انسان کی فطری صلاحیتوں کے اُبھرنے اور نشوونما پانے کے لیے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر عام طور پر ذہنوں پر مادی اور افادی پہلو کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ انسان کے لیے یہ حددرجہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ان کی فطری پاکیزگی میں دیکھ سکے اور زندگی کی اہم قدروں اور بیش قیمت حقیقتوں کو سمجھ سکے۔ اس کش مکشِ زندگی میں روزہ ایک مقدس عبادت اور ہماری روحانی اور اخلاقی تربیت کے ایک بہترین ذریعے کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔روزے کا اصل مقصد طہارتِ روح اور تقویٰ ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ (البقرہ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
جب تک انسان میں ضبط ِ نفس نہ ہو، اس کے اندر تقویٰ کی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ خواہشات سے مغلوب انسان کو نہ خدا کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اور نہ وہ زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں اور ضرورتوں کو محسوس کرپاتا ہے۔ غالب حیوانگی اور نفسانی خواہشات اسے یہ موقع ہی نہیں دیتیں کہ وہ اپنی فطرت کے حقیقی تقاضوں کی طرف توجہ دے سکے؟روزہ اس بات کا عملی مظاہرہ پیش کرتا ہے کہ اکل و شرب اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے، جو ہماری توجہ کی طالب ہے۔ روزہ بندے کو اللہ کی طرف اور زندگی کی ان اعلیٰ حقیقتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے، جو انسانی زندگی کا اصل سرمایہ ہیں۔ وہ بندے کو اس اعلیٰ مقام پرپہنچاتا ہے، جہاں بندہ اپنے ربّ سے بے حد قریب ہوجاتا ہے، جہاں تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور نفسانی حجابات اُٹھ جاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس قول میں بھی ایک سبق ہے کہ: کَمْ مِنْ مُّفْطِرٍ صَائِمٌ وَکَمْ مِّنْ صَائِمٍ مُّفْطِرٌ، ’’کتنے ہی لوگ روزے سے نہیں ہوتے اس کے باوجود کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صائم ہوتے ہیں، اور کتنے ہی لوگ روزہ رکھتے ہوئے بھی درحقیقت روزہ دار نہیں ہوتے‘‘۔ روزہ بظاہر اس چیز کا نام ہے کہ انسان سحر کے وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اورجنسی خواہش کی تکمیل سے رُکا رہے۔ لیکن اپنی روح کے لحاظ سے روزہ جس چیز کا نام ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات پر قابو ہو، اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان بظاہر تو روزے سے ہوتا ہے، لیکن حقیقت میںاس کا روزہ نہیں ہوتا، نہ اس کی نگاہیں عفیف ہوتی ہیں اور نہ اس کی زندگی پاکیزگی اور خداترسی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
روزے کے لیے قرآن کریم نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ’صوم‘ ہے۔ صوم کے لغوی معنی احتراز و اجتناب، اور خاموشی کے ہیں۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
’صوم‘ کے اصل معنی کسی کام سے رُک جانے کے ہیں، خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا بات چیت کرنے اور چلنے پھرنے سے ہو۔ اسی وجہ سے گھوڑا چلنے پھرنے یا چارہ کھانے سے رُک جائے تو اسے صائم کہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے: خیل صام، اخری غیر صائمۃ (بعض گھوڑے نہیں کھا رہے تھے اور بعض چارہ کھا رہے تھے)۔ تھمی ہوئی ہوا اور دوپہر کے وقت کو بھی صوم کہتے ہیں، اس تصور کے ساتھ کہ اس وقت سورج وسط ِ آسمان میں رُک جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ درحقیقت کسی چیز سے رُک جانے کی کیفیت کا نام ’صوم‘ ہے۔ روزہ حقیقت میں اسی شخص کا ہے جو روزے کی حالت میں تو کھانے پینے سے باز رہے، لیکن پھر گناہوں کے ارتکاب اور ناپسندیدہ طرزِعمل کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے۔
روزہ اپنے آپ کواللہ کے لیے ہرچیز سے فارغ کرلینے اور کامل طور پر اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونے کا نام ہے۔ اس پہلو سے روزے کو اعتکاف سے بڑی مناسبت ہے۔ اسی لیے اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنا ضروری ہے، بلکہ قدیم شریعت میں تو روزے کی حالت میں بات چیت سے بھی احتراز کیا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے کہ: حضرت مسیح ؑ کی پیدایش کے موقعے پر حضرت مریم ؑ بے حد پریشان ہوئیں اور انھوں نے یہاں تک کہا کہ کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور لوگ مجھے بالکل بھول جاتے۔ اس وقت انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا گیا تھا:
فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا۰ۙ فَقُوْلِيْٓ اِنِّىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِـيًّا۲۶ۚ (مریم ۱۹:۲۶)پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارے سے) کہہ دینا: میں نے رحمٰن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے ، میں آج کسی آدمی سے نہ بولوں گی۔
روزے میں انسان کو فرشتوں سے بڑی حد تک مشابہت حاصل ہوتی ہے۔ فرشتے کھانے پینے کی ساری ضرورتوں سے مستغنی ہیں۔ ان کی غذا اللہ کی حمدوتسبیح ہے۔ روزے کی حالت میں مومن بندہ بھی خواہشاتِ نفس اور کھانے پینے سے کنارہ کش ہوکر اللہ کی بندگی اور عبادت میں مصروف نظر آتا ہے۔
روزہ رکھ کر بندہ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پاتا ہے۔ اس شخص سے جو اپنے نفس کو زیر نہ کرسکے آپ اس بات کی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ حق کی حمایت اور باطل کے استیصال کے لیے جان توڑ کوشش کرسکتا ہے۔ جہاد کے لیے صبر اور عزیمت دونوں درکار ہیں۔ صبر اور عزیمت روزے کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے مہینے کو ’صبر کا مہینہ‘ کہا ہے۔رمضان کے مہینے میں مسلسل صبر، ضبط اور اللہ کی اطاعت کی مشق کرائی جاتی ہے۔
عام حالات میں آدمی کو دوسروں کی تکلیف اور بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوپاتا۔ روزے میں بھوک پیاس کا عملی تجربہ آدمی کے اندر فطری طور پر یہ احساس اُبھارتا ہے کہ وہ ناداروں اور ضرورت مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے اور انھیں ان کی پریشان حالی میں نہ چھوڑے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے کو ’مواسات کا مہینہ‘ یعنی ہمدردی و غم خواری کا مہینہ کہتے تھے اور اس مہینے میں آپؐ انتہا درجہ فیاض ہوتے تھے۔
روزہ سراپا عاجز ی و خاکساری کا اظہار بھی ہے۔ اسی لیے گناہوں اور غلطیوں کے کفّارے میں روزے کو بڑادخل ہے۔ چنانچہ شریعت میں کفّارے کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم آتا ہے۔ روزہ نہ صرف یہ کہ گناہ کے اثرات کو دل سے مٹاتا ہے بلکہ دُعا کی قبولیت اور اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ قدیم صحیفوں میں بھی روزے کی اس خصوصیت کا ذکر ملتا ہے:
خداوند کا روز (ایام اللہ) عظیم اور خوف ناک ہے۔ کون اس کو برداشت کرسکتا ہے؟ لیکن خداوند فرماتا ہے: اب بھی پورے دل سے روزہ رکھ کر اور گریہ و زاری اور ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لائو اورکپڑوں کو نہیں بلکہ دلوں کو چاک کر کے اپنے خداوند کی طرف متوجہ ہو، کیوں کہ وہ رحیم اور مہربان، قہر میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔(یوایل ۲:۱۱-۱۳)
روزہ مقدس ترین عبادت ہے۔ روزہ اللہ پاک کی بڑائی اور عظمت کا مظہر اور اظہارِ تشکر کا ذریعہ ہے۔ روزے کے ذیل میں قرآنِ مجید میں جہاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (تاکہ تقویٰ حاصل کرو) فرمایا گیا ہے، وہیں یہ بھی ارشاد ہوا:
وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۸۵ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور تاکہ اس ہدایت پر جو تمھیں بخشی گئی ہے اللہ کی بڑائی کرو اور تاکہ تم (اس کا) شکر کرو۔
بنی نوع انسان پر یوں تو اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں، لیکن اس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں قرآن جیسی نعمت سے نوازا۔قرآن نے انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دکھایا۔ انسان کو اخلاق کے اس بلند مرتبے سے آشنا کیا، جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ روزہ رکھ کر بندہ اللہ کی اس عظیم عطا اور بخشش پر خوشی اور شکرگزاری کا اظہار کرتا ہے کہ انسان اللہ کا بندہ اور اس کا پروردہ ہے۔ وہی اس کا آقا و معبود ہے۔ انسان کے لیے خوشی اور مسرت کا بہترین ذریعہ وہی ہے، جس سے اس تعلق اور رشتے کا اظہار ہوتا ہے جو رشتہ اور تعلق اس کا اپنے خدا سے ہے ع ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا؟
یہ اظہارِ تعلق فطری طور پر خدا کے احسانات کا اعتراف بھی ہوگا، جو شکر کی اصل بنیاد ہے۔ رمضان کا مہینہ خاص طور پر روزے کے لیے اس لیے منتخب فرمایا گیا کہ یہی وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا۔ نزولِ قرآن کے مقاصد اور روزے میں بڑی مناسبت پائی جاتی ہے۔ قرآن جن مقاصد کے تحت نازل ہوا ہے، ان کے حصول میں روزہ معاون ثابت ہوتا ہے۔
رمضان میں ایک ساتھ مل کر روزہ رکھنے سے نیکی اور روحانیت کی فضا پیدا ہوتی ہے، جس کا دلوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کم ہمت اور کمزور ارادے کے انسان کے لیے بھی نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ کامیاب وہی ہے، جس پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ اس کی ذمہ داری صرف روزے کے ظاہری آداب و شرائط کی نگہداشت تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ روزے کے اصل مقصد سے غافل نہ ہو۔ روزے کا اصل مقصد اور اس کی غرض و غایت صرف روزے کے زمانے تک مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انسان کے پورے عرصۂ حیات سے ہے۔ قدیم صحیفوں میں بھی ایسے روزوں کو بے وقعت قرار دیا گیا ہے، جس کا تقویٰ، اخلاص اور اعلیٰ اخلاق سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ذیل کے فقرے کس قدر مؤثر ہیں:
تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمھاری آواز عالمِ بالا پر سنی جائے۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے؟ کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کھولیں اور مظلوموں کو آزاد کریں، بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں۔ کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے، اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جلیس سے روپوشی نہ کرے؟… اور اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزردہ دل کو آسودہ کرے، تو تیرا نُور تاریکی میں چمکے گا اور تیری تیرگی دوپہر کی مانند روشن ہوجائے گی۔ (یسعیاہ:۵۸)
اگر روزے سے واقعتاً فائدہ اُٹھایا جائے تو وہ فرد کو اس مقام پر کھڑا کردیتا ہے کہ اسے ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ اس کے شب و روز کبھی بے خوف اور بے پروائی کے ساتھ بسر نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ گناہوں سے اجتناب کرے گا، اور اپنے مقصد ِ زندگی کو پیش نظر رکھے گا۔
اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ۔ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا ہونے کو نفل مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک نفل کام اللہ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے کرے گا، تو وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے کے سوا دوسرے مہینے میں کسی نے فرض ادا کیا ہو۔ اور جواس مہینے میں فرض ادا کرے گا، وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے میں کسی نے ۷۰ فرض ادا کیے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے اور یہ ہمدردی و غم خواری کا مہینہ ہے۔ اور وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس کسی نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا، تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور (جہنم کی) آگ سے آزادی کا سبب ہوگا، اور اسے اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔
آپؐ سے عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں ہر ایک کو سامان میسر نہیں ہوتا کہ جس سے وہ روزہ دار کو افطار کراسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا کھجور پر یا پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو افطار کرا دے اور کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے۔ اللہ اسے میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ (رمضان) وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ (دوزخ کی) آگ سے آزادی ہے۔ اور جو شخص اس مہینے میں اپنے مملوک (غلام یا خادم) کے کام میں تخفیف کردے گا، اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا، اور اسے (دوزخ کی) آگ سے آزادی دے دے گا۔(بیہقی)
