قاضی حسین احمد


۱۹۸۸ء کے اوائل میں، افغانستان پر جنیوا مذاکرات سوویت یونین [یعنی کمیونسٹ روسی سلطنت] اور افغانوں کے نمایندوں کے درمیان اقوام متحدہ کے توسط سے گفت و شنید کے آخری مرحلے میں تھے کہ اچانک سوویت روس نے فیصلہ سنا دیا کہ ’’ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں اور مجاہدین افغانستان کو سنبھال لیں‘‘۔ روس کے اس فیصلے نے اچانک پاکستان کی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔ جنیوا مذاکرات کے زیربحث چار نکات میں روسی فوجوں کے نکلنے کے بعد عبوری حکومت کے ڈھانچے کا نکتہ شامل نہیں تھا۔

روس اور امریکا نے جان بوجھ کر اور پاکستان کی حکومت نے کم فہمی کی بنا پر، ہماری وزارتِ خارجہ میں امریکی نفوذ کی بناپر یا اس خواہش کی بنا پر کہ افغان مجاہدین کی عبوری حکومت کے ڈھانچے کے بغیر وہاں کے معاملات کُلی طور پر حکومت ِ پاکستان ہی کے ہاتھ میں رہیں، جنیوا مذاکرات کے ایجنڈے کے اس خلا کو پُر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کا ڈھانچا کیا ہو؟ کون صدر بنے؟ کون وزیراعظم بنے؟ اختیارات کی تقسیم کیسے ہو؟ عبوری دستور کیا ہو؟ یہ سارے اہم سوالات تشنہ تھے کہ روس نے حکومت پاکستان اور مجاہدین کو مشکل میں ڈالنے اور باہمی آویزش کا شکار کرنے کے لیے فوری انخلا کی چال چلی۔

۱۹۹۲ء کے ابتدائی مہینوں میں اس تسلسل کے اگلے مرحلے پر مَیں وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب سے وقت لے کر ان کے سیکرٹریٹ میں ملاقات کی غرض سے پہنچا۔ اگرچہ اس وقت ہم ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ (IJI) سے نکل چکے تھے، لیکن ابھی نوازشریف کے ساتھ تعلقات اس حد تک قائم تھے کہ رابطہ کرکے اس اہم موقعے پر اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم ہائوس میں اس وقت استاذ بُرہان الدین ربانی [۲۰ ستمبر ۱۹۴۰ء- ۲۰ستمبر۲۰۱۱ء] موجود تھے، جو یا ملاقات کرچکے تھے یا میرے بعد ملاقات کے انتظار میں تھے۔ استاذ ربانی ۱۹۷۴ء میں کابل یونی ورسٹی میں پولیس کے گھیرے سے نکل کر اپنے دو شاگردوں کے ہمراہ پشاور میں میرے پاس آئے تھے۔ میرے ہاں پناہ لینے کا فیصلہ انھوں نے اس لیے کیا تھا کہ میں صدر سردار داؤد کے زمانے میں خطرہ مول لے کر مشکل حالات میں ان کی مدد کے لیے، اور کابل یونی ورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں موجود اسلامی تحریک کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے گیا تھا۔اس وقت گلبدین حکمت یار، استاذ ربانی اور استاد عبدالرسول سیاف [پ: ۱۹۴۶ء] ایک ہی تحریک میں شامل تھے اور مولوی محمدیونس خالص [۱۹۱۹ء- ۱۹جولائی ۲۰۰۶ء] بھی ان کے ساتھ مربوط تھے۔

بہرحال، اس اہم اور حساس موقعے پر مَیں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا کہ ’’مجاہدین کی دو اہم جماعتوں گلبدین حکمت یار [پ: یکم اگست ۱۹۴۹ء]کی ’حزبِ اسلامی‘ اور استاذ برہان الدین ربانی کی ’جمعیت اسلامی‘ کے درمیان پہلے مرحلے پر بنیادی فارمولا طے کر دیا جائے۔ افغان مجاہدین کے درمیان نزاع اور اختلاف ان دونوں کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر یہ دونوں آپس میں کسی فارمولے پر متفق ہوجائیں، تو باقی لوگوں کو آمادہ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ دونوں کسی فارمولے پر متفق نہ ہوسکے تو دونوں میں سے ہر ایک یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ افغانستان میں کوئی بڑا انتشار پیدا کردے‘‘۔ میں نے ان دونوں کے ساتھ کسی خصوصی تعلق کی بنا پر نہیں بلکہ ایک امرواقعہ کے طور پر یہ مشورہ دیا تھا۔

میاں نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ اسی دن شام کو گورنر ہائوس پشاور میں اجلاس منعقد کیا جائے، جس میں ان دونوں رہنمائوں کے ساتھ بات کی جائے۔ چنانچہ مجھے کہا گیا کہ میں ہیلی کاپٹر میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر (جو اس وقت انٹرسروسز انٹیلی جنس کے سربراہ تھے) کے ہمراہ پشاور پہنچ جائوں اور وہ خود بھی دوسرے ذریعے سے پشاور کے گورنر ہائوس میں پہنچ جائیں گے۔

گورنر ہائوس میں داخل ہوتے ہی معلوم ہوگیا کہ میرے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے، وہاں افغانستان کے تمام چھوٹے بڑے لیڈروں کو بلایا گیا ہے۔ نواز شریف صاحب میٹنگ چھوڑ کر کابل میں اقوام متحدہ کے نمایندے سے بات کرنے کے لیے باربار اُٹھ جاتے تھے۔ ایک موقعے پر اسی میٹنگ کے دوران میں انھوں نے پرچیاں تقسیم کروا دیں کہ ’’ہرایک شریک ِ اجلاس اپنی پرچی پر مجوزہ سربراہِ حکومت کا نام تجویز کردے۔ میں سمجھ گیا کہ معاملات کا فیصلہ کسی اور کو کرنا ہے۔ نوازشریف صاحب نہ خود کچھ جانتے ہیں نہ کسی اچھے مشورے پر عمل درآمد کروانے کی پوزیشن میں ہیں۔ چنانچہ جب ایک موقعے پر نواز شریف صاحب کابل سے آنے والا ٹیلی فون سننے کے لیے اُٹھ کر چلے گئے تو میں بھی اجلاس چھوڑ کر پشاور میں اپنے گھر چلا گیا۔

دو دن بعد یہ عجیب و غریب فارمولا سامنے آیا کہ ’’جس کے تحت صبغت اللہ مجددی [۲۱؍اپریل ۱۹۲۵ء-۱۲ فروری ۲۰۱۹ء] تین ماہ کے لیے صدر ہوں گے۔ ان کے تین ماہ بعد استاذ ربانی صدر ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے حکمت یار کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جب کہ وہ خود بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ انھوں نے کابل کو فتح کرلیا ہے اور وہ کسی ایسی گفت و شنید میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے، جس میں ان کی مرکزی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ظاہر ہے گلبدین حکمت یار اور استاذ ربانی کا اتحاد بڑی طاقتوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔

صبغت اللہ مجددی صاحب کا یہ پختہ خیال تھا کہ استاد ربانی اور حکمت یار کی افغانستان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ ’’یہ دونوں تو آپ لوگوں کی بنائی ہوئی مصنوعی قوتیں ہیں اور افغانستان میں اصل دینی اور مذہبی قوت مجددیوں کی ہے‘‘۔ انھوں نے نواز شریف صاحب اور بڑی طاقتوں کو بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ’’ایک دفعہ مختصر عرصے کے لیے ہی کیوں نہ سہی، مجھے صدر کے عہدے پر فائز کر دیا جائے۔ پھر اس کے بعد دیکھنا سارا افغانستان میرے ہاتھ کا بوسہ لینے اُمڈ پڑے گا اور افغانستان میں استاذ ربانی یا حکمت یار کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی‘‘۔

استاذ بُرہان الدین ربانی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سیاسی روابط قائم کررکھے تھے اور انھوں نے خصوصی طور پر اس بات پر توجہ دی تھی کہ وہ افغانستان کے تاجکوں کے متفقہ لیڈر بن جائیں۔ افغانستان میں عسکری قوت بڑھانے کے لیے انھوں نے سوویت یونین کے آخری دور میں فارسی بولنے والے کمیونسٹ جرنیلوں سے روابط بڑھائے تھے۔ احمد شاہ مسعود[۲ستمبر ۱۹۵۳ء-۹ستمبر ۲۰۰۱ء] کے ساتھ ان کا مضبوط اتحاد تھا، لیکن احمد شاہ مسعود نے اپنی فوجی قوت کی بنیاد پر اپنی آزاد حیثیت بھی برقرار رکھی تھی، اس لیے عسکری لحاظ سے استاذ ربانی ہمیشہ مسعود کے محتاج رہے۔ استاذ ربانی کی حیثیت اس عمارت کی دوسری منزل کی تھی، جس کی پہلی منزل احمد شاہ مسعود تھے۔ استاذ ربانی اپنے مزاج کے مطابق کبھی دوٹوک بات نہیں کہتے۔ ان کی ہربات کسی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ وہ بظاہر ہر بات مان لیتے، لیکن ’’اگر، مگر، بشرطیکہ‘‘ کے ساتھ مشروط کرکے وہ ہراتفاق سے نکل جاتے ہیں۔

افغانستان میں مجاہدین کے درمیان اختلافات کا آغاز ہی ربانی صاحب اور حکمت یار صاحب کے اختلاف سے ہوا تھا۔ حرکت انقلاب اسلامی کے مولوی محمد نبی محمدی صاحب [م:۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ آپ اپنے دو اخوانیوں میں صلح کرا دیں تو ہم سب کا مسئلہ حل ہوجائے، ساری مشکل ان دونوں میں ہے۔ مولوی محمد نبی صاحب کی اپنی جماعت کی تشکیل کا بنیادی سبب بھی یہی بنا تھا کہ حزب اور جمعیت میں اتحاد ہوا اور مولوی محمد نبی صاحب اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ مولوی محمد یونس خالص نے جو حزب اسلامی میں شامل تھے اتحاد میں شامل ہونے سے انکارکیا اپنی الگ حزب اسلامی کو برقرار رکھا۔ ایک ماہ بعد ربانی صاحب اور حکمت یار صاحب بھی الگ الگ ہوگئے اور مولوی محمد نبی نے اپنی جماعت جو اتحاد کی صورت میں وجود میں آئی تھی برقرار رکھی۔ اسی طرح اتحاد کی کوشش کے نتیجے میں دو سے چار جماعتیں بن گئیں۔ استاذ سیاف کی ’اتحاد اسلامی‘ بھی اتحاد کی کوششوں کے نتیجے میں بنی تھی جو اتحاد ٹوٹنے کے بعد الگ جماعت کے طور پر باقی رہ گئی۔

اتحاد کی کوششوں کے لیے مجالس ساری ساری رات چلتی رہتی تھیں۔ پشاور میں میرا مکان اس طرح کی مجالس کا مرکز تھا۔ جب عرب حکمرانوں نے دلچسپی لینی شروع کی تو عرب ممالک کے علما اور اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی۔ انھوں نے پشاور میں ڈیرے ڈال دیئے۔ اتحاد کی کوششوں میں وہ بھی شریک رہتے تھے۔ بظاہر یہ کوششیں مجاہدین گروپوں کے اتحاد کے لیے ہوتی تھیں لیکن تخریب کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا تھا۔ ان میں ہرملک کی خفیہ ایجنسی کے لوگ شامل رہتے تھے۔ بظاہر سب کا جامہ علمائے کرام اور شیوخ کا ہوتا تھا۔

ایک مجلس میں استاذ ربانی سے میں نے گزارش کی کہ استاذ آپ کوئی ایسی بات کردیں کہ اس کے آخر میں اما ولکن اور اِلَّا  (لیکن، اگر، مگر) نہ ہو‘‘۔لیکن اس گزارش کے باوجود یہ ایک امرواقعہ ہے کہ استاذ اما ولکن اور اِلَّا  (لیکن اگر، مگر) کے بغیر کوئی بات نہ کہہ سکے۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء]کی حکومت بھی ایک لیڈر کی قیادت میں مجاہدین کو متحد کرنے کی بالکل خواہش مند نہ تھی۔ حکومت ِ پاکستان اور آئی ایس آئی کی اس سلسلے میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ افغان اپنی قسمت کے خود مالک بن جائیں، اور افغانستان کو پاکستان کی ایک طفیلی ریاست بنانے کے شوق میں ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ افغانوں کے سارے گروپ بھی ناراض ہوگئے۔ احمدشاہ مسعود اور استاذ ربانی کا حکومت پاکستان سے بڑا شکوہ یہ تھا کہ وہ انجینئر حکمت یار کی حمایت کر رہی ہے۔ پھر خود ہمارے بارے میں بھی ربانی صاحب کو یہی شکایت تھی، حالانکہ ہم نے ہر دور میں افغانوں کے آپس کے اتحاد کی مخلصانہ کوشش کی۔

میاں نواز شریف صاحب نے جب تین ماہ کے لیے صبغت اللہ مجددی صاحب کی صدارت کا فیصلہ قبول کیا جو ربانی صاحب اور سیاف صاحب اور کچھ عرب شیوخ کے درمیان طے پاجانے والے فارمولے کا حصہ تھا اور حکمت یار کو بالکل نظرانداز کردیا، تو میں نے ایک امرواقعہ کے طور پر اورفیلڈ کے حالات کو جانتے ہوئے، اور انجینئر حکمت یار کے ذہن کو سمجھنے کے باعث انھیں بتادیا کہ ’’اس سے ایک بڑے فتنے کی بنیاد پڑگئی ہے‘‘۔ بعدمیں جب ان کے درمیان جنگ چھڑگئی تو میاں نواز شریف صاحب نے برسرِعام مجھے اس لڑائی کا ذمہ دار ٹھیرا دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی افغان رہنما نے، کسی بھی وقت کسی بھی شخص یا گروہ کی ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی، جس میں اس کا اپنا مفاد نہ ہو۔ افغانوں کے بارے میں یہ تجربہ ہراس گروہ کو ہوا ہے، جس کا ان سے واسطہ پڑا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی بات کے علاوہ کسی کی نہیں سنتے۔ پھر پورے افغانستان میں جو تباہی مچی، اس کی بنیادی ذمہ داری افغان جہادی گروپوں کے لیڈران کرام پر عائد ہوتی ہے، جو ایک دوسرے کے سامنے شانے جھکانے کے لیے تیارنہ ہوئے اور ہر ایک نے اپنی اَنا کی خاطر پوری قوم کو آگ اور خون میں جھونک دیا اور سوویت یونین کے خلاف جہاد میں جو نام پیدا کیا تھا، اسے بدنامی میں تبدیل کر دیا۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ان تمام گروہوں کو ایک قیادت کے تحت اکٹھا کرنے کا امکان موجود تھا کیونکہ وسائل فراہم کرنے کا بنیادی ذریعہ حکومت پاکستان ہی تھی۔ باہر کی امداد بھی حکومت پاکستان کے ذریعے تقسیم ہوتی تھی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق صاحب اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ ’’اگر یہ لوگ ایک قیادت میں متحد ہوجائیں گے تو حکومت ِ پاکستان کو نظرانداز کرکے اپنے معاملات براہِ راست دُنیا کے ساتھ طے کرلیں گے اور متحدہ قوت کی صورت میں حکومت پاکستان کے لیے بھی پریشانی کا موجب بنیں گے‘‘۔

ان سارے واقعات کی روشنی میں المیہ افغانستان سے ہمیں پہلا بنیادی سبق یہ ملتا ہے کہ ملک و قوم کی اصلاح کے لیے بیرونِ ملک کی مدد اور وسائل پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ افغان مجاہدین کا کُلی انحصار پاکستان پر تھا اور پاکستان کا انحصار امریکا پر تھا۔ امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور افغان عوام کو جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا۔

دوسرا بنیادی سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ملک کے تمام مکاتب ِ فکر اور نسلی اور لسانی گروہوں کو قومی مشترکات پر ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جب تک ایک قوم کے واضح مشترک مقاصد کا تعین نہ کیا جائے، اور قومی مفاد کو گروہی مفاد پر ترجیح نہ دی جائے، اس وقت تک کوئی بھی قوم حقیقی معنوں میں ایک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی۔ افغانستان میں اسلامی قوتیں بھی آپس کے تعصبات کا شکار تھیں اور نسلی اور لسانی گروہ بھی سینوں میں قبائلی بتوں کی محبت سجائے ہوئے تھے۔افغانوں کے بارے میں علّامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا:

ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہرقبیلہ ہے اپنے بتوں کی زناری

ایک منظم تحریک اس وقت تک منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ اس کے پاس ایک متفقہ قیادت نہ ہو۔ یہ قیادت ضروری نہیں ہے کہ ایک فرد کی ہو، اجتماعی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا ہم آہنگ ہونا اور مشاورت سے چلنا ضروری ہوتا ہے۔ افغانستان اس طرح کی قیادت سے محروم تھا۔ بدقسمتی سے وہاں اسلامی تحریک ٹھیک طرح منظم نہیں ہوسکی اور جلد ہی شخصیات کی اَنا کی وجہ سے ٹکڑیوں میں تقسیم ہوگئی۔ بعض ٹکڑیوں نے لسانی تنظیموں کا رُوپ دھار لیا۔ آپس کی دشمنی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب افغان، غیرملکیوں کی مدد سے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ غیرملکی پریس انھیں ایک دوسرے کی لاشوں کو مسخ کرتے دکھا رہا ہے تاکہ دشمنی کے زخم اور بھی گہرے ہوجائیں، یہ کبھی مندمل نہ ہوسکیں اور اس طرح افغانستان مستقل طور پر لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوجائے اور وہ پُل ٹوٹ جائے جو پاکستان کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے ’پختون اکثریت کا نعرہ‘ پختونوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ امریکا اور مغربی ممالک کے اشارے پر لگایا، اگر افغانستان میں پختونوں کی اکثریت کا حوالہ دے کر پختونوں کی حکمرانی پر زور دیا جائے گا تو سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان میں پنجابیوں کی اکثریت کی بنا پر اگر پنجابیوں کی حکومت کا نعرہ لگایا جائے تو اس کے کیا نتائج ظاہر ہوں گے۔ یہ سب لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے۔

طالبان نے کبھی اپنے آپ کو پختونوں کا نمایندہ نہیں کہا، اور نہ گلبدین حکمت یار نے اپنے آپ کو پشتونوں کے نمایندے کے طور پر پیش کیا۔ نہ بُرہان الدین ربانی نے کبھی یہ کہا ہے کہ وہ تاجکوں کا نمایندہ ہیں۔ خود افغانستان کے شاہی خاندان نے نسلاً پختون ہونے کے باوجود فارسی زبان کو دربار کی زبان کے طور پر استعمال کیا اور اس میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ ظاہر شاہ، دوفقرے پشتو کے درست نہیں بول سکتا اور شاہی خاندان کلچر کے لحاظ سے فارسی بولنے والے تاجکوں کے قریب ہے۔

مسلم ممالک کو متحد رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم لسانی اور نسلی تعصبات سے اپنے معاشرے کو پاک رکھیں اور اسلامی تہذیب اور اخوت کو ہی اپنی پہچان بنالیں۔ دشمن کی اس سازش کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارے اخبارات بھی مغربی میڈیا کی پھیلائی ہوئی اشتعال انگیزی ہی کو اپنے پہلے صفحے پر نمایاں کر رہے ہیں۔

سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ہمیں آیندہ کے لیے احتیاط برتنی چاہیے۔ یہ خواہش رکھنا کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت بنے، بہت اچھی بات ہے لیکن یہ کام زبردستی نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کو دل سے تسلیم کرکے ایسے عناصرکے ساتھ دوستی بڑھائی جاسکتی ہے جن کے ساتھ خارجہ اور داخلہ اُمور میں مشترکہ مقاصد پر معاملہ فہمی ممکن ہے، مگر جن لوگوں نے ماضی میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی تحریک چلائی، انھی کی طرف رجوع کر کے ان کے لیے افغانستان میں زیادہ نمایندگی طلب کرنا مغربی ایجنڈا ہے جس پر ہماری حکومتیں بے سوچے سمجھے گامزن رہی ہیں۔ ہماری ان حکومتوں کی مثال اس روایتی بڑھیا کی سی ہے، جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد ریزہ ریزہ کر دیا۔ احمد شاہ مسعود جیسے قیمتی انسان کو دشمن بنادیا گیا، وہ ۱۹۷۴ء میں پشاور آئے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ عالمِ دین سابقہ ایم این اے مولانا عبدالرحیم چترالی سے قرآن پڑھا اور استاذ بُرہان الدین ربانی کے ساتھ قریبی ساتھی کے طور پر منسلک رہے۔ کچھ دن میرے گھر میں بھی قیام کیا۔ ان کے والد صاحب اپنی وفات تک پشاور میں مقیم رہے اور یہیں پر ان کی تدفین ہوئی۔ لیکن حکومت پاکستان نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انھیں اتنا دُور کر دیا کہ آخرکار انھوں نے پاکستان دشمن رویہ اپنا لیا۔

استاذ بُرہان الدین ربانی ہمیشہ کوشاں رہے کہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات درست ہوں، لیکن حکومت پاکستان ان سے اتنی بدظن ہوچکی تھی کہ جب بھی ہم نے حکمت یار اور ربانی کے درمیان اتحاد کی کوششیں کیں، حکومت پاکستان نے ان کوششوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی اور حکمت یار کو ان سے الگ رہنے کا مشورہ دیا۔

گلبدین حکمت یار پر پاکستان کی حکومت اور فوج نے سب سے زیادہ محنت صرف کی۔ ایک وقت ایسا تھا کہ حکمت یار افغانستان کی سب سے بڑی جہادی قوت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ وہ آخر وقت تک پاکستان دوست رہے اور مسلم دُنیااور پاکستان کے ساتھ ان کی دوستی میں کبھی بھی تزلزل نہیں آیا۔ وہ کشمیر کے بارے میں پاکستانیوں سے بھی زیادہ یکسو تھے۔ لیکن چونکہ وہ آزاد ذہن سے سوچنے کے عادی تھے اور تابع مہمل رہنے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس لیے انھیں بھی دھتکار دیا گیا۔ طالبان کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے تعلق کا یہ عالم تھا کہ ترکی الفصیل نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’ہم نے اس لیے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا تھا کہ نصیراللہ بابر نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ’’یہ میرے بچے ہیں‘‘۔

اور پھر حکومت پاکستان نے اپنے ان بچوں کو امریکیوں سے بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔[۲۰۰۲ء]

جاویدنامہ میں علامہ اقبالؒ پیرروم ،مولانا جلا ل الدین رومیؒ کےساتھ عالم خیال میں عالم علوی کی سیاحت پر جاتے ہیں۔ فلک قمر، فلک عطارد، فلک زہرہ، فلک مریخ، فلک مشتری اور فلک زحل سے گزتے ہوئے عالم بالا اور جنت الفردوس میں پہنچتے ہیں۔ ہرفلک پر ان کی ملاقات زمانہ ماضی کی بلند شخصیات کی اَرواح سے ہوتی ہے اور ہرشخصیت کےپیغام کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی زبانی اقبال اپنا پیغام، ملّت کو سناتے ہیں۔ فلک مشتری پر بھی بزرگ روحوں سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ان اَرواح جلیلہ میں منصور حلاج کی روح بھی شامل ہے۔ اقبالؒ جس کا نام پیرروم نے عالمِ اَرواح میں اس کا تعارف کرنے کے لیے ’زندہ رُود‘ رکھا ہے، حلاج سے سوال کرتا ہے:

نقشِ حق را در جہاں انداختند
من نمی دانم چساں انداختند

جن لوگوں نے دُنیا میں حق کا نقش قائم کر دیا ہے، میں نہیں جانتا کہ انھوںنے یہ کام کس طریق پر کیا ہے؟

حلاج جواب دیتے ہیں:

یا بزورِ دلبری انداختند
یا بزورِ قاہری انداختند

زانکہ حق در دلبری پیدا تراست
دلبری از قاہری اولیٰ تراست

یا محبت کے زور پر قائم کیا ہے یاقہر اور جبر کے زور پر قائم کیا ہے لیکن چونکہ ذاتِ حق محبت اور رحمت کی صفات میں نمایاں ہے، اس لیے دلبری، یعنی محبت، قاہری، یعنی جبروقہر سے بہترہے۔

دورِ جدید ایک نئے نظام کا محتاج ہے جو انسانوں کو واقعی ایک برادری میں پرو دے۔ اگرچہ فاصلے سمٹ گئے ہیں اور ذرائع مواصلات اور ابلاغ نے حقیقتاً دُنیا کو ایک گلوبل ولیج، یعنی ایک عالمی قریہ بنا دیا ہے، لیکن مل جل کر رہنے کا کوئی عادلانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس عالمی قریے میں فساد برپا ہے۔ انسانیت خوف میں مبتلا ہے۔ انسان انسان کا دشمن اور اس کے خون کا پیاسا ہے۔ انسانوں نے اپنی تباہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں کرلیا ہے۔ بڑی طاقتیں اس پورے کرئہ ارض پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ امریکا غروروتکبر میں مبتلا ہوکر دوسری قومیتوں کے لوگوں کو کم تر سمجھتا ہے اور ان کے خون کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ بے انصافی اور ظلم کی وجہ سے کمزور اور مظلوم اقوام میں ردعمل ہے اور وہ مایوسی کے عالم میں انتقام کا ہرحربہ استعمال کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ دنیا کو اس خوف اور فساد اور تباہی سے بچانے کے لیے نقش حق کیسے قائم ہوگا؟ اس سوال کا جواب حلاج نے دیا ہے کہ نقش حق کو قائم کرنے کے لیے محبت کا پیغام زیادہ مؤثر ہے۔ اگرچہ   اس نے اعتراف کیا ہے کہ قوتِ قاہرہ سے بھی حق کا کام لیا گیا ہے اورلیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا اصل ذریعہ دعوت و محبت ہے۔ اسی مطلب کو اقبالؒ نے دوسری جگہ تفصیل سے بیان کیا ہے:

دبدبۂ قلندری ، طنطنۂ سکندری
آں ہمہ جذبۂ کلیمؑ، ایں ہمہ سحر سامری

آں بہ نگاہ می کُشد ، ایں بہ سپاہ می کُشد
آں ہمہ صلح و آشتی، ایں جنگ و داوری

ہر دوجہاں کشاستند ، ہر دو دوام خواستند
ایں بہ دلیلِ قاہری، آں بہ دلیلِ دلبری

ضرب قلندری بیار ، سدِّ سکندری شکن
رسمِ کلیمؑ تازہ کُن ، رونقِ ساحری شکن

دبدبۂ قلندری سراسر جذبۂ کلیم ہے اور طنطنۂ سکندری سراسر سحر سامری ہے۔ قلندری دبدبہ کردار کی قوت سے زیر کرتی ہے، جب کہ سکندری قوت افواج کے ذریعے زیر کرتی ہے۔ دونوں قوتیں عالم کو فتح کرنے والی ہیں اوردونوں قوتیں دائمی بالادستی کی تلاش میں ہیں لیکن قلندری اور روحانی قوت محبت اوردلبرانہ انداز سے غلبہ چاہتی ہیں، جب کہ سکندری قوت جوراور جبر سے فتح کرنا چاہتی ہیں۔ ایک قلندرانہ ضرب پیدا کرکے سدّسکندری کو توڑدے۔ کلیمی طریق کار کا احیا کرکے سامری کی چمک دمک کونابود کردے۔

مسلمانوں کے پاس اصل قوت دین حق کی قوت ہے۔ یہ عالمِ قرآنی ابھی ہمارے سینوں میں گم ہے اور دنیا سے بھی مخفی ہے اور خود ہماری نظروں سے بھی اوجھل ہے۔ ایک ایسا عالم جو رنگ ونسل کے امتیازات سے بالاتر ہے، جو بادشاہوں اورغلاموں کی تمیز سے ماورا ہے جو انسانوں کے اندر ہر طرح کی اُونچ نیچ سے آزاد ہے۔

اس عالمِ قرآنی میں انسان، زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ انسان اس خلافت اورنیابت کا حقیقی حقدار اسی وقت بن سکتا ہے جب وہ اپنےاندر کے چھپے ہوئے اعلیٰ اخلاق وصفات کا ادراک پیدا کرے، ان اخلاق کو پروان چڑھائے اور ان بلند صفات اور اخلاق کا عملی نمونہ بن جائے۔ انسان کے اس بلندمقام کا ذکر کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:

برتر از گردوں مقامِ آدم است
اصل تہذیب احترامِ آدم است

انسان کا مقام آسمان سے بلند ہے۔ احترام آدم ہی اصل تہذیب ہے۔

مرد و زن ایک دوسرے سے وابستگی کے ذریعے کائنات کی صورت گری کرتے ہیں۔ خلافت ِ آدم کا فریضہ سرانجام دینے میں دونوں برابر کے شریک ہیں کیونکہ دونوں کو ایک نفسِ واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے اور عورت کا احترام قائم کیے بغیر انسانی تہذیب حقیقی عروج تک نہیں پہنچ سکتی۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ نے ایک مدت تک خلوت اختیار کی۔ اقبال نے اس کے اسرار کھولتے ہوئے بتایا ہے:

مصطفےٰؐ اندر حرا خلوت گزید
مدّتے جز خویشتن کس را ندید

نقشِ مارا دردلِ او ریختند
ملّتے از خلوتش انگیختند

مصطفےٰ ؐ نے غارِ حرا میں خلوت اختیار کی۔ ایک مدت تک اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھا۔ ہمارا نقش (ملت اسلامیہ کا نقش) اللہ نے اس کے دل میں ڈال دیا اور ان کی خلوت سے ایک قوم اُٹھائی۔

خلافت کے مقام بلند کا مستحق بننے کے لیے علم اور شوق دونوں کی ضرورت ہے۔ یہ عالمِ قرآنی کیا ہے؟ اس کی مختصر تشریح علامہ اقبالؒ ،سعید حلیم پاشاؒ کی روح کی زبانی عالمِ بالا کی سیرکے دوران فلک عطارد پر کرتے ہیں۔ فارسی اشعار کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

سعیدحلیم پاشا کہتے ہیں: مغرب کے لوگوںکو زندگی علمی اور ذہنی ترقی سے ملی ہے، جب کہ مشرق کے لوگ عشق کو کائنات کاراز سمجھتے ہیں۔ علم کے ساتھ جب عشق شامل ہوجاتا ہے تو علم حق کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اور عشق کا کام علم اور زیرکی سے پختہ بنیادوں پر استوار ہوجاتا ہے۔ عشق جب علم اور ذہانت کے ساتھ مل کر برگ وبار لاتا ہے تو ایک نیاعالم وجود میں آتا ہے۔

