بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
’’امریکہ‘‘آج روے زمین پر طاقت‘ ظلم اور جبر سے اپنی مرضی مسلط کرنے کی علامت بن چکا ہے۔ اس ملک کی قیادت نے جس کی پس پشت قوت دراصل یہودی ہیں‘ فساد فی الارض کو اپنا یک رکنی ایجنڈا بنا لیا ہے اور وہ اس کے خاکے میں انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خون سے مسلسل رنگ بھرنے میں مصروف ہے۔ برطانیہ سے آزادہونے کے بعد سے امریکی فوج ۱۰۲ سے زائد مرتبہ دنیا کے مختلف ممالک میں دخل اندازیاں کر چکی ہے اور صرف ۱۹۴۵ء کے بعد سے‘ اب تک یہ ۲۰ سے زائد ملکوں میں فوجی مداخلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ۲۳سے زائد ملکوں پر بمباری کر کے لاکھوں معصوم شہریوں کا خون بہایا ہے۔ ان ممالک میں عراق‘ افغانستان‘ لبنان‘ سوڈان‘ انڈونیشیا‘ کوریا‘ چین‘ ویت نام سمیت متعدد چھوٹے ممالک شامل ہیں۔ امریکہ ۲۰ سے زائد ممالک میں بغاوتوں میں مدد کر چکا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی‘ سربراہانِ مملکت کے قتل میں شریک ہونا ثابت ہے۔ انڈونیشیا کے سوئیکارنو ہوں یا مصر کے جمال عبدالناصر‘ مراکش کے جنرل احمد ولیمی ہوں یا ایران کے آیت اللہ خمینی‘معمرقذافی ہوں یا شاہ فیصل شہید‘ امریکہ اور اس کی خفیہ تنظیمیں دنیا بھر کے رہنمائوں کے قتل یا اقدامِ قتل کی منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں۔ اور یہ باتیں اب محض دعوے یا الزامات نہیں بلکہ ان پر متعدد تحقیقی کتب اور مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
آخر امریکہ یا بالفاظ دیگر پس پردہ قوت محرکہ یہودی کیا چاہتے ہیں؟ تمام امریکی اقدامات‘ کارروائیوں‘سازشوں اور حملوں کی کڑیاں جوڑ لی جائیں تو اس سوال کا جو جواب واضح طور پر سامنے آجاتا ہے اور وہ ہے: ’’ایک ایسے عالمی نظام کا قیام جس میں امریکہ کے معاشی مفادات اور ہوس پر مبنی امریکی تہذیب کا مکمل غلبہ ہو۔ اس کے افکار کو فروغ حاصل ہو رہا ہو‘ زیادہ سے زیادہ کی طلب کی بنیاد پر قائم نظامِ معیشت چل رہا ہو‘ جس کے نتیجے میں دولت کا بہائو عالمی اور مقامی سرمایہ داروں کی طرف رہے‘ میڈیا کے ذریعے ایک ایسی فضا بنا دی جائے کہ لوگ اس کے دیے ہوئے زاویۂ نگاہ کے مطابق دیکھتے اور سوچتے ہوں‘ اس کا حکم مانا جاتا ہو اور اس کی بارگاہ میںسرتسلیمِ خم کیا جاتا رہے اور لوگ اس کی قائم کردہ عدالتوں میں اپنے معاملات لے کر پہنچیں اور اسی کے عطا کردہ قوانین پر اپنے فیصلے کروائیں‘‘۔ غرض اخلاق‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت سب کچھ اسی کے متعین کردہ پیمانوں‘ ضابطوں‘ قاعدوں کی بنیادوں پر استوار ہو۔ اسی پروگرام اور منصوبے کے تحت اس نے کبھی لیگ آف نیشنز قائم کی تو کبھی اقوامِ متحدہ ‘کبھی وہ اپنی فوجوں کے ساتھ ویت نام‘ افغانستان اور عراق میں اترا تو کبھی سازشوں کے ذریعے اس نے ایران پر بھاگ جانے والے شاہ کو دوبارہ مسلط کیا (۱۹۵۳ئ)‘ انڈونیشیا میں فوجی حکومت لانے کی کوشش کی۔ اور کبھی لیبیا‘ کمبوڈیا‘ گوئٹے مالا‘ پاناما‘ نکاراگوا‘ لائوس اور پیرو جیسے چھوٹے اور کمزور ممالک میں مداخلتیں کرتا رہا اور اپنے ایجنڈے کوآگے بڑھاتا اور فروغ دیتا رہا۔
ذرائع ابلاغ اور معیشت کی قوتوں کو استعمال کر کے اپنے مذہب ’’لبرلزم‘‘ کے فروغ کے لیے امریکہ کو عراقی تیل کی ضرورت پیش آئی یا افغانستان میں فوجی چوکی قائم کرنے کی ‘اس نے کبھی کسی رکاوٹ یا لومۃ لائم کی پروا نہیں کی۔ اقوامِ متحدہ سمیت ساری دنیا کی رائے کو نظرانداز کر دیا اور ہمیشہ پوری قوت سے اپنے ایجنڈے کے خاکے میں رنگ بھرتا چلا گیا۔ اسی حوالے سے اس کا تازہ ترین شکار ایک بار پھر عراق ہے۔
۲۲ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکی عسکری سالار جنرل ٹومی فرینکس نے دوحہ میں عراق پر اپنے حملے کے جو اسباب بیان کیے تھے ان میں مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنا‘ دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کا نیٹ ورک ختم کرنا‘ موجودہ عراقی حکومت کی معزولی اور پھر تبدیلی‘ اور تیل کے کنوئوں کی حفاظت شامل تھی۔ ان سارے مقاصد کے حصول کے لیے مہم جوئی ان مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے جو وہ خود اقوامِ متحدہ کی ربڑاسٹمپ کے ذریعے طے کروا چکا ہے۔ امریکہ جن مہلک ہتھیاروں کی بات کرتا تھا اقوامِ متحدہ کے چیف اسلحہ انسپکٹر ہنس بلکس اور عالمی ادارہ براے جوہری توانائی کے سربراہ محمدالبرادی ۷ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنی رپورٹ میں عراق میں ان کے عدمِ وجود کا اعتراف کر چکے ہیں اور پھر ۶۰ سے زیادہ الصمود میزائلوں کی تباہی کے بعد تو اس کا قطعاً کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ممالک خودمختاری کے حوالے سے برابر ہیں اور کسی ملک کی سرحدوں کو بزورِ قوت پامال نہیں کیا جائے گا مگر امریکہ خود یہ کر رہا ہے اور مزید کرنے پر مصر ہے۔ جہاں تک عراق میں موجود دہشت گردوں کی گرفتاری کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر آج تک دہشت گردی کی کوئی تعریف ہی متعین نہیں کی جا سکی ہے اور اب تک عملاً جسے امریکہ دہشت گرد کہتا ہے اسے اقوامِ متحدہ دہشت گرد تسلیم کر لیتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان الزامات میں کوئی حقیقت سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔
دراصل امریکہ کے پیشِ نظر عراق کے حوالے سے بالکل مختلف اہداف ہیں۔ اور یہ اب کوئی راز نہیں رہے۔
۱- مشرق وسطیٰ کے عین بیچ میں بیٹھ کر اطراف کے ممالک پر تسلط قائم کرنے اور اس پورے خطے اور خود عراق کی جغرافیائی تشکیلِ نو (۷ مارچ کو ۲۰۰۳ء کو اپنی پریس کانفرنس میں بش نے تین مرتبہ شیعہ سنی اور کردوں کا الگ الگ تذکرہ کیا)۔ یاد رہے کہ ماضی میں دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد بھی استعمار نے پہلے تو عربوں کو ترکوں سے لڑایا اور پھر ایک ہی مذہب‘ خطے و جغرافیے‘ زبان‘ نسل‘ تہذیب‘ تمدن اور کلچر رکھنے والے عربوں کو بیسیوں ممالک میں تقسیم کیا اور ان پر اپنے نمایندہ بادشاہوں کو مسلط کر کے دراصل اپنی کالونیاں بنائے رکھا۔ اور اب وہ انھیں تقسیم در تقسیم سے دوچار کرنا اور ان پر اپنی تہذیب مسلط کرنا چاہتا ہے۔
۲- دنیا کے تیل کے دوسرے بڑے ذخیرے کے مالک ملک عراق کے تیل اور گیس پر قبضہ‘ اور عراق کو ۲۰۰۰ء میں تیل کی فروخت کے لیے ڈالر کے بجائے یورو کرنسی کے طور پر منتخب کر کے ڈالر کو نقصان پہنچانے کی سزا دینا اور عالمی معیشت کے یورو کی طرف رجحان کو توڑ کر دوبارہ ڈالر کی طرف موڑنا۔
۳- دنیا میں تیل کے سب سے بڑے صارف‘ یعنی خود امریکہ کو تیل کی سستی‘ محفوظ‘ مسلسل‘ بلاتعطل فراہمی کا مستقل بندوبست کرنا۔ اور عراق اور شرق اوسط سے تیل حاصل کرنے والے دوسرے ممالک جن میں یورپ کے ممالک اور چین اہم ہیںپر اپنا دبائو اور گرفت قائم کرنا۔
