اگست ۲۰۰۹

فہرست مضامین

میاں طفیل محمدؒ

قاضی حسین احمد | اگست ۲۰۰۹ | خصوصی تحریر

Responsive image Responsive image

محترم میاں طفیل محمد صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ ان کا باطن و ظاہر ایک تھا۔ جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل ۱۹۳۸ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں میں انھیں مسلمانوں کی خستہ حالی کے اسباب اور اُمت کی نشاتِ جدید کا نقشۂ کار نظر آگیاتھا۔

وہ ریاست کپور تھلہ کے پہلے مسلمان وکیل تھے اور ایک وکیل ان دنوں میں اور اس علاقے میں مظلوم مسلمانوں کے لیے بڑا سہارا سمجھا جاتاتھا۔ ماں باپ نے انھیں بڑی مشقت اٹھاکر پڑھایاتھا اور وہ اپنے والدین اور اپنے خاندان کی امیدوں کا مرکز تھے۔ لیکن وہ اپنے ذہن میں ایک الگ دنیا بسا رہے تھے۔ انھیں چاروں طرف ہندوججوں، پروفیسروں اور دانش وروں میں ایسے لوگ نظرآرہے تھے جو اپنے اخلاق وکرادر کے لحاظ سے اپنی قوم کے لیے رول ماڈل تھے لیکن مسلمان نوجوانوں کے لیے اس طرح کے رول ماڈل موجود نہیں تھے۔ ایک نیک دل عام مسلمان شہری مستری محمد صدیقؒ نے انھیں مولانا مودودی کے رسالے ترجمان القرآن سے روشناس کیا۔ یہاں انھیں روشنی نظر آئی اور جب مستری محمد صدیق صاحب نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ مولانامودودیؒ  کی دعوت پر ۲۵؍ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت اسلامی ہندکے تاسیسی اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں تو محترم میاں طفیل محمد صاحب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرراستے ہی سے تاسیسی اجتماع میں چلے گئے اور اس کے بعد جماعت اسلامی ہی کے ہوکر رہ گئے۔

تاسیسی اجلاس میں میاں صاحب سوٹ ٹائی میں ملبوس شریک ہوئے تھے اور ہاتھ میں ہیٹ بھی تھا۔ چہرے پر داڑھی بھی نہیں تھی۔ بعض علما کو اس شکل و صورت کے نوجوان کو تاسیسی رکن بنانے پر اعتراض تھا لیکن میاں صاحب نے ان سے کچھ مہلت مانگی اور مولانا مودودیؒکی سفارش پر انھیں چھے ماہ کی مہلت دے دی گئی کہ اس دوران میں وہ وکالت کے پیشے کو ترک کرکے اپنی ظاہری شکل و صورت کو بھی اپنی سلیم فطرت کا عکاس بنادیں گے۔ وکالت کے پیشے کو خیر باد کہناایک مشکل فیصلہ تھا۔ والدین بھی مخالف تھے۔ عام پڑھا لکھا دانش ور طبقہ، ہندو سکھ اور مسلمان ایک شریف النفس قابل مسلمان وکیل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انھیں نظر آ رہاتھا کہ آگے جا کر وہ اپنے لوگوں کے لیے عزت کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ سب لوگ میاں صاحب کی ذہنی دنیا سے بے خبر تھے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ وہ یہ فیصلہ کن مصلحتوں کی بنا پر کررہے ہیں۔ میاں صاحب کی زندگی کا یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ مستری محمد صدیقؒ ان کا سہارا بنے اور انھیں کہاکہ گھر کے باہر سخت طوفان ہے اور جھکڑ چل رہے ہیں لیکن آپ نے جس گھر میں پناہ لے رکھی ہے اس میں آگ لگی ہوئی ہے تو آپ کو آگ سے بچنے کے لیے طوفان اور جھکڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلنا پڑے گا۔ اس کے بعد محترم میاں طفیل محمد صاحب ساری عمر طوفان اور آندھیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر رہے۔ جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر کے تن من دھن سے اس کی انقلابی جدوجہد میں شریک ہوگئے۔

