سیکولر قوم پرستی کتنی بزدل اور موقع پرست ہوتی ہے، اس کی مثالیں مسلم دنیا میں بڑی کثیر تعداد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ آج کے پاکستان میں اس کی قابلِ ذکر مثال مہاجر قوم پرستی کی صورت میں سامنے ہے اور پاکستان میں سب سے پہلے سر اُٹھانے والی بنگلہ قوم پرستی، ایسی موقع پرستی اور بزدلی کے ثبوت قدم قدم پر پیش کر رہی ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا، جو سابقہ ہندستان میں مسلم اکثریت کے دو خطوں پر مشتمل تھا: ایک موجودہ پاکستان جسے مغربی پاکستان کہتے تھے اور دوسرا مشرقی بنگال، جسے مشرقی پاکستان کہتے تھے۔ ایک تلخ حکومتی کلچر، بنگلہ قوم پرستی اور بھارت کی براہِ راست مداخلت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، بھارت کی فوجی یلغار اور عوامی لیگ کی زیرقیادت بنگلہ قوم پرستی کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان سے الگ ہوکر ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگلہ دیش بن گیا۔ بنگلہ دیش میں بہت سے سیاسی نشیب و فراز آئے، لیکن ۳۸ برس گزرنے کے بعد آج ایک نئے روپ میں بنگلہ قوم پرستی جو راگ الاپ رہی ہے، اس کا ایک نمونہ یہ اعلامیہ ہے:
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ۱۹۷۱ء کی جدوجہدِ آزادی کی مخالفت کرنے اور پاکستانی فوج و حکومت کا ساتھ دینے والوں پر ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے چلانے میں مدد دے۔ بنگلہ دیش حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: اس حوالے سے ہمیں سیکڑوں افراد مطلوب ہیں۔ ہم نے اپنے انتخابی منشور میں اس امر کا عہد کر رکھا ہے کہ یہ مقدمات ہم ضرور چلائیں گے۔ شیخ مجیب نے [۱۹۷۲ء میں] اس ضمن میں ۳۷ ہزار افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں بڑی تعداد اسلام پرستوں (اسلامسٹوں) پر مشتمل تھی، جو نہ تو [مشرقی پاکستان کی] پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے، اور نہ بنگلہ دیش کو ایک سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ ان گرفتار شدگان میں سے چند ایک پر مقدمے بھی چلائے گئے، تاہم بعدازاں شیخ مجیب نے ۱۱ ہزار افراد کو معاف کر دیا، جب کہ دوسرے ۲۶ ہزار افراد کو شیخ مجیب الرحمن کے قتل [۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء] کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ایک نجی تحقیقاتی کمیٹی نے ایسے ۱۵۹۷ افراد کی فہرست تیار کی ہے، جو جنگی مجرم ہیں۔ ان مجرموں میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت بھی شامل ہے۔ ہم اپنی مدتِ حکومت کے دوران ان مقدمات کا فیصلہ کریں گے (One World South Asia،۲۸ جنوری ۲۰۰۹ء)
یہ ہیں وہ عزائم، جنھیں عوامی لیگ کی قیادت ایک سیاسی سٹنٹ اور شوشے کے طور پر وقتاً فوقتاً اچھالتی آرہی ہے اور اس کے مددگار اس کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ ماہ کے اخبارات، عوامی لیگ کی اس پروپیگنڈا مہم سے سیاہ نظر آتے ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کے بنگلہ دیشی عام انتخابات میں بھی عوامی لیگ نے اس مسئلے کواپنی انتخابی تقاریر میں مرکزی حیثیت دے رکھی تھی۔ ہر قاری اور ناظر کے لیے یہ سوال دل چسپی کا باعث ہے کہ ۳۸برس بعد اچانک یہ مسئلہ کیوں بنگلہ دیش کی سیاست میں زندگی اور موت کا موضوع بنایا جا رہا ہے جس میں عوام کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ عوامی لیگ کہ جس نے بنگلہ دیش جیسی عظیم مسلم اکثریتی ریاست کو بھارت کی تابع مہمل اور اقتداراعلیٰ کی نچلی سطح پر کھڑی ریاست بنا رکھا ہے، وہاں کے لوگ عوامی لیگ سے اپنی قومی خودمختاری اور غیرت و حمیت پر مبنی زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر وہ اس سیدھے سوال کا جواب دینے کے بجاے، ۴۰سال پرانے واقعات پر مبنی جھوٹے مقدمات چلانے کو تمام قومی مسائل کا حل قرار دے رہی ہے۔ دراصل یہ مسئلہ اتنا سادا نہیں، بلکہ اس بنگلہ دیشی قوم پرستی کی پشت پناہی، درپردہ بھارتی اور امریکی حکومتیں بھی کر رہی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ان اسلامیانِ مملکت کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے، جو اپنے اپنے معاشروں میں، قومی غیرت و حمیت کا تحفظ اور اپنے قومی دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں اور کسی غیر ملکی قوت کی غلامی نہیں چاہتے۔ اس لیے عوامی لیگ کی جارحانہ پروپیگنڈا مہم بھی نام نہاد امریکی جنگ دہشت کا ایک شاخسانہ ہے۔
البتہ اس کی فوری و جہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ۲۰۰۱ء کے قومی انتخابات میں ’چار جماعتی اتحاد‘ میں شامل جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) نے بھرپور کامیابی حاصل کی (جماعت کے ۱۷ ارکان اور چار خواتین پارلیمنٹ کی ارکان منتخب ہوئیں)۔ جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو حکومت میں دو وزارتوں کے قلم دان سونپے گئے۔ ان میں مطیع الرحمن نظامی (امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش) وزیر زراعت اور علی احسن مجاہد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش) وزیر سماجی امور مقرر ہوئے۔ ان دونوں وزرا نے پانچ برس تک بنگلہ دیش میں جس لگن، دیانت داری، بے پناہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر وزارتی ذمہ داریاں ادا کیں، انھوں نے پورے ملک کے سوچنے سمجھنے والے حضرات پر گہرے مثبت اثرات مرتب کیے، جب کہ بنگلہ قوم پرستی کی علَم بردار عوامی لیگ کے ریکارڈ میں کرپشن اور بددیانتی پر مبنی بُری حکومت گردی کے گہرے داغ، مٹائے نہیں مٹ پاتے۔ اس صورت حال نے بھی عوامی لیگ اور اس کے سرپرستوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا، کہ کسی طرح وہ جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیں۔
اس مضمون کے شروع میں عوامی لیگ کا جو جارحانہ پالیسی بیان دیا گیا ہے ، اس کو دیکھیں تو یہ نکات سامنے آتے ہیں:
اس ’فردِ جرم‘ کی حقیقت پر بات کرنے سے پیش تر چند باتوں کو بیان کرنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم کے دوران میں عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں غنڈا گردی کا ایسا بازار گرم کیے رکھا کہ کوئی بھی مدِمقابل پارٹی کھل کر اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکی۔ دوسرا یہ کہ اس فضا میں بلاشرکت غیرے تمام نشستوں پر وہ انتخاب جیت گئی۔ تیسرا یہ کہ صدر جنرل یحییٰ خان، مغربی پاکستان سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن [والد: حسینہ واجد] نے جس غیرلچک دار رویے کو اپنایا، اس نے دو ماہ کے اندر اندر مشرقی پاکستان کی سیاسی فضا کو سخت کشیدہ بنا دیا۔ چوتھا یہ کہ جب بھٹو صاحب کے ایما پر جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو عوامی لیگ کے اُکسانے پر پورے مشرقی پاکستان میں یکم مارچ سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران میں ایسی سول نافرمانی شروع ہوئی کہ جس میں عوامی لیگیوں نے اُردو بولنے والے ہم وطنوں کے ساتھ پنجابی اور پٹھان پاکستانیوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا۔ عورتوں کی بے حرمتی کی، ان کے بے لباس جلوس نکالے، بڑے بڑے مذبح خانے بناکر ان مظلوم ہم وطنوں کی گردنیں کاٹیں، ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینکیں اور ان کے خون سے بڑے بڑے ڈرم بھر ڈالے۔ یہ تمام شرم ناک تفصیلات سیکولر قوتوں کے لیے بائبل کا سا درجہ رکھنے والے رسائل (ٹائم، نیوزویک، لائف، اکانومسٹ وغیرہ) کی مارچ ۱۹۷۱ء کی اشاعتوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان لاکھوں بے گناہ مظلوموں کے بہیمانہ قتل میں عوامی لیگ کی مرکزی قیادت شامل تھی۔ مگر اس خون کا حساب کوئی مانگ نہیں رہا۔ پانچویں یہ کہ ۲۵ مارچ کو جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا آغاز کیا، جس کے بعد ۱۲ روز کے دوران بڑی تعداد میں بنگالی شہری مارے گئے۔ چھٹے یہ کہ اپریل ۱۹۷۱ء سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے دوران میں بھارتی فوج کی کھلی اور چھپی پشت پناہی کے ساتھ مکتی باہنی اور بھارتی گوریلا فورس نے مل کر گوریلا جنگ شروع کی۔ ساتویں یہ کہ پاکستانی فوج اور محب وطن بنگالیوں کے خلاف یہ بے بنیاد اور انتہائی فحش پروپیگنڈا کیا گیا کہ ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا اور ۳ لاکھ عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ایسے چند انتہائی افسوس ناک واقعات کو لاکھوں میں تبدیل کر دینا، سیکولر روشن خیالی کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آٹھواں یہ کہ۲۱ نومبر ۱۹۷۱ء کو بھارت نے کھلے عام مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ نواں یہ کہ ۱۶ دسمبر کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد پھر مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے تعاون سے محب وطن بنگالیوں، اسلامی عناصر اور غیربنگالی پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی۔ اس قتلِ عام کا کوئی حساب نہیں۔
یادرہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ اور بھارتی فوج کی مزاحمت کرنے کے لیے جن قوتوں نے اپنے دوٹوک اصولی موقف کا اعلان کیا، ان میں جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ، نظامِ اسلام پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی اور جمعیت العلما شامل تھے۔ تاہم بنگلہ دیش بن گیا اور پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بلاشرکت غیرے حکومت قائم ہوگئی۔ انتقامی کارروائیوں کا دور دورہ شروع ہوا۔ ایک مدت تک قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ پاکستان کے ۹۰ہزار جنگی قیدی (فوجی اور سویلین) بھارت کی جیلوں میں منتقل ہوگئے۔
۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب کی حکومت نے کولیبوریٹرز ایکٹ (Collaborators Act) بناکر ان افراد کی پکڑدھکڑ شروع کی، جنھوں نے پاکستان توڑنے کی مہم کا ساتھ دینے کے بجاے، ایک پاکستان کا ساتھ دیا، اور بھارتی افواج کی مدد کر کے دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ نہیں بنے۔ اس ایکٹ کے تحت ۳۴ہزار ۴ سو ۷۱ افراد پر چارج شیٹ لگائی گئی۔ ۳۰ہزار ۶سو ۲۳ افراد کے نام فہرستوں میں تو لکھے مگر ان پر کوئی الزام نہ عائد کیا جاسکا۔ کُل ۲ہزار۸سو ۴۸ افراد پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان میں سے بھی ۲ ہزار ۹۶ افراد پر کوئی جرم ثابت نہ کیا جاسکا، اس لیے ان کو رہا کردیا گیا۔ جب کہ ۷۵۲ افراد کو مجرم قرار دیا گیا۔ اس مشق کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے نومبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ماضی کو دفن کرتے ہیں، اب ہم سب مل کر بنگلہ دیش کی تعمیروترقی کا کام کریں گے۔ آج کے بعد یہ باب بند ہوتا ہے‘‘ (تاہم جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد رکھنے اور جماعت کے مرکزی قائد پروفیسر غلام اعظم [پ: ۷ نومبر ۱۹۲۲ء] کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان برقرار رکھا)۔ اس طرح بنگلہ دیش کے بانی نے ’جدوجہدِ آزادی‘ کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کی تقسیم کے انتقامی کلچر کو ختم کرنے کا عہد کیا۔ گویا کہ تقریباً دو سال تک بھرپور ریاستی طاقت استعمال کرکے انھوں نے ۷۵۲ افراد کو سزا کے لیے چن لیا تھا۔ یہ تمام پیش کردہ اعداد و شمار خود مجیب حکومت نے پیش کیے تھے، لیکن دوسری جانب عوامی لیگ کے نئے وزیرقانون شفیق احمد جنوری ۲۰۰۹ء میں جن اعداد و شمار کو پیش کر رہے ہیں، انھیں مجیب کے اعداد و شمار سے کوئی نسبت نہیں۔ معلوم نہیں ان میں درست کون ہے اور غلط کون؟ (تاہم ۷ نومبر ۱۹۷۵ء کے تیسرے فوجی انقلاب میں مکتی باہنیکے ہیرو جنرل ضیاء الرحمن نے عنانِ حکومت سنبھالی اور ۳۱ دسمبر ۱۹۷۵ء کو اس کولیبوریٹر ایکٹ کو صدارتی آرڈر کے ذریعے منسوخ کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نومبر ۱۹۷۳ء سے لے کر دسمبر ۱۹۷۵ء کے دوران میں اس ایکٹ کے تحت نہ کوئی مقدمہ قائم ہوا، اور نہ کسی قیدی کو سزا ہوئی۔ اس لیے منطقی طور پر یہ ایکٹ اپنی افادیت کھو چکا تھا)۔
