جون ۲۰۱۷

فہرست مضامین

سبق پھر پڑھ …!

عبد الغفار عزیز | جون ۲۰۱۷ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اپریل کے اختتام پر سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ ایشیائی ممالک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ شرکا نے بہت مفید گفتگو اور مشاورت کے بعد مستقبل کے لیے اہم فیصلے کیے۔ اللہ کی توفیق سے ان پر عمل درآمد ہوگیا تو یقینا مفید ہوگا۔ بالخصوص ان ممالک میں کہ جہاں مسلم اقلیت کو اکثریت کے ہاتھوں گمبھیر مشکلات کا سامنا ہے۔

خود سری لنکا میں اکثریتی آبادی کا تعلق بدھ مت سے ہے (تقریباً ۷۰ فی صد)، دوسرے نمبر پہ مسیحی، تیسرے نمبر پہ ہندو ہیں اور چوتھے نمبر پہ مسلمان۔ ماضی میں نسلی تعصبات کی آگ نے بہت نقصانات پہنچائے۔ تامل باغیوں نے ۲۰۰۹ء تک وہاں بہت خوں ریزی مچائی جسے بھارت کی واضح سرپرستی بھی حاصل تھی، بالآخر سری لنکن فوج نے باغیوں کا مکمل خاتمہ کردیا۔ اب الحمد للہ مجموعی طور پر تمام شہری باہم شیر و شکر ہیں۔ سیمی نار کا افتتاحی سیشن قصر صدارت میں ہوا۔ صدر مملکت، وزیراعظم،ا سپیکر، تین مسلمان وزرا، بھارت سے آئے ہوئے مولانا ارشد مدنی صاحب اور سعودی مشیر براے مذہبی اُمور نے خطاب کیا۔

 سری لنکا اپنی تاریخ، جغرافیے، موسم اور تہذیب و عادات کے حوالے سے بہت دل چسپ اور اہم ملک ہے۔ اگرچہ سری لنکا تیسری بار جانا ہوا لیکن اس سفر میں کئی بہت دل چسپ انکشافات ہوئے۔ اتوار کے روز، سفر کے دوران میں پانچ اہم شہروں سے گزرہوا۔ ہرجگہ بچے یونیفارم پہنے اسکول جارہے تھے۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ چھٹی کے دن ہرمذہب کے بچے اپنے مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مذہبی تعلیم کے نمبر بعدازاں بچے کی مجموعی تعلیمی اسناد میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مسلمان بچوں اور بچیوں کے شان دار تعلیمی اداروں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی سری لنکا کے کارکنان سے بڑی تعداد میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد صرف ایک مختصر بات پہ غور کرنا پیش نظر ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر جناب کارو جے سوریا نے اپنے گھر پہ مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو اپنی استقبالیہ تقریر میں کہنے لگے: ’’سری لنکن عوام کی ایک نمایاں پہچان اور عادت یہ ہے کہ We  are the nation of smiling face (ہم مسکراتے چہروں والی قوم ہیں)۔ ہمارے شہری آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ بعض اوقات دو افراد لڑ رہے ہوتے ہیں، تو اس وقت بھی مسکرا رہے ہوتے ہیں‘‘۔ یقینا یہ بات ۱۰۰ فی صد اسی طرح نہیں ہوگی، لیکن اس دعوے کا جس سری لنکن شہری سے بھی ذکر ہوا، اس نے تائید کی۔