دارالاسلام مشرقی پنجاب سے ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران میں لاہور منتقل ہوئے۔ طویل عرصے تک اپنے بیوی بچوں سمیت اچھرہ کے اس مکان میں باہر لان میں چھولداری لگاکر رہے جس کے ایک حصے میں مولانا مودودیؒ رہایش پذیر تھے، جب کہ اس کے چاروں طرف جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر تھے۔ وکالت کے پیشے کو چھوڑنے کے بعد تلاش معاش میں کئی تجربے کیے لیکن اپنی سادہ طبیعت اور امانت و دیانت کے سیدھے راستے پر چلنے کے باعث ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کے ایک قریبی عزیز ٹھیکیدار عبدالرشید صاحب نے مجھے بتایا کہ میاں صاحب وکالت کا پیشہ چھوڑنے کے بعد میرے پارٹنر کے طور پر میرے ساتھ شریک کار بنے لیکن ٹھیکیداری کا کام کمیشن کے بغیر چلتا نہیں ہے اور میاں صاحب کمیشن دینے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے وہ یہ کام چھوڑ گئے اور ۱۹۴۴ء میں کُل ہند جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ہمہ وقتی جماعت اسلامی کی دعوت وتنظیم کے کام میں لگ گئے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ کے دستِ راست کی حیثیت سے جماعت کے دعوتی اور تنظیمی انفراسٹرکچر کو قائم کرنے اور چلانے میں ان کو کلیدی کردار ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

میاں صاحب نے تقسیم ہند سے قبل اور تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی کی دعوت وتنظیم کا کام اتنے اخلاص اور یکسوئی سے کیا کہ آج تک جماعت اس کے ثمرات سے مستفید ہورہی ہے۔ ان کی طبیعت میں انتہائی سنجیدگی تھی۔ میں نے طویل عرصہ ان کی رفاقت میں گزارا ہے، سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہاہوں لیکن کبھی انھیں قہقہہ لگاکر ہنستے نہیں دیکھا اور نہ انھیں بلند آواز میں بات کرتے ہوئے سنا۔ وہ سخت ناراض ہوجاتے تو غصے کی حالت میں بھی اپنا وقار اور متانت برقرار رکھتے تھے۔ جب جماعت کے ذمہ داران آپس میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے تو ان کی متانت اور سنجیدگی کو دیکھ کر وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتے۔ ان کی اس عادت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے آجاتی ہے: ’’کثرت سے ہنسی مذاق سے بچو کہ بہت ہنسنے سے دل مُردہ ہوجاتا ہے‘‘۔

میاں طفیل محمد صاحب ایک صابر و شاکر اور متحمل مزاج انسان تھے۔ اپنی تکلیف کا کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ وہ کسی دوسرے شخص کو کہنے کے بجاے اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ ان کے کمرے میں ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوتی تھی۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے نہیں سناکہ وہ کوئی ضروری کام بھول گئے یا ان کے ذہن سے کوئی بات نکل گئی ہو۔ جو کام بھی ان کے ذمے لگ جاتاتھا، یا جس کام کو بھی اپنے ذمے لے لیتے تھے، اس کام کو بر وقت مکمل کرلیتے تھے۔ محنت اور یکسوئی ان کا خاصّہ تھا۔ متانت، سنجیدگی اور وقار کی وجہ سے ناواقف لوگوں کو خیال ہوتاتھاکہ شاید گھلنے ملنے سے احتراز کرتے ہیں یا خشک طبیعت کے مالک ہیں لیکن جو قریب سے انھیں جانتے تھے انھیں یہ بھی معلوم تھاکہ اگر کوئی تنقید اور محاسبہ پر اترآئے یا زیادہ ہوشیار بن کر انھیں سمجھانے کی کوشش کرے تو کبھی ناگواری محسوس نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی بے ساختہ کوئی ایسا جملہ بھی کس دیتے تھے جس سے مطلب بھی پوری طرح واضح ہوجاتاتھااور مجلس بھی خوش گوار بن جاتی تھی۔

میاں طفیل محمد صاحب کا بچپن اور جوانی ٹھیٹھ پنجابی ماحول میں گزراتھا۔ ان کی اردو پر بھی پنجابی لہجے کا اثر تھا لیکن ہم نے کبھی انھیں پنجابی میں بات کرتے نہیں سنا۔ ان کے پورے خاندان نے مولانا مودودیؒکے زیر اثر اردو کو اپنی گھریلو زبان کے طور پر اپنالیاتھا لیکن اس کے باوجود   کبھی کبھی بے ساختہ پنجابی محاورے اور ضرب المثل کے ذریعے سے مطلب واضح کردیتے تھے جس سے معلوم ہوتاتھاکہ پنجابی زبان پر انھیں مکمل عبور حاصل ہے اور پنجابی زبان میں جو بے تکلفی اور بے ساختہ پن ہے اس کے حسن و خوبی کو بھی جانتے ہیں۔

جماعت اسلامی کی تربیت کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ ہمارے تربیت یافتہ سب لوگ   فرقہ وارانہ علاقائی اور لسانی عصبیت سے پاک ہیں۔ کراچی اور سندھ میں لسانی فسادات کے مواقع پر بھی جماعت اسلامی کے لوگوں نے بیچ بچائو کا کردار ادا کیا۔ اس تربیت میں قرآن وسنت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒاور میاں طفیل محمد صاحب کا ذاتی رویہ اور مثال بھی مشعلِ راہ تھی۔ ان دونوں بزرگوں کی تربیت کے نتیجے میں پاکستان میںایک ایسی جماعت اور ایسا گروہ منظم ہوا ہے جو ہر طرح کی گروہ بندی سے بالا ترہے۔

جب تک مولانا مودودیؒحیات تھے میاں طفیل محمد ؒہر کام ان کے مشورے سے کرتے تھے۔ اگرچہ امارت سے سبک دوش ہونے کے بعد مولانا مودودیؒجماعت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور امیرجماعت اور ان کی ٹیم کو آپس کے مشورے کے ساتھ تمام امور کو نمٹانے کی تلقین کرتے تھے۔ میں جب قیم جماعت تھا تو مولانا مودودیؒ سے میری آخری ملاقات بفیلو (امریکا) میں ان کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں ہوئی تھی۔چند اہم امور کے بارے میں مولانا سے مشورہ طلب کیا تو اس وقت انھوںنے یہی تلقین کی کہ واپسی پر جماعت کے اندر مشورے سے تمام امور کا فیصلہ کیا جائے۔ مولانا مودودیؒاور میاں طفیل محمد صاحب نے جماعت کے دستور کی پابندی اور مشورے کے نظام کو جماعت میں ایسا راسخ کردیاہے کہ ہر سطح پر تمام امور مشورے سے نمٹائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کی ایک اہم امتیازی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشورٰی ۴۲:۳۸)،’’وہ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے طے کرتے ہیں‘‘۔ اس اصول کو جماعت نے اپنے پورے نظام کا حصہ بنالیا ہے اور اسی لیے یہ جماعت الحمدللہ اب تک کسی بڑے انتشار اور گروہ بندی سے محفوظ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور حکومت میں میاں طفیل محمد صاحب پر بے حد تشدد کیاگیا۔ انھوںنے جس طرح اپنی کسی دوسری تکلیف کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے سے احتراز کیا، اسی طرح انھوںنے کبھی بھی اپنے اوپر تشدد کا ذکر نہیں کیا لیکن بھٹو صاحب کی آمرانہ سول حکومت کے مقابلے میں انھوںنے ضیاء الحق کے مارشل لا اور فوجی آمریت کو بہتر سمجھا۔ جماعت کے اندر اور باہر ان کی اس رائے سے کچھ لوگوں نے اتفاق نہیں کیا لیکن ان کے اخلاص پر کسی کو شبہہ نہیں تھا۔ اس لیے جماعت کے کچھ سینئر لوگ اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے رہے اور اطاعتِ امیر کی     اعلیٰ مثال قائم کر کے جماعت کے ڈسپلن اور اجتہادی امور میں اختلاف کے باوجود اتحاد اور یگانگت کا نمونہ پیش کیا۔ ان کے شخصی احترام کی وجہ سے اور ان کے اخلاص نیت پر یقین کی وجہ سے یہ اختلاف جماعت میں کسی انتشار کا سبب نہیں بنا اگرچہ اسلامی جمعیت طلبہ کو ضیاء الحق کی پالیسیوں سے بڑا نقصان پہنچا اور جمعیت کے کچھ لیڈروں کو اس دور میں اذیتیں دی گئیں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اسی طرح کراچی میں ضیاء الحق کے دورمیں سرکاری سرپرستی میں  ایم کیو ایم قائم ہوئی۔ لیبر تنظیموں پر پابندی کی وجہ سے جماعت اسلامی کی مزدور تحریک متاثر ہوئی اور جماعت کے گڑھ دیر میں مولانا صوفی محمد صاحب کو تحریک نفاذ شریعت محمدی منظم کرنے میں سرکاری سرپرستی حاصل رہی جنھوں نے جمہوریت اور ووٹ دینے کو حرام قرار دیا۔ اس کی وجہ سے جماعت اسلامی کودیر میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرناپڑا کیونکہ کچھ دیندار لوگوں نے مولانا صوفی محمد صاحب کی بات کو تسلیم کرکے ووٹ نہیں ڈالا۔ اس زمانے میں بھی جماعت نے مارشل لا کی اصولی مخالفت کی اور جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ شوریٰ میں شرکت سے معذرت کی اور ساری توجہ اپنے انداز میں جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے لیے فضا ہموار کرنے پر مرکوز رکھی۔