عظمت اور برکت والے مہینے سے مراد رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ رمضان کی فضیلت اور خصوصیت کے سلسلے میں کئی باتیں آپؐ نے ارشادفرمائیں۔ آپؐ نے شب قدر کے بارے میں فرمایا کہ ’’وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ قرآن اسی مبارک رات سے اُترنا شروع ہوا ہے۔ اس رات کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ وہ رات ہے جس میں ان باتوں کا فیصلہ ہوتا ہے، جو علم و حکمت پر مبنی ہوتی ہیں اور جن میں دنیا کی فلاح اور بھلائی ہوتی ہے۔ دنیا کے معاملات کا فیصلہ اسی رات میں ہوتا ہے۔ وہ رات جس میں قرآن اترنا شروع ہوا ہے، وہ کوئی معمولی رات نہیں ہوسکتی۔ یہ رات تو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانوں کی فلاح کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں ہوا۔ اس رات کو فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے اُترتے ہیں۔(دیکھیے: سورۃ القدر، سورۃ الدخان، ۳-۵)
رمضان میں دن کو روزہ رکھنا فرض ہے اور رات کو تراویح پڑھنا اور زیادہ سے زیادہ نماز میں خدا کے حضور کھڑا ہونا فرض تو نہیں ہے بلکہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسند ہے۔رمضان کا مہینہ روزے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس مہینے میں تمام مسلمان مل کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس طرح انفرادی عبادت ایک اجتماعی عبادت بن جاتی ہے۔ لوگوں کے الگ الگ روزہ رکھنے سے جو روحانی و اخلاقی فائدے ہوسکتے تھے، سب کے مل کر روزہ رکھنے سے وہ فائدے بے حد و حساب بڑھ جاتے ہیں۔ رمضان کا یہ مہینہ پوری فضا کو نیکی اور پرہیزگاری کی روح سے بھردیتا ہے۔ فرد کو روزہ رکھ کر گناہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ لوگوں میں نیکی کی رغبت بڑھ جاتی ہے اور ان کے دلوں میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ وہ غریبوں اور محتاجوں کے کام آئیں اور نیک کاموں میں حصہ لیں۔ نیکیوں کی تاثیر اور برکت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے اللہ کے یہاں ان کے اجر میں بھی بے انتہا اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس مہینے میں انسان بھوک پیاس کی تکلیف اُٹھا کر اپنی خواہشات پر قابو پانے اور اپنے کو خدائی احکام کا پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اندر ایسی صلاحیت اور قوت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے وہ اللہ کے راستے میں صبرواستقامت کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور ان تکالیف و مصائب کا جو اسے راہِ حق میں پیش آئیں، پامردی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔
روزے میں اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ شدت کے ساتھ پیدا ہونا چاہیے۔ بھوک پیاس میں مبتلا ہوکر آدمی اس بات کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے کہ مفلسی اور تنگ دستی میں آدمی پر کیا کچھ گزرتی ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں بے انتہا رحیم و شفیق ہوجاتے تھے۔ پھر کوئی سائل دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا۔ ظاہری اور روحانی ہرطرح کی برکات اس مہینے میں حاصل ہوتی ہیں۔
یہ مہینہ نیکیوں کی بہار لے کر آتا ہے۔ اہلِ ایمان اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور بندگی میں لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں پر اللہ کی خاص رحمت اور عنایت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ رمضان کا ابتدائی حصہ گزرنے کے بعد اہلِ ایمان اور اللہ کے اطاعت گزار بندوں کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ اللہ ان کی پچھلی غلطیوں اور گناہوں سے درگزر فرمائے اور ان کی خطائوں کو معاف کردے۔ اس مہینے کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس مبارک مہینے سے فائدہ اُٹھانے والوں کی زندگیوں میں اتنی پاکیزگی آجاتی ہے اور اس درجے کا تقویٰ ان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نجات یافتہ قرار دیے جانے کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
ابنِ آدم کے ہرعمل کا ثواب ۱۰ گنا سے ۷۰۰سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ اس سے مستثنا ہے کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کا (جتنا چاہوں گا) بدلہ دوں گا۔ انسان اپنی شہوتِ نفس اور اپنا کھانا میری ہی خاطرچھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں: ایک مسرت افطار کے وقت اور دوسری اپنے ربّ کی ملاقات کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شوروشغب اور دنگا فساد کرے اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(بخاری، مسلم)
اس حدیث میں کئی اہم اور بنیادی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے نیک اعمال کا اجر ان کی نیتوں اور خلوص کے اعتبار سے ۱۰گنا سے ۷۰۰ گنا تک دیتا ہے، لیکن روزے کا معاملہ اس عام قانون سے مختلف ہے۔ روزہ خاص اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ دوسری عبادتیں اور نیکیاں کسی نہ کسی ظاہری صورت میں کی جاتی ہیں۔ اس لیے دوسرے لوگوں سے چھپانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ لیکن روزہ ایسا خاموش اور غیرمرئی عمل ہے، جس کو روزہ دار اور اللہ کے سوا دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ اس لیے اللہ اس کا اجر بھی بے حدوحساب عطا فرمائے گا۔ اس کے علاوہ رمضان میں نیکی اور تقویٰ کا عام ماحول میسر آجاتا ہے، جس میں خیر اور عمل صالح کے پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ انسان جتنی زیادہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس مہینے میں عمل کرے گا اور جتنا زیادہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا، اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں رمضان کے اثرات کو باقی رکھے گا، اتنا ہی زیادہ اس کے نیک اعمال پھلتے پھولتے رہیں گے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ خصوصیت عام حالات میں دیگر اعمال کو حاصل نہیں ہے۔
روزے دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک مسرت اور خوشی اسے دنیا ہی میں افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ دن بھر بھوکا پیاس رہنے کے بعد جب وہ شام کو افطار کرتا ہے تو اسے جو لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے، وہ عام حالات میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کی بھوک پیاس بھی دُور ہوجاتی ہے اور اسے یہ روحانی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے کہ اس کو اللہ کے حکم کی تعمیل کی توفیق ملی۔ روزِ محشر میں خدا سے ملاقات کی جو خوشی حاصل ہوگی اس کا تو کہنا ہی کیا۔
روزے کی حالت میں منہ کی بُو خراب ہوجاتی ہے لیکن اللہ کی نگاہ میں وہ مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ قابلِ قدر ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے خدا کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کی طلب کے سوا کوئی اور جذبہ کام نہیں کر رہا تھا۔ روزے کی حیثیت ڈھال کی ہوتی ہے۔ جس طرح ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وار سے اپنے کو بچاتا ہے اسی طرح روزہ شیطان اور نفس کے حملوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ روزے کے آداب کا آدمی اگر لحاظ رکھے تو وہ روزے کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے نجات پاسکتا ہے۔
جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے اس کے سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور (اسی طرح) جو رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ (راتوں میں) کھڑا ہوگا، اس کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ اور (اسی طرح) جو شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کرے گا، اس کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(بخاری، مسلم)
’ایمان‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور آخرت کا جو عقیدہ اسلام نے دیا ہے، وہ اس کے ذہن میں تازہ رہے اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کا طالب ہو۔ ہروقت اپنے خیالات اور اعمال پر نظر رکھے کہ کہیں وہ اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں جا رہا ہے۔ اس کے اعمال و افکار کے پیچھے کوئی غلط قسم کا جذبہ ہرگز نہ ہو۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے سے اللہ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔ اس لیے کہ وہ کبھی خدا کا نافرمان تھا بھی، تو اب وہ نافرمانی سے باز آگیا اور خدا کی طرف رجوع کرلیا۔
آخرت میں آسودگی اور چین و راحت تو اس شخص کے لیے ہے، جس کو آخرت کی فکر نے دنیا میں آسودہ ہونے کا موقع نہ دیا۔ غافل شخص اپنے دل کو تاریکی سے بچا نہیں سکتا۔ دل کی تاریکی سب سے بڑی محرومی ہے۔ روزہ آدمی کو اس بات کا سبق دیتا ہے کہ وہ شکم پروری کو حیات کا اصل مقصود نہ سمجھے، زندگی کی قدروقیمت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: مَا مَلأَ آدَمِیٌّ وِعَآءً شَرًّا مِّنْ بَطْنِ بِحَسْبِ ابْنِ اٰدَمَ اُکُلَاتٌ یُقْصِمْنَ صُلْبَہٗ فَاَنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ طَعَامَ وَثُلْثٌ شَرَابٌ وَثُلْثٌ لِّنَفْسِہٖ (ترمذی، ابن ماجہ)’’آدمی نے کوئی برتن پیٹ سے بدتر نہیں بھرا (جب کہ پیٹ کو اس طرح بھرا جائے کہ آدمی محض چرنے چگنے والا جانور بن کر رہ جائے اور دین کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہی رہے)۔ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں، جو اس کی کمر کو سیدھی رکھ سکیں اور اگر پیٹ بھرنا ضروری ہو تو پیٹ کے تین حصے کرے۔ ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ اپنے لیے (یعنی سانس وغیرہ لینے کے لیے)۔
گویا روزے میں بھوکا پیاسا رہنا بذاتِ خود مطلوب نہیں بلکہ روزے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کے اندر تقویٰ پیدا ہو، اور وہ خدا ترسی کی زندگی بسر کرسکے۔
مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے روزے اور قیام کے اصل مقصد کو سمجھا ہی نہیں اور نہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کی تو پھر اس کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے کہ روزے اور قیام سے اسے کوئی فائدہ پہنچے گا۔
’تسبیح‘ سے مراد ہے سبحان اللہ کہنا۔ اللہ کی عظمت و برتری کا اظہار ایسا عمل ہے، جو نصف میزانِ عمل کو بھر دینے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ یہ اظہار سچے دل سے ہوا ہو۔ سچے دل سے اللہ کی عظمت کا اقرار آدمی کی زندگی کو بدل سکتا ہے، پھر اس کی میزان نیکیوں سے کیوں نہ بھرے گی؟
’الحمدللہ‘ یعنی اللہ کی حمدوستایش۔ جو زندگی اللہ کی تسبیح اور حمدوستایش سے عبارت ہو ، وہی زندگی ایسی زندگی ہے جسے کامل زندگی کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے تسبیح و تحمید کے سبب میزان عمل کا پُر ہوجانا فطری سی بات ہے۔
’تکبیر‘ سے مراد ہے ’اللہ اکبر‘کہنا۔ جن کو حقیقی سماعت حاصل ہے انھیں کائنات میں ہرطرف، زمین میں بھی اور خلائوں اور ستاروں میں بھی تکبیر ہی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اللہ کی کبریائی اور بڑائی کی داستان سنا رہا ہے۔ جب کوئی اللہ کی بڑائی کا ترانہ گاتا ہے تو زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اس کی ’سنگت‘ کرتا ہے ۔
’روزہ نصف صبر ہے‘ مومن کی پوری زندگی کو ہم ’صبر‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ مومن ایک ضابطۂ حیات کا پابند ہوتا ہے۔ اس کا اصل مطمح نظر آخرت کی کامیابی ہے۔ وہ دنیا میں اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اللہ کی راہ میں سرگرمِ سفر ہو۔ اس کے لیے عظیم صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ صبر کے بغیر نہ تو آدمی اللہ کی راہ میں ایک قدم چل سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر اس کے کردار اور سیرت کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ اس حدیث میں روزے کو ’نصف صبر‘ کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھ لیا، اس نے صبروثبات کی تربیت حاصل کرلی۔ اب ضرورت ہے کہ وہ اس سے اپنی پوری زندگی میں فائدہ اُٹھائے اور اپنی زندگی کو صبر کے سانچے میں ڈھالے۔ جس دن اس کی زندگی صبر کے سانچے میں ڈھل گئی، اس دن ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے صبرکو کامل کرلیا۔ اس وقت نصف صبر نہیں اسے پورا صبر حاصل ہوگا۔