۱۷؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمن نے پارلیمنٹ میں ایک خصوصی ٹریبونل بنانے کا اعلان کیا، اور یہ کہا: ’’پاکستانی افواج اور ان کے مددگار عناصر کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام، انسانی بے حرمتی اور دیگر جرائم کی تحقیقات کرنے اور جنیوا کنونشن کے آرٹیکل ۳ کی روشنی میں مقدمات چلانے کے لیے ۱۹۵ افراد کی فہرست تیار کرلی گئی ہے اور مئی ۱۹۷۳ء کے اواخر تک اس ٹریبونل کے سامنے مذکورہ تمام جنگی مجرموں کو پیش کر دیا جائے گا‘‘ (مجیب حکومت کی اس فہرست میں درج ذیل تمام افراد کا تعلق مسلح افواج پاکستان سے تھا اور وہ تمام مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک نام بھی کسی سویلین مغربی پاکستانی یا سویلین بنگالی کا شامل نہیں تھا)۔
اس مقصد کے لیے پہلے تو ۱۵ جولائی ۱۹۷۳ء کو ان شہری حقوق کو سلب کیا گیا کہ جو اسے تنظیم سازی، آزادی راے اور دفاعِ ذات کا حق دیتے ہیں، پھر ۱۹ جولائی ۱۹۷۳ء کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ پاس کیا، تاکہ ۱۹۵ پاکستانی فوجی افسروں کے خلاف جنگی مقدمات چلائے جاسکیں۔ لیکن اس دوران میں پاکستان اور بھارت کے درمیان وزارتی سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے۔ بھارت کی نمایندگی سردار سورن سنگھ اور ڈی پی دھر نے کی، جب کہ پاکستان کی نمایندگی عزیز احمد اور آغا شاہی کر رہے تھے۔ بعدازاں بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ کمال حسین بھی ان مذاکرات کا حصہ بن گئے اور ۹؍ اپریل ۱۹۷۴ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے آرٹیکل ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ کے مطابق مذکورہ ۱۹۵ جنگی ملزموں کو بھی عملاً معاف کر دیا گیا اور اس مسئلے کو ریاستی سطح پر حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا (یاد رہے کہ ان ۱۹۵ افراد میں کوئی ایک فرد بھی جماعت اسلامی سے متعلق نہیں تھا)۔
اسی طرح یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مدتوں تک جماعت اسلامی کی قیادت کو کسی ’مجرمانہ سرگرمی‘ میں ماخوذ نہیں کیا گیا کہ مقدمات چلائے جاتے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت دینی، سماجی، سیاسی اور آئینی اصلاحات و خدمات کی سرگرمیوں میں بھرپور انداز سے شریک رہی۔ ان میں سے اکثر قائدین نے قومی دھارے کی سیاست میں حصہ لیا اور انتخابات میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۳ء کے انتخابات میں اس لیے حصہ نہ لیا کہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد تھی، لیکن ۱۹۷۹ء کے عام انتخابات میں ’’اسلامک ڈیموکریٹک لیگ‘‘ (IDL) کے نام سے حصہ لیا اور چھے نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۸۶ء کے عام انتخابات میں ۱۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں ۱۸ نشستوں پر جماعت اسلامی کے ممبران اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۶ء میں ۳ نشستیں جیتیں اور پھر ۲۰۰۱ء کے انتخابات میں بی این پی (خالدہ) کے ساتھ مل کر دو تہائی اکثریت سے کامیابی ملی۔ عوامی لیگ، ہندو کمیونٹی اور مغربی ایجنڈے کی حامل این جی اوز کے نہایت زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود دسمبر ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں بھی جماعت کے تمام قائدین نے حصہ لیا۔ بنگلہ دیش میں امیدواری کے قوانین کے مطابق جنگی جرائم میں ماخوذ کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ لیکن چونکہ جماعت کے قائدین ایسے جرائم میں ملوث نہیں تھے، اس لیے ان میں سے کسی ایک امیدوار کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد نہ ہوئے۔