۴- اگلے مرحلے پر سعودی عرب‘ ایران اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کے خلاف کارروائیوں کی راہ ہموار کرنا۔
۵ - خطے میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا (حال ہی میں کولن پاول نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ ہم اسرائیل پر سے مہلک ہتھیاروں کے تمام سائے ہٹا کر دم لیں گے)۔
۶ - جنگ اور پھر تعمیرنو کے نام پراپنی فوجی اور تعمیری صنعتوں کو اربوں ڈالرکی فراہمی۔
۷ - دنیا پر اپنی فوجی اور معاشی دھاک بٹھانا اور عالمی اور علاقائی سیاسی نقشے کی اپنے منصوبے اور مفاد کے مطابق تشکیلِ نو۔
ان عزائم کے ساتھ امریکہ اس وقت دنیا کی قریبی تاریخ کا سب سے بڑا غاصب اور امریکی دانش ور چومسکی کے بقول (rogue) بدمعاش ملک بن کر سامنے آیا ہے اور دنیا پر اپنے قبضے کے ارادے کے سامنے چند لاکھ عراقیوں کا خون اسے سستا سودا معلوم ہو رہا ہے اور بظاہر ساری دنیا اس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ مگر امریکی ظلم کی جو تاریکی گھٹاٹوپ اندھیرے میں بدل چکی ہے یہیں سے اس کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہیں سے ایک تابندہ سویرے کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں اور سپیدۂ سحرطلوع ہونے کے آثار ہیں۔ کنارفلک کا یہی سیاہ ترین گوشہ ان شاء اللہ مطلع ماہِ تمام بن سکتا ہے۔ آیئے ذرا اس کاجائزہ لیتے ہیں:
۱- امریکی استبداد نے دنیا بھر کے دردِ دل رکھنے والے اربوں انسانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ۱۵ فروری اور اس کے بعد ہونے والے زبردست مظاہرے عوامی مزاج میں بڑی تبدیلیوں کا پتا دے رہے ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے نبض شناس جانتے ہیں کہ ہر دور میں تبدیلی کا نکتۂ آغازیہی ہوتا ہے۔
۲- امریکہ کو اس کے جبر نے تنہا کر دیا ہے۔ جو چند ممالک اس کے ساتھ ہیں ان میں اکثریت ناقابلِ ذکر ممالک کی ہے اور عراق پر قبضے کے بعد علاقے میں امریکہ کے لیے اہداف کے سلسلے میں اختلاف رائے سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکہ نے جن ۴۴ ممالک کی فہرست عراق کے خلاف حملے کے حامیوں کے طور پر پیش کی تھی ان میں کوسٹاریکا‘ جمہوریہ ڈومینگن‘ ایل سلواڈور‘ اسٹونیا‘ ایتھوپیا‘ منگولیا‘ مائیکرونیشیا‘ مارشل آئس لینڈ‘ روانڈا‘ سولومن آئی لینڈ‘ یوگنڈا‘ ہنڈوراس‘ اریٹیریا اور پائولا جیسے ممالک شامل ہیں۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب امریکہ اپنے موقف کی حمایت میں ایسے نام پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے تو عالمی سطح پر اس کی حیثیت کیا ہو چکی ہے اور آنے والے ماہ و سال اسے مزید کہاں پہنچا سکتے ہیں۔
۳ - ایک بات تو اب طے ہے کہ آنے والے دنوں میں بنائوبگاڑ کے فطری اصولوں کے مطابق امریکہ کی شکست کے بعد اُمت مسلمہ ہی کو دنیا کی امامت کرنی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے اندر ردعمل کا جو شدید لاوا پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت آتش فشاں کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اس بے پناہ قوت کا رخ درست سمت میں موڑ کر اسے امریکی استعمار کے خلاف مستقبل کی طاقت ور مزاحمت کی شکل دی جا سکتی ہے۔
۴ - عراق کے عوام نے جس طرح پوری جرأت کے ساتھ امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اور قبضے کے بعد بھی مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ بزعم خود عالمی سوپرپاور قابلِ مزاحمت ہے اوراس کے بارے میں ناقابلِ شکست کا جما جمایا تاثر ختم ہوگیا ہے۔ یہ بڑی اہم اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اور ماضی میں بھی ہمیشہ بڑی قوتوں کو کمزور قوموں کی مزاحمت ہی سے زوال آیا ہے۔
۵- جس طرح افغانستان روس کے لیے دلدل بن گیا تھا اسی طرح آثار و قرائن‘ عراقیوں کی منصوبہ بندی اور بعض دیگر اطلاعات بتا رہی ہیں کہ عراق بھی ان شاء اللہ امریکہ کے لیے سیاسی مزاحمت اور گوریلا جنگ کا ایسا میدان بنے گا جس سے نکلنا امریکہ کے بس میں نہیں ہوگا۔ روسی مہم جوئی کے دوران پاکستان نے جس طرح سمجھ لیا تھا‘ اسی طرح عراق کے بعض سرحدی ممالک نے بھی جان لیا ہے کہ امریکہ کو عراق میں ہی پھنسا دینا درست حکمت عملی ہے۔
۶- افغان جہاد دورِ جدید میں جہاد کا ایک ایسا بابرکت چشمہ تھا جو اب بڑھ کر سیلِ رواں بن چکا ہے اور اس سے سیراب ہونے والے لاکھوں عرب و غیر عرب نوجوان شہادت کی تمنا لیے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ عراق نے ان بہت سے بے وطن قافلوں کو ایک اور منزل کا پتا دے دیا ہے اور شہادت کے متوالے اب اس جانب کوچ کر رہے ہیں۔ علما نے خودکش حملوں کو استشہادی مشن قرار دے دیا ہے اور اسے اللہ سے اپنی جان و مال کے سودے پر عمل درآمد سے تعبیر کیا ہے جس سے دشمن پر ایک لرزہ طاری ہے۔
۷ - مومن کا سب سے بڑا ہتھیار موت سے بے خوفی اور کافر کی سب سے بڑی کمزوری موت کا خوف ہے۔ یہی وہ فیصلہ کن نکتہ ہے جو بالآخر ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست پر منتج ہوتا ہے۔ آج جس طرح کروڑوں مسلمانوں کے دل شہادت کی تمنا سے لبریز ہیں‘ یہ اتنی بڑی قوت ہے جس سے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔
۸ - جنگ میں دشمن کے نازک مقام پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ پورے عالم اسلام میں امریکی و یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی طاقتور ہوتی تحریک دشمن پر ایک ایسی ضرب ہے جسے وہ اپنی پہلے سے گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے گا‘ ان شاء اللہ۔ (یاد رہے کہ ۲۸۰ ملین امریکی عوام ۱۲ ہزار ڈالر فی کس کے مقروض ہیں اور یہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے)۔ اس مہم کا ایک اضافی فائدہ صارفین کی یہ تربیت ہے کہ وہ ضروریات اور تعیشات میں فرق کریں۔ کم اور صرف ضروری اشیا پر قناعت سیکھیں تاکہ وسائل دشمن سے مقابلے کی تیاری میں صرف کرنے کے لیے بچائے جا سکیں۔
۹- امریکی طغیانی نے مسلمانوں کو نہیں خود عیسائی یورپی ممالک کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس وقت عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر رابطے جاری ہیں اور اس بات کے پورے پورے امکانات موجود ہیں کہ ایک ایسا بلاک وجود میں آجائے جو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط بند باندھ سکے۔ امریکی جارحیت کے مقابل ردعمل کی اس صورت میں بھی اُمید کا پہلو موجود ہے۔ روس‘ جرمنی اور فرانس نے حال ہی میں ایک سربراہی کانفرنس میں امریکہ کو مزید مہم جوئی کرنے کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔
مادی اسباب کے لحاظ سے اس وقت امریکہ عالمی انسانی تاریخ کی بظاہر سب سے بڑی معاشی‘ فوجی اور سیاسی طاقت بن چکا ہے۔ اسی بے مثال قوت نے اسے ایک ایسے غرور اور تکبر میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس کی قیادت طاقت کے نشے میں ہر اخلاقی حد کو پھلانگ رہی ہے۔ یہ رویہ ہمیشہ طاقت ور اقوام کے عروج کے بعد اس کے زوال کا سبب بنتا ہے اور وہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ امریکی صدر بش اور اس کے قریبی ساتھیوں کا حلقہ اپنی اس ہوس ملک گیری کو مذہبی لبادہ اوڑھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کوئی بھی انصاف پسند آدمی‘ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ اس بڑے پیمانے پر تباہی کو کسی مذہبی گروہ کا کارنامہ قرار نہیں دے سکتا اور خود پاپاے روم جان پال ثانی کے امریکی جارحیت کے خلاف بیانات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعماری ممالک کی وہی ہوس ملک گیری ہے جس کا تین سو سال سے کمزور اقوام شکار ہیں:
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
مادی قوت کے مقابلے میں برتر اخلاقی قوت‘ حوصلے اور ثابت قدمی کی طویل عرصے کی جدوجہد کے لیے اُمت مسلمہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مسلم حکمرانوں سے زیادہ مسلم اُمت کا ہے۔ سعودی عرب کے علما نے متفقہ طور پر جارحیت کے خلاف ’’مکہ مزاحمت‘‘ کے نام سے جس تحریک کے آغاز کی طرف دعوت دی ہے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور اس کو حکمرانوں کے سائے سے نکال کر عوام کی تحریک میں تبدیل کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کی تقسیم ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس تقسیم کی دیواروں کو اُمت مسلمہ کی ایک عالمگیر اسلامی تحریک کی قوت اور معاشی‘ سیاسی‘ عسکری‘ ہر میدان میں موثر تیاری اور منصوبہ بندی کے ہتھیاروں سے گرایا جا سکتا ہے۔
امریکی جارحیت کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمت مسلمہ میں تبدیلی کی موجودہ بھرپور سیاسی مزاحمتی لہر کو ایک زبردست تہذیبی جنگ میں بدل دیا جائے۔ لوگوں میں مایوسی کی جگہ اُمید کو عام کیا جائے‘ اضطراب و اشتعال کی طاقت ور لہر کو قوت میں بدل دیا جائے اور اس قوت کو اصلاحِ ذات‘ اصلاح معاشرہ اور اصلاح حکومت کی طرف موڑ کر نتیجہ خیزبنا لیا جائے۔
مذکورہ بالا عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک کے اندر فوجی‘ اور آدھی تیترآدھی بٹیر قسم کی جمہوری حکومت بھی تشویش کا باعث ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی اسٹاف ہونے کی حیثیت میں وزیراعظم کے ماتحت ہیں‘مگر صدرکے طور پر ان کے ’’باس‘‘ ہیں! وزیراعظم ہی نہیں‘ ۲۲گریڈ کے سرکاری افسر کی حیثیت سے وہ وزیردفاع کے بھی ماتحت ہیں اور صدر مملکت کی حیثیت سے پوری کابینہ ان کے ماتحت ہے! بحیثیت چیف آف اسٹاف وہ جوائنٹ چیف کے ماتحت اور فضائی اور بحری افواج کے سربراہوں کے برابر ہیں اور بحیثیت صدر وہ تمام افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ بحیثیت صدر مملکت پارلیمنٹ ان کے خلاف مواخذے کی قرارداد لا کر انھیں برطرف کر سکتی ہے مگر چیف آف اسٹاف پارلیمنٹ کے احتساب کے دائرہ سے باہر ہے۔ یہ تمام تضادات اپنی جگہ مگر اس پر بھی وہ مصر ہیں کہ اپنی اس مضحکہ خیز پوزیشن کوبرقرار رکھیں گے۔
اس صورت حال میں دو حوالوں سے ہمارا ایک واضح موقف ہے جسے سمجھ لینا چاہیے۔ ایک فوج اور اس کی قیادت اور دوسرا پارلیمنٹ اور ایل ایف او۔
ہم اپنی فوج کا احترام کرتے ہیں‘ بحیثیت ادارے کے ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کی جائز ضروریات پوری کرتے اور ملکی دفاع کے تناظر میں ان کو پوری اہمیت دیتے ہیں اور آیندہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہم اس کی موجودہ قیادت‘ اس کی اخلاقی و عملی حالت اور رویوں پر تحفظات رکھتے ہیں اور انھیں فوری طور پر اصلاح طلب سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کا موٹو رکھنے والی اس فوج کی قیادت کو اپنا طرزِعمل درست کرنا ہوگا۔ ہمیں آج کی فوج کی کچھ سطحوں اور دائروں میں ایک بار پھر یحییٰ خانی کلچر کو فروغ دیے جانے پر شدید تشویش ہے۔ ہماری فوجی قیادت کی اخلاقی حالت نے انھیں اندر سے اتنا کمزور کردیا ہے کہ وہ رات گئے موصول ہونے والی ایک ٹیلی فون کال پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ انھی خامیوں نے انھیں امریکہ کا اتحادی بنا دیا جس کے باعث وہ اس وقت قوم کی نظروں میں اپنی عزت و توقیر کھو چکے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے افغانستان و عراق میں ظلم کے اتحادی بن کر اپنی مائوں اور بہنوں کی ردائیں‘ بھائیوں اور بیٹوں کا خون ایک ارب ڈالرکے عوض فروخت کر دیا ہے۔ ہماری حمیت گروی رکھ کر یہ لوگ رقم حاصل کرتے ہیں اور پھرنہ صرف یہ کہ انھیں اللّے تلّے میں اڑا دیتے ہیں بلکہ نہ معلوم کہاں کہاں اس میں سے کیا کچھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ بقول اقبال ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
یہ نہیں دیکھ رہے کہ پاکستان کے خلاف کیس مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کہوٹہ پابندیوں کی زد میں ہے۔ دشمن جس نے ڈھائی سو کلومیٹر مار کرنے والے عراقی میزائل برداشت نہیں کیے وہ پاکستان کے ڈھائی ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کو کس طرح نظرانداز کر سکتا ہے۔ ہماری موجودہ قیادت اس احساس سے عاری ہے کہ ہمارے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں تنہا کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہندو پنڈتوں کے جارحانہ بیانات آرہے ہیں‘ بھارت کو بیرونی قوتیں ہمارے خلا ف استعمال کر سکتی ہیں اور کسی بھی لمحے جرمِ ضعیفی کی سزا اچانک مرگ کی صورت ہم پر نازل کرنے کی سازشیں ہیں‘ امریکی ان داتا تک آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ان کے دوسری اور تیسری صف کے افسران ’’وعدے پورے کرنے‘‘ اور ’’کنٹرول لائن‘‘ پر بین الاقوامی سرحد کے قواعد کا اطلاق کرنے کے مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیز افغان پاک سرحد کو پھر شعلہ فشاں کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اورہماری یہ فوجی قیادت چین کی بنسری بجا رہی ہے‘ خطروں پر پردے ڈال رہی ہے‘ خوش فہمیوں کے ہوائی قلعے تعمیر کر رہی ہے اور خود اپنی ہی قوم کو مفتوح رکھنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کیا قومی سلامتی اور دفاعِ وطن کے یہی طور طریقے ہیں؟ کیا عراق کے عوام کی بے مثال مزاحمت اور سیاست میں ملوث فوج کے پادر ہوا ہونے سے بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل رہیں؟ عالمی خطرات اور علاقائی طالع آزمائوں کی طرف سے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں فوج کو سیاست سے پاک رکھنا اور اس کی دفاعی قوت اور قوم کے اعتماد کو ہر تنازع سے بالا رکھنا ضروری ہے‘ وہیں ملک کے اندر بنیادی امور پر یک جہتی اور حقیقی سیاسی استحکام بھی ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ لیگل فریم ورک آرڈر کو ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے؟
