قرآن کریم اور علوم القرآن سے اُمت مسلمہ کا تعلق یوں تو ہر دور میں نمایاں نظر آتا ہے جس کی ایک دلیل تفسیری ادب میں شاہکار تصانیف کا پایا جانا ہے۔ چنانچہ اسلام کے دورِ احیا میں صرف ۲۰ویں صدی میں ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی، یوسف علی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، مفتی محمد شفیع، سید قطب شہید اور محمداسد کی تفاسیر نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ قبولیت عام حاصل کرنے کے بعد اُمت مسلمہ پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا ذریعہ بنیں۔ شاہکار انسائی کلوپیڈیا قرآنیات خود مدیراعلیٰ کے الفاظ میں تفسیر نہیں ہے، گو مضامین کی تیاری میں معتبر و مستند تفاسیر سے مدد لی گئی ہے۔ اس کی اصل خوبی سلیس اُردو میں اُردو اصطلاحات کی بنیاد پر قرآنیات سے متعلق مضامین پر مقالات کا یک جا کر دینا ہے۔ بعض مقالات معروف مسلمان مفکرین کی تحریرات سے اخذ کیے گئے ہیں اور اکثر اس مجموعے کے لیے لکھوائے گئے ہیں۔ ہر ماہ ایک قسط کی اشاعت کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اب تک چار اقساط شائع ہوچکی ہیں۔ پہلی قسط جنوری ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی تھی۔
مضامین میں خصوصی طور پر یہ خیال رکھا گیا ہے کہ مسلکی رنگ نہ آنے پائے۔ بعض مقالات مثلاً ’آثارِ قدیمہ‘ (ج ۱، ص ۱۹-۳۹)، ’آدم‘ (ص ۵۳ تا ۶۹)، ’آیات‘ (ج ۳، ص ۱۷۴ تا ۲۰۷)، ’ابراہیم‘ (ج ۳، ص ۲۱۵ تا ۲۳۲)، ’آفرینش‘ (ج ۳، ص ۱۲۹ تا ۱۳۹) دیگر مقالات کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی ہیں، جب کہ دیگر مضامین میں مواد کی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ بعض مضامین میں غیرضروری معلومات شامل کر دی گئی ہیں، مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد پر دوسری جلد میں قرآنیات کے حوالے سے ان کی خدمات پر معلومات کے ساتھ ساتھ بہت سی غیر ضروری تفصیلات کا لانا مناسب نہ تھا۔ اسی طرح بعض ایسے مضامین جن کا براہِ راست تعلق قرآنیات سے نہیں بنتا، ان کی شمولیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً آستر (Esther) پر مقالہ یا آسٹریلیا کے اصلی باشندوں پر مقالہ (ص ۱۱۲ تا ۱۱۶، ج ۲) براہِ راست موضوع سے مناسبت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جلداول میں آچاریہ شنکر پر مقالہ (ص۴۱ )، پر آخش پر مختصر نوٹ (ص ۴۸) غیرضروری محسوس ہوتا ہے۔ گو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآنیات کی اس انسائی کلوپیڈیا میں قوسین میں (عالمی مذاہب) کو بھی شامل کیا گیا ہے، اس بنا پر یہ معلومات درج کر دی گئی ہیں، مثلاً جلد اول میں آریہ مذہب پر (ص ۷۷ تا ۸۰) ایک مقالہ شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کا بنیادی موضوع چونکہ قرآنیات ہے اس لیے بہتر ہوتا کہ مدیراعلیٰ عالمی مذاہب پر ایک الگ انسائی کلوپیڈیا مرتب فرماتے اور قرآنیات کو قرآن کریم سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھا جاتا۔ اس طرح قرآنیات پر زیادہ مقالات کی گنجایش نکل آتی، اور بعض مختصر نوٹ بڑھ کر باقاعدہ مقالات کی شکل میں آجاتے۔
قرآنیات پر یہ تعارفی سلسلہ اُردو خواں حضرات کے لیے بہت مفید ہے لیکن گذشتہ پانچ دہائیوں میں جس تیزی کے ساتھ اُردو فہمی میں پاکستان میں زوال پیدا ہوا ہے، اس کے پیش نظر یہ معلومات اگر سادہ انگریزی میں بھی آجاتیں تو ہمارے نوجوان طلبہ کے لیے بہت مفید ہوتیں۔
محترم سید قاسم محمود اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت شاہکار انسائی کلوپیڈیا اسلام اور شاہکارانسائی کلوپیڈیا پاکستان جیسی وقیع کتب ہیں۔ گو شاہکار انسائی کلوپیڈیا فلکیات اور سیرت النبیؐ ابھی منظرعام پر نہیں آسکیں لیکن اب تک جو کام تنہا سیدصاحب نے کیا ہے، وہ انتہائی قابلِ تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس سلسلے کو مکمل کرنے کی توفیق دے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
