جون ۲۰۱۷

فہرست مضامین

اسلامی تحریکات اور فکری ترجیحات

ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی | جون ۲۰۱۷ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

چند در چند وجوہ اور منفی پروپیگنڈے کی بنیاد پر خواتین کے حوالے سے بحث کو صرف اسلام اور مسلمانوں سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح جہاں ’اسلام اور خواتین‘ ایک وضاحتی مسئلہ بن گیا ہے، وہیں اسلامی تحریکوں کے سامنے اس پہلو سے غوروفکر کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔

خواتین کے اسلامی کردار کی مناسبت سے

شیخ عبد الحلیم ابو شقہ نے کتاب : خواتین کی آزادی عہد رسالتؐ  میں، میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ آج کی مسلمان عورت دو جاہلیتوں میں سے کسی ایک کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف’’ چودھویں صدی ہجری میں پائے جانے والے غلو، تشدد اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور دوسری طرف ’’بیسویں صدی عیسوی میں پائی جانے والی برہنگی، اباحیت اور مغرب کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور یہ دونوں جاہلیتیں اللہ کی شریعت سے بغاوت کے مترادف ہیں۔ ۲۸  مسلم عورت روایت اور تجدد کی ان دونوں جاہلیتوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔

فاضل مصنف کا خیال ہے کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے، لیکن وہ ایک طرح سے عضوِ معطل کی مانند ہے، کیوں کہ وہ ایک مجاہد نسل پیدا نہیں کر رہی ہے اور نہ اُمت مسلمہ کی سیاسی و معاشرتی بیداری میں حصہ لے رہی ہے۔ لہٰذا، مسلم عورت کی آزادی مسلمان معاشرے کے نصف حصے کی آزادی ہے اور عورت اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی، جب تک مرد نہ آزاد ہو اور دونوں اسی صورت میں آزاد ہو سکتے ہیں جب اللہ کی شریعت و ہدایت کا اتباع کیا جائے۔۲۹

مصنّف نے معاشرتی زندگی میں خواتین کے اسلامی کردار کی کمی کے درج ذیل اسباب بیان کیے ہیں:

                ۱-            باقی ماندہ جاہلی عادات و رسوم کے اثرات، خواہ عرب جاہلیت کی رسوم ہوں یا اسلام میں داخل ہونے والی دوسری اقوام کی رسوم و روایات۔

                ۲-            مسلم معاشرے میں موجود تشدد اور غلو کے رجحانات۔

                ۳-            بعض علماے سلف کے اجتہادات کی تقلید۔

                ۴-            ائمہ کے بعض اقوال، احادیث کی میزان پر تولے نہیں جا سکتے اور خود حدیث پر تحقیق کی ضرورت و اہمیت۔ ۳۰

دورِ نبویؐ میں خواتین کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا اور وہ جن حقوق اور آزادیوں سے بہرہ ور تھیں، انھیں بحال کرنا اسلامی تحریکوں کی ترجیحات میں داخل ہے۔ دعوت و اصلاح اور تجدید و احیا کا کام تشفی بخش طریقے سے اسی وقت انجام پا سکتا ہے، جب کہ معاشرے کے اس نصف حصے کی سماجی زندگی اسلام کی روشنی میں بحال ہو۔

مصری مصنف شیخ محمدالغزالیؒ( ۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء) چودھویں صدی ہجری میں مسلم اُمت کے زوال کے اسباب پر گفتگو کرتے ہیں تو درج ذیل امور کی نشان دہی کرتے ہیں:

۱- دین کا ناقص فہم ، ۲- نااہل اور بددیانت افراد کا قیادت کے منصب پر فائز ہونا، ۳-دین سے خواتین کے تعلق کی کم زوری، ۴- اساطیری تصور مذہب پر بڑھتا ہوا یقین۔ ۳۱