’پاکیزگی آدھا ایمان ہے‘۔ اگر آدمی کا ظاہر اور باطن دونوںہی پاک ہوں تو اسے ایمانِ کامل حاصل ہوگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز روزے کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی ہر طرح کی بُرائیوں سے اپنے کو بچائے۔ یہاں تک کہ نہ تو کسی شخص کی غیبت کرے اور نہ کسی دوسرے گناہ میں مبتلا ہو۔
مطلب یہ ہے کہ سفر میں تمھارے لیے روزہ رکھنا ناقابلِ برداشت ہے، تو سفر میں روزہ کیوں رکھتے ہو؟ روزے کا مقصد اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرض کیا ہے کہ بندے اس کے ذریعے سے پاکیزگی اور تقویٰ کی دولت سے ہمکنار ہوں۔
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے سال جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف نکلے تو آپؐ نے اور آپؐ کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔جب آپؐ کراع العمیم پر پہنچے تو آپؐ کو اطلاع ملی کہ لوگوں پر روزہ رکھنا دشوار ہورہا ہے اور وہ آپؐ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ آپؐ نے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوا کر پیا۔ لوگ آپؐ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ بعض لوگوں نے روزہ توڑ دیا اور بعض لوگ اسی طرح روزہ رکھے رہے۔ پھر آپؐ کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگ (سخت تکلیف کے باوجود) روزے سے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں۔ (مسلم، ترمذی)
ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا: صَائِمُ رَمْضَانَ فِی السَّفَرِ کَالْمُفْطِرِ فِی الْحَضَرِ (ابن ماجہ)’’سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا ایسا ہی ہے، جیساکہ گھر پر رمضان کا روزہ نہ رکھنا‘‘ ۔
مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر اگر اس کی طاقت نہیں ہے کہ وہ سفر میں روزہ رکھ سکے پھر بھی وہ روزہ رکھتا ہے تو درحقیقت وہ روزہ نہیں رکھتا بلکہ شریعت کو اپنے لیے مصیبت ٹھیراتا اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ دین کی فطری راہ سے ہٹا ہوا ہے۔
اسی دشواری اور مشکل کے پیش نظر حضوؐر فرماتے ہیں: ’روزے میں وصال سے بچو‘۔ ’وصال‘ سے مراد یہ ہے کہ اس طرح دن رات مسلسل روزہ رکھا جائے کہ درمیان میں نہ سحری کھائی جائے اور نہ افطار کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے خاص قوت عطا فرمائی تھی۔ اس لیے آپؐ روزے میں وصال بھی فرما لیتے تھے، لیکن دوسروں کو آپؐ نے اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ روزے میں وصال کریں۔ ( بخاری ، مسلم)
بیماری یا سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر کوئی بلاعُذر کسی دن روزہ نہیں رکھتا تو حقیقت میں اس کی تلافی ممکن نہیں۔ وہ اس روزے کے بدلے میں تمام عمر یا قیامت تک روزہ رکھے، پھر بھی یہ روزے بغیر اجازت رمضان کے چھوڑے ہوئے کسی روزے کا بدل نہیں ہوسکتے۔
فرمایا: مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ وَاَخَّرُوا السَّحُوْرَ ( مسنداحمد)، یعنی لوگ اس وقت تک حالت ِ خیر میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے اور سحری کھانے میں تاخیر کریں گے۔
فرمایا: قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ اَحَبُّ عِبَادِیٔٓ اِلَیَّ اَعْجَلُھُمْ فِطْرًا ( ترمذی)’’اللہ عزوجل فرماتا ہے:میرا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو افطار کرنے میں سب سے زیادہ جلدی کرتا ہے‘‘۔
فرمایا: لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِاَنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰی یُؤَخِّرُوْنَ ( ابوداؤد)’’دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک کہ افطار میں لوگ عجلت سے کام لیتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں تاخیر سے کام لیتے ہیں‘‘۔
افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کی نگاہیں دین کی روح اور اصل مقصد سے ہٹی ہوئی نہیں ہیں بلکہ وہ حقیقت سے آشنا ہیں۔ ان کے یہاں جس چیز کی اصل اہمیت ہے، وہ احکام کی روح اور ان کے مقاصد ہیں۔ انسان کی نگاہ جب دین کی اصل اور غایت سے بے گانہ ہوجاتی ہے، تو لازماً اس کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احکام میں ظاہر کے لحاظ سے بے جا احتیاط اور غلو میں پڑ جاتا ہے۔ اس کا یہ غلو اور احتیاط ایک بڑی بیماری کا پتا دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اس کی نگاہ میں جس چیز کو اصل اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی، اس سے وہ غافل ہوگیا ہے۔ جس کام کو جس طرح انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے، اسے اسی طرح انجام دینا چاہیے۔ اپنی راے اور اپنے ذوق کا پابند ہونے کے بجاے خود کو اللہ کے حکم کا پابند بنانا چاہیے۔ یہی تقویٰ اور بندگی کا اصل تقاضا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غلبۂ دین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اہلِ ایمان دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی خصوصیت اور امتیاز کو باقی رکھیں۔
سفر میں مسافر کے لیے یہ آسانی پیدا کی گئی ہے کہ وہ پوری نماز پڑھنے کے بجاے قصر کرے۔ چار رکعت کی نماز ہے تو دو رکعت ادا کرے۔ اسی طرح اگر رمضان کا مہینہ ہے تو سفر کی حالت میں اسے یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ جتنے دن کے روزے چھوٹ گئے ہوں، سفر کے بعد انھیں پورا کرلے۔ عورت اگر حاملہ ہے اور روزہ رکھنے سے کسی ضرر کا خوف ہے تو وہ بھی روزہ نہ رکھے۔ بعد میں چھوڑے ہوئے روزوں کو پورا کرلے۔ اسی طرح اگر بچہ دودھ پی رہا ہے اور ماں کے روزہ رکھنے سے اس بات کا اندیشہ ہے بچے کو تکلیف ہوگی، تو وہ اس وقت روزہ نہ رکھے۔ یہ حدیث بھی اس کا بیّن ثبوت ہے کہ دین میں انسانی مصالح اور ضروریات کا حددرجہ لحاظ رکھا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تو روزہ دار کے تقویٰ اور اس کی نیتوں کو دیکھتا ہے۔ چونکہ اس شخص نے جان بوجھ کر نہیں بلکہ بھول کر کھایا پیا ہے، اس لیے اس کے اس کھانے پینے سے اس کے تقویٰ اور حکمِ خداوندی کے احترام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حقیقت کی نگاہ میں کھانے پینے کے باوجود وہ صائم ہے۔
یعنی روزے کا آغاز اور اختتام اور قربانی کے دن کا تعین اجتماعی فیصلے کے تحت ہوگا۔ جب قمری مہینے کے لحاظ سے روزے اور قربانی کا وقت آجائے تو آدمی روزہ رکھے اور قربانی کرے۔ اس کی توجہ خاص طور سے اس طرف رہنی چاہیے کہ اس کے اعمال میں زیادہ سے زیادہ تقویٰ کی روح پیدا ہو۔ اس لیے کہ اللہ کے یہاں اصل اہمیت اس کی نہیں ہے کہ کسی نے روزہ کب رکھا، افطار کب کیا اور قربانی کس دن کی، بلکہ اس کے یہاں اہمیت روزہ اور قربانی وغیرہ اعمال و عبادات کی ہے اور ان اعمال میں بھی اس کی نگاہ خاص طور سے اس روح اور جذبے پر ہوتی ہے، جو ان اعمال و عبادات کے پیچھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ قربانی ہی کیا ہے جس کے پیچھے فدائیت، جانثاری اور کامل حوالگی کا جذبہ کام نہ کر رہا ہو۔ اور وہ روزہ ہی کیا ہے جودنیا میں آدمی کو ان چیزوں سے بے پروا نہ کردے جو حقیقتاً مطلوب نہیں ہیں۔
رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شوقِ عبادت حددرجہ بڑھ جاتا تھا۔ رمضان کے آخری ایام میں تو خاص طور سے آپؐ اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن بالکل اللہ کے لیے فارغ کرلیتے اور مسجد میں معتکف ہوجاتے تھے۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ سے لَو لگائے اور اس کے آستانے پر (یعنی مسجد میں) پڑ جائے اور اسی کی یاد اور عبادت میں مشغول ہوجائے۔ معتکف ہوکر بندہ اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس کا حقیقی تعلق اپنے ربّ کے سوا کسی اور سے نہیں ہے۔ اس کی جلوت اور خلوت دونوں، اللہ ہی کے لیے ہیں۔ وہ ہرحالت میں اللہ ہی کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اعتکاف کی روح درحقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو خدا کے لیے فارغ کر دینے پر قادر ہوسکے۔ روزے اور اعتکاف میں مقصد اور عمل دونوں لحاظ سے انتہا درجے کی مناسبت اور اتحاد پایا جاتا ہے۔ اسی لیے روزے کو اعتکاف کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے اور رمضان کو اعتکاف کا بہترین زمانہ سمجھا گیا ہے۔ روزے کی خصوصیت کو مزید تقویت بخشنے کے لیے قدیم شریعت میں خاموش رہنے کو بھی جزو صوم بنایا گیا تھا اور اس طرح کا روزہ بھی مشروع ہوا تھا جس میں آدمی خدا کے سوا کسی سے گفتگو نہیں کرسکتا تھا۔
اعتکاف کا بہترین زمانہ رمضان کا ہے اور اس میں بھی خاص طور سے رمضان کا آخری عشرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اعتکاف کے لیے اسی کو خاص طور سے منتخب فرمایا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے۔ ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو دوسرے سال آپؐ نے دو عشروں کا اعتکاف فرمایا۔
حالت ِ اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے آپؐ ٹھیر کر توعیادت نہیں فرماتے تھے، البتہ گزرتے ہوئے بیمار کی خیریت معلوم کرلیتے۔ اسی طرح اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ دنیا سے اپنے دل کو اس طرح وابستہ نہ کریں کہ اسی کے ہوکر رہ جائیں۔ دنیا کی ان ذمہ داریوں کو جو ان پر ڈالی گئی ہیں، پورا ضرور کریں لیکن ان کا رُخ ہمیشہ آخرت کی جانب رہے۔ وہ اسی کی طرف ہمیشہ عازمِ سفر رہیں۔
رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ سے زیادہ رات میں بیدار ہوکر اللہ کی عبادت کرتے۔’تہبند کَس لیتے‘ یہ محاورہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپؐ پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت کے لیے مستعد ہوجاتے تھے اور عبادت میں لگ جاتے تھے۔
حضرت سالمؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:تم میں سے کچھ لوگوں نے اوّل سات تاریخوں میں شب قدر دیکھی ہے اور تم میں سے کچھ لوگوں نے آخر کی سات تاریخوں میں اسے دیکھا ہے ۔ پس تم آخر کی دس تاریخوں میں اسے تلاش کرو۔( مسلم )
یعنی اگر تم شروع کی سات تاریخوں میں شب ِ قدر تلاش نہ کرسکو تو اب رمضان کی آخر کی دس تاریخوں میں اسے تلاش کرو، یعنی ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرو اور شب ِ قدر کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی کوشش کرو۔ رمضان کی ان مخصوص تاریخوں میں شب ِ قدر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ کچھ اہلِ ایمان نے ان راتوں میں شب ِ قدر دیکھی بھی ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ان تاریخوں میں شب ِ قدر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
شب ِ قدر وہ مخصوص رات ہے، جسے خدا نے خاص فضیلت عطا کی ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں قرآنِ مجید نازل ہوا، جو خیروبرکت کا سرچشمہ ہے۔ جو کام ہزاروں مہینوں میں نہ ہوا، وہ اس ایک رات میں انجام پایا۔ اس رات کی فضیلت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا تھا، بلکہ قرآن اس رات میں اس لیے نازل کیا گیا کہ یہ افضل رات تھی۔ نزولِ قرآن سے اس رات کی فضیلت ظاہر ہوئی۔ جس رات کو خدا کی عنایت و رحمت سے خاص نسبت حاصل ہو، وہ رات کبھی خیروبرکت سے خالی نہیں ہوسکتی۔ خدا کی رحمت ہرتحدید سے مبرا ہے۔ جو چیز بھی اس سے مَس ہو اور اسے اس سے کوئی نسبت حاصل ہو تو یہ نسبت دائمی قدر کی حامل ہوگی۔ یہ کوئی عارضی چیز ہرگز نہ ہوگی۔
شب قدر کےعلاوہ دوسرے دنوں میں بھی اس کا موقع رکھا گیا ہے کہ خدا اپنے بندوں کے ساتھ خصوصی معاملہ فرمائے اور بندہ اپنے رب کی خصوصی توجہ اور عنایت کا جویا ہوسکے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
اِنَّ فِی اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لَایُوَافِقُھَا رَجُلٌ مُّسْلِمٌ یَسْئَلُ اللہَ خَیْرًا مِّنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ اِلَّا اَعْطَاہُ ذٰلِکَ کُلُّ لَیْلَۃٍ ( مسلم ، رواہ جابرؓ)رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت ایک مسلم شخص اللہ سے دنیا و آخرت کی جو بھلائی بھی چاہے اللہ اس کو عطا فرمائے گا اور یہ ہر رات میں ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ابن آدم! تو (میرے ضرورت مندوں پر) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔(بخاری، مسلم)