اُٹھو اور ایک نئے عالم کی بنیاد ڈال دو اورعشق اور علم و عقل(زیرکی) دونوں کو اکٹھا کردو۔ مغربی اقوام کی روشنی ماند پڑگئی ہے۔ ان کی آنکھیں اگرچہ دیکھنے والی ہیں لیکن ان کے دل مُردہ ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی ہی تلوار سے زخم خوردہ ہیںاور اپنے شکار کی طرح بسمل پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے انگور (شراب) سے سوزو مستی مت تلاش کرو۔ ان کے آسمانوں میں دوسرا عصر یا زمانہ نہیں ہے۔ زندگی کو سوزوساز تمھاری ہی آتش سے مل سکتا ہے۔ ایک نیاعالم پیدا کرنا تمھارا ہی کام ہے۔

مصطفےٰ کمال اتاترک نے تجدد کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ پرانے نقش کو مٹانے کی ضرورت ہے، لیکن اگر کعبہ میں فرنگیوں کے لات و منات رکھ دیئے جائیں تو اس کونئی زندگی نہیں مل سکتی۔ ترکوں کے ساز میں کوئی نیا آہنگ نہیں ہے۔ وہ جسے تازہ پیغام سمجھتا ہے، یہ فرنگیوں کا فرسودہ نظام ہے۔ مصطفےٰ کمال کے سینے میں دوسری سانس نہیں تھی اور اس کے ضمیر میں کوئی نیا عالم نہیں تھا۔  وہ موجودہ مغربی نظام کے ساتھ ہی جڑگیا اور موم کی طرح اسی کی تپش سے پگھل گیا۔

کائنات کے سینے میں نئے پہلو زمانے کی تقلید کرنے سے حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ایک زندہ دل نئے زمانے اور نئے عصر پیدا کرتا ہے۔ تقلید کرنے سے اس کی جان چلی جاتی ہے۔ اگر مسلمان کی نظر رکھتے ہو تو اپنے ضمیر اور قرآن میں جھانک لے۔ قرآن کریم کی آیات میں سیکڑوں تازہ جہاں آباد ہیں۔اس کے ایک ایک لمحے میں بہت سارے زمانے لپٹے ہوئے ہیں۔ عصرحاضر کے لیے قرآن کا ایک جہاں کافی ہے۔ اگر تمھارے سینے میں سمجھنے والا دل ہے تو قرآن سے اس جہاں کوحاصل کرلو۔ بندۂ مومن اللہ کی آیات میں سے ہے۔ زمانہ اس کے جسم پر ایک قبا کی طرح ہے۔ جب اس کے جسم پر ایک جہان کہنہ اور بوسیدہ ہوجاتا ہےتو قرآن کریم اسے ایک دوسرا جہاں عطا کردیتا ہے۔

’زندہ رُود‘ اپنی بےبسی و بے کسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

ہم زمین کے رہنے والوں کی کشتی ملاح سے محروم ہے۔ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ عالمِ قرآن کہاں ہے؟

اس کا جواب جمال الدین افغانی ؒدیتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

’’قرآنی جہاں ایک ایسا جہاں ہے جو ابھی ہمارے سینے میں گم ہے۔ ایک ایسا عالم جو ابھی ’قم‘ (اُٹھ کھڑا ہو جا) کے انتظار میں ہے۔ ایک ایساعالم جس میں خون ورنگ (نسل و نسب)کا امتیاز نہیں ہے،جس کی شام فرنگیوں کی صبح سے زیادہ روشن ہے۔ ایک ایسا عالم جوبادشاہوں اور غلاموں سے پاک ہے۔ مومن کے دل کی طرح وہ بے کراں ہے۔

’’یہ ایک ایسا خوب صورت عالم ہے کہ آپؐ کی ایک نظر کے فیض سے حضرت عمرؓکی زندگی میں اس عالم نے جڑ پکڑلی۔ وہ اَزل سے موجود ہے،لیکن ہرلمحہ نئے جلوؤں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس عالم کے محکم اصول ہردم نیا برگ و بار لاتے ہیں۔ اس کا باطن ہرتغیر سے بے فکر ہے اوراس کا ظاہر ہردم ایک جہان تازہ کی نمود ہے‘‘۔

عالمِ قرآنی جس کی اس دنیا کو ضرورت ہے، خلافت آدم کے ساتھ ایک حکومت الٰہیہ کا تقاضا کرتا ہے، جس میں انسان انسان کا محتاج اور غلام نہ ہو۔ سب لوگ آپس میں بھائی بھائی ہوں اور ایک اللہ کی حکمرانی ہو۔ حکومت الٰہیہ کی تشریح علّامہ اقبالؒ سے سن لیجیے(ترجمہ:)

حق کا بندہ ہر مقام سے بے نیاز ہے۔ نہ وہ کسی کا غلام ہے نہ اس کا کوئی غلام ہے۔ بندۂ حق آزادبندہ ہے اوراس کی حکومت اورآئین اللہ کا عطا کردہ ہے۔ اس کی رسم و راہ اور اس کا دین اور آئین سب اللہ کا دیا ہوا ہے۔ کیا اچھا ہے، کیا بُراہے، کیا تلخ ہے اور کیا شیریں ہے، یہ سب وہ اللہ کے احکام سے معلوم کرتاہے۔ عقل خود غرض ہے اور وہ دوسروں کی بہبود اور فائدے کی بجائے صرف اپنے فائدے اور سود کی تلاش میں رہتی ہے، لیکن اللہ کی طرف سے جو وحی آئی ہے اس میں سب کی بھلائی اور بہبود کا خیال رکھا گیا ہے۔ مومن صلح اور جنگ کی حالت میں عدل کرنے والا ہوتا ہے۔ نہ وہ کسی سے رعایت برتتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے۔ اللہ کے سوا جب کوئی دوسرا امرونہی کرنے والا بن جاتا ہے تو طاقت ور، کمزور پر ظلم ڈھاتا ہے۔ آسمان کے نیچے آمریت کے نتیجے میں جبر کا نظام قائم ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ کے سوا کسی کا آمر بن جانا کفر ہے۔

یہ حکومت الٰہیہ جو دورِ جدید کے مسائل کا حل ہے اور جو انسان کی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی ضروریات کا بھی پورا لحاظ رکھتی ہے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف اوربرابری کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے، کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ قوتِ قاہرہ تو اس وقت حق کی قوتوں کے پاس نہیں ہے۔ حق کے پاس جو اصل قوت ہے، وہ تو بذاتِ خود حق ہی کی قوت ہے۔

لیکن حق کی قوت کے حُسن اور اس کی کشش کوآشکارا کرنے کے لیے لازم ہے کہ ایک گروہ ایسا موجود ہو، جس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس حق کانمونہ ہو۔ اس کے لیے ایک نمونے کے معاشرے کی ضرورت ہے۔ یہ نمونے کا معاشرہ قائم کرنا، حق کا نقش قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونے کا یہ معاشرہ مدینہ منورہ میں قائم کیا تھا۔ ابتدا میں یہ معاشرہ بزورِ دلبری، یعنی محبت کی قوت سے قائم کیا گیا تھا۔ اوس اور خزرج کے دونوں قبیلوں نے آپس میں صلح کرلی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ آنے کی دعوت دی اور بہ رضاورغبت ان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ اس طرح مدینہ کی اسلامی ریاست بزور دلبری قائم ہوئی، لیکن حکومت قائم ہونے کے بعد ریاست کی قوت کو بھی اس ریاست کے استحکام، دفاع اور اس کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔

ہمارے موجودہ زمانے میں محبت اوردعوت کے ذریعے دین اسلام کی اشاعت کا کام جاری ہے۔ مختلف جماعتیں اورمختلف مبلغین دین اسلام کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں اور خود امریکا اوریورپ میں اسلام اس وقت سب سے زیادہ تیزی کےساتھ پھیلنے والا دین ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اسلام کے پھیلاؤ سے خائف ہیں۔ اگر دنیا میں کسی ایک ملک میں حقیقی اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت الٰہیہ قائم ہوجائے اور اس کی قیادت ایک ایسے گروہ کے پاس ہو جو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی حکمت سے آگاہی رکھتا ہو اوراس کی ترجیحات میں علم وحکمت کی اشاعت، عوام کی صحیح تعلیم و تربیت، تعلیمی اداروں اور میڈیا کے درست استعمال کو بنیادی اہمیت حاصل ہو۔ یہ حکومت غربت اور احتیاج کو ختم کرنے اور عام آدمی کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم اور علاج کو اوّلیت دے اور بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرکے معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کردے، انسانی وسائل کو ٹھیک طرح ترقی دے، ٹکنالوجی اور صنعت کے میدان میں اور زرعی پیداوار میں خودکفالت حاصل کرلے توایک ترقی یافتہ اسلامی معاشرے کا نمونہ آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔

د نیا اُس اسلامی نمونے کی طرف متوجہ ہوگی جو بلند اخلاقی معیار بھی رکھتا ہو اور ساتھ ہی نظافت اور سلیقے میں بھی دوسرو ں سے آگے ہو۔ساتھ ہی وہ خوددار معاشرہ اور خوددار قوم ہو اور بھیک مانگ کر اپنی آزادی اور خودمختاری کو فروخت کرنےوالی قوم نہ ہو۔ اُمت مسلمہ کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کی تربیت اس نہج پر کرسکے۔ اس اُمت کے پاس انفرادی اورمادی وسائل موجود ہیں۔ جذبہ اور شوق موجود ہے لیکن قیادت کا فقدان ہے۔ یہ قیادت اس کے علما، صوفیا اور جدید تعلیم یافتہ افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے اورانھیں اپنے اپنے تنگ دائروں سے باہر نکال کر مشترکات کی بنیاد پر اکٹھا کردے اور انھیں بلندی پر لے جاکر وسیع اُفق کا نظارہ کرادے۔ دُوراُفق کے پار گرد اُڑ رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ کوئی سوار اس گروہ سے نمودار ہونے والا ہے۔

مغرب کی چیرہ دستیوں سے انسانیت کراہ رہی ہے۔ دنیا کو ایک نئے نقش کی ضرورت ہے۔ ایک نئی زندگی ، ایک نیاعالم قرآنی جو اُمت مسلمہ کے ضمیر میں پوشیدہ ہے، اس جدید دنیا کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو اَزسرنو تعمیر جہاں کے لیے انسانیت کومتوجہ کرسکے:

فریاد ز افرنگ و دل آویزیٔ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیٔ افرنگ

عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ
معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز

از خواب گراں ،  خواب گراں ، خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز!

فرنگیوں اور ان کی دل آویزی سے فریاد ہے۔ فرنگیوں (مغربی اقوام) کی شیرینی اور پرویزی (استعمار) سے فریاد ہے۔ پوراعالم فرنگیوں کی چنگیزی و چیرہ دستیوں سے ویرانہ بنا ہوا ہے۔ اے حرم کے معمار! پھرسے دنیا کی تعمیر کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ۔

ایامِ اسیری کے دوران ایک فلسطینی دوست نے مجھے اپنے خط میں سیّد قطب شہیدؒ کے اس قول کا حوالہ دیا کہ’’تم مجھے قید رکھتے ہوتو مجھے تنہائی کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ تم مجھے ستاتے ہو تو مجھے محبوب کی خاطر اذیت اُٹھانے کا لطف ملتا ہے۔ تم مجھےقتل کرتے ہو تو مجھے شہات کا بلند مرتبہ ملتا ہے۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑسکتے‘‘۔

تاندہ ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ سے ۱۰کلومیٹر دُور ایک پہاڑی چٹان پر بنا ہوا ہے۔  اس ریسٹ ہاؤس کو میرے لیے سب جیل قرار دیاگیا تھا۔ صرف میری ایک نحیف جان کی نگرانی کے لیے ایف سی، پولیس، جیل عملے اور اسپیشل پولیس،ایف بی آئی وغیرہ کے عملے کو ملا کر تقریباً ۶۰؍افراد تعینات کیے گئے تھے۔ ریسٹ ہاؤس میں چھوٹی سی مسجد تھی۔ میں اس میں نمازِ باجماعت پڑھاتا تھا۔ نگران عملے کے افراد میرے مقتدی تھے۔ ہرنماز کے بعد قرآن کی کسی ایک آیت یا حدیث سے تذکیربھی کرتا تھا۔ ملاقاتوں پر پابندی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کا ٹیلی فون بھی منقطع کر دیا گیا تھا اور موبائل ٹیلی فون بھی مجھ سے لے لیا گیا تھا۔ تاہم، ریڈیو ٹرانزسسٹر اوراخبار کی اجازت تھی۔

حکومت نے مجھے تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن الحمدللہ یہ مسلمانوں کا معاشرہ ہے۔ دین اور اہلِ دین کی ہرجگہ قدر کی جاتی ہے۔ مجھے تنہائی کا احساس تو نہیں ہوا، البتہ فرصت کے کچھ لمحات میسر آئے اور میں نے شاید زندگی میں پہلی بار تقریر کی بجائے تحریر کو لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔

فرصت کے یہ لمحات بہت محدود ثابت ہوئے۔ جلد ہی مجھے ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ہردس منٹ بعد ہسپتال کے عملے کا کوئی شخص اندر آجاتا تھا۔ پولیس کے عملے کے آٹھ دس بندوق بردار افراد دروازے کے عین سامنے مستعد کھڑے رہتے، جو ہسپتال کے عملے اور اہلِ خانہ کے لیے مستقل اذیت کا باعث بنے ہوئے تھے۔ ملاقات کے لیے آنے والوں کے ساتھ حفاظتی عملے کی روزانہ کسی نہ کسی وقت گرما گرمی ہوجاتی تھی۔ اس ماحول میں سوچنے اور لکھنے کا عمل جاری نہ رہ سکا۔

پونے چار ماہ کی اسیری (۴نومبر ۲۰۰۱ء تا ۲۷فروری ۲۰۰۲ء) میں تقریباً نصف عرصہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور اور ڈاکٹرز ہسپتال لاہور میں گزرا، جب کہ باقی ماندہ وقت تاندہ ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ اورفاٹا ریسٹ ہاؤس پشاور میں گزرا۔

مجھے کیوں قید کیا گیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا کے کہنے پر یا امریکا کو خوش کرنے کے لیے۔ لیکن پاکستان میں متعین ایک امریکی سفارت کار نے اس خیال کو لغو قرار دیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر سے ٹیلی فون پر ذرا تلخی ہوگئی تھی لیکن شاید معین الدین حیدر میری گرفتاری کا فیصلہ اپنے طور پر نہیں کرسکتے تھے۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف صاحب نے قومی سطح کے سیاست دانوں کے ساتھ مجھے بھی دعوت دی۔ ہماری موجودگی میں انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان بننے کے بعد ملک کو اتنے شدید بحران کا سامنا کبھی نہیں ہوا جتنا آج ہے۔ پھر انھوں نے امریکی فوجی اتحاد میں شامل ہونے اور افغانستان میں طالبان حکومت کے مقابلے میں امریکا کو لاجسٹک سپورٹ  [زمینی راستہ] دینے اور انھیں اپنی فضا دینے کے فیصلے کا ذکر کیا۔ اس پر میں نے گزارش کی کہ    ’’اگر ملک اتنے شدید بحران سے دوچارہے کہ بقول آپ کے پاکستان کو آزادی کے بعد سے لے کر  اب تک اتنے شدید بحران کا پہلے سامنا نہیں کرنا پڑا تو آپ نے یہ سارا بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں  اُٹھا رکھا ہے۔شدید بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آئین کو بحال کردیں، قومی اتفاق رائے کی عبوری سویلین حکومت بنا دیں، فوج کو اپنے کام کے لیے فارغ کر دیں اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت جو مکمل طورپر خودمختار ہو، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروا دیں تاکہ پوری قوم بحران کا مقابلہ کرنے میں شریک ہوسکے‘‘۔ پرویز مشرف صاحب کو میری یہ تجویز پسند نہیں آئی۔ اسی طرح میں نے جلسہ ہائے عام میں بھی یہی بات کہی اور شدید عالمی بحران کے موقع پر قوم کی تقدیر کو فردِ واحد کے ہاتھ میں دینے کو قومی بقا اور سالمیت کے لیے خطرناک قراردیا۔

پرویز مشرف صاحب نے پلٹ کر میرے اُوپر الزام لگا دیا کہ میں فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ حالانکہ جماعت اسلامی نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی فوج کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ ہم نے فوج کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے اور فوج کو سیاست میں اُلجھانے کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ فوج جب سیاسی میدان میں آتی ہے، تو اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے، کیونکہ فوج کے تمام ارکان کو ایک سیاسی فکر پر جمع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے فوج کو سیاست سے دُور رکھنا ہرمحب ِ وطن فرد اور حکومت کا فرض ہے۔

 فوج کے تمام ارکان فوج میں داخل ہوتے وقت دستورِ پاکستان میں درج جو حلف لینے کے پابند ہیں، اس کے مطابق وہ دستور کی حمایت کرنے اورسیاست میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتے ہیں۔ دستور کو نقصان پہنچانا ، اسے معطل کرنا اور اسے منسوخ کرنا، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۶ کے تحت غداری اور بغاوت کے دائرے میں آتا ہے۔ ہم نے یہ بات قانون اوردستور کی دفعات کی روشنی میں دلائل کے ساتھ پریس اور عوام کے سامنے رکھی کہ ’’پرویز مشرف صاحب کی مداخلت بھی غیرآئینی ہے اور ان کا اَزخود صدر بننا بھی غیرآئینی ہے‘‘۔ یہی بات سابق چیف جسٹس سجادعلی شاہ نے بھی فرمائی ہے۔

ہم جب عوام کے بڑے اجتماعات میں دستور کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو حکمرانوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ہر محب ِ وطن پاکستانی کی دلی خواہش ہے کہ ملک کو جمہوری اسلامی پٹڑی پر لایا جائے۔ یہ خواہش اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب ہر پاکستانی دامے، درمے، قدمے، سخنے، اس کوشش میں شامل ہوجائے جو یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہم کررہے ہیں۔ اس بڑے مقصد کی خاطر قیدوبند کی آزمایش سے گزرنا کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ لوگ یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں جو اس بڑے مقصد کی خاطر قربانی دے رہے ہیں۔ ان کے برعکس جو لوگ اپنی ذاتی خواہشات اوراغراض کی خاطر اس راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں وہ قومی مجرم ہیں۔ تاریخ اس طرح کے مجرموں کے لیے عبرت کی داستان ہے۔[۹؍اپریل ۲۰۰۲ء]

۱۹۸۰ء میں غرناطہ کے دفترِ سیاحت میں، مَیں مسلمانوں کے کسی مرکز کا پتا دریافت کرنے گیا۔ایک بوسیدہ سے رجسٹر کی اُلٹ پلٹ کے بعد کائونٹر پر کھڑے شخص نے مجھے ایک پتا لکھوایا۔ یہ پتا میں نے ایک ٹیکسی والے کو دکھایا اور وہ مجھے بہت سی پیچ در پیچ گلیوں سے گزار کر ایک گلی میں واقع پرانے مکان پر لے گیا۔ میں نے ٹیکسی والے سے کچھ دیر انتظار کرنے کے لیے کہا تاکہ معلوم کرلوں کہ کیا اس نے مجھے ٹھیک جگہ پر پہنچایا ہے۔

مَیں مکان کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بڑے تھال کے گرد دنیا کے مختلف ممالک کے تقریباً ۱۵؍افراد روایتی اسلامی لباس، جبے اور قبے پہنے کھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کسی تعارف کے بغیر ہی ہاتھ کے اشارے سے مجھے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ میں نے گھر سے باہر نکل کر ٹیکسی ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے رخصت کیا، اور دوبارہ اندر داخل ہوکر کھانے کے تھال کے گرد حلقہ باندھے ہوئے مجمعے میں شامل ہوگیا۔ ان شرکا کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل تھی جن کو عرفِ عام میں ’ہپی‘ (Hippie) اور ’بے فکرے‘ کہتے تھے۔

اس مجمعے میں برطانیہ کے انگریز، مراکش کے عرب اور خود غرناطہ کے نومسلم شامل تھے۔ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی، جب تعارف کے بعد ایک شریکِ محفل نے میرے ساتھ پشتو میں گفتگو شروع کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں مکمل امن تھا اور دنیا بھر کے  سیاحوں کے لیے سوات، پشاور اور افغانستان ایک جنّت نظیر بنا ہوا تھا۔

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد غرناطہ کے ایک نومسلم ساتھی نے مجھے غرناطہ کی سیر  کے لیے دعوت دی تو میں نے اس مہربان سے کہا:’’ غرناطہ کی گلی کوچوں میں پیدل چل کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی‘‘۔انھوں نے مجھے غرناطہ کی ایک خصوصیت تو یہ بتائی کہ: ’’جن مکانات پر باہر سے سفیدی کرائی گئی ہے، یہ اسلامی دور کی یادگار ہیں‘‘۔ دوسری خصوصیت اس نے یہ بتائی کہ: ’’جن مکانات کی کھڑکیوں کی اُونچائی قد ِ آدم سے اُوپر ہے، ان مکانات میں روایتی پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے‘‘۔

 ہم غرناطہ کے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کھلی شاہراہ پر پہنچے۔یہاں کئی جگہ میرے ساتھی نے راستے میں کچھ لوگوں سے دُعا سلام کی۔ جس سے مجھے یوں لگا کہ میں مسلم اندلس میں گھوم رہا ہوں، جہاں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ: ’’غرناطہ میں اندلسی نومسلموں کی تعداد کُل ۳۰۰ ہے، لیکن رات کے وقت جب ہم سڑکوں پر گھومتے پھرتے آپس میں ملتے  اور دعا سلام کرتے ہیں تو اجنبیوں کو یوں لگتا ہے جیسے پورا شہر مسلم آبادی سے بھرا ہوا ہے‘‘۔

آپس میں گفتگو کرتے ہوئے ہم کھانے کے لیے ایک ریستوران میں بیٹھ گئے۔ اندلسیوں کی سرزمین غرناطہ میں ایک مسلمان نوجوان کی رفاقت سے میرا دل جذباتِ مسرت سے لبریز تھا۔ میرا ساتھی بڑی سنجیدگی سے مجھے بتا رہا تھا: ’’اسلام پتھر کی طرح جامد وجود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ہرے بھرے درخت کی طرح زندہ وجود ہے۔ اگر اسے نچلے تنے سے بھی کاٹا جائے تو اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں‘‘۔

اس اندلسی نوجوان کو یقین تھا:’’ا ندلس کی سرزمین پر اسلام کے جس تناور درخت کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اس درخت کی جڑیں اندلس کی سرزمین میں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس میں سے ان شاء اللہ نئی شاخیں پھوٹیں گی اور برگ و بار لائیں گی‘‘۔ اندلسی نوجوان کا یقین اتنا راسخ تھا کہ مجھے علّامہ محمداقبال کا یہ شعر یاد آنے لگا   ؎

دانہ را کہ بآغوشِ زمین است ہنوز

شاخ در شاخ و برومند و جواں می بینم

(وہ دانہ جو ابھی زمین کے اندر چھپا ہوا ہے، میں اسے جوان، شاخ در شاخ اور پھل دار دیکھ رہا ہوں)۔

یہی حال ۱۹۷۰ء کے عشرے میں وسطِ ایشیا کا تھا۔ ہمارے افغان دوست، اسمگلروں کے ذریعے کچھ اسلامی کتابیں تاجکستان بھیجا کرتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ: ’’تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر بائیجان اور پھر کوہ قاف کے علاقوں (چیچنیا اور داغستان) اور روسی فیڈریشن میں شامل تاتارستان وغیرہ ایک بار پھر اسلامی دنیا کا حصہ بنیں گے‘‘۔

 لیکن اشتراکی روس کے حلقہ بگوش حلقے، جن میں پاکستانی کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نام نہاد قوم پرست بھی شامل تھے، ہمارے اس یقین کو   زعمِ باطل سمجھتے تھے اور ہمارا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’ان علاقوں کو بھول جائو۔ وہاں اب مسلمان نہیں بلکہ سویٹ انسان بستے ہیں، جنھوں نے مذہب کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ تاریخ کا پہیہ  پیچھے کی طرف کبھی نہیں گھومے گا۔ یہ اب آگے کی طرف ہی گھومے گا اور اشتراکی تحریک وسط ایشیا سے افغانستان کے راستے پاکستان کا رُخ کرے گی‘‘۔

تاہم، اسلام نے وسطِ ایشیا کے تمدن پر اتنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہ ۷۰سال تک جبر کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود، اشتراکی روس کے ٹوٹتے ہی اسلامی تہذیب ان علاقوں میں نمودار ہونے لگی اور استعماری طاقتوں کو تشویش لاحق ہوگئی کہ مشرقی یورپ سے مشرقی ترکستان تک پھیلا ہوا ترک مسلمانوں کا وسیع و عریض خطہ اگر پھر اسلامی دنیا کے ساتھ ہم آغوش ہوگیا، تو اس نئی سپر طاقت کا مقابلہ کیوں کر ممکن ہوگا۔

اگرچہ اس وقت ظاہربین نظروں کو یہ دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی ہے، لیکن آج سے ۳۰،۳۵سال قبل سوویت یونین کی پسپائی بھی اسی طرح ناممکن نظر آتی تھی۔ ایک صاحب ِایمان کا وجدان، جن ممکنات کو دیکھ سکتا ہے وہ ایک منافق اور کافر کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒ کو یہ انقلاب ۷۰سال پہلے نظر آرہا تھا، جب انھوں نے کہا تھا   ؎

انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیرِ افلاک

بینم و ہیچ ندانم کہ چساں می بینم

(وہ انقلاب جو آسمانوں کے ضمیر میں نہیں سما سکتا، میں اسے دیکھ رہا ہوں اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسے  دیکھ رہا ہوں۔)

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے یہی خواب دیکھا تھا کہ ان شاء اللہ اسلام کی احیا کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن اور کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔

آج سے تقریباً ۱۰۰سال قبل جب دنیا کی استعماری طاقتیں یورپ کے مرد بیمار    (عثمانی سلطنت) کی آخری رسومات ادا کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں اور عثمانی خلافت کا خاتمہ کرکے وہ سمجھنے لگی تھیں کہ انھوں نے مصطفےٰ کمال کے ذریعے اسلامی خلافت کے بجاے سیکولرزم کو ترکی کے دستور کی بنیاد بنا دیا ہے تو علامہ محمد اقبال نے مصطفےٰ کمال کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا    ؎

لادینی و لاطینی کس پیچ میں اُلجھا تو

دارو ہے ضعیفوں کا لاغالب الا ھو

مصطفےٰ کمال نے یہ سمجھا تھا کہ بڑی تعداد میں علما کو قتل کر کے اور عربی رسم الخط کو لاطینی  رسم الخط میں تبدیل کر کے اور اسلام کے بجاے سیکولرزم اور لادینیت کو ملکی دستور کی بنیاد قرار دینے سے، وہ ترک قوم کا رشتہ اپنے شان دار ماضی سے کاٹنے میں کامیاب ہوجائے گا اور اسے یورپ کا ایک ملک بنادے گا لیکن حیف کہ اس کی نظر ترک قوم کے ضمیر میں گندھی ہوئی اسلامی اقدار تک نہ پہنچ سکی۔ ترکی میں اسلامی قوتوںنے اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنائی۔

علامہ بدیع الزماں سعید نورسی [۱۸۷۷ء-۲۳مارچ ۱۹۶۰ء]کی نوری تحریک اس جوابی حکمتِ عملی میں پیش پیش تھی۔ نوری رسائل کے ذریعے انھوں نے اپنا پیغام خاموشی سے پھیلانا شروع کیا۔ اسلام کے ساتھ محبت رکھنے والے ترک اس کے حلقہ بگوش ہوگئے اور سینہ بہ سینہ ان کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔ ان کے پیش نظر کوئی فوری تبدیلی یا انقلاب نہیں تھا، بلکہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی فکر کو بچانے کا ایک ۵۰سالہ منصوبہ لے کر خاموشی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے اور اب یہ خاموش لہریں جنھیں مغربی دنیا Creeping Islam (یعنی رینگتا ہو اسلام) کہتی ہے،   دنیا کی توجہ کا مرکز بنتی دکھائی دے رہی ہیں  ع

آسماں ہوگا سحر کے نُور سے آئینہ پوش

آج ملک میں ہر طرف تصادم اور نفرتوں کا طوفان برپا ہے۔ اگر بدی کو بدی ہی سے بدلنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے نتیجے میں ملک اور قوم کی قسمت میں بدی ہی آئے گی اور اللہ کے بندے خیر اور فلاح سے محروم رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اصلاحِ احوال کا جو راستہ بتایا ہے وہ بدی کو بھلائی اور نیکی سے بدلنے کا مبنی برحکمت راستہ ہے وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)۔

جماعت اسلامی پاکستان کا کُل پاکستان اجتماع عام ۲۱-۲۳نومبر۲۰۱۴ء کو لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔  یہ لمحہ ہماری قومی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس موقعے پر اس امر کی ضرورت ہے کہ قیادت اور امامت کے اسلامی فارمولے کو ذہنوں میں اچھی طرح راسخ کرلیا جائے اور یہ فارمولا عبارت ہے اللہ تعالیٰ سے مکمل وفاداری، قول وعمل میں یکسانی اور نفرتوں کومحبتوں میں تبدیل کرنے کی سعی مسلسل سے۔ اقبال نے اس دعوتی، اصلاحی اور انقلابی منہج کو بڑے خوب صورت انداز اور صحیح ترتیب سے یوں بیان کیا ہے     ؎

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے جماعت اسلامی کی ایک مرکزی تربیت گاہ میں تحریک کے کارکنوں کو دعوت کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ہم ان کے اس خطاب کو اس اجتماعِ عام کے موقعے پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور پاکستان کے تمام بھائیوں اور بہنوں کی تذکیر کے لیے پیش کررہے ہیں۔مدیر

کسی بھی تحریک کو ایسے کارکنوں اور ایسے گروہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ولولے اور جذبے سے سرشار ہو۔ یہ جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگوں کو اپنے نصب العین اور مقصد سے عشق ہو۔ اس کے لیے جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوں۔ مال کی قربانی اور وقت دینے کے لیے تیار ہوں۔

یہ وہ محبت ہے جو قرآن کریم پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور ان کے راستے سے محبت کرو۔ ان سے تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت کرو۔ پھر ان کو یہ تنبیہ کرتا ہے کہ اگر تمھاری دوسری محبتیں اس محبت پر غالب آجائیں تو یہ ’فسق‘ ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر آپ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ واَبْنَـآئُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ ا قْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبََّ اِلَیْکُمِْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِِِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی القَوْمَ اْلفٰسِقِیْنَ o (التوبۃ۹:۲۴) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے، وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز واقارب اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ   اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی راہنمائی نہیں کیا کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کو ’فسق‘ قرار دیا ہے کہ آدمی پر اپنے والد، بھائی، بیوی، بیٹی، برادری، مال اور تجارت کی محبت غالب ہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت مغلوب ہو۔ اس محبت کو تمام محبتوں سے اُوپر رکھو۔ اللہ سے محبت، اللہ کے رسول سے محبت، اللہ کے راستے میں ہمہ گیر، ہمہ پہلو اور زندگی بھر جدوجہد سے محبت___ ان کو تمام محبتوں سے بالا تر رکھو گے، تبھی منزل تک پہنچ سکتے ہو۔ دوسری جگہ پر فرمایا:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ِباَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف۶۱:۱۰-۱۱)   اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

پھر فرمایا گیا کہ ایک اور چیز بھی تمھیں دی جائے گی جو تمھیں دل پسند ہے، تمھیں مرغوب ہے، اور وہ ہے اللہ کی طرف سے نصرت۔ جس کے نتیجے میں دنیا کی فتح ملے گی:

وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo (الصف۶۱:۱۳) اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

یہ دنیا کی فتح، آخرت کی فلاح، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید انھی لوگوں کو ملتی ہے جو اللہ کے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اسلحہ ہے جس کے نتیجے میں ولولہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کا مقصد، زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کو بالادست کرنے کی آرزو، اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اللہ کی محبت تمام دوسری محبتوں سے بڑھ کر ہو۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِلّـلّٰہ ، (جو ایمان والے ہیں، وہ اللہ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اپنے آبا واجداد، اپنے ملک، اپنی برادری، اپنے رسم ورواج اور  اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اسی کو زندگی کی اعلیٰ قدر تصور کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں  اللہ کے بندے،اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں بڑی قربانی کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کو تو یہ یقین ہوتا ہے کہ میری یہ زندگی عارضی ہے اور ایک اچھی زندگی میرا انتظار کررہی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو اس سے بہتر ہے۔ جو پاے دار اور  دائمی ہے۔ جو ہمیشہ کے لیے ہے اور جہاں کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی تو چندروزہ اور ختم ہونے والی ہے۔ یہ دارلقرار نہیں، دارالامتحان ہے۔ میں نے اِس عارضی زندگی سے اُس مستقل زندگی میں جانا ہے۔یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جن کے نتیجے میں بندۂ مومن ایک ولولے اور ایک جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کے اندر یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ میں جس راستے پر جارہا ہوں، یہی کامیابی کا راستہ ہے۔

آپ کے مقابلے میں خود غرض اور مفاد پرست لوگ ہیں اور اُن کی نہ ختم ہونے والی لڑائی ہے۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ اپنے نفس اور غرض کے بندے ہیں۔ ان کا کوئی مقصد اور کوئی نصب العین نہیں ہے۔ یہ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے کام نہیں کررہے ہیں۔ جب تک وطن عزیز کا اختیار غرض کے ان بندوں کے ہاتھ میں ہوگا، اس وقت تک یہ بحران ختم نہیں ہوگا۔ سارا منظر لوگوں کے سامنے ہے۔ ملک میں لوٹ کھسوٹ ہے، بدامنی ہے۔ یہاں خوف کی ایک فضا اور دہشت کا راج ہے۔ اس فضا کو اہلِ غرض ختم نہیں کرسکتے۔یہ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

لیکن ان کے مقابلے میں آپ کے پاس ایک مضبوط دلیل ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ خاتم الانبیا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ پھر انھی کے زیرسایہ آپ کا صاف ستھرا کردار ہے، جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آپ کی لیڈر شپ کسی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے۔ آپ کی قیادت عوام میں سے اُبھری ہے۔ آپ لوگوں کے اندر رہتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ کسی بھی اسکینڈل میں، پلاٹوں کی فہرست میں ان کے نام نہیں۔ کسی بھی دور میں جماعت اسلامی کے بارے میں کوئی کچھ نہیں پیش کرسکا۔ کوئی ایسی بات آتی ہے تو ہم عدالتوں میں جاتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے کوئی ہمارے بارے میں معمولی چیز لے کر نہیں آسکا ہے۔ صاف ستھری قیادت اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے دیا ہوا نظام… جس پر لوگوں کا ایمان اور عقیدہ ہے۔ پھر آپ کیوں لوگوں کے پاس نہیں جاسکتے؟ بلکہ مجھے اصل میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ مجھے یہی رکاوٹ نظر آتی ہے کہ ہمارے لوگ خول کے اندر بند ہیں اور اپنے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ آپ اپنے خول سے نکلیں۔ لوگوں کے پاس جائیں۔

بلدیاتی انتخاب جیتنا ایک مشکل کام ہے۔ بلدیاتی انتخاب جیتنے کے لیے نیچے تک، محلے کی سطح تک آپ کا کارکن ہونا چاہیے۔ جب تک عام محلے کی سطح پر کارکن مضبوط نہ ہو، عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہو، بلدیاتی انتخاب نہیں جیت سکتے۔ جب آپ نچلی سطح پر لوگوں تک پہنچیں تو ان سے کہیں کہ ہم تو انسانیت کی خدمت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہم تو ایک پاک صاف اور ستھری انتظامیہ دینے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔

یہی محبت کا پیغام لے کر ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکن جب عوام تک پہنچے، ایک ایک فرد سے رابطہ کیا تو نہ صرف لوگوں کے دل ان کے لیے کھل گئے، بلکہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نے ان کے قدم چومے اور اسلامی تحریک کو مقبولیت ملتی چلی گئی۔

اس طرح یہ دعوت پھیلتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں تحریک کو عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر لوگ اپنے خول کے اندر بند رہیں، اپنے گھروں کے اندر رہیں، کسی سے بات نہ کریں، لوگوں کے پاس نہ جائیں اور یہ انتظار کریں کہ میں تو گھر بیٹھا ہوں، دعوت کا یہ کام کوئی دوسرا ساتھی کرلے گا تو یہ ایک غلط انداز ہوگا۔ لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ آپ کے پاس حق ہے؟ اس سے لوگ اس غلط فہمی کا شکا ر بھی ہوجاتے ہیں کہ یہ لوگ مغرور ہیں۔ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو کسی شمار قطار میں بھی نہیں سمجھتے۔ جب آپ الگ تھلگ رہیں گے تو لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلیں گی۔ جب آپ میں سے عظیم اکثریت لوگوں کے پاس جائے گی اور آپ لوگوں کے ساتھ محبت سے بات کریں گے، ان کو کہیں گے کہ ہم آپ کی خدمت کے لیے آئے ہیں تو ان کی غلط فہمیاں دُور ہوں گی۔

آج لوگ ایسے گروہ کے منتظر ہیں جو خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر لوگوں کے پاس جائے۔ ملک ایک بحران میں مبتلا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ایک جہاز میں بیٹھے ہیں اور جہاز ڈوب رہا ہے، اس کو بچانے کی فکر ہونی چاہیے۔ افسوس صد افسوس کہ لوگ اس کے اندر اپنی اپنی سیٹوں کی حفاظت میں تو مشغول ہیں کہ جہاز کے اندر جو سیٹ ہے، صرف وہی زیادہ آرام دہ    بن جائے، زیادہ خوب صورت بن جائے۔ لیکن جس جہاز میں کرسی ہے، اس کرسی کا جہا ز ڈوب رہا ہے تو بتائیے آپ کی کرسی کیسے بچے گی؟ آپ نے بہت خوب صورت گھر ایک بڑے جہاز میں بنایا ہے۔ جب وہ جہاز ڈوب رہا ہے تو وہ خوب صورت گھر کیسے بچ سکتا ہے؟

جب چاروں طرف کا ماحول اور معاشرہ آپ کا دوست نہ ہو اور پاک صاف ستھرا نہ ہو تو آپ بھی نہیں بچ سکیں گے۔ آپ اپنے بچوں کو بہت زیادہ پاک صاف بنادیں،  چاروں طرف معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی گندگی کے اندر آپ ایک خوب صورت جگہ بنابھی لیں گے، تو آپ کے بچے اس گندگی سے کیسے بچ سکیں گے؟ یقینا یہ گندگی آپ کے گھر کا بھی احاطہ کرے گی اور آپ کے بچے بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے پورے معاشرے کو، پورے جہا ز کو بچانے اور اس کی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے ساتھ معاشرے کی بھی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان کو اصلاح کی شروعات اپنی ذات سے کرنی چاہیے۔ اپنی ذات کا حق پہلے ہے۔ اسی طرح جب تک آپ کی اپنی ذات اس دعوت کا عملی نمونہ نہیں ہوگی، اس وقت تک آپ اعتماد کے ساتھ لوگوں کے پاس نہیں جاسکیں گے۔ جب آپ کے گھر میں اچھا ماحول نہیں ہوگا، آپ معاشرے میں روشنی نہیں پھیلاسکیں گے، لیکن ذات اور گھر کے ساتھ ساتھ محلے اور معاشرے کی بھی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے جس جذبے اور جس ولولے کی ضرورت ہے وہ  ولولہ اور وہ جذبہ پیدا کیجیے۔ وہ جذبہ اور ولولہ اللہ کے ساتھ زیادہ بہتر اور گہرا تعلق پیداکرنے کے نتیجے میں بڑھتا ہے۔ آپ اس جذبے سے سرشار ہوجائیں گے تو آپ کو قرار نہیں آئے گا جب تک آپ وہ مقصد حاصل نہ کرلیں جو بالاتر مقصد ہے۔

مقصد کو بالاتر بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ عوامی محبوبیت حاصل کی جائے۔ عوامی تائید حاصل ہو اور عوام کے پاس پہنچا جائے۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ محبت کی زبان استعمال ہو اور محبت کو اپنا ذریعہ بنایا جائے۔ اس طریقے سے آپ عوام کے دلوں میں جگہ بناسکتے ہیں۔ یقینا محبت ہی فاتحِ عالم ہے!

محترم میاں طفیل محمد صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ ان کا باطن و ظاہر ایک تھا۔ جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل ۱۹۳۸ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں میں انھیں مسلمانوں کی خستہ حالی کے اسباب اور اُمت کی نشاتِ جدید کا نقشۂ کار نظر آگیاتھا۔

وہ ریاست کپور تھلہ کے پہلے مسلمان وکیل تھے اور ایک وکیل ان دنوں میں اور اس علاقے میں مظلوم مسلمانوں کے لیے بڑا سہارا سمجھا جاتاتھا۔ ماں باپ نے انھیں بڑی مشقت اٹھاکر پڑھایاتھا اور وہ اپنے والدین اور اپنے خاندان کی امیدوں کا مرکز تھے۔ لیکن وہ اپنے ذہن میں ایک الگ دنیا بسا رہے تھے۔ انھیں چاروں طرف ہندوججوں، پروفیسروں اور دانش وروں میں ایسے لوگ نظرآرہے تھے جو اپنے اخلاق وکرادر کے لحاظ سے اپنی قوم کے لیے رول ماڈل تھے لیکن مسلمان نوجوانوں کے لیے اس طرح کے رول ماڈل موجود نہیں تھے۔ ایک نیک دل عام مسلمان شہری مستری محمد صدیقؒ نے انھیں مولانا مودودی کے رسالے ترجمان القرآن سے روشناس کیا۔ یہاں انھیں روشنی نظر آئی اور جب مستری محمد صدیق صاحب نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ مولانامودودیؒ  کی دعوت پر ۲۵؍ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت اسلامی ہندکے تاسیسی اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں تو محترم میاں طفیل محمد صاحب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرراستے ہی سے تاسیسی اجتماع میں چلے گئے اور اس کے بعد جماعت اسلامی ہی کے ہوکر رہ گئے۔

تاسیسی اجلاس میں میاں صاحب سوٹ ٹائی میں ملبوس شریک ہوئے تھے اور ہاتھ میں ہیٹ بھی تھا۔ چہرے پر داڑھی بھی نہیں تھی۔ بعض علما کو اس شکل و صورت کے نوجوان کو تاسیسی رکن بنانے پر اعتراض تھا لیکن میاں صاحب نے ان سے کچھ مہلت مانگی اور مولانا مودودیؒکی سفارش پر انھیں چھے ماہ کی مہلت دے دی گئی کہ اس دوران میں وہ وکالت کے پیشے کو ترک کرکے اپنی ظاہری شکل و صورت کو بھی اپنی سلیم فطرت کا عکاس بنادیں گے۔ وکالت کے پیشے کو خیر باد کہناایک مشکل فیصلہ تھا۔ والدین بھی مخالف تھے۔ عام پڑھا لکھا دانش ور طبقہ، ہندو سکھ اور مسلمان ایک شریف النفس قابل مسلمان وکیل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انھیں نظر آ رہاتھا کہ آگے جا کر وہ اپنے لوگوں کے لیے عزت کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ سب لوگ میاں صاحب کی ذہنی دنیا سے بے خبر تھے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ وہ یہ فیصلہ کن مصلحتوں کی بنا پر کررہے ہیں۔ میاں صاحب کی زندگی کا یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ مستری محمد صدیقؒ ان کا سہارا بنے اور انھیں کہاکہ گھر کے باہر سخت طوفان ہے اور جھکڑ چل رہے ہیں لیکن آپ نے جس گھر میں پناہ لے رکھی ہے اس میں آگ لگی ہوئی ہے تو آپ کو آگ سے بچنے کے لیے طوفان اور جھکڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلنا پڑے گا۔ اس کے بعد محترم میاں طفیل محمد صاحب ساری عمر طوفان اور آندھیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر رہے۔ جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر کے تن من دھن سے اس کی انقلابی جدوجہد میں شریک ہوگئے۔

دارالاسلام مشرقی پنجاب سے ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران میں لاہور منتقل ہوئے۔ طویل عرصے تک اپنے بیوی بچوں سمیت اچھرہ کے اس مکان میں باہر لان میں چھولداری لگاکر رہے جس کے ایک حصے میں مولانا مودودیؒ رہایش پذیر تھے، جب کہ اس کے چاروں طرف جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر تھے۔ وکالت کے پیشے کو چھوڑنے کے بعد تلاش معاش میں کئی تجربے کیے لیکن اپنی سادہ طبیعت اور امانت و دیانت کے سیدھے راستے پر چلنے کے باعث ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کے ایک قریبی عزیز ٹھیکیدار عبدالرشید صاحب نے مجھے بتایا کہ میاں صاحب وکالت کا پیشہ چھوڑنے کے بعد میرے پارٹنر کے طور پر میرے ساتھ شریک کار بنے لیکن ٹھیکیداری کا کام کمیشن کے بغیر چلتا نہیں ہے اور میاں صاحب کمیشن دینے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے وہ یہ کام چھوڑ گئے اور ۱۹۴۴ء میں کُل ہند جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ہمہ وقتی جماعت اسلامی کی دعوت وتنظیم کے کام میں لگ گئے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ کے دستِ راست کی حیثیت سے جماعت کے دعوتی اور تنظیمی انفراسٹرکچر کو قائم کرنے اور چلانے میں ان کو کلیدی کردار ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

میاں صاحب نے تقسیم ہند سے قبل اور تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی کی دعوت وتنظیم کا کام اتنے اخلاص اور یکسوئی سے کیا کہ آج تک جماعت اس کے ثمرات سے مستفید ہورہی ہے۔ ان کی طبیعت میں انتہائی سنجیدگی تھی۔ میں نے طویل عرصہ ان کی رفاقت میں گزارا ہے، سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہاہوں لیکن کبھی انھیں قہقہہ لگاکر ہنستے نہیں دیکھا اور نہ انھیں بلند آواز میں بات کرتے ہوئے سنا۔ وہ سخت ناراض ہوجاتے تو غصے کی حالت میں بھی اپنا وقار اور متانت برقرار رکھتے تھے۔ جب جماعت کے ذمہ داران آپس میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے تو ان کی متانت اور سنجیدگی کو دیکھ کر وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتے۔ ان کی اس عادت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے آجاتی ہے: ’’کثرت سے ہنسی مذاق سے بچو کہ بہت ہنسنے سے دل مُردہ ہوجاتا ہے‘‘۔

میاں طفیل محمد صاحب ایک صابر و شاکر اور متحمل مزاج انسان تھے۔ اپنی تکلیف کا کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ وہ کسی دوسرے شخص کو کہنے کے بجاے اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ ان کے کمرے میں ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوتی تھی۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے نہیں سناکہ وہ کوئی ضروری کام بھول گئے یا ان کے ذہن سے کوئی بات نکل گئی ہو۔ جو کام بھی ان کے ذمے لگ جاتاتھا، یا جس کام کو بھی اپنے ذمے لے لیتے تھے، اس کام کو بر وقت مکمل کرلیتے تھے۔ محنت اور یکسوئی ان کا خاصّہ تھا۔ متانت، سنجیدگی اور وقار کی وجہ سے ناواقف لوگوں کو خیال ہوتاتھاکہ شاید گھلنے ملنے سے احتراز کرتے ہیں یا خشک طبیعت کے مالک ہیں لیکن جو قریب سے انھیں جانتے تھے انھیں یہ بھی معلوم تھاکہ اگر کوئی تنقید اور محاسبہ پر اترآئے یا زیادہ ہوشیار بن کر انھیں سمجھانے کی کوشش کرے تو کبھی ناگواری محسوس نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی بے ساختہ کوئی ایسا جملہ بھی کس دیتے تھے جس سے مطلب بھی پوری طرح واضح ہوجاتاتھااور مجلس بھی خوش گوار بن جاتی تھی۔

میاں طفیل محمد صاحب کا بچپن اور جوانی ٹھیٹھ پنجابی ماحول میں گزراتھا۔ ان کی اردو پر بھی پنجابی لہجے کا اثر تھا لیکن ہم نے کبھی انھیں پنجابی میں بات کرتے نہیں سنا۔ ان کے پورے خاندان نے مولانا مودودیؒکے زیر اثر اردو کو اپنی گھریلو زبان کے طور پر اپنالیاتھا لیکن اس کے باوجود   کبھی کبھی بے ساختہ پنجابی محاورے اور ضرب المثل کے ذریعے سے مطلب واضح کردیتے تھے جس سے معلوم ہوتاتھاکہ پنجابی زبان پر انھیں مکمل عبور حاصل ہے اور پنجابی زبان میں جو بے تکلفی اور بے ساختہ پن ہے اس کے حسن و خوبی کو بھی جانتے ہیں۔

جماعت اسلامی کی تربیت کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ ہمارے تربیت یافتہ سب لوگ   فرقہ وارانہ علاقائی اور لسانی عصبیت سے پاک ہیں۔ کراچی اور سندھ میں لسانی فسادات کے مواقع پر بھی جماعت اسلامی کے لوگوں نے بیچ بچائو کا کردار ادا کیا۔ اس تربیت میں قرآن وسنت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒاور میاں طفیل محمد صاحب کا ذاتی رویہ اور مثال بھی مشعلِ راہ تھی۔ ان دونوں بزرگوں کی تربیت کے نتیجے میں پاکستان میںایک ایسی جماعت اور ایسا گروہ منظم ہوا ہے جو ہر طرح کی گروہ بندی سے بالا ترہے۔

جب تک مولانا مودودیؒحیات تھے میاں طفیل محمد ؒہر کام ان کے مشورے سے کرتے تھے۔ اگرچہ امارت سے سبک دوش ہونے کے بعد مولانا مودودیؒجماعت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور امیرجماعت اور ان کی ٹیم کو آپس کے مشورے کے ساتھ تمام امور کو نمٹانے کی تلقین کرتے تھے۔ میں جب قیم جماعت تھا تو مولانا مودودیؒ سے میری آخری ملاقات بفیلو (امریکا) میں ان کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں ہوئی تھی۔چند اہم امور کے بارے میں مولانا سے مشورہ طلب کیا تو اس وقت انھوںنے یہی تلقین کی کہ واپسی پر جماعت کے اندر مشورے سے تمام امور کا فیصلہ کیا جائے۔ مولانا مودودیؒاور میاں طفیل محمد صاحب نے جماعت کے دستور کی پابندی اور مشورے کے نظام کو جماعت میں ایسا راسخ کردیاہے کہ ہر سطح پر تمام امور مشورے سے نمٹائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کی ایک اہم امتیازی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشورٰی ۴۲:۳۸)،’’وہ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے طے کرتے ہیں‘‘۔ اس اصول کو جماعت نے اپنے پورے نظام کا حصہ بنالیا ہے اور اسی لیے یہ جماعت الحمدللہ اب تک کسی بڑے انتشار اور گروہ بندی سے محفوظ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور حکومت میں میاں طفیل محمد صاحب پر بے حد تشدد کیاگیا۔ انھوںنے جس طرح اپنی کسی دوسری تکلیف کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے سے احتراز کیا، اسی طرح انھوںنے کبھی بھی اپنے اوپر تشدد کا ذکر نہیں کیا لیکن بھٹو صاحب کی آمرانہ سول حکومت کے مقابلے میں انھوںنے ضیاء الحق کے مارشل لا اور فوجی آمریت کو بہتر سمجھا۔ جماعت کے اندر اور باہر ان کی اس رائے سے کچھ لوگوں نے اتفاق نہیں کیا لیکن ان کے اخلاص پر کسی کو شبہہ نہیں تھا۔ اس لیے جماعت کے کچھ سینئر لوگ اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے رہے اور اطاعتِ امیر کی     اعلیٰ مثال قائم کر کے جماعت کے ڈسپلن اور اجتہادی امور میں اختلاف کے باوجود اتحاد اور یگانگت کا نمونہ پیش کیا۔ ان کے شخصی احترام کی وجہ سے اور ان کے اخلاص نیت پر یقین کی وجہ سے یہ اختلاف جماعت میں کسی انتشار کا سبب نہیں بنا اگرچہ اسلامی جمعیت طلبہ کو ضیاء الحق کی پالیسیوں سے بڑا نقصان پہنچا اور جمعیت کے کچھ لیڈروں کو اس دور میں اذیتیں دی گئیں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اسی طرح کراچی میں ضیاء الحق کے دورمیں سرکاری سرپرستی میں  ایم کیو ایم قائم ہوئی۔ لیبر تنظیموں پر پابندی کی وجہ سے جماعت اسلامی کی مزدور تحریک متاثر ہوئی اور جماعت کے گڑھ دیر میں مولانا صوفی محمد صاحب کو تحریک نفاذ شریعت محمدی منظم کرنے میں سرکاری سرپرستی حاصل رہی جنھوں نے جمہوریت اور ووٹ دینے کو حرام قرار دیا۔ اس کی وجہ سے جماعت اسلامی کودیر میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرناپڑا کیونکہ کچھ دیندار لوگوں نے مولانا صوفی محمد صاحب کی بات کو تسلیم کرکے ووٹ نہیں ڈالا۔ اس زمانے میں بھی جماعت نے مارشل لا کی اصولی مخالفت کی اور جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ شوریٰ میں شرکت سے معذرت کی اور ساری توجہ اپنے انداز میں جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے لیے فضا ہموار کرنے پر مرکوز رکھی۔

میاں طفیل محمد صاحب نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ انھوں نے پوری زندگی سادگی سے بسر کی۔ اپنی طبعی سادگی ، اخلاص اور یک رخے پن کے سبب انھیں بعض حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامناکرنا پڑا لیکن وہ پوری استقامت سے اس صراط مستقیم پر ڈٹے رہے جس کو وہ اپنے فہم دین کی روشنی میں درست سمجھتے تھے۔

میاں طفیل محمد صاحب کا ضیاء الحق سے نہ کوئی رشتہ تھا، نہ انھوں نے ان سے کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ ان کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی غرض وابستہ تھی، اور نہ آخر تک ہی انھوںنے مارشل لا کوجائز  طرزِ حکومت کے طورپر تسلیم کیا۔ ان کے پورے دور امارت میں جماعت اسلامی اپنے اس موقف پر قائم رہی کہ دستوربحال کیا جائے،اور بالغ راے دہی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے۔ البتہ میاں طفیل محمد صاحب نے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی اس بنیاد پر حمایت کی تھی کہ اس سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ ہموار ہوتاہے اور اگر ملٹری ڈکٹیٹر خود کوئی ایسا راستہ دینے پر آمادہ ہے جس سے بالآخر جمہوریت بحال ہونے کی امید ہے تو اس راستے کو اپنانا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے بہت سے اہل الرائے کے اختلاف کے باوجود وہ اخلاص سے سمجھتے رہے کہ اسی سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ نکلے گا۔ چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا اور ریفرنڈم کے بعد ضیاء الحق صاحب اپنی ملٹری ڈکٹیٹرشپ برقرار نہ رکھ سکے۔

محترم میاں طفیل محمد صاحب زہد و تقویٰ اورتورع میں ہم سب کے لیے مثال تھے۔ نماز پڑھتے تھے تو دنیا جہان سے کٹ کراپنے رب کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے تھے۔ پوری توجہ اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے تھے۔نماز باجماعت کی باقاعدگی انھوںنے اس وقت بھی نہیں چھوڑی جب بینائی کی کمی کی وجہ سے سہارا لے کر مسجد میں آنا پڑتاتھا۔ انھوں نے ۹۵ سال کی عمر میں اپنی آخری تراویح بھی باجماعت پڑھی اور پورا قرآن کھڑے ہوکر سنا۔ انھوںنے بے ہوشی سے قبل اپنی آخری نماز مغرب اور نماز عشاء بھی جامع مسجد منصورہ میں باجماعت پڑھی۔ میں نے شدید درداور بیماری کے عالم میں بھی انھیں دیکھا ہے لیکن جب ان سے حال پوچھا تو انھوںنے یہی جواب دیا کہ الحمدللہ! اللہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے، میں اللہ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔

ان کو اللہ نے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں دی ہیں جو سب شادی شدہ اور صاحب ِاولاد ہیں۔ ان کی پوری اولاد عیدین کے موقع پر ان کے گھر میں اکٹھی ہوجاتی تھی تو لگتاتھا ایک پورا قبیلہ ہے، اور ان میں سے جس سے بھی کوئی ملتاہے تو طبعی شرافت کی وجہ سے ہر ایک میںجناب میاں طفیل محمد صاحب کی شخصیت کا پرتو نظر آتاہے۔ میا ں طفیل محمد صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا سبق راہِ خدا میں استقامت اور ثبات ہے۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اقامت ِدین کے اس طریق کار پر کاربند رہے جسے انھوںنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں مولانا مودودیؒ سے سمجھا تھا او راس راستے میں ان کے پاے استقامت میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی۔

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) مومنین کے گروہ میں کچھ ایسے مردانِ کار ہیں جنھوںنے اللہ کے ساتھ اپنا کیا ہوا عہد پورا کردکھایا۔ پس ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نذر پوری کردی اور کچھ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ کے ساتھ اپنے باندھے ہوئے عہد پر پورا اتریں اور ان کے پاے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

بلاشبہہ حضرت میاں طفیل محمدصاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کے ساتھ اپنے باندھے ہوئے عہد کو  پورا کردکھایا۔ ہم سب اس کے گواہ ہیں۔

جماعت اسلامی کی تنظیم اور دستور کی پابندی بنیادی طور پر تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ذہن اور ان کی توجہ کی مرہونِ منت ہے لیکن اگر میاں طفیل محمد ؒ جیسے دست راست اور وفادار ساتھی انھیں نہ ملتے تو شاید اتنی مضبوط اور پایدار بنیادوں پر اس کی اٹھان ممکن نہ ہوتی۔ میاں صاحب محترم ایک ایک رپورٹ، شوریٰ کی کارروائی ،سرکلراور قرار داد کا لفظ لفظ خود پڑھتے، اس کی نوک پلک درست کرتے اور طباعت سے قبل اس کی صحت کو یقینی بناتے۔ ہر متعلقہ تحریر کا بغور مطالعہ فرماتے اور کوئی کام بھی روا روی میں نہیں کرتے تھے۔ اپنے خطوط کے جوابات خود تحریر فرماتے۔ بینائی سے محرومی کے بعد روزانہ دو تین گھنٹے اخبارات اور جرائد اور دوسرا ضروری لوازمہ باقاعدگی سے کسی سے پڑھوا کر سنتے تھے۔ اس طرح آخر دم تک وہ ایک باخبر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ آخر دم تک محض دعا گو ہی نہیں تھے بلکہ جماعت کی عملی سرپرستی فرماتے رہے۔ مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرماتے اور اپنے ایک ایک ملنے والے کو مفید مشوروں اور دعائوں سے نوازتے۔ اللہ ان کے روحانی فیض کو ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے، آمین۔

حضرت میاں صاحب کے حالات زندگی اور ان کے مشاہدات کو جناب سلیم منصور خالد صاحب نے مشاہدات کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ یہ سلیم منصور خالد صاحب کی آیندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیے بڑی خدمت ہے۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے ،آمین۔

 

۲۶نومبر سے ۲۹ نومبر تک ممبئی کے پانچ مقامات پر جو قتل عام ہوا، اس نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر دہشت گردی کے مسئلے پر مرتکز کردی ۔ بھارتی میڈیا نے اس موقعے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں تقریباً ۲۰۰بے گناہ لوگ قتل ہوئے ،جن میں صوبہ مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسکواڈ (ATS)کے سربراہ ہیمنت کراکرے بھی شامل ہیں۔ اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل خود بھارت کے تحقیقاتی اداروں نے یہ انکشافِ (حقیقت) کر دیا تھا کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے سنگین واقعات میں بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیمیں اور بھارتی فوج کے سینئر افسر ملوث ہیں۔

فی الحقیقت بھارت میں دہشت گردی کے متعدد واقعات (بشمول سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے اور مالیگائوں کے دھماکوں) کے پیچھے بھارتی انتہا پسند ہندوتنظیم بجرنگ دل کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ مگر ان تنظیموں کے بے پناہ اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی ناممکن ہے اور جب بھی ان کی نشان دہی کی جاتی ہے تو ان کو بچانے کے لیے خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔

ممبئی میں کارروائی کرنے والے آٹھ دس نوجوان انتہائی پختہ کار کمانڈو تھے ۔ ان کے بارے میں خود بھارت کے ماہرین کی رائے ہے کہ ان کی کارروائی جرأت و دلیری، پیشہ وارانہ مہارت اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں عموماً امریکا ،اسرائیل، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کے اہم ترین افراد ٹھیرتے ہیں۔ اس کارروائی کے ذریعے یورپ، امریکا اور اسرائیل کو بھارت کی پشت پر کھڑا کردیاگیاہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے موقعے پر کی گئی کہ بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتہاپسند ہندوتنظیمیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات جیتنے کے لیے عین اس موقعے پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ صوبہ گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کروانے کے بعد جو انتخابات ہوئے، ان میں مذکورہ پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کے بعد بھی جنتا پارٹی پورے ملک میں انتخابات جیت گئی تھی، تب سے اس پارٹی کو انتخابات میں کامیابی کی کلید مل گئی اور وہ یہ ہے کہ انتخابات کے موقعے پر مسلم دشمن اور پاکستان دشمن فضا پیدا کردی جائے ۔ اس طرح ووٹروں کی اکثریت کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔

حکومت پاکستان کی طرف سے ممبئی کے واقعے پر افسوس کااظہار کرنے اور اس کی مذمت کرنے اور بھارتی حکمرانوں کے دھمکی آمیزلہجے کے جواب میں خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرنے کے باوجود، بھارتی حکومت نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھیرایا اور کچھ پاکستانی تنظیموں اور چند پاکستانی شہریوں کو نامزد بھی کردیا۔ ساتھ ہی پاکستان کے خلاف جنگ کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام اور حکومت کو جنگ کا حقیقی خدشہ محسوس ہوا اور وزیراعظم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری قومی قیادت کو ایک مجلس مشاورت میں شرکت کی دعوت دی۔ سب ہی جماعتوں نے وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ اس مشاورت میں شامل ہوکر قومی یک جہتی اور اتحاد کا بھرپور ثبوت دیا۔ اس مجلس میں شرکا کی اکثریت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ سنگین خطرات کامقابلہ کرنے کے لیے حکومتی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

پاک افغان سرحد قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہماری ایک محفوظ سرحد رہی ہے جس پر ہمیں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کی طرف سے بھی، جو عموماً پختونستان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی عادی تھی حکومت پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ اپنی مغربی سرحد سے بے فکر رہیں۔ اس کی بڑی وجہ خود قبائلی عوام اور افغان عوام کی اسلام دوستی تھی اور وہ پا ک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن جب سے نیٹو کی افواج نے افغانستان پر قبضہ جمایا ہے انھوںنے بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر قونصل خانوں کے نام سے اپنے جاسوسی اور تخریب کاری کے مراکز قائم کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ریشہ دوانیوں کا جال پھیلا دے۔ پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں یہ بھارتی ایجنٹ ملوث ہوتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان دہشت گردی کو عدالتوں سے سزا ملنے کے باوجود حکومتِ پاکستان ان کی رہائی کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ کشمیرسنگھ پرویز مشرف دور میںرہا کیا گیا۔ اب سربجیت سنگھ کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔


پرویز مشرف کی یہ پالیسی کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے صف اول کے حلیف ہیںاور امریکا کواپنے اڈے استعمال کرنے ، اپنی فضا کو ان کے ہوائی جہازوں اور ان کے میزائلوں کے لیے کھولنے، انھیں رسد پہنچانے اوران کو اپنے خفیہ اور جاسوسی اداروں کی معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ملک و قوم کے مفاد کی بجاے امریکا کے مفاد میں تھی۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں حکومت نہ صرف افغانستان اور قبائلی علاقوں میں بلکہ اپنے ملک کے ہر حصے اور ہر طبقے میں میں عوام کی تائید سے محروم ہوگئی ہے۔

پاکستان جو روسی تسلط کے خلاف افغان عوام اور مجاہدین کا حلیف تھا طویل عرصے تک لاکھوں افغانوں کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی کے باوجود، داخلی طور پر بدامنی سے محفوظ رہا کیونکہ روس کے خلاف مجاہدین کی مدد کرنے میں پاکستان کے عوام حکومت کی تائید کررہے تھے ۔ لیکن جب روس کے بجاے امریکا اور نیٹو افغانستان پر قابض ہوگئے تو پاکستانی حکومت نے یوٹرن لیا اور مجاہدین اور افغان عوام کے خلاف امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ پالیسی افغان، پاکستانی اور قبائلی عوام کی دینی امنگوں کے خلاف ہے۔ افغان مجاہدین روس کے خلاف جو ایک طویل صبر آزماجنگ لڑرہے تھے اور پاکستانی عوام میں جو عناصر ان کے پشتیبان تھے، وہ افغانستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے اور اس تاریخی آزاداسلامی خطے کو کمیونزم کے چنگل میں جانے سے بچا کر اس کو ایک مکمل اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے امریکی تسلط اسی طرح نامنظور ہے جس طرح روسی تسلط نامقبول تھا۔ لیکن پاکستانی حکومتوں نے کبھی عوامی اُمنگوں کا احترام نہیں کیا۔  اس لیے روسیوں کے نکلنے کے بعد یہ امریکا کے آلۂ کار بن گئے۔ یوں دشمن کو خود پاکستان کے اندر بدامنی پھیلانے کا موقع مل گیا ۔ اگر ہمارے حکمران امریکا کی مخالفت کی سکت نہیں رکھتے تو کم ازکم انھیں امریکا سے معذرت کرلینی چاہیے کہ افغانستان میں امریکی قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دینے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ یہ پالیسی ہمارے عوام کے لیے قابل قبول نہیںہے اور ہم اگر امریکا سے لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے ملک کے عوام سے لڑنے اور انھیںزیر کرنے کے بھی قابل نہیںہیں۔ پچھلے مہینے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرار داد میں بھی حکومت کو مشورہ دیاگیاتھا کہ قبائلی عوام کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بند کردیا جائے اور گفت و شنیداور ترقیاتی کاموں کے ذریعے قبائل کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت سوات ، باجوڑ ،مہمند ایجنسی ،درہ آدم خیل ،کرم ایجنسی اور وزیرستان کے لاکھوں عوام اپنے ملک کے اندر  بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف امریکا کی ایماء پر آپریشن جاری ہے ۔ یہ قبائل ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہے ہیں اور یہ پاکستان کی فوج کے لیے ایک ریزروفورس اور بازوئے شمشیر زن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطرے کے اس موقع پر انھیں اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ دینی جماعتوں کی طرف سے حکومت پاکستان کو یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اگر قبائل کے خلاف فوجی کارروائی روک دی جائے تو قبائل کو جو محب ِ وطن ہیں، قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

قومی جماعتوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ بھارت کے دبائو میں آکر اپنے شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا خود بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے بجاے انھیں بھارت اور بین الاقوامی برادری کے سامنے شواہد پیش کرنے چاہییں کہ کس طرح بھارت ہماری مغربی سرحد پر قونصل خانے قائم کرکے انتشار اور بد امنی پھیلانے کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا گیاہے کہ ہندستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کروانے میں مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتوں میں جنگ انسانیت کی تباہی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا احمق نہیں ہوگا جوکروڑوں انسانوں کی تباہی اور دونوں ممالک کو بھسم کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ اس خطرے کے پیش نظردونوں ممالک مکمل جنگ سے توپرہیز کریں گے لیکن بھارت اپنی عددی اور مادی برتری کے سہارے دوسرے طریقوں سے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کرے گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے بہانے عالمی جنگ میں بھارت ،امریکا اور اسرائیل کا حلیف ہے ، بھارت ایک ارب کی آبادی کا ملک ہونے کی وجہ سے تجارتی لحاظ سے بھی بڑی منڈی ہے اور اس مادی دنیا میں اصولوں کی بجاے مادی منفعت ہی کو اہمیت حاصل ہے اس لیے عالمی طاقتیں عموماً ان کی موید ہیں لیکن اگر ہم امریکا اور بھارت کی دھمکیوں میں آکر شکست اور پسپائی اختیار کریں گے تو ہمیں اپنے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلنا اور متحد کرنا ضروری ہے ۔وزیراعظم ہائوس میں قومی اتحاد کا مظاہرہ باتوں کی حد تک تو بہت کامیاب رہا لیکن عمل کے میدان میں حکومت نے اب تک کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس سے قوم کے اندر کوئی حوصلہ پیدا ہویا جس سے بین الاقوامی برادری کے سامنے ہمارا حقیقی موقف واضح ہوسکے ۔

اس کے برعکس سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے پاکستان کی دینی جماعت اور خدمت خلق کے ایک بڑے ادارے ’جماعۃ الدعوۃ‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون کا کہناہے کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تعجب ہے کہ جب پاکستانی حکومت کو سلامتی کونسل میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا تو واضح طور پر سلامتی کونسل کی کمیٹی کے یک طرفہ اور ایک نہایت غیرمنصفانہ فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں کیوں اتنی بے تابی دکھائی گئی۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسرحافظ محمد سعید اور ان کے چوٹی کے دس ذمہ داران کو فوراً ہی نظربند کرنے کے احکامات کیوں جاری کیے گئے اور جماعۃ الدعوۃ کے تمام دفاتر کو سربمہر کر کے اس کے اثاثوں کو کیوں منجمد کردیا گیا ہے ۔ یہ اس کے باوجود کیا گیا کہ حکومت کا کہناہے کہ انھیں بھارت کی حکومت کی طرف سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، جن سے جماعۃ الدعوۃ یا لشکر طیبہ کے ممبئی کے واقعات میںملوث ہونے کا ثبوت مل سکتاہو۔ حکومت امریکا کا ایک نمایندہ نیگروپونٹے اسلام آباد میں بیٹھ کر سلامتی کونسل کی نامزد کردہ تنظیموں اور ان کے افراد کے خلاف کارروائی کی نگرانی کررہا تھا۔ ساتھ ہی برطانیہ کاوزیرخارجہ بھی اس مقصد کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ برطانوی وزیر خارجہ کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس نے مطالبہ کردیا کہ عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار برطانوی پولیس کو دیا جائے۔اس دوران بھارتی ائیرفورس نے نہایت دیدہ دلیری سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے حکومت کومرعوب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جو حکومت مغربی سرحد پر امریکا کے میزائل حملوں اور ان کے ڈرون طیاروں کے بلاروک ٹوک حملوں پر زبانی احتجاج کرنے سے بھی قاصر ہے اس سے کوئی کیوں گلہ کرے کہ انھوںنے بھارت کے فوجی طیاروں کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کو ’تکنیکی غلطی‘ قرار دے کر بھارت کو اس جارحانہ کارروائی سے بری کردیا ہے۔


موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر اور سلسلہ وار وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے، اور اس کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بین الاقوامی طاقتوں نے امریکا کی سرکردگی میں پاکستان کے بارے میںیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ ملک اپنے اسلامی نظریے اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دستور اور موجودہ شکل میں پاکستان کا قائم رہنا امریکا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے، لہٰذا:

(i)  اس کے حصے بخرے کیے جائیں۔

(ii)  اسے اسلامی ریاست کی بجاے سیکولر سٹیٹ بنا دیا جائے ۔

(iii)  اس کی ایٹمی طاقت کو نیست و نابود کردیا جائے یا کم از کم اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے۔

ملک کے موقر اخبارات میں ایسے مضامین اور رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بین الاقوامی سازشی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر ایسی قوتیں موجود ہیں جو مشرقی پاکستان کے سانحے کو دہرانا چاہتی ہیں اور سالمیتِ پاکستان کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ پاکستانی قوم اس امریکی ایجنڈے کامقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ انتظامیہ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے اندر اتنی صلاحیت ہے نہ جرأت و ہمت کہ امریکا کے مذموم عزائم سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی طے کرے اور قوم کو آنے والے اس خطرے سے خبردار کرے بلکہ موجودہ صاحبانِ اقتدار توتذبذب اور بے یقینی کا شکار ہیں ۔ یہ تذبذب، بے یقینی، بزدلی اور ایمان کی کمزوری ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ۔ تباہی سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد اور قومی بیداری کی ضرورت ہے۔

اِن تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ o (محمد۴۷:۷) اگر مدد کرو گے تم اللہ کی تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور جما دے گا مضبوطی سے تمھارے قدم ۔

اللہ کی مد د کے لیے لازم ہے کہ ہم ابھی سے وہ کلمہ پڑھ کر اپنی قوم کو پکاریں جو عین جنگ کے وقت ایوب خان کو یاد آگیا تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی ۔ اس وقت کا انتظار کرنے کی بجاے سب لوگ سچے دل سے لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے میدان میں نکلیں تو شکست خوردگی کی فضا اچانک یقین اور اعتماد کی فضامیں بدل جائے گی ، اللہ کی مدد آئے گی ، لیکن  یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی فوج کو یاد دلائیں کہ وہ اپنے شعار (motto) ’ایمان ،تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ‘ کو صرف لکھا ہوا کافی نہ سمجھے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہو اور پھر ہم فوج کو اپنی قوم کے خلاف امریکی جنگ لڑنے سے واپس بلالیں۔

فوج کو قبائل سے لڑا کر، جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر چڑھائی اور وہاں مسلمان بچیوں کے قتلِ عام کے ذریعے دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کرکے اور اب کشمیر ی تحریک مزاحمت میں سرگرم جہاد کے جذبے اور شہادت کے شوق سے سرشار مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرکے یکہ و تنہا کردیاگیا ہے۔ اس موجودہ حالت میں ہماری فوج ملک کے اندر سیکورٹی بحال کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کی یک جہتی لازم ہے ۔ سیکولر اور لادین عناصر کو پاکستان کی بقا سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وہ ایک سیکولر ہندستان میں رہتے ہوئے زیادہ آرام محسوس کریں گے اور امریکا اور بھارت کے زیر سایہ رہنے میں بھی انھیں کوئی عار نہیں ہوگا۔ اس ملک کا استحکام اور اس کی بقا انھی لوگوں کو عزیز ہے جو اسے اسلام کا قلعہ اور مسلم امت کے اتحاد کی علامت سمجھتے ہیں۔ انھی کے نزدیک اس ملک کے لیے جان و مال کی قربانی دینا سعادت دارین ہے۔ ان شاء اللہ یہ ملک قائم رہے گا اور اسلام کا مضبوط قلعہ بنے گا۔ مایوسیوں کے اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ دین سے وابستگی اور اللہ و رسولؐ سے وفاداری ہی سے زندگی کی حقیقی حرارت ملتی ہے۔ مفکرِپاکستان علامہ محمد اقبال نے اس نکتے کی یوں تشریح کی ہے:

ایں نکتہ کشایندہ اسرار نہان است
ملک است تن خاکی و دیں روح روان است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربط تن و جان است
باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز
ازخواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز
از خواب گران خیز!

(یہ نکتہ پوشیدہ رازوں کو کھولنے والا ہے کہ تن خاکی ملک ہے اور دین اس کی روح ہے۔ جسم و جان ایک دوسرے کے ربط کے نتیجے میں زندہ رہتے ہیں۔اس ربط کو قائم رکھنے کے لیے سجادہ اور خرقہ (اسلامی تہذیب کی علامتیں)اور شمشیر و سنان (سامانِ جہاد) لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور گہری نیند سے بیدار ہوجائیں۔)

ایسے خطرات اور چیلنج جب کسی زندہ قوم کو پیش آتے ہیں تو وہ ان کی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کرنے، انھیں جھنجھوڑنے اور انھیں قربانیوں پر آمادہ کرنے کے لیے مہمیز کاکام دیتی ہیں۔ اس لیے فارسی کی ایک ضرب المثل ہے کہ  ع

عدو شرے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد

(خدا کرے کہ دشمن ایک ایسا شر برپا کردے کہ اس میں ہماری خیر ہو)۔


اس وقت جو خطرات ہمیں درپیش ہیں، وہ ہمیں اپنے طرز عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کے نصف حصے کو غربت اور جہالت کے غار میں پھینک رکھاہے۔ ہمارے امرا اورسرمایہ دار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے اپنی قوم کو محروم کررہے ہیں۔ ہماری فوج کے اعلیٰ افسر آسایشوں کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ عام لوگوں سے الگ تھلگ ایک دوسری دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے قومی وسائل پر ایک مراعات یافتہ طبقے کا مکمل قبضہ ہے۔ ہم اپنی قومی زبان سے محروم ہیں۔

ملک و قوم کے دگرگوں حالات اور ملک میں موجود بادشاہ گروں کے خود غرض طبقے کا تجزیہ کرنے کے بعد انگریزی معاصر ڈان میں ایک تجزیہ نگار اس کا حل پیش کرتے ہوئے گوہرافشانی کرتی ہیں :

اس وقت ریاست کا ڈھانچا موجود ہ سسٹم کے وزن کے نیچے دب کر بیٹھ رہاہے۔ ریاست کے انہدام کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ سیاسی نقشے اور اقتدار کے سرچشموں کی نئی صورت گری نہیں کی جاتی۔ ریاست کو بھی نئی شکل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو مکمل ناکامی سے بچانے کی یہ واحد صورت ہے ۔ نکتہ آغاز کے طور پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ وفاق مزید نہیں چل سکتا۔ (روزنامہ ڈان، ۲۸نومبر ۲۰۰۸ء)

یہ سوچ ایک تجزیہ نگار کی آزادانہ سوچ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے سیکولر طبقے کی بارے میں امریکی دانش وروں کی سوچ کی عکاس ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک، اپنے رب اور اپنے پالنہارسے دُور ہو گئے ہیں۔ قرآن ہمیں پکارتا ہے :

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ o (الحدید ۵۷:۱۶) کیا مومنین کے لیے وہ وقت نہیں آپہنچا ہے کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم ہوجائیں۔

امریکی دانش وروں کے زیر اثر سیکولر تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ فیڈریشن مزید نہیں چل سکتی۔ نئے سرے سے ریاست کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریے کی بجاے سیکولرزم کے نظریے کے تحت پاکستان کو مختلف ریاستوں کے کنفیڈریشن میں تبدیل کیا جائے جنھیں الگ ہونے کا حق حاصل ہو۔ جس طرح یہ طبقہ، (سرخ و سفید سامراجیوں کی خواہشات کے مطابق) اسلامی ممالک کو لسانی بنیادوں پر ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے نام سے مزید تقسیم کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کردینے کا متمنی ہے۔ اس کامقابلہ کرنے کے لیے اُمت ِ واحدہ اور  ع

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

کے تصور کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ ایک حقیقت ہے۔ اسلام ایک عالمگیر قوت ہے جو مشرق و مغرب میں اپنی حقانیت کے بل بوتے پر تیزی سے پھیل رہاہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو بڑی سے بڑی قربانی پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتاہے۔ اس کے ماننے والے کروڑوں انسان جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے ہیں جو ’وحدت آدم‘ کے قرآنی نظریے پر ایمان رکھتے ہیں اور جو توحید کے عقیدے سے سرشار ہیں۔ جنھیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دنیا کی ہردوسری شے سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ امت موجودہ عالمی فساد کو واقعتا ایک عالمی نظام میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس امت کے اسی تعمیری جذبے کو ابھارنے اور عالم انسانیت کو اس سے متعارف کرانا اس دور اور اس عہد کی ضرورت ہے:

فریادِ افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں ، خوابِ گراں خیز!
از خوابِ گراں خیز!

(افرنگ اور اس کی دلآویزی سے فریاد! افرنگ کی دلربائی اور حیلہ گری سے فریاد! ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویران ہوچکی ہے، معمارِ حرم! جہان کی ازسرِنو تعمیر کے لیے اُٹھ۔ اس خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں سے بیدار ہو، خوابِ گراں سے بیدار ہو۔)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہر سال کی طرح ایک بار پھر رمضان کا مبارک مہینہ اپنی برکتیں لے کر ہم پر طلو ع ہورہاہے، جس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس کے دن میں روزہ رکھنا فرض کردیاگیاہے اور جس کی راتوں میں قرآن سننا مستحب اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس میں ایک فرض کی ادایگی دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرائض جتناثواب رکھتی ہے اور جس میں ایک نفلی عبادت دوسرے مہینوں کے فرائض جتنی بزرگی کی حامل ہے۔ یہ غریب لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس میں کسی کا روزہ افطار کرانا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کی ضمانت فراہم کرتاہے۔

امام بیہقی ؒ نے شعب الایمان میںحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ نقل کیاہے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں:

ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسولؐ اللہ نے ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والامہینہ سایہ فگن ہو رہاہے۔ اس مہینے کی ایک رات(شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیںاور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (نماز تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت(سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں  کے برابر ثواب ملے گا۔اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور  غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میںکسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گابغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو افطار کرانے کا سامان موجود نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض(کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے۔ اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی دے دے گا۔

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:

جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں،اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیںرہتا۔ اور منادی کرنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آگے آ،اور اے بدی کے شائق رک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے(گناہ گار)بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔اور یہ سب رمضان کی ہررات میں ہوتا رہتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

روزہ،قیام تراویح اور لیلۃ القدر کے نوافل انسان کے گذشتہ گناہ دھو ڈالتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث میںحضور نبی کریمؐ نے فرمایا:

جس نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پہلے کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، ایسے ہی جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں نوافل(تراویح و تہجد)پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیںگے،اور اسی طرح جس نے شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے نوافل پڑھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (متفق علیہ)

اسی بارے میں امام احمد بن حنبل ؒنے ایک حدیث قدسی کو نقل کیا ہے:

بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوںکو فرض اور اس کے قیام کونفل قراردیاہے۔ جس نے ثواب کی نیت سے روزے رکھے اور قیامِ لیل کیا،وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔(مسند احمد)

یہی وجہ ہے کہ رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی عالمِ اسلام کے شب و روزتبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مسجدیں آباد ہوجاتی ہیں۔ گھروں کے اوقات بدل جاتے ہیں۔پوری دنیا کے مسلمان اپنے رب سے لو لگا لیتے ہیں، ہر دم اس سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیںاور ہر لحظہ اسے راضی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کوئی بدبخت مسلمان ہی ایسا ہوگا جس کا گھر رات کے آخری حصے میں سحری کی برکتوں اورپھر شام کے وقت افطار کی گہماگہمی سے محروم رہے۔

رمضان، قرآن اور تقویٰ

رمضان المبارک کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں اور جو   حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔(البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کے رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔

رمضان المبارک کا مہینہ سالانہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ دن کے وقت روزے اور رات کے وقت تراویح میں قرآن کریم سننے کی عبادت۔ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ضبط نفس کی ایسی تربیت کہ بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود مجال ہے کہ بندۂ مومن کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آئے کہ وہ افطاری سے قبل کوئی نوالہ یا کوئی گھونٹ حلق سے نیچے اتارے۔ مسلمان گھرانوں میں بچوں کی بھی ایسی تربیت ہوجاتی ہے کہ اگر ایک بار روزے کی نیت سے سحری کھالیں تو افطار کے وقت تک روز ے کی پابندیوں کا خیال رکھتے ہیں۔

روزہ تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہر وقت، ہرلمحے اور ہر گھڑی یہ احساس کہ بندے نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھا ہے۔ بھوک اور پیاس ہر وقت اس کے دل کو اللہ سے جوڑ ے رکھتی ہے۔ تنہائی میں بھی اپنے رب کے سامنے ہونے کے احساس کی وجہ سے بندہ کھانے پینے کی ہر چیز سے پرہیز کرتاہے اور اس طرح اپنے ر ب پر ایمان کی آبیاری کرتاہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ بنی آدم کے ہر عمل کا بدلہ اسے چند درچند دیا جائے گا لیکن روزے کی بات ہی اور ہے۔ یہ خالصتاً میرے لیے ہے،اور میں اپنے فضلِخاص سے اس کا خصوصی اجر دو ں گا۔حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:

رسولؐ اللہ نے فرمایا: آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتاہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے۔ وہ (بندے کی طرف سے) میرے لیے(ایک تحفہ) ہے، اور میں ہی(جس طرح چاہوں گا) اس کا اجروثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کی خاطر اپنی خواہشِنفس اور اپنا کھاناپینا چھوڑ دیتاہے۔ روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک کی بارگاہ میں باریابی کے وقت۔اور قسم ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو.ُ اللہ کی نزدیک مشک کی خوشبو سے بہترہے، اور روزہ (شیطان و نفس کے حملوںاور آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے)ڈھال ہے۔(متفق علیہ)

رمضان المبارک اخلاقِ حسنہ کی تربیت کامہینہ ہے اور حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے :

جب تم میں سے کوئی شخص کسی دن روز ے سے ہو تونہ گالم گلوچ کرے اور نہ شور وغوغا کرے، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(متفق علیہ)

ایک اور موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جو آدمی روزے کی حالت میںباطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(بخاری)

نزولِ قرآن کے اس مبارک مہینے میں مردِ مومن کااپنے رب سے تعلق مزید استوار ہوجاتا ہے اور وہ قرآن کریم سے مزید جڑ جاتاہے۔ قرآن کریم کتابِ جہاد ہے،اور قائد المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم پر میدانِ جہاد میں اتری ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے مقام پر سرفراز ہونے کے بعد اعلاے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین اور اقامتِ دین کا فریضہ ادا کرنے کے لیے میدانِ جہاد  میں تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے کام کے ہر مرحلے میں اللہ نے ان کی راہ نمائی قرآن کریم کے ذریعے کی ۔مسلمانوں کی قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے یہی منہج الرسو ل ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیاگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے توانھوں نے پوچھا کہ کیا تم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ؟  کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن’’بس قرآن ہی ان کا اخلاق تھا‘‘۔

رمضان، قرآن اور جہاد باہم وابستہ و پیوستہ ہیں۔ ہر سال رمضان المبارک مسلمانوں کو اپنے رب سے تعلق جوڑنے کا ایک نیا موقع فراہم کرتاہے۔ عالمِ اسلام کی تمام مسجدیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوجاتی ہیں۔ نئی نسل کے جواں سال فرزند لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت سے لاکھوں   فرزندانِ توحید شب و روز مسجدوں میں ڈیر ے ڈال کر اپنے رب کی بندگی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اب قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ کے ساتھ قرآن کریم کو سمجھنے کی تحریک بھی عام ہوگئی ہے۔    عام مردوزن کی یہ حالت ہے کہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے ساتھ ہی فہم قرآن کی ایک ایک کلاس میں ہزاروں مرداور خواتین کھلے میدانوں میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات ہم نے    یہ نظارہ دیکھاہے کہ عورتیں اور مرد بارش میں چھتریاں تھام کر کھلے آسمان کے نیچے قرآن کریم کا درس سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔یہی حال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم اور جہاد کی محبت کو ایسا پیوست کردیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری اپنی تمام مادی برتری اور لائو لشکر اور میڈیا کی قوت کے باوجود ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

عشق و محبت کے اس خزانے کو اور زیادہ بہتر سمت دینے کی ضرورت ہے۔ قربانی کے جذبے کو اگر منزل کی طرف جانے والے صحیح راستے پر نہ ڈالاجائے تو یہ ہدف تک پہنچنے کے بجاے راستے ہی میں ضائع ہوجاتاہے۔ اس کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ ہر فرد کسی ذمہ دار قیادت کے ساتھ وابستہ ہو اور خود فیصلہ کرنے کے بجاے جماعت کے فیصلے کی پابندی کرے۔ کسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے سے قبل اطمینان حاصل کرے کہ کیا وہ جماعت قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ٹھیک منہجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل پیرا ہے؟ اللہ کا فرمان ہے :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوںکے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہواور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

نبی کریمؐ کی دعوت

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حکم دیا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں ۔ انھوں نے اپنے اُمتیوں کو بھی یہی کہاکہ لوگوں کو توحید کی دعوت و تعلیم دیں،اور ایک اللہ کی بندگی کی طرف  بلائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔

جن لوگوں نے حضوؐرکی دعوت کو قبول کیا حضوؐر نے ان کی تربیت کی، ان کا تزکیہ کیا اور انھیں کتاب و سنت کی تعلیم دی۔ فرمانِ الٰہی ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن o (اٰل عمران۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتاہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تربیت یافتہ گروہ کو دعوت الیٰ اللہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کی خدمت کے کام پر لگایا، یہاں تک کہ ایک اسلامی حکومت قائم کی اور اس اسلامی حکومت کو بھی دعوت الی اللہ ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور نظام عدل و قسط رائج کرنے کے لیے استعمال کیا۔مومنین کی یہ خصوصیت ہے کہ اللہ جب ان کو اقتدار بخشتا ہے تو وہ یہی کام انجام دیا کرتے ہیں۔ خود اللہ ربِ ذوالجلال نے اس کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیںتو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرمرحلے پر نظامِ عدل و انصاف نافذ کرنے کی ترجیحات کا لحاظ کیا۔ مکہ مکرمہ کی زندگی میں زبانی دعوت پر اکتفا کیا۔ شرک سے لوگوں کو منع کیا، تو حید کی تعلیم دی لیکن کسی بت کو تو ڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ کعبے میں سیکڑوں بت سجاے گئے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بتوں کی موجودگی کے باوجود کعبے کا طواف کرتے تھے۔ بتوں کی برائی کرتے تھے اور اس گندگی سے لوگوں کو خبردار کرتے تھے لیکن کبھی کسی مسلمان نے مکی زندگی میں کسی بت کو نقصان نہیں پہنچایا۔ صلح حدیبیہ کے اگلے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو لے کر مکہ پہنچے، عمرہ ادا کیااور کعبۃ اللہ کا طواف کیا لیکن کسی بت کو توڑے اور کسی کافر اور مشرک کے ساتھ الجھے بغیر واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ العیاذ باللہ انھوںنے مشرکینِ مکہ کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی تھی۔ شرک اور مشرکین کے ساتھ مفاہمت تو انھوں نے اس وقت بھی نہیں کی جب مفاہمت کے بدلے میںمشرکینِ مکہ سرداری اور مال و دولت سمیت ہرطرح کے دنیاوی مفادات دینے کے لیے آمادہ تھے۔ان کی اس خواہش کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے:

وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ o (القلم ۶۸: ۹) یہ توچاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کروتو یہ بھی مداہنت کریں۔

قریش مکہ نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب پردباؤڈال کر جنابِ رسالتمآبؐ کو اپنی دعوت سے روکنا چاہا تو آپ ؐنے فرمایا:

چچا حضور! اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیںاور چاہیں کہ میں یہ کام چھوڑ دوں تو میں ہرگز اس سے پیچھے نہ ہٹوں گایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر دے یا میں اس راستے میں قربان ہوجاؤں۔(رواہ الالبانی)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خانہ کعبہ کو بتوں سے صاف کیا جب جزیرہ نما عرب میں مشرکین کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور اس کے بعد کسی کے اندر یہ ہمت نہ رہی کہ وہ دوبارہ بتوں کو خانہ کعبہ میں نصب کرسکے۔ توحیدکی تعلیم کو راسخ کرنا، آخرت کی جواب دہی کے احساس کو قلب و روح میں سمودینا اور اللہ کی محبت سے مومنین کو سرشار کرنا وہ بنیادی کام تھا جس کے بعد ہرحکم کی تعمیل آسان ہوگئی۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ کوئی حد قائم کی نہ ہی تعزیر دی، مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان خاتون کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ داڑھی نہ رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیںہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان برائیوںپر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ ان تمام برائیوںکو تعلیم و تربیت ، ترغیب ، آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کرکے مٹانے کی کوشش کی گئی۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے سکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے اور جس کی واضح تصریح قرآن کریم میں موجود ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوںکو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

نظامِ عدل اور اس کا قیام ہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لیے اللہ نے رسول اور کتابیں بھیجیں۔بدامنی، فتنہ اور بھوک کو ختم کرنابھی بنیادی ترجیحات میں سے ہے اور اس کے لیے لوگوں کو ترغیب دینا اور اس کے لیے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔

نبی کریمؐ کے راستے کی طرف بلایئے

رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتاہے کہ ہم عوام الناس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل سنت کی طرف متوجہ کریں۔ یہ سنت اقامتِ دین کی جدوجہد ہے، یہ سنت   غلبۂ اسلام اور اظہارِ دین جیسے عظیم المرتبت فریضے کی ادایگی ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

یہ اعلاے کلمۃ اللہ کا مقصد ہے اور اس میں نبیؐ کی نصرت تمام مسلمانوں پر فرض ہے :

اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبۃ ۹: ۴۰) تم نے اگر نبی ؐکی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’غم نہ کر‘اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اس وقت اللہ نے اس پراپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بیناہے۔

اعلاے کلمۃ اللہ کے کام میں مسلمانوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنالازم کردیاگیاہے۔ یہ کامیابی اور نجات کے لیے ضروری ہے ،قرآن کریم کے مطابق اب ہدایت یافتہ صرف وہی لوگ ہیں جو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں:

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے)جو اس پیغمبر،نبی امی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے،اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے،اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذاجو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریںاور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(الاعراف ۷: ۱۵۷)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرآن کریم اور سیرت رسول ؐسے بالکل واضح ہے۔ اس مقصد کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لیے تکرار کے ساتھ لوگوں کے سامنے قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے دلائل،واضح ہدایات اور احکامات بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان کا مہینہ اس کام کے لیے نہایت موزوں ہے۔

رمضان المبارک جو بدر،تبوک اور فتح مکہ کے غزوات کامہینہ ہے، جو قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے ،جو صبر و ثبات اور ضبط ِنفس کامہینہ ہے، ہم سے تقاضا کرتاہے کہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑیں اور اللہ کے راستے میں ایسا جہاد کریں جیساجہاد کرنے کا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اللہ کی راہ میں جہاد کروجیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں بھی تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسول ؐتم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج ۲۲: ۷۸)


اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج

اس وقت پوری دنیا میں اُمتِ مسلمہ ایک کش مکش سے گزررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امریکا کی سرکردگی میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اکثر مسلم ممالک کے حکمران امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک بڑے ابتلا کا دورہے۔ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعدسے امریکا اس زعمِ باطل میں مبتلا ہوگیاہے کہ اب انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ اکیلا وہی اپنی مرضی سے کرے گا۔ اس کا خیال تھاکہ اب وہ دنیا کی واحد سپرپاورہے ۔ اس کی مادی اور عسکری قوت کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔    پوری دنیا پر اس کاتہذیبی غلبہ ہوگا۔ تمام انسانوں کو ان کی اقدار کے مطابق پسند و نا پسند کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ مسلمانوں کے وسائل لوٹنے اوردنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اس نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیااور اب ایران کو دھمکیاں دے رہاہے،اور اس کے صدارتی امیدوار اور مجالسِ دانش (think tanks) پاکستان میں گرم تعاقب کی باتیں کررہے ہیں۔

lفلسطین میں مسلمان عملاً محاصرے میں ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ غزہ کی پٹی اور دریاے اردن کا مغربی کنارہ ان کے لیے جیل بنادیاگیاہے۔ اسرائیلی جب چاہتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں انھیںاپنے ظلم اورتذلیل کا نشانہ بناتے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسرائیل کواپنے وجود کی بقا پر یقین نہیں ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ زبردستی چھینی ہوئی زمین پروہ ہمیشہ کے لیے سلامتی سے نہیں رہ سکتے۔ انھیں اس خود دار قوم کاسامناہے جس کے بچے تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ اللہ کی رضا ان کی غایت ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قائد و رہنما ہیں، قرآن ان کا دستور ہے، جہاد ان کا طریقِزندگی ہے اور اللہ کے راستے میں موت ان کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ ہم جب بھی مسلح اسرائیلی سپاہیوں کے سامنے بے نیازی اور وقار کے ساتھ گزرتے ہوئے فلسطینی بچوں اور محترم اور باپردہ خواتین کو دیکھتے ہیں تو ہمارا یہ یقین تازہ ہوجاتاہے کہ اس خود دار اور جذبۂ حریت سے سرشار قوم کو غلام بنایا جاسکتاہے نہ ہمیشہ اپنے گھروں سے باہر رکھا جاسکتاہے۔ انھیں ایک دن ان شاء اللہ ضرور اپنے وطن کی طرف واپس جانا ہے۔

  • یہی حال کشمیریوں کا ہے۔ ۶۱سال تک بھارت نے ہر طرح کے حربے آزمالیے، لیکن آج کشمیریوں کا جذبۂ حریت جتنا جوان ہے اتنا شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔ کشمیری اپنی زمین کے بالشت بھر ٹکڑے سے بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امرناتھ شرائن بورڈ تنازعے نے اس پر مہرِتصدیق ثبت کردی ہے۔بھارتی حکومت نے ایک سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادی بڑھانے اور مسلمانوں کا معاشی ناطقہ بند کرنے کے لیے بیسیوں ایکڑ زمین امرناتھ شرائن بورڈ کو الاٹ کر دی جس کے خلاف پوری مقبوضہ وادی سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کی قیادت میں سراپا احتجاج بن گئی اور اتنے زبردست مظاہرے ہوئے کہ بھارتی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

جموں کے ہندوئوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے اور ان کا محاصرہ کرکے ان کے پھلوں اور دیگر اشیا کو باہر جانے سے روک دیا جس سے انھیں ۲ہزار کروڑ سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کشمیر کے تاجروں نے یومِ سیاہ کی اپیل کی اور کنٹرول لائن کی طرف ’مظفر آبادچلو‘مارچ شروع کر دیا تاکہ وہ آزاد کشمیر کے مسلمانوں کے ہاتھ اپنا تجارتی مال بیچ سکیں ۔ بھارتی فوج نے ان کے اس پُرامن مارچ پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں شیخ عبدالعزیز سمیت بیسیوں کشمیری شہیداور سیکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آگئے،اور بھارتی فوج کو تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ساتھ پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کرناپڑا۔ صرف سری نگر میں دو دفعہ تین تین لاکھ کے جلوس نکلے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ کشمیریوں کی دو نسلیں جوانی اور بڑھاپے کی سرحد عبور کر کے اپنے خالق کے پاس پہنچ چکی ہیں لیکن بھارت کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے آپ کو بھارتی شہری تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ کشمیری مسلمان آج بھی اپنامستقبل خود منتخب کرنے کے حق کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں اور انھوں نے ایک بار پھر دنیا پر واضح کردیا ہے کہ وہ بھارتی تسلط کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔

حکومت کی روش

مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیںمگر پاکستانی حکومت کا رویہ انتہائی قابلِ افسوس وقابل مذمت ہے ۔اس نے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے ۔ حکومت پاکستان نہ تو حالیہ مظالم پر اقوام متحدہ میں مؤثر آواز اٹھا سکی ہے اور نہ ہی اس مسئلے پر اوآئی سی کا اجلاس طلب کیاجا سکا ہے، بلکہ کشمیریوںکے اقتصادی اور نسلی قتلِ عام کو نظر اندازکرتے ہوئے واہگہ بارڈر پراس سال حکومتی سرپرستی میںمشترکہ جشن آزادی منایاگیا ہے، اور ’رل مل روٹی کھائیے ‘ کے نعرے لگائے گئے،اور لاہور میں ’ڈراما یاترا،۱۹۴۷‘ کے بینرز لگا کراورڈرامے رچاکر تحریک آزادی کے لاکھوں شہیدوں کے خون اور مسلمانانِ برعظیم کی بے مثال قربانیوں کا مذاق اڑایاگیا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب تخت لاہور پرقائد اعظم کی نام لیوا اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے کی دعوے دار مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ہماری نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں کس کی اجازت سے پامال کی جارہی ہیں، اور نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم ان این جی اوز کو کیوں کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی کرسکتے ہیں مگر۱۶ کروڑ پاکستانی عوام کے دل کشمیری مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ کلمہ طیبہ کے رشتے کو نہیں بھلا سکتے ۔

قبائلی علاقوں اورصوبہ سرحد کی صورت حال بھی حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ صوبائی چیف سیکرٹری کے اپنے بیان کے مطابق باجوڑ ایجنسی کی نصف آبادی ہوائی جہازوں کی شدید بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔ ضلع سوات کے ایک علاقے کے لوگ شدید گولہ باری کی وجہ سے دوسرے علاقوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔   اس بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں لوگ قتل اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے جماعت اسلامی نے سواریوں کا انتظام کیا ہے اور ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں ۔ ایک ایک کیمپ میں ہزاروں لوگ پناہ گزیں ہیں۔

خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی اور کرم ایجنسی کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پوری فوج کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہزاروں تربیت یافتہ جاںنثار سربکف مجاہدین مہیا تھے۔ اپنے لوگوں پر امریکی مفادات کی خاطر ظلم ڈھانے والی فوج کیا اب بھی توقع رکھتی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی ہوگا۔ دشمن کی اس سے زیادہ خدمت کیا ہوسکتی ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان نفرت کے بیج بوئے جائیں۔

پاکستان کے غریب عوام اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں،اور کروڑوں عوام  خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ دوسری طرف غیرملکی اکاؤنٹس اورتجوریاں بھری جا رہی ہیں۔ ملک میں گندم،چینی،سیمنٹ اور اشیاے خوردونوش کے بحران اس لیے نہیں آتے کہ یہ چیزیں موجود نہیںہوتیں بلکہ انھیں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ اور سارے ذخیرہ اندوز اور مل مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان میں سے بعض مرکز اور صوبوں میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرنا فرض اور جہاد ہے ۔ یہ کام ہتھیار اٹھانے اوربم دھماکوںکے بجاے عوام کی منظم اور پُرامن جدوجہد سے ہو گا ۔

استعفے کے بعد

پرویز مشرف رخصت ہوچکے۔ان کے استعفے کا بڑا سبب یہ بناہے کہ فوج نے ان کا مزید ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ۔ اگر چیف آف آرمی سٹاف غیر جانب دار انہ رویہ اختیار نہ کرتا تو پرویز مشرف ڈھٹائی کا رویہ چھوڑنے پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ سویلین حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ملک میں اب بھی فوج اور فوج کا چیف سب سے زیادہ طاقت ور ادارے ہیں جو امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں ہیں اور ان کے تہذیبی اور معاشی مفادات کے محافظ ہیں۔ اگر سویلین حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں جمہوری روایات جڑ پکڑ سکیں اور ملک کو بار بار کی فوجی مداخلت سے نجات ملے تو انھیں امریکا کے بجاے عوامی امنگوں کا ساتھ دیناہوگا۔ پرویز مشرف کی غیر مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی امریکا نوازی اور اسلام دشمن پالیسیاں تھیں: افغان عوام کی آزادی کے خلاف امریکا اور ناٹو افواج کا ساتھ دینا، نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کا صفِ اول کا حلیف ہونے پر فخر کرنا، اللہ تعالیٰ اور عوام کی دوستی کے بجاے امریکی دوستی کا سہارا لینا ، کشمیر پر سودے بازی کرنا، کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجاے فوج او ر سیاست دانوں کے لیے مزید کرپشن کے راستے کھولنا، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید و بند میں ڈالنااورپوری دنیا میں انھیںرسوا کرنا۔

پرویز مشرف کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے ملک کو اپنی نظریاتی اساس سے ہٹانے کی کوشش کی، آئین کو دوبار پاؤں تلے روندا اور اعلیٰ عدالتوں کے معزز ججوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر جبری معطل کیا اور ان کی جگہ اپنے من پسند ججوں کو تعینات کیا۔ امریکی اشارے پر نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کیں۔ سوات ،وزیرستان ، باجوڑ ، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کرکے فوج اور عوام کے درمیان امریکی مفادات کی خاطرنفرت کی خلیج حائل کی اور بغاوت کے بیج بوئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مسئلے پر کامیاب مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور ہزاروں معصوم بچیوں اورطلبہ کو فاسفورس بموں اور گولیوں سے بھسم کرایا ۔ مدارس پر چھاپے مارے، اور مجاہدین ،علماے کرام اور ہزاروں لوگوں کو حقیر مالی مفادات کے عوض امریکا کے حوالے کیا جس کا اعتراف اس نے خود اپنی کتاب میں کیاہے۔

حال ہی میں ایک بہادر مسلمان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا واقعہ دنیا کے سامنے آگیا ہے جو پاکستانی حکام کی بے ضمیری اور بے حمیتی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔اسے مارچ ۲۰۰۳ ء میں کراچی کی سڑک سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغوا کیاتھا۔ اس کے خاندان کے افراد کوایجنسیوں کے اہل کاروں نے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیاتھااور سالہا سال تک لوگوں کے سامنے اس بہادر خاتون کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہوسکاتھاکہ وہ کہاں ہے اورکس ظلم کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت تک خاموش رہی جب تک مغربی میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک پاکستانی خاتون قید ہے، اور اس سے انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہاہے۔ اب اسے ایک سراسر جھوٹے اورلغو مقدمے میں امریکی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے مگر اس کے تین بچوں کا ابھی تک کہیں اتا پتا نہیںہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد سے پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دینے والے حکمرانوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ وہ قوم کی بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کرسکیں۔ اس طرح کی کہانی آمنہ مسعود جنجوعہ کی ہے جو دوسری ہزاروں خواتین اور بزرگوں کے ہمراہ اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے جنھیں پاکستانی ایجنسیوں نے غائب کررکھاہے یا امریکا کے حوالے کردیا ہے۔

ہمارے خیال میںبظاہرمواخذے کی گرد اڑا کر اس کی آڑ میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے انتظامات کیے گئے۔ اگرایک قومی مجرم کاٹرائل نہ کیاگیا توعوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پیپلز پارٹی اس احسان کا بدلہ اتار رہی ہے جوپرویز مشرف نے این آر او کے تحت قومی خزانے سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر کے اندرون و بیرون ملک مقدمات واپس لے کر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا مشورہ دینے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں وہ امریکا کے گیم پلان پر عمل کررہے ہیںاور امریکی اشاروں کے تابع ہیں۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ آج تک ملک کا آئین توڑنے والے کسی فوجی ڈکٹیٹر کا احتساب نہیں ہوا بلکہ یہاںملک توڑنے والے فوجی آمر کو مرنے کے بعد قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا آئین بار بار فوجی بوٹوں تلے روندا جاتارہاہے ۔ آئین توڑنے والوں میں سے کسی ایک کو آئین میں درج سزا دے دی جاتی تو کسی اور کو آئین توڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس پس منظر میں قوم کا مطالبہ ہے کہ پرویز مشرف پرآئین کے آرٹیکل ۶کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اُسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی جرنیل آئین توڑنے کی جرأت نہ کر سکے۔

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی بحالی کے بعد پرویز مشرف کوسپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور اس پر آرٹیکل ۶ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔   نام نہاد قومی مفاہمت کے آرڈی ننس (این آر او)کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پوری قوم کے ساتھ انصاف ہوا ور جن لوگوں نے قومی مفادات کے خلاف عمل کیا ہے یا قومی دولت کو ناجائز طریقوں سے لوٹاہے اور بیرون ملک منتقل کیا ہے ان کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اگر حکمران انصاف کے راستے میں حائل ہوگئے یا اپنے آپ کو انصاف سے بالا تر بنانے کی کوشش کی تو وہ نہ قوم کا کوئی بھلا کرسکیں گے اور نہ خود ہی دنیا و آخرت میں سرخ رُوئی حاصل کرسکیں گے۔

حکمرانوں کے لیے سبق

اگر حکمرانوں نے ماضی سے سبق سیکھاہے تو وقتی کامیابی پر خوشی منانے کے بجاے انھیں پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کو خیر باد کہنا پڑے گااور نئے سرے سے پالیسیاں تشکیل دینی ہوںگی۔پالیسیاں بنانے کی قومی خودمختار ی واپس حاصل کرنی پڑے گی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔اور اہم بات یہ ہے کہ ملکی معاملات کو چلانے میں دستور کی پابندی کرنی پڑے گی۔

پاکستانی دستور کی چند بنیادی امتیازی خصوصیات ہیں جن کی پابندی کیے بغیر ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا:

۱- ہمارا ملک ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے ۔ اسلام کا نظریہ اس کی بنیادوں میںشامل ہے۔ یہ کہنا کہ قائد اعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے ایک لغوبات ہے کیونکہ قائد اعظم برعظیم ہندوپاک کے مسلمانوں کو سیکولرازم کا نعرہ دے کر نہ متحدکرسکتے تھے نہ انھیں کسی جدوجہد پر آمادہ کرسکتے تھے۔ پاکستان قائد اعظم نے کسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنایا بلکہ پورے برعظیم کے کروڑوں لوگوں کا تعاون حاصل کرکے بنایا ہے جن میں کروڑوں لوگوں کو یہ بھی معلوم تھاکہ وہ اس نئے وجود میں آنے والے ملک کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن انھوں نے محض اس لیے اس جدوجہد کا ساتھ دیا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جو امت مسلمہ کے لیے تقویت کا باعث بنے گی۔ قائداعظم کی۱۱ ستمبر۱۹۴۷ء کی تقریر کو جو لوگ سیکولرازم کے ثبوت کے  طور پر پیش کرتے ہیں وہ قائد اعظم پر ایک بہت بڑی تہمت باندھتے ہیں۔ ان لوگوں کی خلافِ اسلام کوششوں کے باوجود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد پاس کی جو پاکستانی دستور کی مستقل بنیاد ہے۔ اس قرارداد میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کرنے کا عہد کیاگیاہے۔

۲- دوسری بنیاد یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کو تمام دوسرے اداروں پر بالادستی حاصل ہے اور دوسرے تمام ادارے عوام کی منتخب مجلس کی اطاعت کریں گے ۔

۳- تیسر ی بنیاد یہ ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ علیحدہ ہیں اور عدلیہ فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ سپریم کورٹ کی راہ نمائی میں ملک کا عدالتی نظام ہر طرح کے سیاسی و انتظامی دبائو سے آزاد ہوگا۔

۴- دستور میں صوبائی خودمختاری کی حدود متعین کردی گئی ہیں اور صوبوں کی خودمختاری کا احترام کرنا مرکزی اداروں کا فرض ہے۔ وفاق بھی صوبائی خودمختاری کا احترام کرے گا۔

۵- افواجِ پاکستان ایک محترم ادارہ ہے جو پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کے تابع ہے۔ ہرفوجی سیاسی معاملات میں عدمِ مداخلت کا حلف اٹھاتا ہے۔ جو حلف توڑتا ہے، غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔

۶- دستور میں صدر اور وزیراعظم، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت ،عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ کے حدود اور باہمی تعلق کی پوری وضاحت موجود ہے۔

اگر منتخب حکومت ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر دستوری حدود کے اندر رہے گی اور ہر طرح کی بدعنوانیوں کے داغ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے گی تو فوج کو یہ ہمت نہیں ہوسکے گی کہ وہ منتخب حکومت کے خلاف اقدام کرسکے۔ لیکن اگر وہ دستور اور قانون سے تجاوز کریں گے اور  اظہارِ راے ، اجتماع ، پرامن جلسے جلوس اور پریس کی آزادی کو سلب کرنے کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ خود اپنے پائوںپر کلہاڑی ماریں گے۔

امید ہے کہ سابقہ تجربات سے سبق حاصل کرکے حکمران انصاف اور میر ٹ کا بول بالا کریں گے اور عدل و انصاف کے سامنے خود اپنے آپ کو بھی پیش کریں گے اور اپنے تعلق کی بنا پر کسی کو رعایت نہیں دیں گے اور اپنے مخالفین کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجاے ان کے ساتھ بھی انصاف کریں گے۔

 

(صفحہ ۳-۱۳ کی تحریر ’رمضان کا پیغام: دعوت الی اللہ‘ کے نام سے تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے۔ ۵۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o

وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ  مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ  ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فوجی عہدہ چھوڑنے اور فوجی وردی اتارنے کے بعد بھی پرویز مشرف صاحب حسب سابق اسی طرح مطلق العنان حکمران رہیں گے اور انھوںنے فوج کی پشتی بانی سے آئین کا حلیہ بگاڑ کر فردِواحد کی شخصی حکمرانی کا جونظام قائم کیا ہے، کیا وہ مستقبل میں برقرار رہ سکتاہے ؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کے درست تجزیے اور جواب پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔

پاکستانی افواج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے فوجی افسران کے نام ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اس خط کے جو مندرجات عام لوگوں کے لیے افشاکیے گئے ہیں ان سے یہ خوش آیند تاثر ملتاہے کہ نئے چیف کو واقعی فوج کا امیج درست کرنے کی فکر ہے ۔ انھوںنے فوجی افسران کو سیاست سے کنارہ کش رہنے، سیاست دانوں سے تعلق نہ رکھنے اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے ،اوراعلیٰ سول عہدوںپر حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتی کو بھی ناپسند کیا ہے ۔اگر یہ محض دل خوش کن باتیں نہیں ہیں اورآرمی چیف واقعی ان پر   عمل درآمد کرناچاہتے ہیں تو یہ نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قومی زندگی کے لیے  ایک نئے دور کی نویدہے۔ اگر جنرل کیانی واقعی ان باتوں پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہیں تو جلدجنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ ان کا اختلاف سامنے آجائے گا کیونکہ پرویز مشرف نیشنل سکیورٹی کونسل: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف پر مشتمل ’تکون‘ کے ذریعے اپنے نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تکون مل جل کر نظام چلائے گی ۔ یہ غیر دستوری تکون اسی وقت  چل سکتی ہے جب آرمی چیف کو سیاست کرنے اور قومی زندگی میں غیر دستوری طور پر مداخلت کرنے کا شوق ہو ۔ لیکن اگر آرمی چیف اپنے قول کے سچے اور اپنے دستوری عہد (oath)  کے پکّے ہیں تو بجاطورپر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حالات بہتر رخ اختیار کریںگے، پرویز مشرف کا غیر آئینی صدارتی نظام بھی نہیں چلے گا اور اقتدار بالآخر عوامی نمایندوں کی طرف واپس آجائے گا۔

یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس طرح کے انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کا قائم کردہ آمرانہ نظام ختم ہو اور وہ مستعفی ہوجائیں ۔ملک، غیر آئینی ایمرجنسی (۳نومبر۲۰۰۷ئ) سے پہلے والی صورت حال کی طرف واپس لوٹ جائے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جن ججوں کو غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سبک دوش کردیا گیاہے، وہ بدستور اپنے عہدوں پربحال ہوجائیں ۔ اتفاقِ راے سے ایک عبوری سول حکومت اقتدار سنبھال لے اور الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو۔ان اقدامات کے بعد جو انتخابات ہو ں گے ان پر قوم کا اعتماد ہوگا اور اس کے نتیجے میں آزاد پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آئے گا جو پرویز مشرف کے خود ساختہ نظام کا خاتمہ کرکے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے والا آئین بحال کردے گی اور آئین اپنی بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوجائے گا ۔ اسلامی نظامِ حیات، جمہوریت اور تمام اداروں پر منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ،صوبائی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبوداس دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دستور جب ان بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوگا تو ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا، عدلیہ منصفانہ فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی، امن وامان بحال ہوگا، عوام کو چین و سکون ملے گا اور تمام صوبو ں کو آزادی اور اقتدار میں شرکت کا احساس ہوگا جس سے ملک خوش حال اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔

اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ملک و قوم پرجب تک دستور کے بجاے    سول اور ملٹری انتظامیہ کی بالادستی قائم رہے گی، عوامی نمایندے ان کے رحم وکرم پر ہوں گے اور عدالتوں کو حقیقی آزادی حاصل نہیںہوگی، اس وقت تک موجودہ انتشار کی کیفیت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ اور زیادہ بڑھے گی جس سے ملک کی سالمیت کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔    خود موجودہ آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عوام کی تائیداور تعاون کے بغیر فوج    کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرناممکن نہیںہے، اور فوج کا اصل کام ملکی دفاع ہے ۔ اگر آرمی چیف ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے عوام کا تعاون واقعی ضروری سمجھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب ملکی پالیسیاں عوام کی مرضی کے تابع ہوںگی۔

اس وقت ملک کی غالب اکثریت پاکستان ، افغانستان اور فلسطین وعراق سمیت پوری دنیا میں امریکی پالیسیوں کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام امریکا کوایک دوست کے بجاے استعماری اور استحصالی طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیاہواہے اور افواج پاکستان امریکی مفادات کے لیے خود اپنے قبائلی علاقوں ، سوات اور ملک کے دوسرے علاقوں میں استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر جنرل کیانی واقعی چاہتے ہیں کہ فوج اور عوام ایک ہوجائیں تو عوام کی مرضی کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہوگی اور وہ تبھی ممکن ہے جب عوام کے حقیقی منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کی تشکیل ہو اور ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرلیں ۔ اس کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا پڑے گا اور صدر،وزیراعظم اورآرمی چیف پرمشتمل تکون کے بجاے پارلیمنٹ کو تمام پالیسیوں کی تشکیل کا منبع تسلیم کرنا پڑے گا۔  لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے یہ بیان دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیںگے ۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخاب محض ڈھونگ اور فریب ہیں۔نواز شریف صاحب بھی گو یہی بات کہہ رہے ہیںلیکن الیکشن میں پھر بھی شریک ہونے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔

 اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد حقیقی قیادت سے محروم ہوچکی ہے ۔ پارٹی کو اکٹھا رکھنے کے لیے مرحومہ کی وصیت کا سہارا لیا گیا لیکن جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں وصیتوں کی بنیاد پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں ۔ جب تک پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوں گی، پارٹی کے باہر ملکی معاملات بھی جمہوری انداز میں نہیں چلائے جاسکتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں یہ حقیقت اب چھپی ہوئی نہیں ہے کہ وہ امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان تشریف لائی تھیں اور اس باہمی مفاہمت کا ایک لازمی جزو یہ تھاکہ وہ آیندہ کی وزیراعظم ہوںگی ۔ ظاہر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس طرح وزیراعظم بننے پر اکتفا ہرگز نہ کرتیں جس طرح کے وزیراعظم شوکت عزیز تھے یا ان سے قبل چودھری شجاعت حسین اور میرظفراللہ خان جمالی  تھے۔ پرویز مشرف کے لیے ظفراللہ جمالی جیسا کمزور سیاسی وزیراعظم بھی قابل قبول نہیں تھا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیسے گزارا کرسکتے جن کے ساتھ خود ان کی اپنی پارٹی کے فاروق احمد خان لغاری صاحب بھی مطمئن نہیں رہ سکے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مظلومانہ قتل کے گرد اسی وجہ سے شکوک وشبہات کی ایک دھند چھائی ہوئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اگر انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل بھی ہوئی تو وہ محترمہ کے بعد جمہوری اداروں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی مضبوط کردار ادا  نہیں کرسکے گی اور فوج اوراس کے ادارے پرویز مشرف کے دور میں جس مطلق العنان اقتدار کے عادی ہوچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ انھیں آئین ،قانون اور جمہوری اداروں کے تابع کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

دوسری اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن)اگرچہ میاں محمدنواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔ میاںبرادران کو انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، اس کے باوجود وہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ انتخاب جیت کر حالات پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ حالانکہ جو شخص اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ’آخری مُکا‘چلا کر دستور کو معطل کرسکتاہے ، چیف جسٹس کو مع ۶۰ ججوں کے گھر بٹھا سکتاہے اور ملک کے پورے آئینی ڈھانچے کو متزلز ل کرسکتاہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ اپنے ’دست آموز الیکشن کمیشن ‘ اوراپنی خود ساختہ عبوری حکومتوں کے ذریعے ایسے الیکشن کروائے گا جن سے اس کا اپنا اقتدار خطرے میںپڑ جائے خودفریبی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے ذریعے عوام میںبڑا تحرک پیدا کرکے انتخابات کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیں گے لیکن تقریباً ایک ماہ تک کوشش کے باوجود وہ کوئی بڑاتحرک پیدا نہ کرسکے۔ بلاشبہہ لوگ پرویز مشرف کے خلاف ہیں اورملک کے مستقبل کو ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ بلاشبہہ عوام متبادل قیادت کی تلاش میں ہیں لیکن بم دھماکو ں اور پولیس گردی کے ذریعے خوف و ہراس کی جوفضا بنادی گئی ہے اس میں عوام میں تحرک پیدا کرنا اور انھیں بڑی تعداد میں سڑکوں پر لانا دشوار ہوگیا ہے۔ سیاسی کارکن تو جان پر کھیل کر بھی باہر نکلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن عوام الناس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ چاروں طرف پولیس اور پیرا ملٹری فورسز بندوقیں تانے کھڑی ہوں،بڑے مجمعوں میںبم بلاسٹ کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کو قتل کیا جارہاہو، ملک میں دہشت گردی، پولیس گردی ، آٹے گھی کی قلت اوربجلی و گیس کے بحران کے ذریعے پریشانی کی ایک فضا پیدا کردی گئی ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی سیاسی لیڈر کی قیادت میں جان پر کھیل کر باہر نکل آئیں گے۔

عوام کے بڑے پیمانے پرمتحرک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قیادت میدان میں ہے، وہ ا ن کی آزمودہ ہے ۔ عوام الناس کو اس قیادت سے قطعاً یہ امید نہیں ہے کہ وہ ان کی    حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی بڑے اقدامات اٹھا سکے گی۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے سے مایو س ہو کراب میا ں برادران قومی حکومت کی بات کرنے لگے ہیں۔