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بسااوقات ایک درست موقف پر مدلل گفتگو اور اپنی بات پر پوری دیانت داری کے ساتھ جمے رہنے کو فریق مخالف منفی طور پر پیش کرنے اور اپنے موقف کی کمزوری کو دوسرے پر حملہ کر کے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ایل ایف او کے سلسلے میں بھی کیا جا رہا ہے اور حکومتی حلقے کوئی مضبوط بنیاد نہ پا کر بات کو الفاظ کی گرد میں اڑانے‘ ابہام پیدا کرنے اور نان ایشوز میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم پورے شرح صدر کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ کسی فردِواحد کو آئین جیسی مقدس و محترم دستاویز میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کی اجازت نہیں۔ ملک کی کوئی عدالت کسی کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ آئین کو پنسل کی لکھی دستاویز سمجھ لے اور اسے جب چاہے لکھتا مٹاتا اور تبدیل کرتا رہے۔
اسی اصولی موقف کے ساتھ ہم لیگل فریم ورک آرڈر کے نام پر کسی غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن چونکہ ہم زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے قائل ہیں اس لیے یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت کی جانب سے صدرمشرف کو دیا گیا تین سال کا عرصہ غلط ہونے کے باوجود اب گزر چکا ہے۔ پارلیمنٹ وجود میں آچکی ہے۔ لہٰذا اب آئین و قانون کے مطابق سارے معاملات اسی فورم پر طے ہونے چاہییں۔ ماضی میں ایل ایف او پر جو مذاکرات ہوئے وہ بھی اس مقصد کے لیے تھے کہ ہم مسائل پیدا کرنا اور قوم اور حکومت کو بندگلی میں دھکیلنا نہیں چاہتے بلکہ اسے روشن شاہراہ پر نکال لانا چاہتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے ایل ایف او کی متعدد شقوں پر اتفاق کر لیا ہے یا مناسب ترمیم کے ساتھ انھیں قابلِ قبول بنا لیا ہے اور پارلیمنٹ میں انھیں منظور کروانے کے لیے اپنا تعاون بھی پیش کر دیا ہے‘ تاہم یہ طے ہے کہ متحدہ مجلس عمل‘ وردی والے صدر کو قبول کر کے فوجی آمریت کا تسلسل قائم نہیں رہنے دینا چاہتی۔ ہم اس موقف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ فوج اپنے دائرے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اور پارلیمنٹ اپنے دائرے میں۔ فوج کو بھی ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے اور ملک کو بھی ہمہ وقتی صدر کی۔ تاہم پوری وسعت ظرف کے ساتھ یہاں بھی ہم یہ پیش کش کرتے ہیں کہ اگر صدر مشرف وردی اتارنے کی کوئی تاریخ دے دیں تو اس سے پہلے ہم پارلیمنٹ سے انھیں صدر منتخب کروا دیں گے اور ایک منتخب صدر کی حیثیت سے انھیں ان کا پورا مقام دیں گے۔ البتہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے اصولی موقف سے اب یا آیندہ ہٹا لے گا توایسے شخص کی صحتِ دماغی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت اس وقت قوم کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہو چکی ہے اور مجلس عمل نے لاکھوں کے اجتماعات سے اپنے بھرپور عوامی قوت ہونے کی حیثیت کو ثابت کر دیا ہے۔ ایسے میں اس قوت کا رخ پرویز مشرف کی طرف موڑکر انھیں ہٹایا بھی جا سکتا ہے لیکن ہم موجودہ عالمی تناظر میں فی الحال کوئی ایسا اقدام نہیں چاہتے جس سے ملک عدمِ استحکام کی کیفیت سے دوچار ہو۔ تاہم ہمارے اس خیرسگالی پر مبنی جذبے کا مثبت جواب دیا جانا چاہیے۔
ایل ایف او پر ہمارا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ فردِواحد کا تیار کردہ ہے اور اس کا برقرار رہنا پہلے سے کمزور نظام والے ملک کو مزید خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔ صدرمشرف کو جان لینا چاہیے کہ مستقبل کے خطرات کا مقابلہ عوامی شرکت والے نظام کے بغیر ممکن نہیں: ایک ایسا نظام جس میں عام آدمی اپنی عزت محسوس کرے‘ عدل اجتماعی قائم ہو‘آئین و عوامی نمایندوں پر مشتمل ایوان بالادست ہوں‘ معاملات شورائیت کے ذریعے طے پاتے ہوں اور دستور پر عمل ہوتا ہو۔ انھیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ دینی قوتوں کی قیادت میں ایک بڑی طاقت ور عوامی لہر موجود ہے جو ملکی نظام کو قرآن و سنت کے تابع دیکھنا چاہتی ہے۔ جو چاہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تیار کردہ سفارشات سے قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ پورے اخلاص کے ساتھ رہنمائی حاصل کریں‘ اور جو امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک سے باوقار دوستی کا تعلق تو ضرور قائم کرنا اور رکھنا چاہتی ہے مگر اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور ملکی اور ملّی مفادات کے تحفظ کا عزم رکھتی ہے اور ان کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہم آزاداور متوازن خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی کو ہر قیمت پر استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور یہی اس قوم کی آرزو اور عزم ہے۔
جہاں تک جمالی شجاعت حکومت کا تعلق ہے ‘ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہم اسے گرانا نہیں چاہتے۔ یہ بھلی بری حکومت بہرحال جمہوری ہے۔ ہم تو ان منتخب نمایندوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے اندر جرأت پیدا کریں اور خود کو مشرف کا غلام بے دام بننے سے بچائیں۔ اسی میں ان کی‘ حکومت کی اور ملک و قوم کی بہتری ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے مشرف کے بغیر شجاعت صاحب اور جمالی صاحب اپنے آپ کو غیرمحفوظ اور سرپرستی سے محروم سمجھتے ہیں‘ اور مشرف صاحب کو بھی افواج پاکستان پر اپنا زائدالمیعاد تسلط قائم رکھنے کے لیے سیاست دانوں کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
متحدہ مجلس عمل ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے اللہ کا انعام ہے۔ یہ اُمت کے عالم گیر اتحاد کا نقطۂ آغاز ہے اور اس پہلے قدم کی برکتیں اور رحمتیں ہر صاحب ِ ایمان کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ اور ان شاء اللہ آنے والے دنوں میں اس کی فیوض و برکات کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔
مجلس عمل کی بنیاد اخلاص‘ ایثار‘ قربانی اور اللہ اور اس کے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت کے ساتھ غیر مشروط وفاداری پر رکھی گئی ہے۔ اس بابرکت اتحاد کے قیام اور برقرار رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان نے اپنے مقاصد کو آگے اور خود کو پیچھے رکھا ہے۔ مشترکات پر جمع ہوئے ہیں اور اختلافی نکات پر سکوت اور باہمی احترام کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں اچھی بات کہی ہے یا پھر خاموش رہنے کو بہتر جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم نے بھی اس پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا‘ اسے اپنی محبتوں سے نوازا ہے اور اسے پورا مان دیا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ملین مارچ کی وہ پوری سیریز ہے جس میں بلامبالغہ لاکھوں افراد شریک رہے ہیں۔ اس حدیث رسول کے مطابق کہ:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہٖ فان لم یستطع فبلسانہٖ وان لم یستطع فبقلبہٖ وذلک اضعف الایمان (او کما قالؐ)
تم میں جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے۔ اس کی قوت بھی نہ رکھتا ہو تو زبان سے اسے بُرا کہے‘ اور اس کی قوت بھی نہ رکھتا ہو تو کم از کم اسے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
الحمدللہ! مجلس عمل نے پوری قوم کو اس کمزور درجے سے نکال کر علی الاعلان برائی کو للکارنے کاحوصلہ اور پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ اس ملک کے وہ کروڑوں لوگ جو موجودہ صورت حال پر دل میں کڑھتے تھے ‘ آج مجلسِ عمل کے ہم آواز ہیں اور دشمن کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ہم نے لاکھوں افراد کو متحرک کر دیا ہے اور اخلاقی تائید کی زبردست کمک عراق کو فراہم کی ہے اور آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امریکہ کے استعماری عزائم اور کارروائیوں کے خلاف بڑی تحریک منظم کر رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ لوگ امریکہ کے عالمی استعمار کے خلاف اُٹھ رہے ہیں اور امریکی و یہودی مصنوعات تک استعمال کرنے کو تیار نہیں۔ نوجوانوں کے گروپ کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے باہر کھڑے ہوکر وہاںآنے والے لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد ان کی مدلل گفتگو اور پمفلٹس سے متاثر ہو کر واپس لوٹ جاتی ہے۔ جگہ جگہ عمومی بیداری کی ایک لہر ہے جس کی قیادت ایم ایم اے کے پاس ہے اور تمام آزادی پسند اور باضمیر افراد اس تحریک کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جب کہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے دُور دُور تک موجود نہیں۔ یہ کسی کا کمال نہیں محض اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے ممکن ہوا ہے۔
پرویز مشرف کے نعرے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کو جو ایک طرف دراصل ’’سب سے پہلے میں‘‘ اور دوسری طرف پاکستان کے رشتے کو اُمت ِ مسلمہ سے کاٹنے کی ایک عیارانہ چال ہے‘ عوام مسترد کر چکے ہیں۔ مسلمان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ مفکر پاکستان کے بقول:
پھر سیاست چھوڑ داخل حصار دیں میں ہو
ملک و ملت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
اور
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
اور ان کا یہ اعلان ہے کہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
یہ عقیدہ پاکستان کے ہر مرد اور عورت‘ جوان‘ بچے اور بوڑھے کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا ہے۔ اور اگر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا کوئی مفہوم ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنایا جائے اور پاکستان اُمت مسلمہ کی تقویت کا باعث ہو اور مسلم اُمہ پاکستان کی۔ ہمارا تو اصل ہدف ہی ’’اُمت احمد مرسل‘‘ کو ایک حقیقت میں تبدیل کرنا ہے اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا یہی کام ہے۔ متحدہ مجلس عمل اس تحریک کی قوتِ محرکہ ہے۔ اس تحریک کے تمام کارکنان کو وقتی اور عارضی مفادات سے صرفِ نظر کرکے دُور رس نتائج کے حامل مشترک اعلیٰ مقاصد پر نظررکھنی چاہیے جو اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر کے انسانیت کو عدل و انصاف فراہم کرتا ہے۔
صوبہ سرحد میں ہماری قوت صدیوں کے جمود کو توڑ رہی ہے۔ لوگوں کے لیے اس کی حیثیت ایک خوش گوار اور تازہ ہوا کے جھونکے کی سی ہے۔ عوام کو محلات میں لے جانا توشاید جلد ممکن نہ ہوسکے مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ نئے حکمران محلات میں رہنے کے بجائے‘ اپنے شب و روز عوام کے درمیان گزار رہے ہیں۔ جبر کے نظام کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ نئی قانون سازی ہورہی ہے۔ حکومت سرحد کی مقرر کردہ شریعت کونسل کی وقیع تجاویز آچکی ہیں جنھیں جلداسمبلی سے منظور کرا کے ان شاء اللہ بتدریج نافذ کر دیا جائے گا۔ صوبائی سطح پر اسلامی حکومت کے پہلے کام اقامت صلوٰۃ پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ تمام دفاتر اور سرکاری مقامات پر اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔ غیرسودی بنک کاری‘ چھوٹے قرضوں کی فراہمی‘ خواتین کے حقوق‘ صحت و تعلیم کے محکموں کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور صوبے کی منتخب دیانت دار ٹیم اپنے اُجلے دامن کے ساتھ دن رات عوامی خدمت کے پروگرام ترتیب دیتی اور ان کے مطابق عمل درآمد کرتی نظر آتی ہے۔ الحمدللہ! تبدیلی کی یہ لہر جس میں صوبہ سرحد سبقت لے گیا ہے‘ اٹک کا پُل پار کر چکی ہے اور باب الاسلام سندھ نے بھی اس کے لیے اپنا سینہ کھول دیا ہے۔ آنے والے دن ان شاء اللہ ایک بڑے انقلاب کی نوید سناتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں کے کارکنان اپنے دل ایک دوسرے کے لیے کھول دیں‘ باہمی رنجشیں اور چھوٹے چھوٹے اختلاف بھلا دیں اور سب مل کر مجلس عمل کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوت بنا دیں۔ پھر دیگر دینی طبقات اور ہر باضمیر اور باشعور انسان تک پہنچیں‘ انھیں قریب لائیں ۔ اس وقت بیشتر دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنی قیادتوں سے مایوس ہیں۔ انھیں ذاتی مفادات کا اسیرپاتے ہیں۔ ایسے میں ان کارکنان کو محبت سے اپنی جانب متوجہ کریں اور اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے اپنے ساتھ ملا لیں۔ یقین کیجیے‘ یہ مواقع قوموں کو صدیوں میں کبھی کبھی ملاکرتے ہیں کہ جب وہ برسوں کا سفر لمحوں میں طے کرسکتے ہیں۔ ایسے وقت میں ساری توانائیاں‘ سارے وسائل‘ ساری صلاحیتیں لوگوں کو اپنے اندر جذب کرنے میں لگا دیں۔ معاشرے کے بااثر طبقات تک پہنچیں‘ انھیں اپنی صفوں کا حصہ بنا لیں۔ اپنے سینے کشادہ کر لیں اور چھوٹے چھوٹے دائروں سے باہر نکل آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ موقع اس صبح کو ہمارے بالکل قریب کر دے گا جس کی دُھن میں ہم نے اپنا سب کچھ لگا اور کھپا دیا ہے۔ آپ ایک قدم بڑھائیں‘ اللہ اور پوری قوم دس قدم آگے بڑھنے کو تیار ہے۔ آیئے‘ اس انمول لمحے کو گرفت میں لے کر آنے والے کل کو تابندہ سویروں میں بدل ڈالیں!
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف صاحب کوتین سال کی جو مدت دی تھی وہ اب مکمل ہورہی ہے۔ ان کی حکومت نے جو سات نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے پیش کیا تھا‘ اس کا پہلا نکتہ قوم کو مایوسیوں سے نکال کر انھیں اعتماد دینے کا ایجنڈا تھا۔ اس لحاظ سے یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔موجودہ حکومت قوم کو کوئی نشانِ منزل نہیں دے سکی ہے بلکہ ملک بنانے والوں نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو اسلامی مملکت بنانے کے جس مقصد کے لیے متحد کیا تھا‘ جس کے لیے انھیں قربانیوں پر آمادہ کیا تھا‘ جس کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی اور جس کی خاطر ایک کروڑ لوگوں نے اپنے گھربار چھوڑ دیا تھا ‘موجودہ حکومت نے سیکولرازم اور کمال ازم کا تذکرہ کر کے اور نصاب تعلیم اور دینی مدارس میں مداخلت کرکے اس منزل کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ موجودہ حکومت نے امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کرکے تہذیبوں کی جنگ میں عملاً اسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیاہے۔ امریکی افواج کو افغانستان میں مداخلت کی خاطر ہوائی اڈے فراہم کیے۔ ان کے ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے لیے اپنی فضا فراہم کی اور انھیں خفیہ معلومات فراہم کیں۔
مغربی اقوام اور امریکہ کے دبائو کے تحت موجودہ حکومت اپنی کشمیر پالیسی سے دست کش اورکشمیری مجاہدین کی امداد سے دست بردار ہو گئی ہے۔ اس نے جہاد کو دہشت گردی‘ اور مجاہدین کی امداد کے لیے آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں جانے کو دراندازی تسلیم کر کے اس کو بند کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ان اقدامات سے امریکہ تو خوش نہ ہو سکا کیونکہ امریکی اور مغربی پالیسی صہیونی اور بھارتی مفادات کے تابع ہے البتہ اس کے نتیجے میں حکومت نے ملک کے اندر امریکہ اور بھارت کے خلاف موجود شدید نفرت کا رخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔
اگر محب وطن اور بیدار مغز دینی قیادت لوگوں کی صحیح رہنمائی کرکے ان کی جدوجہد کو مثبت راستوں پر نہ ڈالتی تو حکومت نے اس صورت حال سے تخریبی قوتوں کوفائدہ اٹھانے کا پورا پورا موقع فراہم کر دیا تھا۔ملک کے اندر تخریبی کارروائیوں کی مذمت کرکے اورچرچ اور مشنری اسکول اور مشنری ہسپتال پر حملوں کو اسلام دشمن قوتوں کی کارروائی قرار دے کر‘ دینی قیادت نے ملک کو تخریب کاروں کی آماجگاہ بننے سے بچایا ہے۔
حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان میں امن و امان کی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ طویل مدت کے صنعتی منصوبوں میں لگانے سے گریزاں ہیں لہٰذا بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ درآمدی اور برآمدی تجارت کی مقدار کم ہو گئی ہے اور قوم بے یقینی کی شکار ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنی ایٹمی صلاحیت پر ناز تھا لیکن یہ صلاحیت بھی اب پوری طرح امریکی نرغے میں ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی فوجوں کی حکومت ہے جنھیں مزاحمت کا سامنا ہے۔ اب امریکی‘ پاکستان کے قبائلی علاقے میں بھی مداخلت کر رہے ہیں اور بہانہ یہ بنا رہے ہیں کہ وہ القاعدہ کے مجاہدین کا پیچھا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستانی افواج امریکی دبائو کے تحت قبائلی علاقے میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہو گئی ہیں بلکہ پہلی مرتبہ ہماری افواج کو داخلی طور پر بھی مخالفت کا سامنا ہے۔
تین سالہ ناکام دورکے خاتمے پر جنرل پرویز مشرف صاحب اس خوف سے دوچار ہیں کہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں جومنتخب اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں گی وہ اگر ان کے حسب منشا لوگوں پر مشتمل نہ ہوئیں تو ان کو اپنے اقدامات کے لیے جواب دہی کرنا پڑے گی۔ اس خوف کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت نے انتخابات سے حسب منشا نتائج حاصل کرنے کے لیے قبل از انتخابات دھاندلی کا ایک منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت انھوں نے آئینی ترامیم کا ایک پیکج کسی دستوری اختیار کے بغیر نافذ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں منتخب اسمبلیاں خودمختار نہیں ہوں گی بلکہ انتخابات کے بعد بھی اصل اختیار غیرمنتخب اداروں اور افراد کے پاس رہے گا۔ قومی سلامتی کونسل کا ادارہ جس میں تینوں افواج کے سربراہ اور ان کے سربراہوں کے ادارے کا چیف‘ وردیوں والے چار جرنیل اورصدر(موجودہ صدر بری فوج کے سربراہ بھی رہنا چاہتے ہیں) اصل قوت ہوں گے۔ یہ ادارے اور صدر اسمبلیوں اور حکومت کو توڑنے اور برخاست کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس طرح فوج کے مستقل طور پر سیاست میں ملوث اور دخیل رہنے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے اور جو ملک ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا تھا مستقل طور پر فوج کی عمل داری میں دے دیا گیا ہے۔ دستوری ترامیم کے مطابق صوبوں میں صدر کے نامزد گورنروں کا راج ہوگا۔ وہ اسمبلیوں کو اور صوبائی حکومتوں کو برخاست کر سکیں گے۔
ایسے حالات میں دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ (MMA) روشنی کی ایک کرن ہے۔ یہ کرن مجلس عمل کی شریک جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کے اخلاص عمل اور قربانی سے روشنی کا مینار بن سکتی ہے۔ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی صورت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دینی سیاسی جماعتوں نے آپس میں مل کرانتخابی اتحاد بنایا ہے۔ اس سے قبل مذہبی جماعتوں نے ملک کی دوسری جماعتوں سے مل کر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد بنایا تھاجس کے سربراہ مولانا مفتی محمود مرحوم تھے اور جس کا نعرہ بھی نظام مصطفی تھا۔موجودہ مجلس عمل میں چھ مذہبی سیاسی جماعتوں‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماے اسلام (فضل الرحمن)‘ جمعیت علماے اسلام (سمیع الحق)‘ جمعیت علماے پاکستان ‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث اور اسلامی تحریک پاکستان (سابق تحریک فقہ جعفریہ) نے آپس میں اتحاد کیا ہے اور مشترک منشور‘ مشترک دستور‘ مشترک تنظیم‘ ایک جھنڈے اور ایک انتخابی نشان کے تحت مل کر انتخاب لڑنے اورتمام معاملات میں مشترک موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بلاشبہہ ایک ناقابل یقین پیش رفت (break through) ہے۔ اس طرح کا اتحاد عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ اب مذہبی جماعتوں پر تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا الزام لگانے والوں کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ شیعہ‘سنی‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر متفق ہو جانا اور ان سفارشات کے نفاذ کے مطالبے کو اپنے منشور میں شامل کرنا ایک بابرکت اور اہم قدم ہے۔ اگر یہ اتحاد قائم ودائم رہے تو اُمت مسلمہ کے لیے بے شمار برکات اور خوش خبریوں کا حامل بن سکتاہے۔ اُمت مسلمہ پر اس کے دُور رس خوش گوار اثرات کے پیش نظر اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے تمام شامل جماعتوں کے کارکنوں اور ان کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں حقیقی محبت اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہیں اور اتحاد و یک جہتی کے جذبے کوعوام الناس کے رگ و ریشے تک پہنچا دیں۔