یعنی تو اگر لوگوں پر خرچ کرے گا تو میں تجھے مفلس نہ ہونے دوں گا بلکہ میری بخشش تجھ پر مزید ہوگی۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ، رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دفع کرتا ہے۔
کسی شخص نے اگر کسی لغزش اور معصیت سے اپنے کو اللہ کے غضب کا مستحق بنالیا ہے تو صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ صدقہ دے کر بندہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صدقے کی برکت سے آدمی سوے خاتمہ اور بُری موت سے محفوظ رہتا ہے۔ صدقے کی برکت سے اچھے اور نیک کاموں کی دل میں رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ایمان مضبوط اور کامل ہوتا ہے۔ آدمی کو حق پر ثبات و استقامت کی توفیق ملتی ہے۔ اس لیے صدقہ کرنے والے کا انجام بخیر ہوگا۔ قرآنِ مجید میں بھی فرمایا گیا: وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲) ’’اور اچھا انجام تقویٰ کے لیے ہے‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقے سے مال میں کمی نہیں آتی ہے۔ اور قصور معاف کر دینے سے اللہ آدمی کی عزت ہی بڑھاتا ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو سربلندی ہی عطا فرماتا ہے۔(مسلم)
بالعموم لوگ صدقہ اس خوف سے نہیں دیتے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی۔ فرمایا گیا کہ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صدقے سے مال گھٹتا نہیں، اس میں برکت آتی ہے۔ صدقے کے سبب دنیا میں بھی خدا کی مزید بخشش ہوتی ہے۔ آخرت میں جو کچھ عطا ہوگا وہ الگ ہے۔ جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ارشاد ہے: اَنْفِقُ یُنْفَقُ عَلَیْکَ (بخاری، مسلم بروایت ابوہریرہؓ) ’’خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا‘‘۔ قرآن میں بھی فرمایا گیا ہے: وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ (السبا۳۴:۳۹) ’’تم جو کچھ خرچ کرتے ہو (اللہ) اس کی جگہ تمھیں اور دیتا ہے‘‘۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ کسی کا قصور معاف کر دینے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا بلکہ اخلاقی لحاظ سے وہ بہت اُونچا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کے درمیان اللہ اس کو باعزت زندگی عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی خوشنودی کے لیے تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے تو اس عمل سے وہ اپنے کو پستی میں نہیں گراتا، بلکہ اپنی فطرت کے تقاضے پورے کرکے بلندی اور رفعت حاصل کرتا ہے۔ اللہ اسے ایسی عزت اور سربلندی عطا فرماتا ہے جس کا حصول کسی دیگر تدبیر سے ممکن ہی نہیں ہے۔
مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَۃً صَبَرَ عَلَیْھَا اِلَّا زَادَہُ اللہُ بِھَا عِزًّا وَّلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْئَلَۃٍ اِلَّا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ بَابَ فَقْرٍ (ترمذی، ابواب الزہد، ۲۳۰۳) بندے کا مال صدقے سے کم نہیں ہوتا، اور جس بندے پر ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرجائے تو لازماً خدا اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جس بندے نے سوال کا دروازہ کھولا، خدا اس کے لیے فقروافلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
حضرت مصعب بن سعدؓ کہتے ہیں کہ سعدؓ نے اپنے بارے میں یہ خیال کیا کہ انھیں اپنے سے کم تر پر فضیلت حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں (اللہ کی طرف سے) مدد اور رزق تمھارے انھی کمزوروں (اور فقیروں) کی وجہ سے ملتا ہے۔(بخاری)
یعنی کسی شخص کا کمزور اور غریبوں کے مقابلے میں اپنے کو بلند مرتبہ سمجھنا نادانی ہے۔ اللہ کتنے ہی لوگوں کو محض کمزوروں اور مسکینوں کی وجہ سے اور ان کی دعائوں کی برکت سے رزق دیتا ہے اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا فرماتا ہے۔ اس لیے کمزوروں اور غریبوں کی وقعت گھٹانا ٹھیک نہیں ہے بلکہ ما ل داروں کا فرض ہے کہ وہ ضعیفوں اور غریبوں کے حقوق کو پہچانیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بے حد پریشان اور غبارآلود ہیں، اور جنھیں دروازوں سے دھکّے دے کر ہٹایا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو خدا ان کی قسموں کو لازماً پوری کردے۔(مسلم)
یعنی کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر پریشان حال اور بے وقعت ہوتے ہیں۔ کوئی انھیں خاطر میں نہیں لاتا۔ حالانکہ خدا سے ان کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اگر خدا کے بھروسے پر کسی بات پر قسم کھا لیں تو خدا ان کی قسم کو پوری کر کے رہے گا۔ ان کی بات اور درخواست رد نہیں ہوسکتی۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے جنّت میں داخل ہوتے ہوئے زیادہ تعداد مسکینوں کی دیکھی۔ دولت مندوں کو دیکھا کہ انھیں روک لیا گیا ہے۔ (بخاری، مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخیل اور صدقہ دینے والوں کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے، جنھوں نے لوہے کی زرہیں پہن رکھی ہوں اور ان دونوں کے ہاتھ سینے اور حلق تک جکڑے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ دیتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہوجاتی ہے اور بخیل جب صدقہ دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ تنگ ہوجاتی ہے اور زرہ کا ہرحلقہ اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔(بخاری، مسلم)
زرہوں کی تنگی کے سبب ہاتھ اُوپر سے نیچے تک بالکل جسم سے چمٹ گئے ہوتے ہیں۔ فیاض شخص جب صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کشادہ ہوجاتا ہے۔ وہ کھلے دل سے صدقہ دیتا ہے۔ وہ تنگ دل نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف بخیل شخص جب کچھ دینے کو سوچتا ہے تو اس کا سینہ اور تنگ ہوجاتا ہے۔ گویا اس کا جسم کسی تنگ زرہ میں ایسا کسا ہواہے کہ وہ ہاتھ باہر نکال کر کسی کو کچھ دینے کی قدرت ہی نہیں رکھتا۔ پیسہ دیتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیسے کے ساتھ اس کی روح بھی نکل جائے گی۔
زرہ جسم کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ جب وہ کشادہ ہوجاتی ہے تو پورا جسم محفوظ ہوجاتا ہے، یعنی صدقے کے سبب آدمی کو پورے طور پر خدا کی حفاظت حاصل ہوتی ہے۔ رہا بخیل شخص تو وہ ضیق اور تنگ دلی میں مبتلا ہوتا ہے۔ نہ وہ محفوظ ہوتا ہے اور نہ اسے حقیقی آرام و چین حاصل ہوتا ہے۔ روایت میں ہے کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ زرہ کشادہ ہو مگر وہ کشادہ نہیں ہوتی۔ (مسلم)
حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے بچو، آدھے چھوہارے کے ذریعے سے ہی سہی۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص تم میں سے اس کی استطاعت رکھتا ہو کہ آگ سے بچ سکے آدھے چھوہارے کے ذریعے سے ہی سہی، اسے ضرور بچنا چاہیے۔(بخاری، مسلم ، نسائی )
یعنی صدقہ ضرور دو۔ یہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرنے اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی چیز ہے۔ اگر زیادہ صدقہ دینے کی استطاعت نہ ہو تو جو بھی ہوسکے اگرچہ وہ نہایت قلیل مقدار ہو، صدقہ کرو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کہ آپؐ منبر پر تشریف رکھتے اور صدقے کا اور سوال سے بچنے کا ذکر فرماتے تھے، اُوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اُوپر کا (ہاتھ) دینے والا ہے اور نیچے کا مانگنے والا۔(بخاری، مسلم )
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں کس کو اپنے مال سے بڑھ کر اپنے وارث کا مال زیادہ عزیز ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں تو ہر ایک کو اپنا ہی مال سب سے زیادہ عزیز ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھیجا اور وہ اس کے وارث کا مال ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔ (بخاری، مسلم)
یعنی اگر تمھیں اپنا مال عزیز اور پیارا ہے تو تمھارا مال تو وہ ہے جو تم خدا کی راہ میں صرف کرکے اپنی دائمی زندگی کے لیے بھیجتے ہو۔ جو کچھ جمع کر کے تم اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑتے ہو توو ہ تمھارا نہیں تمھارے ورثا کا مال ہے۔ اگر تم نے اپنے لیے آگے کچھ نہیں بھیجا ہے یا بہت کم بھیجا ہے تو تم مفلس ہو، خواہ دنیا میں قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ جمع کر رکھا ہو۔ لیکن اگر تم نے آگے کے لیے سامان کرلیا ہے اور کرتے رہتے ہو تو تم مفلس ہرگز نہیں ہو۔ دنیا تمھیں مفلس سمجھتی ہے تو اس کی نظر کا قصور ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا گیا)۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: اس میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اس کا صرف ایک شانہ بچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: سب باقی ہے سوا ےاس شانے کے (جو تقسیم نہیں کیاگیا)۔(ترمذی)
یعنی جو گوشت تقسیم کر دیا گیا حقیقت میں وہی باقی ہے اور کام آنے والا ہے، ہمیشہ کا فائدہ اسی سے اُٹھایا گیا۔ جو حصہ اپنے لیے روک لیا گیا وہ ختم ہونے والا ہے۔
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کعبہ کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! وہ بڑے خسارے میں ہیں۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:وہ لوگ جو بڑے سرمایہ دار ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہرطرف بھلائی کے کام میں) خرچ کیا اور ایسے لوگ کم ہیں۔(بخاری، مسلم)
مطلب یہ ہے کہ مال و دولت بڑی آزمایش کی چیز ہے۔ اس آزمایش میں کامیاب وہی ہوسکتے ہیں جن کے دل میں مال کی محبت نہ ہو، جو اپنے مال کو کشادہ دلی کے ساتھ کارخیر میں خرچ کرتے رہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ دولت پانے کے باوجود بڑے خسارے میں ہیں۔
حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افضل دینار وہ ہے جس کو آدمی اپنے بال بچوں پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار افضل ہے جسے آدمی خدا کی راہ میں سواری کے لیے خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار افضل ہے جسے وہ خدا کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔ (مسلم)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مال اور دینار کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے بال بچوں پر خرچ کیا جائے۔ پھر اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ جہاد کے لیے گھوڑا وغیرہ خریدنے میں صرف کیا جائے۔ اور پھر یہ کہ اسے اپنے ان ساتھیوں اور رفقا پر خرچ کیا جائے جو خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہوتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دینار وہ ہے جو تو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ ایک دینار وہ ہے جو تو کسی غلام کو آزاد کرانے میں خرچ کرتا ہے، اور ایک وہ دینار ہے جو کسی مسکین پر خرچ کرتا ہے، اور ایک دینار وہ ہے جو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے ۔ ان میں سب سے بڑھ کر باعث ِ اجر وہ دینار ہے جسے تو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے‘‘۔( مسلم)
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی تعلیم دی ہے وہ حددرجہ متوازن ہے۔ اس میں بے اعتدالی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت قریب ترین فرائض کی بجاآوری ہے۔ اہل و عیال کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ اس سےفارغ ہونے کے بعد نفل کی باری آتی ہے۔ ہر ایک کے حق کو سمجھنا چاہیے اور مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے حقوق ادا کرنے چاہییں۔
فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا) حق ہے۔پھر آپؐ نے آیت تلاوت فرمائی:
