اگست ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کے سایے میں

عبد الغفار عزیز | اگست ۲۰۰۹ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ جب ماہِ رجب کا آغاز ہوتا تو رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے: پروردگار! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما۔ ہمارے لیے ماہِ رمضان میں برکت عطا فرما۔ (مسند احمد)

ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے شوق و انتظار میں رہتے۔ رجب شروع ہوتا تو رمضان سے پہلے کے دو ماہ کے لیے برکت کی دعا اور پھر رمضان کے لیے الگ سے خصوصی دعا فرماتے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ فرماتے: ’’اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘۔ اس انتظار میں رمضان سے پہلے کے مہینوں میں نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمانوں پر رمضان سے بہتر اور کوئی مہینہ طلوع نہیں ہوتا اور منافقوں کے لیے اس سے بُرا کوئی اور مہینہ نہیں آتا‘‘۔


حضرت ابومسعود غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر بندوں کو معلوم ہوجائے کہ رمضان کی کیا کیا برکات ہیں تو وہ تمنا کرتے کہ اے کاش! پورا سال رمضان ہی رہتا۔ رمضان کی خاطر پورا سال جنت کی تزئین و آرایش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب رمضان کا پہلا دن ہوتاہے تو رحمن کے عرش سے ایک خصوصی بادِ نسیم چلتی ہے جس سے جنت کے سب پودوں اور درختوں کے پتے جھوم اُٹھتے ہیں‘‘۔ (طبرانی)

یہ ایک طویل حدیث کا اقتباس ہے۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خوش خبری بھی دے رہے ہیں   اور اپنے اُمتیوں کو متوجہ بھی فرما رہے ہیں۔ جنت سمیت پوری کائنات استقبالِ رمضان میں لگی ہو   اور بندہ غفلت میں پڑا رہے…؟ پروردگار! رمضان المبارک کی حقیقی روح سے دلوں کو منور فرما۔


حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو خزاعہ سے دو افراد حاضر ہوئے اور دونوں نے اکٹھے اسلام قبول کیا۔ دونوں میں سے ایک زیادہ محنتی تھے، انھوں نے جہاد میں بھی حصہ لیا اور شہادت کا مرتبہ پایا۔ ان کے دوسرے ساتھی، ان کے بعد ایک سال مزید زندہ رہے اور پھر وفات پاگئے۔ ایک روز میں (حضرت طلحہؓ) نے خواب دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، وہیں مجھے وہ دونوں صحابیؓ بھی دکھائی دیے۔ جنت میں سے کوئی باہر آیا اور بعد میں وفات پانے والے کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ پھر دوبارہ باہر آیا اور شہید ہونے والے کو بھی جنت میں جانے کی اجازت دی۔ پھر وہ آنے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ ابھی آپ واپس جائیے ابھی آپ کی باری نہیں آئی۔

حضرت طلحہؓ نے صبح یہ خواب لوگوں کو سنایا۔ سب نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے دریافت کیا: تم لوگ تعجب کس بات پر کررہے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کی ان میں سے ایک زیادہ محنت کرتا تھا، وہ شہید بھی ہوا، لیکن ان کے بعد وفات پانے والے کو جنت میں پہلے لے جایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اپنے ساتھی کے بعد بھی ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ کیا اس ایک سال میں اسے رمضان عطا نہیں ہوا کہ جس کے روزے بھی اس نے رکھے؟ اور پورا سال نمازوں میں، اللہ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتا رہا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسولؐ اللہ ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کے درجات میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین میں ہے۔ (ابن ماجہ ، حدیث ۳۹۲۵)

زندگی کی مہلت ملے، رمضان المبارک کے مبارک لمحات عطا ہوں، روزوں کی سعادت حاصل ہو، فرائض کی ادایگی کا موقع ملے تو بلندیِ درجات کی منزل یقینی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خاک آلود ہو، اس شخص کا چہرہ کہ جسے رمضان المبارک ملا ،لیکن پھر بھی اس نے مغفرت کا سامان نہ کیا۔ رمضان کی نعمت حاصل ہو، اور اس کی قدر نہ کی گئی، مثلا بلاوجہ روزہ نہ رکھا، توآپؐ کے ارشاد کے مطابق پھر ’’ساری عمر کے روزے بھی اس ایک روزے کی قضا نہیں ہوسکتے‘‘۔ گھر آئی نعمت کی بے قدری، ہمیشہ کی نامرادی بن جاتی ہے۔


حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’راحت پاگیا یا اس سے راحت مل گئی‘‘۔ صحابہ ؓ نے عرض کی:   یارسولؐ اللہ! اس ارشاد کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بندۂ مومن دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دنیا کی مشقت اور تکالیف سے نجات پاکر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں راحت پالیتا ہے، جب کہ گنہگار بندے کے جانے سے اللہ کے بندے، یہ زمین، یہ درخت اور حیوانات ہر شے راحت پاجاتی ہے۔ (بخاری، حدیث ۶۵۱۲)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ قرار دیا ہے۔  وہ اس قید خانے کی مشقت برداشت کرتا ہے، دن رات محنت کرتا ہے اور اس کے بعد ابدی رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے، جب کہ آخرت سے بے پروا انسان دنیا ہی کو اپنی جنت بنانا چاہتا ہے۔ وہ اس دوڑ میں حرام و حلال کی ہر حد پھلانگ جاتا ہے۔

