بہ حیثیت مسلمان ہمارا تصورِ آزادی ساری اقوام سے نرالا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اُس وقت تک آزاد نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت و اطاعت کے لیے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں غیرالٰہی ضابطہ و قانون سے آزاد نہ ہوجائیں___ چاہے وہ ضابطہ قانون سمندر پار سے آیا ہو یا اپنے دیس کے لوگوں کا ایجاد کردہ ہو۔
جب تک ہمارے اُوپر غیر اسلامی دستور، غیر اسلامی قانون، غیر اسلامی نظامِ تعلیم، غیر اسلامی سیاست و معیشت اور غیر اسلامی تہذیب و تمدن مسلط رہے، اُس وقت تک ہماری غلامی کی زنجیریں نہیں کٹتیں۔ ہمارے لیے صبحِ آزادی اُس وقت طلوع ہوتی ہے، جب ہم اپنی پوری ملّی زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہوجائیں اور اس مدّعا کو حاصل کرنے میں نہ غیروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ باقی رہے، نہ اپنوں کی طرف سے کوئی مزاحمت!
یہی تصورِ آزادی تھا جو برعظیم ہند کے غیرمسلموں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ قومیت بنانے اور ایک مشترکہ جمہوری ریاست کی بنیاد ڈالنے میں مانع ہوا اور اسی کی وجہ سے ہم مجبور ہوگئے کہ اپنے لیے ایک جداگانہ خطۂ زمین حاصل کریں۔ یہ خطۂ زمین گراں بہا قربانیوں کے عوض میں ہمیں حاصل ہوا، درآں حالیکہ دوسری قربانیوں کے ساتھ ہمیں تقسیم کی مہلک ناانصافیاں بھی گوارا کرنی پڑیں۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس خطۂ ارضی کی آزادی کی ساری دولت انگریز ایسے جانشینوں کے سپرد کرکے گیا ہے جو اس کو نظامِ اسلامی کی تعمیر پر صرف کرنے میں برابر لیت و لعل کر رہے ہیں۔ کل یہی لوگ تھے کہ اسلامی نظام تمدن و سیاست کے نام پر آزادی کی جنگ میں مسلمان عوام کا تعاون حاصل کر رہے تھے لیکن آج یہی لوگ ہیں کہ عوام کی طرف سے اسلامی نظام کے مطالبے پر ان کے چہرے غضب آلود ہوجاتے ہیں۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۲، عدد۳، رمضان ۱۳۶۸ھ، اگست ۱۹۴۹ء، ص ۳-۴)