۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ برعظیم پر ہزار سال حکومت کرنے کے بعد برطانیہ کی ۲۰۰ غلامی کے طوق سے نجات کی جدوجہد نے، ۲۰ویں صدی کے دوسرے ربعے میں ایک غیرمعمولی صورت اختیار کر لی تھی۔ آزادی کی تحریک، جس کی قیادت تحریکِ خلافت کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، سقوطِ خلافت کے بعد ایک نئی دلدل میں پھنستی نظر آرہی تھی۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں نے متحدہ قومیت کا جال کچھ اس طرح بُنا تھا کہ دام ہم رنگِ زمین، کچھ اس طرح بچھایا تھا کہ اگر مسلمان اس جال میں پھنس جاتے تو مسلمان، برعظیم کی آبادی کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود آزادی سے محروم ہی رہتے اور خطرہ تھا کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں چلے جاتے۔ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے اپنے دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی خاطر تقسیم ملک کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر قائداعظم کی قیادت میں ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء اور اپریل ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ کنونشن کی قراردادوں کی روشنی میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو جو ۲۷ رمضان المبارک کا مبارک دن بھی تھا، ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کی شکل میں صبحِ نو کا دیدار کیا۔
اس جدوجہد میں مسلمانوں نے کتنی بڑی قربانیاں پیش کیں؟ ان کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر اپنے لیے ہندوئوں کی عددی بالادستی میں نیم آزادی کی زندگی گزارنے پر بہ رضا و رغبت آمادگی کا اظہار کیا، اور برعظیم کے مسلمانوں نے مسلم کش فسادات میں لاکھوں انسانوں کی جانوں اور ہزاروں عصمت مآب خواتین کی عزتوں کی قربانی پیش کی۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور نہایت بے سروسامانی کے حالات میں اس اطمینان کے ساتھ پاکستان نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا کہ یہ سب قربانی ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے دی گئی ہے، یعنی آزادی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک مبنی برحق و انصاف اجتماعی نظام کا قیام۔ جن آنکھوں نے خون میں لت پت اور لٹے پٹے قافلوں کو پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتے ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے، وہ ان ساری ہی مصیبتوں اور صعوبتوں کی آغوش میں حاصل ہونے والی اس عظیم کامیابی اور الٰہی انعام کے لذت آشنا ہیں۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک دور کے اختتام اور ایک نئے دور کے آغاز کا تاریخی لمحہ ہے۔ آج ۶۲ سال گزرنے کے بعد بھی اس لمحے کی یاد ہوا کے ایک معطر جھونکے کی مانند ہے۔ اللہ کے اس انعام اور برعظیم کے مسلمانوں کی اس کامیاب جدوجہد پر جتنا بھی رب غفور و رحیم کا شکر ادا کیا جائے، کم ہے___ لیکن تشکر کے یہ جذبات اپنی آغوش میں ایک بڑی دکھ بھری داستان لیے ہوئے ہیں اور یہ داستان ملک کی مختلف قیادتوں کی بے وفائی، نااہلی اور خودسری کے ان احوال سے عبارت ہے، جن کے نتیجے میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قائم ہونے والا پاکستان آج تک ان مقاصد کا گہوارا اور ان تمنائوں اور عزائم کی زندہ مثال نہ بن سکا، جن کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔
۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ کی شکل میں اپنی قومی منزل کا تعین اور اعلان کرنے کے باوجود، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے بجاے مفادات کی سیاست اور ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول کی جنگ میں ملک و قوم کو جھونک دیا۔ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مختصر مدت کے لیے نافذ کردہ مارشل لا کے تجربے کے بعد، فوجی قیادت نے ۱۹۵۸ء میں پورے پاکستان پر مارشل لا کی شکل میں شب خون مارا ۔ گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی، وہ دن اور آج کا دن کہ قوم کی یہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں نہ ہوسکی۔
۱۹۷۱ء کا سانحہ رونما ہوا، جس نے ملک کو دولخت کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفق علیہ دستور کی شکل میں امید کی نئی کرن رونما ہوئی لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت نے اس دستور کے مطابق نظامِ زندگی کو چلانے کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے پہلے ہی دن سے اس سے انحراف کی راہ اختیار کی۔ جس دن دستور نافذ ہوا، اسی دن بنیادی حقوق کو معطل کرکے ملک کو ایمرجنسی کی گرفت میں دے دیا گیا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں ایک بڑی عوامی تحریک ’پاکستان قومی اتحاد‘ کی شکل میں اُبھری مگر وہ بھی کامیابی کے دہانے تک پہنچنے کے بعد غیرمؤثر ہوگئی کہ اس تحریک کی منزل کو مارشل لا نے کھوٹا کردیا۔ گویا کہ متفقہ دستور، سیاست دانوں اور ججوں کی خواہشوں اور فیصلوں کا تختۂ مشق بن گیا۔ بالآخر ایک اور طالع آزما نے ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء کو دستور کو معطل کر کے ملک و قوم پر نہ صرف شخصی آمریت کی طویل رات مسلط کر دی، بلکہ نائن الیون کے بعد ملک کی آزادی اور حاکمیت تک کو دائو پر لگا دیا جس کے نتیجے میں قومی زندگی میں امریکی عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ اب پاکستان ایک امریکی کالونی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس امریکی ایجنڈے کے مطابق حکمران سارے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں مرتکز کررہے ہیں اور قیادت کی تبدیلیاں بھی باہر والوں کے اشارۂ ابرو پر ہو رہی ہیں، لیکن اللہ کا قانون اور مشیت اپنی جگہ ہے، جس کا ایک نظارہ ہم نے ۲۰۰۷ء میں دیکھا۔
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو مطلق العنان فوجی آمر نے عدالت عظمیٰ کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے ایک بھرپور وار کیا، مگر یہی وار حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا۔ وکلا کی قیادت میں قوم نے آمریت کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا اور ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔
۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء ایسے حالات میں آرہا ہے جب ایک طرف امریکا وطن عزیز اور اس پورے علاقے کے لیے نئے جال بُن رہا ہے اور ملک کی موجودہ قیادت خصوصیت سے صدر آصف علی زرداری عملاً اس کے آلۂ کار بن کر اپنی ہی قوم، اس کے عزائم اور احساسات کے خلاف برسرِجنگ ہیں۔ مزید یہ کہ وہ فوج اور قوم کو لڑانے کے سامراجی کھیل میں شریک ہیں۔ دوسری طرف قوم کا حسّاس طبقہ امریکی غلامی کی اس بلا کا مقابلہ کرنے کے لیے بیدار ہورہا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔’گو امریکا گو‘ اور ’امریکی غلامی نامنظور‘ کے نعروں سے ملک کے دروبام گونجنے لگے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ دستور کی بالادستی کے قیام کے لیے ایک روشن کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں ۱۴؍اگست جہاں ایک یومِ تشکر ہے، وہیں ایک یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ پوری دیانت اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ متعین کیا جاسکے کہ خرابی کی اصل وجوہ کیا ہیں، اور اصلاح کی جدوجہد کا حقیقی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ ہم اس موقع پر قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت کو انھی امور پر غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں۔
ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل اور چیلنجوں پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تین اہم اور خطرناک مغالطوں کا پردہ چاک کریں جو دراصل اہم نظریاتی، سیاسی اور نفسیاتی حملے ہیں، اور جن کا تانا بانا بڑی عیاری اور چابک دستی سے عالمی سطح پر پاکستان دشمن قوتوں اور بدقسمتی سے خود ملک میں کارفرما کچھ عناصر کی ملی بھگت سے بُنا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی شناخت اور اس کے مستقبل سے بڑا گہرا ہے۔ پاکستان کے وجود کے لیے اصل خطرہ اگر کوئی ہے تووہ ان ہی سوچے سمجھے مغالطوں سے ہے۔
ہم آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حقیقی خطرات کو جو افراد محض ’سازشی نظریہ‘ کہہ کر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، وہ عالمی سیاست کے زمینی حقائق سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ وہ اس سنجیدہ مسئلے کو محض ایک ’ذہنی خوف‘ کہہ کر تاریخ کی کھلی کھلی تنبیہات سے آنکھیں بند کر رہے ہیں اور قوم کو دھوکا دینے کی مذموم کوششوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خطرات کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا جائے۔
پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب تقسیم سے قبل کے ان حالات پر نگاہ ڈالی جائے جن سے مسلمان اس وقت دوچار تھے، جو برطانوی استعمار اور ہندو اکثریت کے گٹھ جوڑ کے پیدا کردہ تھے۔ اقتدار سے محرومی کے ۲۰۰ برسوں میں مسلمان ہر اعتبار سے پس ماندگی کا شکار تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ان کے لیے معاشی ترقی اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور فروغ کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی مختلف قیادتوں کی تمام کوتاہیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندگی کے ہرشعبے میں جو مواقع اس آزاد مملکت میں مسلمانوں کو آج حاصل ہیں، ان کا مقابلہ بھارت کے ۱۵ سے ۲۰کروڑ مسلمانوں کی زبوں حالی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا قیام کتنا بڑا انعام ہے، جس کی قدر اس قوم کا ایک حصہ نہیں کر رہا۔ حال ہی میں بھارت میں سچر کمیشن کی جو رپورٹ آئی ہے اس میں سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ آبادی میں مسلمانوں کا حصہ ساڑھے بارہ سے ۲۵ فی صد ہے لیکن زندگی کے ہرشعبے میں ان کی نمایندگی مشکل سے دو اڑھائی فی صد ہے۔
بلاشبہہ ہماری قیادت کی روح فرسا غلطیوں اور بھارت کی جارحانہ سیاسی مداخلت اور فوج کشی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان، پاکستان سے جدا ہوگیا، لیکن بھارت کی تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود، بنگلہ دیش نے اپنا آزاد اور مسلمان تشخص باقی رکھا ہے۔ بھارت اور بنگلہ قوم پرستوں کی خواہش کے باوجود مشرقی اور مغربی بنگال ایک نہ ہوسکے۔ بنگلہ دیش برعظیم میں ایک دوسری مسلم مملکت کی حیثیت سے قائم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ اس طرح برعظیم میں یہ دو آزاد مسلمان مملکتیں ہیں، جو بھارت کی متعصب ہندو قیادت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور مختلف انداز میں بھارت کی سیاسی اور معاشی اور سفارتی سازشوں کا ہدف بنی ہوئی ہیں۔ بھارت کے دانش وروں اور نام نہاد پالیسی سازوں کی آواز میں آواز ملانے میں، آج امریکا اور برطانیہ کے کئی تھنک ٹینک ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں اور سب کے ہاں ٹیپ کا بند ایک ہی ہے: پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور پاکستان، ان کے خیال میں چند برسوں اور کچھ کی نگاہ میں تو چند مہینوں اور ہفتوں کا مہمان ہے۔
اس سلسلے میں ایک بھارتی دانش ور کپیل کومیرڈ کا ایک زہریلا اور شرانگیز مضمون لندن کے اخبار گارڈین میں ۱۴ جون ۲۰۰۹ء کو شائع ہوا ہے:’’پاکستان کا ٹوٹنا اَٹل ہے اور ۲۰سال کے اندر پاکستان ختم ہوجائے گا‘‘۔ موصوف نے صدر زرداری کے اس ارشاد کو بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہے کہ: ’’اگر اس ملک میں جمہوریت ناکام ہوتی ہے، اگر دنیا جمہوریت کی مدد نہیں کرتی، پھر کچھ بھی ممکن ہے‘‘۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہم صاف لفظوں میں اس امر کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ پاکستان کا قیام کسی درجے میں بھی کوئی غلطی تھا، نہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اور نہ پاکستان کسی طالبانیت کے خطرے کی زد میں ہے۔ یہ تینوں مغالطے امریکا کی عالمی سیاست کو آگے بڑھاوا دینے کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان مغالطوں کے زیراثر جو پالیسی بھی بنے گی، وہ نہ حقیقت پر مبنی ہوگی اورنہ پاکستان کے حقیقی مفادات سے اس کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے، بلکہ وہ پاکستان کے مقصدِ وجود، قوم کی حقیقی اُمنگوں، اس کے اقتدار اعلیٰ اور مفادات کے منافی ہوگی۔
اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے، اور وہ پاکستان کے ملّی جوہر کو حقیقت کا رنگ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن مغرب کی آشیرباد رکھنے والی ان مقتدر اور سیکولر قیادتوں کی اس ناکامی کو پاکستان کی ناکامی اور ریاست کی ناکامی کا نام دینا اور پاکستان کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔
پاکستان اللہ کے فضل سے قائم ہوا ہے اور اس کے قیام کے لیے ملتِ اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ مشکلات اپنی جگہ، لیکن پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ اللہ پر بھروسے اور جواں مردی سے کیا ہے۔ ان شاء اللہ آج بھی قوم اسی جذبے سے موجودہ خطرات کا مقابلہ کرے گی۔ ہم صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر چند بنیادی حقائق کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ قوم ایک عزمِ نو کے ساتھ آج کے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے۔
قیامِ پاکستان کے وقت بھارت اور برطانیہ دونوں کا اندازہ یہی تھا کہ یہ ملک چند برسوں کا مہمان ہے، اور یہ بہت جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ الحمدللہ تمام تر بے سروسامانی، مسلم کش فسادات اور بھارت کے معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور زندگی کے مختلف میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت درپیش معاشی اور سیاسی دبائو اور چیلنجوں کے ساتھ نظریاتی چیلنج بھی رونما ہوئے۔ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں، لیکن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسلامی نظام کے لیے ایک ملک گیر تحریک کے جلو میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے ریاست کا مقصد اور منزل واضح الفاظ میں متعین کردیے۔ پھر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے اسلامی ریاست کے ۲۲ اصول متفقہ طور پر مرتب کر کے اس نظریاتی شاہراہ کو اور بھی روشن کر دیا۔ سیکولر اور بھارتی لابیاں اپنا کام برابر کرتی رہیں، لیکن دشمن کے ہر وار کا مقابلہ قوم نے پوری مستعدی سے کیا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور پاکستان میں ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے ۱۹۶۲ء میں اپنے دیے ہوئے دستور سے ’قرارداد مقاصد‘ حذف کردی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگہ جمہوریہ پاکستان رکھا، مگر دو ہی سال کے اندر انھیں ۱۹۶۴ء میں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو بھی دستور کا دیباچہ بنانا پڑا، اور ملک کا نام بھی دوبارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنا پڑا۔ حالانکہ یہ ایسی اسمبلی تھی جو براہِ راست بالغ حق راے دہی کے ذریعے وجود میں نہیں آئی تھی، بلکہ یہ اسمبلی ایوب صاحب کی بنیادی جمہوریتوں کا عطیہ تھی جس میں ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ۱۹۷۲ء کے عبوری دستور اور نئے مسودہ دستور میں پاکستان کے نظریاتی تشخص پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس مرتبہ پاکستان کو ایک سوشلسٹ اسٹیٹ قرار دینے کی کوشش ہوئی۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے دستور میں ایک بار پھر قوم نے اپنی اصل شناخت اور اس ملک کے مقصدِ وجود کا صاف الفاظ میں اظہار کیا۔ جس مسودے پر قومی اتفاقِ راے (national consensus) ہوا، اس کے عناصرِ اربعہ: اسلامی شناخت، پارلیمانی جمہوریت، فلاحی معاشرہ، وفاقی کردار متعین ہوئے۔ پھر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس اسمبلی نے مکمل اتفاقِ راے سے مسلمان کی تعریف بھی دستور میں شامل کی اور اس طرح ملک کے نظریاتی تشخص کو ہرشبہے سے پاک کرکے واضح اور مستحکم کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس قوم کے ’نظریاتی عہد‘ کا مظہر ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس دستور کو توڑنے اور مسخ کرنے کی باربار کوششیں ہوئیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آمریت خواہ وہ فوجی ہو یا سول عناصر کی مسلط کردہ، تادیر قائم نہیں رہ سکی اور ہر آمریت کا خاتمہ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بالضرور ہوا۔ معاملہ مصر، لیبیا اور شام کا ہو یا افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک کا___ ان سب کے مقابلے میں پاکستانی قوم نے لمبے عرصے کے لیے فوجی حکومت اور آمرانہ نظام کو برداشت نہیں کیا۔ پاکستان تحریکِ جمہوریت (PDM) ہو یا متحدہ جمہوری محاذ (UDF)، پاکستان قومی اتحاد (PNA) ہو یا اسلامی جمہوری اتحاد ( IJI)___ عوام نے اپنی منظم جدوجہد کے ذریعے آمرانہ قوتوں کا مقابلہ کیا اور جمہوریت کی شمع کو گل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اہم تحریک ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک تھی جس نے جنرل مشرف کے دورِاقتدار کی چولیں ہلا دیں اور پھر موصوف کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔ عوام کی احیاے جمہوریت کی تحریک سیاسی اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہر آمر کے لیے ایک تازیانہ۔
جس ملک میں ایسی اہم تحریکیں اُٹھی ہوں اور آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا گیا ہو، اسے ناکام ریاست کسی پہلو سے بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نشیب ضرور آئے ہیں لیکن ہر نشیب کے بعد فراز بھی ایک حقیقت ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جسے آج پھر قوم کو سامنے رکھ کر اپنے وطن کی اصلاح اور اپنی آزادی کی بازیافت کی جدوجہد کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
گویا کہ جب بھی اس قوم کو صحیح قیادت میسر آئی ہے اور اسے وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم و متحرک کیا گیا ہے، اس نے غیرمعمولی استعداد کا مظاہرہ کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت پورے ملک میں صرف دو کپڑے کے کارخانے تھے اور دنیا میں پٹ سَن کی پیدوار کا سب سے بڑا گہوارہ ہونے کے باوجود پٹ سَن کی ایک بھی مِل موجود نہ تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال میں ملک نے صنعت و حرفت کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔اسی طرح کھیل کے میدان میں بھی پاکستان سربلند اور کامیاب رہا۔ بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد سائنس کے میدان میں قوم کواپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے سابقہ پڑا اور الحمدللہ ساری دنیا کی مخالفت اور ٹکنالوجی کے حصول کے ہر دروازے کو بند کردینے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیرخاں اور دیگر متعدد محب وطن سائنس دانوں اور انجینیروں کی پوری ایک ٹیم نے اللہ کے فضل سے اور اپنی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے ذریعے سے صرف سات سال میں وہ کام کر دکھایا، جو امریکا اور دوسری مغربی اقوام نے اس سے دگنے وقت میں انجام دیا تھا اور ساری ایٹمی صلاحیت کے حصول پر جو مالی صرفہ آیا وہ ایف-۱۶ کے ایک اسکواڈرن کی قیمت سے زیادہ نہ تھا۔
