پر کشمیری نوجوانوں پر دباؤ ڈالنا چاہتی تھی، تاکہ وہ خوف زدہ ہوکر جدوجہد آزادی کی موجود لہر سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ، لیکن ان وڈیوز کا اُلٹا اثر ہوا۔ پوری وادی میں پہلے سے ہی سراپا احتجاج طلبہ اس ظلم و جبر اور درندگی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ہائی اسکولوں سے لے کر یونی ورسٹیوں تک ، انجینیرنگ کالجوں ، میڈیکل کالج، حتیٰ کہ زنانہ کالج کی طالبات تک پُرامن احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ریاستی حکومت جس کی ساجھے دار بھارتی جنتا پارٹی ہے، اس نے احتجاجی طلبہ سے نبٹنے کے لیے اپنا روایتی طریقہ ہی اختیار کیا، یعنی طاقت کے ذریعے سے طلبہ و طالبات کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔اپنے سامنے تمام راستوں کو مسدود  دیکھ کر نہتے کشمیری طلبہ و طالبات سڑکوں پر حرب و ضرب سے لیس مسلح فوج اور پولیس کے ساتھ   دو دو ہاتھ کررہے ہیں۔معصوم طالبات تک کو سنگ بازی کے لیے مجبور کیا جارہا ہے اور چھے ہفتے گزر جانے پر بھی وادی بھر میں طلبہ و طالبات کی احتجاجی لہر جاری ہے۔صبح جب بچے اور بچیاں اسکول یونیفارم میں گھر سے روانہ ہوتے ہیں ،تو والدین دن بھر تذبذب میں رہتے ہیں کہ نہ جانے اُن کے نونہال صحیح سلامت شام کو لوٹ کر بھی آئیں گے یا نہیں۔ آئے روز ہسپتالوں میںزخمی طلبہ و طالبات کو داخل کرایا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ سال برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی احتجاج کے پیش نظر حکومت نے چار ماہ تک مسلسل کرفیو نافذ کیے رکھا۔ اس مدت میں طلبہ و طالبات کو اسکول جانے سے روکا گیا اور اُن کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ بعد میں حکومت اور بھارتی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ: ’حریت قیادت نے احتجاج اور ہڑتال کی کال دے کر طلبہ و طالبات کے مستقبل کو برباد کیا‘۔ حالاںکہ اُس مدت میں حکومت کی جانب سے مسلسل کرفیو کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند رہے ۔

پہلے کی طرح اس سال بھی حکومت از خود آئے روز تعلیمی اداروں کو بند رکھ رہی ہے۔ جس دن تعلیمی ادارے کھلے ہوتے ہیں، اُس دن پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیاں صبح ہی سے اسکولوں اور کالجوں کے گیٹ پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور مختلف بہانوں کی آڑ میں ہدف شدہ طلبہ کو گرفتار کرنے   لگ جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اُس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت کشمیر کی نسلِ نو کو تعلیم سے محروم رکھنے کا منصوبہ ہے۔اس طرزِ عمل سے بھارتی ایجنسیاں مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کشمیری نسلیں جہالت کے اندھیرے میںڈوب جائیں اور پھر وہ اپنی جائز اور مبنی برحق جدوجہد سے خود بخودد ست بردار ہوجائیں گے۔

۹؍اپریل کو وسطی کشمیر کے ضمنی انتخابات میں لوگوں کی عدم شرکت اور انتخاب کے دن  عوام کی جانب سے زبردست احتجاج نے ریاستی انتظامیہ اور دلی میں اُن کے آقاؤں کے اوسان خطا کردیے۔اس روز ایک ہی ضلع میں مختلف مقامات پر ۱۰نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا، اور درجنوں دیگر افراد زخمی کر دیے گئے۔ نام نہاد انتخابات کے بعد ہر روز، نئی دہلی اور سری نگر میں سیکورٹی میٹنگیں منعقد کی جارہی ہیں۔ دہلی سے آئے روز فوجی ماہرین اور حکومتی کارندے کشمیر آتے رہتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف، بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو اور وزیردفاع ارون جیٹلی نے بھی سری نگر کا دورہ کرکے یہاں کے حالات کا جائزہ لیا اور کشمیریوں کی موجودہ سیاسی جدوجہد پر  قابو پانے کے لیے سر جوڑ کر صلاح مشورے کرتے رہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے ہر طرح کا نسخہ آزمایا جارہا ہے۔ دلی سے حکم نامے نازل ہوتے ہیں اور مجبوبہ مفتی کٹھ پتلی بن کر دلی کے ہر حکم کو من و عن نافذ کرتی ہیں۔ گرفتاریوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔

رات کے دوران چھاپوں میں پولیس اور فوج گھروں میں گھس کر نہ صرف نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہے بلکہ سارا سامان تہس نہس کرنے کے علاوہ مکینوں کی شدید مارپیٹ کی جاتی ہے۔ یہاں ہر روز بستیوں اور دیہات میں قیامت صغریٰ برپا کی جاتی ہے۔عوامی جذبے کو دبانے کے لیے گذشتہ سال کی تاریخ ساز مزاحمتی مہم کے دوران بھارتی فوج نے’آپریشن توڑپھوڑ‘شروع کیا  جو ہنوز جاری ہے۔ اس آپریشن کے دوران فوج ، پولیس اور نیم فوجی دستے ہزاروں کی تعداد میں کسی بستی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اُن کے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ وحشیوں اور درندوں کی طرح اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، گاڑیوں کے شیشے توڑنا، مکانات کے کھڑکی دروازوں کو توڑنا اور گھروں میں قیمتی ساز و سامان کو برباد کرنا، اس آپریشن کا حصہ ہے۔ کشمیر میں موسمی حالات کے پیش نظر لوگ کھانے کی اشیا گھروں میں اسٹور کرکے رکھتے ہیں۔ بھارتی فورسز اُن کو بھی    تہس نہس کرکے جمع کی گئی غذائی اجناس کو ضائع کر دیتی ہیں۔ جس بستی میں یہ آپریشن کیا جاتا ہے، اُس کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس بستی کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں آنے کے لیے مہینوں لگ جاتے ہیں۔یہ ’آپریشن توڑ پھوڑ‘ تاحال جاری ہے۔عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے فوج کی جانب سے نفسیاتی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس جنگ میں اخلاقیات اور انسانی حقوق کی تمام تر قدروں کو وحشیانہ انداز سے پاؤں تلے روندا جارہا ہے۔

۴مئی کو بھارتی فوج کے قریباً ۳۰ہزار اہل کاروںنے ضلع شوپیاں کے ایک درجن سے زائد دیہات کا محاصرہ کرکے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا۔ ۲۰برسوں کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا کریک ڈاون ہے، جس میں حرب و ضرب سے لیس فوج، پولیس اور سی آرپی ایف استعمال ہوئی ہے۔ اس آپریشن میں ڈرون اور فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے آپریشن کے دن صبح ہی سے اس فوجی کارروائی کے حوالے سے رپورٹیں نشر کرنا شروع کردیں، اور سنسنی خیر انداز میں آپریشن کو اس طرح پیش کیا گیاکہ جیسے بھارتی فوج کنٹرول لائن پر اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف میدانِ جنگ سجا چکی ہو۔شام ہوتے ہوتے آپریشن کے اختتام تک کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوگیا۔ ان درجن بھر دیہات کی جو کہانیاں میڈیا اور لوگوں کے ذریعے سے سامنے آئیں، وہ دل دہلا دینے والی تھیں۔ فورسز اہل کاروں نے مکانات، فرنیچر اور درجنوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرکے کروڑوں روپے مالیت کا نقصان کرنے کے علاوہ نہتے اور عام شہریوں کی شدید مارپیٹ کی۔ شام کو دو درجن کے قریب لوگوں کو ہسپتالوں میں داخل کرانا پڑا۔ اس ظلم و جبر کے خلاف جب عوام نے احتجاج کرنا چاہا تو اُن پر پیلٹ گن کے چھرے اور آنسوگیس کے گولے داغے گئے۔

