’۶۰ سال پہلے‘ کے تحت ’نااہل قیادت‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) مولانا مودودیؒ کی تازہ تحریر محسوس ہوتی ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ۶۰سال بعد بھی ایک ’بدترین،نااہل اور اخلاق باختہ قیادت‘ ہمارے اُوپر ہنوز مسلط ہے۔ ’امریکا اور اسلام‘ دل کی آواز محسوس ہوئی۔ ’اوباما کی قاہرہ میں تقریر کے خوش کُن آہنگ کو نیا نہ سمجھا جائے‘، نپولین اور ووڈرو ولسن کی تقاریر کے تاریخی تناظر میں، یہ جملہ میری نظر میں ’اشارات‘ کا حاصل ہے۔ ’انسان کا قرآنی تصور‘ حضرت انسان کا ایک بھرپور خاکہ، قرآنی آیات کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے، بین السطور بڑی خوب صورتی سے قاری کو اس کے اصل فرضِ منصبی کی طرف متوجہ یا گیا ہے۔
’اسلامی بنکاری کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان‘ میں موجودہ عالمی معاشی بحران کے تناظر میں ایک اہم پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ماضی میں غیرسودی نظام کو ناقابلِ عمل گردانتے ہوئے کھلے بندوں مذاق کا موضوع بنایا جاتا تھا مگر آج یہ ایک حقیقت ہے اور پوری دنیا میں اُسے معاشی بحران سے نجات کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جانے لگاہے۔ ’ایران کا اصل بحران‘ ایک چشم کشا تحریر ہے، لیکن اس بات کی تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ ایرانی قیادت کے آپس کے ان شدید اختلافات کے اصل محرکات کیا ہیں؟ کیا وہ مستقبل میں اپنی یک جہتی برقرار رکھ پائیں گے؟
’امریکا اور عالمِ اسلام‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکی حکمرانوں کو ان کے قول و عمل کے تناظر میں مسکت انداز میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں محترم میاں طفیل محمد مرحوم و مغفور پر تعزیتی شذرہ اختصار و جامعیت کا مرقع اور دل پر اثرانداز ہونے والی تحریر ہے۔
’اسلامی بنکاری کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) کے مطالعے سے اسلامی بنکاری کی پیش رفت کا اندازہ ہوا، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع سے متعلق دیگر امور بھی زیربحث لائے جائیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں سود کی ممانعت ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مرکز اور صوبوں میں افہام و تفہیم کی ضرورت ہے، اس مسئلے کو بھی زیربحث لایا جانا چاہیے۔ ملک میں جاری اسلامی بنکاری پر علما میں پایا جانے والا اختلافِ راے بھی اعلیٰ سطح پر علمی بحث اور افہام و تفہیم کا متقاضی ہے۔ سود کی ممانعت کا مقدمہ جو التوا کا شکار ہے۔ اسے بھی ازسرِنو اٹھانے کی ضرورت ہے مگر اس پر دینی و سیاسی جماعتیں اور پارلیمان خاموش ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے پٹرول کی قیمت میں کمی کے لیے اقدام اٹھایا لیکن جس طرح سے آرڈی ننس کے ذریعے اسے غیرمؤثر کردیا گیا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عدالتی اقدام کی حیثیت محض ایک کاغذی فیصلے کی ہے اور اسمبلی خاموش تماشائی ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل قیمتوں کی شرح (پرائس لیول) پر سود، جو بعض امور میں ۴۵ فی صد تک پہنچ چکا ہے، کے خاتمے کے لیے کوشش کا آغاز ہے۔ یہ وہ ریلیف ہوگا جسے کسی آرڈی ننس کے ذریعے سے ختم نہ کیا جاسکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اسلامی جو سود کے خاتمے کے نظام کی علَم بردار ہے، اس مسئلے کو آگے بڑھ کر عوامی سطح پر اٹھائے اور علمی حلقوں میں مؤثر آواز بلند کرے۔