بلاشبہہ پاکستانی قیادت کی ناکامیوں کی داستان ہی بڑی طویل اور دل خراش ہے، لیکن اگر صحیح وژن ہو، قوم اور قیادت میں ہم آہنگی ہو، صحیح قیادت میسر آجائے تو اس قوم نے کم وسائل اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جن پر سب کو فخر ہے۔ قومی تاریخ کے ان مثبت پہلوئوں اور روشن کارناموں کی موجودگی میں یہ احساس اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
دشمنوں کے مذموم ایجنڈے اور قوم کی تاریخ کے تابناک پہلوئوں کے پس منظر میں ہم آج کے یومِ آزادی کے موقع پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس طوفان میں ملک عزیز کو قائم و دائم رکھا ہے، وہیں یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک و قوم بڑے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان خطرات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانے اور اس کے حصول کے لیے قوم کو متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آج ملک کو درپیش سب سے اہم خطرہ اس کی اس آزادی کو درپیش ہے، جو بڑی بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔اس آزادی کی مکمل بازیابی کے بغیر یہ قوم اپنے اصل مقاصد اور اہداف کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتی۔
سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے جو ظلم اس ملک اور قوم پر کیے ہیں، ان میں سب سے بڑا ظلم جو ایک ناقابلِ معافی جرم بھی ہے، وہ قوم کی آزادی کو امریکی بالادستی کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ امریکا میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو افسوس ناک حادثہ ہوا، اس کے سارے حقائق ایک نہ ایک دن دنیا کے سامنے آکر رہیں گے، اور امریکا نے ان پر جو پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ایک دن ضرور تار تار ہوں گے لیکن جو چیز ناقابلِ تردید ہے، وہ یہ ہے کہ اس مذموم واقعے کی آڑ میں امریکا نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے، افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی ہے، اور اسلام اور پوری مسلم دنیا کو اس انداز سے نشانہ بنایا ہے کہ اس نے اس علاقے ہی کی نہیں پوری دنیا کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
عراق پر حملے (۲۰۰۳ء) کو تو اب سب ہی ایک غلطی کہنے لگے ہیں اور خود امریکا نے بھی اپنے انخلا کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کی فوج کشی کو ابھی تک اگر مگر کی بھول بھلیوں میں گم کیا ہوا ہے۔ حالانکہ آٹھ سال کی اس بے نتیجہ جنگ میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور کھربوں ڈالر کو آگ میں جھونکنے کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ جس طرح افغانستان ماضی کی بڑی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے، اسی طرح امریکا کے لیے بھی یہ دوسرا ویت نام بننے کے قریب ہے۔ افغانستان میں جو تباہی واقع ہوئی ہے وہ دردناک ہے، لیکن افغانستان پر امریکی قبضے نے جو صورت حال پاکستان کی بنا دی ہے اور جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی دھمکی کے تحت جس طرح اس کے سامنے سپر ڈال کر پاکستان اور اس کی افواج کو جس آزمایش میں مبتلا کیا ہے، اس کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پاکستانی قوم کو امریکا کی اس جنگ کے چنگل سے نکلنے کی جو توقع تھی، وہ زرداری،گیلانی حکومت کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں مٹی میں ملتی نظرآرہی ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہا ہے کہ عوامی تحریک کے ذریعے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ جماعت اسلامی کی ’گو امریکا گو‘ تحریک اس سمت میں ایک بروقت اقدام ہے۔
پاکستان اور امریکا میں دوستی اور تعاون ایک فطری امر اور پاکستان اور امریکا دونوں کی ضرورت رہا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی کے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ تعلقات معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے فرق کے باوجود دو آزاد اور خودمختار ملکوں میں باہمی مفاد اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں۔ یہ کسی ایک کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری اور محکومی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں۔
اس وقت پاکستانی قوم جس چیز پر مضطرب اور نکتہ چین ہے وہ پاکستان کے معاملات میں ایسی امریکی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں ہم اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی بلکہ تعلیمی اور معاشی پالیسیاں بھی امریکا کے اشارے پر اور اس کے مفاد میں مرتب کی جارہی ہے۔ یہ کم و بیش وہی کیفیت ہے جو سامراجی نظام کا خاصّہ ہے اور جس کا تجربہ برطانوی اقتدار کے ۲۰۰ سالہ دور میں برعظیم کے عوام کرچکے ہیں۔
’گو امریکا گو‘ کے معنی امریکا کی سامراجی بالادستی کو ختم کر کے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور اس کے اپنے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت ہے۔ اس کا ہدف امریکا کی ریاست یا امریکی عوام نہیں، بلکہ امریکا کی پالیسیاں اور خصوصیت سے پاکستان کے بارے میں اس کی امتیازی پالیسیاں اور پاکستان کے معاملات میں اس کی اندھا دھند مداخلت اور وہ طریق واردات ہے کہ جس کا تلخ تجربہ پاکستانی قوم خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے کررہی ہے۔ یہ پالیسی صدرزرداری کے دورِ اقتدار میں اپنی تمام حدیں عبور کر کے آزادی اور خودمختاری کے ساتھ قوم کی عزت اور وقار کے بھی منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح تحریکِ پاکستان کے دو متعین ہدف تھے یعنی برطانوی سامراج سے نجات اور اپنے نظریات،عزائم اور مفادات کے مطابق اپنی سرزمین پر مکمل اختیارات کا حصول، اسی طرح آج پھر یہ قوم امریکا کے سامراجی کردار کے خلاف صف آرا ہورہی ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد برطانیہ سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے اور اس برطانیہ مخالف تحریک کا کوئی سایہ ان تعلقات پر نہیں پڑا۔ بالکل اسی طرح ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ’گو امریکا گو‘ کا ہدف پاکستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی اور ہمارے معاملات میں اس کا عمل دخل ہے۔ یہی چیز امریکا سے نفرت کا سبب ہے۔ ہماری کوئی لڑائی امریکی عوام سے نہیں اور نہ امریکی دستور سے ہے۔ امریکی تہذیب اور طرزِ حیات پر اگر امریکی عوام خوش اور مطمئن ہیں تو ہمیں اس سے کیا پرخاش؟ ہاں، ہم ان کے سامنے دلیل کے ساتھ اور منطقی انداز میں واضح کرتے رہیں گے کہ حق اور باطل کیا ہے؟ ہمارے اختلاف کا آغاز اس مقام پر ہوتا ہے جہاں امریکا یا کوئی اور ملک اور قوم اپنے نظریات، اپنی اقدار اوراپنے مفادات کو ہم پر جبر کے بل بوتے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا معاملہ فکری اور نظریاتی مکالمے اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا، تو وہ دنیا کی تمام ہی اقوام کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ان دونوں معاملات کو گڈمڈ کرنے سے بڑی قباحتیں اور تصادم کی شکلیں رونما ہوتی ہیں۔
آج پاکستانی قوم ہی نہیں، دنیا کی بیش تر اقوام امریکا کی جو مخالفت کر رہی ہیں، وہ اس کی پالیسیوں اور عالمی سامراجی مہم جوئیوں کی وجہ سے ہے۔ ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں امریکا کے ادارے ’ورلڈ پبلک اوپینین‘ کا جو سروے پاکستان کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں پاکستانی عوام نے ایک طرف طالبان کی ان حرکتوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو ان کے نام پر سوات میں کی گئی ہیں، دوسری طرف آبادی کی دو تہائی اکثریت نے پاکستان کے معاملات میں امریکا کی مخالفت اس طرح کی ہے، جس طرح بش کے دور میں کر رہی تھی، اور ۶۲ فی صد پاکستانیوں کی نگاہ میں اوباما کی صدارت سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ امریکا کے ڈرون حملوں کی ۸۲ فی صد نے مخالفت کی ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور اس کے جنگی اقدامات کی ۷۲فی صد نے مخالفت کی اور آبادی کے ۷۹ فی صد نے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ۸۶ فی صد نے صدر اوباما کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافہ نہ کیا جائے گا۔ ان کی نگاہ میں اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح اس سروے کی رو سے آبادی کے ۹۳ فی صد افراد کا خیال ہے کہ امریکا مسلم دنیا پر اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ۹۰ فی صد نے اس خدشے کی تائید کی کہ امریکا مسلم دنیا کو کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم پر تلا ہوا ہے۔ (دی نیوزانٹرنیشنل، ۲جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا کے بارے میں یہ جذبات پاکستان یا صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں ہیں۔ صدر اوباما کے روس کے دورے سے چند دن قبل جو سروے روسی راے عامہ کے بارے میں ہوا ہے، اس سے بھی یہی تصویر اُبھرتی ہے کہ روس کی آبادی کے ۷۵ فی صد کی نگاہ میں امریکا اپنی قوت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور وہ روس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۷جولائی ۲۰۰۹ء)
اس اصولی وضاحت کے بعد اب ہم متعین طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کی مداخلت اور ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اس کی گرفت کیا شکل اختیار کرگئی ہے؟ جس نئی غلامی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا تھا، وہ صدر زرداری کے دور میں اس سے بدرجہا زیادہ قبیح اور خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور یہ پالیسی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔ امریکا کے اثرورسوخ اور دراندازیوں میں اضافہ نائن الیون کے بعد مشرف کی اختیار کردہ پالیسیوں کا ثمرہ ہے اور خسارے کے اس سودے کی جہاں اولیں ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی ہے، وہیں اس ذمہ داری میں موصوف کی پوری ٹیم شریک ہے، خواہ اس کا تعلق ملک کی فوجی قیادت سے ہو یا مشرف دور کے وہ مددگار جن میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وعدہ معاف گواہ آج جو بھی کہیں، کم از کم ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۷ء تک جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں یہ سب برابر کے شریک ہیں اور انھیں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔
قوم نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں مشرف کی پالیسیوں کو یک سر مسترد کر دیا، لیکن یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے زرداری صاحب کی قیادت میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بلکہ اپنے تمام ہی اساسی معاملات کو امریکا کے تابع کردینے میں یہ پرویز مشرف سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ زرداری صاحب سے ان کے حالیہ دورئہ امریکا میں اوباما، ہیلری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام نے جس سردمہری اور بے نیازی سے معاملہ کیا، اس نے پاکستان کی عزت و وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ امریکا، زرداری کے ساتھ بحیثیت فرد جو بھی معاملہ کرے یہ اس کا اختیار ہے، لیکن پاکستان کے صدر زرداری کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا، اس کا پاکستانی قوم کو دکھ ہے اور وہ نہ امریکا کو اس بے عزتی پر معاف کرے گی اور نہ زرداری صاحب کو، جن کا حال یہ ہے کہ اس تحقیر و توہین آمیز رویے کے باوجود کاسۂ گدائی لیے پھرتے رہے اور ۴جولائی کو امریکی یومِ آزادی کے موقع پر نہ صرف امریکی سفارت خانے جاکر تقریب میں شرکت فرمائی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر یہ شرم ناک الفاظ بھی ادا کیے:
میں اس موقع پر پاکستان میں امریکی سرزمین سے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں۔ (جنگ، ۱۳ جولائی۲۰۰۹ء، انصار عباسی کا کالم ’خطرے کی گھنٹی اور بے حس قیادت‘)
پاکستان کی زمین کا چپہ چپہ پاکستان کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب کو ایسے اعلان کرنے ہیں تو شوق سے نیویارک کے اپنے فلیٹ سے نشر کریں، مگر خدارا پاکستان کی سرزمین کو ایسے پوچ خیالات کے اظہار کے لیے استعمال نہ کریں۔
امریکا نے محض قوت اور دھونس کے ذریعے پاکستان کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس جنگ میں شرکت کے سبب اب تک جو نقصان اٹھا چکا ہے وہ ۳۵ ارب ڈالر یعنی ۲۸ کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ اس پر مستزاد ہزاروں قیمتی جانوں کا اتلاف ہے، خواہ ان کا تعلق فوج سے ہو یا عوام سے۔ ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور امریکا پوری رعونت سے ہماری سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کو حشرات الارض کی طرح مار رہا ہے۔ خود امریکی ترجمان کے مطابق ان ڈرون حملوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ۱۷۰ افراد مارے گئے ہیں ، مگر عام پاکستانی جو اس جارحیت کاشکار ہوئے ہیں ان کی تعداد ۸۰۰ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ان حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اور پارلیمنٹ کے متفقہ مطالبے کے علی الرغم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے، اور یہ قیادت جس فدویانہ ادب سے روایتی احتجاج کر رہی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا کو درپردہ اس کی شہ حاصل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اس قیادت پر سے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اور قوم اسے شریکِ جرم سمجھتی ہے۔
