حضرت عثمانؓ بن عفان نے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی قیادت میں پہلا قافلہ چین بھیجا۔ انھوں نے چینی باشندوں کے علاوہ شاہِ چین کو بھی خلیفۂ سوم کا پیغام پہنچایا۔ ان کی وہاں موجودگی کے دوران میں پہلی بار چین کی فضائوں نے تکبیراتِ اذان سنیں۔ پھر ۹۵ ہجری میں مسلمان قائد قتیبہ بن مسلم الباھلی نے سرزمینِ چین کو نورِاسلام سے متعارف کروایا اور ۲۳۲ ہجری میں تو سلطان ستوق بوگرہ خان خود مسلمان ہوگیا۔ بارھویں صدی کا تاریخ دان جمال قارشی اپنی کتاب تاریخِ کاشغر میں لکھتا ہے کہ بخارا کے ایک متمول تاجر نصر کی سلطان کاشغر سے دوستی ہوگئی۔ سلطان نے اسے کاشغر کے مضافاتی قصبے ارتش میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ سلطان کا بھتیجا ستوق اکثر اس مسجد اور وہاں وسطی ایشیا سے آنے والے تجارتی قافلوں کو دیکھنے آیا کرتا۔ مسجد میں نماز پڑھتے اور منظم صورت میں رکوع و سجود کرتے مسلمانوں کو دیکھ کر اس کے دل میں اسلام کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا اور جلد ہی اسلام قبول کرلیا۔ اپنے چچا کے بعد وہی سلطان بنا اور پورے خطے میں اسلام عام کرنے کا ذریعہ بھی۔ ۹۵۵ عیسوی میں ستوق بوگرہ خان کا انتقال ہوا تو ارتش ہی میں مدفون ہوا اور آج تک لوگ سلطان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔
ریاستِ مدینہ سے آنے والے وفود، مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کی پے درپے آمد، ان کے حُسنِ سلوک اور حُسنِ عبادت اور سلطان ستوق جیسے مخلص حقیقت شناسوں کے ذریعے اسلام کا تعارف چین کے دُور دراز علاقوں تک جا پہنچا۔ آج آپ چین کے کسی شہر میں چلے جائیں، صدیوں پرانی مساجد ان سجدہ ریز پیشانیوں کا تعارف کرواتی دکھائی دیتی ہیں۔ ۷ ہزار کلومیٹر لمبی دیوارِ چین سے باہر واقع کاشغر، ارمچی، ختن اور ارتش جیسے شہروں ہی میں نہیں خود بیجنگ، شنگھائی اور شانسی جیسے تاریخی شہروں میں بھی، مسلمان اپنے خالق اور ختم الرسلؐ کی محبت دل میں سجائے، قرآن و کعبہ کی زیارت اپنی سب سے بڑی سعادت گردانتے ہیں۔ چین میں لنگ شانامی ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے چھوٹا مکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد و تناسب غیرمعمولی ہے۔
جمہوریہ چین ہمارا پڑوسی ہی نہیں، انتہائی قابلِ اعتماد اور ہرآزمایش پر پورا اُترنے والا دوست ہے۔ چین نے پاکستان کی مدد کرنے اور علاقائی و عالمی مجالس میں ہمارے قومی مفادات کی نگہبانی کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، کسی دشمن کے سامنے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی تعمیروترقی میں اسی طرح ہاتھ بٹایا ہے جیسے اپنے ہی کسی علاقے کی تعمیرو فلاح کا کام ہو۔ مسلم دنیا کے ساتھ بھی چین کے روز افزوں تعلقات اور دوستی عالمی تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ او آئی سی کے ۵۷ رکن ممالک میں سے ۵۵ کے ساتھ اس کے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں۔ عالمِ اسلام سے مضبوط تر ہوتے ہوئے یہ تعلقات اس امر کے متقاضی ہیں کہ چین اور مسلم دنیا کے مابین کوئی اختلاف پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ وجہِ نزاع بن سکنے والے ان تمام اسباب کا ازالہ کر دیا جائے کہ دشمن بالخصوص امریکا اور بھارت جس جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اضطراب و اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