نیکی اور وفاداری یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرلو، بلکہ وفاداری ان کی ہے جو اللہ، یومِ آخرت، فرشتوں، (اللہ کی) کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا مال اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دے اور گردنیں چھڑانے (غلام آزاد کرانے) میں خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے(البقرہ ۲:۱۷۷)۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی آدمی کی ذمہ داریاں باقی رہتی ہیں۔ زکوٰۃ دینے کے بعد آدمی کو اپنا ہاتھ بالکل کھینچ نہیں لینا چاہیے اور نہ اجتماعی تقاضوں اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کی طرف سے غافل ہونا چاہیے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ضرورت مند اور مصیبت زدہ آجائے یا کوئی اجتماعی تقاضا سامنے آجائے تو آدمی کو اس سلسلے میں مال خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استشہاد کے طور پر سورئہ بقرہ کی آیت (۱۷۷) کی تلاوت فرمائی جس میں نیکی کے کاموں کے ذیل میں ایمان کے بعد رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں وغیرہ کے مالی تعاون کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محتاجوں اور ضرورت مندوں کے مالی تعاون کا جو ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان نے کسی مسلمان کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا، کپڑا پہنایا، اللہ اس کو جنّت کا سبز لباس پہنائے گا، اور جس مسلم نے کسی مسلم کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا، اللہ اس کو جنّت کے پھل کھلائے گا، اور جس مسلم نے کسی مسلم کو پیاس کی حالت میں پانی پلایا، اللہ اس کو (جنّت کی) سر بہ مہر شراب پلائے گا۔(ابوداؤد، ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے پاس اُحد کے برابر سونا ہو تو میرے لیے خوشی کی بات یہی ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے میرے پاس اس میں سے کچھ بھی نہ رہے سواے اس کے کہ قرض ادا کرنے کے لیے اس میں سے کچھ بچا لوں۔(بخاری)
یعنی میرے لیے مسرت کی بات یہ نہیں ہے کہ مال میرے پاس جمع ہو بلکہ مسرت کی بات میرے لیے یہ ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہو میں اسے جلد سے جلد اللہ کی راہ میں خرچ کروں یہاں تک کہ اپنے پاس کچھ بھی نہ رہنے دوں۔ انبیا علیہم السلام کی شان یہی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی اس کی کھلی شہادت پیش کرتی ہے کہ وہ سچے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ حق و صداقت کی جو تحریک وہ دنیا میں چلاتے ہیں اس کے پیچھے ہرگز ان کا کوئی مادی یا دُنیوی مفاد نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں حق و صداقت کے لیے کرتے ہیں نہ کہ کسی ذاتی منفعت کے لیے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینار و درہم کا بندہ ملعون ہے۔(ترمذی)
یعنی جو لوگ مال و دولت کے پرستار ہیں، خدا کی راہ میں جنھیں اپنا مال خرچ کرنا حددرجہ گراں گزرتا ہے، وہ خدا کی رحمتوں سے دُور ہیں۔ان کے حصے میں پھٹکار اور لعنت کے سوا اور کچھ نہیں آسکتا۔
مال و دولت کی پرستش بہت ہی بُری خصلت ہے۔ اسی لیےصدقہ لینا صرف اسی کو روا ہے جو محتاج ہو۔محتاج شخص کو اگر خدا نے صحت اور طاقت دی ہے تو اسے بھی حتی الامکان صدقہ و زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہیے۔ اسے محنت و مشقت کے ذریعے سے اپنی گزراوقات کا سامان بہم پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:
لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ وَّلَا لِذِیْ مِرَّۃٍ سَوِیٍّ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، احمد، ابن ماجہ) مال دار کے لیے صدقہ (زکوٰۃ) حلال نہیں ہے، اور نہ اس شخص کے لیے جو توانا و تندرست ہو۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو عادتیں کسی صاحب ِ ایمان میں جمع نہیں ہوسکتیں: بخل اور بدخلقی۔
یعنی بخل اور بدخلقی کی ایمان سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ ایمان تو آدمی کو کشادہ دل، عالی ظرف اور باحوصلہ بناتا ہے، جب کہ بخل اور بدخلقی درحقیقت تنگ نظری، تنگ دلی، دنائت کی پیداوار ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سخی قریب ہے اللہ سے، قریب ہے جنّت سے، قریب ہے لوگوں سے، دُور ہے دوزخ سے ،اور بخیل شخص دُور ہے اللہ سے، دُور ہے جنّت سے، دُور ہے لوگوں سے، قریب ہے دوزخ سے۔ اور جاہل سخی اللہ کو بخیل عابد سے زیادہ پسند ہے۔(ترمذی)
سخاوت اور فیاضی سے آدمی کو خدا کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ فیاض اور سخی شخص سے لوگ بھی خوش رہتے ہیں اور ایسا شخص اپنے انجام کے لحاظ سے بھی کامیاب ہوتا ہے۔ جنّت اس کی دائمی جاے قرار ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بخیل شخص سے نہ خدا راضی ہوتا ہے اور نہ دنیا کے لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اپنے انجام کے لحاظ سے وہ بجاے جنّت کے دوزخ کا مستحق ہوتا ہے۔
سخاوت اور فیاضی صفاتِ رذیلہ کے دُور کرنے میں حددرجہ معاون ہے۔ آدمی کو اس کے ذریعے سے روحانی و اخلاقی بلندی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہےکہ اس کے اندر خدا کی عظمت اور بزرگی کا زیادہ سے زیادہ احساس و شعور بیدار ہوسکے۔ رہا بخیل شخص تو نفسانیت اور تنگ دلی میں کچھ اس طرح گرفتار رہتا ہے کہ اسے روحانی و اخلاقی بلندی حاصل ہی نہیں ہوتی۔ اس کا دل مادی منفعتوں ہی میں اُلجھا رہتا ہے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں سے وہ آشنا ہی نہیں ہوپاتا۔
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی قوم نے زکوٰۃ روک لی، اللہ نے اسے قحط میں مبتلا کر دیا۔(طبرانی)
اس لیے قحط کو دُور کرنے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیوب ویل اور پمپنگ سسٹم وغیرہ آبپاشی کے ذرائع فراہم کیے جائیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مال کی زکوٰۃ نکالی جائے۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کسی قوم نے اپنے مالوں کی زکوٰۃ روک لی اس سے آسمان کی بارش روک لی گئی اور اگر جانور نہ ہوں تو (بالکل) بارش نہ ہو۔(طبرانی)
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی بے گناہ جانوروں کی وجہ سے بارش کردیتا ہے، حالاں انسانوں کی نافرمانیوں کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ بارش بالکل نہ ہو۔
حضرت سہل بن معاذؓ اپنے والد کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک نماز ، روزہ اور ذکر ِ الٰہی میں سے ہر ایک اللہ عزوجل کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سو حصے تک بڑھ جاتا ہے۔
انفاق کے سبب نماز، روزہ اور ذکر میں ہر ایک کا درجہ و کمال سات سو گنا یا سات سو بار دوچند کرتے ہوئے جو حاصل ہو اس کے مساوی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے انفاق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرشخص کے لیے دل کے ٹھیرائو اور وابستگی کے لیے کوئی چیز چاہیے۔ اگر خدا کی ذات، ستودہ صفات، اس کے قلب اور جذبۂ شوق و محبت کے لیے پناہ گاہ نہ بن سکی تو لازماً اس کی وابستگی کا سامان یہی دنیا کے سازوسامان ہی ہوں گے۔ ایسی صورت میں اس کے لیے انفاق ایک مشکل امر ثابت ہوگا۔ ممکن ہے وہ نماز کی پابندی بھی کرے، روزے بھی رکھے اور زبان سے خدا کا نام بھی لے اور یہ خیال کرے کہ اس میں ہمارا جاتا ہی کیا ہے۔ لیکن انفاق کو ایک ایسی کسوٹی کی حیثیت حاصل ہے جس سے کھرے کھوٹے کی پہچان بآسانی ہوجاتی ہے۔ آدمی اگر خدا کا طالب ہے، مال و دولت اور دُنیوی چیزیں اس کی تمنائیں اور آرزوئوں کا مرکز نہیں ہیں، تو اس صورت میں انفاق،اس کے لیے کوئی ناخوش گوار شے نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کی نماز فی الواقع نماز ہوگی، اس کا روزہ صحیح معنوں میں روزہ ہوگا اور اس کا ذکر فی الحقیقت ذکر ہوگا۔ اعمال اور عبادات کی قدروقیمت حددرجہ بڑھی ہوئی ہوگی، اور ان کا اجروثواب ایک نعمت ِ فراواں کی شکل اختیارکرلے گا۔
اس حدیث سے اس حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ نیک اعمال اور عبادات وغیرہ کا باہم ایک دوسرے سے گہرا ربط و تعلق ہے۔ اعمال باہم ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لیے دین میں زندگی کی اصلاح اس کی مجموعی حیثیت سے مطلوب ہوتی ہے۔
دینِ اسلا م درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کے ادا کرنے کادوسرا نام ہے۔ نماز اور زکوٰۃ ہمیں انھی دو قسموں کے حقوق کی یاد دلاتے ہیں۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ جو کتابِ الٰہی کی حکمتوں پر گہری نظر رکھتے تھے، فرماتے ہیں:نماز کی حقیقت بندے کا اپنے رب کی طرف محبت اور خشیت سے مائل ہونا ہے، اور زکوٰۃ کی حقیقت بندے کا بندے کی طرف محبت اور شفقت سے مائل ہونا ہے۔(تفسیر نظام القرآن، ص ۹)
دین کی اس بنیادی حقیقت کی طرف قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر اشارہ فرمایا گیا ہے۔ قرآن، نماز اور زکوٰۃ کوبنیادی اہمیت دیتے ہوئے انھیں اصل دین قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (البینہ۹۸:۵) اور انھیں تو اسی بات کا حکم ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ٹھیک دین ہے۔
دین درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں، دونوں کے حقوق کے ادا کرنے کا نام ہے۔ اس کی تصدیق احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ہم یہاں اختصار کے پیش نظر ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اُوپر نہیں اُٹھتی۔ ایک وہ امام جس کو لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں‘‘۔(ابن ماجہ)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے بندوں، دونوں کے حقوق پہچانے اور ادا کرے۔ اللہ کا حق بھی صحیح معنوں میں اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ کوئی اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا نہ کرے۔
lتکمیلِ ذات کا ذریعہ : زکوٰۃ ادا کر کے انسان صرف ایک فرض ہی سے سبکدوش نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس کی ذات کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ تکمیل و تزکیہ ہی احکامِ شریعت کا بنیادی مقصد ہے۔ جس چیز کا نام دین میں حکمت ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ علم و بصیرت کے ساتھ انسان کے نفس کی تربیت اور تزکیہ ہو۔ زکوٰۃ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس سے انسان تزکیہ حاصل کرے۔ زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور نمو کے ہیں۔ زکوٰۃ دینے سے آدمی خود غرضی، تنگ دلی اور زرپرستی کی بُری صفات سے نجات پاتا ہے۔ اس کی روح کو پاکیزگی اور بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی o الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o (الیل۹۲: ۱۷-۱۸) اور اس (جہنم) سے دُور رکھا جائے گا وہ شخص جو اللہ کا ڈر رکھتا ہے اور اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے تزکیہ حاصل کرنے کے لیے۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ان کے مالوں میں سے صدقہ لو جس کے ذریعے سے انھیں پاک کرو گے اور ان کا تزکیہ کرو گے۔
زکوٰۃ کا یہ بنیادی مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب کہ زکوٰۃ دینے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حاصل کرنے کی سچی طلب اور عملی اہتمام بھی پایا جاتا ہو۔ انسان زکوٰۃ محض اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے دے، اس کے پیچھے کوئی اور محرک نہ ہو۔ اس کی زکوٰۃ نہ نام و نمود کے لیے ہو، اور نہ اس کا مقصد غریبوں اور محتاجوں پر احسان جتانا ہو۔
قرآن میں یہ حقیقت بار بار بیان کی گئی ہے کہ بندے کا دین اور اس کا ایمان اسی وقت کامل ہوگا اور اسے حقیقی اور روحانی زندگی اسی وقت حاصل ہوگی، جب کہ اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب آجائے اور دنیا کے مقابلے میں وہ آخرت کو ترجیح دینے لگ جائے۔ نماز اگر بندے کا رشتہ اللہ سے جوڑتی ہے، تو زکوٰۃ اسے دنیاپرستی سے بچاتی اور مال کی محبت دل سے نکالتی ہے۔ زکوٰۃ دے کر آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ زندگی کے حقیقی مقصد سے غافل نہیں ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے، اسے وہ اللہ ہی کی ملکیت سمجھتا ہے۔ وہ اس میں سے غریبوں اور محتاجوں کا بھی حق نکالتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے وہ اسے اپنے استعمال میں بھی لاتا ہے۔ اہلِ تقویٰ کا یہ خاص شعار ہے کہ وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّ کٰـوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo (الاعراف ۷:۱۵۶) تو میں اپنی رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
پھر جو رقم بھی قوم اور جماعت کی بھلائی کے لیے خرچ کی جاتی ہے وہ ضائع نہیں ہوتی۔ جو روپیہ بھی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوتا ہے، وہ بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے جن سے خود خرچ کرنے والے شخص کو بھی بے شمار فائدے پہنچتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے سرمایے کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتا ہے یا لوگوں سے سود لے کر اسے بڑھانا چاہتا ہے، وہ درحقیقت اپنی دولت کی قدر (value) کو گھٹاتا اور خود اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط(البقرہ ۲:۲۷۶) اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۹) تم جو سود اس غرض سے دیتے ہو کہ لوگوں کے مال کو بڑھائے تو اللہ کے نزدیک اس سے دولت نہیں بڑھتی۔ ہاں، جو زکوٰۃ تم خدا کی خوشنودی کے لیے دو وہ بڑھتی چلی جائے گی۔
مال کی جو تھوڑی سی مقدار زکوٰۃ کے طور پر فرض کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ مال دار بس اتنا ہی خرچ کریں۔ اس کے بعد اگر کوئی ضرورت مند آجائے یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آجائے تو خرچ کرنے سے صاف انکار کردیں، بلکہ اس کا مطلب حقیقت میں یہ ہے کہ کم از کم متعین مال تو ہر مال دار شخص کو خرچ کرنا ہی چاہیے، اس سے زیادہ جتنا بھی ہوسکے اسے صرف کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ایک خاص مقدار سے کم مال پر فرض نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگاکہ جن لوگوں کے پاس اس خاص مقدار سے کم مال ہے وہ اللہ کی راہ میں کچھ خرچ ہی نہ کریں۔ اللہ کے راستے میں جس کسی سے بھی جو کچھ ہوسکے وہ خرچ کرے۔ اس میں خود اس کا اپنا فائدہ ہے۔
زکوٰۃ کے لیے ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ لوگوں کی زکوٰۃ ایک مرکز پر جمع کی جائے۔ پھر وہاں سے ایک نظم اور ضابطے کے ساتھ اسے خرچ کیا جائے۔ جس طرح فرض نمازجماعت کے ساتھ امام کی اقتدا میں ادا کی جاتی ہے، اسی طرح زکوٰۃ کا بھی اجتماعی نظم ہو، جس کے تحت زکوٰۃ وصول کی جائے اور پھر اسے باضابطہ خرچ کیا جائے۔ اس طرح زکوٰۃ سے معاشرے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن (کا حاکم بنا کر)بھیجا تو فرمایا:
تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہلِ کتاب ہیں، تو تم انھیں اس امر کی شہادت کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لیا جائےگا اور ان کے غریبوں کو لوٹا دیا جائے گا۔ اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں تو خبردار ان کے اعلیٰ درجے کے مال (چھانٹ چھانٹ کر) نہ لینا، اور مظلوم کی پکار سے بچنا کیوں کہ اُس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔(بخاری، مسلم)
اس روایت سے چند اہم اُمور پر روشنی پڑتی ہے۔ جو شخص اسلامی حکومت کی طرف سے گورنر یا حاکم بنایا جائے، اس کا اوّلین فرض لوگوں کوخداے واحد کی طرف دعوت دینا ہے۔ دیگر تمام مقصدثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر اسلامی حکومت میں گورنر کی بنیادی ذمہ داری نظم و نسق کو درست رکھنا ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی نظامِ حکومت میں چھوٹے بڑے ہرکارندے کاپہلا کام لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا ہے۔ جس حکومت کا پہلا کام مخلوقِ خدا کو حق کی دعوت دینا ہو وہ حکومت دنیا کو رحمت سے بھر دے گی۔ اس حکومت میں ظلم اور ناانصافی کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل سکتا۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے سامنے دین کو پیش کرنے میں ہمیشہ حکمت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جس قوم کو بھی ہم دین کی طرف دعوت دیں اس کی نفسیات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ پھر دین کو بیک وقت پورے کا پورا پیش کرنے کے بجاے پہلے بنیادی باتیں تدریج کے ساتھ پیش کرنی چاہییں۔ اس سے دین کو سمجھنے اور اس کو ماننے میں آسانی ہوگی۔
توحید و رسالت پر ایمان لانے کے بعد اوّلین چیز نماز ہے۔ نماز کا وقت آجانے پر صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون شخص اس بات کا اقرار و اعلان کرتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور خدا ہی کی اطاعت و بندگی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور کون خدا سے بے رُخی اختیار کرنے کی جسارت کرسکتا ہے؟
نماز کے بعد دوسری چیز زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کی دو صورتیں ہیں: ایک تو مجرد زکوٰۃ یا صدقہ ہے، جسے اہلِ ایمان اپنے مالوں میں سے ہروقت ادا کرتے رہتے ہیں اور حتی الوسع ضرورت مندوں کی اعانت کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مال میں سے ازروے قانون ایک متعین مقدار نکالتا ہے۔ اس حدیث میں اسی زکوٰۃ کا ذکر ہے۔
زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا کہ وہ معاشرے کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور معاشرے ہی کے غریبوں اور ضرورت مندوں پر صرف کی جاتی ہے۔ غریبوں اور محتاجوں کی اعانت زکوٰۃ کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ اللہ نے مال داروں کے اموال میں غریبوں کا حق رکھا ہے۔ غریبوں کا حق ان تک پہنچانا مال داروں پر واجب ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:
فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵) ان کے مالوں میں سائلوں اور تہی دستوں کا متعین حصہ ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل (collector) کو یہ ہدایت کی کہ وصولی کے وقت اچھے اچھے مال چھانٹ کر نہ لیے جائیں بلکہ اوسط درجے کا مال لیا جائے۔ اس ہدایت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ اپنا سب سے اچھا مال زکوٰۃ میں پیش کرتے، لیکن لینے والا لینے سے انکار کرتا یہاں تک کہ یہ معاملہ خلیفۃ المومنین کی خدمت میں لایا جاتا۔ ہدایت کا منشا یہ ہے کہ عامل اپنی مرضی سے چھانٹ کر نہ لے۔ ہاں، اگر زکوٰۃ دینے والا اپنی خوشی سے چھانٹ کر اچھا مال پیش کرے تو اس کے قبول کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ لوگوں پر زیادتی نہ کی جائے۔ خدا ان کی پکار کو جلد سنتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ نے مال دیا۔ پھر اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی، تو اس کا مال قیامت کے دن نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ جس کے (سر پر) دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ قیامت کے دن اس (کے گلے) کا طوق بن جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘(بخاری، مسلم)۔پھر آپؐ نے تلاوت فرمایا:
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ ط بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط(اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۰) وہ لوگ جو اس چیز میں بخل کرتے ہیں جسے اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ ان کے حق میں بُرا ہے۔ جو کچھ انھوں نے بخل کیا ہوگا آگے وہی قیامت کے دن ان (کے گلے) کا طوق بن جائے گا۔
سانپ کا گنجا ہونا اس کے انتہائی زہریلا ہونے کی علامت ہے۔ زکوٰۃ دینے سے جو مال قیامت کے دن اس کی راحت اور آرام کا سبب بن سکتا تھا، اس دن مصیبت بن کر اس کی جان کو لاگو ہوگا۔ بخیل اور زرپرست حُب ِ مال کے سبب اپنے مال و دولت اور خزانے پر سانپ بنا رہتا ہے ، دوسروں کو اس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ اس کا انجام اس شکل میں اس کے سامنے آئے گا کہ اس کی دولت اور اس کا خزانہ اس کے لیے سانپ بن جائے گا اور اسے ڈستا رہے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو زمین بارش کے پانی سے یا بہتے چشمے سے سیراب ہوتی ہو، یا دریا کے نزدیک ہونے کے سبب پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہو، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ (بطورِ زکوٰۃ) نکالا جائے گا اور جس کو مزدور لگاکر سینچا جائے اس میں بیسواں حصہ ہے‘‘۔ (بخاری)
حضرت اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ’’ میں سونے کی اوضاح (ایک خاص زیور) پہنتی تھی۔ میں نے (رسولؐ اللہ سے) پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ بھی ’کنز‘ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو اس مقدار کو پہنچ جائے جس میں زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے اور اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے تو ’کنز‘ نہیں ہے‘‘۔(مالک ، ابوداؤد)
قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo(التوبہ ۹:۳۴) ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو‘‘۔ اس آیت میں سونے چاندی کی جس تخزین پر وعید آئی ہے اس روایت میں حضرت اُمِ سلمہؓ کا اشارہ اسی طرف تھا۔ سوال کا منشا یہ تھا کہ کیا زیور بھی اس کنز میں شامل ہے جس پر قرآنِ مجید میں وعید فرمائی گئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اگر زیورات کی زکوٰۃ ادا کی جاتی رہے تو پھر وہ ’کنز‘ نہیں ہے جس پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔
حضرت سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جس چیز کو بیع (تجارت) کے لیے ہم نے تیار کیا ہو اس میں سے صدقہ (زکوٰۃ) نکالیں‘‘۔(ابوداؤد)
معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا مال مجاہدوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے اور اس میں سے عاملِ زکوٰۃ (یعنی زکوٰۃ کا وصول و تحصیل کرنے والے) کو معاوضہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو تاوان بھرنا ہے یا کوئی قرض کے بوجھ سے لدا ہوا ہے تو زکوٰۃ کی مَد سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ کسی محتاج سے زکوٰۃ کے مال کو کوئی مال دار شخص خرید کر اپنے استعمال میں لے آئے۔ اسی طرح اس ہدیہ کو قبول کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں جو کوئی محتاج شخص زکوٰۃ و صدقہ کے مال میں سے پیش کرے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدقہ مال دار کے لیے حلال نہیں ہے سواے اس کے جو جہاد میں ہو، یا مسافر ہو، یا ایک ہم سایہ محتاج ہو، اسے کوئی چیز صدقے میں ملی ہو وہ ہدیے کے طور پر تمھیں پیش کرے یا تمھاری دعوت کرے‘‘۔ (ابوداؤد)
ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو واجب کیا تاکہ لغو اور بے حیائی کی باتوں کا جو روزے میں سرزد ہوگئی ہوں کفّارہ بنے اور مسکینوں کے کھانے کا نظم ہوجائے۔(ابوداؤد)
رمضان کے ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکید ہے کہ گھر کے سبھی لوگوں کی طرف سے نمازِ عید سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کیا جائے۔ اس صدقہ کے واجب ہونے کی دو مصلحتیں اس حدیث میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ روزہ دار سے روزے کی حالت میں کوشش کے باوجود جو کوتاہی یا کمزوری ظاہر ہوئی ہو، صدقے کے ذریعے سے اس کی تلافی کرلی جائے۔ دوسری مصلحت اس میں یہ ہے کہ جس دن سارے مسلمان عید کی خوشی منانے جارہے ہوں اس دن سوسائٹی کے غریب لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی ہوجائے تاکہ وہ بھی اطمینان سے عید کی خوشی منانے میں شریک ہوسکیں۔
جس طرح نبیوں کی منصبی ذمہ داری یہ رہی ہے کہ وہ اپنی قوم تک خدا کا پیغام پہنچائیں، اسی طرح خدا کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری یہ تھی کہ ساری انسانیت تک حق کا پیغام پہنچائیں اور راہِ راست سے باخبر کریں۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں بغیر کسی فرق وامتیاز کے اس فرضِ منصبی کو ادا فرمایا، اور آپؐ کی زندگی ہی میں ۱۰لاکھ مربع میل پر دین اسلام قائم ہوگیا۔ آپؐ نے نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے کے لوگوں کی ہدایت کی فکر کی بلکہ روزِ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کی فکر بھی آپؐ کو دامن گیر تھی۔ آپؐ نے اپنے پیچھے جو امت چھوڑی اس کی منصبی ذمہ داری بھی یہی قرار دی کہ وہ سارے عالم کی پاسبان ہو اور اس کی پوری کوشش یہ ہو کہ دنیا حق کے پیغام سے بے خبر نہ رہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: انتم شہداء اللہ فی الارض، ’’تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو‘‘۔ یہ بات تین بار آپؐ نے فرمائی۔
اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو جس منصب پر فائز کیا ہے اس سے بلند مقصد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ تمھیں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سارے عالم کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ اس میں رنگ ونسل اور ملک کی کوئی قید نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمھیں ہم نے ’بہترین اُمت‘ بنایا ہے تاکہ تم سارے ہی انسانوں پر گواہ رہو، اور ان کے سامنے حق کو اسی طرح پیش کرو جس طرح خدا کے نبی ؐنے تمھارے سامنے حق کو بے کم وکاست پیش فرمایا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۴۳)
اُمت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ اس کے پاس ایک دائمی اور آفاقی پیغام ہے، جو سراپاخیر ہے اور جس میں انسانوں کا مال دار طبقہ ہو یا نادار، جن کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری ہونی مشکل ہورہی ہوں، خیرخواہ ہو یا بدخواہ، دوست ہو یا دشمن، صلح جُو ہو یا برسرپیکار، قوی ہو یا کمزور، عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا، سب کی رعایت کی گئی ہے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اصلاً صرف ظاہری زندگی ہی سے نہیں بلکہ انسان کی روحانی اور باطنی زندگی سے بھی ہے۔ اس دین میں پاکیزگی اور نظافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا مزاج حیا سے زیادہ لطیف ہے۔ بھلائی اور خیر اس کا عنوان ہے۔ چنانچہ دین کو ’نصح‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آئے جو اس کی فکر کو آفاقی فکر بنادے اور ہر طرح کی تنگ دامانیوں اور خودغرضی کی گندگیوں سے اسے نکال دے، اور وہ یہ سمجھ جائے کہ سارے انسان باہم ایک دوسرے کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم دنیا اور اہل دنیا کو اپنی تنگ نگاہوں سے نہیں بلکہ حکیم و ودود، حی وقیوم خدا کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ ہمارے قلب اتنے وسیع ہوجائیں کہ آسمان کو بھی اپنا دامن تنگ نظر آنے لگے۔
قرآن میں ہے کہ سارے انسان ایک گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باہمی عناد، دشمنی اور بُغض، یہ شیطان کے لگائے ہوئے پودے ہیں۔ حضوؐر نے بھی انسانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے۔ بھائی، بھائی کا خیرخواہ ہوتا ہے بدخواہ نہیں۔ بھائی کی ترقی سے بھائی کو خوشی ہوتی ہے رنج نہیں۔ دوسروں کی دولت و ثروت کو دیکھ کر خوشی محسوس کرنا سب سے بڑی سخاوت ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے غافل نہ ہو، دنیا کی زندگی میں یہی کافی ہے۔ آرزوئیں، تمنائیں اور بڑی بڑی خواہشات جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں، آخرت انھی کی تعبیر ہے۔
اسلام کی یہ تعلیمات اور اس کا یہ پیغام ایسا ہے کہ دنیا کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت وہی لوگ پوری کرسکتے ہیں جو اس دین کے حامل ہیں، جو خدا کا نازل کردہ دین ہے اور جن کے پاس دین حق اور خدا کی کتاب مستند شکل میں موجود ہے۔
ہر مسلم شخص کی حیثیت منصب کے لحاظ سے داعی کی ہے۔ دعوتی کام فرض عین ہے۔ اسے فرض کفایہ سمجھنا غلط ہے، جیساکہ مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا تھا۔ دورِ اول میں مسلمانوں کے اندر دعوتی جذبہ بخوبی پایا جاتا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے، خواہ تجارت ہی کے لیے گئے ہوں،اپنے ساتھ دعوت حق کو لے کر گئے اور انھوں نے لوگوں کو اس سے روشناس کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہرگوشے میں دینِ حق کا نام لینے والے موجود ہیں۔ بعد کے دور میں، جب کہ مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان کی عزت اور عظمت کا اصل تعلق اس منصب سے ہے جس پر اللہ نے انھیں فائز کیا ہے۔ مسلمانوں میں چھوٹی بڑی کتنی تحریکیں اٹھیں اور کتنی تنظیمیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کے دستور میں فرضِ منصبی ’دعوت‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا، الاماشا اللہ۔ پھر بھی اسلام اپنی قوت اور جاذبیت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے اور سعادت مند روحیں اسلام سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ اس تحریر میں پاک و ہند میں اشاعت اسلام کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ دعوتی جذبہ اُبھرے اور کبھی سرد نہ پڑے۔
اسلام کا پیغام خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں جزیرئہ عرب سے باہر دوسرے ملکوں میں پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قیصر وکسریٰ کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے تھے۔ دنیا سے آپؐ کو رخصت ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اسلام دنیا کے ایک بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کا پیغام دوردراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک سے خصوصی دل چسپی تھی اور آپؐ چاہتے تھے کہ یہ ملک دین حق کی برکات سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ آپؐ نے ان لوگوں کو بشارت دی جو ہندستان میں دعوت حق کے پہنچانے کی عظیم ذمہ داری ادا کریںگے۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ان میں سے ایک جماعت وہ ہے جو ہندستان کے غزوے میں شریک ہوگی‘‘۔(نسائی)
حضرت علیؓ نے ۳۰ھ میں حضرت حارث بن مرہ عبدیؓ کو اس کی اجازت دی کہ وہ رضاکاروں کی جماعت لے کر ہندستان کا رخ کریں۔ حضرت معاویہؓ کے عہد میں ۴۴ھ میں حضرت مہلب بن ابی صغرہؓ نے بھی ہندستان کارخ کیا تھا۔ حضرت مہلبؓ نے دریاے سندھ کو پار کرکے ملتان تک فتح کرلیا تھا۔ اسی لیے بعض تاریخ کی کتابوں میں انھیں ہندستان کا فاتحِ اول کہا گیا ہے۔
۹۹ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوئے۔ انھوں نے ہندستان کے راجائوں کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں انھیں اسلام لانے کی دعوت دی گئی اور انھیں اسلام کی خوبیوں سے واقف کرایا گیا۔ بہت سے لوگ ایمان بھی لائے۔ آپ نے عمر بن مسلم باہلی کو سندھ کا گورنر مقرر کرکے بھیجا اور تمام راجائوں کو خط تحریر فرمایا۔ خط کا مضمون یہ تھا:
تم اسلام قبول کرلو اور بت پرستی کی ظلمت سے نکل آئو۔ اگر تم مسلمان ہوتے ہو تو تمھیں تمھاری ریاست پر بدستور قائم رکھیںگے۔ تمھاری خطائیںمعاف کردیںگے اور تمھارے ساتھ ہمارا سلوک سب مسلمانوں جیسا ہوگا اور تمھیں اپنا بھائی سمجھیںگے۔
جب یہ خطوط رئوساے ہند کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے ابن داہر نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد دوسرے راجائوں نے بھی جو عام طورپر اس کے رشتے دار تھے، اسلام قبول کرلیا۔
حجاج نے محمدبن قاسم کو لشکر کے ساتھ سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کی عمر اس وقت صرف ۱۷سال تھی لیکن وہ بڑی سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ محمد بن قاسم سندھ جاتے ہوئے، سپرستان کے علاقے سے گزرے تو چناقوم نے اپنے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ چھپ کر مسلمانوں کے حالات سے واقفیت بہم پہنچائے۔ وہ جب اسلامی لشکر کے قریب آیا تو اس وقت محمد بن قاسم نماز کے لیے صفیںدرست کرا رہے تھے۔ اسلامی لشکر نے ان کی امامت میں نماز ادا کی۔ چنا قوم کے آدمی نے بچشم خود جو کچھ مشاہدہ کیا واپس جاکر بے کم و کاست اپنی قوم سے بیان کیا۔ قوم پر اس کا غیرمعمولی اثر ہوا۔ اس قوم کے لوگ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
محمد بن قاسم کے زمانے سے ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے انھوں نے سندھ کو فتح کیا۔ یہاں کے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ تم سب آزاد ہو، تمھیں کسی قسم کی تکلیف نہیں دوںگا، کسی کے مذہب میں کسی قسم کی دست درازی نہیں کی جائے گی۔ محمدبن قاسم نے حجاج کی نصیحت کو اپنے پیش نظر رکھا۔ حجاج نے کہا تھا:’’ہر ایک کو کلمۂ اسلام کی دعوت دینا اور جو کوئی مشرف بہ اسلام ہوجائے اس کی تربیت کا نظم کرنا‘‘۔
قیامِ حکومت کے ساتھ ساتھ محمد بن قاسم دعوت حق کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تربیتی ادارے، مساجد اور مدارس بھی قائم کیے۔ محمد بن قاسم نے الور میں مدرسے کے علاوہ دارالقضا بھی قائم کیا تھا۔ دیبل کی فتح ۵۳ھ کے بعد وہاں چار ہزار مسلمانوں پر مشتمل ایک بستی آباد کی گئی۔ ایک مسجد کی تعمیر بھی ہوئی۔ یہ چار ہزار افراد حقیقت میں چار ہزار مبلغینِ اسلام تھے۔
محمد بن قاسم کا اتنا اچھا اثر تھا کہ جب وہ سندھ سے رخصت ہونے لگے تو مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ان کی جدائی پراشک بار ہوگئے اورکہا کہ ’’آپ جیسا مہربان فاتح کبھی بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہم آپ کے محاسن کو ہمیشہ یاد رکھیںگے‘‘۔ انھوں نے محمد بن قاسم کی یاد میں ایک دھرم شالہ بھی تعمیر کیا۔ کچھ ہندوئوں اور بودھوں نے محمد بن قاسم کا بت بناکر اس کی پرستش بھی شروع کردی۔
راجا سامری (زمورن) مسلمان ہوگیا لیکن اس نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا۔ راجا عرب گیا، عرب ہی میں انتقال ہوا۔ مرتے وقت اس نے تاکید کی کہ ہم سبھی کا مقصد اسلام کی اشاعت ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگ مالابار اپنا تجارتی سفرجاری رکھیں، وہاں قیام کریں، مکان بنائیں اورلوگوں کو دین حق کی طرف متوجہ کریں۔ راجا نے اپنی زبان میں خطوط بھی لکھ کر عرب تاجروں کے حوالے کیے۔ جب انھوں نے وہ خطوط مالابار کے حاکم کو دکھائے تو وہ مہربان ہوگیا۔ اس طرح اشاعت اسلام کی راہ یہاں ہموار ہوئی اورمسلمانوں نے کولم، گرنگانور، کالی کٹ، منگلور، کاسہ کوڈ وغیرہ کئی مقامات پر مساجد تعمیر کیں۔
مدراس اور مالابار کے اطراف میں جو لوگ بستے تھے وہ ویدک یا برہمنی مذہب کے پیرو نہیں تھے۔ ان کی اکثریت ہندستان کے قدیم باشندوں پر مشتمل تھی جن کو آریوںنے اس علاقے میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ مالابار اور اس کے اطراف میں جو پرانی قوم آباد ہے، وہ نائر کہلاتی ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی باقاعدہ مذہب نہ تھا۔ ہندو اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسلام میں انھوںنے اپنی عزت محسوس کی اور تیزی سے یہ قوم اسلام کی طرف بڑھی۔ یہ پورا علاقہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوجاتا اگر یہاںپرتگیز نہ پہنچتے۔ پرتگیزوں نے عربوں کی تجارت کا راستہ بند کردیا اور یہاں کے لوگوںکو مجبور کیا کہ وہ عرب اور مصر سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ عرب سے ہندستان کے ساتھ تجارتی تعلقات اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے۔ عرب تاجر خلیج فارس کی بندرگاہوں سے ہوتے ہوئے سندھ آتے تھے اور پھر سمندر کے کنارے کنارے کوکن اور گجرات کے ساحل سے گزر کر مدراس پہنچتے اور یہاںسے مشرقی بنگال اورآسام ہوکر چین کی طرف نکل جاتے تھے۔ راستے میں مالدیپ، سیلون، جاوا، سماترا، سنگاپور اور دوسرے جزائر کا بھی رخ کرتے تھے۔ پرتگیزوں نے مالابار اور اس کے اطراف میں اسلام کی اشاعت کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ورنہ اس علاقے کا نقشہ آج کچھ دوسرا ہوتا۔ عرب اور ایران کے سوداگروں کی کوشش سے گجرات اور دکن کا علاقہ پورا کا پورا مسلمان ہوجاتا۔ پندرھویں صدی عیسوی کی ابتدا میں مالابار کی کل آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان تھا۔ شیخ شریف بن ملک کے اثر سے بھی مالابار کے ایک راجا نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ واقعہ دوسری صدی ہجری کا ہے۔
اس کے بعد یہاںاسلام کی اشاعت تیزی سے ہونی شروع ہوگئی۔ تاریخ فرشتہ کی رُوسے ہندستان میںاسلام کا پہلا مرکز سیلون ہے اور تحقیق کے لیے جو پہلا وفد عرب روانہ ہوا تھا اس کا تعلق بھی سیلون ہی سے تھا۔ عرب تاجروں کے قافلوں کی آمد کا ایک سلسلہ یہاں قائم ہوگیا تھا۔ لنکا کے راجا کو صحابہ کے عہد مبارک (۴۰ھ) ہی میں مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
جنوبی ہند کی ایک قوم (راوتسن) ہے۔ اس کی زبان تامل ہے اورآج کل یہ زیادہ تر مدادورہ، تنولی، کوٹمبٹو، شمالی اراکاٹ اورنیل گری کے اضلاع میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند مبلغوں کی تلقین سے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور سید نثار شاہ (۹۶۹ء-۱۰۳۹ء)تھے۔ موصوف نے ترچناپلی میں سکونت اختیار کی تھی۔ مسلمانوںنے ان کے نام پر ترچناپلی کا نام نثارنگر رکھا تھا۔ اس قوم کے لوگ ان مبلغوں کی قبروں کا آج تک احترام کرتے ہیں۔ ان مبلغوں میں سیّدابراہیم شہید بھی قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں شاہ حمید (۱۵۳۲ء -۱۶۰۰ء) کا نام بھی معروف ومشہور ہے۔ یہ شمالی ہند مانک پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ دعوتی اسفار میںصرف کیا۔ آخر میں انھوںنے ناگور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ جنوبی ہند میں ایک قوم دودکلا ہے۔ اس قوم کا پیشہ کپاس صاف کرنا اور کپڑے بننا ہے۔ اس قوم کا بیان ہے کہ یہ قوم بابا فخرالدین کی تبلیغ سے اسلام میںداخل ہوئی۔
ہدایت کے لیے مدراس بھی چند بزرگوں کا رہین منت ہے جن میں سب سے زیادہ معروف ومشہور سیّدنثارشاہ ہیں، جن کا مزار چناپلی میںہے اور دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ہیں، جن کامزار ارداری میں ہے۔ تیسرے بزرگ شاہ الحامد ہیں جن کا مزار ناگپور میں ہے۔ نیوگنڈہ کی طرف کی مسلم آبادی بالعموم اسلام لانے میں اپنے کو بابا فخرالدین کی رہین منت سمجھتی ہے۔ بابافخرالدین ہی کی شخصیت ہے جن کے ہاتھ پر وہاں کا راجا بھی مسلمان ہوا تھا۔
سید حسین سمنانی (م:۷۷۳ھ) شاہ شہاب الدین کے عہد میں کشمیر تشریف لائے۔ چودھویں صدی کے آخر میں سید علی احمد ہمدانی سات سیدوں کے ہمراہ ایران سے تشریف لاکر کشمیر میں سکونت پذیر ہوئے اوراسلام کی تبلیغ واشاعت میں لگ گئے۔ پندرھویں صدی کے آخر میں ایک شیعہ مبلغ شمس الدینؒ عراق سے آئے۔ ان کے ہاتھ پر بھی بہت سے ہندو ایمان لے آئے۔ کستوار کا راجپوت راجا سید شاہ فریدالدین کی کرامت سے متاثر ہوکر دائرئہ اسلام میںداخل ہوا۔ اس کی پیروی میں اس کی اکثر رعایا نے بھی اسلام قبول کیا۔ سیف الدین خاندانی برہمن حضرت سیدمیر محمد ہمدانی کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ سید میرمحمد نے کشمیر میں مستقل سکونت اختیارکرلی تھی۔ ان کے اخلاق وکردار اورکرامات سے اس قدر لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔
شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے ایک مرید خاص شیخ علاء الدین علا الحق ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے مرشد کے انتقال کے بعد رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے ذریعے سے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔ شیخ علا الحق سے زیادہ اسلام کو فروغ ان کے صاحبزادے نورالحق کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بنگال میں اسلام کی کافی اشاعت ہوئی۔
ریاض السلاطین جوبنگال کی سیاسی تاریخ ہے، اس میں لکھا ہے کہ جب راجا گنیش تخت پر بیٹھا تو اس نے بہت سے علما ومشائخ کو قتل کرا دیا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ بنگال میں اسلام کی اشاعت نہ ہو۔ شیخ نورالحق نے جو ’نور قطب عالم‘ کے لقب سے مشہور ہوئے، جون پور کے بادشاہ ابراہیم شرفی کو مدد کے لیے لکھا۔ جون پور سے ایک بڑی فوج بنگال کے لیے روانہ ہوئی۔ راجاڈرا، اس نے شیخ سے سفارش کرانی چاہی۔ شیخ نے اسے اسلام کی تلقین کی۔ راجا تو نہیں مگر اس کی اجازت سے اس کا بیٹا جدومسلمان ہوگیا۔ فوج واپس ہوگئی۔ راجا گنیش کے مرنے کے بعد جدوسلطان جلال الدین ابومظفرشاہ کے نام سے تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں بنگال میں کثرت سے اسلام پھیلا۔ حضرت نور قطب عالم کی وفات ۱۸۱۸ء مطابق ۱۴۱۵ھ میںہوئی۔ حضرت نور قطب کے بعد ان کے بیٹوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام جاری رکھا۔ ان میں سے شیخ حسام الدین نے اس سلسلے میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ یہ بزرگ صاحب ِتصانیف تھے۔
سیدشاہ فریدالدینؒ نے کستوار کے راجا کواسلام میںداخل فرمایا۔ اس کے ذریعے سے اس علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ زمانہ عالم گیر کا ہے۔ ناسک میں اب تک حضرت محمدصادق سرمستؒ اورخواجہ اخوندمیر حسینیؒ کی برکتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دھاڑواڑ کے لوگ اپنے اسلام کو حضرت شیخ ہاشم گجراتی کا فیض بتاتے ہیں۔ حضرت شیخ ہاشم، ابراہیم عادل شاہ کے مرشد تھے۔
بہت سے بزرگ محمودغزنوی کے ساتھ ہندستان آئے تھے۔ انھوں نے دعوت وارشاد کا کام ہندستان میں رہ کر کیا۔ ان داعیان میں ایک مشہور بزرگ شیخ ابوشکورسالمیؒ بھی تھے جو ابومحمدچشتیؒ کے حکم سے محمودغزنوی کے ساتھ ہندستان آئے۔ موصوف نے میو قوم کو اسلام کی دعوت دی اور اشاعتِ دین کی غرض سے ان کے درمیان سکونت اختیار کی۔ مخدوم علی ہجویری لاہوریؒ کے ہاتھ پر کثیرتعداد میں لوگ ایمان لائے جن میں سے رائے راجو کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ آپ نے اسے شیخ ہندی کا لقب عطا فرمایا۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ جوق درجوق لوگ آپ کے دست مبارک پر ایمان لے آئے۔ سیداحمد توختہ ترمذی نے لاہورکو اپنا وطن بنایا۔ آپ کے ذریعے سے ہزاروں اشخاص کو ایمان کی دولت حاصل ہوئی۔
o حضرت عبداللہ بن سَرجِس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُسنِ کردار (نیک چال چلن) بُردباری اور اعتدال و میانہ روی ، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔ (ترمذی)
یعنی یہ اوصاف معمولی اور کم درجے کے نہیں ہیں۔ ان اوصاف کو انبیا علیہم السلام کی سیرت میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ جو شخص جس قدر اپنی سیرت و کردار میں ان اوصاف کو جگہ دے گا، وہ اسی قدر فیضانِ نبوت سے فیض یاب سمجھا جائے گا۔
اعتدال و میانہ روی زندگی کے ہر معاملے میں مطلوب ہے۔ دانش مند وہی ہے، جو زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط کے بجاے معتدل طرزِعمل اختیار کرے۔
oحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین آسان ہے اور دین سے جب بھی کسی نے زورآزمائی کی اور اس میں شدت اختیار کی، دین نے اسے ہرا دیا۔ پس، میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور خوش خبری لو اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے سے مدد حاصل کرو۔(بخاری)
مطلب یہ ہے کہ دین، انسان کے لیے مصیبت بن کر نہیں اُترا ہے۔ دین درحقیقت زندگی کے صحیح اور فطری طرزِعمل کا نام ہے۔ فطرت کی راہ پر چلنا ہی انسان کے لیے آسان ہے، اِلاّ یہ کہ کوئی اپنی فطرت ہی کا باغی ہوجائے۔ کم فہمی، عاقبت نااندیشی اور دوسرے غلط محرکات کی بنا پر اکثر ایسا ہوا ہے کہ آسان اور فطری دین کو لوگوں نے اپنے لیے مصیبت بنا لیا اور اپنی خودساختہ سختی اور مشقت کو مذہب کی طرف منسوب کر دیا۔
اس حدیث سے جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ دین میں تمھارے لیے معتدل طرزِعمل پسند کیا گیا ہے، جس کو تم اختیار کرسکو۔ اس لیے دین میں غلو اور شدت پسندی سے ہرگز کام نہ لو۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی طرف سے کوئی ایسا طرزِعمل اختیار کرو، جو اعتدال سے ہٹا ہوا ہو۔ زندگی کے توازن کو برقرار رکھو، ہر ذمہ داری کو ملحوظ رکھو، صبح و شام اللہ کی عبادت کرو اور رات کے کچھ حصے میں بھی اس کے حضور میں کھڑے رہو۔ اس طرح اپنے لیے وہ قوت فراہم کرتے رہو، جس سے تمھارے لیے سفرِحیات کی دشواریاں آسان ہوجائیں اور تم خوشی اور مسرت کے ساتھ کامیابی سے ہم کنار ہوسکو۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز (البقرہ ۲:۱۸۵) ’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمھارے لیے سختی نہیں چاہتا‘‘۔
oحضرت ابو عبداللہ جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا، آپؐ کی نماز بھی اعتدال کے ساتھ تھی اور آپؐ کا خطبہ بھی اعتدال کے ساتھ تھا۔(مسلم)
یعنی نہ تو آپ نے بہت طویل نماز پڑھائی اور نہ بہت مختصر۔ یہی حال آپؐ کے خطبے کا بھی تھا۔ خطبے میں ایسی طوالت نہ تھی کہ سامعین گھبرا جائیں۔
oحضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: کسی شخص کی نماز کی طوالت اور اس کے خطبے کا اختصار اس کے فقیہ (دین کا فہم رکھنے والا)ہونے کی دلیل ہے، لہٰذا نماز کو لمبی کرو اور خطبے کو مختصر رکھو۔ یقینا بعض خطبے جادو ہوتے ہیں۔(مسلم)
مطلب یہ ہے کہ خطبہ بہت طویل نہیں ہونا چاہیے۔ خطبے کے مقابلے میں نماز طویل ہونی چاہیے۔ یہ بڑی ناسمجھی کی بات ہوگی کہ آدمی نماز تو بہت ہی مختصر پڑھائے، مگر خطبہ اس کا بہت طویل ہو۔ بعض خطبے ایسے بلیغ ہوتے ہیں جن میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ خطبے کا اختصار اس کی اثرانگیزی کو کم نہیں کرتا بلکہ اس سے اس کی اثرانگیزی میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
oحضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرما رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ ابواسرائیل ہیں۔ انھوں نے نذر مانی ہے کہ وہ دھوپ میں کھڑے رہیں گے، نہ بیٹھیں گے اور نہ سایہ لیں گے، نہ بات چیت کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: ان سے کہو کہ بات چیت کریں، سایہ لیں، بیٹھیں اور روزہ پورا کریں۔(بخاری)
مطلب یہ ہے کہ دین و شریعت سے مقصود آدمی کی جسمانی تعذیب اور نفس کشی ہرگز نہیں ہے۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے، وہ ہےتزکیۂ نفس اور انضباطِ نفس، نہ کہ نفس کشی۔ خواہشاتِ نفس پر قابو پانے کے لیے روزہ کافی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی نے غلط اور غیرشرعی قسم کی کوئی نذر اور منت مانی ہے، تو اس کا پورا کرنا ہرگز واجب نہیں ہے بلکہ اس کا نہ کرنا ضروری ہے۔
oحضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے، جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔(بخاری ، مسلم)
عمل پر پابندی اختیار کرنے کی بڑی اہمیت ہے۔ مومن کا ہر نیک عمل اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جو اس کا اپنے ربّ سے ہوتا ہے۔ کسی نیک عمل کو اختیار کر کے اسے چھوڑ دینے کے معنی صرف اس عمل کو چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ اس سے اس تعلق کو بھی صدمہ پہنچتا ہے، جو آدمی کا اپنے ربّ سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز کبھی بھی پسندیدہ نہیں ہوسکتی کہ آدمی کے اس تعلق اور نسبت میں کسی قسم کی کمی پیدا ہو، جو اس نے اپنے ربّ سے قائم کی ہو۔ عمل پر پابندی اسی وقت ممکن ہے، جب کہ آدمی کا شعور بیدار ہو اور وہ عبادت و اعمال میں معتدل طرزِعمل اختیار کرے، اتنا ہی بوجھ اُٹھائے جتنا وہ اُٹھا سکتا ہو۔ یوں اعتدال کے راستے کو اختیار کرکے وہ اپنی زندگی میں بھی توازن پیدا کرسکتا ہے۔
oحضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ فلاں خاتون ہیں اور ان کی نماز کا بہت چرچا ہے (یہ نمازیں زیادہ پڑھتی ہیں)۔
آپؐ نے فرمایا: رُک جائو! تم پر اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم میں طاقت ہو۔ اللہ نہ اُکتائے گا جب تک تم نہ اُکتائو۔ اللہ کو وہی دین و طاعت زیادہ محبوب ہے، جس پر اس کا اختیار کرنے والا پابندی اختیار کرے۔ (بخاری ، مسلم)
آدمی کی وہی طاعت و بندگی اور عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور حقیقت کی نگاہ میں معتبر ہے جو محض وقتی اور چند روزہ نہ ہو، بلکہ وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی ہو۔
oحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔
فرمایا: مجھ کو بھی نہیں سواے اس کے کہ مجھے اللہ اپنی رحمت میں چھپا لے، لہٰذا میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے میں (عبادت کرو)، میانہ رفتار سے چلتے رہو، منزلِ مقصود کو پہنچ جائو گے۔(بخاری ، مسلم)
یعنی آدمی کو یہ غلط فہمی ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے عمل کے بل پر جنت میں داخل ہوگا۔ طاعت و بندگی کا حق کس سے ادا ہوسکا ہے۔ آدمی کے لیے صحیح طرزِعمل یہی ہوسکتا ہے کہ وہ زندگی میں اعتدال کی روش اختیار کرے اور اللہ کی رحمت و مغفرت پر بھروسا رکھے۔ یقینا اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوگی، اور وہ منزلِ مقصود پر پہنچ جائے گا۔
oحضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اُوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو، وہ ان کے باقیات راہب خانوں اور کنیسائوں میں موجود ہیں۔یہ انھی کی یادگار ہیں۔ رہبانیت کی راہ انھوں نے خود نکالی تھی۔ یہ طریقہ اللہ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ (ابوداؤد)
مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو احکام بھی دیے ہیں، وہ فطری اور قابلِ عمل ہیں۔ تم خود اپنے لیے پابندیاں اور سختیاں نہ ایجاد کرو۔ اس سے پہلے ایک قوم (یہود و نصاریٰ) نے دینِ فطرت کی خلاف ورزی کی اور اپنے لیے طرح طرح کی سختیاں اور مشقتیں گھڑلیں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے ساتھ سختی فرمائی۔ رہبانیت اور ویراگ کی رسم عیسائیوں نے خود ایجاد کی تھی۔ اس کا حکم اللہ نے انھیں نہیں دیا تھا۔ آج بھی راہب خانوں اور کنیسائوں میں جو لوگ پائے جاتے ہیں، وہ اسی زمانے کی یادگار ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ فطری اور متوازن دین پر عمل پیرا ہوں۔ ان لوگوں کی روش ہرگز اختیار نہ کریں، جنھوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ پہچانی۔ زندگی کے فطری راستے سے ہٹ گئے۔(الحدید ۵۷:۲۷)
oحضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ دین موزوں اور مضبوط ہے، اسے نرمی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ (خواہ مخواہ کی سختیاں ایجاد کر کے) اللہ کی عبادت سے اپنے دل متنفر نہ کرو، کیونکہ زیادہ تیز رو مسافر نہ سفر طے کرپاتا ہے اور نہ سواری بچ پاتی ہے (یعنی وہ اپنی سواری کو ہلاک کر دیتا ہے اور منزلِ مقصود تک بھی پہنچ نہیں پاتا)‘‘۔(بیہقی)