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی مسجد نبویؐ میں فجر اور عشاء کی نماز یں جماعت سے ادا کرتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا: ’’آپ گھر سے باہر کیوں نکلتی ہیں؟ جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ عمرؓ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں اور خلافِ غیرت تصور کرتے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پھر وہ مجھے حکماً کیوں نہیں روک دیتے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روک رہا ہے کہ ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے مت روکو‘‘۔ ۳۲   حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے یہ حدیث روایت کی تو ان کے بیٹے نے کہا: ’’بخدا، ہم انھیں مسجدوں میں نہیں جانے دیں گے‘‘۔ باپ بیٹے پر سخت ناراض ہوئے اور ان کی یہ ناراضی آخر تک برقرار رہی۔

اس تاریخی واقعے کو نقل کر کے شیخ الغزالی تأسف کا اظہار کرتے ہیں:’’یہ عجیب معاملہ ہے کہ ملت اسلاامیہ اپنے آخری ادوار میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے صاحب زادے کے مسلک کی تو قائل ہو گئی، لیکن باپ کی روایت کر دہ حدیث سے اس نے نظریں پھیر لیں۔ چنانچہ پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں ادایگی اور خطبات و دروس کی سماعت و استفادے سے عورتیں آج تک محروم چلی آرہی ہیں۔مسجدوں سے عورتوں کو محروم کرنے کی یہ روش پوری تاریخ میں برقرار رہی، جس کی وجہ سے مسلم خاندان کا زبردست نقصان ہوا اور فرض عبادات سے بھی ان کا رشتہ ٹوٹ گیا‘‘۔ ۳۳

ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ خواتین کے حقوق سے غفلت اور غیر دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کو تحریک اسلامی کے لیے مضر خیال کرتے ہیں۔ ان کا درمندانہ تجزیہ یہ ہے کہ: علماے دین اور اسلامی تحریکوں کو خواتین کے معاملے میں ’دفاع اور تحفظ‘ کی جگہ اسلامی نقطۂ نظر کا پوری قوت سے اثبات کرنا چاہیے اور اقدامی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ایسا اثبات کہ جس سے ایک طرف اسلامی نظام فکر کی خیر و برکات اور اس کا توازن اور عدل واضح ہوتے جائیں اور دوسری طرف عصری نقطۂ نظر کی بنیادیں منہدم ہوتی چلی جائیں، اور اس کی اساس پر تشکیل پانے والے معاشرے کی خیرہ کن تاب ناکی کے پس پردہ تاریکیوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی رہے۔

اس اثبات کا محور ، ڈاکٹر فریدی کے الفاظ میں: ’’اسلامی نظام فکر و عمل اور اس کے اصول و اقدار ہوں گے۔ ان کی واضح اور جرأت مندانہ تفسیر اور تعبیر کی ضرورت ہے۔ خواتین کے کردار کے اس اثبات کا مطلب اُس تاریخی ثقافت اور ان تمام اداروں کا اثبات ہر گز نہیں ہے، جسے ملّتِ اسلامیہ نے اپنے طویل سفر میں اپنی اجتماعی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔ ہمارے رجحانات اور ہماری مرضیات ، ہمارے رسم و رواج اور ہماری کلچر ل اقدار، ان سب سے نکھار کر اس کا اثبات اور توضیح وقت کا بھی تقاضا ہے اور ہماری دینی ذمہ داری بھی‘‘۔ ۳۴

ڈاکٹر فریدی کو اس بات کا ادراک ہے کہ علماے اُمت نے ہر دور میں خواتین کے حقوق اور ازدواجی تعلقات کے متعلق اسلامی بنیادوں کی تعلیم اور تشریح کے ذریعے اصلاح کی جدو جہد جاری رکھی، مگر ان پر بھی تحفظ کا داعیہ غالب آگیا۔ خطرے کے مبالغہ آمیز احساسات کی وجہ سے اس امر کا اہتمام نہ کیا جا سکا کہ حقیقی اسلامی اقدار اور کلچر کے حشو و زوائد کو ممیز کیا جاتا رہے، بلکہ دین دار حلقوں کی ہمت افزائی کی گئی کہ جو کچھ بھی سرمایہ موجود ہے، اس کو برقرار رکھا جائے اور انحطاط سے بچایا جائے۔ تحفظ کی اس جدو جہد میں اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر کی تفریق کا لحاظ نہ کیا جا سکا۔ ۳۵