جب سے یہ دعویٰ سنا اور مشاہدہ کیا ہے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بار بار یاد آرہا ہے کہ: تَبَسُّمُکَ لِوَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃ ’’اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے سے تمھارا ملنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ذہن میں بار بار سوال اُٹھتا ہے کہ بدھ اکثریت پر مشتمل ایک پوری ریاست اور پوری قوم اگر مسکراہٹ کو اپنی شناخت اور عادت کے طور پر متعارف کروا سکتی ہے، تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کا باہم مسکرانا تو عین عبادت ہے، ہم اسے کیوں نہیں اپنا سکتے؟ آپؐ کے فرمان ’صدقہ‘ پر غور فرمائیے۔ گویا ہم جب بھی مسکراتے ہیں تو کچھ بھی خرچ کیے بغیر، اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ آپؐ اس بارے میں ہماری مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَ لَو اَنْ تَلْقٰي اَخَاکَ بِوَجْہِ طَلْقٍ ’’کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو، خواہ وہ تمھارا کھِلے ہوئے چہرے اور خندہ پیشانی سے اپنے بھائی کو ملنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کَانَ رَسُولَ اللہ علیہ وسلم بَسَّامًا ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرایا کرتے تھے‘‘۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب بھی آپؐ نے مجھے دیکھا، آپؐ مجھے دیکھ کر مسکرادیے: وَ لَا رآنی الا تَبَسَّمَ فِی وَجہِی (متفق علیہ)۔ اس کے باوجود ہم اسے اپنی پہچان کیوں نہیں بناسکے؟

آپؐ کی تعلیمات پر تھوڑا سا مزید غور کیا تو یاددہانی ہوئی، کہ آپؐ نے تو ہمیں ہر قدم پر نیکیاں سمیٹنے کی بشارت اور ترغیب دی ہے۔ خلق خدا کے لیے ہر ہر بھلائی کو صدقہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیے:

تَسْلِیمَہ عَلٰی مَنْ لَقِیَہ صَدَقَۃٌ ،جو بھی ملے اسے سلام کہنا صدقہ ہے۔

رَدُّ  الْمُسْلِم عَلَی الْمُسْلِمِ صَدَقَۃٌ، مسلمان کا مسلمان کے سلام کا جواب دینا صدقہ ہے۔

اِمَا طَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ، راستے سے کوئی بھی تکلیف دینے والی چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔

اِرْشَادُکَ الرَّجُلَ الطَّرِیْقَ صَدَقَۃٌ، کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے۔

مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَہٗ کُلَّ یَوْمٍ مِثْلَہٗ صَدَقَۃٌ، تنگ دست مقروض کو مہلت دینا ہر روز قرض کے برابر صدقہ کرنا ہے۔

اِتَّبَاعُکَ الْجَنَازَۃَ صَدَقَۃٌ، کسی جنازے کے ساتھ تمھارا چلنا صدقہ ہے۔

اِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِی دَلْوِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ، اپنے برتن سے اپنے بھائی کا برتن بھردینا صدقہ ہے۔

نَصْرُکَ الرَّجُلَ الرَّدِیَٔ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَۃٌ، کمزور نگاہ والے کی مدد کردینا صدقہ ہے۔

تَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ، دو افراد کے درمیان صلح کروادینا صدقہ ہے۔

تُعِیْنُ الرَّجُلَ فِی دَابَتِہ فَتَحْمِلُہٗ عَلَیْہَا اَوْ تَرْفَعُ لَہٗ عَلَیْہَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ، کسی کو  اس کی سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا یا اس کا سامان رکھوانے میں مدد کرنا صدقہ ہے۔

اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃٌ صَدَقَۃٌ، کوئی بھی اچھی بات کہہ دینا صدقہ ہے۔

کُلُّ خُطْوَۃٍ تَمْشِیْہَا اِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ، نماز کے لیے جاتے ہوئے ہر قدم صدقہ ہے۔

کُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تسبیح صدقہ ہے۔

کُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ، اللہ کی ہر حمد بیان کرنا صدقہ ہے۔

کُلُّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ، کلمۂ طیبہ پڑھنا صدقہ ہے۔

کُلَّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ، ہر تکبیر صدقہ ہے۔

بُضْعَۃُ اَھْلِہٖ صَدَقَۃٌ، میاں بیوی کا ملنا صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ نَفْسَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ، تم جو (رزق حلال) خود کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  وَلَدَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنے بچوں کو کھلایا صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  زَوْجَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ، جو کچھ اپنی اہلیہ / اپنے شوہر کو کھلایا وہ صدقہ ہے۔

