مولانا محمد فاروق خان | دسمبر ۲۰۱۶ | اشارات
o حضرت عبداللہ بن سَرجِس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُسنِ کردار (نیک چال چلن) بُردباری اور اعتدال و میانہ روی ، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔ (ترمذی)
یعنی یہ اوصاف معمولی اور کم درجے کے نہیں ہیں۔ ان اوصاف کو انبیا علیہم السلام کی سیرت میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ جو شخص جس قدر اپنی سیرت و کردار میں ان اوصاف کو جگہ دے گا، وہ اسی قدر فیضانِ نبوت سے فیض یاب سمجھا جائے گا۔
اعتدال و میانہ روی زندگی کے ہر معاملے میں مطلوب ہے۔ دانش مند وہی ہے، جو زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط کے بجاے معتدل طرزِعمل اختیار کرے۔
oحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین آسان ہے اور دین سے جب بھی کسی نے زورآزمائی کی اور اس میں شدت اختیار کی، دین نے اسے ہرا دیا۔ پس، میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور خوش خبری لو اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے سے مدد حاصل کرو۔(بخاری)
مطلب یہ ہے کہ دین، انسان کے لیے مصیبت بن کر نہیں اُترا ہے۔ دین درحقیقت زندگی کے صحیح اور فطری طرزِعمل کا نام ہے۔ فطرت کی راہ پر چلنا ہی انسان کے لیے آسان ہے، اِلاّ یہ کہ کوئی اپنی فطرت ہی کا باغی ہوجائے۔ کم فہمی، عاقبت نااندیشی اور دوسرے غلط محرکات کی بنا پر اکثر ایسا ہوا ہے کہ آسان اور فطری دین کو لوگوں نے اپنے لیے مصیبت بنا لیا اور اپنی خودساختہ سختی اور مشقت کو مذہب کی طرف منسوب کر دیا۔
اس حدیث سے جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ دین میں تمھارے لیے معتدل طرزِعمل پسند کیا گیا ہے، جس کو تم اختیار کرسکو۔ اس لیے دین میں غلو اور شدت پسندی سے ہرگز کام نہ لو۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی طرف سے کوئی ایسا طرزِعمل اختیار کرو، جو اعتدال سے ہٹا ہوا ہو۔ زندگی کے توازن کو برقرار رکھو، ہر ذمہ داری کو ملحوظ رکھو، صبح و شام اللہ کی عبادت کرو اور رات کے کچھ حصے میں بھی اس کے حضور میں کھڑے رہو۔ اس طرح اپنے لیے وہ قوت فراہم کرتے رہو، جس سے تمھارے لیے سفرِحیات کی دشواریاں آسان ہوجائیں اور تم خوشی اور مسرت کے ساتھ کامیابی سے ہم کنار ہوسکو۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز (البقرہ ۲:۱۸۵) ’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمھارے لیے سختی نہیں چاہتا‘‘۔
oحضرت ابو عبداللہ جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا، آپؐ کی نماز بھی اعتدال کے ساتھ تھی اور آپؐ کا خطبہ بھی اعتدال کے ساتھ تھا۔(مسلم)
یعنی نہ تو آپ نے بہت طویل نماز پڑھائی اور نہ بہت مختصر۔ یہی حال آپؐ کے خطبے کا بھی تھا۔ خطبے میں ایسی طوالت نہ تھی کہ سامعین گھبرا جائیں۔
oحضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: کسی شخص کی نماز کی طوالت اور اس کے خطبے کا اختصار اس کے فقیہ (دین کا فہم رکھنے والا)ہونے کی دلیل ہے، لہٰذا نماز کو لمبی کرو اور خطبے کو مختصر رکھو۔ یقینا بعض خطبے جادو ہوتے ہیں۔(مسلم)
مطلب یہ ہے کہ خطبہ بہت طویل نہیں ہونا چاہیے۔ خطبے کے مقابلے میں نماز طویل ہونی چاہیے۔ یہ بڑی ناسمجھی کی بات ہوگی کہ آدمی نماز تو بہت ہی مختصر پڑھائے، مگر خطبہ اس کا بہت طویل ہو۔ بعض خطبے ایسے بلیغ ہوتے ہیں جن میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ خطبے کا اختصار اس کی اثرانگیزی کو کم نہیں کرتا بلکہ اس سے اس کی اثرانگیزی میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
oحضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرما رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ ابواسرائیل ہیں۔ انھوں نے نذر مانی ہے کہ وہ دھوپ میں کھڑے رہیں گے، نہ بیٹھیں گے اور نہ سایہ لیں گے، نہ بات چیت کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: ان سے کہو کہ بات چیت کریں، سایہ لیں، بیٹھیں اور روزہ پورا کریں۔(بخاری)
مطلب یہ ہے کہ دین و شریعت سے مقصود آدمی کی جسمانی تعذیب اور نفس کشی ہرگز نہیں ہے۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے، وہ ہےتزکیۂ نفس اور انضباطِ نفس، نہ کہ نفس کشی۔ خواہشاتِ نفس پر قابو پانے کے لیے روزہ کافی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی نے غلط اور غیرشرعی قسم کی کوئی نذر اور منت مانی ہے، تو اس کا پورا کرنا ہرگز واجب نہیں ہے بلکہ اس کا نہ کرنا ضروری ہے۔
oحضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے، جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔(بخاری ، مسلم)
عمل پر پابندی اختیار کرنے کی بڑی اہمیت ہے۔ مومن کا ہر نیک عمل اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جو اس کا اپنے ربّ سے ہوتا ہے۔ کسی نیک عمل کو اختیار کر کے اسے چھوڑ دینے کے معنی صرف اس عمل کو چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ اس سے اس تعلق کو بھی صدمہ پہنچتا ہے، جو آدمی کا اپنے ربّ سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز کبھی بھی پسندیدہ نہیں ہوسکتی کہ آدمی کے اس تعلق اور نسبت میں کسی قسم کی کمی پیدا ہو، جو اس نے اپنے ربّ سے قائم کی ہو۔ عمل پر پابندی اسی وقت ممکن ہے، جب کہ آدمی کا شعور بیدار ہو اور وہ عبادت و اعمال میں معتدل طرزِعمل اختیار کرے، اتنا ہی بوجھ اُٹھائے جتنا وہ اُٹھا سکتا ہو۔ یوں اعتدال کے راستے کو اختیار کرکے وہ اپنی زندگی میں بھی توازن پیدا کرسکتا ہے۔
oحضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ فلاں خاتون ہیں اور ان کی نماز کا بہت چرچا ہے (یہ نمازیں زیادہ پڑھتی ہیں)۔
آپؐ نے فرمایا: رُک جائو! تم پر اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم میں طاقت ہو۔ اللہ نہ اُکتائے گا جب تک تم نہ اُکتائو۔ اللہ کو وہی دین و طاعت زیادہ محبوب ہے، جس پر اس کا اختیار کرنے والا پابندی اختیار کرے۔ (بخاری ، مسلم)
آدمی کی وہی طاعت و بندگی اور عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور حقیقت کی نگاہ میں معتبر ہے جو محض وقتی اور چند روزہ نہ ہو، بلکہ وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی ہو۔
oحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔
فرمایا: مجھ کو بھی نہیں سواے اس کے کہ مجھے اللہ اپنی رحمت میں چھپا لے، لہٰذا میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے میں (عبادت کرو)، میانہ رفتار سے چلتے رہو، منزلِ مقصود کو پہنچ جائو گے۔(بخاری ، مسلم)
یعنی آدمی کو یہ غلط فہمی ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے عمل کے بل پر جنت میں داخل ہوگا۔ طاعت و بندگی کا حق کس سے ادا ہوسکا ہے۔ آدمی کے لیے صحیح طرزِعمل یہی ہوسکتا ہے کہ وہ زندگی میں اعتدال کی روش اختیار کرے اور اللہ کی رحمت و مغفرت پر بھروسا رکھے۔ یقینا اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوگی، اور وہ منزلِ مقصود پر پہنچ جائے گا۔
oحضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اُوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو، وہ ان کے باقیات راہب خانوں اور کنیسائوں میں موجود ہیں۔یہ انھی کی یادگار ہیں۔ رہبانیت کی راہ انھوں نے خود نکالی تھی۔ یہ طریقہ اللہ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ (ابوداؤد)
مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو احکام بھی دیے ہیں، وہ فطری اور قابلِ عمل ہیں۔ تم خود اپنے لیے پابندیاں اور سختیاں نہ ایجاد کرو۔ اس سے پہلے ایک قوم (یہود و نصاریٰ) نے دینِ فطرت کی خلاف ورزی کی اور اپنے لیے طرح طرح کی سختیاں اور مشقتیں گھڑلیں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے ساتھ سختی فرمائی۔ رہبانیت اور ویراگ کی رسم عیسائیوں نے خود ایجاد کی تھی۔ اس کا حکم اللہ نے انھیں نہیں دیا تھا۔ آج بھی راہب خانوں اور کنیسائوں میں جو لوگ پائے جاتے ہیں، وہ اسی زمانے کی یادگار ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ فطری اور متوازن دین پر عمل پیرا ہوں۔ ان لوگوں کی روش ہرگز اختیار نہ کریں، جنھوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ پہچانی۔ زندگی کے فطری راستے سے ہٹ گئے۔(الحدید ۵۷:۲۷)
oحضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ دین موزوں اور مضبوط ہے، اسے نرمی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ (خواہ مخواہ کی سختیاں ایجاد کر کے) اللہ کی عبادت سے اپنے دل متنفر نہ کرو، کیونکہ زیادہ تیز رو مسافر نہ سفر طے کرپاتا ہے اور نہ سواری بچ پاتی ہے (یعنی وہ اپنی سواری کو ہلاک کر دیتا ہے اور منزلِ مقصود تک بھی پہنچ نہیں پاتا)‘‘۔(بیہقی)