اصلاح و تعمیر کی سعی کرنے والوں کو جن بڑی بڑی بُرائیوں سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، ان میں [شامل ہیں] کبر، ریا اور فسادِ نیت۔ اسلامی عقیدہ و اخلاق کے نقطۂ نظر سے ان کی حیثیت بنیادی عیوب کی ہے.... اس لیے اِن کا کوئی شائبہ تک اُن لوگوں میں نہ پایا جانا چاہیے جو مسلم معاشرے کی اصلاح اور اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کا نیک ارادہ لے کر اُٹھیں۔
دوسرا درجہ اُن بُرائیوں کا ہے جو اساس و بنیاد کو تو نہیں ڈھاتیں مگر اپنی تاثیر کے لحاظ سے کام بگاڑنے والی ہیں، اور اگر تساہل و تغافل برت کر اُن کو پرورش پانے دیا جائے تو تباہ کُن ثابت ہوتی ہیں۔ اگرچہ معاشرے کی صحت کے لیے ہرحال میں اِن عیوب کا سدِباب ضروری ہے لیکن ان افراد اور جماعتوں کو توان سے بالکل پاک رہنا چاہیے جن کے پیش نظر اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین حق کا مقصد عظیم ہو....
انسان کی کمزوریوں میں سب سے بڑی اور سخت فساد انگیز کمزوری ’نفسانیت‘ہے۔ اس کی اصل تو حُب ِ نفس کا وہ فطری جذبہ ہے جو بجاے خود کوئی بُری چیز نہیں بلکہ اپنی حد کے اندر ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ انسان کی فطرت میں اس کی بھلائی کے لیے ودیعت فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی فلاح و ترقی کے لیے کوشش کرے۔ لیکن جب یہی جذبہ شیطان کی اُکساہٹ سے عشقِ نفس اور پرستشِ نفس اور خود مرکزیت میں تبدیل ہوجاتا ہے تو مصدرِ خیر ہونے کے بجاے منبع شر بن جاتا ہے۔
بُرائی کی طرف اس جذبے کی پیش قدمی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جگہ اپنے آپ کو بے عیب اور مجموعۂ محاسن سمجھ بیٹھتا ہے، اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا احساس کرنے سے اغماض برتتا ہے اور اپنے ہر نقص یا قصور کی تاویل کر کے اپنے دل کو مطمئن کرلیتا ہے کہ مَیں ہرلحاظ سے بہت اچھا ہوں۔ یہ خود پسندی پہلے ہی قدم پر اُس کی اصلاح و ترقی کا دروازہ اُس کے اپنے ہاتھوں سے بند کرا دیتی ہے۔
پھر جب یہ ’من چہ خوب‘ کا احساس لیے ہوئے آدمی اجتماعی زندگی میں آتا ہے، تو اُس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اُس نے اپنے آپ کو فرض کر رکھا ہے، وہی کچھ دوسرے بھی اُسے سمجھیں۔ وہ صرف تعریف و تحسین سننا چاہتا ہے۔ تنقید اُسے گوارا نہیں ہوتی۔ خیرخواہانہ نصیحت تک سے اس کی خودی کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس طرح یہ شخص اپنے لیے داخلی وسائلِ اصلاح کے ساتھ خارجی وسائلِ اصلاح کا بھی سدِّباب کرلیتا ہے۔(’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۶ء، ص۲۱۸-۲۱۹)