مَا اَطعْمَتْ  خَادِمَکَ فَہُوَ لَکَ  صَدَقَۃٌ ،تم نے جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے۔

اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔

نَہْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ، برائی سے روکنا صدقہ ہے۔

یُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ فَاِنَّہٗ لَہٗ صَدَقَۃٌ، شر سے اپنے آپ کو روک لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

ان اور اس طرح کی دیگر صحیح احادیث کے آئینے میں دیکھیں تو کئی سبق حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر نیت خالص اور کوشش سچی ہو تو ایک صاحبِ ایمان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ، بہترین عبادت اور رب کی بندگی بن جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر نیت میں فتور، دل میں غرور، ذہن میں ریاکاری کا شائبہ یا زبان و نگاہ سے احسان جتلانے کا ارتکاب ہوجائے، تو بڑی سے بڑی نیکی بھی راکھ بناکر ہوا میں اڑا دی جاتی ہے (ھبائً منثوراً)۔ جن اعمال کو رحمۃ للعالمینؐ نے صدقہ قرار دیا   ان پر غور کریں تو ان کی غالب اکثریت دوسروں سے حُسنِ سلوک، ان کا بھلا سوچنے اور ان سے بھلائی کرنے پر مشتمل ہے۔

ایک اور اصولی بات بھی بہت اہم ہے۔ ہم بعض اوقات حُسن معاشرت یا حُسن عمل کے بہت سارے پہلوئوں کو غیراہم سمجھ لیتے ہیں۔ معاشرے میں پائے جانے والے بڑے بڑے ناسور، اقامت دین کا عظیم فریضہ، ظلم اور ظالموں سے نجات کی جاں گسل جدوجہد، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت جیسے کارِ نبوت ایک جانب رکھیں تو مسکرا کر ملنا، راستے سے اذیت ہٹا دینا، کھانا کھلادینا، عیادت و تعزیت کرلینا یا بعض تسبیحات و اذکار کرلینا، بہت چھوٹی باتیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ لیکن اسی موقعے پر ایک مسلمان کی زندگی میں توازن کا امتحان ہوتا ہے۔ ہم میں سے کچھ افراد  اذکار و اَوراد ہی پر اکتفا کرتے ہوئے صرف اسے ہی راہِ نجات سمجھ لیتے ہیں۔ بعض دوسرے ان مسنون اعمال کی استہزا تک کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔حالاں کہ دونوں پہلو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

اُمتِ مصطفویؐ کی کئی اہم عبادات جنھیں ہم نے فراموش کر دیا اور دوسروں نے اپنا لیا ہے کا شدید احساس جاپان جاکر بھی ہوا۔ وہاں موجود احباب نے جاپانی معاشرے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بتائی کہ : ’’کسی جاپانی کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ آپ سے جھوٹ بولے گا، یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ سبحان اللہ ، ایک جاپانی صرف اس لیے جھوٹ نہیں بولے گا کہ وہ جاپانی ہے، اور اس کے معاشرے نے اسے جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم دی ہے۔  جھوٹ سے بچنے بلکہ جھوٹ کے بارے میں سوچنے سے بھی منع کرنے کے لیے وہاں کے نرسری اسکولوں ہی سے تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ سچ ہی کی نہیں، محنت، خوداعتمادی، اور دوسروں کی مدد کرنے کی کئی مثالیں مشاہدہ کرنے کو ملیں گی۔ جاپان میں کسی سے راستہ پوچھ لیں تو مکمل تفصیل اور تسلی سے راہ بتائیں گے۔ بعض اوقات تو ساتھ ہی چل دیں گے کہ دشواری نہ ہو۔

صادق و امین ہستی کے اُمتی تو ہم ہیں…؟ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : اَ یَکُونُ المُؤمِنُ کَذَّابًـا؟ کیا کوئی مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔آپؐ نے سچ کو جنّت اور جھوٹ کو جہنّم کی راہ قرار دیا۔ نبی کاملؐ ، دین کامل لے کر آئے۔ ایک کامل اسلامی معاشرہ، اس دین کامل کو اپنا کر ہی وجود میں آسکتا ہے۔