ہجرت کی اصطلاح اپنے گھربار، وطن، ملک، علاقے اور شہر کو اللہ کے راستے میں چھوڑ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے، تاہم اس کا لغوی مفہوم کسی جگہ یا مقام سے دوسری جگہ نقل مکانی ہے۔ قرآن و حدیث نبویؐ کی رُو سے ہجرت کا تقاضا ہے کہ انسان نفس کی بے جا خواہشات ناپسندیدہ اور بُرے اخلاق اور عاداتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ نبیؐ مہرباں کا فرمان ہے: مہاجر وہ ہے جو شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے۔
زیرنظر کتاب کو اپنی نوعیت کی منفرد کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے حمیدنسیم رفیع آبادی مولانا جلال الدین عمری کے تلمیذ رشید اور شعبۂ فلسفہ مسلم یونی ورسٹی کے ریسرچ فیلو رہے۔ ہجرت کا اسلامی تصور میں قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تصورِہجرت کے مختلف پہلوئوں (ہجرت کے مختلف معانی و مفاہیم، مراحل، مقاصد، وجوب اور فلسفے) کو خوب صورت اسلوب اور پیرایۂ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے ہجرت کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ساتھ غنیمت، خمس، وراثت اور دیگر مسائل وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔
ڈاکٹر حیات عامر نے اپنے مدلل و مفصل اور وقیع مقدمے میں موضوع کا بھرپور احاطہ کیا ہے جس نے کتاب کی افادیت دوچند کر دی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سیدمطلوب حسین کا فکرانگیز مضمون ’واقعۂ ہجرت کی عالم گیر اہمیت‘ اور مولانا عبدالرحمن پرداز اصلاحی کا ’ہجرت کے بارے میں مستشرقین کا موقف‘ کے عنوان سے مستشرقین کے رکیک جملوں کے جواب پر مبنی مشتمل مضمون بھی شاملِ کتاب ہے۔ آخر میں مآخذ بھی درج ہیں۔ ہجرت کے موضوع پر اتنا وقیع اور مفصل مواد یک جا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پروف خوانی احتیاط سے کی گئی ہے۔ معیارِ طباعت بھی اطمینان بخش ہے۔ اس طرح کتاب حسن صوری و معنوی کا عمدہ نمونہ ہے۔ (عمران ظہورغازی)
مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کے تحقیقی و تنقیدی صحیفہ کی تازہ اشاعت جنگ ِ آزادی ۱۸۵۷ء سے متعلق ہے۔ یہ شمارہ جنگ ِ آزادی کے ایک سو پچاس سال مکمل ہونے پر قدرے تاخیر سے شائع ہوا ہے۔ اس میں ۱۸۵۷ء کا پس منظر و پیش منظر، حالات و واقعات، شخصیات، فکرونظر، تاریخی و ادبی مآخذ، نوادر کے علاوہ موضوعات پر معروف اہلِ علم کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ معین الدین عقیل نے ’جنگ ِ آزادی، اسباب و نتائج‘ کے عنوان سے ۱۸۵۷ء سے قبل اور مابعد پیش آمدہ واقعات کا تجزیہ کیا ہے اور اُن محرکات کی نشان دہی ہے جو اس صورت حال کا موجب بنے۔ عقیل صاحب کا ایک اور مضمون ’سوانح افسری‘ کے تعارف پر مبنی ہے۔ ’سوانحِ افسری‘ ۱۸۵۷ء کا ایک غیرمعروف مآخذ پر آپ بیتی حیدرآباد دکن کی فوج کے ایک مسلمان افسر کی ہے جو ۱۸۵۷ء اور بعدازاں انگریزی افواج کی اعانت کا مرتکب ہوتا رہا۔
ڈاکٹر محمدسلیم اختر نے مختلف تواریخ اور انگریز افسروں کی یادداشتوں کی مدد سے ’موجودہ پاکستان علاقوں کا جنگ ِ آزادی میں کردار‘ کے موضوع پر مضمون لکھا ہے جو ۱۸۵۷ء کے دوران اِن علاقوں کی صورتِ احوال پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی طرح غلام شبیر رانا کے مضمون بعنوان ’تاجر سے تاج ور تک‘ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے تناظر میں، میں انگریز تاجروں کے اُن حیلے بہانوں، جارحانہ ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حربوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو انھوں نے اپنے قیام ہندستان کے دوران اہلِ ہندستان سے روا رکھے۔
