اسلام کے خلاف مغرب کا بڑھتا ہوا تعصب تیزی سے سامنے آ رہا ہے۔ سیاست ہو یا معیشت، تعلیمی میدان ہو یا شعبہ طب، غرض ہر میدان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ نسلی اور مذہبی تعصب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل واقعات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
برسلز کے مشہور عرب جریدے الشرق الاوسط کے نمایندے کے مطابق اس نے بلجیم کے انتخابات سے ایک روز قبل ماہ نور سے پوچھا کہ کیا انھیں یہ خدشہ نہیں کہ برسلز کی پارلیمنٹ میں انھیں اسکارف کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں ملے گی؟ جواب میں ماہ نور نے نہایت سکون کے ساتھ کہا کہ وہ انتخابات یا پارلیمنٹ کی وجہ سے اپنا اسکارف ہرگز نہیں اُتاریں گی۔ لوگوں کو اِن کے کام کی طرف دیکھنا چاہیے نہ کہ اسکارف کی طرف۔ ماہ نور کی کامیابی سے بلجیم کی مسلمان کمیونٹی اور سیکولر کمیونٹی کے درمیان ایک سردجنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ نااہل قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بلجیم کی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، اس لیے اُن کو نمایندگی کا کوئی حق نہیں۔
بلجیم شمال مغربی یورپ میں واقع ہے اور یورپی یونین کا رکن ہے۔ آن لائن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اِس ملک میں رہنے والوں کی اکثریت رومن کیتھولک چرچ کے زیراثر ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان بھی رہتے ہیں جن کی تعداد ۴۰ سے ۵۰ لاکھ کے درمیان ہے۔ گویا ملک کی تین سے چار فی صد آبادی مسلمان ہے۔
ماہ نور ازدمیر ۳۶ سالہ ترک نژاد مسلمان ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد اُن کی پارٹی بھی ان کی مخالفت کر رہی تھی کہ وہ اسکارف اُتار دیں۔ وہ پارٹی کے لیے ایک عرصے سے کام کر رہی ہیں اور اس سے پہلے وہ پارٹی کے ٹکٹ پر کونسلر کا انتخاب بھی جیت چکی ہیں۔ انتخابات کے دوران پارٹی کی جانب سے جاری پوسٹر سے اُن کی تصویر سے اسکارف غائب کر دیا گیا۔ اس پر اُنھوں نے پارٹی قیادت سے احتجاج کیا جس پر پارٹی نے باقاعدہ طور پر اِن سے معذرت کی۔
الشرق الاوسط کے نمایندے نے اِن سے پوچھا کہ پارلیمنٹ میں جاکر وہ ترجیحاً کن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گی تو اِن کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ختم کرانا اِن کی ترجیحِ اول ہوگی۔ اسی طرح عیدالضحیٰ اور بعض دوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اپنے گھروں میں جانور ذبح کرنے کی اجازت، نیز مسلمان تنظیموں کے عطیات جمع کرنے پر پابندی کے خلاف بھی وہ آواز اٹھانا چاہتی ہیں۔
۱۹۹۵ء میں بلجیم کی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان رکن کا اعزاز حاصل کرنے والے محمدالضیف کا کہنا تھا کہ بلجیم کی اکثریت اسلام کی دیانت اور سچائی کی قائل ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں یہاں کے مسلمانوں کو متحد ہوکر پہلے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ ماہ نور ازدمیر کو ابھی بہت کام کرنا ہے اور وہ اپنے نیک مقاصد کے حصول کے عزم کے ساتھ پارلیمنٹ میں حلف اُٹھائیں گی۔ اب دیکھیے کہ اس کش مکش کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے!
۳۱ سالہ ڈاکٹر مسرت شاہ برطانوی علاقے لیڈز کے ایک ہسپتال میں بطور سرجن کام کرتی ہیں۔ ایمپلائر ٹربیونل میں اپنی برطرفی کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمے میں اِن کا کہنا تھا کہ اُن کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نسلی تعصب اور مذہبی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اُن کے قریبی ساتھیوں نے بھی ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ اِس کے چار ساتھی ڈاکٹروں کو اِن کی یہ روش پسند نہ تھی کہ وہ ہرجمعے کو باقاعدگی سے مسجد جائیں اور شہربھر سے آئی ہوئی مسلمان خواتین کے ساتھ نمازِ جمعہ کی ادایگی کا شرف حاصل کریں، جب کہ جمعہ کے روز اِن کے حصے میں کسی بھی سرجری کا کوئی شیڈول نہیں ہوتاتھا۔ لیکن ساتھی ڈاکٹروں کے اعتراض کے بعد نماز کے وقت سرجری کا کام تفویض کر دیا جاتا تھا جس سے اِن کو دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ حالانکہ اس سے پہلے کئی برس تک ایسا نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کے مسلسل اصرار پر انھوں نے ۸؍ اگست ۲۰۰۸ء سے نمازِ جمعہ کی ادایگی کے لیے جانا ترک کردیا اور ہسپتال میں انفرادی طور پر نماز ادا کرنا شروع کر دی لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اور ساتھی ڈاکٹروں کی تشفی نہ ہوئی اور ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ انچارج ڈاکٹر مارکوس جولیر نے کہا کہ دنیا کا کوئی کام یا نماز، سرجری سے زیادہ اہم نہیں۔ اس لیے سرجری کے لیے نماز ترک کر دینا چاہیے۔ دوسری طرف یہی مغرب ہے جو انسان کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ کیا یہ تضاد اور دہرا معیار نہیں؟