ہم یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ ذرہ برابر نیکی (مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) بھی اکارت نہیں جاتی۔ کویت کے ایک دوست کا سنایا ہوا، سچا واقعہ سن لیجیے۔ کہنے لگے کہ: ہماری مسجد میں ایک ہندو نے اسلام قبول کرلیا سب بہت خوش ہوئے۔ نو مسلم بھائی سے قبولِ اسلام کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک خاکروب ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے مسجد کی قریبی سڑکوں پر جھاڑو دیتا ہے۔ فلاں سڑک پر جھاڑو دیتے ہوئے، اذان کی آواز آتی۔پھر فلاں گھر سے ایک صاحب باقاعدگی سے نماز کے لیے نکلتے۔ میرے پاس سے گزرتے ہوئے وہ اپنی جیب سے عطر کی شیشی نکالتے، مسکراتے ہوئے میرے ہاتھ کی پشت پر عطر لگاتے اور مسجد چلے جاتے… بس ان کا یہ خاموش پیغام ہی مجھے آج مسجد لے آیا ہے۔ مسکراہٹ اور خوشبو کا صدقہ یقینا دونوں کو جہنم کی آگ سے بچا گیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم الشان سلطنت میں ایک چھوٹے پرندے ہُدہُد اور چھوٹی سی چیونٹی ہی کودیکھ لیجیے۔ ہُدہُد نے دیکھا کہ ملکہ اور اس کی رعایا، اللہ کے بجاے سورج کی پوجا کررہے ہیں، آنکھوں پر یقین نہ آیا، اور تڑپ کر دربار نبوت میں پہنچا۔ پورا ماجرا سنایا اور بالآخر ایک پوری قوم کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بن گیا۔

چیونٹی نے دیکھا کہ ساری چیونٹیاں اپنے کام کاج میں مگن ہیں اور سلیمان علیہ السلام کا لشکر سر پہ آن پہنچا ہے۔ تن کے کھڑی ہوگئی، پوری قوت سے چلّائی: یّٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْج   لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ (النمل۲۷: ۱۸) ’’چیونٹیو! فوراً گھروں کے اندر چلی جاؤ۔ یہ نہ ہو کہ سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمھیں کچل کر رکھ دے‘‘۔ چیونٹی کی یہ دہائی حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی سن لی، فوراً لشکر کو رکنے کا حکم دیا اور بے اختیار کلمات شکر زبان پر آگئے: رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o(النمل۲۷: ۱۹)  ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ مَیں اُس  احسان کا شکر ادا کرتا رہوں، جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں، جو تجھے پسند آئے، اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ رب ذو الجلال کو یہ منظر اور اس میں پوشیدہ اسباق اتنے پسند آئے، کہ پورا واقعہ تا قیامت قرآن کریم میں ثبت کردیا۔ ہمیں تعلیم دینا مقصود تھا کہ ہُدہُد اور چیونٹی کے صدقے جتنا بھی صدقہ کروگے(نیکی کا حکم صدقہ ہے) تو پورا پورا اجر ملے گا۔

چیونٹی کی اس پکار میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے۔ حضرت سلیمانؑ اور آپؑ کے لشکر کی آمد سے خبردار کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہا: وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ، یعنی یہ نہ ہو کہ وہ تمھیں کچل ڈالیں اور انھیں پتا بھی نہ چلے۔ دوسروں سے حُسن ظن کی اس سے جامع مثال شاید کہیں اور نہ ملے۔

سری لنکا کی مسکراہٹ اور تعلیم کا اعلیٰ تناسب، جاپانیوں کی محنت اور سچائی، کویتی بھائی کی لگائی ہوئی خوشبو، ہُد ہُد کی زیرکی اور چیونٹی کی پکار، ہمیں بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین طے شدہ ہیں۔ جو ان کی پابندی کرے گا، کامیاب و کامران ہوگا   ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا ،شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا