ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے شوق و انتظار میں رہتے۔ رجب شروع ہوتا تو رمضان سے پہلے کے دو ماہ کے لیے برکت کی دعا اور پھر رمضان کے لیے الگ سے خصوصی دعا فرماتے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ فرماتے: ’’اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘۔ اس انتظار میں رمضان سے پہلے کے مہینوں میں نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمانوں پر رمضان سے بہتر اور کوئی مہینہ طلوع نہیں ہوتا اور منافقوں کے لیے اس سے بُرا کوئی اور مہینہ نہیں آتا‘‘۔
یہ ایک طویل حدیث کا اقتباس ہے۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خوش خبری بھی دے رہے ہیں اور اپنے اُمتیوں کو متوجہ بھی فرما رہے ہیں۔ جنت سمیت پوری کائنات استقبالِ رمضان میں لگی ہو اور بندہ غفلت میں پڑا رہے…؟ پروردگار! رمضان المبارک کی حقیقی روح سے دلوں کو منور فرما۔
زندگی کی مہلت ملے، رمضان المبارک کے مبارک لمحات عطا ہوں، روزوں کی سعادت حاصل ہو، فرائض کی ادایگی کا موقع ملے تو بلندیِ درجات کی منزل یقینی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خاک آلود ہو، اس شخص کا چہرہ کہ جسے رمضان المبارک ملا ،لیکن پھر بھی اس نے مغفرت کا سامان نہ کیا۔ رمضان کی نعمت حاصل ہو، اور اس کی قدر نہ کی گئی، مثلا بلاوجہ روزہ نہ رکھا، توآپؐ کے ارشاد کے مطابق پھر ’’ساری عمر کے روزے بھی اس ایک روزے کی قضا نہیں ہوسکتے‘‘۔ گھر آئی نعمت کی بے قدری، ہمیشہ کی نامرادی بن جاتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ قرار دیا ہے۔ وہ اس قید خانے کی مشقت برداشت کرتا ہے، دن رات محنت کرتا ہے اور اس کے بعد ابدی رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے، جب کہ آخرت سے بے پروا انسان دنیا ہی کو اپنی جنت بنانا چاہتا ہے۔ وہ اس دوڑ میں حرام و حلال کی ہر حد پھلانگ جاتا ہے۔
گناہوں کا نتیجہ خوفناک ہی نہیں، حیرت انگیز بھی ہے۔ گناہ نہ صرف ارتکاب کرنے والے کے لیے عذاب کا موجب بنتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر شے حتیٰ کہ دیار و اشجار اور حیوانات بھی ان کے بد اثرات سے محفوظ نہیں رہتے،اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے بدقسمت لوگ دنیا سے جائیں، تو پورا ماحول سُکھ کا سانس لیتا ہے، کہ اللہ کے نافرمان سے نجات ملی۔ عام انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ اگر یہ ہے تو رہنماؤں ، قوم کے بڑوں اور حکمرانوں کی نافرمانیوں اور غلطیوں کے اثرات و نتائج پوری قوم پر کیا ہوں گے۔
حرص و لالچ ابن آدم کی سرشت ہے، لیکن نیک و بد یہاں بھی مختلف رویے اختیار کرتے ہیں۔ آں حضوؐر کے ارشاد گرامی کے مطابق ’’دنیا سے جانے والا ہر انسان حسرت کررہا ہوتا ہے۔ نیک لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں، کاش! مزید نیکیاں سمیٹ لیتا۔گنہگار اپنا انجام دیکھ کر کہتا ہے: کاش! پہلے باز آجاتا‘‘۔ حرص جس شے کی بھی ہو، کبھی ختم نہیں ہوتی۔ علم ہو، نیکیاں ہوں، مال ہو، جاہ و منصب و اقتدار ہو، اولاد و متاع ہو، اچھی یا بری خواہشات ہوں___ انسان جس شے کی بھوک میں مبتلا ہوجائے اس سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ اب بھلا اس سے زیادہ مال و دولت کیا ہوگا کہ وادیوں کی وادیاں سونے سے بھر کردے دی جائیں، لیکن ہوس ہے کہ ختم نہیں ہوتی___ جتنا مل گیا اتنا ہی اور چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر جملے میں خزانے سمودیے___ انسان کا پیٹ قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی شے نہیں بھر سکتی! ہاں، جو رب کا ہوجائے، رب اس کا ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُسے دنیاوی مال و جاہ کے حوالے سے قناعت عطا کرتا ہے اور دین و عمل صالح کی حرص بڑھا دیتا ہے۔
انسان اپنی بات کی اہمیت کو جانتا ہی نہیں۔ نیکی کی بات ہو تو سمجھتا ہے اس سے بھلا کیا فرق پڑے گا، اور بری باتوں کو تو بعض اوقات اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کی کمزوریاں معلوم ہوجائیں اور انھیں بیان کرنے کی لذت لیتے ہوئے، غیبت نہ کی جائے۔ بات بے بات جھوٹ، ایک دوسرے کی چغلی، تہمت و الزامات، گالم گلوچ، بد زبانی، فحش گوئی، اظہارِ غرور و تکبر، گناہ ایک سے بڑھ کر ایک اور ذریعہ ایک چھوٹی سی زبان۔
دوسری طرف اللہ کو پسند آنے والی بظاہر ایک معمولی سی بات، لیکن درجات بلند سے بلند تر کردے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی مختصر سی تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ہی کو دیکھ لیجیے۔ آپ ؐ کے ارشاد کے مطابق زمین و آسمان کے درمیان سارے خلا کو بھردے___ اورذریعہ وہی چھوٹی سی زبان۔