میاں طفیل محمد صاحب نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ انھوں نے پوری زندگی سادگی سے بسر کی۔ اپنی طبعی سادگی ، اخلاص اور یک رخے پن کے سبب انھیں بعض حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامناکرنا پڑا لیکن وہ پوری استقامت سے اس صراط مستقیم پر ڈٹے رہے جس کو وہ اپنے فہم دین کی روشنی میں درست سمجھتے تھے۔

میاں طفیل محمد صاحب کا ضیاء الحق سے نہ کوئی رشتہ تھا، نہ انھوں نے ان سے کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ ان کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی غرض وابستہ تھی، اور نہ آخر تک ہی انھوںنے مارشل لا کوجائز  طرزِ حکومت کے طورپر تسلیم کیا۔ ان کے پورے دور امارت میں جماعت اسلامی اپنے اس موقف پر قائم رہی کہ دستوربحال کیا جائے،اور بالغ راے دہی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے۔ البتہ میاں طفیل محمد صاحب نے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی اس بنیاد پر حمایت کی تھی کہ اس سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ ہموار ہوتاہے اور اگر ملٹری ڈکٹیٹر خود کوئی ایسا راستہ دینے پر آمادہ ہے جس سے بالآخر جمہوریت بحال ہونے کی امید ہے تو اس راستے کو اپنانا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے بہت سے اہل الرائے کے اختلاف کے باوجود وہ اخلاص سے سمجھتے رہے کہ اسی سے جمہوریت کی بحالی کا راستہ نکلے گا۔ چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا اور ریفرنڈم کے بعد ضیاء الحق صاحب اپنی ملٹری ڈکٹیٹرشپ برقرار نہ رکھ سکے۔