پاکستان کے ساتھ جب بھارت کے معاملات بگڑ جاتے ہیں تو پاکستان کو سبق سکھانے اور بدلہ لینے کے لیے بھارت بھر میں آوازیں اُٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان جب بھی سفارتی سطح پر کچھ مؤثر سرگرمی دکھائے تو کشمیرمیں سول آبادی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا جاتا ہے۔ عملاً کشمیریوں کو پاکستانیوں کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ جب بھی کشمیریوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، اُن کا قتل عام کیا جاتا ہے، اُنھیں زخمی کردیا جاتا ہے، ہماری خواتین کے ساتھ دست درازیاں کی جاتی ہیں تو بھارتی سماج کا ’اجتماعی ضمیر‘ مطمئن ہوجاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے خلاف کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی فوج نے پاکستان سے بدلہ لیا ہے۔ گرفتاریوں اور چھاپوں کے دوران بھارتی فورسزاہل کار اس بات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو خطرناک ترین سزائیں اس لیے دیتے ہیں کیوںکہ وہ ہندستانی نہیں بلکہ پاکستانی ہیں۔ اُن کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے اور اُن کی وفاداریاں پاکستان کے لیے ہیں۔

بھارتی حکومت، مقبوضہ کشمیر میں اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ اُن کی فوج جنگجوؤں کی آڑ میں عوام کے ساتھ برسرِ پیکار ہے۔ فورسز اہل کار وں کے حوصلے بھی روز بروز پست ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ریاست میں تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ بھارتی فوجی افسر جنرل ڈی ایس ہوڈا نے برملا کہا کہ: ’’کشمیر میں فوج کو جتنا کچھ کرنا تھا، اُس نے وہ کیا۔ وہاں طاقت سے حالات پر قابو پانا  مشکل ہے‘‘۔ اُنھوں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر میں فوجی طاقت کے بجاے سیاسی عمل شروع کریں اوربات چیت کا دروازہ کھولا جائے۔این ڈی ٹی وی کی معروف صحافی برکھادت نے ۱۹مئی کو ہندستان ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ: ’’وہ کشمیریوں سے فوری طور پر بات چیت کا راستہ اختیار کرے‘‘۔ اُنھوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ: ’’کشمیر میں اس پیمانے پر کبھی حالات خراب نہیں تھے۔ پہلے ہماری فوج ’پاکستانی جنگجوؤں‘ کے ساتھ لڑ رہی تھی لیکن آج وہ ’اپنے‘ لوگوں کے ساتھ نبرد آزما ہے‘‘۔

المیہ یہ ہے کہ بھارت میں برسرِاقتدار ٹولہ کشمیر کے معاملے میں اپنی سخت گیر پالیسی پر قائم ہے اور کسی بھی مرحلے پر اُس میںلچک دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان یا کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے وہ آمادہ نہیں۔ دوسری جانب کشمیر میں اَبتر صورتِ حال سے اندرون ملک مودی حکومت کافی دباؤ کا شکار ہے۔ خود مودی سرکار بھی اپنے تمام تر سخت گیریوں کے باوجود پریشان نظر آرہی ہے ۔ وہ کسی بھی طرح سے کشمیریوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کشمیریوں کی موجودہ احتجاجی تحریک کمزور پڑ جائے۔ اس کے لیے مختلف سطحوں پر کام ہورہا ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ کہا ہے کہ آنے والے ایک سال کے دوران وہ کشمیر میں بیانیہ ہی تبدیل کر دیں گے۔ اُنھوں نے ہندستانیوں کو انتظار کرنے کے لیے کہا اور  اُن کے اس بیان کی تائید کشمیر میں اُن کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کی ہے۔کشمیر اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایجنسیوں کے ذریعے سے آزادی پسند حلقوں میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے وہ آئے روزکوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

