میں تمھیں دنیا سے ڈراتا ہوں، اس لیے کہ یہ بظاہر شیریں و خوش گوار، تروتازہ و شاداب ہے۔ نفسانی خواہشات اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ میسر آجانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوڑی سی (آرایشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔ وہ (جھوٹی) اُمیدوں سے سجی ہوئی، اور دھوکے اور فریب سے بنی سنوری ہوئی ہے۔ نہ اس کی مسرتیں دیرپا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے بے فکر رہا جاسکتا ہے۔ وہ دھوکے باز، ضرر رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے، ختم ہونے والی، اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوئوں تک پہنچ جاتی ہے، تو بس وہی ہوتا ہے جو اللہ سبحانہٗ نے بیان کیا ہے: (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسے ہے) ’’جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اُتارا، تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھلا پھولا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہوگیا، جسے ہوائیں (اِدھر سے اُدھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔ (الکھف ۱۸:۴۵)
جو شخص اس دنیا کا آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رُخ دیکھتا ہے، وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رُخی بھی دکھاتی ہے۔ اور جس شخص پر راحت و آرام کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں، اس پر مصیبت و بلا کے طوفان بھی آتے ہیں۔ یہ دنیا ہی کے مناسب حال ہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہوجائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا ایک گھونٹ شیریں و خوش گوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلاانگیز، جو شخص بھی دنیا کی تروتازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لاد دیتی ہے۔ جس کی شام امن و سلامتی کے بال و پَر کی حامل ہوتی ہے، اس کی صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا۔ وہ خود بھی فنا ہوجانے والی ہے اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے۔ اس کے کسی سامان میں، سواے زادِ تقویٰ کے کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اس سے جو شخص کم حصہ لیتا ہے،وہ اپنے لیے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے، اور جو کوئی دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے، وہ اپنے لیے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے، (حالانکہ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنھوں نے دنیا پر بھروسا کیا اور اس نے انھیں مصیبتوں میں ڈال دیا، کتنے ہی اس پر بھروسا کیے بیٹھے تھے جنھیں اس نے پچھاڑ دیا، کتنے ہی رعب و طنطنے والے تھے جنھیں حقیر وپست بنا دیا، اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے جنھیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز، اس کا سرچشمہ گدلا، اس کا خوش گوار پانی کھاری، اس کی حلاوتیں ایلوا (کی مانند تلخ) ہیں۔اس کے کھانے زہر ہلاہل، اور اس کے اسباب و ذرائع کے سلسلے بودے ہیں۔ زندہ رہنے والا معرضِ ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے۔ اس کی سلطنت چھن جانے والی، اس کا زبردست زیردست بننے والا، مال دار بدبختیوں کا ستایا ہوا اور ہمسایہ لٹا لٹایا ہوا ہے۔ پھر اس کے بعد سکرات اور یومِ جزا میں پیش ہونے کے مشکل مراحل درپیش ہوں گے: ’’تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے، اوران لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنھوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے‘‘۔ (النجم ۵۳:۳۱)
کیا تم انھی سابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے، پایدار نشانیوں والے، بڑی بڑی اُمیدیں باندھنے والے، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لائولشکر والے تھے؟ وہ دنیا کی کس طرح پرستش کرتے رہے، اور اسے آخرت پر کیسی کیسی ترجیح دیتے رہے۔ پھر بغیر کسی ایسے زاد و راحلہ کے، جو انھیں راستہ طے کرکے منزل تک پہنچاتا، چل دیے۔ کیا تمھیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے کہ دنیا نے ان کے بدلے میں کسی فدیے کی پیش کش کی ہو یا انھیں کوئی مدد بہم پہنچائی ہو یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی ہو؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے، آفتوں سے انھیں عاجز و درماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا، اور ان کے خلاف حوادثِ زمانہ کا ہاتھ بٹایا۔
تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیت اختیار کرلی یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوکر چل دیے۔ اس نے انھیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھیرنے کا سامان نہ کیا، اور سواے گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا، تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو، یا اسی پر مطمئن ہوگئے ہو، یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟ ارشاد خداوندی ہے: ’’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی، مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گا کہ) جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے‘‘ (ھود ۱۱: ۱۵-۱۶)۔ جو دنیا پر اعتماد کرے، اور اس میں بے خوف و خطر ہوکر رہے، اس کے لیے یہ بہت بُرا گھر ہے۔
جان لو، اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو کہ (ایک نہ ایک دن) تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ہم سے قوت و طاقت میں کون زیادہ ہے۔ انھیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے۔ انھیں قبروں میں اتار دیا گیا، مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے۔ پتھروں سے ان کی قبریں چُن دی گئیں، اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔
وہ ایسے ہمسایے ہیں کہ جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے، تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔ وہ ایک جگہ ہیں، مگر الگ الگ۔ وہ آپس میں ہمسایے ہیں مگر دُور دُور۔ پاس پاس ہیں، مگر میل ملاقات نہیں۔ قریب قریب ہیں، مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ بُردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بُغض و عناد ختم ہوگئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دُور کرنے کی توقع ہے۔
ارشاد الٰہی ہے: ’’سو دیکھ لو، ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخرکار ہم ہی وارث ہوکر رہے‘‘۔ (القصص ۲۸:۵۸)
انھوں نے زمین کے اُوپر کا حصہ اندر کے حصے سے ،اور کشادگی اور وسعت تنگی سے، اور گھربار پردیس سے، اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے، اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے، ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہوگئے، اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کرگئے۔ جیساکہ اللہ سبحانہٗ نے فرمایا ہے:
کَمَا بَدَاْنَـآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ طوَعْدًا عَلَیْنَا ط اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۰۴) جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا، اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے، اس وعدے کو پورا کرنا ہمارے ذمے ہے،اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے۔
(نہج البلاغہ، انتخاب: عبدالحئی ابڑو، بحوالہ ترجمان القرآن، مئی ۱۹۹۶ء)