محترم میاں طفیل محمد صاحب زہد و تقویٰ اورتورع میں ہم سب کے لیے مثال تھے۔ نماز پڑھتے تھے تو دنیا جہان سے کٹ کراپنے رب کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے تھے۔ پوری توجہ اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے تھے۔نماز باجماعت کی باقاعدگی انھوںنے اس وقت بھی نہیں چھوڑی جب بینائی کی کمی کی وجہ سے سہارا لے کر مسجد میں آنا پڑتاتھا۔ انھوں نے ۹۵ سال کی عمر میں اپنی آخری تراویح بھی باجماعت پڑھی اور پورا قرآن کھڑے ہوکر سنا۔ انھوںنے بے ہوشی سے قبل اپنی آخری نماز مغرب اور نماز عشاء بھی جامع مسجد منصورہ میں باجماعت پڑھی۔ میں نے شدید درداور بیماری کے عالم میں بھی انھیں دیکھا ہے لیکن جب ان سے حال پوچھا تو انھوںنے یہی جواب دیا کہ الحمدللہ! اللہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے، میں اللہ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔

ان کو اللہ نے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں دی ہیں جو سب شادی شدہ اور صاحب ِاولاد ہیں۔ ان کی پوری اولاد عیدین کے موقع پر ان کے گھر میں اکٹھی ہوجاتی تھی تو لگتاتھا ایک پورا قبیلہ ہے، اور ان میں سے جس سے بھی کوئی ملتاہے تو طبعی شرافت کی وجہ سے ہر ایک میںجناب میاں طفیل محمد صاحب کی شخصیت کا پرتو نظر آتاہے۔ میا ں طفیل محمد صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا سبق راہِ خدا میں استقامت اور ثبات ہے۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اقامت ِدین کے اس طریق کار پر کاربند رہے جسے انھوںنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں مولانا مودودیؒ سے سمجھا تھا او راس راستے میں ان کے پاے استقامت میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی۔

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) مومنین کے گروہ میں کچھ ایسے مردانِ کار ہیں جنھوںنے اللہ کے ساتھ اپنا کیا ہوا عہد پورا کردکھایا۔ پس ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نذر پوری کردی اور کچھ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ کے ساتھ اپنے باندھے ہوئے عہد پر پورا اتریں اور ان کے پاے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

بلاشبہہ حضرت میاں طفیل محمدصاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کے ساتھ اپنے باندھے ہوئے عہد کو  پورا کردکھایا۔ ہم سب اس کے گواہ ہیں۔

جماعت اسلامی کی تنظیم اور دستور کی پابندی بنیادی طور پر تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ذہن اور ان کی توجہ کی مرہونِ منت ہے لیکن اگر میاں طفیل محمد ؒ جیسے دست راست اور وفادار ساتھی انھیں نہ ملتے تو شاید اتنی مضبوط اور پایدار بنیادوں پر اس کی اٹھان ممکن نہ ہوتی۔ میاں صاحب محترم ایک ایک رپورٹ، شوریٰ کی کارروائی ،سرکلراور قرار داد کا لفظ لفظ خود پڑھتے، اس کی نوک پلک درست کرتے اور طباعت سے قبل اس کی صحت کو یقینی بناتے۔ ہر متعلقہ تحریر کا بغور مطالعہ فرماتے اور کوئی کام بھی روا روی میں نہیں کرتے تھے۔ اپنے خطوط کے جوابات خود تحریر فرماتے۔ بینائی سے محرومی کے بعد روزانہ دو تین گھنٹے اخبارات اور جرائد اور دوسرا ضروری لوازمہ باقاعدگی سے کسی سے پڑھوا کر سنتے تھے۔ اس طرح آخر دم تک وہ ایک باخبر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ آخر دم تک محض دعا گو ہی نہیں تھے بلکہ جماعت کی عملی سرپرستی فرماتے رہے۔ مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرماتے اور اپنے ایک ایک ملنے والے کو مفید مشوروں اور دعائوں سے نوازتے۔ اللہ ان کے روحانی فیض کو ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے، آمین۔

حضرت میاں صاحب کے حالات زندگی اور ان کے مشاہدات کو جناب سلیم منصور خالد صاحب نے مشاہدات کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ یہ سلیم منصور خالد صاحب کی آیندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیے بڑی خدمت ہے۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے ،آمین۔