نوادرات کے گوشے میں مرہٹوں کے اُس وقت کے پیشوا نانا فرنویس کا ایک اُردو اشتہار خاصے کی چیز ہے جس میں ہندوستان کے باشندوں کو غاصب انگریزوں کے خلاف بغاوت پر اُکسایا گیا ہے۔ یہ اشتہار ۶؍جولائی ۱۸۵۷ء کو شائع کیا گیا تھا۔ اسی گوشے میں اختر حسین راے پوری کی ایک ہندی تحریر کا ترجمہ (از خالد ندیم) شامل ہے جس میں بہادرشاہ ظفر اور اُن کے بچے کھچے خاندان کی اُس حالت کا نقشہ بعداز تحقیق کھینچا گیا ہے جو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نتیجے پر اس گھرانے کے رنگون آنے کے بعد رہی۔ اسی حصے میں ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی نے مدرسہ عبدالرب، دہلی کی ایک اپیل کو (جو ۱۸۵۷ء کے پس منظر میں ہے) مع عکس پہلی مرتبہ پیش کیا ہے۔
۱۸۵۷ء اور شخصیات کے گوشے میں ’غالب، تحریکِ مجاہدین اور ۱۸۵۷ء‘ کے موضوع پر خالد امین کا مضمون نئی معلومات فراہم کرتا ہے اگرچہ اس کے کچھ مندرجات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ’محمدحسین آزاد اور ۱۸۵۷ء‘ از رفاقت علی شاہد بھی اُس عہد کے ایک بڑے ادیب اور ہنگامِ انقلاب کے اُن پر اثر کو واضح کرتا ہے۔
ایک گوشے میں معروف محقق خلیل الرحمن دائودی کی ۱۸۵۷ء سے متعلق تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے۔ یہ تحریریں اُس دور کے حالات و واقعات اور مختلف اشخاص پر اجمالی نظر ڈالتی نظر آتی ہیں۔ ’رفتارِ ادب‘ صحیفہ کا مستقل سلسلہ ہے۔ اس میں جنگ ِ آزادی سے متعلق شائع شدہ کتب پر تبصرے کیے گئے ہیں۔ آخر میں ۱۸۵۷ء پر مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور کی مطبوعات سے جو اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، وہ اپنے اپنے موضوعات پر مکمل مضامین ہیں، مثلاً: ’ جنگ ِ آزادی اور ادب‘، ’جنگ ِ آزادی اور پُرشکوہ آبادی‘ اور ’دہلی میں اٹھارہ سوستاون‘ وغیرہ۔
اپنے مشمولات کے اعتبار سے صحیفہ کا یہ خاص شمارہ تاریخِ برعظیم کے ایک نہایت اہم ترین واقعے کی اہم دستاویز قرار دیا جاسکتا ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں وہ نظامِ تعلیم نافذ نہ ہوسکا جو ایک طرف ہمارے نظریاتی تقاضے پورے کرتا، نئی نسل میں اسلامی فکروشعور کی آبیاری کرتا اور دوسری طرف یہاں کے باشندوں کو ذمہ دار اور بااصول شہری بناتا۔ ایسا کیوں نہ ہوا؟ زیرتبصرہ کتاب میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تعلیم سے متعلق اہم مباحث کو زیربحث لایا گیا ہے۔ ذریعۂ تعلیم کے بارے میں مختلف دانش وروں کی آرا دی گئی ہیں اور قدیم و جدید ماہرینِ تعلیم کے افکار سے جگہ جگہ استدلال کیا گیا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم، اس کی بنیادیں اور عملی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ مغربی نظامِ تعلیم کا پس منظر، اہداف اور اس کے معاشرے پر مضر اثرات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مغربی نظامِ تعلیم اور اسلامی نظامِ تعلیم کا تقابل بھی کیا گیا ہے۔ تعلیمِ نسواں کو الگ سے موضوع بنایا گیا ہے اور خواتین کے لیے مردوں سے الگ نصاب کی سفارش کی گئی ہے۔ ایک باب میں دینی مدارس کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نیز علماے کرام اور مدارس کے حقیقی کردار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ نصابِ تعلیم دینی اور سائنسی تعلیم کا امتزاج ہونا چاہیے اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہونا چاہیے۔ جدید افکارونظریات، جدید ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے مضر اثرات کے جائزے کے بعد انھیں اپناتے ہوئے محتاط رویے کی ضرورت ہے۔
مصنف نے خلوصِ دل سے توجہ دلائی ہے کہ تعلیمی انقلاب رجوع الی اللہ اور فوری جدوجہد کا متقاضی ہے، اور جب تک نظامِ تعلیم صحیح خطوط پر استوار نہیں ہوتا انتظارِ انقلاب، کارِ عبث ہے۔ فہرست مآخذ سے کتاب کی وقعت اور جامعیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (امجدعباسی)