گناہوں کا نتیجہ خوفناک ہی نہیں، حیرت انگیز بھی ہے۔ گناہ نہ صرف ارتکاب کرنے والے کے لیے عذاب کا موجب بنتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر شے حتیٰ کہ دیار و اشجار اور حیوانات بھی ان کے بد اثرات سے محفوظ نہیں رہتے،اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے بدقسمت لوگ دنیا سے جائیں، تو پورا ماحول سُکھ کا سانس لیتا ہے، کہ اللہ کے نافرمان سے نجات ملی۔ عام انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ اگر یہ ہے تو رہنماؤں ، قوم کے بڑوں اور حکمرانوں کی نافرمانیوں اور غلطیوں کے اثرات و نتائج پوری قوم پر کیا ہوں گے۔


حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ مکہ میں منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: لوگو! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اگر ابنِ آدم کو (دو پہاڑوں کے درمیان واقع) ایک پوری وادی بھی سونے سے بھر کر دے دی جائے، تو وہ خواہش کرے گا کہ ایسی ہی سونا بھری ایک وادی اور مل جائے، اور اگر دوسری بھی دے دی جائے، تو وہ چاہے گا کہ ایسی ایک تیسری سونا بھری وادی بھی مل جائے۔ ابنِ آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ جو توبہ کرلے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۶۴۳۸)

حرص و لالچ ابن آدم کی سرشت ہے، لیکن نیک و بد یہاں بھی مختلف رویے اختیار کرتے ہیں۔     آں حضوؐر کے ارشاد گرامی کے مطابق ’’دنیا سے جانے والا ہر انسان حسرت کررہا ہوتا ہے۔ نیک لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں، کاش! مزید نیکیاں سمیٹ لیتا۔گنہگار اپنا انجام دیکھ کر کہتا ہے: کاش! پہلے باز آجاتا‘‘۔ حرص جس شے کی بھی ہو، کبھی ختم نہیں ہوتی۔ علم ہو، نیکیاں ہوں، مال ہو، جاہ و منصب و اقتدار ہو، اولاد و متاع ہو، اچھی یا بری خواہشات ہوں___  انسان جس شے کی بھوک میں مبتلا ہوجائے اس سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ اب بھلا اس سے زیادہ مال و دولت کیا ہوگا کہ وادیوں کی وادیاں سونے سے بھر کردے دی جائیں، لیکن ہوس ہے کہ ختم نہیں ہوتی___  جتنا مل گیا اتنا ہی اور چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر جملے میں خزانے سمودیے___  انسان کا پیٹ قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی شے نہیں بھر سکتی! ہاں، جو رب کا ہوجائے، رب اس کا ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُسے دنیاوی مال و جاہ کے حوالے سے قناعت عطا کرتا ہے اور دین و عمل صالح کی حرص بڑھا دیتا ہے۔


حضرت ابوہریرہ ؓ نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپؐ نے فرمایا: بندہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ کوئی ایک بات ایسی کہہ دیتا ہے کہ اسے اس کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے درجات بہت بلند کردیتا ہے۔ بعض اوقات بندہ اللہ کو ناراض کرنے والی کوئی ایک بات ایسی کہہ دیتا ہے کہ جس کی سنگینی کا احساس تک نہیں ہوتا، لیکن وہ اس کی وجہ سے جہنم کے گڑھوں میں جاگرتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۶۴۷۸)

انسان اپنی بات کی اہمیت کو جانتا ہی نہیں۔ نیکی کی بات ہو تو سمجھتا ہے اس سے بھلا کیا فرق پڑے گا، اور بری باتوں کو تو بعض اوقات اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کی کمزوریاں معلوم ہوجائیں اور انھیں بیان کرنے کی لذت لیتے ہوئے، غیبت نہ کی جائے۔ بات بے بات جھوٹ،  ایک دوسرے کی چغلی، تہمت و الزامات، گالم گلوچ، بد زبانی، فحش گوئی، اظہارِ غرور و تکبر، گناہ ایک سے بڑھ کر ایک اور ذریعہ ایک چھوٹی سی زبان۔

دوسری طرف اللہ کو پسند آنے والی بظاہر ایک معمولی سی بات، لیکن درجات بلند سے بلند تر کردے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی مختصر سی تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ہی کو دیکھ لیجیے۔ آپ ؐ کے ارشاد کے مطابق زمین و آسمان کے درمیان سارے خلا کو بھردے___  اورذریعہ وہی چھوٹی سی زبان۔