چین میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اس دوستی میں خیر کے لاتعداد پہلو لاسکتے ہیں، مزید تعاون کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتے ہیں، لیکن یہی مضبوط بنیادیں خدانخواستہ بہت سی غلط فہمیوں بلکہ مشکلات کا سبب بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ جولائی کے آغاز میں وقوع پذیر ہونے والے افسوس ناک واقعات اس حقیقت کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہے ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ کتنے قتل ہوئے؟ ۱۹۷ یا ۴۰۰۰؟ دونوں اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق ہے اور مبالغے کا پورا امکان موجود ہے۔ لیکن اگر چینی حکومت کی بتائی ہوئی تعداد ہی درست تسلیم کرلیں، تب بھی ۱۹۷ افراد کا قتل معاملے کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں یہ بحث بھی ضروری نہیں کہ قتل ہونے والے کس نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ ان میں سے ۱۴۰افراد ہان نسل سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم تھے، تب بھی انسانی جانوں کا یہ قتل کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ تعداد تو صرف جان سے گزر جانے والوں کی ہے، زخمیوں اور گرفتار شدگان کی تعداد یقینا ہزاروں میں ہے۔ یہ امر بھی معلوم حقیقت ہے کہ یہ ہنگامے اور خوں ریزی پہلی بار نہیں ہوئی۔ گذشتہ عشرے ہی میں متعدد مواقع ایسے آئے کہ جب علاقے میں غیرمعمولی ہنگامے اور جھڑپیں بھڑک اُٹھیں اور بڑی تعداد میں انسانی جانیں ان کی نذر ہوئیں۔
مکمل غیر جانب داری سے، صرف معاملے کو سمجھنے کے لیے جائزہ لیں تودرج ذیل اہم پہلو سامنے آتے ہیں: چینی حکومت اور ترکی النسل اوئیگور آبادی کے درمیان اختلافات سرسری یا وقتی نہیں، ان کی ایک طویل تاریخ ہے۔ طرفین اپنے اپنے طور پر تاریخی حقائق پیش کرتے ہیں اور انھی کی روشنی میں اپنے موقف کی حقانیت ثابت کرتے ہیں۔ اختلافات اتنے عمیق و کثیر ہیں کہ علاقے کے نام سے شروع ہوکر زبان، ثقافت، مذہب، آبادی کے تناسب، نسلی انتساب اور مستقبل کی صورت گری، ہر بات پر شدید حساسیت ہے۔ چین اس پورے علاقے کو اپنا اہم صوبہ قرار دیتا ہے جسے سنکیانگ، شنجیانگ یاشنجان کہا جاتا ہے، جب کہ طرفِ ثانی اسے مشرقی ترکستان کہنے پر مصر ہے۔ وہ ۲۰۴ قبل مسیح سے خطے میں اوئیگور ریاست کی بنیادیں پیش کرتا ہے اور تاریخ کے سفر میں متعدد بار ریاست مشرقی ترکستان کے وجود کے دلائل پیش کرتا ہے۔ ان کے بقول وسطی ایشیا کی ترکی النسل ریاستیں بھی اسی ترکستان کا حصہ تھیں اور مغربی ترکستان کہلاتی تھیں۔ ۱۸۶۸ء میں ان پر روس نے قبضہ کر لیا، جب کہ مشرقی ترکستان جو ۱۷۵۸ء سے چینی بادشاہوں کی قلم رو میں چلا گیا تھا، ۱۸۶۳ء سے یعقوب بیگ کی حکمرانی میں اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان کو اپنا سرپرست تسلیم کرلیا۔ ۱۸۷۶ء میں چینی افواج نے پھر ترکستان پر اپنا اقتدار قائم کر لیا اور اس وقت اس کا نام سنکیانگ یا شنجانگ رکھ دیا گیا جس کا مطلب تھا: ’’نیاصوبہ یا نئی سرحد‘‘(چینی تفسیر کے مطابق اس کا مطلب ہے وہ پرانا خطہ جو پھر سے مادر أرضی سے آن ملا)۔ ۱۹۳۳ء میں یہاں پھر آزاد ریاست کا اعلان کردیا گیا لیکن تین ہی ماہ میں چین اور روس نے مل کر اس کا خاتمہ کر دیا (چینی موقف کے مطابق مقامی قبائل نے اس کا خاتمہ کردیا)۔ ۱۹۴۴ء میں پھر اسلامی جمہوریہ مشرقی ترکستان کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جو اکتوبر ۱۹۴۹ء میں اس وقت تک باقی رہی جب پیپلز لبریشن آرمی نے مائوزے تنگ کی قیادت میں نئے چین کی بنیاد رکھی۔ مشرقی ترکستان کی یہ تاریخ بیان کرنے والے اس امر کا بھی خصوصی ذکر کرتے ہیں کہ مائو کی قیادت میں چین کی سوشلسٹ حکومت نے ہمارے علاقے کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں اس علاقے کا سرکاری نام Xinjian Uygur Autonomous Region (اوئیگور سنکیانگ کا خودمختار علاقہ)رکھا گیا اور بعد میں ۴دسمبر ۱۹۸۲ء کو جاری ہونے والے چین کے موجودہ دستور میں بھی ہماری یہ علاقائی خودمختار حیثیت برقرار رکھی گئی۔ چین کے دستور میں علاقائی خودمختاری ہی نہیں، علاقے کے لوگوں کے مذہب و ثقافت کی حفاظت اور آزادیوں کی بھی ضمانت دی گئی ہے اور یہی امر مسائل کے حل کے لیے اُمید کی اصل بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔
چینی حکومت بھی اسی دستوری بنیاد پر مبنی موقف رکھتی ہے۔ اس کے بقول: ہم نے گذشتہ ۶۰برس میں پوری آبادی کی بلااستثنا خدمت کی ہے۔ تعمیروترقی کا سفر تیز تر کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اوئیگور یا کسی بھی نسلی گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔ رہی مذہبی تقسیم تو ہم اس تقسیم کی بنیاد پر معاملہ ہی نہیں کرتے، ہمارے لیے سب شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنکیانگ میں صرف اوئیگور ہی نہیں ۴۷ دیگر قومیتیں بستی ہیں جن میں اوئیگور، ہان، قازق، منگولین، ہوئی یا خوئی، قرغیز، تاجک، تاتاری، روسی اور دیگر کئی نسلی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ اوئیگور اکثریت رکھتے ہیں لیکن تمام نسلیں مل جل کر رہتی چلی آرہی ہیں۔ اسی طرح اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب جیسے بدھ ازم اور تائوازم وغیرہ کے پیروکار بھی یہاں کے باسی ہیں اور سب باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ چین کے سرکاری موقف میں اس بات کا بھی نمایاں ذکر کیا جاتا ہے کہ ۱۶ویں صدی کے چغتائی دور میں بالآخر اسلام نے اکثریتی مذہب ہونے کے ناتے بدھ ازم کی جگہ لے لی لیکن ان کے بقول یہ مذہبی اکثریت گاہے بہ گاہے تبدیل ہوتی رہی۔
چین کی سرکاری دستاویزات میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ چین نے سنکیانگ کو زبردستی نہیں بلکہ ۲۵ستمبر ۱۹۴۹ء کو پُرامن طور پر آزاد کروایا۔ سنکیانگ کے عوام نے جنرل وانگ ژان کی قیادت میں آنے والی چینی افواج کا خود آگے بڑھ کر خیرمقدم کیا۔
انھی چینی دستاویزات کے مطابق مشرقی ترکستان کی اصطلاح کا استعمال ۱۹ویں صدی کے اوائل میں صرف جغرافیائی نشان دہی کے طور پر تب کیا گیا تھا جب روس کے زیراقتدار سمرقند کے علاقے کو مغربی ترکستان اور سنکیانگ کے علاقے کو مشرقی ترکستان کہا گیا، لیکن ۲۰ویں صدی کے آغاز میں علیحدگی پسندوں کے ایک مختصر گروہ نے مشرقی ترکستان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ تب سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں بیرونی قوتوں کے ایما پر مشرقی ترکستان اور اس کی علیحدگی کی بات کی جاتی ہے۔ حالیہ جولائی کے خوں ریز واقعات کے بارے میں بھی چین کے ذمہ داران یہی کہتے ہیں کہ ایک فیکٹری کے مزدوروں کے جھگڑے کو بیرونی طاقتوں نے نسلی اور مذہبی لڑائی کا رنگ دے دیا ہے۔ امریکا میں موجود مختلف تنظیمیں بالخصوص اوئیگور انٹرنیشنل کانگریس اس کے لیے کوشاں ہے۔
عربی کا ایک محاورہ ہے: صَدِیْقُکَ مَنْ صَدَقَکَ لَا مَنْ صَدَّقَکَ ’’تمھارا اصل دوست وہ ہے جو تم سے سچ بولے نہ کہ وہ جو بس تمھاری ہاں میں ہاں ملائے‘‘۔ اس محاورے کے تناظر میں اور پاکستان کے حقیقی دوست چین کے ساتھ کامل ہمدردی اور اخلاص رکھتے ہوئے اس اہم موقع پر چند گزارشات ضروری ہیں۔ چین کو کھلے دل اور کامل انصاف و غیر جانب داری سے اس علاقے کے عوام کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس بات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ گذشتہ عرصے میں اس اضطراب میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ ۵ جولائی کے افسوس ناک واقعات کے بعد اس صورت حال کا سرسری جائزہ لینے سے جو شکایات سامنے آرہی ہیں، اہلِ علاقہ کے الفاظ میں ان میں سے چند ایک بلاکم و کاست یہ ہیں:
فرض کریں اور اللہ کرے کہ مذکورہ بالا تمام تر شکایات بے بنیاد اور جھوٹی ہوں۔ اس صورت میں چینی حکومت کا فرض ہے اور یہ کام بہت آسان ہوجاتا ہے کہ دنیا کو اصل صورت سے آگاہ کرے۔ چین دنیا بھر سے حقوقِ انسانی کے اداروں،بالخصوص عالمِ اسلام کے غیرسرکاری علما اور اعتدال پسند جماعتوں کے وفود کے دورے کروائے تاکہ وہ نہ صرف اپنی آنکھوں سے حقیقی صورت حال دیکھ لیں بلکہ اس طرح کے الزامات لگانے اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکیں۔ اُوپر مذکورہ شکایات اور ان کے علاوہ بھی کئی سنگین اطلاعات پورے عالمِ اسلام میں وسیع پیمانے پر عام ہو رہی ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے سنکیانگ کی چین سے علیحدگی کی تحریک میں کوئی اپیل نہیں پائی جاتی لیکن چین اور بالخصوص سنکیانگ میں بسنے والے مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں اس وقت گہری تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ اِکا دکا مضامین، خبریں اور بیانات تو پہلے بھی آتے رہتے تھے لیکن جولائی کے خونیں واقعات پر دنیا کے ہر کونے میں گفتگو ہورہی ہے۔ ترکی میں تو باقاعدہ مظاہرے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے یہ عالمی وفود مقامی آبادی کو مطمئن کرنے کا ذریعہ اور سبب بھی ہوں گے اور عالمِ اسلام کے سامنے بھی حقیقتِ حال واضح کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
خدانخواستہ اگر یہ شکایات الزام نہیں، حقیقت ہیں تو ان کا فوری مداوا نہ صرف اہم ہے بلکہ ناگزیر و ضروری بھی۔ یہاں یہ حقیقت بھی سامنے رہنا چاہیے کہ کسی ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کا حق نہ کسی کو دیا جاسکتا ہے اور نہ طلب کیا جاسکتا ہے لیکن دین و مذہب کی آزادی ایک ایسا بنیادی اور جذباتی مسئلہ ہے کہ وہ ازخود متعلقہ مذہب کے ہر فرد کو براہِ راست مخاطب و متاثر کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں کتنے ہی ایسے موڑ آئے ہیں کہ مذہبی جذبات کے انگیخت کرنے سے پاسا پلٹ گیا۔ گائے اور سور کی چربی لگے کارتوسوں کی حکایت ہی دیکھ لیجیے کہ جنھیں استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے چھیلنا پڑتا تھا حالانکہ لشکری یا مسلمان تھے یا پھر ہندو۔
سنکیانگ، شنجانگ، شنجان یا مشرقی ترکستان، معدنی، زرعی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم علاقہ ہے۔ یہاں تیل کے ذخائر کا اندازہ ۸ ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اب بھی روزانہ پیداوار ۵۰لاکھ ٹن ہے۔ ۶۰۰ ملین ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ ۳۰ مقامات سے قدرتی گیس نکالی جاتی ہے۔ یہاں دنیا کی اعلیٰ ترین نسل کا یورینیم پایا جاتاہے جس کی چھے کانوں سے پیداوار جاری ہے۔ اس کے علاوہ سونے اور قیمتی پتھروں کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ صرف اسی ایک صوبے کا رقبہ چین جیسے وسیع و عریض ملک کا چھٹا حصہ ہے اور ساڑھے ۱۶ لاکھ مربع کلومیٹر سے متجاوز ہے، یعنی فرانس جیسے ملک سے تین گنا بڑا۔ کُل رقبے میں سے ساڑھے چھے لاکھ مربع کلومیٹر صحرائی علاقہ ہے اور ۹۱ ہزار مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جب کہ زرعی زمین بھی انتہائی زرخیز ہے۔ ۴۰ بڑے دریائوں اور ۱۲ جھیلوں کی صورت میں وافر پانی دستیاب ہے۔ اس کی ۵۶۰۰ کلومیٹر طویل سرحدیں ۸ ممالک سے ملتی ہیں۔ ہمہ پہلو اہمیت کے اس علاقے کا امن و استحکام صرف چین ہی نہیں پورے خطے کے امن و استحکام اور تعمیروترقی کے لیے ناگزیر ہے اور چینی حکومت سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ حقیقی امن و استحکام، عوام کو مطمئن کرنے سے ہی لایا جاسکتا ہے۔ زور زبردستی، لاوے کی آتش فشانی میں مزید اضافہ ہی کرتی ہے۔
خطے کے مسلمانوں کو بھی اس بارے میں واضح اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا ان کا اصل مقصد اپنے دین و ثقافت کی حفاظت، مذہبی آزادیاں اور بنیادی حقوق کا حصول ہے یا مجرد علیحدگی کا نعرہ بلند کرنا۔ اگر ان کے پیش نظر پورے چین میں مسلمانوں کے مفادات اور ان کا روشن مستقبل رہے تو یقینا منزل بھی آسان ہوگی اور خطے کے بارے میں ان تمام عالمی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جاسکے گا جو مسلمانوں سے دوستی نہیں چین سے دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھائی جاسکتی ہیں۔