پاکستانی قوم یہ جانتی ہے اور اس کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ اس علاقے کے حالات کو بگاڑنے کا اصل سبب افغانستان پر امریکی فوج کشی ہے۔ خود افغان قوم، امریکی اور ناٹو افواج کے اس جارحانہ قبضے کی اس انداز سے مزاحمت کر رہی ہے، جس طرح اشتراکی روس کی فوجوں کی مزاحمت کر رہی تھی۔ امریکا اور یورپی اقوام جان گئی ہیں کہ افغانستان میں وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انھیں وہاں سے لازماً نکلنا ہی پڑے گا، مگر پاکستان کی قیادت کے فکری افلاس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ امریکا کے اس دوغلے پن سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں کہ وہ ایک طرف افغانستان میں فوجوں کی تعداد کو بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف اچھے اور بُرے طالبان کا افسانہ تراش کر مذاکرات اور انخلا کی حکمت عملی کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکا، پاکستان پر مزید دبائو بڑھا رہا ہے کہ اس جنگ میں اپنی فوج کو جھونکے رکھے اور نئے نئے محاذ کھولے اور پاکستان کی موجودہ قیادت ہر حکم پر ’حاضر جناب‘کہہ کر عمل پیرا ہو رہی ہے۔ اس قیادت نے ملک کے حساس علاقوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر ۳۸ لاکھ افراد کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیا ہے جس کا مالی نقصان بھی اب کھربوں روپے کی خبر دے رہا ہے۔۱؎
امریکا اور یورپ کے تجزیہ نگار اب کھل کر یہ بات لکھ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہے، اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، وہاں سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے، لیکن یہ پاکستان کی قیادت ہے کہ وہ اس دلدل میں اور بھی دھنستی چلی جارہی ہے۔ سوات اور بونیر کے بعد دیر، مالاکنڈ اور اب وزیرستان اور ناٹو کے حکم کے مطابق جلد ہی بلوچستان میں بھی فوج کشی کا سامان کیا جا رہا ہے۔۱؎ ناٹو کے کمانڈر صاحب پاکستان کو یہ حکم دے رہے ہیں اور خود افغانستان کے بارے میں جو مسئلے کی جڑ ہے، ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کے ساتھ ہی انھوں نے اختلافات طے کرنے کے لیے کسی فوجی آپشن کے بجاے سیاسی مکالمے کی زیادہ ضرورت پر زور دیا‘‘۔
یہ ہے یورپی افواج کے کمانڈر کا دوغلا پن۔ لیکن ہمیں افسوس تو اس پاکستانی قیادت پر ہے، جو اس کھیل کے مہروں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور اطاعت شعاری اور ڈالروں کے عوض اپنے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے اور جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے اہم اخبارات اور تجزیہ کاروں کے خیالات کا جائزہ لینے سے جو نتیجہ کھل کر سامنے آرہا ہے، وہ افغانستان کی جنگ کی ناکامی کا احساس، امریکی اور یورپی افواج کی ہلاکت (جو پاکستانی افواج اور سول افراد سے ۱۰ گنا کم ہے) پر اضطراب اور بے چینی، مصالحت اور فوجوں کے انخلا پر مبنی نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین (۹جولائی ۲۰۰۹ء) میں ایک ہفتے میں ساتویں برطانوی فوجی کی موت کی خبر شائع ہونے کے بعد ایک عوامی سروے میں آبادی کے ۷۱ فی صد نے کہا ہے کہ:’’افغانستان میں فوجی کارروائی سود مند ثابت نہیں ہو رہی اور حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے‘‘۔
برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط اقدام تھا اور ہمیں انتہا پسندی روکنے کے لیے اپنی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ہولناک تشدد کے ایک بنیادی جائزے کی ضرورت ہے۔
ملی بینڈ کی نگاہ میں یہ جنگ صحیح نتائج سامنے نہیں لا سکتی اور جس نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ سیاسی ہے:
دہشت گرد گروپوں کی بنیادوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلحے اوررقم کی فراہمی کے راستوں کو روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر کے، ان کے پیرووں کو جمہوری سیاست میں لاکر… (دی گارڈین، ۱۵جنوری ۲۰۰۹ء)
امریکا کی سابق وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’امریکی خارجہ پالیسی میں گہرا خلا‘ قرار دیا ہے۔ گارڈین کے مضمون نگار جیمز ڈینسلو نے ۷جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنے مضمون: ’تاریخ نے ابھی فیصلہ نہیں دیا‘ میں کہا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی ایک تاریخی تباہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم تباہ ہوگئی اور اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری اور کانگریس کے رکن گیری ایکرمین بار بار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حل پر مبنی حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور اس پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ گراہم فولر امریکا کے تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا سابق سربراہ ہے، جو ایک زمانے میں افغانستان میں سی آئی اے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں لکھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔لندن گارڈین کا ایک اور مضمون نگار پیٹر پرنسٹن (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اپنے مضمون: ’’بہت ہوچکا! افغانستان میں بے مقصد اور احمقانہ جنگ کو فوراً بند ہونا چاہیے‘‘ میں لکھتا ہے کہ افغانستان میں ناٹو افواج کی کامیابی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ’’تم جو کچھ کر رہے ہو، اگر وہ بالکل غلط ہو رہا ہو تو ہمیشہ ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اسے روک دو‘‘۔
وہ اپنی اور ناٹو اور امریکا کی قیادتوں کو متنبہ کرتا ہے کہ:’’سب سے زیادہ خونیں فریب یہ ہوسکتا ہے کہ ہلمند میں بڑھی ہوئی کارروائیوں کا حاصل مزید خون خرابے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے‘‘۔
پیڈی ایشڈرون برطانیہ کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمارہوتا ہے اور وہ یورپی یونین میں مختلف سیاسی ذمہ داریوں پر فائز رہا ہے، اس کا بیان یکم جولائی ۲۰۰۹ء کے برطانوی اخبارات میں شائع ہوا ہے، جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا اور ناٹو سمیت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان میں شکست سے دوچار ہیں اور اس نے حکمت عملی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’اس حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے افغانستان میں ہم جنگ ہار رہے ہیں اور فوجی قتل ہورہے ہیں‘‘۔
