اسلام کے شیدائی نوجوانوں کی یہ ہری بھری لہلہاتی فصل دیکھ کر میرے اُوپر اس طرح کا اثر ہوتا ہے جس کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ [الفتح ۴۸:۲۹] ___ کسانوں کو اس کی بہار پسند آتی ہے اور کفار کا دل کڑھتا ہے۔ اس آیت میں ایک لطیفہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کافر کا لفظ عربی زبان میں کسان کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ زرّاع کے مقابلے میں کافر کا لفظ ذومعنی استعمال کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ بھلائی کی فصل بونے والے خوش ہوتے ہیں اور بُرائی کی فصل بونے والے کڑھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے میں لوگوں سے اس بات کو کہتا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے میں دوڑ دھوپ کروں اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ پچھلی نسل کی جو خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں کرچکا۔ اب مجھے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے دیجیے۔ چنانچہ اسی خواہش کے تحت میں نے اپنی تمام توجہ اور محنت تفہیم القرآنکی تکمیل پر صرف کر دی، یہ سمجھتے ہوئے کہ آیندہ نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں یہ ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی اور جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ آیندہ نسلوں کی خاطر ہی میں یہ کام کر رہا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ نئی نسل کو یہ چیز پسند آئی ہے اور اس کے اندر یہ مقبول ہو رہی ہے۔
اس موقع پر میں مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں گا کہ اس تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں، میں نے جو طرزِ استدلال توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ درحقیقت میری اس ریسرچ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد کی ہے۔ اگرچہ میں ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوا تھا، میرے والد مرحوم اور میری والدہ مرحومہ دونوں دین دار تھے اور میں نے ان سے پوری مذہبی تربیت پائی۔ لیکن جب میں ہوشیار ہوا اور جوانی کی عمر میں داخل ہوا تو میرا طرزِفکر یہ تھا کہ کیا میں صرف اس وجہ سے مسلمان ہوں کہ مسلمان کا بیٹا ہوں۔ اگر اس وجہ سے میرا مسلمان ہونا برحق ہے تو جو شخص ایک عیسائی کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کا عیسائی ہونا برحق ہوگا اور جو ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کا ہندو ہونا برحق ہوگا۔ اس لیے مجھے تحقیق کرنی چاہیے کہ حق فی الواقع کیا ہے۔ چنانچہ اس حالت میں، مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ یہ نہیں ہے کہ میں دہریہ ہوگیا تھا یا ملحد ہوگیا تھا، دراصل میں تحقیقات کے بعد ایک مستقل فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔
اس غرض کے لیے میں نے ویدوں کے تراجم لفظ بہ لفظ پڑھے، گیتا لفظ بہ لفظ پڑھی، ہندو مذہب کے فلسفے اور ہندو مذہب کی تاریخ کو پڑھا، بدھ مذہب کی اصل کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں ان کو پڑھا۔ اسی طرح بائیبل پوری کی پوری پڑھی اور پادری دومیلو کی تحقیق کی نظر سے پڑھی تاکہ یہ نہ ہو کہ میں کوئی متعصبانہ مطالعہ کروں۔ میں نے اپنے دماغ کے ہرتعصب کو نکال کر پوری دیانت داری کے ساتھ تحقیق کی کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ عیسائیت اور یہودی مذہب دونوں کے متعلق میں نے وسیع معلومات حاصل کیں۔ عیسائیوں کی اصل لکھی ہوئی کتابیں اور یہودیوں کی اصل لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں۔ تلمود کے جتنے حصے مجھے مل سکے، میں نے پڑھے۔پھر میں نے دہریوں اور ملحدوں اور مادہ پرستوں کے فلسفے پڑھے اور جن لوگوں نے سائنس کے نام سے دنیا میں دہریت پھیلائی ہے، ان کو پڑھا۔ نہ صرف پڑھا بلکہ جن مغربی مفکرین کے پیچھے دنیا چل رہی ہے، ان کے حالات بھی پڑھے تاکہ یہ معلوم کروں کہ یہ لوگ معتدل مزاج اور سوبر ہیں بھی کہ نہیں۔کیونکہ ایک انسان ایک نظریہ پیش کرتا ہے اور بعض اوقات وہ نظریہ یہ پتا دیتا ہے کہ اس کے پیش کرنے والے کے دماغ میں کچھ نہ کچھ عدم توازن پایا جاتا ہے۔ میں نے ان لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھیں تاکہ یہ معلوم کروں کہ فی الواقع ان کی زندگیاں کیا ہیں۔ اس سارے مطالعے کے بعد پھر میں نے قرآن مجید کو پڑھا۔ بچپن سے میری تعلیم عربی کی تھی، اس لیے مجھے اس کی ضرورت نہ تھی کہ میں اسے ترجمے سے پڑھتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو اصل کتابیں ہیں (بعد کے لوگوں کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ اصل ماخذ) ان کو پڑھا اور احادیث کو پڑھا۔
اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس سے زیادہ معقول اور اس سے زیادہ مدلل مذہب اور کوئی نہیں ہے جیساکہ قرآن پیش کرتا ہے، اور اس سے زیادہ مکمل رہنما اور کوئی نہیں ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور انسانی زندگی کے لیے اس سے زیادہ مفصل اور صحیح پروگرام کہیں نہیں پیش کیا گیا جیساکہ قرآن وحدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوں، بلکہ تمام مذاہب ِ عالم کا اچھی طرح مطالعہ کرنے اور تحقیق کرنے کے بعد میں نے یہ راے قائم کی ہے۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے دلائل کے ساتھ اس راے کا بھی اظہار کرتا ہوں۔ یہ وہ استدلال ہے جس سے میں نے درحقیقت اسلام حاصل کیا ہے۔ جس سے میں توحید کا قائل ہوا، جس سے میں رسالت کا قائل ہوا، جس سے میں وحی کا قائل ہوا، جس سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے کا قائل ہوا، جس سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہر زمانے کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ اس وجہ سے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ میں قرآن مجید کے ذریعے سے لوگوں کو سمجھائوں کہ اسلام حقیقت میں ہے کیا....