’رسائل و مسائل‘ کے تحت ’بیوٹی پارلر کی تعلیم اور کاروبار‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) کا جواز دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے، جب کہ اس میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جن سے احادیث میں منع کیا گیا ہے، مثلاً بھوئیں بنوانا، چہرے کے بال صاف کروانا۔ ایک حدیث میں تو چہرے پر غازہ (مصنوعی رنگ) لگانے کی بھی ممانعت ہے اور اسے بنی اسرائیل کی ہلاکت کے اسباب میں سے ایک سبب شمار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد چہرے اور ہاتھ پائوں کی خوب صورتی اور نکھار (فیشل پیڈیکیئر ، مینیکیئر) ہی رہ جاتے ہیں جو کہ کروایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیوٹی پارلر کے کورس کی تربیت کے دوران میں ایک خاتون ان تمام غیرشرعی کاموں سے کیسے بچ سکتی ہے؟ اس پہلو کی وضاحت کی بھی ضرورت تھی۔
سوات، دیر، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں شورش اور فوجی آپریشن کے متعلق (جون ۲۰۰۹ء) جس عرق ریزی سے سیرحاصل گفتگو اور اس خطرناک شورش کے پس پردہ محرکات سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ مسئلے کے پُرامن حل کے لیے ہمارے حکمرانوں کے سامنے جو دور رس تجاویز رکھی گئی ہیں، کاش! ہمارے حکمران ان پر کان دھرتے۔ اچھا ہوتا کہ پروفیسر صاحب و دیگر صاحب ِ بصیرت و دُور اندیش ارکانِ پارلیمنٹ ان چشم کشا انکشافات کو قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش کریں۔
’اسلام اپنی نگاہ میں‘ از ڈاکٹر ساجیکو مراتا ولیم سی چٹیک پر مکرمی ڈاکٹر انیس احمد نے (جون ۲۰۰۹ء) تبصرہ کیا جس پر میں ان کا ممنون ہوں۔ تاہم ایک دو نکات وضاحت طلب نظر آئے۔ آیاتِ قرآنی کے اُردو ترجمے کی ذمہ داری سراسر مترجم کی ہے اور اس کے لیے میں نے تقریباً ہرجگہ شاہ عبدالقادر صاحبؒ (بسااوقات بہ ترامیم خفیفہ) کا ترجمہ استعمال کیا ہے اور معاصر تراجم استعمال کرنے سے شعوراً گریز کیا ہے۔ بعض جگہ جو تراکیب/اسلوب میں کہنگی اور نامانوس ہونے کی کیفیت ہے وہ اسی فیصلے کی دین ہے۔
دوسری بات یہ عرض کرناہے کہ مصنف ڈاکٹر شمس الدین چیٹک اور ان کی اہلیہ زینہ شمس الدین دونوں اُردو بالکل نہیں جانتے، لہٰذا مولانا مودودی کی کتاب مذکور (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں) کے استعمال کا قطعاً سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مصنفین تو شاید اس کتاب کے وجود سے بھی باخبر نہ ہوں گے۔ حوالے سے گریز کو عمداً یا سہواً پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ اسماعیل الفاروقی الراجی کی سب چیزیں میری دیکھی ہوئی ہیں۔ مجھے یہ قبول کرنے میں تامل ہے کہ وہ اس سطح کی بحث میں کوئی وقیع حوالہ بن سکتے ہیں خصوصاً جب مآخذ، حوالے، فکری فضا اور سطح کلام کلاسیکی مسلم علما کی تحریروں سے براہِ راست مستفاد ہو!
قریباً سبھی مصنفین ابھی تک اُردو کی تحریروں میں فارسی کے محاورے، الفاظ یا اشعار استعمال کرتے ہیں، پھر اس کا ترجمہ بھی موجود نہیں ہوتا اور قارئین کو فارسی دان سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر فروری کے شمارے میں مولانا مودودی کا یہ مقالہ ’پس چہ باید کرد‘ (ص ۳۹) موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا صاحب آج موجود ہوتے تو حالات اور معاشرے کو جانتے ہوئے خود بھی ضرور ترجمہ کرتے۔
لوگ تو صحیح اُردو ہی بھول چکے ہیں کجا کہ انھیں فارسی سمجھ آئے۔ آج کل تو انگریزی کا راج ہے اور اب تو ہندی بھی گھر کرنے لگی ہے۔ یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ میڈیا اور ٹی وی چینل اس کا بڑا ثبوت ہیں، اور پھر ان میں کس قدر غلط تلفظ کے ساتھ اُردو بولی جاتی ہے۔ کیا رپورٹر، کیا خبریں پڑھنے والے/والیاں یا بحث و مباحثہ کرنے والے، سب ہی تو عیاں ہیں۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی زبان کا تحفظ ضروری ہے جس کے لیے ترجمہ ضروری ہے ورنہ اپنے ماضی اور آباو اجداد کی اقدار نسلوں تک پہنچانا بڑا دشوار ہوگا۔ سب قصۂ پارینہ بن جائے گا۔