ڈاکٹر فریدی یہ اعتراض نقل کرتے ہیں کہ: ’’مدینہ ایک پاکیزہ سو سائٹی تھی، لیکن ہم ایسے دور میں سانس لے رہے ہیںجہاں اباحیت کا غلبہ ہے، اس لیے ہمیں مزید پابندیاں لگانی پڑیں گی، بعض مباحات کو ممنوع قرار دینا ہوگا اور اجتماعی تعامل کی بعض راہوں کو بند کرنا پڑے گا، جو اُس پاکیزہ سماج میں موجود تھیں‘‘۔ ڈاکٹر فریدی اس اعتراض کو دووجوہ سے رد کرتے ہیں:

                ۱-            مدینہ کے معاشرے میں بھی غلط عناصر موجود تھے، ا گر چہ ان کی تعداد حد درجہ قلیل تھی۔ منافقین ہر وقت گھات لگائے رہتے تھے۔

                ۲-            قرآن کریم کے احکام ہر معاشرے کے لیے ہیں، خواہ وہ مدینہ منورہ کا پاکیزہ معاشرہ ہو، یا آج کاا باحیت زدہ ماحول۔ ۳۶

ڈاکٹر فریدی دور حاضر کے بعض رجحانات کو صحت مند قرار دیتے ہیں، کیوں کہ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہیں، حالاں کہ خدائی ہدایات کی بے نیازی نے ان کی تعبیر میں افراط و تفریط کی راہ پیدا کر دی ہے۔ وہ رجحانات یہ ہیں:

                ۱-            خواتین کی عمومی مظلومیت کو دُور کرنے اور ان کو انسانی حقوق دلانے کی عام جدوجہد ۔

                ۲-            اجتماعی امور میں ان کے اشتراکِ عمل میں اضافے کی جدو جہد ۔

                ۳-            خواتین سے جہالت دُور کرنے اور تعلیم کے ممکنہ وسائل بہم پہنچانے کی جدو جہد ۔

                ۴-            عائلی زندگی میں خواتین کو منصفانہ حقوق دلانے کی جدو جہد ۔

                ۵-            عورت کو مرد سے کم تر سمجھنے کے نقطۂ نظر کی اصلاح۔

                ۶-            معاشی زندگی میں عورت کو استقلال عطا کرنے کی جدو جہد ۔ ۳۷

ڈاکٹر فریدی مرحوم ان رجحانات کو بلا سوچے سمجھے تسلیم کرنے کا مشورہ نہیں دیتے، کیوں کہ ان کے علَم بردار بالعموم دین و مذہب سے بیگانہ ہیں۔ ان کی فکر میں ژولیدگی اور ابہام ہے۔ ان کی تعبیریں خواہش نفس اور تجدد کی ترجمان ہیں، اور ان میں افراط و تفریط بھی ہے اور رد عمل بھی۔ اگر اسلامی تحریک کوشش کرے تو اسلام کے عادلانہ اور متوازن فکر کے طفیل ان قدروں کا متوازن امتزاج اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے، جو عصری اصطلاحات کی زبان میں سمجھ میں آسکے۔ ۴۰

غیر مسلموں سے تعلقات

بیسویں صدی میں مغرب کے لادینی نظام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں نے بلاشبہہ عظیم الشان لٹریچر تیار کیا ہے۔ جس نے مغرب کے الحاد پر تنقید کے ساتھ اس کے استعماری عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ مغرب کی فکری و عسکری یلغار نے مسلمان علما و مصلحین کو آمادہ کیا کہ   وہ ایک نئے علم الکلام کے ذریعے اسلام کی حقانیت پر مسلمانوں کے ایمان و اعتقاد کو بحال کریں اور عقلی استدلال کے ساتھ غیرجانب دار اسلوب میں نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کریں۔