چین کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ اوباما بھی افغانستان میں جنگوں میں شکست کا سبب بننے والی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اب تک اس جنگ میں ۷۰۸ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ۳۰۶۳ زخمی ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے لے کر اب تک ۴۴۰ ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ تازہ راے عامہ کے سروے کے مطابق امریکا کے ۴۸ فی صد افراد اس جنگ کے خلاف ہیں، جب کہ اس کی تائید کرنے والے صرف ۲ فی صد زیادہ ہیں یعنی ۵۰ فی صد۔ اب تک کے تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ صدر اوباما، امریکی عوام کے جذبات کو افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لیے ہموار نہیں کرسکے۔ ایک تازہ سروے میں امریکی آبادی کے ۶۶ فی صد نے کہا ہے کہ اوباما کی اصل ترجیح معیشت، روزگار اور حکومت کی بہتری ہونی چاہیے، صرف ۹ فی صد نے عراق اور افغانستان کی جنگ کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ (جنگ، لندن، یکم جولائی ۲۰۰۹ء)
نیویارک ٹائمز نے (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ برطانوی راے عامہ میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور اسے افغانستان میں جنگ کی ناکامی کا یقین ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں: ’’جنگ میں برطانیہ کی شرکت ملک میں اتنی شدید تنقید کی زد میں آئی ہے جیسی اس سے پہلے نہ آئی تھی‘‘۔
اور برطانیہ کے مشہور دانش ور اور سیاسی تجزیہ نگار سائمن جین کنز نے گارڈین (۲۵جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکا کو مشورہ دیا ہے: ’’اوباما کو اس حماقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ افغانستان اس کا ویت نام بن جائے‘‘۔ اس نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے: ’’نہ پینٹاگان اور نہ برطانیہ کی وزارتِ دفاع محض اسلحے کے زور پر افغانستان کی جنگ جیت سکتی ہے‘‘۔
اس نے دعویٰ کیا ہے کہ خود امریکی فوجی کمانڈر کے ایک کلیدی مشیر نے بھی اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے امریکی صدر کو متنبہ کیا ہے: ’’جنگ کے مقاصد کی واضح ناکامی کا کھلا کھلا تجزیہ اوباما کے کلیدی جنرل ڈیوڈ پیٹرس کے مشیر ڈینیل کلکولر نے کردیاہے‘‘۔
سائمن جین کنز نے واضح طور پر لکھ دیا ہے:
۲۰۰۱ء کا حملہ کرنے، اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور علاقے کو دہشت گردی سے صاف کرنے کی پالیسی آزمائی جاچکی ہے اور ناکام ہوچکی ہے۔ حکمت عملی نوجوان مغربی سپاہیوں اور ہزاروں افغانوں کے بے معنی قتل تک محدود ہوگئی ہے۔ افواج صرف اس لیے بھیجی جارہی ہیں کہ لیبر منسٹر میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کرسکیں کہ بلیئر کا اسلامی خطرے کو ختم کرنے کی کوشش محض اس کا پاگل پن تھا۔ بلیئر کہتے تھے کہ لندن کی شاہراہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں لیکن عملاً وہ ان شاہراہوں کو اور زیادہ پُرخطر بنا رہے ہیں۔ ویت نام نے دو صدور جانسن اور نکسن کو ختم کیا اور نوجوان امریکیوں کی ایک نسل کا عالمی اعتماد بھی ختم کیا۔ افغانستان بظاہر ’اچھی جنگ‘ ہے مگر اس کے نتائج بھی ویت نام جیسے ہوسکتے ہیں۔ (گارڈین، لندن، ۲۵ جون ۲۰۰۹ء)
مقالہ نگار نے جو کچھ امریکا اور برطانیہ کے بارے میں لکھا ہے، وہ پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ۱۰ گنا زیادہ درست ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی قوتیں ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونک رہے ہیں، جب کہ ہمیں اس جنگ سے قطع تعلق کرنے اور افغانستان کے امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے واپسی کے منظرنامے میں اپنے، افغانستان اور پورے علاقے کے حالات اور تعلقات پر اپنی توجہ دینی چاہیے۔ ہم اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں، مگر امریکا کے سوچنے سمجھنے والے افراد امریکا کی افغان پالیسی کی ناکامی کو نوشتۂ دیوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے شرقِ اوسط اور جنوب ایشیا کے چیئرمین گریگ ایکرمین نے اعتراف کیا ہے کہ: ’فاٹا میں امریکی حکمت عملی کارگر نہیں ہے‘ (ملاحظہ ہو، انور اقبال کی رپورٹ، روزنامہ ڈان، ۲۷ جون ۲۰۰۹ء)۔
امریکا کے ایک سابق سفیر چارلس ڈبلیو فری مین کی واشنگٹن میں کی جانے والی تقریر کی روداد ہر اعتبار سے چشم کشا ہے۔ اس نے امریکا کی جاری پالیسی کی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا ہے، اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف امریکا نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ امریکا کے دبائو میں خود پاکستان نے ایک پُرامن علاقے کو شورش اور جنگ و جدل کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔
سفیر فری مین نے امریکی پالیسی کو حالات کے ناقص ادراک کا نتیجہ قرار دیا ہے، اور علاقے کی تاریخ، روایات اور زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پیداوار قرار دیا ہے۔ اس کی نگاہ میں ایک بنیادی مغالطہ جاسوسی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات اور حقائق کو گڈمڈ کر دینا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو ایک سمجھ لیا گیا ہے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں یہ تباہ کن غلطی ہے… جو حالات کے معروضی جائزے کے مقابلے میں اخبارات کی احمقانہ سرخیوں کی پیداوار ہے اور امریکا کے خلاف عوامل ردعمل امریکا کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
امریکی پالیسی کے اثرات کے تحت امریکا مخالف دہشت گردی مزید پھیل رہی ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ (دیکھیے: Refusing to Learn ، دی ٹائمز، ۹جولائی ۲۰۰۹ء)
لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے ۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں افغانستان سے برطانیہ کی افواج کی واپسی کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے: ’’افغانستان میں ہمارا مشن سخت خطرے میں ہے‘‘۔ اس اداریے میں انڈی پنڈنٹ نے افغانستان کے ایک عوامی سروے کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی رُو سے افغانستان کی آبادی کے ۶۸ فی صد کی خواہش ہے کہ: ’’ان کی حکومت گفت و شنید کرے اور طالبان سے مصالحت کرے‘‘۔
انڈی پنڈنٹ نے آخر میں برطانوی وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا ہے: ’’اگر وہ طالبان سے باوقار مذاکرات نہیں کرسکتے، تو انھیں اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہییں‘‘۔