دراصل یہ ’جنگی جرائم کا ڈراما‘ رچایا صرف اس مقصد کے لیے جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی قوتوں کو قومی دھارے سے نکال باہر کیا جائے، جب کہ جماعت اسلامی جمہوری، پُرامن، آئینی اور خدمتِ خلق کی جدوجہد کا وسیع ریکارڈ رکھتی ہے۔ اسے کسی طور عوامی رابطے سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے۔
یاد رہے اس سے قبل جماعت اسلامی کو ایک بڑی صبرآزما آزمایش سے گزرنا پڑا اور وہ آزمایش تھی بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ہر دل عزیز اور مرکزی لیڈر پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کا مسئلہ۔ نومبر ۱۹۷۱ء میں پروفیسر غلام اعظم، مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے کہ دوسرے روز بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس طرح ڈھاکہ جانے کے تمام فضائی رابطے کٹ گئے، اور وہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں معلق ہوکر رہ گئے۔ دو سال کے بعد سعودی عرب گئے اور پھر لندن منتقل ہوگئے۔ بعد میں جنرل ضیاء الرحمن نے جماعت اسلامی پر عائد پابندیاں ختم کرکے پروفیسر غلام اعظم کو پاکستانی پاسپورٹ پر ڈھاکہ آنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب وہ جولائی ۱۹۷۸ء میں وطن واپس آئے تو ایک عرصے تک انھیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حق سے محروم رکھا گیا کہ: ’’وہ بنگلہ دیشی شہریت نہیں رکھتے‘‘۔ پھر ایک عرصے تک انھیں قیدوبند سے گزرنا اور سخت عدالتی عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس میں بنیادی سوال ان کی شہریت کا تھا۔ ڈھاکہ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس محمد اسماعیل الدین سرکار نے ان کی اپیل پر فیصلے میں لکھا: ’’درخواست گزار، پروفیسر غلام اعظم کو پریس فوٹو میں بلاشبہہ پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خاں اور جنرل ٹکا خاں سے ملاقات کرتے دیکھا گیا ہے، مگر کسی جنگی اقدام میں ان کا کوئی کردار ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، اس لیے ان کی شہریت کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے‘‘ (غلام اعظم بنام بنگلہ دیش Dhaka Law Report، نمبر۴۵، ہائی کورٹ ڈویژن، ص ۴۳۳)۔ اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے حکومت سپریم کورٹ میں گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے، پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کو بحال رکھنے کا حکم جاری کیا۔ (غلام اعظم بنام بنگلہ دیش Dhaka Law Report، نمبر۴۶، اپیلیٹ بنچ ، ص ۱۹۲)
اگر تاریخ کے ریکارڈ کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق کے تحفظ اور آئین کی عمل داری کے لیے جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے پہلے مشرقی پاکستان میں اور پھر بنگلہ دیش میں مل جل کر جدوجہد کی۔ شفاف انتخابات کے لیے ’نگران حکومت‘ کے قیام کی تجویز پروفیسر غلام اعظم نے پیش کی، جس کی تائید تقریباً تمام پارٹیوں نے کی اور وہ تجویز دستور کا حصہ بن گئی۔ ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات میں بی این پی (خالدہ) نے ۱۴۰ نشستیں جیتیں، عوامی لیگ نے ۸۸ اور جماعت اسلامی نے ۱۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جماعت نے بی این پی کی حمایت کی جس سے یہ حکومت ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۶ء تک قائم رہی۔ اس عمل سے عوامی لیگ ناراض ہوگئی۔ آخرکار عوامی لیگ، جاتیوپارٹی (ارشاد) اور جماعت اسلامی نے ۱۹۹۶ء میں پارلیمنٹ سے استعفے دے دیے اور تینوں پارٹیوں نے مل کر سیاسی جدوجہد کی۔ مطیع الرحمن نظامی اور علی احسن مجاہد، حسینہ واجد کے گھر اجلاسوں میں جماعت اسلامی کی نمایندگی کرتے رہے، مشترکہ جلوس نکالتے اور پریس کانفرنسیں کرتے رہے۔ تب موصوفہ کو ان رہنمائوں کے چہروں پر ’جنگی جرائم‘ کا کوئی داغ دکھائی نہ دیا۔ لیکن جوں ہی ۲۰۰۱ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے بی این پی کے ساتھ چار جماعتی اتحاد میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تو عوامی لیگ کو ۱۹۷۱ء کی یاد ستانے لگی، حالانکہ ان کے والدگرامی اس دریا کو عبور کر چکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اپنی گھٹی میں پڑے فاشی اور آمرانہ جذبے کے ہاتھوں مغلوب ہوکر جون ۱۹۷۵ء میں تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کرکے واحد سیاسی پارٹی: ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ (BKSAL) قائم کی اور تمام اخبارات پر پابندی عائد کر کے صرف چار سرکاری اخبارات کی اشاعت کی اجازت برقرار رکھی۔ صرف ڈھائی ماہ ہی گزرے تھے کہ فوج نے بغاوت کر کے ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو انھیں اہلِ خانہ سمیت قتل کر دیا۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی [پ: ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء] نے عوامی لیگ کی اس تازہ پروپیگنڈا مہم کے جواب میں Probe میگزین کو بتایا: ’’گذشتہ مدتِ حکومت کے دوران میں جماعت اسلامی کی کامیابی اور دو وزارتوں میں کامیاب حکمرانی نے سیکولر قوتوں کے اوسان خطا کردیے۔ پہلے انھوں نے اسٹیج کردہ دھماکوں میں بددیانتی سے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی۔ کوئی فرد جماعت کے لٹریچر سے ایسا ایک لفظ بھی نہیں پیش کرسکتا کہ جس میں تشدد پسندی کو فروغ دینے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا کوئی جواز اور حوالہ پیش کیا جاسکتا ہو۔ اسی طرح عوامی لیگ دومرتبہ حکومت میں رہی، سب سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۵ء تک، جب کہ اس کے سربراہ خود شیخ مجیب الرحمن تھے اور دوسری مرتبہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران میں، جب کہ اس کی سربراہ حسینہ واجد تھیں۔ پہلے دور میں تو کوئی فرد انھیں چیلنج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کیا اُس زمانے میں وہ جماعت اسلامی کے خلاف کوئی ایک مقدمہ بھی دائر کرسکے؟ ایک بھی نہیں۔ اسی طرح جب میجر رفیق وزیرداخلہ نے جنگی مجرموں کی فہرست تیار کی تو جماعت اسلامی کے کسی ایک رکن کا بھی نام اس میں شامل نہ کرسکے۔ اس لیے یہ مقدمات چلانے کی سطحی نعرے بازی دراصل جماعت اسلامی کو خوف زدہ کرنے کے لیے سیاسی مخالفین کی ایک اوچھی چال اور سیاسی دہشت گردی ہے۔ یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ ساتھ دو تو ٹھیک، اور ساتھ نہ چلو تو مجرم۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی آمریت کے خلاف عوامی لیگ کے ۱۵ پارٹی اتحاد اور خالدہ ضیاء کے سات پارٹی اتحاد سے مل کر ہم نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی، اور پھر ’کیر ٹیکر گورنمنٹ‘ [نگران حکومت] کا قانون پاس کرانے کے لیے بھی جماعت اسلامی سے عوامی لیگ نے مل کر خالدہ ضیاء حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ دستور میں ترمیم کریں‘‘(۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ اسی طرح ٹائمز آف انڈیا (۷ مئی)کو انٹرویو دیتے ہوئے، مطیع الرحمن نظامی نے کہا: ’’۱۹۷۱ء میں پاکستان ایک ملک تھا اور برملا ہم اس کے ساتھ وفادار تھے۔ اب بنگلہ دیش ایک ملک ہے، اور ہم اس کے شہری ہوتے ہوئے، اس کے ساتھ حب الوطنی سے وابستہ ہیں۔ البتہ سوچنے کا مقام ان لوگوں کے لیے ہے جو سیاسی دیوالیہ پن کے شکار ہیں اور اپنی فاشی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بے جا الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں‘‘۔
اب بنگلہ قوم پرستی کے اس سیکولر دھارے کے ان اقدامات اور عزائم پر نظر ڈالیں: