جون ۲۰۱۷

فہرست مضامین

انتہاپسندی، تعلیم یافتہ نوجوان اور ہمارا مستقبل

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جون ۲۰۱۷ | اشارات

Responsive image Responsive image

اپریل ۲۰۱۷ء میں پیش آنے والے دو انتہائی تکلیف دہ اور اسلامی تصور عدل اور انسانی اخلاقی اقدار کے منافی واقعات نے انتہا پسندی اور دینی مدارس سے اس کے تعلق کے حوالے سے غوروفکر کے لیے بعض نئے زاویوں کو نمایاں کر دیا ہے ۔

اب تک اخباری اطلاعات کے مطابق ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے مردان کی ولی خان یونی ورسٹی میں رُونما ہونے والے افسوس ناک واقعے میں زدوکوب کرنے اور آخر کار سفاکانہ طور پر قتل کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد بھی کسی مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور   نہ مقتول کسی مسلکی گروہ کا حصہ تھا۔

اسی طرح سندھ کے میڈیکل کالج میں تعلیم پانے والی طالبہ یا اس کے بھائی یا والدین کا کوئی تعلق کسی مذہبی یا انتہا پسند گروہ سے نہیں تھا، بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق لڑکی کا گھرانا لبرل شمار کیا جاتا تھا۔ زمینی حقائق کچھ بھی ہوں، ملک کے میڈیا اور لبرل حلقوں کا وتیرا ہے کہ گذشتہ دوعشروں سے ہرتخریبی واقعہ اور خصوصیت سے ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے ہر واقعے کا رشتہ ـ ’مذہبی شدت پسندوں‘ سے جوڑا جاتا رہا ہے اور تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کیا جائے، تعلیمی  نصاب سے اسلام کو خارج کیا جائے اور ریاست اور دین کے رشتے پر نظرثانی کرکے پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنایا جائے‘‘۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی

ان حالیہ واقعات پر برقی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں صحافیانہ نگارشات میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا اگر ان کا تجزیہ کیا جائے، تو مختلف زاویۂ ہاے نگاہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔

اولاً: اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اصل ذمہ دار ’مذہب‘ اور مسلکی فرقہ پرستی ہے۔ چنانچہ جب تک اسلام کو یورپی تجربے کی روشنی کے مطابق ایک ’ذاتی مذہب‘ قرار دے کر زندگی کے تمام شعبوں سے خارج نہیں کیا جائے گا ’ـمذہبی انتہا پسندی‘ اور’شدت پسندی‘ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس طر ح بھی ہو ’مذہب‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ گویا ان دانش وروں کے خیال میں اس وقت جو معاشرتی اور ثقافتی ماحول پاکستان میں پایا جاتا ہے اس میں اسلام ہماری معیشت، معاشرت، ابلاغ عامہ ، تعلیم ، عدلیہ ہر جگہ چھایا ہوا ہے اور یہـ ’مذہبیت‘ ہی ہے جو انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔

تجزیہ اور تحقیق کا دوسرا بیانیہ ان صحافیانہ کالموں میں ملتا ہے، جو جملہ واقعات کو یکجا کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی ، اور شدت پسندی محض ’مذہبی طبقے‘ میں نہیں ہے ، یہ ہر جگہ ہے۔  اعلیٰ تعلیم گاہوں میں ان طلبہ و طالبات کا جن کا کوئی آس پاس کا تعلق بھی’مذہب‘سے نہیں پایا جاتا، اپنے اساتذہ کے ساتھ رویہ ، اپنے والدین کے ساتھ رویہ ،آپس میں گفتگو،سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والی زبان ،ابلاغ عامہ پر ہر لمحہ ’ خبر توڑ‘ (بریکنگ نیوز) سر خیوں میں مسلسل اور بار بار تشدد کو دکھا یا جاتا ہے اور اس طرح انتہا پسندی ذہن اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ابلاغِ عامہ کے بیش تر ادارے کسی مثبت رویےکی ترویج اور صحت مندانہ سوچ کی آب یاری سے لاتعلق نظر آتے ہیں، اس لیے محض ’مذہبی‘ فکر کے افراد کو الزام دینا درست نہیں ہے ۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک تشدد پسندی کا بدترین نمونہ فراہم کرتا ہے ۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں صرف عبرت ناک سزاؤں کے نفاذ سے آج تک اصلاح نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسلام خصوصاً اس فکر کے برعکس جو حل پیش کرتا ہے، اس میں سزا کا بھی ایک مقام ہے، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے جو حکمت عملی اسلام نے دی ہے، اس میں مرکزی اہمیت جرم اور اس کے اسباب کے انسداد کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس کے لیے اولیں اہمیت فکری اصلاح کو دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ انسان کے کردار،رویے اور طرزِ عمل کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے افراد جو کل تک بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے، اپنی خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتے ، اور انتقام کے نام پر مخالف کی لاش تک کی بے حُرمتی کرنے پر فخر کیا کرتے تھے ، وہی لوگ اسلامی اخلاق کے زیر اثر خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت ، عورت اور لڑکی کے عزت و احترام اور قبائلی عصبیت کی جگہ عالمی اخوت و بھائی چارے کے پیغام بر بن گئے۔

یہاں ہمارا مقصود محض یہ نہیں ہے کہ اسلام کی حقیقی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے بلکہ  یہ بتانا بھی ہے کہ اسلام، قانون اور سزا کے مقابلے میں تادیب اور تہذیب کے ذریعے تشدد کا انسداد کرتاہے۔یہ قانون اپنے ضوابط کو سدّراہ (deterrence) کے طور پر استعمال کرتا ہے اور بعض حالات میں سخت سزائیں بھی تجویز کرتا ہے ۔ بہرصورت محض سخت سزا دینا یا قوت کا  بے مہابا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔کیا امریکا کی ان بیس سے زیادہ ریاستوں میں جہاں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے اور زہریلی گیس یا برقی کرسی پر بٹھا کر موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا قانون کا حصہ ہے ، تنہا اس قانون نے قتل کے واقعات کو ختم کردیا ؟ کیا سخت سزاؤںنے شکاگو،ڈیٹرائیٹ، نیویارک ، واشنگٹن اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں قتل کے روزانہ بیسیوں واقعات کو روک دیا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ تنہاسخت سے سخت سزا بھی کسی جرم سے نہیں روک سکتی،اس کے لیے کچھ اور عوامل درکار ہیں۔

تجزیے کا تیسرا زاویہ بجا طور پر یہ بات کہتا ہے کہ: سرکاری یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار دینی مدارس کے فارغ علما یا ان کے بعض ’فتاویٰ‘نہیں ہو سکتے بلکہ دراصل یہ ہمارے درآمد کردہ نظام تعلیم کی ناکامی کی علامتیں ہیں۔ اس نظام میں تعلیم پانے والے اپنی اصل شخصیت گم کر بیٹھے ہیں۔اخلاقی اقدار سے خالی تعلیم اور بالخصوص گذشتہ تین عشروں میں لبرل ازم کی تحریک نے انھیں اپنی معاشرتی شنا خت سے محروم کردیا ہے۔ مروجہ تعلیم انھیں حصولِ روزگار کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں بتاتی۔ دینی تشخص ہی نہیں وہ قومی تشخص کو بھی صوبائی عصبیتوں کی نذر کر بیٹھے ہیں ۔ وہ عملاًفضا میں معلق ہیں اور کوئی بھی پُرکشش شے انھیں اپنی طرف کھینچ سکتی ہے ۔ یہ بآسانی اپنے نفسیاتی دباؤ سے نجات کے لیے منشیات کے عادی بن سکتے ہیں۔ یہ لبرل معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور نشے کے کاروبارمیں پھنس سکتے ہیں۔ یہ عصبیت کا جنون اور صوبائی آزادی اور قومیت کے زیر عنوان ہر سرکاری کیمپس میں طلبہ کی جماعتیں بنا سکتے ہیں۔ یہ زبان کے نام پر قومیت پرست بن سکتے ہیں۔ غرض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اگر اپنی اخلاقی اور نظریاتی شناخت سے محروم ہوجائیں اور معاشرتی پہچان کھو بیٹھیں تو انھیں کوئی بھی، کسی قسم کا لالچ دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سرکاری تعلیم انھیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انھیں کسی بھی متاثر کن نعرے کے زیر اثر گھناؤنے سے گھناؤنے کام کرنے پر  آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس بات میں وزن ہے لیکن ہمارے خیال میں مسئلہ محض ’ثقافتی شناخت‘کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تصورِ حیات ، مقصدِحیات ، طرزِ حیات ، طرزِ عمل اور رویے کو اخلاقی ضابطے کی روشنی میں پروان چڑھانے کا ہے ۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔

 ان تینوں زاویہ ہاے نظر کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کچھ نہ کچھ حقائق کا عکس نظر آتا ہے۔  لیکن ہماری نگاہ میں جو بات واضح ہو کر سامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا افراد سے جوڑنا نا انصافی ہے ۔ سیکولر افراد میں بھی اتنی ہی شدت پسندی پائی جاتی ہے، جتنی شدت پسندی کا دعویٰ فرقہ پرست گروہوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ گویا   یہ ایک ملک گیر مرض ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ایک عالم گیر متعدی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔  نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ، سرکاری تعلیم گاہیں ہوں یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم یا مسلم افراد، یہ مرض عالمی طور پر سرایت کر گیا ہے ۔ اس کے اسباب محض معاشی نہیں ہیں ، محض غربت نہیں ہے کیوں کہ اعلیٰ تعلیم گاہوں میں طلبہ صرف غریب خاندان سے نہیں آتے۔ اس کے باوجود ان میں بغاوت، سرکشی اور شدت پسندی یکساں طور پر نظر آتی ہے ۔

جہاں تک ناموسِ رسالتؐ کا سوال ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ایک باعمل مسلمان ہو یا بے عمل، اقبال جیسا فلسفی ہو، عالم دین اور قانون کا سمجھنے والا ہو، یا محض نسلی مسلمان ہو ، ہر فرد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ایک حقیقت ہے ۔ اقبال نے صحیح کہا تھا  ع

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

علامہ اقبال کو جب غازی علم الدین شہید کی پھانسی کی خبر ملی تو ان کا بے ساختہ تبصرہ یہ تھا کہ ’ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا اور ہم باتیں کرتے رہ گئے‘۔ جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمنٹ اور سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قانون بنایا ہو ، اس قانون کو نظرانداز کرکے کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس لیے کہ قانون سے باہر کسی بھی اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام عدل اور قانونی کی حکمرانی کا قائل ہے۔ ایک ملزم کو قانونی ضابطے ( due process of law) کے عمل سے گزار کر ہی اس کے جرم کا تعین کیا جاسکتا ہے، اور جب قانون خود تحقیق کے بعد سزا تجویز کرتا ہو، تو کسی شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے طور پر بغیر تحقیق کے جس پر چاہے ہاتھ اٹھا لے ۔ اس لیے قانون کا احترام پیدا کرنا تعلیم اور نظامِ عدل کا ایک اہم مقصد ہونا چاہیے۔ 

اصل مسئلہ ہماری نگاہ میں نہ صرف پورے ملک بلکہ ہر طبقۂ خیال میں انتہا پسندی کا پایا جانا ہے ۔ جس کے اسباب کا تعین کرنا ہوگا اور ان اسباب کو دور کر کے مسئلے کا حل اسلام اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالنا ہو گا۔ اب ہم اس تناظرمیں مختصراًاس انتہا پسند ذہنیت کے عمومی محرکات و اسباب کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کی گرفت میں آج معاشرہ آچکا ہے۔

انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب

انتہاپسندی پر ابھارنے والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔

  • lمروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا  دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
  • اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال  یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟

یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور   وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس  عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !

اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔ 

حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔

  • معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں  فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔

معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔

  •  انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔

جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

  •  لادینیت  :لادینیت یا سیکولر ازم کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر ہے۔ اس کا اصل ہدف الہامی ہدایت کو معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی سے خارج کرکے دنیا کے معاملات محض دُنیاوی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔ اس کا فطری نتیجہ معاشرت،معیشت اور سیاست میں اخلاقی اقدار کے خاتمے اور محض ذاتی ،گروہی یا پارٹی کے مفاد کو خدا بنا لینا ہے ۔خودغرضی امیر کو امیر تر بناتی ہے اور معاشرے میں ٹکراؤ پیدا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک میں لا دینیت کو اختیارکیا گیا وہاں طبقاتی کش مکش رُونما ہوئی ہے اور غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔مزید یہ کہ سیکولرازم یا لادینیت جہاں کہیں بھی رائج ہو گی ، معاشرے کی بنیاد نسل پرستی ، عصبیت اور لسانیت بن جائے گی۔

خود پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے بعض فوجی اور سیاسی فرماں رواؤں نے ملک کی اصل بنیاد اور مقصد وجود کو نظر انداز کر کے، ملک میں عصبیت، فرقہ پرستی اور زبان کے نام پر تفریق کے نعرے بلند کیے اور ملکی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ قرآن و سنت نے جو تصور دین دیا ہے وہ ملّی یک جہتی کا ضامن اور نفرتوں کو دُور کرنے والا ہے، جب کہ لادینیت اتحاد کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے ۔ملک میں امن اور میانہ روی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب دینی اقدار کو فروغ دیا جائے اور لادینیت کو ختم کیا جائے۔

  •  ثقافتی غلامی  : ایک الجزائری مسلمان مفکر نے بڑی قیمتی بات کہی ہے کہ: ’’جو لوگ ثقافتی طور پر غلام ہونا قبول کر لیتے ہیں ، انھیں سیاسی آزادی بھی آزاد نہیں کر سکتی‘‘۔ انھی کے ایک  ہم عصر الجزائر ی ماہر نفسیات فرانتس عمر فانن (م: ۱۹۶۱ء) نے نفسیاتی زاویے سے الجزائر میں فرانسیسی تسلط اور پھر اس سے آزادی کے حوالے سے اپنا تجزیہWretched of the Earth [زمین کے بدبخت] کے زیر عنوان کتاب میں پیش کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’جب بھی کوئی سامراجی ثقافت مسلط کی جاتی ہے ، اس کا ردعمل جذباتی اورنفسیاتی طور پر بڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی مناسب ذریعہ نہ ملے تو وہ جوابی ثقافتی انقلاب( Counter Cultural Revolution) کی شکل اختیار کر تا ہے‘‘۔ بعض وہ نوجوان جو نجی تعلیمی اداروں میں مستعار فکر اور مغربی مرعوبیت کے ماحول میں پرورش پارہے ہیں، ان میں ثقافتی انقلاب کا جذبہ بطور رد عمل کے پیدا ہوتا ہے اور    وہ بآسانی جذبات میںبہہ کر غیردستوری ذرائع کے استعمال پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ شکل خصوصاً یورپ اور امریکا میں زیادہ نظر آرہی ہے ۔اور اس کی بنا پر وہاں کے مراکزِ دانش واضح طور پر اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کررہے ہیں۔

ایک تجویز پاکستان کے حوالے سے بھی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی تھی کہ صوفی ازم کو فروغ دیا جائے تاکہ تحریکات مزاحمت اور نام نہاد سیاسی اسلام(Political Islam ) کا مقابلہ اندر سے کیا جاسکے۔ اسی بناپر ایک سابقہ فوجی آمر کے دور میں ایک مشہور سیاسی لیڈر کی سرکردگی میں ’قومی صوفی کونسل‘ قائم کی گئی تھی اور صوفیانہ کلام اور موسیقی کے ذریعے روحِ جہاد کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا ۔ ہماری نگاہ میں مسئلے کا حل اسلام کو صوفی ازم بنا کر پیش کرنے سے نہیں ہوگا، نہ اس طرح ہو گاکہ نصابی کتب سے اقبال کے انقلابی کلام کو خارج کردیا جائے کیوں کہ جب بھی عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوتی ہے وہ ارد گرد کی زنجیروں کی پروا کیے بغیر اپنے  مقصد کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے بجاے اس کو صحیح خدو خال کے ساتھ پیش کیا جائے تا کہ فحاشی اور نوجوانوں اور ملک کو ہندووانے کی مہم کے ردعمل کے طور پر تشدد کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے ۔

  •  جھنجھلاہٹ اور نفسیاتی اضطراب : جب بھی کسی معاشرے میں مظلوم طبقات کے حقوق پر مسلسل ڈاکا پڑتا ہے اور ان کی آواز کو نہیں سنا جاتا، نہ انھیں جائز حقوق دیے جاتے ہیں، تو ایک اجتماعی اضطراب اور جھنجھلا ہٹ کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مناسب راستہ نہ ملنے پر یہ تشدد کی تحریک میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کا جواب قوت سے نہیں دیا جا سکتا۔ قوت کا استعمال اس کو مزید بڑھاتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی ماہرین اور سیاسی مفکر دہشت گردی (Terrorism ) اور سیاسی مزاحمت اور بغاوت (Insurgency  ) میںبنیادی فرق کرتے ہیں۔

دہشت گردی کے مسئلے کو شاید زیادہ قوت کے استعمال سے کم کیا جاسکتا ہے ا ور ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے سطح آب پر سکون محسوس کیا جا سکے لیکن اندرونی ارتعاش اور لہریں موقع ملتے ہی اُبھر آتی ہیں۔ تحریکاتِ آزادی اس سے بہت مختلف نوعیت کی حامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب ممالک آزادی کی تحریکات ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور یہ تحریکات بنیادی طورپر سیاسی تھیں مگر ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ایک مرحلے میں ریاست کی قوت کے مقابلے میں عسکری مزاحمت بھی کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی تحریکاتِ مزاحمت کو کبھی دہشت گردی قرار نہیں دیا گیا۔

آج کے حالات میں اس کی بہترین مثالیں فلسطین اور کشمیر کی تحریکات آزادی ہیں جو مقامی جڑوں پر قائم ہیں ۔ یہ بیرونی سازش یا امداد کی بنا پر پیدا نہیں ہوئیں۔ فلسطین میں مزاحمتی تحریک عرب ممالک کی غیر ذمہ داری اور عدم دل چسپی کے باوجود مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ کبھی قومیت پرست سیکولر قیادت کے زیر اثر ،کبھی شیعہ ملیشا کے زیر اثر ، کبھی صرف مقامی افراد مثلاًشیخ احمد یاسین کی مزاحمتی تحریک (حماس)کی شکل میں جو مٹھی بھرافراد اور گولی کے جواب میں پتھر سے شروع ہوئی، لیکن اس تحریک نے اہل فلسطین میں ایک نئی سوچ اور اسلام سے وابستگی میں تازگی پیدا کر دی۔

 یہی شکل مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی ہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت میں یہ تحریک آج بغیر کسی بیرونی سہارے اسی رُخ پر چل رہی ہے ، جس رُخ پر تیونس میں انقلاب پبا ہوا۔ اس کے مقابلے میں دہشت گرد تحریکات عموماً بیرونی طاقتوں کی امداد سے اُبھرتی ہیں، جیسا کہ ہم بلو چستان میں دیکھتے ہیں،مگر ایسی تحریکات کا مستقل حل بھی محض قوت کا استعمال نہیں ہے ۔ مقامی مسائل کو مقامی افراد کو اعتماد میں لے کر حل کرنے سے ہی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں انتہا پسندی، شدت پسندی اوردہشت گردی کے خاتمے کا آسان طریقہ تمام اہم فریقوں کو   یک جا کر کے ایک قومی تعمیری اور اصلاحی منصوبے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کا پہلا اور مؤثر ترین اقدام طویل المیعاد ہو گا، یعنی تعلیمی حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ ۔

نئی تعلیمی حکمت عملی

اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے حکومت وقت کو متفرق نظام ہاے تعلیم کی جگہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنا ہوگا، جس کے لیے ایک مشترکہ قومی تعلیمی نصاب کو سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں نافذ کرنا ہو گا۔ چاہے یہ نجی اسکولوں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مسئلہ محض وسیع البنیاد تعلیم سے حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی دینی اثرات کو زائل کرنے کے لیے جدید ترین یورپی اور امریکی نصابات کا پاکستان کے مدارس اور جامعات میں نافذ کرنا ہے۔ ہمیں ان نصابات کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن یورپی ممالک اور امریکا کے لیے یہ نصاب بنائے گئے ہیں، کیا ان کی قومی ترجیحات ، مقاصد، ثقافتی، دینی اور معاشرتی ضروریات اور ہماری ثقافت،  نظریۂ حیات اور اہداف میں کوئی قدرمشترک ہے؟کیا یہ نام نہاد ’وسیع بنیادوں والی تعلیم‘ نظریۂ پاکستان پر اعتماد کو بڑھائے گی یا مزید کمزور کرے گی؟کیا یہ درآمد کی ہوئی فکر پر مبنی تعلیم ہماری نسل کو اسلامی اقدار ، اسلامی کردار اور خصوصاً سیرتِ پاکؐ کے رحمت ، درگزر، امانت ، سچائی ، شہادت حق ،ظلم کے خلاف استقامت کے ساتھ جہاد کرنے ، علم کی اشاعت اور عدل کے قیام کی کوششوں کو نوجونوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟

 مسئلے کا حل یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں براہِ راست علامہ محمد اقبال ، قائد اعظم اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کے خیالات کو قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے، تاکہ آج سے ۱۰سال بعد جو نسل تعلیم گاہوںمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے، پاکستان کے حوالے سے اس کی    نظریاتی بنیاد مضبوط ہو اور وہ کسی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لا دینیت سے زیادہ انتہا پسند فکر آج تک وجود میں نہیں آئی۔ کیوںکہ لادینیت خود کو اعلیٰ ترین سچائی قرار دے کر صرف اپنی ہی سچائی کی ڈفلی بجاتی ہے اور نقار خانے میں کسی اورکی آواز کو سننے کی روادا ر نظر نہیں آتی ۔

 تعلیمی حکمت عملی میں قرآن کریم کی اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی تعلیمات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ سیرتِ پاکؐ کے ہر پہلو پر ذہن سازی کی جائے ۔ عالم اسلام سے نوجوانوں کی وابستگی کو بڑھایا جائے ۔ انھیں اس ملک کے عوام کی قربانیوں سے جو انھوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے دیں، ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور پھر پڑوسی ملک کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں افواج پاکستان کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں اور عوام نے اپنا سب کچھ بازی پر لگایا، اس تاریخی اثاثے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ قومی تشخص کو نہ صرف سمجھیں بلکہ پاکستانی ہونے پر فخر کریں۔

ہمہ گیر معاشرتی حکمت عملی

 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ گھر کی تربیت گاہ سے ہوتا ہے، جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آج خاندان برقی اوراخباری صحافت دونوں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔ خاندان کا تحفظ اور اسلامی خاندانی اخلاقیات کو آنے والی نسل کے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے ۔یہ کام تعلیم گاہ ، خود گھر کے افراد ، اساتذہ، سب کو مل کر کرنا ہو گا۔جتنا گھر مضبوط ہو گا اتنا ہی ملک اور قوم مضبوط ہو گی ۔ اس وقت ابلاغ عامہ اور درسی کتب نوجوانوں کوجو تعلیم دے رہے ہیں، اس میں تاخیر سے شادی کرنا ،خاندان کو مغرب کے زیر اثر صرف شوہر ، بیوی اور ایک دو بچوں تک محدود سمجھنا اور باقی سارا وقت کاروبار،گھومناپھرنا ، کھانے کا لطف اٹھانا اور لوگوں سے گپ بازی کرنا وغیرہ شامل ہے۔ہمیں زندگی کے مقصد اور معاشرتی یکسوئی اور یک جہتی کے لیے بنیادی تصورات کی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیں استاد کی عزت اور مرتبے کو بلند کرنا ہو گا۔ایک اجتماعی حکمت عملی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ایک ہمہ گیر حکمت عملی ہی مسئلے کا صحیح حل کر سکتی ہے۔

ابلاغ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کا نفاذ

بدقسمتی سے آج ہمارے ابلاغ عامہ کا اہم کام بے حیائی کو معاشرے میں عام کرنا بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف شدید رد عمل کو دعوت دے رہا ہے، بلکہ ہمارے قومی اخلاق کو تباہ کر نے میں مصروف ہے۔ اس لیے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ابلاغِ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کو پوری قوت سے نافذکرنا ہو گا۔ اس وقت ایک ا یسے ملک میں جہاںغیر مسلموں کی تعداد محض ۳فی صد ہے،  ابلاغِ عامہ کی آزادی کے نام پر ۲۰نجی چینل صرف ہندو ازم ، عیسائیت اور قادیانیت کی تبلیغ پاکستان کے غیر تعلیم یافتہ عوام میں کر رہے ہیں۔بھارت سے فحاشی ، پاکستان دشمنی  اور ’مہا بھارتی‘ تصور کو فروغ دینے والے پروگرام کثرت سے نشر ہو رہے ہیں ۔  یہ پروگرام صوبائی عصبیت اور خود مختاری کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں کے چارمسلک پرست طبقے اپنے اپنے مسلک کے لیے برقی ابلاغ عامہ کااستعمال کر رہے ہیں ۔ صرف ایک مسلک کے آٹھ سے زائد چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں ۔ کیا اس طرح ہم ملکی امن ، رواداری ، محبت اور یک جہتی پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ’ابلاغی آزادی‘ ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہے؟ کیا اس طرح رواداری، برداشت اور محبت پیدا ہو سکتی ہے؟

۴- قرآنی تصور :میانہ روی و اعتدال

حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ایک تصور ہے ۔ قرآن کریم نے کسی اور کو نہیں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو، انسان کامل کو،کسی اور معاملے میں نہیں عبادت کے معاملے میں، یہ ہدایت فرمائی کہ وہ عبادت میں بھی اعتدال اختیار کریں ۔ آج اگر ہم کسی اللہ کے بندے کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ وہ تمام رات عبادت کرتا ہے تو ہم اسے اللہ کا ولی قرار دیتے ہیں ۔ قرآن اپنے رسولؐ سے کہتا ہے آپ تمام رات قیام نہ فرمائیں بلکہ رات کا نصف حصہ یا اس سے کم یاکہیں اس سے زیادہ وقت نماز میں صرف کریں۔ قرآن کسی اور معاملے میں نہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق اور خرچ کرنے کے بارے میں فرماتا ہے کہ نہ ہاتھ گردن سے باندھو،  نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ دو۔ وہ گفتگو میں توازن کے لیے کہتا ہے کہ نہ آواز زیادہ بلند ہو نہ محض سرگوشی ہو۔ وہ کھانے پینے کے بارے میں ، لباس کے کے بارے میں ، غرض زندگی کے ہرہرعمل کے بارے میں انتہا پسندی کو شدت سے منع کرتا ہے ۔ اگراللہ کے کلام کے مفہوم اور معانی کو ایک بچہ بچپن سے اپنے دل ودماغ میں جاگزیں کر لے تو کیا وہ دہشت گرد بن سکے گا؟

قرآن جس اعتدال،توازن اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال اس واقعے میں ہے جس میں تین اصحابِ رسولؐ نے اُمہات المومنینؓ سے جا کر یہ پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات کیا ہیں؟انھیں بتایا گیا کہ آپؐ کس طرح زندگی گزارتے ہیںلیکن جب وہ یہ سن کر واپس لوٹے تو انھوں نے سوچا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے شاید اللہ نے آپ کو رخصت دی ہے کہ تمام رات عبادت نہ کریں لیکن ہم تمام رات نماز پڑھیں گے۔ مزید یہ بھی سوچا کہ وہ کبھی نفلی روزے کا ناغہ نہیں کریں گے،اور نیکی کے حصول کے لیے شادی سے بچیں گے۔آپ ؐکو جب ان کے ان ارادوں کا علم ہوا تو انھیںطلب فرمایا اوران سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ کچھ کہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، توآپؐ بات کا آغاز یو ں فرماتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اور خشیت کرتے ہیں۔ وہ عام دنوں میں کبھی روزہ رکھتے ہیںاور کبھی ناغہ بھی کرتے ہیں۔ کبھی رات کو قیام بھی کرتے ہیں اور کبھی آرام بھی کرتے ہیں اور نکاح بھی آپ کی سنت ہے اور جو اس کو ناپسند کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ گویا جو شخص جان کر اس لیے نکاح نہ کرے کہ یہ دنیاوی چیز اور تقویٰ کے خلاف ہے ،وہ نبیؐ کی امت میں سے نہیں ہے۔

ان واضح ارشادات کو جو بھی غور سے پڑھے گا، کیا وہ رہبانیت کا راستہ اختیار کرکے کسی خانقاہ میں بیٹھ کر، گھر بار اور معاشرت کو چھوڑ کر اللہ سے قریب ہوناچاہے گا؟___ یہ وہ متوازن ، عادلانہ اور میانہ روی کا رویہ ہے جو سیرت پاک ؐسے اُجاگر ہوتاہے ۔ اگر یہ پہلو تعلیم کے ذریعے ذہن میں جاگزیں ہوتو کیا دہشت گردی، انتہا پسندی پیدا ہو سکتی ہے ؟مسئلے کا حل سزائیں نہیں اخلاق کی تعلیم و تر بیت ہے اورسیرتِ پاکؐ کی لازمی تعلیم ہے جس کے نتیجے میں پایدار امن اور عدل کے نظام کاراستہ ہموار ہوسکتا ہے ۔