علّامہ محمد اقبال(۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء)، سیّد مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)، سید ابو الحسن علی ندوی (۱۹۱۴ء- ۱۹۹۹ء) مریم جمیلہ (۱۹۳۴ء- ۲۰۱۲ء)، سیّد قطب (۱۹۰۶-۱۹۶۶ء)، محمد قطب  (۱۹۱۹ء-۲۰۱۴ء)، محمدالغزالی (۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء)، ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء)،  طارق رمضان (پ:۱۹۶۲ء) پروفیسر خورشید احمد (پ: ۱۹۳۲ء)، مالک بن نبی (۱۹۰۵ء-۱۹۷۳ء)، بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۳ء- ۱۹۶۰ء) جیسے دانش وروں اور علما کی ایک قوسِ قزح ہے، جس نے مغربی فکر و فلسفہ کے خلاف اسلام کی صداقت ، معقولیت اور نافعیت کوثابت کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں دینی و فکری ادب عالیہ تیار کیا۔ اس لٹریچر کا بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ ہوا، جس کی وجہ سے اس کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہ رہ سکے۔ دھیرے دھیرے مغربی فکر سے مرعوبیت ، احساس کم تری اور معذرت خواہانہ ذہنیت کا خاتمہ ہوا۔ مسلم نوجوان اسلام و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوکر دعوت و احیاے دین کی جدو جہد میں لگ گئے۔

مغرب نے اسلامی تحریکوں کو بدنا م کرنے اور احیاے اسلام کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے عسکری، ابلاغی، مذہبی اور علمی تمام حربے اختیار کیے، مگر عالم اسلام میں مغرب کے خلاف نفرت بڑھتی گئی اور اسلامی تحریکوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ بعض عوامل کے تحت پوری غیر مسلم دنیا مسلمانوں کی نفرت میں محارب اور معاند بن گئی۔ امریکا اور مغرب کی جارحیت پسند حکومتیں ہی نہیں، وہاں کے عوام بھی دشمنوں کی صف میں کھڑے کر دیے گئے اور ان سے مسلمانوں کا باہمی تعلق اور انسانی تعامل تھم گیا ، جس کے نتیجے میں دعوت اسلامی کا دائرۂ کار عملاً مسلمانوں کے اندر محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کا براہ راست نقصان اسلامی تحریکوں کو پہنچا۔ اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک سے مغرب کی دُوری بڑھی۔ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں تیزی سے پرورش پائیں۔

طرفہ تماشا یہ ہوا کہ مسلم ممالک کی مغرب نواز قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلامی قائدین کو ہر طرح کی بنیادی سہولتوں اور آئینی و دستوری حقوق سے محروم کیا، بلکہ ان پر بے پناہ ظلم و ستم روا رکھا۔ قیدوبند سے لے کر تختۂ دار تک تمام صعوبتیں ان پر مسلط کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔ردّ عمل میں اسلامی تحریکوں اور مسلم سربراہان مملکت کے درمیان کشاکش بڑھی۔ اوپر سے مغرب نے مسلم ممالک پر مسلط کر دہ رہ نمائوں کی حمایت کی اور انھیں عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔

جمہوری و انسانی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے مسلم ممالک میں بھی اور مغرب میں کام کرنے والے بعض افراد، حلقوں اور اداروں کے اندر بھی انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ دیا، جس کا خمیازہ آج پوری امتِ مسلمہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بعض حلقے اور جماعتیں پورے مغرب کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ لڑنے کی نظریہ سازی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان یہ کشاکش دعوت اسلامی کو کام کرنے کا موقع نہیں دے رہی ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کو مسلسل  حالتِ جنگ میں رکھ کر وہاں کے انسانوں سے سماجی و معاشرتی تعامل و تعلقات کی راہ بند کر دی ہے۔ اس پر وقفے وقفے سے انجام پانے والی پُرتشدد کارروائیاں حالات کو اور سنگین بنا دیتی ہیں۔ معصوموں کے قتل عام سے اسلام اور دعوت اسلامی کی تضحیک ، استہزا اور تذلیل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

