۱۹۸۰ء میں غرناطہ کے دفترِ سیاحت میں، مَیں مسلمانوں کے کسی مرکز کا پتا دریافت کرنے گیا۔ایک بوسیدہ سے رجسٹر کی اُلٹ پلٹ کے بعد کائونٹر پر کھڑے شخص نے مجھے ایک پتا لکھوایا۔ یہ پتا میں نے ایک ٹیکسی والے کو دکھایا اور وہ مجھے بہت سی پیچ در پیچ گلیوں سے گزار کر ایک گلی میں واقع پرانے مکان پر لے گیا۔ میں نے ٹیکسی والے سے کچھ دیر انتظار کرنے کے لیے کہا تاکہ معلوم کرلوں کہ کیا اس نے مجھے ٹھیک جگہ پر پہنچایا ہے۔
مَیں مکان کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بڑے تھال کے گرد دنیا کے مختلف ممالک کے تقریباً ۱۵؍افراد روایتی اسلامی لباس، جبے اور قبے پہنے کھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کسی تعارف کے بغیر ہی ہاتھ کے اشارے سے مجھے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ میں نے گھر سے باہر نکل کر ٹیکسی ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے رخصت کیا، اور دوبارہ اندر داخل ہوکر کھانے کے تھال کے گرد حلقہ باندھے ہوئے مجمعے میں شامل ہوگیا۔ ان شرکا کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل تھی جن کو عرفِ عام میں ’ہپی‘ (Hippie) اور ’بے فکرے‘ کہتے تھے۔
اس مجمعے میں برطانیہ کے انگریز، مراکش کے عرب اور خود غرناطہ کے نومسلم شامل تھے۔ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی، جب تعارف کے بعد ایک شریکِ محفل نے میرے ساتھ پشتو میں گفتگو شروع کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں مکمل امن تھا اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے سوات، پشاور اور افغانستان ایک جنّت نظیر بنا ہوا تھا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد غرناطہ کے ایک نومسلم ساتھی نے مجھے غرناطہ کی سیر کے لیے دعوت دی تو میں نے اس مہربان سے کہا:’’ غرناطہ کی گلی کوچوں میں پیدل چل کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی‘‘۔انھوں نے مجھے غرناطہ کی ایک خصوصیت تو یہ بتائی کہ: ’’جن مکانات پر باہر سے سفیدی کرائی گئی ہے، یہ اسلامی دور کی یادگار ہیں‘‘۔ دوسری خصوصیت اس نے یہ بتائی کہ: ’’جن مکانات کی کھڑکیوں کی اُونچائی قد ِ آدم سے اُوپر ہے، ان مکانات میں روایتی پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے‘‘۔
ہم غرناطہ کے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کھلی شاہراہ پر پہنچے۔یہاں کئی جگہ میرے ساتھی نے راستے میں کچھ لوگوں سے دُعا سلام کی۔ جس سے مجھے یوں لگا کہ میں مسلم اندلس میں گھوم رہا ہوں، جہاں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ: ’’غرناطہ میں اندلسی نومسلموں کی تعداد کُل ۳۰۰ ہے، لیکن رات کے وقت جب ہم سڑکوں پر گھومتے پھرتے آپس میں ملتے اور دعا سلام کرتے ہیں تو اجنبیوں کو یوں لگتا ہے جیسے پورا شہر مسلم آبادی سے بھرا ہوا ہے‘‘۔
آپس میں گفتگو کرتے ہوئے ہم کھانے کے لیے ایک ریستوران میں بیٹھ گئے۔ اندلسیوں کی سرزمین غرناطہ میں ایک مسلمان نوجوان کی رفاقت سے میرا دل جذباتِ مسرت سے لبریز تھا۔ میرا ساتھی بڑی سنجیدگی سے مجھے بتا رہا تھا: ’’اسلام پتھر کی طرح جامد وجود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ہرے بھرے درخت کی طرح زندہ وجود ہے۔ اگر اسے نچلے تنے سے بھی کاٹا جائے تو اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں‘‘۔
اس اندلسی نوجوان کو یقین تھا:’’ا ندلس کی سرزمین پر اسلام کے جس تناور درخت کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اس درخت کی جڑیں اندلس کی سرزمین میں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس میں سے ان شاء اللہ نئی شاخیں پھوٹیں گی اور برگ و بار لائیں گی‘‘۔ اندلسی نوجوان کا یقین اتنا راسخ تھا کہ مجھے علّامہ محمداقبال کا یہ شعر یاد آنے لگا ؎
دانہ را کہ بآغوشِ زمین است ہنوز
شاخ در شاخ و برومند و جواں می بینم
(وہ دانہ جو ابھی زمین کے اندر چھپا ہوا ہے، میں اسے جوان، شاخ در شاخ اور پھل دار دیکھ رہا ہوں)۔
یہی حال ۱۹۷۰ء کے عشرے میں وسطِ ایشیا کا تھا۔ ہمارے افغان دوست، اسمگلروں کے ذریعے کچھ اسلامی کتابیں تاجکستان بھیجا کرتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ: ’’تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر بائیجان اور پھر کوہ قاف کے علاقوں (چیچنیا اور داغستان) اور روسی فیڈریشن میں شامل تاتارستان وغیرہ ایک بار پھر اسلامی دنیا کا حصہ بنیں گے‘‘۔