یہ ہے اس وقت کی عالمی فضا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تبدیلی کا کوئی شعور نہیں اور لگتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے، عین مین انھی راہوں پر سفر کر رہی ہیں، جن پر چلنے کی انھیں امریکی آقائوں نے ہدایت کی ہے۔ اس وقت امریکا کا اصل کھیل یہ ہے کہ:
افغانستان میں جاری جنگ کا رُخ پاکستان کی طرف پھیر دیں۔ اسرائیل ایران پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے اور پاکستان اور شرقِ اوسط کے ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا درپردہ شریکِ کار ہیں۔ افغانستان کے صوبے ہلمند میں جو آپریشن اس وقت جاری ہے، وہ پاکستان پر دبائو کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔بھارت افغانستان میں ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان سے پاکستان میں بھی دراندازیاں کر رہا ہے۔ امریکا خود افغانستان سے نکلنے کی تدبیریں کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو اس آگ میں جھونک دینے میں مصروف ہے۔
امریکا نے پاکستان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرڈالی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے ذریعے اپنے شکنجے مزید کس رہا ہے۔ ۵ء۱ بلین ڈالر کی جس امداد کا بڑا شور ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف اس کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت ہی نہیں، تعلیم، انتظامیہ، فوج اور سیاسی اور خارجہ پالیسیوں تک کو اپنا پابند کیا جا رہا ہے، دوسری طرف جسے امداد کہا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ ۲۵ ایکڑ مزید اراضی پر، جو حکومتِ پاکستان سے کوڑیوں کے مول حاصل کرلی گئی ہے، ایک بڑا تعمیراتی کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپلیکس جو جاسوسی اور فوجی کارروائیوں کے لیے امریکا کے اڈے کی حیثیت رکھے گا اور اس پر ۳۰۰ افسران کے رہنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ اڈا بغداد کے بعد دنیا میں سب سے بڑا امریکی اڈا ہوگا۔ نیویارک ٹائمز (۱۴جولائی ۲۰۰۹ء) میں چالمس جانسن کا چشم کشا مضمون Empire of Bases (اڈوں کی سلطنت) شائع ہوا ہے، جس میں دنیا میں امریکا کے ۸۰۰ اڈوں کا تذکرہ ہے اور اس میں سرفہرست پاکستان کے نئے اڈے کا ذکر خیر ہے، ملاحظہ ہو:
آغاز میں ۲۷ مئی کو ہمیں معلوم ہوا کہ محکمہ خارجہ ۷۳۶ ملین ڈالر کے خرچ سے اسلام آباد میں ایک نیا سفارت خانہ تعمیر کرے گا۔ یہ عمارت ویٹی کن شہر کے برابر ہوگی۔ بش انتظامیہ نے بغداد میں جو عمارت تعمیر کرائی، اس کے بعد یہ دوسری بڑی قیمتی عمارت ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ ۷۳۶ ملین ڈالر اس ۵ء۱ بلین ڈالر امداد کا حصہ ہے، جو لوگر بل کے زیرسایہ پاکستان کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ یہ نئی تعمیر ان اڈوں کے علاوہ ہے جو امریکا ۲۰۰۱ء کے بعد قائم کرچکا ہے اور جن کے بارے میں امریکا نواز ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کی ۱۹ تا ۲۵جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ایک مضمون نگار نے شاہد جاوید برکی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’کھاریاں چھائونی دراصل امریکی افواج کے لیے تعمیر کی گئی تھی‘‘۔
تربیلا اور بلوچستان کے بارے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے مضمون میں یہ حوالہ قابلِ غور ہے:
امریکیوں کے متفرق گروپ مقامی لوگوں کے بھیس میں (مشابہ لباس اور ڈاڑھیوں کے ساتھ) تربیلا کے آس پاس اور بلوچستان میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا بہت احتیاط سے جائزہ لیں۔ (دی نیوز، ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا جس طرح ہمارے خارجی اور داخلی معاملات میں دخیل ہوگیا ہے، وہ پاکستان کی آزادی، سالمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ امریکا ہی اب ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ بھارت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں رونما ہونے والے اندرونی دہشت گردی کے واقعات کو ’اصل خطرہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کا وجود امریکا کے افغانستان پر فوجی قبضے اور پاکستان میں اس کی دراندازیوں کا رہینِ منت ہے۔ امریکی صدر، ہیلری کلنٹن، ہالبروک اور میڈیا کی طرف سے بہ تکرار ایک ہی آواز آرہی ہے کہ پاکستان کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں، طالبان ہیں اور صدرزرداری اس کی صداے بازگشت بن گئے ہیں، جب کہ وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ زرداری صاحب کی ذاتی راے ہے ،صدر پاکستان کا فرمان نہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کی آزادی کی بازیابی کی جدوجہد ناگزیر ہوگئی ہے اور اس کے لیے قومی مفاد اور قومی مقاصد کے مطابق امریکا سے پاکستان کے تعلقات کی ازسرِنو تشکیل اولیں اہمیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلقی اور ملک کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کو مرتب کرنا اور اس پر عمل، اولیں اہمیت کے حامل چیلنج ہیں۔ ہمیں اپنی سلامتی کے میزانیے کو خود مرتب کرنا ہے۔ اس کی روشنی میں امریکا، بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے معاملات پر امریکا کا غلبہ اور بالادستی ختم ہو۔ ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کا اصل مقصد خارجہ پالیسی اور داخلہ سیاست کو امریکا کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے پاکستانی قوم کے عزائم، مفادات اور خواہشات کے مطابق ازسرِنو مرتب و منظم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم قدم ملک کی پارلیمنٹ نے ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد کی شکل میں اختیار کیا تھا، لیکن زرداری حکومت نے اپنی پالیسیوں اور مسلسل اقدامات کے ذریعے سے اسے غیرمؤثر بنا دیا ہے۔ افسوس کہ پارلیمنٹ اس خلاف ورزی پر گرفت کرنے کے بجاے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ قوم خود اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو، اور ایک عوامی تحریک کے ذریعے سے جمہوری قوت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اپنے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالے اور اپنے مستقبل کا سفر اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کرے۔
(۱۴؍اگست : یومِ تشکر، یومِ احتساب بھی، کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت:۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹، فیکس: ۳۵۴۳۴۹۰۷)