میری خواہش یہ تھی کہ میں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھوں گا اور ایک حدیث کا مجموعہ مرتب کروں گا اور اس کی شرح بھی کروں گا لیکن ۳۰ سال تفہیم القرآن ہی لکھنے میں گزر گئے___ تاہم آپ دیکھیں گے کہ میں نے قرآن مجید کا سیرت سے تعلق جگہ جگہ دکھایا ہے۔ پوری ریسرچ کرکے، پوری تحقیقات کرکے میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ قرآن مجید کی کون سی آیت اور کون سی سورہ کس زمانے میں نازل ہوئی اور اس زمانے کے حالات کیا تھے۔ اس طرح سیرت کے ساتھ قرآن مجید کا تعلق میں برابر تفہیم القرآن میں ہر جگہ ابتدا سے لے کر آخر تک دکھاتا رہا ہوں۔ یوں تفہیم القرآن ہی میں سیرت پر بھی خاصا مواد جمع ہوگیا ہے اور اگر کوئی شخص اس کو مرتب کرے تو سیرت پر ایک کتاب مکمل ہوسکتی ہے۔ احادیث کا مجموعہ بھی اگرچہ میں مرتب نہیں کرسکا، لیکن جہاں جہاں بھی موقع ہوا ہے، میں نے احادیث سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے تو احادیث کا مجموعہ بھی اس سے مرتب کرسکتا ہے۔ جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قرآن اور حدیث کے درمیان باہم کیا تعلق ہے اور قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث کتنی ضروری ہے۔ حدیث اگر نہ ہو تو قرآن سمجھنے میں آدمی کو کتنا نقص واقع ہوتا ہے۔
میں اپنے تجربے اور مطالعے کی روشنی میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ لوگ بھی صرف اس وجہ سے مسلمان نہ بنیں کہ مسلمانوں کی اولاد ہیں بلکہ شعوری طور پر ایمان لائیں۔ شعوری طور پر یہ تسلیم کریں کہ اللہ ہے اور یقینا وہ ایک ہے اور ساری کائنات اسی کی ہے۔ اور شعوری طور پر یہ تسلیم کریں کہ آخرت ہے اور یقینا مرنے کے بعد ہمیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو جواب دینا ہے۔ اور شعوری طور پر یہ بات تسلیم کریں کہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی تھے اور آپؐ پر وحی آتی تھی۔ اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان نہ لائے اور محض تقلیدی ایمان کے ذریعے سے نماز روزے بھی کرتا رہے تو آپ اس کی زندگی میں وہ تمام منافقتیں اور وہ تمام تضادات دیکھیں گے جو اس وقت عام مسلمانوں کے اندر، مسلمانوں کے لیڈروں کے اندر اور مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ خالص اسلام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب آدمی شعوری طور پرسوچ سمجھ کر ایمان لائے اور جانے کہ جس چیز کو میں مانتا ہوں، اس کے ماننے کے تقاضے کیا ہیں، اس کے ماننے کے بعد کیا چیز لازم آتی ہے۔ پھر آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اس کی زندگی میں تضاد ہو اور تناقض ہو، وہ کہے کچھ، کرے کچھ۔ اس کے اخلاق کچھ اور ہوں اور اس کے اعمال کچھ اور ہوں اور نماز وہ مسجد میں جاکر ادا کر رہا ہو۔ یہ صورت حال شعوری طور پر ایمان لانے سے باقی نہیں رہتی۔ پھر آدمی جو کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر سچے دل سے کرتا ہے۔ وہ یکسو اور حنیف بن کر رہتا ہے۔ جیساکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے، کان حنیفًا مسلمًا، ایسا مسلمان جو یکسو تھا ہر طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہوگیا تھا اور وہ شخص مسلم حنیف تھا۔
میں اپنی اس تقریر کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان نوجوانوں کو سچا مسلمان بنائے اور ان کو اسلام کے لیے جان، مال،محنت، قابلیت، ہر چیز قربان کرنے کی توفیق عطافرمائے، اور وہ سرزمین جو اسلام کا گھر تھی اور اسلام کے لیے بنائی گئی تھی، اس سرزمین کو گمراہ کرنے والوں سے پاک کرے، اور ان لوگوں کی توفیق اور تائید فرمائے اور ان لوگوں کی مدد فرمائے جو اس سرزمین کودارالاسلام بنانا چاہتے ہیں___ وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین۔ (اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام تکمیل تفہیم القرآن کی تقریب سے خطاب ،بحوالہ ایشیا، جولائی ۱۹۷۲ء)