لیکن اشتراکی روس کے حلقہ بگوش حلقے، جن میں پاکستانی کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نام نہاد قوم پرست بھی شامل تھے، ہمارے اس یقین کو زعمِ باطل سمجھتے تھے اور ہمارا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’ان علاقوں کو بھول جائو۔ وہاں اب مسلمان نہیں بلکہ سویٹ انسان بستے ہیں، جنھوں نے مذہب کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف کبھی نہیں گھومے گا۔ یہ اب آگے کی طرف ہی گھومے گا اور اشتراکی تحریک وسط ایشیا سے افغانستان کے راستے پاکستان کا رُخ کرے گی‘‘۔
تاہم، اسلام نے وسطِ ایشیا کے تمدن پر اتنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہ ۷۰سال تک جبر کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود، اشتراکی روس کے ٹوٹتے ہی اسلامی تہذیب ان علاقوں میں نمودار ہونے لگی اور استعماری طاقتوں کو تشویش لاحق ہوگئی کہ مشرقی یورپ سے مشرقی ترکستان تک پھیلا ہوا ترک مسلمانوں کا وسیع و عریض خطہ اگر پھر اسلامی دنیا کے ساتھ ہم آغوش ہوگیا، تو اس نئی سپر طاقت کا مقابلہ کیوں کر ممکن ہوگا۔
اگرچہ اس وقت ظاہربین نظروں کو یہ دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی ہے، لیکن آج سے ۳۰،۳۵سال قبل سوویت یونین کی پسپائی بھی اسی طرح ناممکن نظر آتی تھی۔ ایک صاحب ِایمان کا وجدان، جن ممکنات کو دیکھ سکتا ہے وہ ایک منافق اور کافر کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒ کو یہ انقلاب ۷۰سال پہلے نظر آرہا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ؎
انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیرِ افلاک
بینم و ہیچ ندانم کہ چساں می بینم
(وہ انقلاب جو آسمانوں کے ضمیر میں نہیں سما سکتا، میں اسے دیکھ رہا ہوں اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسے دیکھ رہا ہوں۔)
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے یہی خواب دیکھا تھا کہ ان شاء اللہ اسلام کی احیا کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن اور کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔
آج سے تقریباً ۱۰۰سال قبل جب دنیا کی استعماری طاقتیں یورپ کے مرد بیمار (عثمانی سلطنت) کی آخری رسومات ادا کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں اور عثمانی خلافت کا خاتمہ کرکے وہ سمجھنے لگی تھیں کہ انھوں نے مصطفےٰ کمال کے ذریعے اسلامی خلافت کے بجاے سیکولرزم کو ترکی کے دستور کی بنیاد بنا دیا ہے تو علامہ محمد اقبال نے مصطفےٰ کمال کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا ؎
لادینی و لاطینی کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لاغالب الا ھو
مصطفےٰ کمال نے یہ سمجھا تھا کہ بڑی تعداد میں علما کو قتل کر کے اور عربی رسم الخط کو لاطینی رسم الخط میں تبدیل کر کے اور اسلام کے بجاے سیکولرزم اور لادینیت کو ملکی دستور کی بنیاد قرار دینے سے، وہ ترک قوم کا رشتہ اپنے شان دار ماضی سے کاٹنے میں کامیاب ہوجائے گا اور اسے یورپ کا ایک ملک بنادے گا لیکن حیف کہ اس کی نظر ترک قوم کے ضمیر میں گندھی ہوئی اسلامی اقدار تک نہ پہنچ سکی۔ ترکی میں اسلامی قوتوںنے اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنائی۔
علامہ بدیع الزماں سعید نورسی [۱۸۷۷ء-۲۳مارچ ۱۹۶۰ء]کی نوری تحریک اس جوابی حکمتِ عملی میں پیش پیش تھی۔ نوری رسائل کے ذریعے انھوں نے اپنا پیغام خاموشی سے پھیلانا شروع کیا۔ اسلام کے ساتھ محبت رکھنے والے ترک اس کے حلقہ بگوش ہوگئے اور سینہ بہ سینہ ان کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔ ان کے پیش نظر کوئی فوری تبدیلی یا انقلاب نہیں تھا، بلکہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی فکر کو بچانے کا ایک ۵۰سالہ منصوبہ لے کر خاموشی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے اور اب یہ خاموش لہریں جنھیں مغربی دنیا Creeping Islam (یعنی رینگتا ہو اسلام) کہتی ہے، دنیا کی توجہ کا مرکز بنتی دکھائی دے رہی ہیں ع
آسماں ہوگا سحر کے نُور سے آئینہ پوش