کشمیر میں سیاسی اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے۔ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے یا مذہبی ، اس طرح کے مباحثے شروع کروائے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری جدوجہد رضاے الٰہی کے لیے ہوتی ہے۔ ہماری کوششیں اسلام کی سربلندی کے لیے ہوتی ہیں۔ ہم جب جان دیتے ہیں تو اس میں پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کی بارگاہ میں شہادت کا درجہ نصیب ہوجائے۔جاننے اور سمجھنے کے باوجودہم غیر ضروری مباحثے شروع کرنے کے درپے ہیں اور بھارتی میڈیا اس کو خوب ہوا دے رہا ہے۔اس کے لیے بھارتی ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر میں تمام حربے آ زمارہی ہیں۔

دہلی میں قائم بھارتی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کشمیر، کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف ہمیشہ زہر اُگلتا رہتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہاں کے لوگوں کا تشخص مسخ کرنے کے لیے پروپیگنڈے پر مبنی درجنوں پروگرام روز نشر کیے جاتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کی اس مہم کے نتیجے میں کشمیر سے باہر بھارت کی مختلف ریاستوں میں کشمیریوں کی زندگیاں خطرہ میں پڑ چکی ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی ریاست میں کشمیری طلبہ پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ابھی گذشتہ ماہ میں بھارتی پنجاب کی ایک یونی ورسٹی میں کشمیری طلبہ کے ساتھ شدید مارپیٹ کی گئی اور اُنھیں ہاسٹل سے نکال باہر کیا گیا۔کشمیر سے باہر کشمیری جان ہتھیلی پر لے کر جاتا ہے۔  حد تو یہ ہے کہ گذشتہ ماہ بھارت کے معروف ہسپتال پی جی آئی چندی گڑھ میںڈاکٹروں نے ایک کشمیری مریضہ کا علاج صرف اس بنیاد پر نہیں کیا کیونکہ وہ کشمیری تھیں اور بھارتی ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ: ’’کشمیری، پاکستانی ہیں‘‘۔ ایک جانب کشمیریوںکو بھارت سے باہر جانے کے لیے سفری دستاویزات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ اُن کا کسی دوسرے ملک میں جانا اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے کہ عام آدمی  سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ وہ بھارت سے باہر علاج یا کسی اور ضرورت کے لیے جاپائے گا۔ دوسری طرف بھارت کے اندر کشمیری لوگوں کو نسلی تعصب کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اُنھیں بنیادی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں ہر طریقے سے نسل کشی کررہا ہے۔یہی نہیں بلکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کا مقابلہ کشمیری نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذریعے سے کررہی تھی۔ کشمیر کے اصل حالات کو بیرونی دنیا تک پہنچانے کے لیے عام کشمیری سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے۔جب کشمیریوں کے اس جوابی وار سے بیرونی دنیا میں بھارت کی رُسوائی ہونے لگی تو اس نے ۱۵؍اپریل سے کشمیر میں نہ صرف سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی، بلکہ اس کے لیے موبائل کمپنیوں کو ۲۲سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کردینے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے۔

کشمیریوں کی تمام تر اُمیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے ہر درد کی دوا پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا وار کا مقابلہ پاکستانی میڈیا بخوبی کرسکتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہاں بھارتی فلموں پر ایک ایک گھنٹے کا پروگرام تو ضرور نشر ہوتا ہے، جب کہ کشمیرکے حوالے سے رپورٹیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار اگر کوئی چینل کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتا بھی ہے تو وہ چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا ہے اور اُس میں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے بجاے سطحی چیزوں پر اکتفا کیا گیا ہوتا ہے۔یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنی ترجیحات میں کشمیر کو ثانوی حیثیت دے کر اپنے مقدمے کو کمزور بنانے کا کام خود انجام دیتے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر پاکستان زیادہ سے زیادہ کام کرے۔ پاکستانی میڈیا دنیا کو باخبر کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔ جس طرح سے کشمیر میں پاکستان کے تمام چینلوں کی نشریات روک دی گئی ہیں اُسی طرح پاکستان میں بھی بھارتی چینلوں کی نشریات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام مملکت پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں ہماری سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کریں۔زبانی جمع خرچ سے نہ کشمیریوں کا کچھ بھلا ہوتا ہے اور نہ پاکستانی مفادات کی آبیاری ہی ہوپاتی ہے۔