سوال: آج کل خلیجی ممالک اور پاکستان سے بہت سے لوگ آسٹریلیا اور کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ نقل مکانی کی بنیادی وجہ روزگار کے بہتر مواقع، تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتیں ہیں۔ اس ضمن میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں:
۱- پاکستان یا سعودی عرب سے آسٹریلیا یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جانا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟ کیا یہ دارالاسلام سے دارالکفر کی طرف جانا ہے؟ شرعی اعتبار سے اِس نقل مکانی کی کیا حیثیت ہے؟
۲- کوئی شخص جو آسٹریلیا یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کا مقصد وہ سب دنیاوی فوائد حاصل کرنا ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے ،لیکن ساتھ ساتھ اُس کے دل میں یہ مصمم ارادہ ہے کہ وہ وہاں جاکر غیرمسلم معاشرے میں دعوتِ دین کا کام بھی کرے گا، تو کیا اُسے وہاں جانا چاہیے؟
۳-کیا ان ممالک میں جا کر رہایش اختیار کرلینا، یا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنا تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مناسب ہے یا نہیں؟
۴- ایسی انٹرنیشنل کمپنیوں میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کی ہیں، ملازمت کرنا کیسا ہے؟
جواب: رزق حلال کی تلاش میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر جاکر ملازمت کرنا میری ناقص معلومات کی حد تک نہ کبھی حرام تھا نہ حرام ہونا چاہیے، لیکن جو سوال آپ نے اٹھائے ہیں وہ اس لحاظ سے اہم ہیں کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے سیاق میں ایک ایسے مسلمان کے لیے جو تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہو، کیا یہ عمل عزیمت کا ہوگا؟ پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کیا دارالکفر سے ہرقسم کا معاشی تعلق حرام ہے یا دورِ خلافت ِ راشدہ میں غیرمسلم علاقوں میں مسلمان تاجر جاتے تھے، قیام کرتے تھے اور اپنا سامان فروخت کرتے اور وہاں کا سامان لاکر دارالاسلام میں تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے؟
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے تجارتی تعلقات دنیا کے بہت سے مقامات پر تھے۔ جزائر مالدیپ جہاں سے مسلمان عورتوں اور یتیم بچوں کی واپسی کے موقع پر سندھ کے فرماں روا کی زیادتی اس خطے میں باقاعدہ اسلام کی آمد کا سبب بنی، وہاں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ دارالکفر میں یہ تاجر عرصے تک مقیم رہے حتیٰ کہ وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔ گویا کسی حکمِ صریح کی عدم موجودگی میں ایسے عمل کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ بات بھی علم میں رہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی حکمت کی بنا پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مسلمان دیارِ غیر میں آٹھ سال سے زیادہ نہ رہے، کیونکہ زیادہ عرصہ قیام کے نتیجے میں وہ یا اس کی اولاد وہاں کے غیرمسلم معاشرے سے متاثر ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ لازمی طور پر دینی حکمت پر مبنی تھا لیکن اگر ایک شخص نے غیرمسلم ممالک میں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اخلاقی تعلیم کا صحیح بندوبست کرلیا ہو، اور وہ اپنا وقت دین کی دعوت میں صرف کر رہا ہو تو ایسا کرنا دین کی حکمت کے عین مطابق ہوگا۔
اصل مسئلہ لفظی بحث کا نہیں ہے۔ اگر ایک تحریکی یا غیر تحریکی شخص ملازمت کے لیے جا رہا ہے یا محض دعوتِ دین کے لیے ، دونوں مقاصد ایک ساتھ اختیار کیے جاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جسے نیت کا علم سب سے زیادہ ہے اس کی نیت کی بناپر اسے اعلیٰ اجر سے نواز سکتا ہے۔ ہاں، اگر انتخاب کا معاملہ ہو کہ ایک طرف پاکستان میں یا کسی مسلم ملک میں ملازمت موجود ہے مگر تنخواہ کم ہے، جب کہ غیرمسلم ملک میں ملازمت میں زیادہ تنخواہ مل رہی ہے لیکن نہ وہاں بچوں کی صحیح تربیت ہوگی نہ دعوتِ دین کا موقع ملے گا تو لازماً کم تنخواہ پر پاکستان یا کسی دیگر مسلم ملک میں ملازمت کرنا ہی زیادہ مناسب ہوگا۔ اگر یہ بات تحقیق سے معلوم ہو کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی براہِ راست مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے، مثلاً وہ اسرائیل کو امداد دیتی ہے تو ایسے ادارے میں کام کرنے سے لازماً بچنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی ملٹی نیشنل ادارے میں یہودی یا عیسائی کام کر رہے ہوں تو محض اس بنا پر اس کی ملازمت اختیار نہ کرنے کی کوئی دلیل بہ ظاہر نظر نہیں آتی۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر ہم پاکستان یا کسی مسلم ملک میں اقامت پذیر ہوں لیکن بچوں کی تربیت کی طرف سے لاپروا ہوں اور یہ قیاس کرلیں کہ چونکہ بچے پاکستان یا کسی اور مسلم ملک میں ہیں تو خود بخود ان کی تربیت اچھی ہوجائے گی، یہ محض خوش گمانی کی بات ہے۔ بچوں کی تربیت ایک انتہائی اہم اور مشکل کام ہے۔ اگر ایک شخص کی نگاہ میں اس کی صحیح اہمیت ہو تو وہ جہاں بھی ہو بچوں کی تربیت کرسکتا ہے۔
جہاں تک دارالاسلام اور دارالکفر میں انتخاب کا سوال ہے، اس میں دو آرا نہیںہوسکتیں کہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دارالکفر میں جانے کو کسی بھی طرح مطلوب و مرغوب نہیں کہاجاسکتا۔ البتہ اگر ایک شخص متعین عرصے کے لیے دعوتی مقاصد کے پیشِ نظر دارالکفر جاتا ہے تو ایسا کرنا دین کے کسی اصول سے نہیں ٹکراتا۔ تاہم، مستقل طور پر دارالاسلام کو ترک کر کے دارالکفر ہجرت کرنا شریعت کے منافی ہوگا۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بعض صورتوں میں دارالکفر اور دارالاسلام کے حوالے سے حقیقت واقعہ کی حیثیت قابلِ غور بھی ہوسکتی ہے، مثلاً ایک خاندان تعلیم یا روزی کی تلاش میں غیرمسلم اکثریتی علاقے میں گیا اور وہاں پر ان کی اولاد پیدا ہوئی جس نے دینی تعلیم پائی اور شادی بیاہ کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ قائم کیا، تو کیا ایسے افراد کا ایک غیراسلامی ملک میں قیام دارالکفر میں قیام کہلائے گا، جب کہ یہ افراد اُس غیر مسلم معاشرے میں شعوری طور پر اسلامی تعلیمات کے فروغ اور خود اپنے گھر میں اسلامی ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوں۔
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ آج جب خود مسلم ممالک میں ان کی دستوری حیثیت سے قطع نظر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دارالکفر کے حوالے سے فقہی کتب میں ملتی ہیں، تو دونوں کے درمیان محض اصولی فرق کی بناپر ایک ہی حکم ہوگا یا تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم کی نوعیت میں فرق پڑے گا۔ میرے خیال میں ان معاملات پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے اور اس طرح کے معاملات میں محض سیاہ یا سفید پر حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ دین کے مطالبات ومقاصد کے پیشِ نظر بہت سے تحریکی اور غیرتحریکی مسلم داعیانِ دین کو ایسے مقامات پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں یا بالکل نہ پائے جاتے ہوں دعوتی نقطۂ نظر سے جاکر مختصر یا طویل قیام کر کے دین کی دعوت کو دارالکفر میں متعارف کرانا ہوگا۔
اگر اسلام ایک علاقائی دین ہوتا تو اسے ایک ایسے خطے میں محدود و مقید رہنا چاہیے تھا جہاں اسے دارالامن اور دارالاسلام میسر ہوتا۔ لیکن اس ترجیح کے باوجود کہ ایک فرد اور اس کا خاندان اسلامی ماحول میں رہے، دعوتی ضرورت اور دینی تقاضے کے پیشِ نظر بہت سے افراد کو غیرمسلم اکثریت کے علاقوں میں جاکر دعوتِ دین کا کام کرنے کے لیے قیام کرنا ہوگا۔ جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا اس کا بڑا انحصار نیت، سعی اور کوشش پر ہے اور اس اندازے پر ہے کہ ایک شخص دارالکفر میں رہتے ہوئے خود دین پر کتنی آزادی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے اور اُس کے سامنے منصوبۂ عمل کیا ہے۔
توسیعِ دعوت کے لیے ممالکِ غیر میں جاکر اپنے قول و عمل سے دین کی دعوت دینا ایک فریضہ ہے، اور یہ اسی طرح فرض ہے جیساکہ خود ایک مسلم ملک میں جہاں دستوری طور پر تو اسلام حاکم ہو لیکن عملاً وہ دارالکفر کی طرح معاشی، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں غیراسلامی تعلیمات پر عمل کر رہا ہو۔ ایسے مسلمان ملک میں بھی توسیعِ دعوت کے لیے جدوجہد کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ گویا دعوتی نقطۂ نظر سے واضح اہداف کے ساتھ کسی ملک میں جانا اور اپنی تمام صلاحیتیں بروے کار لاتے ہوئے، دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ حصولِ رزق کی کوشش کرنا بھی دین کے مطالبات سے مطابقت رکھتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییں جو اس مقصد کے لیے اپنی زندگی کے لمحات کو اس کام میں لگائیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)