اگست ۲۰۰۸ء میں مروہ الشربینی جو کہ مصری نژاد ہیں اپنے بیٹے مصطفی کے ساتھ ایک پارک میں تھی کہ ملعون ایگزل ڈبلیو نامی شخص نے مروہ کو حجاب میں دیکھ کر ’دہشت گرد‘ کہا۔ جب مروہ نے اسے جواب دیا تو اس نے اللہ رب العزت اور نبی مہرباںؐ کی شان میں گستاخی کی اور اسلام کی توہین اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ پارک میں اس ہونے والے جھگڑے کی شکایت مروہ الشربینی نے مقامی عدالت میں کی۔ عدالت نے شربینی کے دعوے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مذکورہ شخص کو جرمانہ کیا لیکن اس ملعون نے دوسری عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔
عدالت نے دونوں کو طلب کیا۔ سب سے پہلے مروہ الشربینی سے واقعے کی تفصیلات معلوم کیں اور اس کے بعد جرمن باشندے ایگزل سے کہا کہ وہ واقعہ بتائے تو اس نے کہا میرا بس چلے تو میں اس عورت کو حجاب پہننے کی ایسی سزا دوں کہ ہمیشہ یاد رکھے۔ اس پر عدالت نے اس کو مسلمان عورت کو گالی گلوچ کرنے اور قتل کی دھمکی دینے پر ۷۸۰ جرمن مارک یا ۲۸۰۰ یورو کا جرمانہ کر دیا اور اُسے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یہ سنتے ہی جنونی ملعون ایگزل ڈبلیو نے بھری عدالت میں اسلام کی باحجاب بیٹی پر خنجر سے حملہ کردیا، اس کا حجاب نوچ ڈالا اور اس کے جسم پر خنجر سے وار کرنے شروع کر دیے۔ پولیس یہ خونی منظر دیکھنے کے باوجود مروہ الشربینی کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھی۔ مروہ کے شوہر علوی عکاظ نے چیخ چیخ کر عدالت میں کھڑی مسلح پولیس سے کہا کہ وہ اس کی بیوی کو بچائیں۔ مروہ کو بچانے کے بجاے پولیس نے اس کے شوہر کو دو گولیاں ماریں جس سے اس کی ٹانگیں شدید متاثر ہوئیں، حالاں کہ وہ اپنی بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تھا۔ اس دوران جنونی قاتل نے مروہ کے شوہر پر بھی خنجر برسائے۔ زخمی علوی عکاظ اپنی باحجاب بیوی کو نہ بچا سکا۔ اسلام کی بیٹی نے بھری عدالت میں دم توڑ دیا۔ اسکندریہ میں جب شہیدہ کی میت پہنچی تو لاکھوں لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ مصری حزب اختلاف اخوان المسلمون نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ جرمنی کے ساتھ سفارتی تعلقات فی الفور ختم کیے جائیں اور ۳۲ سالہ مروہ الشربینی کو شہید ِ حجاب قرار دیا۔ افسوس کہ ہمارے بے حس حکمران صداے احتجاج بھی نہ بلند کرسکے۔
جرمن اخبار برلن نیوز کی رپورٹ کے مطابق مروہ کے قاتل کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ سرکاری پراسیکیوٹر نے قاتل کو دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے طبی معائنہ کرانے کی استدعا کی جس کو عدالت نے مسترد کر دیا اور اس کو دماغی طور پر درست قرار دیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق یہ شخص انٹرنیٹ بلاگز پر مسلمانوں، اسلام اور حجاب کے متعلق سخت کلمات لکھنے اور ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حامی پایا گیا ہے۔ مروہ کے بیٹے مصطفی کو جرمن حکومت نے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔ شہیدِحجاب کی بڑی بہن اپنے ڈھائی سالہ بھانجے کے حصول کے لیے جرمنی میں عدالتی چارہ جوئی کر رہی ہیں۔
مصری اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں اس واقعہ کا اصل ذمہ دار فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کو ٹھیرایا گیا ہے جس نے حجاب کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ نکولس سرکوزی نے باقاعدہ طور پر فرانس میں حجاب کے خلاف اپنی مہم کے دوران متعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ برقع اور حجاب آمرانہ اقدام، نسل پرستی اور تعصب کا آئینہ دار ہے۔ برقع پوش خاتون کسی قیدی کی طرح نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغرب تیزی سے بڑھتے ہوئے نومسلموں سے خوف زدہ ہے جو مغرب کے منافقانہ طرزِعمل اور مغربی تہذیب کی چکاچوند سے مایوس ہوکر اسلام کی آغوش میں اپنے آپ کو محفوظ اور ذہنی طور پر آسودہ محسوس کرتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ مغربی خواتین ہیں جو مغرب کی نام نہاد تہذیب سے بیزار ہوکر اسلام کو اپنی جاے پناہ اور اپنے دکھوں کا مداوا سمجھتی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے برطانوی صحافی ای وان رِڈلے کی مثال موجود ہے جو مغرب میں پلی بڑھی، مگر طالبان کے حُسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ برطانوی صحافی نے طالبان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بہترین بھائی اور بیٹے ہیں۔ مجھے مغربی اور مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے باپ، بھائی، بیٹے کی آنکھوں میں وہ تقدس اور احترام نظر نہیں آیا جو مجھے طالبان کی قید کے دوران دیکھنے کو ملا۔ مغرب حجاب میں لپٹی پاکیزہ زندگی گزارنے والی خواتین سے خوف زدہ ہے۔ اس لیے حجاب اور اسلامی رہن سہن کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔مغرب کا یہی تضاد، دہرا معیار اور تعصب ہے جو ہر حسّاس اورانصاف پسند انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ واقعتا خداے واحد پر ایمان اور اسلام ہی انسانی حقوق کے تحفظ کو ممکن بناتا ہے اور تعصب سے پاک منصفانہ زندگی کا ضامن ہے۔ یہی احساس اسلام کی مقبولیت کا سبب بھی ہے۔