قومی حکومت سے کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت میاں صاحبان نے اپنے قریبی حلقوں میں بھی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو ایک اچھا موقع ملا تھا کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کی دعوت پرلندن کانفرنس میں شرکت کی۔ پھر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کی بنیاد پڑی جس میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہوئیں جو اس سے قبل نئے دستور کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے فورم پر فیصلہ کیا گیا کہ فوجی آمریت کے خاتمے اور پرویزمشرف کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے تحریک چلائی جائے گی۔ معزول ججوں کی بحالی تمام پارٹیو ںکا ایک بنیادی مطالبہ بن گیا اور وکلا تحریک کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان کیاگیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے دبائو اور پارٹی میں انتخابی امیدواروں کے اصرار کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے قومی قیادت سنبھالنے کے اس اہم موقعے کو ضائع کردیا اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم سے توقعات وابستہ کرلیں۔ اب اگر وہ اپنی انتخابی مہم سے مایوس ہوگئے ہیں تو قومی حکومت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انھیں دوبارہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں انھیں کئی باراپنا موقف تبدیل کرناپڑا جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔

بنگلہ دیش کی صورت حال کے پیش نظر قومی حکومت کی تجویز کو لوگ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں ایک غیر جانب دار حکومت فوج کی پشتی بانی سے برسراقتدار ہے جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک میں آزادانہ الیکشن منعقد کرکے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردے۔ لیکن یہ حکومت دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کی مبینّہ بدعنوانیوں کی تحقیق میں لگ گئی ہے ۔ تیسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی تھی جس پر بد عنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا تو اس پر ۱۹۷۰ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کا الزام لگا کر اس کی قیادت کے خلاف تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئی۔اس ساری کاوش کامقصد یہ تھا کہ فوج ایک نام نہاد قومی حکومت کے نام سے اپنااقتدار قائم کرے۔لیکن عوامی ردعمل اس انتظام کے حق میں نہیں اورعلما اور سیاسی کارکن عبوری انتظام کو اس طرح طول دینے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور فضا میں نئے سیاسی ارتعاش کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

قومی حکومت ایک مبہم اصطلاح ہے ۔ اس لیے اے پی ڈی ایم نے اپنے مطالبے کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ:

                ۱-            پرویز مشرف فوری طور پرمستعفی ہوں۔

                ۲-            سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان ججوں کو بحال کیا جائے جنھوںنے پرویز مشرف کی غیر آئینی نام نہاد ایمرجنسی پلس کو ماننے سے انکار کردیاتھا، اور اسے غیر آئینی قرار دیاتھا۔

                ۳-            دستور۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحال کیا جائے۔

                ۴-            اتفاقِ راے سے ایک عبوری حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جو شفاف الیکشن کروائے، اور مختصر ترین وقت میں اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے ۔

یہ مطالبات ہم کس سے کررہے ہیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ ظاہرہے کہ پرویز مشرف تو یہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ موجودہ عدلیہ سے بھی یہ توقع نہیںہے۔ سابقہ سپریم کورٹ سے  یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ملک کو دوبارہ آئینی راستے پر ڈالنے کے لیے وہ اہم اور بنیادی آئینی فیصلے کردے لیکن اس خطرے کو بھانپ کر پرویز مشرف نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔موجودہ سپریم کورٹ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ اس حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کو ان مطالبات کے لیے متحرک کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر عوامی تحریک ہی اس وقت تمام مسائل کا حل ہے۔

ادھرسوات میں فوجی مداخلت کرکے سردی کے موسم میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیاہے ۔ لوگ بھوک اور خوف کی دُہری مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ بظاہر امن وامان برقرار رکھنے کے لیے فوج بھیجی گئی ہے لیکن خودفوج کے ۲۰، ۲۵ ہزار جوان ایک مشکل صورت حال میں محصور ہوگئے ہیں اور عوام کو بھی مشکل سے نکالنے کے بجاے مزید مشکلات میں گرفتار کردیا گیاہے ۔ اشیاے ضرورت کی قلت ہے اور جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں میں بھی کرفیو کے نفاذ اور راستوں کی بندش کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔قبائلی علاقوں میں بھی امن و امان کی صورت حال ایک عرصے سے خراب ہے، اور اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈال کر وہاں نیا آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی کی تبدیلی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس وقت ملک کے ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ شہری علاقوں میں روٹی کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ دوروپے کی روٹی چار روپے میں اور چار روپے کی روٹی آٹھ روپے میں ملتی ہے۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے تنور بند ہوگئے ہیں ۔ پہاڑی علاقوں میں برف باری ہے اور ایندھن کی کمی ہے ۔ حکمران بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ چودھری برادران نے اس صورت حال کی ذمہ داری شوکت عزیز پر ڈال دی ہے جس سے پرویز مشرف ناراض ہوگئے ہیں کیونکہ شوکت عزیز کے بجاے اصل ذمہ داری انھی پرعائدہوتی ہے، جنھیں فساد کی جڑ قرار دیا جارہاہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فوری طور پر جو ہنگامے شروع ہوئے تھے،ان کے پیچھے ایک منظم گروہ کا ہاتھ نظر آرہاہے۔ یہ منظم تخریبی گروہ جو فوری طور پر ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے، ریل کے انجن جلانے،بڑے پیمانے پر اموال اور ٹرانسپورٹ کو تباہ کرنے میں لگ گیا ہے، ملک کے ہر حصے، خاص طور پر کراچی اور سندھ میں موجود ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ کراچی کی صورت حال خاص طور پر مخدوش ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اسلحہ جمع کیاگیا ہے ۔ کراچی پہلے بھی لسانی فسادات کی زد میں آ چکاہے،اس باراگرپھر لسانی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو تباہ کن اسلحے کی وجہ سے اس کی تباہی وبربادی عام اندازوں سے زیادہ ہوگی۔ ان حالات کامقابلہ عوام کو مل جل کر کرناہے ۔ عوام کے پاس منظم جدوجہد کے سوا کوئی دوسراہتھیار نہیں ہے جس سے ملکی سالمیت کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی اپنے بیانات پر عمل کرنا چاہتے ہیں توانھیں فوج کو آئینی حدود کا پابند کردینا چاہیے۔ اس طرح  پرویز مشرف مجبور ہوں گے کہ وہ آئین کا احترام کرکے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔ آئین کا احترام ملک کو موجودہ خطرناک بحران سے بچا سکتاہے۔ اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے کہ عوام وکلا اور ججوں کی پشت پر کھڑے ہوجائیں،  فوج غیر جانب دار ہوجائے اور سویلین حکومت کو پولیس گردی اور عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیاجائے۔

اس وقت تمام شواہد اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پرویزمشرف اور اس کا نظام مکمل طور پرناکام ہوچکاہے۔اس کی ناکامی پر ساری دنیا گواہ ہے۔یورپ کے دورے کے موقع پر یورپین لیڈروں نے بھرے اجتماعات میں پرویز مشرف کے سامنے پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس پر پرویز مشرف جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے۔ حقیقت یہی ہے کہ  بزعم خویش جمہوریت کی طرف پرویز مشرف کا سفر کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بجاے مسلسل حادثات کاشکار ہو رہا ہے اور ا ن کی موجودگی میں قومی حکومت سمیت کوئی بھی نسخہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ انتخاب ہوبھی جائیں تو خود پرویزمشرف کو اس کے بعد ایک عام بے چینی نظر آرہی ہے اور خود انھوںنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگر انھیں معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سکون اور اطمینا ن کے بجاے سیاسی اضطراب اور بے چینی ہی میں اضافہ ہوگا تو عقل کی بات یہی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ کر خود اقتدار سے الگ ہوجائیں اور سپریم کورٹ کو اپنی اصل شکل میں بحال ہونے دیں تاکہ ملک کو آئین کے مطابق چلا کر سیاسی استحکام کی تدابیر اختیار کی جاسکیں ۔

پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے اور اس پیچیدہ صورت حال کے سدھار کے لیے بعض وکلانے نئے آرمی چیف کو مشورہ دیا ہے کہ جس طرح پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی اور اس کے تحت غیر آئینی کارروائیاں کرکے انھیں آئین کا حصہ قرا ر دے دیا، اور پھروردی اتارنے سے پہلے ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار صدر کو منتقل کردیا، جب کہ خود ہی ملک کے صدرا ور چیف آف آرمی سٹاف تھے۔اسی طرح موجودہ آرمی چیف صدر سے اپنا ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار واپس لے لیں اور اس ایمرجنسی کے تحت غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے کر ججوں کو بحال کردیں اور باقی سارے اقدامات بحال شدہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں تاکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ملک کو واپس آئینی پٹڑی پر ڈال دے ۔اس کے حق میں ایک سینئر وکیل نے دلیل دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایک چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو معطل کرکے غیرآئینی اقدامات کرنے کا جواز پیدا کیاجاسکتاہے تو دوسرے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو بحال کرنے کے لیے کسی اقدام کا جواز کیوں نہیں بنتا۔

یہ اور اسی نوعیت کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہ اس بے چینی اور اضطراب کا مظہر ہیں جس کی گرفت میں پوری قوم اور اس کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اپنے کو محسوس کر رہا ہے اور جس کی اصل وجہ پرویز مشرف کے بار بار کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام ہیں۔ ہم وکلا کے اس طبقے کی پریشانی خاطر کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس راے سے اتفاق نہیں کرسکتے کہ فوج کے سربراہ کو کسی ایسے اقدام کا مشورہ دیا جائے جس کا اسے دستور کے تحت اختیار نہیں۔ اگر نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ ماضی میں فوجی حکمرانوں کو دستور میں ترمیم کا وہ اختیار دینے کی غلطی نہ کرتی جو خود اسے بھی حاصل نہیںتھا تو ملک بہت سی تباہی سے بچ جاتا۔ اس لیے فوج کے سربراہ کو جواب خود فوج کے سیاست سے باہر رہنے کی بات کر رہا ہے، اس قسم کا مشورہ دینا صحیح نہیں۔ البتہ قومی مشاورت کے ذریعے عدالتوں اور دستور کے لیے اولین طور پر۲نومبر ۲۰۰۷ء والی اور بالآخر ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء والی پوزیشن کو بحال کرنے کے لیے صرف ایک بار مؤثر ہونے والا کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اس قومی مشاورت میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے تمام ریٹائرڈ ججوں کو شریک کیا جاسکتا ہے اور اس طرح معزز بزرگوں کی مجلس (Council of Elders ) کے مشورے سے ایک راستہ نکالا جاسکتا ہے جسے بالآخر نئی اسمبلی دستور کے تحت قانونی جواز فراہم کرسکتی ہے۔

ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کردار سینیٹ ادا کرے جو اس وقت واحد منتخب ادارہ ہے اور جو دستور کے تحت فیڈریشن کا نمایندہ اور ترمیم دستور کے اختیارات میں شریک ہے۔ اس کے علاوہ بھی راستے ہوسکتے ہیں۔ جب کوئی ماوراے دستور اقدام ناگزیر ہی ہو تو ضروری نہیں کہ اس اقدام کے لیے فوج کے سربراہوں کو ملوث کیا جائے، یہ کام سینیٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے جن کا ایک رول خود دستور میں موجود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ، اس کے دستور اور اس کے مفادات کے تحفظ کی آخری  ذمہ داری عوام پر آتی ہے اور اب اس سلسلے میں سب سے فیصلہ کن کردار عوام ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ فوجی حکمرانوں اور ان کے عدالتی مشیروں اور سیاسی گماشتوں نے پاکستان کے آئین کو بازیچۂ اطفال بنادیا ہے اور قانون اور روایات سب پامال ہیں۔ ایک غلط کام پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسرا غلط کام کرنا کب تک جاری رہے گا۔ اب اصل ضرورت عوام کی بیداری اور ۱۹۹۹ء سے اب تک دستور اور دستوری اداروں پر جو بھی شب خون مارے گئے ہیں ان کو ختم کرکے دستورکواس کی اس شکل میں بحال کرنے کی ضرورت ہے جس پر قوم کا اتفاق تھا، اور ہے۔ یہی وہ دستور ہے جسے ایک میثاقِ ملّی (National Covenant) کا مقام حاصل ہے، اور اب یہ اسی وقت ممکن ہے جب پرویز مشرف اور ان کے بنائے ہوئے نظام سے نجات پائی جائے اور قومی اتفاق کی عبوری حکومت کے ذریعے نئے الیکشن کمیشن کے توسط سے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمایندے منتخب کریں اور وہ دستور اور قانون کے تمام تقاضے پورے کریں۔ نیز یہ نمایندے قوم کا اعتماد لے کر اپنے فرائض اداکریں اور خود بھی قوم کے سامنے جواب دہ ہوں تاکہ کوئی بھی اب اس قوم کی قسمت سے نہ کھیل سکے۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قوم کی بیداری، اس کے تحرک اور   ان کے ذریعے دستوری عمل کو پٹڑی پر چڑھانے کی مؤثر جدوجہد___ اس ملک کو حقیقی جمہوری  اور دستوری نظامِ حکمرانی پر عامل ہونے، اور استعماری قوتوں کی آلۂ کار سول اور فوجی انتظامیہ کی دست بُرد سے نکالنے کے لیے عوام الناس کے پرامن اور پرجوش تحرک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر عوام متحرک نہیں ہوئے تو ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اس درد کا درمان صرف اور صرف ملک کے عوام کے پاس ہے۔ مخلص سیاسی کارکنوں کا فرض ہے کہ مایوس ہونے کے بجاے متحرک ہوں اور یاس وقنوطیت کے بجاے ہر شہری کے دل میں امید کی شمع روشن کریں ۔

ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس ملک کی حفاظت اور استحکام کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے خودبھی تیار ہوں اور عوام الناس کو بھی اس کے لیے تیار کرسکیں ۔


ترجمان القرآن کا پیغام پھیلایئے

ترجمان القرآن ایک پیغام کا علَم بردار رسالہ ہے۔ اس پیغام کی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے میں اشاعت ہمارے قارئین کے تعاون سے ہوتی ہے۔ آیندہ سال کے لیے ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف طے کیا ہے۔ ہر ۱۰۰ پرچوں پر ہر ماہ ۲ کااضافہ کیا جاتا رہے تو یہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔

کیا یہ مشکل ہے؟ ناممکن ہے؟ غالباً نہیں___ تھوڑی سی توجہ اور کوشش سے یہ کیا جاسکتا ہے اور نتیجہ؟ اشاعت میں ۱۰ ہزار کا اضافہ! یعنی ۱۰ ہزار نئے افراد بلکہ گھرانوں تک دین کی دعوت اور آج کے دور میں اس کے تقاضے پورا کرنے کا پیغام پہنچے گا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے قارئین واقعی اس طرف توجہ دیں تو ہم ہدف سے بہت زیادہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ہم نیک نیتی اور اخلاص کے کوشش کریں، اللہ ہمارا ساتھ دے گا اور ہمیں حوصلہ افزا نتائج ملیں گے، ان شاء اللّٰہ تعالٰی!

___  مدیر    

۲ نومبر ۲۰۰۷ء کو جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع ارکان شروع ہوا تو ہمیں قطعاً یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اگلے ہی روز ہمیں نام نہاد ایمرجنسی، بالفاظِ دیگر مارشل لا کے نفاذ کی مکروہ خبر سننی پڑے گی۔ ہمارا اندازہ تھاکہ فوج ،بحیثیت مجموعی اپنی کمزوریوں کے باوجود، پرویز مشرف کو ملک میں دوبارہ مارشل لا‘ یا ماوراے آئین اقدامات کی اجازت اور مشورہ نہیں دے گی اور انھیں اس طرح کاکوئی اقدام کرنے سے باز رکھے گی لیکن افسوس کہ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

پرویز مشرف کو چونکہ اصل تشویش آئین کی بالادستی اور سپریم کورٹ کے ججوں کے آزادانہ فیصلوں کے بارے میں تھی، اس لیے انھوں نے صدر کے بجاے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اقدام کرکے آئین کو معطل کردیا ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر بھیج دیا‘ اور کچھ من پسند ججوں سے عبوری آئینی حکم نامے (PCO)کے تحت حلف اٹھوا کر ایک ایسی سپریم کورٹ بنالی جسے تمام دنیا کے سیاسی اور قانونی تجزیہ کار ایک بوگس اور جعلی ادارہ قرار دے رہے ہیں اور جس کا قیام دستور اور قانونی حکمرانی کے ہر ضابطے کے خلاف ہے۔ ملک میں اس وقت عملی طور پر عدالت عظمیٰ اور چاروں صوبوں کی عدالت ہاے عالیہ معطل ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں بھی وکلا تحریک کی وجہ سے کماحقہ کام نہیں ہورہا۔ اس صورت حال میں یہ سوال شدت سے سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ایسا ملک کیسے چل سکتا ہے جہاں عدالتیں کام کرنا چھوڑ دیں،اور تمام قوانین فرد واحد کی خواہشات کے تابع بن کر رہ جائیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اصل اقتدار ابتدا ہی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہاہے۔ دورِ غلامی میں برطانوی حکومت بھی غیرمنقسم ہندستان میں بیوروکریسی پر    نظر رکھتی تھی،تاہم وہ غلاموں کے ساتھ سلوک میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی تھی لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں بیوروکریسی ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوگئی‘ اور اس کے رویے کو حدود کا پابند رکھنے کا کوئی ادارہ نہیں بن سکا جس سے مطلق العنان سول اور ملٹری بیوروکریسی خودسر ہوتی گئی۔

سپریم کورٹ اورچیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انھوںنے اکڑی ہوئی گردنوں والے ان افسروں کو قانون اور آئین کے سامنے جھکانے اور انھیں ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ انھوںنے مفقود الخبرافراد( missing persons)کے بارے میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ انھیں عدالت میں پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں میں اسلام آباد کے پلاٹو ں کی بند ر بانٹ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ کس قاعدے اور ضابطے کے مطابق یہ لوگ کروڑو ں روپے کی جایدادیں اونے پونے داموں سے اپنی ملکیت میں لے رہے ہیں؟

پاکستان میں بار بار کے مارشل لا کے ذریعے جمہوریت کی جو درگت بنی ہے اور آئینی ضابطوں کو جس طرح پامال کیا جاتار ہاہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس پر کچھ زیادہ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوجی جرنیل تو کیا‘ فوج کا کوئی معمولی افسر بھی اپنے  آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا تر سمجھنے لگا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا لگانے کی بڑی وجہ یہی بتائی ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کا رویہ ناقابل قبول تھااور وہ اعلیٰ افسران کی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔ بقول ا ن کے انھوں نے ماوراے قانون و دستور ’اختیارات‘ استعمال کیے، اور ان کی نگاہ میں معاملات کو درست کرنے کے لیے ایمرجنسی لگانا ضروری تھا۔

مگر حقیقی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔آئین میں صدرِ پاکستان کو وزیراعظم کے مشورے پر مشکل صورت حال میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن پرویز مشرف نے  یہ قدم چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اٹھایا ہے ،اور ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘کے نام سے مارشل لا نافذ کردیا ہے۔یاد رہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے دوسری دفعہ دستور کو معطل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ وہ پہلے قابض حکمران ہیں جنھوں نے خود اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے خلاف مارشل لا لگایا ہے اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ہے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت ایمرجنسی کے نفاذ سے اگرچہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں لیکن حکومت کو چیف جسٹس کو برطرف کرنے کا اختیار پھر بھی نہیں ملتا۔ پرویز مشرف کو بتانا چاہیے تھا کہ آئین کی وہ کون سی دفعہ ہے جو چیف آف آرمی سٹاف کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ سپریم کور ٹ کے رویے کو درست کرنے کے لیے مارشل لا لگادے ،اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے تقریباً ۶۰ ججوں کو خودساختہ عبوری آئین کے تحت حلف نہ اٹھانے کے جرم میں عدلیہ سے نکال باہر کرے۔ دستور تو بہ صراحت حکومت کے تمام اداروں اور کارندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلوں کی بے چون و چرا تعمیل کریں۔ پرویز مشرف کا  یہ اقدام وہی ماوراے آئین آخر ی مکّا(final punch)ہے جس کی دھمکی وہ سپریم کورٹ کو  دے رہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا تووہ آخری مکّا رسید کردیں گے۔

حیرت ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ یہ کارروائی انھوںنے آئین اور قانون کے مطابق کی ہے‘ حالانکہ     یہ سب کچھ انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے کیااور آئین معطل کرکے چیف جسٹس کو ان کے منصب سے ہٹا دیا۔ نیز ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند کردیا‘ اور حلف نہ لینے والوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ یہ پوری کارروائی ہرقانون اور آئین سے بالاتر بلکہ ان سے متصادم ہے،اور آئین کی دفعہ ۶کے تحت High Treason ‘یعنی بغاوت اور غداری سمجھی جائے گی۔

سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پوری کارروائی میں فوج بحیثیت ادارہ شریک کرڈالی گئی ہے۔فوج جیسے اہم ادارے کا آئین کے خلاف کارروائی میں شریک ہونا‘ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے غریب قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قربانی دیتی رہی ہے اورجسے عوام کی روٹی ،کپڑے ،مکان اور تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات پر فوقیت دی گئی ہے، اس ادارے کے نام پر اس کا سربراہ اب اپنی قوم کے حقوق چھیننے پر تل گیا ہے۔ ان حالات میں ملک ہی نہیں‘ بیرونِ ملک کے سیاسی تجزیہ نگار بھی انگشت نمائی کررہے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں نے ایک استحصالی طبقے کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا ہر فرد کروڑوں روپے کی جایداد کا مالک ہے۔ اس طبقے نے پوری قوم کو غربت اور جہالت کے گہرے غار میں دھکیل کر اسے غلامی اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طبقے کا غرور اور تکبر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ان سے باز پرس کرنے کی ہمت کرے تو یہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں    چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور کچھ دوسرے ججوں پر الزام لگایا ہے کہ مفقود الخبرافراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے بعض اعلیٰ افسروں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے کر ان کی توہین کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سندھ کے چیف سیکرٹری کا ذکر کیا جیسے کسی اعلیٰ افسر کو عدالت میں بلانا ہی کافی جرم ہے جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کو برطرف کیا جاسکتاہے ،اور یہ کام چیف آف آرمی سٹاف کرسکتا ہے حالانکہ آئین کے مطابق اس کا درجہ کسی صورت میںچیف جسٹس کے برابر نہیں ہوسکتا۔

ایک اورخطرناک پہلو یہ ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ میں ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا گیا جس کے مطابق کسی سویلین کوبھی آرمی ایکٹ کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی شہری پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کا کورٹ مارشل کرنے کا راستہ کھول دیا گیاہے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری تھالیکن دہشت گردی کا الزام تو اس ملک میں ہر سیاسی کارکن پر بہت آسانی سے لگادیا جاتاہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی کارکنوں کو دبائو میں رکھنے کے لیے سب سے آسان حربہ یہی ہے۔

اس وقت قومی وبین الاقوامی دبائو بڑھ رہا ہے اور پرویز مشرف سے ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن پرویز مشرف نے اپنی مرضی کا ایک اور قدم اٹھا کر سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو عبوری وزیراعظم مقرر کردیا ہے۔ ایک طرف وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں جو صدر کی عارضی یا مستقل غیر حاضری کی صورت میں دستور کے مطابق قائم مقام صدر کی حیثیت سے چارج سنبھال سکتے ہیں‘ اور دوسری طرف انھی کو عبوری وزیراعظم بنا کر ایک دستوری سوال پیدا کردیاگیا ہے کہ ایک شخص بیک وقت سینیٹ کا چیئرمین اور وزیراعظم کیسے بن سکتاہے۔ حکومت کے نمایندے اٹارنی جنرل ملک قیوم کا کہنا ہے کہ چونکہ دستور معطل ہے اس لیے وہ عبوری وزیراعظم بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف کے عہد میں نہ کوئی دستور ہے اور نہ کوئی ضابطہ اور قانون۔

اگر مغربی ممالک کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا جاتاہے کہ ایمرجنسی کو ہٹا دیاجائے اور دستور بحال کرکے انتخابات کرادیے جائیں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس دوران جو آرڈر اور ضابطے جاری کیے گئے ہیں‘ ان کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس وقت تو قومی اسمبلی بھی نہیں ہے کہ آٹھویں یا سترھویں ترمیم کی طرح کے کسی دستوری حیلے کے ذریعے مارشل لا کے ضابطوں کو سند جواز مل سکے اور غیرآئینی فعل کو جو دستور کے آرٹیکل ۶کے مطابق غداری اور بغاوت ہے‘ تحفظ (indemnity) فراہم کرسکے۔ یہ صورت حال عملاً جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے تاکہ جمہوری سویلین حکومت قائم کرنے کے دستوری راستے بند کردیے جائیں اور ایک نئے تازہ دم جرنیل کے لیے راستہ ہموار کیا جائے‘ یا دستور سے بالا تر ایک سویلین حکومت قائم کی جائے جس طرح یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔

پرویز مشرف نے ۱۵نومبر کو قومی اسمبلی اور۲۰نومبر کو صوبائی اسمبلی کو برخاست کرنے اور ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن انھوںنے آئین کی بحالی کی تاریخ نہیں دی اور ججوں کو بحال کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔

اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں مارشل لا ہے، دستور معطل ہے، اعلیٰ عدالتوں کو مفلوج کردیا گیاہے اور ملک میں عدل و انصاف کے ادارے اور انتخابات کا انتظام فوجی آمر کی مرضی کے تابع ہیں ، کیا انتخابات میں حصہ لینا چاہیے؟ اس کا فیصلہ تو سیاسی و دینی جماعتوں کی مجالس مشاورت کو گہرے غور و خوض کے بعدباہمی مشورے سے کرنا ہے لیکن اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں، بشمول پیپلز پارٹی اور جمعیت علماے اسلام (ف) جعلی الیکشن میں حصہ لینے کے بجاے عدلیہ کی بحالی کے لیے مشترک جدوجہد کے کسی لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو اس میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو متفق کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل نے ایک قومی مجلس مشاورت بلانے کا فیصلہ کیا جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لیڈروں اور وکلا کی تنظیموں کے نمایندوں کو بھی دعوت دینے کا ارادہ تھا۔ لیکن میاں محمد نواز شریف کی خواہش کے احترام میںکہ یہ کانفرنس آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی دعوت پر ہو، مولانا فضل الرحمن صاحب اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کے مشورے کے بعد اسے ملتوی کردیاگیا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی دعوت پر لوگ ان کے گھر پر کراچی میں جمع ہوں تو انھیں بھی ہم نے مل کر یہ مشورہ دیا کہ مناسب ہوگا کہ کسی غیر جانب دار شخصیت کے ہاں غیررسمی طور پر ہم سب مشورے کے لیے جمع ہوجائیں۔ اس کے لیے جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کا نام بھی ہم نے اور نواز شریف صاحب نے تجویز کیا ہے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

اس پریشان کن منظر میں ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد(۶۰ کے قریب) نے چیف آف آرمی سٹاف کی غیر آئینی مداخلت کو ناجائز قرار دیا ہے اور مارشل لا کے نفاذ کو چیلنج کرکے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ہے۔اس وقت قوم کا فرض ہے کہ ان بہادر اور زندہ ضمیر رکھنے والے ججوں کی پشت پر کھڑے ہوکر ان کی بحالی کی تحریک چلائیں کہ ان کی بحالی ہی آئین کی بالادستی اور حقیقی عدل و انصاف کو فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ایک آزاد عدلیہ کی بحالی تمام اداروں کی بحالی کا راستہ ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج زندہ ضمیر کے مالک ہوں۔

ہمارے خیال میںوطن عزیز کوان حالات سے نکالنے کے لیے صرف عوامی تحریک ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ایک متفقہ متبادل پر اتفاق بھی ضروری ہے۔ کیا موجودہ سیاسی اور مذہبی زعما اس غیرمعمولی صورت حال کا ادراک کرکے ایک ہی فارمولے پر جمع ہوسکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری سمیت ان تمام ججوں کو جنھوںنے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے ، بحال کرکے دستوری راستہ تلاش کیا جاسکتاہے۔ لیکن   اس حل پر متفق ہو کر اس کی خاطر عوام کو ساتھ لے کر پُرامن جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔  پُرامن جدوجہد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ فوج اور پولیس سے تصاد م کی نوبت نہ آئے اور پرامن عوامی احتجاج بھی مسلسل جاری رہے۔ جیسے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرانا اور متعین اوقات میں گھروں اور دکانوں سے نکل کر ایک گھنٹے کے لیے سامنے کی گلی اور سڑک پر پُرامن دھرنا دینا‘ یا بینر لے کر خاموش مظاہرے کرنا اور ان سرگرمیوں کے لیے محلے اور بازار میں انفرادی رابطے کے ذریعے لوگوں کو تیار کرنا۔ خطبوں اور تقریروں میں حالات پر تبصرہ کرکے لوگوں کو ملک و قوم کی اجتماعی بہتری کے لیے انفرادی آرام کو نظرانداز کرکے تھوڑی بہت مشقت اُٹھا کر کام کے لیے تیار کرنا، اور امت کے معاملات میں دل چسپی لینے کی شرعی ضرورت کا احساس دلانا، مساجد کے باہر بینرلے کر خاموش مظاہروں کے لیے کھڑے ہوجانا،وہ چند پُرامن طریقے ہیں جنھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی مرحلے پر گرفتاریاں پیش کرنا اور جیل بھرو تحریک بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے رضاکاروں کو تیار کرنا اورجیل جانے والے ساتھیوں کے گھر والوں اور ان کے بچوں کی نگہداشت کا مناسب نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے آئین کو اپنی روح اور الفاظ کے ساتھ پوری طرح سے بحال کرنے کے لیے اس کی چار بنیادی خصوصیتوں کو سامنے رکھنا چاہیے :

۱-  پاکستان کے آئین کا پہلا اصول اسلامی نظریۂ حیات کی پابندی ہے۔ قرار داد مقاصد میں جو پاکستان کے آئین کی بنیاد ہے، اللہ رب العالمین کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اورمقننہ اور عدلیہ اور انتظامیہ سمیت ریاست کے تمام اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کاروبار حکومت چلائیں گے اور قانون ساز ی کریں گے۔

۲-  پاکستان کا آئین جمہوری اور پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرتا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو ریاستی نظام چلانے کا حق دیا گیا ہے اور تمام معاملات میں پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔

۳-  پاکستان کا آئین وفاقی ہے اور ایوان بالا میں وفاق کی چار اکائیوں کو برابر کی  نمایندگی حاصل ہے۔ قانون سازی میں صوبائی اسمبلیاں اپنے دائرۂ کار میں آزاد ہیں۔ دستور وفاق کی چار اکائیوں کو یہ اطمینان دلاتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں خود مختار ہیں، اور ان کے اختیارات کے بارے میں انھیں مطمئن کرنااور حسب ضرورت ان میں اضافہ کرنا وفاق کے لیے ضروری ہے۔

۴- پاکستان کا آئین فلاحی ہے، اور عوام کے تمام طبقات کو بنیادی ضروریات روٹی کپڑا، مکان ، تعلیم اور علاج کی سہولتیں اور مواقع فراہم کرنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی حکومت اس آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ پامال کیاگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات عرصۂ دراز تک صیغۂ راز میں رکھی گئیں اور جب ضیاء الحق کے زمانے میں پارلیمنٹ میں مطالبہ کیاگیا کہ آئین کے تقاضے کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا جائے تو مجبوراً بند الماریوں سے انھیں نکالنا پڑا‘ لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد کی کوئی سبیل نکالنے کے بجاے اسے محض گفتگو کا موضوع بنا کر دوبارہ طاق نسیاں پر   رکھ دیا گیا۔ ایک بار جنرل ضیاء الحق صاحب نے علماے کرام کا کنونشن منعقد کرکے اسلامی نظام  کے نفاذ کے بارے میں سفارشات طلب کیں تو جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے ہمت کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۸ جلدوں پر مشتمل سفارشات کا پلنداان کے سامنے رکھ دیا کہ آپ پہلے ان سفارشات کو عملی جامہ پہنا دیں‘ پھر مزید سفارشات طلب کریں تو ضیاء الحق صاحب بدمزہ ہوگئے۔

صوبائی خود مختاری و اختیارا ت نچلی سطح تک تقسیم کرنے (devolution of power) کے بہانے صوبو ں سے اختیارات واپس لے لیے گئے اور بلدیاتی اداروں کو براہ راست مرکز سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ صوبوں میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تقرری کا قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں عہدوں کے لیے صوبائی حکومت سے تین تین نام طلب کرکے ان میں سے ایک کی تقرری مرکزی حکومت کردیتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے تجویز کردہ تینوں ناموں کو چھوڑ کر اپنی پسند کے لوگوں کی تقرر ی کی گئی اور جب چاہاپرویز مشرف نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو براہ راست بلا کر احکامات صادر کیے اور جسے چاہا بیک بینی و دوگوش تبدیل کردیا۔ سرحداسمبلی کے منظور کیے ہوئے شریعت ایکٹ کو مسترد کروادیا گیا اور انھیں کوئی ضابطہ نافذ کرنے نہیں دیا گیا جس سے صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کی نسبت اسلام کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی امتیازی علامت ظاہر ہوسکے۔ بجلی کی رائلٹی کے سلسلے میں صوبہ سرحد کو کھلم کھلا اپنے حق سے محروم  رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں ٹربیونل کے فیصلے کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ بلوچستان کے ساتھ     بھی یہی سلوک روا رکھا گیا‘ بلکہ تین سال سے اسے کھلی فوج کشی کی آماج گاہ تک بنا دیا گیا ہے اور  بے دردی سے عام انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ یا نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے حالانکہ صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طور پر فوجی ایکشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح آئین کو نظراندا ز کرکے صوبو ں کی حق تلفی کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جار ہی ہے اور لوگ قوت کے استعمال کے ذریعے شریعت کے نفاذ اور ظلم و ناانصافی کا تدارک کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

آئین میں حکومت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست (welfare state)قرار دیا گیا ہے جہاں تمام شہریوں کو بنیادی ضروریا ت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میںجو معاشی پالیسیاں آج تک نافذ رہی ہیں ان کے نتیجے میں یہاں ایک بد ترین قسم کا استحصالی معاشرہ وجود میں آگیا ہے جہاں مسلسل غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ آبادی کا ایک تہائی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا عفریت پوری آبادی اور خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقات کو مسلسل ڈس رہا ہے اور آٹا، دال، سبزیاں اور گھی جیسی بنیادی اشیا بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں۔ ایک اوسط درجے کے خاندان کا صرف آٹے اور دال کا خرچ ماہانہ ایک ہزار روپے سے بڑھ جاتاہے۔ جس نے ہفتے میں ایک دن بھی گوشت کھانا ہو اور اوسطاً دوبچے زیر تعلیم ہوں اور مکان،بجلی، گیس کے بل بھی ادا کرنے ہوں اور کپڑے اورجوتے بھی استعمال کرنے ہو ں تو حساب لگالیجیے کہ کیا ۱۵ہزار روپے میں بھی   یہ ضروریات پوری ہوسکتی ہیں، اور کیا اوسط درجے کا خاندان مہینے میں۱۵ ہزار روپیہ کمابھی سکتاہے۔

پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کی توقع موجودہ استحصالی حکمران طبقے سے قطعاً نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل عوامی بیداری کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو آئین اور قانون کی بالادستی کو خوش دلی سے تسلیم کرے، اور قانونی حدود کے اندر رہ کر اختیارات استعمال کرنے کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرے جو اقتدار اور وسائل دونوں کو امانت سمجھ کر حکمرانی کے فرائض انجام دے اور قانون‘ عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ ہو۔

آئین اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب ججوں کی تقرری میں بنیادی وصف جج کی امانت و دیانت ہو۔ جج کو صاحب ضمیر اور جرأت مند ہونا چاہیے۔ بزدل آدمی کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جرأت و بہادری اور امانت و دیانت کے بجاے جج کا معیار یہ قرار پایا ہے کہ وہ حکمرانوں کے مفادات کا محافظ اور حکمرانوں کا وفادار ہو۔ اسی لیے ایک ہردلعزیز اور بہادر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹاکر ایسے لوگوں کو جج بنا دیا گیا ہے جنھوںنے آئین کی بالا دستی اور حفاظت کے حلف کو توڑ کر ایک غاصب فرد کی وفاداری کا حلف اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔

اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے پاس ایک ہی سیدھا اور انصاف کا راستہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیاں مل کر پرویز مشرف کے انتخابی ڈھونگ کا پردہ چاک کریں۔ اس جال میں پھنسنے اور جمہوریت کو مزید پانچ سال کے لیے آمرمطلق کی  لونڈی بننے سے روکنے کا بروقت اقدام کریں اور انتخابات میں اسی وقت حصہ لیں جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کا وہ نظام بحال ہو جو ۳نومبر سے پہلے موجود تھا۔ منصفانہ انتخابات اور جمہوری عمل کے برسرکار آنے کی پہلی صورت یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے سپریم کورٹ اور      ہائی کورٹوں کے دیانت دار اور باضمیر ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدالتوں کے خاتمے کے لیے ملک گیر عوامی مہم چلائی جائے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی موجودہ بحران کو ختم کرنے کی شہ کلید ہے۔ وہی سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ مارشل لا پی سی او، جس کو ’ایمرجنسی پلس‘ کا نام دیاگیاہے‘ کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ پرویز مشرف کیا آرمی چیف آف سٹاف اور صدر بن سکتے ہیں یا نہیں؟ عبوری حکومت کی آئینی شکل کیا بن سکتی ہے‘؟اورآزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہوجائیں تو اس پروگرام کو بین الاقوامی تائید بھی حاصل ہوسکتی ہے ،اور ملک کے اندر لاقانونیت اور آمریت کی لہر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

(یہ تحریر ۱۸نومبر کو لکھی گئی)

 

پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی فوجی مداخلت سے ملک میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہاں براہِ راست سول اور ملٹری انتظامیہ حکمران رہی یا ان کی پسند کے لوگوں کو محدود وقت کے لیے محدود دائرے میں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ حقیقی جمہوریت، دستور اور قانون کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی کے فقدان اور سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور باقی ماندہ ملک بھی مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔

امریکا میں ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد مسلمانوں کو بالعموم اور افغانستان و پاکستان کو بالخصوص ہدف بنا لیا گیا۔ امریکی سرکردگی میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو پرویز مشرف نے اس جنگ میں صف اول کا اتحادی بننے کا اعلان کردیا۔ اس طرح امریکی جنگ کو پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کے اندر لے آئی‘ جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگیا۔ یہ بحران آئے دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔سیکڑوں لوگوں کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر امریکی دباؤ پر عقوبت خانوں میں رکھا گیاہے۔ اپنے جگر گوشوں اور بزرگوں اور سرپرستوں سے محروم ورثا مسلسل احتجاج کے باوجود ان کی خیریت سے لاعلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوںکی مداخلت اور حکم کے باوجود حکمران مفقود الخبرسیکڑوں شہریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہیں۔ جو لوگ پاکستان کے اندر ان عقوبت خانوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ اپنے گزرے ایام کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں سناتے ہیں۔

باجوڑ اور وزیرستان میں براہ راست امریکی میزائل حملوں اور بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا کی کاسہ لیسی میں اس جرنیلی قیادت نے امریکی جرائم کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے بازوے شمشیر زن قبائلی علاقے کو اپنا مدمقابل بنا لیا ہے۔ جن مجاہدین نے افغانستان میں روسی اورکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کی مدد کی ہے، ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سربکف مجاہدین کو دہشت گردی کا ملزم گردانا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی امریکا نوازپالیسی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف داخلی انتشار سے دوچار ہے بلکہ اس کی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں ، خاص طور پر مغربی سرحد جس سے پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے افواج پاکستان کو واپس بلا لیا تھااور جہاں سے پرویز مشرف کی حکومت سے قبل ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، آج انتہائی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت متحدہ مجلس عمل سمیت تمام دینی اور مذہبی گروہوں کو پرویز مشرف انتہاپسندی کا طعنہ دے رہے ہیں اورعوامی جلسوں میںکھلم کھلا ان کے مقابلے میں نام نہاد اعتدال پسندوں کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، حالانکہ اس طرح کی سیاسی مداخلت کی اجازت دستور پاکستان نہ آرمی چیف کو دیتا ہے اور نہ صدرِ پاکستان ہی اس کا مجاز ہے۔دستورِ پاکستان اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر پرویز مشرف مسلسل اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اہم فیصلے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے باہر کور کمانڈروں کی میٹنگوں اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں فردِ واحد اپنی مرضی سے کر لیتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں محض نمایشی کاموں کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس سب کے باوجود پرویزمشرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ انھوں نے کئی عوامی جلسوں میں اس کااظہار کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ سازش کرنے والے کون ہیں۔

چیف جسٹس کی معطلی کیوں؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی اسٹیل مل کے کیس میں حکومت کی مرضی کے خلاف آزادانہ فیصلہ صادر کیاتھا۔ اسی طرح انھوں نے مفقود الخبرافراد (missing persons) کے بعض لواحقین کی درخواستوں پر ہمدردانہ رویہ اختیار کیا، کئی اور معاملات میں بھی انھوں نے آزاد انہ فیصلے کیے جس کی وجہ سے پرویز مشرف نے طے کیا کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جس کے بارے میں انھیں اس حوالے سے مکمل اطمینان ہوکہ وہ ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔ ان کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نومبر میں ان کی صدارت کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ وردی میں صدر رہنے کا نام نہاد قانون بھی اس کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کے صدر بننے کے لیے دستور کی جن دفعات کومعطل کیا گیا تھا‘وہ بھی نومبر میں بحال ہوجائیں گی۔ موجودہ الیکٹورل کالج سے صدر منتخب ہونے کی خواہش کو پورا کرنے میں بعض آئینی دفعات حائل ہیں جن کی تعبیر کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔

 سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں کو زیر کرنے کے لیے اپنی مرضی کا چیف جسٹس ضروری ہے، اس لیے انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہن کر چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس میں رام کرنے کی کوشش کی اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کی موجودگی میںان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ افتخار محمد چودھری کے مستعفی ہونے سے انکار نے پرویز مشرف کے لیے ایک نیا عدالتی بحران پیدا کیا اور ملک و قوم کے لیے عدالتوں کی آزادی کی تحریک کا ایک راستہ کھل گیا۔ وکلا برادری نے آگے بڑھ کرچیف جسٹس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فوری طور پر چند بڑے سیاسی اور دینی رہنماؤں سے مشورے کے بعداسلام آباد میں ۱۲ مارچ کو ایک قومی مجلس مشاورت منعقد کی۔ اس میں ایم ایم اے، اے آرڈی اور پونم کے علاوہ تحریک انصاف اور اے این پی کے رہنماؤںنے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں وکلا ، سول سوسائٹی اور مفقود الخبر افراد کے ورثا کی نمایندگی بھی تھی۔ ۹مارچ کے بعدچیف جسٹس کو اپنے گھر میں محبوس کردیا گیا تھا اور ان سے ملاقات پر پابندی تھی لیکن حکومت پابندی کا انکار کر رہی تھی۔حکومت کے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے ہم لوگوں نے اپنے اجلاس کے فوراً بعد چیف جسٹس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں زبردستی وہاں جانے سے روکا گیا اور اس طرح عدلیہ کی آزادی کی تحریک عملی طور پر شروع ہو گئی۔ عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں خود وکلا کی خواہش پر سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

عدلیہ کی آزادی

عدل و انصاف انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عدل و انصاف ہوگا وہاں سارے مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کرتے رہیں گے۔جہاں عدل و انصاف کا ادارہ ٹوٹے گا وہاں ہر ادارہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ رب العالمین نے تمام رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد یہی بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو انصاف پر کھڑا کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵)ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے کھڑے ہونے اور انصاف کی علَم برداری‘ اللہ کے لیے گواہ بننے اور انصاف کے لیے گواہ بننے کو برابر قرار دیا ہے۔فرمایا:

یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَج (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

اسی لیے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میںمتحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا کہ عدلیہ کی آزادی کے ساتھ تمام اداروں کی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مسائل وابستہ ہیں، اور پھر عدل و انصاف کے قیام کے لیے کھڑے ہونا ایک دینی فریضہ بھی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کی تحریک

فوج جب سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو وہ دستور اور دستور میں شامل اپنے  اس حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے جس کے تحت وہ دستور کی پابندی اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی مکلف ہے۔نام نہاد اور بدنام زمانہ نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ نے ہمیشہ فوج کی اس مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا ہے حالانکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نہ صرف دستور کی پابندی بلکہ اس کی ’حفاظت‘ کا حلف لے کر جج بنتے ہیں‘ اور عدلیہ کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور دستور کے مطابق سب کو انصاف فراہم کرے۔ جب اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے حلف سے منحرف ہو کرپی سی او کا حلف اٹھا کر دستور کے بجاے فوجی سربراہ کے وفادار بن جاتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ اور ملک کا پورا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان اسی حالت سے دوچار ہے اور سپریم کورٹ جن مسائل پر غور کررہی ہے اس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔اسے بجا طور پر ’فیصلہ کن مرحلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجاے آزادانہ فیصلہ کرتی ہے تو ہماری قومی زندگی سے تذلیل کے وہ سارے داغ دھل جائیں گے جو جسٹس منیر کے وقت سے بار بار کی فوجی مداخلت کو نظریۂ ضرورت کے تحت جواز عطاکرنے کی وجہ سے لگے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے فیصلے سے ہمیں نئی زندگی مل جائے گی۔

عدلیہ کی آزادی کے ساتھ دستور کی بالا دستی، قومی حاکمیت، بنیادی انسانی حقوق، پارلیمنٹ کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے سارے اعلیٰ مقاصد حاصل اور سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان دستور کے مطابق قرآن و سنت کی پابندی کرنے کے عہد کو پورا کریں گے تو اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قوانین کے احیا کی قومی آرزو بھی آزاد عدلیہ اور صاحب ضمیر جج صاحبان کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے۔ تاہم عدلیہ کی آزادی کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان  اعلیٰ و ارفع کردار کا مظاہرہ کریں گے اور اس ضابطۂ اخلاق کی مکمل پاس داری کریں گے جسے ان  اعلیٰ مناصب کے حامل افراد کے لیے شریعت، قانون، اخلاق اور صحت مند روایات نے معتبر قرار دیا ہے۔ ملک بھر کے عوام جس طرح وکلا کے شانہ بشانہ چیف جسٹس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام فوجی ڈکٹیٹر شپ کے مقابلے میں آزاد عدلیہ اور دستور کی پابندی کے حامی ہیں اور امریکی دباؤ اور ذاتی خواہشات کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو پاکستان میں جس طرح پامال کیا جا رہا ہے، اس سے نفرت کرتے ہیں۔

حکومت کی بدحواسی ، ایم کیو ایم کی غنڈا گردی

آزاد عدلیہ کے حق میں عوامی حمایت کے مظاہرے سے گھبرا کرحکومت بدحواسی میں غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے راولپنڈی سے لاہور تک پرجوش عوامی استقبال کے بعد کراچی میں حکومت نے چیف جسٹس کے استقبال کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔ پرویز مشرف نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا سہارا لیا اور اسے (free hand)‘ یعنی کھلی آزادی دے دی گئی کہ وہ کراچی میں اپنی تنظیمی قوت اور گروہی تائید و حمایت کے ذریعے طاقت کا متوازی مظاہرہ کرکے چیف جسٹس کی کراچی آمدکو روک دے۔ لیکن پرویز مشرف کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کا اصل منبع عوامی پذیرائی نہیںبلکہ گولی اور دہشت گردی کی قوت ہے۔

ایم کیو ایم کراچی میں اپنی قوت کا لوہا منوانے کے شوق میںاپنی پوری قوت سے میدان میں اتری۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور خفیہ اداروں کی مکمل سرپرستی اسے حاصل تھی۔ رینجرز اور پولیس نے ’اُوپر والوں‘ کی ہدایت پر خاموش تماشائی کا کردار اختیار کرکے اسے کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو دہشت زدہ کرکے اسے اپنے حق میں کرنے کی پوری منصوبہ بندی  کی گئی۔ائیرپورٹ تک جانے والے سارے راستے مکمل طور پر سیل کردیے گئے اور ان راستوں پر ایم کیوایم کے مسلح تربیت یافتہ دہشت گرد کارکنوں نے مورچے سنبھال لیے۔اس کے ساتھ وہ راستے کھلے رکھے گئے جہاں سے ایم کیوایم کے جلوسوں نے گذر کر اپنی جلسہ گاہ میں پہنچنا تھا۔ دہشت کی فضا اتنی خوف ناک تھی کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی اور ایم کیو ایم کی  عوامی قوت کا مظاہرہ بھی فلاپ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کے پرجوش کارکن قربانی کے جذبے کے ساتھ مختلف مقامات پر جمع ہوئے تو ایم کیو ایم کے مسلح دہشت گردوں نے انھیں روکنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی۔ الیکٹرانک میڈیا کو دباؤ میںرکھا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ جو خونی کھیل کھیلا جا رہا تھا وہ چھپائے نہیں چھپ سکتا تھا۔’’آج‘‘ چینل کے دفتر کے اوپر جو کیمرے لگے ہوئے تھے، ان کے ذریعے پوری دنیا مسلح غنڈا گردی اور فوج، رینجرز اور پولیس کی بے حسی کا تماشااپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ غنڈا گردی اور تشدد کی سیاست تو پہلے دن سے ایم کیو ایم کا شعار رہی ہے لیکن ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کی غنڈا گردی برہنہ ہو کر قوم اور پوری دنیا کے سامنے آگئی۔

ادھر اسلام آباد میںجنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ’ق‘ لیگ عوامی طاقت کے مظاہرے کا جشن منا رہی تھی۔ میلے کا سماں تھا، سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کر کے لائے ہوئے کرائے کے لوگوں کو پورے ملک سے جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ایک جگہ بیٹھ کرتقریر سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لوگ تو کراچی کے قتل عام سے باخبر تھے اور حاضری لگوا کر واپس جا رہے تھے اور کچھ لوگ اسلام آباد کی سیر کے لیے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے۔ جلسہ گاہ سے بڑھ کر حاضری فیصل مسجد کے اطراف میں نظر آرہی تھی۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اپنی تقریر میں بڑھک ماری کہ کراچی میں’عوامی طاقت‘ سے ہم نے چیف جسٹس کے دورے کو ناکام بنا دیا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیوایم کی عوامی طاقت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ پوری قوم کے سامنے وہ ایک فاشسٹ اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر برہنہ ہو چکی تھی اور ایم کیوایم کی کھلی سرپرستی کے مظاہرے سے خود پرویزمشرف بھی دہشت گرد تنظیم کے سرپرست کے طور پر عریاں ہو چکے تھے۔تقریباً ۵۰شہدا اور سیکڑوں زخمیوں اور ایم کیوایم کے ظالمانہ رویے سے پوری قوم سوگوار تھی۔چنانچہ ۱۳ مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیالیکن ہم نے عوام کے صدمے اور غم و جذبات کے اظہار کے لیے قومی رہنماؤں کے مشورے سے ۱۴ مئی کو پورے ملک میں عام ہڑتال کی اپیل کی،جس کا قوم نے مثبت جواب دیا اور ۱۴ مئی کو پورے ملک کے بازار اور سڑکیں سنسان ہو گئیں۔

ایم کیو ایم ۱۲ مئی کے واقعات کے بعد منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مغربی دنیا میں اپنے تعارف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ایوانوں میں الطاف حسین کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اگر وہ الطاف حسین کو برطانیہ کی عدالتوں میں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوموں کی فریاد سننے کا دروازہ کھل جائے گا ۔ ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد میں ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی بھی ہے جو اپنی فریاد کے لیے کسی موقع کے منتظر ہیں ۔

 عوام نے وکلا کے ساتھ تحریک میں پوری طرح اپنی شمولیت کا برملا اظہار کیاتو میڈیا نے اس حقیقت کو چھپانے کے بجاے اس کی بھرپور کوریج کا اہتمام کیا۔ اس پر ’آج‘، ’جیو‘ اور     ’اے آروائی‘ پر خصوصی دباؤ پڑنے لگا اور اس کے ساتھ کیبل کے مالکان کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے آزاد چینلوں کو بلیک آئوٹ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود جب ان اداروں کے خلاف غنڈا گردی کا ہر حربہ ناکام ہوچکا تو پھر ایک نیاوار پیمرا کے قوانین میں ترمیمی آرڈی ننس کی مکروہ شکل میں کیا گیا۔ یہ حکومت کی بدحواسی کا ایک اور مظاہرہ تھا۔، اس کے بعدوکلا کے ساتھ صحافی برادری بھی کھل کر میدان میں نکل آئی۔

مجلسِ عمل کی تحریک

اس فضا میں متحدہ مجلس عمل کی پوری مرکزی قیادت نے راولپنڈی سے گوجرانوالہ، گوجرانوالہ سے فیصل آباد اور فیصل آباد سے لاہور تک کا تین روزہ تاریخی ’روڈکارواں‘ چلایا، جس کی عوامی پذیرائی کا مظاہرہ پوری قوم کے سامنے آگیا۔موجودہ عوامی تحریک کے دو بڑے مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفقہ طور پر مطالبہ کررہی ہیں کہ:

۱۔   پرویز مشرف اور حکمران ٹولہ استعفا دے۔

۲۔   قومی اتفاق راے سے ایک عبوری حکومت قائم ہو۔

۳۔  دستور کو اکتوبر۱۹۹۹ء کے پہلے والی صورت میں بحال کردیا جائے۔

۴۔  آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کر کے منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔

دوسرے مرحلے میں انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخاب لڑے اور انتخابات جیتنے والی اکثریت کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر حکومت کرنے کا حق استعمال کرے۔

ان مطالبات کو روبۂ عمل لانے کے لیے متفقہ جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن بوجوہ اب تک پیپلزپارٹی اس طرح کے اتحاد کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے ۔ لیکن اس کا یہ رویہ نہ عوام میں مقبول ہے اور نہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہی کھل کر اس رویے کی حمایت کرسکتے ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے اس رویے پر قائم رہتی ہے تو عوا م اس کو پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کا حصہ سمجھیں گے۔ متحدہ مجلس عمل اور پیپلزپارٹی کے پروگرام اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں بنیادی اختلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کھل کر امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں پر ’اسلامی دہشت گردوں‘ کاساتھ دینے کا الزام عائد کررہی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے آئینے میں اپنے مستقبل کا اقتدار دیکھ رہی ہیں اور ان دونوں طاقتوں کو ابھی سے یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ پرویز مشرف سے بھی بہتر اتحادی ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس طرح وہ عوامی تائید سے محروم ہو رہی ہیں۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی بار بار کی دعوت کو نظر اندار کرتے ہوئے اپنا الگ راستہ بنانے کی کوشش جاری رکھی تو خود ان کی پارٹی کے لیے یہ رویہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔

عدلیہ، وکلا، صحافی برادری اور سیاسی اور دینی جماعتوں کے تحرک کے نتیجے میں پرویز مشرف اور ان کی حکومت بد حواسی کا شکار ہے ۔ پرویز مشرف نے برسرعام حکمران جماعت سے شکایت کی ہے کہ انھیں میدان میں اکیلاچھوڑ دیا گیا ہے اور حکمران جماعت خود اپنی بقا کے لیے بھی میدان میں اترنے سے کترا رہی ہے ‘ جب کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کہاہے کہ حکمران جماعت کے بعض ارکان اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں‘ نیز سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل ملک قیوم نے کہاہے کہ ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں ہوجائے تو وزیر اعظم شوکت عزیز کو استعفا دے دینا چاہیے ۔ یہ رویہ ظاہر کرتاہے کہ پرویز مشرف حکومت کا چل چلائو ہے اور انھیں اپنے چاروں طرف سازشیں اور سازشی عناصر نظر آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں کور کمانڈروں کا اجلاس طلب کرکے آئی ایس پی آر کی طرف سے سیاسی بیا ن جار ی کروانا کمزوری کی علامت ہے ۔ فوجی کمانڈروں کا اس نوعیت کا ایک بیان ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام میں بھی جاری ہواتھا لیکن کسی ڈکٹیٹر کے آخری ایام میں اس طرح کے بیانات سے کوئی بھی مرعوب نہیں ہوتا۔

ملک میں ایمرجنسی یا نیا مارشل لا نافذ ہونے کے خطرے کااظہار کیا جارہا ہے لیکن ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت کا علاج مارشل لا یا ایمرجنسی نہیں ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی فوجی آمریت ہے اور بحران کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔ اگر کوئی فوجی جرنیل نئے مارشل لا کے نفاذ کی حماقت کرے گا تویہ خود فوج کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہوگا اور فوج اور عوام میں جو خلیج حائل ہوچکی ہے اس میں اضافے کا سبب بنے گا۔

مجلسِ عمل سرحد کی کارکردگی

عام انتخابات کے حوالے سے صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی کارکردگی ہر مجلس میں موضوع سخن رہتی ہے۔ اگرچہ فوجی حکومت کی وجہ سے آئین عملاً معطل ہے اور صوبوں کو آئین کے عطاکردہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کے دو بڑے اور اہم مناصب پر مرکز اپنی صواب دید سے اشخاص کی تعیناتی کرتا ہے اور انھیں مرکز سے براہ راست ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں۔ واپڈا کے ذمے صوبائی حکومت کے رائلٹی کے واجبات کی ادایگی سے کھلم کھلا پہلوتہی کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد نے ہرمیدان میں ترقی کی ہے۔

 صحت اور تعلیم کے دو اہم شعبوں کا سابقہ ادوار کی کارکردگی سے موازنہ کیا جائے تو مجلس عمل کی حکومت کی اچھی کارکردگی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کے لیے الگ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ہے اور الگ اسکولوں کی سہولت کے پیش نظر اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہرضلعی ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ درجے کی سہولتوں کے ساتھ ایک بڑا ہسپتال تعمیر کرنے کا کام جاری ہے۔ ایک آسان اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحت پر سالانہ ترقیاتی اخراجات سابقہ ادوار میں ۳۰ کروڑ روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے‘ جب کہ مجلس عمل کی حکومت میں صحت کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ ۳ ارب ۱۳ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت سے قبل کالجوں کی کل تعداد ۱۳۴ تھی‘ جب کہ گذشتہ چارسالوں میں ۸۰ نئے کالج تعمیر کیے گئے۔

سب سے اہم اور نمایاں تبدیلی حکومتی ایوانوں میں کلچر اور ثقافت کی تبدیلی ہے۔ گورنمنٹ ریسٹ ہائوس سابقہ ادوار میں عیاشی کے اڈے ہواکرتے تھے۔ اب یہ سادگی اور پاکیزگی کا نمونہ ہیں۔ وزرا باقاعدہ مساجد میںحاضری دیتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے ہیں۔ دفاتر میں عوام کا آزادانہ آنا جانا ہے اور حکومتی ایوانوں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عوام اور خواص میں حائل پردے ہٹ گئے ہیں۔ دینی جماعتوں کی باہمی آویزش ختم ہونے کی وجہ سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کے مقابلے میں کسی علاقائی یا سیکولر سیاسی تنظیم کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ ایم ایم اے اگر داخلی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو تو کوئی دوسری جماعت انتخابات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ایم ایم اے کی اس کارکردگی سے گھبرا کر عالمی قوتوں نے صوبہ سرحد میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی مذموم سازشیں شروع کردی ہیں۔ پہلے مرحلے میں قبائلی علاقوں میں میزائل حملوں اور بم باریوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر باجوڑ اوروزیرستان میں بم باری کی گئی۔ خیبر ایجنسی میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے پیر اور مفتی کا جھگڑا کھڑا کیا گیا۔ ہنگو‘ پاراچنار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ اور بعض علاقوں میں کچھ دینی عناصر کے ذریعے متشدد طالبان کا رنگ اُبھارنے کی کوشش کی گئی جو بم دھماکوں‘ دھمکی آمیز خطوط اور تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے صوبے میں بدامنی اور افراتفری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو افراد ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا بعض حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ تعلق صوبائی حکومت پر واضح ہے‘ اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔

ایم ایم اے کے گرد تمام مسلمانوں کے متحد ہونے کے خدشے کے پیش نظر عالمی طاقتوں اور پرویز مشرف کی حکمت عملی ہوگی کہ خود مذہب کی بنیاد پرایم ایم اے کے لیے دوسرے حریف پیدا کیے جائیں اور انھیں منظم کیا جائے۔ ان گروہوں میں ایک گروہ وہ ہے جو لوگوں کو ووٹ دینے اور انتخابی عمل میں شریک ہونے سے منع کرتا ہے۔ ایک گروہ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور صوبہ سرحد کے بعد اب پنجاب کے عوام میں ایم ایم اے کو پذیرائی مل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب میں کامیاب علما و مشائخ کانفرنسوں کا انعقاد اور مجلس عمل کے مرکزی رہنمائوں کا تین روزہ کارواں ایک روشن مستقبل کا اشارہ دے رہے ہیں۔

مجلسِ عمل پر اعتراضات

گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لیے جب اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی جاتی ہے تو مجلس عمل پر مخالفین کی طرف سے دو اہم اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا اعتراض ۱۷ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کا ہے‘ اور دوسرا اعتراض بلوچستان کی حکومت میں ’ق ‘ لیگ کا حلیف ہونے کا ہے ۔

سترھویں ترمیمی بل پر حکومتی پارٹی سے مفاہمت اور بلوچستان میں ق لیگ سے اتحاد بنیادی طور پر اس کمزوری کی علامت ہیں جو ملٹری سویلین اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی اور دینی جماعتوں کو لاحق ہے۔ جب تک عوامی بیداری کے نتیجے میں عدل وانصاف پر مبنی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہمارا ملک اس نوعیت کی مشکلات اور الجھنوں سے دوچار رہے گا ۔ ہم نے سترھویں ترمیمی بل کے موقع پر جو مفاہمت کی تھی‘ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ اس طرح ہم نے پرویز مشرف کو آئینی طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے دستبردار کرکے جمہوریت کی طرف قدم آگے بڑھایا ہے‘ لیکن جو لوگ طاقت کے بل بوتے پر حکمران بن جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں جاتے۔ انھیں قانون اور عہدوپیمان کا کوئی پاس نہیں ہوتا‘ اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ بڑی سے بڑی بدعہدی سے بھی باز نہیں رہتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سترھویں ترمیم کے باب میں بھی ہمیں اور پوری قوم کو یہی تجربہ ہوا۔

 ہم نے نیک نیتی سے ایک کام کیا تھا مگر فی الحقیقت ہمیں اور پوری قوم کو بلکہ پوری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔جب ہم نے دھوکا کھانے پر معذرت کی تو ہمارے کچھ ساتھیوں نے دلیل پیش کی کہ دھوکا کھانا گناہ نہیں ہے بلکہ دھوکا دینا گناہ ہے۔ اس لیے ہم کس بات کی معذرت پیش کریں لیکن دھوکا دینے والوں کے ساتھ بلوچستان حکومت میں شریک رہنے کی ہمارے پاس کوئی قوی دلیل نہیں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ اگر ہم حکومت سے نکل آئیں تو گویا گورنر راج ہوگا یا نیشنلسٹ قوتیں شریک اقتدار ہو کر مزید مشکلات پیدا کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کے کئی رخ ہوتے ہیں اور جس رخ کو بھی اختیار کیا جائے اس کے لیے دلائل فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم عدلیہ اور فوجی ٹولے کے درمیان موجودہ آویزش میں عوام کو منظم کرکے عدلیہ کی آزادی کا راستہ کھول سکیں تو ہمیں اس طرح کے جوڑ توڑ (compromises)کرنے کی ضرورت    باقی نہیں رہے گی۔ اللہ پر بھروسے اور صراط مستقیم پر چل کر ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنا اور   حق و باطل کے درمیان ہر طرح کی شراکت سے گریز کرنا ہی سیدھا راستہ ہے جس کی نشان دہی علامہ اقبال ؒنے اپنی اس دل نشیں نظم میں کی ہے :

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس دور میں ممکن نہیںبے چو ب کلیم

عقل عیار ہے‘ سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیںمقیم

ہے گراں سیر غم راحلہ و زادسے تو
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی ومرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم

عزیمت کے اس راستے پر چلنے کے لیے ایم ایم اے کے سب ساتھیوں کو آمادہ کرنا ضروری ہے ۔ وقتی اختلاف راے پر علیحدگی اختیار کرنے یا کسی کو علیحدہ کرنے کے بجاے صبراور حکمت سے معاملات کو سلجھانا بہتر ہے اور یہی جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کی پالیسی ہے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن ہر مشکل کو حل کرنے کے لیے راستہ موجود ہے   ؎

مشکلے نیست کہ آساں نہ شو د
مردباید کہ ہراساں نہ شود

(ایسی کوئی مشکل نہیں ہے جو آسان نہ ہوسکے۔ مرد کو چاہیے کہ ہروقت حوصلہ مند رہے۔)

پشتو میں مثل ہے کہ ’’پہاڑ کی چوٹی اگرچہ بلند ہے لیکن اس کے اوپر راستہ ہے‘‘۔ ان شاء اللہ وقت آرہاہے کہ مومنانہ بصیرت ،باہمی اتحاداور اللہ پر توکل کے ذریعے دشمنوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا اور اسلامی قوتیں کامیاب و کامران ہوں گی‘ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے :

جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُط  اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o

(بنی اسرائیل۱۷:۸۱)  اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ ط (الانبیاء۲۱:۱۸) مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مِٹ جاتا ہے۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو   یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس آیت کا حوالہ دے کر علامہ اقبال ایمان کامل کے ساتھ فرماتے ہیں :    ؎

تاخدا اَنْ یُّطْفِئُوْا فرمودہ است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است

(جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا روشن کردہ چراغ ہے تو اس چراغ کو بجھنے کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے)

کچھ لوگ درحقیقت ایم ایم اے کے اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس معذرت کو  بنیاد بناکر ایم ایم اے کی یک جہتی پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ  ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں کچھ امور پر اختلاف موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ان وقتی اختلافات کی بنیاد پر ایم ایم اے کے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہتی ہے ۔ اگر ایم ایم اے کے فوائد اور اس کی مشکلات کا موازنہ کیا جائے تو اس کے فوائد کہیں زیادہ اور دور رس مثبت نتائج کے حامل ہیں اور دینی جماعتوں کی یہ یکجہتی پورے مسلم معاشرے کو اغیار کی سازشوں سے بچانے اور اسے اصل چیلنج کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ایم ایم اے کی دعوت پر کامیاب قومی مجلس مشاورت کے بعددرج ذیل چھے افراد پر مشتمل ایک قومی رابطہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیاگیا جو آگے کی سیاسی تحریک کا نقشہ بنائے گی اور ان شاء اللہ عوامی تحریک کی رہنمائی کرے گی: قاضی حسین احمد‘ راجا ظفر الحق‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی خان‘ محمود خان اچکزئی۔

تبدیلی کی حکمت عملی

۷ اور۸جولائی کو اے آرڈی کی طرف سے میاں نوازشریف نے لندن میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس بلائی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے ابھی سے شرکت سے معذرت آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کا وفد شرکت کرے گا لیکن اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہے کہ بے نظیر صاحبہ کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کا کوئی بھی وفد فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نظرانداز کرکے فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔مسلم لیگ (ن) عرصے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں مشکلات سے دوچار ہے لیکن اسے چھوڑ کر الگ راستہ اختیار کرنا بھی اس کے لیے بوجوہ مشکل ہے ۔ اپوزیشن اور ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی مفید راستہ یہ ہے کہ دستور کی بالادستی ،عدلیہ کی آزادی اور فوجی آمریت سے نجات کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کی ایک بار پھر پوری کوشش ہونی چاہیے لیکن وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور انتظار اور مزید کوشش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے اب یکسوئی اختیار کرنا اور عملی جدوجہد کو مہمیز دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

ایک مستحکم اسلامی سیاسی جمہوری پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ عدلیہ کی آزادی یقینی بنا دی جائے اور عوام کو دینی تشخص رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ عوام کی تنظیم کے بغیر دستور کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کی جڑیں عوام میں گہری ہیںلیکن مشترکات پر متحدہونے کے باوجودجماعت اسلامی کے سوا باقی جماعتیں اب تک اپنے اپنے مسلک کے دائرے سے اوپر نہیں اٹھ سکیں۔جماعت اسلامی اگرچہ اپنی تنظیمی قوت اور کارکنان کی اعلیٰ مقاصد کے ساتھ وابستگی کے سبب ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور الحمدللہ عوام میں اچھی شہرت اور پذیرائی رکھتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر عوام کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور عام آدمی کو یہ یقین دلانے میں کہ ’جماعت اسلامی اس کی ہے اور وہ جماعت اسلامی کا ہے‘ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کچھ مدت پیش تر ممبر سازی مہم اور محلہ وار رابطہ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے شروع کیا گیا تھا لیکن نامکمل رہ گیا تھا۔ اب جماعت نے نئے سرے سے اس کا آغاز کردیا ہے۔

اگر ہم ۱۵ کروڑ کی آبادی میں ۱۰ فی صد یعنی ڈیڑھ کروڑ مرد اور خواتین کو ممبر بنا کر رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے منظم کر سکیںاور مجلس عمل کی دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میںمنظم اور عوامی پذیرائی حاصل کرلیں‘ اور ساتھ ہی ہم اس میں کامیاب ہوجائیں کہ مجلس عمل میں شامل جماعتوںکے افراد کو قدر مشترک اور درد مشترک پر جمع کرکے ایک جماعت ہونے کا احساس ابھار سکیں‘ اور دین کے ساتھ وابستگی رکھنے والے تمام افراد میں’ترجیحات‘ کے بارے میں صحیح فہم اور یکسوئی پیدا کرسکیں کہ وہ فروعی اختلافات سے اٹھ کر اعلاے کلمۃاللہ کے مقصد پر متحد ہوجائیں اور قرآن و سنت کی مشترک بنیاد کو مرکز و محور بنا کر آپس میں ایک دوسرے کی تعبیر کو تسلیم کر لیں‘ اور ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا کر لیں تو متحدہ مجلس عمل ایک مستحکم اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ اس کے لیے قیادت اور کارکنوں کا اخلاص اور للہیت سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ اخلاص اور للہیت سے ہی قربانی کا جذبہ اور محنت شاقہ کی عادت پنپ  سکتی ہے۔

پوری اسلامی دنیا میں ہر جگہ عوام دینی طور پر بیدار ہو رہے ہیں اور اغیار کی سازشوں سے باخبر بھی ہورہے ہیں کیونکہ میڈیا کے اس دور میںکوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ امریکی دانش ور جس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے پیش کررہے ہیں اور مسلمانوں ہی میں سے اپنے ڈھب کے لوگوں کو منظم کرنے اور انھیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں لانے کی تیاری کررہے ہیں‘ وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوںسے مخفی نہیں ہیں۔ اگرچہ فحش اور بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کے ذریعے بے ہمت اور بودہ بنانے کی کوششیں بھی بڑے منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت حالات حاضرہ اور سیاسی تجزیوں پر مشتمل پروگراموں میں دل چسپی لینے لگی ہے۔

اس رجحان کی وجہ سے آمرانہ فوجی حکومت کو پیمرا آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرنی پڑی ہیں جو اظہار راے اور پریس کی آزادی کے منافی ہیں۔ اس ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف جو   شدید ردعمل صحافی برادری میں نمودار ہوا‘ حکومت اس سے گھبرا گئی اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار کرکے اس ترمیم کو واپس لینا پڑا۔ تاہم حالیہ عوامی بیداری اور خاص کر ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم اور   پرویز مشرف کا دہشت گرد چہرہ لوگوں کو دکھانے میں میڈیا نے جو کردارادا کیا ہے اور اب تک بڑی حد تک میڈیا اپنے اس آزادانہ کردار پر قائم ہے‘ وہ عوامی بیداری کے ایک نئے دور کی نوید سنا رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۰۷ء میں اسلام کے روشن مستقبل کی جو خوش خبری سنائی تھی‘ اس میں بھی ’بے حجابی‘ اور تمام حقائق کے آشکارا ہونے کا ذکر ہے:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھاگیا تھا پھر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

ان حالات میں ہمارا پیغام صرف ایک ہے۔ اس نازک اور فیصلہ کن لمحے میں کوئی باشعور مسلمان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ یہ وقت اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی  تہذیب و ثقافت اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جدوجہد میں سردھڑ کی بازی لگادینے کا وقت ہے۔ یہ وقت فیصلہ‘ یکسوئی‘ جدوجہد اور قربانی کا وقت ہے‘ اور اللہ سے اپنے کیے ہوئے عہدوفا کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل پوری قوم کو اس ملک عزیز کی بقا‘ استحکام اور اس کے نظریاتی کردار کی ادایگی کی اس تاریخی جدوجہد میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ توعرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

 

کسی بھی تحریک کا مؤسس اپنے نظریات اور تحریک کا سب سے بہتر تعارف ہوتا ہے۔ جوشخص اپنے مقاصد سے جس قدر مخلص ہوگا اس پر، اس کے ساتھیوں پر، اور اس کی تحریک پر ان مقاصد کی چھاپ اُتنی ہی گہری ہوگی۔ امام حسن البنا شہید کی تمام تر جدوجہد کا اصل مقصد رب کی رضا کا حصول اور اللہ کے رنگ میں انفرادی و اجتماعی طور پر رنگ جانا تھا۔ ان کی پوری زندگی میں یہی پہلو سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔

قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے براہِ راست ربط و تعلق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثل محبت اور وابستگی نے اخوان کو دعوت و تحریک کے مستقل مکتب کی حیثیت دے دی ہے۔ اخوان کا معروف شعار: اللہ ہمارا مقصود ہے، قرآن ہمارا دستور ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے راہ نما ہیں، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کے راستے میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے___ اس روحانیت کا جامع خلاصہ ہے۔ اسی شعار کو بنیاد بناکر انھوں نے اصلاحِ نفس، اصلاح اہل خانہ، اصلاحِ معاشرہ اور تعمیرملت کی مثالی جدوجہد کی۔

امام حسن البنا شہید نے اپنے ساتھیوں کی تربیت میں جہاد اور قربانی کو بہت اہمیت دی۔ انھوں نے اخوان کے کارکنان کو ہر طرح کے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ فاروق کے مظالم ہوں یا جمال عبدالناصر کی بے وفائی اور ظلم و تشدد، انورسادات کا جبر ہو یا  حسنی مبارک کے غیرقانونی اقدامات، بیرونی سازشیں ہوں یا اندرونی حالات کی سنگینی، اخوان   ان تمام آزمایشوں میں سخت جان نکلے۔ انھیں ختم کرنے کی کوشش کرنے والے ایک ایک کرکے ختم ہوگئے، لیکن انھیں شہید، اسیر یا ملک بدر کرکے کبھی ختم نہ کیا جا سکا۔ یوں اخوان المسلمون کی تحریک کا دائرہ نہ صرف پورے عالمِ عرب پر محیط ہوگیابلکہ اس کے اثرات پورے عالم اسلام میں پھیل گئے۔

صہیونی طاقتوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم دنیا بالخصوص مصر سے اسلامی روح کا خاتمہ کردیا جائے۔ مصر پر خصوصی توجہ اس لیے تھی کہ مصر، فلسطین پر صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی بنیادی کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصر ہی سے اسرائیلی وجود کے خلاف عملی مزاحمت سامنے آئی تھی۔ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے بہت سی کاوشوں کا نقطۂ آغاز مصر ہی قرار پایا۔ فلسطین پر یہودی قبضے کو تسلیم کروانے کے لیے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہو یا عالمِ اسلام کے خلاف دیگر ثقافتی، دفاعی، جاسوسی اور اقتصادی سازشیں، ان کی تنفیذ میں بنیادی خدمت عالمِ اسلام کے حکمرانوں بالخصوص فلسطین کے پڑوسی ممالک سے لی گئی۔ سازشی عناصر اور ان کے خدمت گار جانتے تھے کہ اس راہ کی بنیادی رکاوٹ اسلامی تحریکیں اور معاشرے کے متدین عناصر ہیں۔ اس رکاوٹ کے ازالے کے لیے اندرونی و بیرونی قوتوں نے ہرممکن ہتھکنڈا آزمایا۔ جھوٹے الزامات لگے، مہیب پروپیگنڈا ہوا،اور اندرونی و بیرونی فتنوں کو ہوا دی گئی۔ ملک بدری، اسیری اور پھر گولیاں اور پھانسی کے پھندے، اور ظلم و جور کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے لیکن اللہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت سے سرشار اور کتاب اللہ کے نور سے منور چراغوں کو بجھایا نہ جاسکا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ فیض سے سیراب کھیتی، ہر آن اپنی بہار دکھاتی اور یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ (الفتح: ۴۸:۲۹) ’’کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں‘‘کا مصداق بنی رہی۔

وہ کارواں جو امام حسن البنا اور ان کے چند مخلص ساتھیوں کی جدوجہد سے شروع ہوا تھا، تمام تر چرکے سہنے کے باوجود آج کہیں حماس کی صورت ناقابلِ شکست ہے، کہیں اخوان المسلمون کی پے درپے کامیابیوں کی صورت مخالفین کو لرزہ براندام کیے ہوئے ہے۔ کہیں الجزائر کے ۸۰ فی صد راے دہندگان کے نقارے کی صورت سنائی دیتا ہے۔ عالمِ عرب ہی نہیں، جہاں جہاں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی جمع ہیں، اخوان غلبۂ اسلام کی اس جدوجہد کے دست و بازو بنے   ہوئے ہیں۔ اُمت کی اُمیدوں کے ترجمان ہیں، اور اس یقین سے سرشار ہیں کہ حق کو بالآخر غالب ہونا ہے اور باطل کو مغلوب۔

مسلسل قربانیوں اور ہمہ وقت جدوجہد سے اسلامی تحریکوں نے پوری دنیا پر یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ قربانیاں اور مشکلات کبھی کسی تحریک کے خاتمے کا باعث نہیں ہوتیں۔ قربانیوں نے ہمیشہ تحریک کو مزید تقویت و زندگی بخشی ہے۔ جہاد کی فصل جتنی کٹتی ہے اتنی ہی مزید پھلتی پھولتی ہے۔ہاں، قربانیوں سے اجتناب، مشکلات کا خوف اور خطرات کے اندیشہ ہاے دُوردراز، تحرک کے بجاے تساہل و تکاسل ضرور ایساوقت لاتے ہیں کہ پھر تحریک تحریک نہ رہے، تعفن زدہ تالاب بن جائے۔ اقبال نے بھی اپنے اشعار سے یہی پیغام دیا اور حسن البنا کی شہادت سے اخوان اور اسلامی تحریک کو ملنے والی حیاتِ تازہ سے بھی یہی پیغام ملا:

ساحل افتادہ گفت‘ گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم
موج زخود رفتۂ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر مے روم، گر نہ روم نیستم!

(پڑے ہوئے ساحل نے کہا کہ: اگرچہ میںبڑی دیر زندہ رہا ہوں، لیکن افسوس! مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ میں کیا ہوں۔ اپنی جان سے گزرنے والی موج تیزی سے لپکی اور اس نے کہا، اگر میں حرکت میں ہوں تو زندہ ہوں، اگر نہیں ہوں تو نہیں ہوں،گویا زندگی حرکت اور جدوجہد کا نام ہے۔)

یہی مطلب مرزا بیدل کے ایک شعر میں اس طرح ادا ہوا ہے:

ما زندہ ازانیم کہ آرام نہ گیرم
موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست

(ہم اس لیے زندہ ہیں کہ رکتے نہیں ہیں۔ ہم ایسی موج ہیں کہ ہمارا ٹھیرنا ہماری موت ہے۔)

سید قطب کے الفاظ میں کہ: ’’شہید کے ہزاروں خطاب اور ہزاروں کتابیں بھی اخوان کے دلوں میں تحریک و دعوت کے وہ الائو روشن نہیں کرسکتے تھے جو ان کے پاکیزہ خون سے منور ہونے والے چراغوں نے دہکا دیے تھے‘‘۔ اپنے مقصد سے مضبوط وابستگی اور نیت و عمل میں  کامل اخلاص نے حسن البنا کو اُمت کی اُمیدوں کا مرکز بنا دیا۔ وہ خود بھی ایک مؤثر قوتِ محرکہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت کے گرد علماے کرام اور عظیم مفکرین کی ایک کثیرتعداد جمع کردی۔ امام نے زیادہ کتابیں تونہیں لکھیں لیکن ان کے الفاظ:  اصنف الرجال (میں مردان کار تصنیف کرتا ہوں)۔ ایسی حقیقت بن گئے کہ سیدقطب، سید سابق، عبدالفتاح ابوغدہ، محمدالغزالی، علامہ یوسف القرضاوی، استاذعبدالمعز عبدالستار، استاذ مصطفی مشہور، استاذ کمال الدین سنانیری اور اسی پایے کے لاتعداد جلیل القدر علماے کرام ان کے حلقۂ عمل میں شامل ہوگئے۔ ان بزرگ علماے کرام کی روحانی تربیت کرکے انھوں نے عالم اسلام کو ایک ایسے مبارک گروہ کا تحفہ دیا جو علم و عمل اور تقویٰ و للہیت کا نمونہ تھا، اور جنھوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت اورقرآن کی تعلیمات کو اپنی شخصیت میں جذب کرلیا تھا۔اس مبارک گروہ سے آج عالم اسلام میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ قرآن کریم میں مؤمنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیںاور اللہ کے ولیوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان بزرگ شخصیتوں میں ہم نے اس کا پرتو دیکھا ہے۔ یہ وہ چلتی پھرتی کتابیں ہیں جو امام حسن البنا شہید نے تصنیف کی ہیں اور ان سے آج پورا عالم روشن ہے۔

اخوان المسلمون کے ساتھ طالب علمی کے زمانے ہی سے میرا تعلق اتنا گہرا تھا کہ جب میں اپنی زندگی کے ان چند واقعات کو یاد کرتا ہوں جب میں شدید صدمے اور حزن سے دوچار ہوا،تو ان میں سے ایک عبدالقادر عودہ شہید اور ان کے ساتھیوں کی سزاے موت کا واقعہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ریلوے اسٹیشن کی مسجد میں اس روز کتنی دیر تک آنسو بہاتا رہا اور رو روکر اپنے رب کے سامنے اپنے درد و حزن کا اظہار کرتا رہا۔اس کے بعد  لمحہ بہ لمحہ ہم سید قطب اور اخوان کے دوسرے راہ نماؤں پر ہونے والے مظالم کی روداد سنتے اور پڑھتے رہے، اور اس پورے عرصے میں براہ راست ملاقات نہ ہونے کے باوجود ہمارے دل    ان کے ساتھ جڑے رہے، بلکہ یہ رودادیں ہماری تربیت کا ذریعہ بنیں۔ انھی دنوں ہم ذہناً  اس تعذیب کو سہنے اور اس کی سختیوں کو برداشت کرنے کی تیاری کرتے رہے جن سے ہمارے  اخوانی بھائی گزرے تھے۔

                 ۷۳-۱۹۷۲ء میں پہلی بار میں نے سفرحج کیا۔ اس سال منیٰ میں اخوان کا باقاعدہ کیمپ لگا تھا۔ ان دنوں پشاور شہر کی جماعت اسلامی کی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ قومی یا عالمی سطح پر میرا تعارف نہیں تھا۔ ایک عام کارکن کی حیثیت سے میں تھوڑی دیر کے لیے ان اللہ والوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ استاد حسن الہضیبی طویل قید سے [ناصر کے زمانے میں] رہائی کے بعد کیمپ میں شریک تھے۔ انتہائی ضعف کی حالت میں جب انھیں اپنی کرسی پر بٹھایا گیا تو اخوان کے دکھی دلوں کے زخم تازہ ہوگئے،اور سب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔جب تھوڑا قرار آیا تو رونے پر قابو پا کر بلند آواز سے سب نے مل کرذکر شروع کر دیا: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَاسْتَغْفِرُاللّٰہَ الَّذِیْ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ- دیر تک اللہ والے یہ ورد کرتے رہے۔ بعد میں کیمپ میں کئی اخوانی ساتھیوں کے علاوہ اردن کے اخوانی راہ نما استاذ عبدالرحمن خلیفہ سے بھی پہلی ملاقات ہوئی۔

اسی سال حج کے بعد میں نے عالم اسلام کا سفر کیا۔ مصر بھی گیا لیکن اخوان کے دور ابتلا کی وجہ سے وہاں اس کا موقع نہیں ملا کہ اخوان کے کسی راہ نما سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں۔ البتہ قاہرہ اور سکندریہ کے گلی کوچوں میں امام حسن البنا اور ان کے شہید ساتھیوں کے آثار کی تلاش میں رہا۔  اس سفر کے دوران لبنان اور شام کے بعض اخوانی راہ نماؤں سے ابتدائی ملاقاتیں رہیں۔

زمانہ طالب علمی سے ہی امام حسن البنا اور سید مودودی کی محبت یکساں طور پر میرے دل میں موجود رہی ہے۔ امام حسن البنا اورمولانا مودودی کے درمیان ملاقات یاکسی قسم کے رابطے کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، مگر دونوں کی شخصیت، فکر اور تحریک میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب قرآن و سنت کی مشترکہ بنیاد ہے۔اخوان المسلمون نے ہمیشہ جماعت اسلامی کو برعظیم پاک و ہند کی تحریکِ اخوان ہی سمجھا، اور ہم نے ہمیشہ اخوان المسلمون کو عالمِ عرب میں جماعت اسلامی ہی کی قائم مقام تحریک کے طور پر دیکھا ہے۔ یہ حیرت انگیز تعلق خاطر اور افکار کی یکسانیت عصرِحاضر میں وحدت اُمت کی مضبوط ترین اساس ہے۔

اخوان کی قیادت اور ہم نے مل کر فرقہ بندی، ذات پات، لسانیت یا علاقائیت سے بالاتر ہوکر دینی و ملّی مشترکات پر اُمت کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اس ضمن میں اخوان المسلمون کے متعدد ذمہ داران سے تبادلۂ خیالات کا موقع بھی ملا ہے۔ اخوان کے سابق مرشدعام مصطفی مشہور سے اکثر و بیش تر ملاقاتیں رہیں۔ وہ کئی بارپشاور میں ہمارے مہمان رہے۔ وہ مکمل طور پر فنا فی اللہ، اخلاص و جذبے سے معمور، اخوت سے سرشار اور دانا وبینا انسان تھے۔ یہی عالم بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں مرشدعام عمرتلمسانی، محمد حامد ابوالنصر اور مامون الہضیبی کا تھا۔ معروف محدث اور بزرگ عالمِ دین عبدالفتاح ابوغدہ (مرحوم) میرے بڑے بھائی مولانامحمد عبدالقدوس (مرحوم) کے قریبی دوست اور ساتھی تھے۔ وہ علم و تقویٰ اور تحریکی شعور کا خوب صورت مرقع تھے۔ ان سے ملاقات علمی ذوق و شوق میں ترقی اور تحریکی وابستگی میں پختگی اور یک سوئی کا سبب بنتی تھی۔

اخوان کے بزرگ راہ نماؤں سے قریبی ملاقاتوں اور کسب فیض کا موقع اس وقت ملا جب جہادافغانستان [۹۲ء-۱۹۷۸ء]میں اخوان المسلمون نے باقاعدہ دل چسپی لینی شروع کی اور پشاور میں میرا غریب خانہ افغانوں اور اسلامی تحریکوں کامرکز بن گیا۔ اخوان المسلمون کے کئی راہ نما اس دوران ہمارے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ سابق مرشد عام استاذمصطفی مشہور، استاذ کمال الدین سنانیری اور نائب مرشد عام ڈاکٹر احمدالملط کی میزبانی کا شرف مجھے حاصل ہوا ،اوران کے ساتھ سفر کرنے کا بھی موقع ملا۔ انھی دنوں سفر میں استاذ عبدالمعز عبدالستار کا ساتھ نصیب ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے براہ راست امام حسن البنا شہید سے فیض حاصل کیا تھا۔جوانی ہی میں امام شہید نے ان کے دل مٹھی میں لے لیے تھے اور اُن کے گہرے روحانی نقوش ان کی شخصیتوں پر ثبت ہو گئے تھے۔میں نے ان کی خلوت و جلوت کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان لوگوں پر اللہ کا رنگ( صبغۃ اللّٰہ) مکمل طور پر چڑھا ہواتھا۔ان کی باتیں ذکر کی باتیں تھیں، ان کی خاموشی اللہ کی یاد میں خاموشی تھی،اور ان کی معیت میں ایک گہرا روحانی سکون محسوس ہوتا تھا۔

استاذ کمال الدین سنانیری تقریباً ۱۵ دن ہمارے گھر میں مہمان رہے۔ میں نے اپنی تحریکی زندگی میں ان جیسا للہیت سے سرشار انسان کم ہی دیکھا ہوگا۔غیر محسوس طور پر ایک دن چھوڑ کر روزے سے رہتے تھے لیکن گھر کے لوگوں کے سوا کسی کو بھی ان کے روزے کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ جب لطیف پیراے میں کھانے پینے سے معذرت کرتے تو معلوم ہوتا کہ روزے سے ہیں۔ استاذ کمال الدین مرشدعام کے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے افغان مجاہدین کی خدمت اور     افغان قائدین میں مصالحت و یک جہتی کی خاطر آئے تھے، اور اپنی تمام تر توجہ اسی ایک مقصد کے حصول پر مرکوز رکھی۔ میں نے انھیں کبھی فارغ نہیں دیکھا۔ جب بھی فرصت کا کوئی لمحہ میسر آتا، وہ جیب سے قرآن کریم نکالتے اور تلاوت میں مشغول ہوجاتے۔ بدقسمتی سے مصر واپسی پر اس فنا فی اللہ، ربانی شخصیت کو سرکاری گماشتوں نے اذیتیں دے دے کر شہید کردیا، اور دنیا سے جاتے ہوئے بھی وہ اپنے مرشدعام امام حسن البنا شہید سے مشابہ ٹھیرے۔استاذ مصطفی مشہور ہر فارغ لمحے میں کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔ استاذ عبدالمعزعبدالستار کے روحانی اثر کو میں آج ہزاروں میل کی طویل مسافت کے باوجود محسوس کرتا ہوں۔

اسی لیے میں نے آغاز میں عرض کیا کہ تحریک کا حقیقی تعارف اس سے وابستہ افراد کے اخلاق و کردار سے ہوتا ہے، اور تحریک کا بانی اپنی تحریک اور تحریکی افراد پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرتا ہے۔امام شہید کی روحانی کشش اس قدر شدید تھی کہ جس کا بھی ان کے ساتھ تعارف ہوا،  اس کا دل ان کے ساتھ جڑ گیا۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں ان کی تربیت کی وجہ سے ایسی جاذبیت پیدا ہو گئی تھی کہ عالم اسلام کے ہزاروںلاکھوں نوجوانوں کے دلوں میںان کی محبت کے دیرپا نقوش ثبت ہو گئے ہیں۔

ترجمان القرآن کی اس ’اشاعت خاص‘ میں اخوان المسلمون کے بانی، اور مرشد ربانی کی فکر، شخصیت اور کردار و اثرات کا مطالعہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے___ یہ نہ صرف اسلامی تحریک کی بنیادی ضرورت تھی بلکہ امام حسن البنا شہید کا ہم سب پر حق بھی تھا۔ میں اس اہم علمی و تحریکی خدمت پر اس کی تیاری میں حصہ لینے والے تمام ساتھیوں کے لیے قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔ خدا کرے کہ اس میں شامل تحریریں ہمیں ایک تازہ جذبۂ عمل سے سرشار کریں۔ آمین!