دنیاے فانی سے رخصت ہونے والوں کو یاد کرنا، خصوصاً ان کی نیکیوں کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار اور ان کی خدمات کو بطور مثال پیش کرنا ایک مستحسن روایت ہے۔
زیرنظر کتاب، تحریک اسلامی سے وابستہ ایک ایسی خاتون کے سوانح اور خدمات کا تذکرہ ہے جو اپنی دینی اور اسلامی خدمات کی بنا پر مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔ کتاب میں شامل ان کے والدین، بہن بھائیوں، زوجِ محترم، سسرالی رشتہ داروں، اساتذہ کرام، سہیلیوں اور جملہ احباب، واقفانِ حال بلکہ ملازمین سبھی کی تحریریں اس امر کی شاہد ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ان کا ہر ایک سے بھرپور تعلق تھا۔ وہ حقوق و فرائض کی انجام دہی میں ایک توازن کے ساتھ عہدہ برآ ہوتی رہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو تحریک کے کام کو ’اپنا کام‘ جان کر پوری تن دہی اور لگن سے مصروفِ عمل رہتے ہیں اور صحت کی خرابی یا دیگر عذرات کی بنا پر اپنی راہیں کھوٹی نہیں کرتے۔
حلقہ ہاے درس کو چلانے کا معاملہ ہو، بیرونی روابط کا مسئلہ ہو، گھریلو امور، مہمان نوازی اور رشتہ داریاں نبھانے کی ذمہ داری ہو، ساجدہ زبیری ہر کام کو اعلیٰ معیار پر انجام دینے کی قائل تھیں۔ ان کا کوئی بھی کام سرسری اور رسمی یا خانہ پُری کی خاطر نہ ہوتا تھا۔ ان کی اس خوبی پر بہت سوں نے اس کتاب میں گواہی دی ہے۔ ساجدہ نے بیماری کا ایک طویل عرصہ جس صبر واستقلال سے گزارا، وہ بھی مثالی ہے۔
کتاب میں شامل ساجدہ زبیری کے نو نثرپارے ان کے ادبی ذوق کے غماز ہیں۔ عنوانات مختلف ہیں، مگر ہر ایک میں نظریاتی رچائو موجود ہے، اور ان کے حسِ مزاح کی جھلک بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔
اس کتاب کی مرتب اور ساجدہ زبیری کی خواہر عابدہ عبدالخالق لکھتی ہیں: ’’اس کتاب کی اشاعت کا مقصد شخصیت پرستی کے کسی جذبے کی تسکین نہیں، اس کاوش کا مقصد اپنے اردگرد کے ماحول میں کمزور ہوتے ہوئے خاندانی نظام اور معدوم ہوتی ہوئی اعلیٰ انسانی قدروں کو پھر سے تقویت دینا ہے۔ انسانیت کے گم گشتہ سچے جذبوں کو پھر سے پا لینے کی کوشش کرنا ہے‘‘۔ (ص۶-۷)
اس اعتبار سے یہ کتاب اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے اور قارئین بالخصوص خواتین کے لیے ایک گراں بہا تحفہ ہے۔ معیارِ طباعت نہایت عمدہ ہے۔ سرورق سادہ اور جاذبِ نظر ہے۔ (زبیدہ جبیں)
علامہ ابن جوزی (۵۰۸ھ-۵۹۷ھ) کی کتاب کتاب البر والصِّلۃ کا ترجمہ ہے۔ ابن جوزی مقدمے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے زمانے کے نوعمروں کو دیکھا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی جانب متوجہ نہیں ہوتے، نیز اعزہ و اقربا سے تعلقات کو توڑتے ہیں جن کو اللہ پاک نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مال سے غریبوں اور فقیروں کی مدد اور ان کے ساتھ غم خواری سے اِعراض کرتے ہیں۔
یہی اس کتاب کے موضوعات ہیں۔ اس میں والدین کی خدمت، رشتہ داروں کے ساتھ روابط، لوگوں کے ساتھ باہمی تعاون اور معاشرتی نیکی و بھلائی اور خیرخواہی کا مفصل بیان ہوا ہے اور ان امور سے غفلت پر دونوں جہاں کی خسارے کی وعید سنائی گئی ہے۔ کُل۵۴ ابواب میں سے ۱۸باب صرف والدین کے موضوع پر ہیں۔ ہر موضوع سے متعلق احادیث بیان کر کے حکم نکالا گیا ہے۔
ہم مسلمانوں کا مسئلہ آج کل علم کی کمی کا نہیںہے بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے عمل نہ کرنے کا اور اس کے لیے جواز اور بہانے تلاش کرنے کا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک جامع تصنیف ہے۔ ابن جوزی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ لکھتے تھے اور اس طرح انھوں نے ۲ہزار کتابیں لکھی ہیں۔ کتاب میں ان کے مفصل حالات بھی ملتے ہیں۔ (مسلم سجاد)