اس صورتِ حال میں استحصالی قوتیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتیں۔مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ان دنوں مسلمانوں سے منسوب ایسی پوسٹوں کا خوب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور انھیں انتہاپسند اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوم کے طور پر لعن طعن کرنا ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر ایسی قابلِ اعتراض پوسٹس آئے دن کا معمول بن چکی ہیں جن کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں بعض ایسے طائفے بھی پیدا ہوچکے ہیں جو صرف جنگ کو اسلام کا تقاضا سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عام انسانوں سے تعامل کی قرآنی بنیاد حُسنِ سلوک اور عدل و اانصاف ہے نہ کہ عداوت و نفرت۔ سورۂ ممتحنہ کی آیات ۸-۹ اس باب میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں،   جن میں صراحت ہے کہ جو غیر مسلم تمھارے ساتھ عداوت نہیں برتتے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ  تم بھی ان کے ساتھ عداوت نہ برتو،بلکہ تم ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ آیت ۹ میں مزید صراحت ہے کہ کفار سے ترکِ تعلق کا جو حکم اس سورہ کی ابتدائی آیات میں دیا گیا ہے اس کی وجہ ان کا کفر نہیں، بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔

مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ نے ان آیات کی بہترین تشریح اس واقعے کو قرار دیا ہے جو سیرت و تاریخ کی کتابوں میں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ اور ان کی کافر والدہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ بخاری ، مسلم اور مسند احمد میں یہ واقعہ مروی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبد العزیٰ کافر تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسما ؓ انھی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئیں اور کچھ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماء ؓ کی اپنی روایت ہے کہ میں نے جا کر رسولؐ اللہ سے پوچھا: ’’کیا میںاپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟‘‘آپؐ نے جواب دیا:’’ ہاں، ان سے صلہ رحمی کرو‘‘۔ حضرت اسماؓ کے صاحب زادے عبد اللہ بن زبیر ؓ اس واقعے کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماؓ نے ماں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا، بعد میں جب اللہ اور اس کی رسول کی طرف سے اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں۔ ۳۹

قرآن کریم نے تو یہاں تک ہدایت دی ہے کہ دشمن قوم اگر ظلم و زیادتی کرے تو بھی اس کے جواب میں مسلمانوں کو ناروا ظلم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْام وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ص  وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدۃ ۵: ۲) اور (دیکھو)، ایک گروہ نے جو تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمھارا غصہ تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں نا روا زیادتیاں کرنے لگو۔( نہیں) جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔

اسی سورہ میں آگے اللہ نے حکم دیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرو۔ اس لیے کہ تقویٰ اور خدا ترسی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط  اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدۃ۵: ۸) کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

اسلامی تحریکیں غیر مسلموں سے انسانیت نواز اور ہمدردانہ تعامل کی ناگزیریت محسوس کرنے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں عالمی سطح پر تشدد اور دہشت گردی کے جو ناخوش گوار اور ہول ناک واقعات پیش آئے ہیں اور پورے مغرب میں ’اسلامو فوبیا‘ کی جو لہر پھیلی ہے، اس نے خاص طور پر مسلم تحریکوں کو اپنی پالیسی و پروگرام پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے علما، دانش ور، مصنف اور سماجی کارکن سب محسوس کرنے لگے ہیں کہ دشمن اور غیر دشمن میں تفریق کی جائے۔ جارحیت پسند حکومتوں ، افراد اور اداروں کی تمام تر سازشوں کے باوجود عام انسانوں سے معاشرتی روابط بڑھائے جائیں اور ان سے سماجی تعلقات میں بہتری لائی جائے۔

۷ جنوری ۲۰۱۵ء کو پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین کے دفاتر میں خود کش بندوق برداروں نے حملہ کر کے اس کے ۱۰ کارکنوں اور ۲ پولیس اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کی وجہ اس مزاحیہ رسالے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت تھی۔ میگزین کی گستاخانہ اور اخلاق سے گری حرکت کے باوجود اس تشدد آمیز کارروائی کی مسلمانوں کے نمایندہ اداروں نے مذمت کی۔۴۲

پیرس کے مسلمانوں نے آئینِ فرانس سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔ اتحاد اسلامی تنظیمات براے فرانس نے ایک بیان میں کہا :’’ ہم اپنے ملک فرانس کے تئیں وفادار ہیں۔ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے رسولؐ سے عشق کرتے ہیں، مگر ہم اپنے مسکن فرانس سے بھی محبت کرتے ہیں‘‘۔

اس ادراک کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں ان فکری و علمی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں تو اُمت مسلمہ کا مستقبل درخشاں ہے۔ جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں پر سماجی توازن برقرار رکھنے اور دعوت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو غیر اسلامی قوتوں سے اشتراکِ عمل کی ضرورت کا احساس ہے۔ خدمت خلق سے اس کی بڑھتی ہوئی دل چسپی ، ملکی تعمیر و ترقی کے پروگراموں میں وہاں کے اکثریتی اہل مذہب اور باشندوں سے تعاون و تعامل میں اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ کارکنوں کے اندر اس کی ناگزیریت کے احساس میں اضافہ کیا جائے اور عبادت و خدمت کے لزوم کے تصور کو ان کے دلوں میں جاگزیں کیا جائے۔ دوسرے ملکوں میں کام کرنے والی اسلامی تحریکیں اس جانب پیش رفت کر رہی ہیں، کہیں حالات کے دبائو میں، تو کہیں منصوبہ بندی کے تحت۔ ضرورت ہے کہ اس انسانیت نواز تعامل کی مؤثر تفہیم و تشریح ہو اور شرعی استدلال کے ساتھ دلوں کو اس پر مطمئن کیا جائے۔ یہ مرحلہ مشکل تو ہے، مگر ناقابلِ عبور نہیں۔

حواشی و مراجع

۲۸- عبد الحلیم محمد ابو شقہ، تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ، کویت، دار القلم، ۱۹۹ء، ۶؍ جلدیں۔ اردو ترجمہ، خواتین کی آزادی عہد رسالت میں۔ تلخیص احمد کبیسی، مترجم: شعبہ حسنین ندوی، ہیزنڈن، ورجینیا، ص ۱۴

۲۹- حوالہ سابق ، ص ۱۵                                      ۳۰۔ حوالۂ سابق، ص ۲۲۔۲۴

۳۱۔ محمدالغزالی، الدعوۃ الاسلامیہ تستقبل قرنھا الخامس عشر  [اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، دعوت اسلامی، پندرھویں صدی ہجری کے استقبال میں، دہلی، ۱۹۸۱ء۔ ص۸۰- ۸۳]

۳۲- مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب خروج النساء الی المساجد اذا لم   یرتب علیہ      فتنۃ، الرقم : ۴۴۲

۳۳- محمد الغزالی، حوالہ بالا، ص ۸۲     ۳۴- فضل الرحمٰن فریدی، اقامت  دین کا سفر،حوالہ بالا

۳۵-حوالۂ سابق                                       ۳۶- حوالۂ سابق

۳۷-حوالۂ سابق، ص۳۸،  ۸۲۔۸۳         ۳۸-حوالۂ سابق، ص ۸۴

۳۹- سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۸۸ء، جلد پنجم، ص ۴۳۳، حاشیہ ۱۳

۴۰- عبید اللہ فہد فلاحی، چارلی ہیبڈو ( Charlie Hebdo) کے خاکے اور مسلمانوں کا رد عمل‘، مشمولہ در، فکر محمدؐ، ترتیب: عبید اللہ فہد اور ضیاء الدین فلاحی، سیرت کمیٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ۲۰۱۶ء، ص ۱۶۷-۱۹۷

http://mirajnews.com/international/europel. .41

french_muslim_right_dominate_le_lourget