اتحاد کے جذبے کو عام کرنے کے لیے مشترک انتخابی مہم اہم ترین ذریعہ ہے۔ مشترک انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
قائدین کا ملک گیر دورہ : چھ جماعتوںکے سربراہ مل کر پورے ملک کے طول و عرض کا دورہ کریں۔ تمام شریک جماعتیں مل کر اس کا پروگرام بنائیں۔ اس دورے کے دوران متحدہ مجلس عمل کا اللہ اکبر اور سبز ہلال والا سفید جھنڈا عوام کے دلوں پر نقش ہو جائے۔
مشترک نعرے: انتخابی مہم کے دوران ملک کی گلی کوچوں میں‘ چھوٹے بڑے جلسوں اور جلوسوں میں ایسے نظریاتی اور پیغام کے حامل نعرے لگائے جائیں جو عوام کے دلوں کی آواز ہیں۔ اگر کہیںحاضرین میں ایسے نعرے لگ جائیں جس سے دوسروں کو اتفاق نہ بھی ہو تو برداشت اور حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات کو دُور کرنے کے لیے وقت‘ حوصلہ اور صبر درکار ہے۔ آپس میں عفوودرگزر کے جذبے کے بغیر مہمات کو سر نہیں کیا جا سکتا۔
مساجد کو مرکز بنانا: ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمایندے شامل ہیں اس لیے ملک بھر کی تمام مساجد کو اس تحریک کے مراکز کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ دنیاوی سیاست کے علم بردار دینی جماعتوں کے کارکنوں اور علما وخطبا پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ مساجد کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دوسرے دینی فرائض کی طرح ایک فریضہ ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کو مٹانے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اسلامی حکومت قائم کی تھی۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے انھوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا‘ ان کی تربیت کی‘ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دی‘ انھیں ہجرت اور جہاد پر آمادہ کیا اور طویل جدوجہد کے بعد اسلامی حکومت قائم کر دی جس کے ذریعے قرآن کے احکام نافذ کیے اور عام انسانوں کو عدل و انصاف فراہم کیا۔ اس غرض کے لیے حضور نبی کریمؐ نے مسجد کو مرکز بنایا۔مسجد کو اسلامی سیاست کا مرکز بنانا حضور نبی کریمؐ کی سنت ہے۔ اعتراض کرنے والے دین کے حقیقی تصور سے جس میں دین و دنیا کی تفریق نہیں‘ آگاہ نہیں ہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ مسجد میں سیاسی حکمت عملی بیان کرتے وقت قرآن وسنت سے دلائل دیے جائیں۔ دوسروں کی دل شکنی اوردل آزاری سے پرہیز کیا چاہیے۔ دینی جماعت کے کارکن اور عام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اخلاق میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جو دینی تعلیمات کے دائرے سے باہرہو۔
دفاتر کے علاوہ محلے کی مسجد کوبھی مجلس عمل کی انتخابی سرگرمیوں کا مرکز بنایئے اور تمام نمازیوں کو ان سرگرمیوں میں شرکت پر آمادہ کیجیے۔ یہ کام حکمت اورمحبت کے ساتھ کرنے کا ہے۔اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے محبت سے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ دنیا کا نہیں ‘دین کا کام ہے۔ البتہ مسجد میں شورکرنے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے اور لوگوں کی نمازوںاور عبادت‘ تلاوت قرآن اور درود و وظائف میں ہرگز مخل نہیں ہونا چاہیے۔
دین اور سیاست کی دوئی کے تصور کو ختم کرنا علماے کرام کا فرض ہے۔ دینی جماعتیں اگر انتخابی مہم چلا رہی ہیں تو اسی وجہ سے چلا رہی ہیں کہ یہ ایک دینی فریضہ ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام حضور نبی کریمؐ کی اہم ترین سنت ہے اور اس کے احیا میں اُمت کی زندگی ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد اور انتخاب میں شرکت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لغدوۃ او روحۃ فی سبیل اللّٰہ خیر من الدنیا وما فیھا ’’اللہ کے راستے میںایک صبح کا چلنا یا ایک شام کا چلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘۔ انتخابی مہم میںکام کرنے کے لیے وقت نکالنا‘ جلسے جلوس میںشرکت کرنا اور ووٹروں تک مجلس عمل کا پیغام پہنچانا اللہ کے راستے میں چلنا ہے اور بلاشبہہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔
کارکنوں کو باہمی ربط بڑھانے کے لیے حضور نبی کریمؐ کے امتی ہونے کا تصور پوری طرح ذہن نشین کرنا چاہیے اور اپنی دوسری حیثیتوں کو ثانوی درجہ دینا چاہیے۔ ’’اللہ کی محبت‘ اللہ کے رسولؐ کی محبت اور اللہ کے راستے میں جہاد کی محبت‘‘ وہ مشترک محبتیں ہیں جو ہمیں جوڑ کر رکھتی ہیں۔ دوسری کسی محبت کو ان محبتوں پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ اگر ہم دوسری محبتوں کو ان بنیادی محبتوں پر ترجیح دیں گے تو اس کا نتیجہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو اس آیت میں اچھی طرح سمجھائی ہے:
اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز و اقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کوخوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سامنے لے آئے۔ (التوبہ ۹:۲۴)
عوام الناس کو بتایا جائے کہ ووٹ دینا ایک دینی فریضہ ہے۔ یہ حق کی گواہی ہے اور جب مسلمان کو حق کی گواہی دینے کے لیے بلایا جائے توگواہی دینا اس کا فرض ہے۔ حق کی گواہی دینے سے احتراز کرنا دینی فریضے کوادا کرنے سے احتراز اور حق کی گواہی چھپانا ہے۔ اللہ کا حکم ہے: وَلاَتَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗط (البقرہ ۲:۲۸۳)’’گواہی مت چھپائو اور جو گواہی چھپاتا ہے تو اس کے دل میں گناہ ہے‘‘۔
ایک ایسے شخص کو ووٹ دینا جو خود نااہل اور فاسق ہے یا وہ ایسی پارٹی کے ساتھ ملاہوا ہے جس کی قیادت خیانت کرنے والے نااہل لوگوں پر مشتمل ہے‘ اپنی امامت نااہل کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۹۸ ) ’’مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔
عوام الناس کو جاننا چاہیے کہ اگر وہ خود ووٹ دیتے وقت عدل اور انصاف نہیں کریں گے اور نااہل کو اختیارات کی امانت سپرد کریں گے تو اس کے نتیجے میں ظلم کا نظام برقرار رہے گا۔ پولیس بھی ظالم ہوگی‘ ڈی سی اور کمشنر بھی ظلم کرتے رہیں گے اور سیاست دان بھی لوٹ کھسوٹ جاری رکھیں گے اور تمام محکموں میں نااہل لوگ عوام کے ساتھ بے انصافی پر قائم ہوںگے۔ حالات میں تبدیلی اسی وقت ممکن ہے کہ عام ووٹر اپنے ووٹ کی پرچی کو امانت اور انصاف کے اصول کو مدنظر رکھ کر استعمال کرے۔ اگر ووٹ دیتے وقت عام آدمی خود عدل نہیں کرے گا تو اسے انصاف اور عدل کا نظام نہیں ملے گا۔
مختلف دینی جماعتوں کے کارکنوں کو مل جل کر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی مساجد میں نماز ادا کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ محبت اور اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کرناچاہیے اور آپس میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی عیادت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شرکت کرنی چاہیے۔ باہمی ربط سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور دوری اور فاصلوں کی وجہ سے بدگمانی پیدا کرنے والوں کو مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر منبر ومحراب سے ایک ہی آواز اٹھے اور یہ آوازیں آپس میں ہم آہنگ ہوجائیں توکوئی دوسرا میڈیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ ہرگلی کوچے میں واقع مسجد کومسلمانوں کااجتماعی اور سیاسی زندگی کو پاک کرنے کے مقدس فریضے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسجد اگر مسلمانوں کے اجتماعی اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کا مرکز بن جائے تو اللہ کے باغی خیانت کار لوگوں کی سیادت کاخاتمہ ہو جائے گا۔
ووٹ دینے کے لیے فہرست میں اپنا نام ابھی سے معلوم کرنا‘ پولنگ اسکیم میں دل چسپی لینا‘ شناختی کارڈ ساتھ رکھنا اور اپنے پولنگ اسٹیشن کا پتہ کرنا ہر ووٹر کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ایک ذمہ داری شہری اور ایک اچھے مسلمان کے طور پر اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ خواتین کے پولنگ اسٹیشن مردوں سے الگ محفوظ مقامات پر بنائے جائیں ۔ مجلس عمل کے کارکنوں کو خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کرنے چاہییں۔ ابھی سے خواتین انتخابی کارکنوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کا جو بھی امیدوار ہو اور اس کے نشان کتاب پر انتخاب لڑ رہا ہو اس کے لیے کام کرناتمام جماعتوں کے کارکنوں کا فرض ہے۔ اگر ایک جماعت کو ملک کے ایک حصے میں ٹکٹ ملے ہیں تو دوسرے حصے میں دوسری جماعت کو حصہ ملا ہوگا اور یہ فیصلے قائدین نے مل جل کر کیے ہیں۔ تمام کارکنوں کو قائدین کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم مشترک مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور کسی ایک کی کامیابی سب کی کامیابی ہے۔
اکتوبر کے انتخابی عمل پر ہمارے ملک کے مستقبل کا دارومدارہے۔ ایک جان دار انتخابی مہم کی صورت میں دھاندلی کی سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اگر عوام جوش و خروش سے انتخابی مہم کے دوران گھروں سے نکل آئے توحکومتی مشینری کو قاعدے‘ ضابطے کے مطابق درست رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیاجا سکتا ہے۔ ملک کے روشن مستقبل کا دارومدار پُرامن اور پُرجوش انتخابی مہم پر ہے اور اس بات پر ہے کہ ووٹر بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن آئیں۔ یہ اس وقت ہوگا جب ووٹر کو امید کی کرن نظرآئے گی۔ انھیں انتخاب کے بہتر نتائج کی اُمید دلانا مجلس عمل کے کارکنوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔ مجلس کے کارکن فتح کے یقین سے سرشار ہو کر کام کریں گے ‘ تب ہی دوسروں کو فتح کا یقین دلا سکیں گے اور عام ووٹر کے دل میں امید کی شمع روشن کر سکیں گے۔ پچھلے عام انتخابات میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف ۳۵ فی صد ووٹ پڑے تھے۔ اگر مجلس کے کارکنوں کی کوشش کے نتیجے میں ۶۰‘ ۷۰ فی صد ووٹ پڑ جائیں تو ووٹ کی پرچی سے انقلاب یقینی ہو جائے گا۔ جو لوگ ووٹ کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کی تکلیف گوارا نہیںکرتے وہ دراصل کسی اچھی اور بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے‘ اگرچہ وہ تبدیلی کے حامی ہوتے ہیں۔ اگر مجلس عمل کے کارکن لوگوں کو فتح اور بہتر تبدیلی کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے سینوںمیں امید کی شمع روشن کر دیں اور مرد اور خواتین جوق در جوق دینی جذبے سے سرشار ہوکر امت کو پستی سے نکال کر بلندیوں کی طرف گامزن کرنے کا عزم لے کر نکل کھڑے ہوں توووٹ کی ہر پرچی ان شاء اللہ اسلامی انقلاب کی نوید بن جائے گی۔
امریکی صدر جارج بش نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابل مذمت واقعات کا سہارا لے کر افغانستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن بودے ‘ شرم ناک اور ظالمانہ الزامات کے نام پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے انھی کا بہانہ بنا کر اسرائیل اور اس کے فلسطینیوںکے خون کے پیاسے وزیراعظم ایرول شیرون نے غزہ اور فلسطین کے علاقے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بالکل انھی مفروضوں کے بل پر بھارتی قیادت نے پاکستان پر جنگ تھوپنے کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جو جارج بش کی دھمکیوں میں آکر ان کے زیردام آچکے ہیں‘ اب اس ابتدائی اور بنیادی غلطی (original sin)کی پاداش میں ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی اَنا کو غذا فراہم کرنے کے لیے وہی مغربی قائدین اور صحافی جو انھیں ۱۱ ستمبر سے پہلے جمہوریت کا قاتل‘ فوجی ڈکٹیٹر اور عالمی محفلوں میں ناپسندیدہ شخص (persona non grata)قرار دے رہے تھے‘ اور صدر کلنٹن ان کے ساتھ اپنا فوٹو کھنچوانا اور ٹی وی پر ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا جانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے‘ اب ان کو سینے سے لگا رہے ہیں‘ اور ایک سے ایک بڑھ کر ان کو بہادر‘ معاملہ فہم‘ بالغ نظر اور روشن خیال بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس ذہنی رشوت کے بدلے ان سے ہر روز نت نئی مراعات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
افغانستان کو تباہ کرنے‘ وہاں اپنی فوجوں کے قدم جمانے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے بعد اب امریکہ کا ہدف کشمیر کا جہاد آزادی اور پاکستان اور عالم اسلام کی وہ تحریکات ہیں جو دین اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کی داعی ہیں۔ یہ مغرب کے استعمار کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت ہیں۔ وہی جہاد جو کبھی آزادی اور اشتراکیت کے خلاف جنگ کا روشن نشان تھا ‘اب دہشت پسندی کا دوسرا عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔ وہی مجاہد جن کا ۱۹۸۵ء میں صدر رونالڈ ریگن وہائٹ ہائوس میں استقبال کر رہے تھے اور ان کے چہروں پر فرشتوں کا نور دیکھ رہے تھے اور جن کے سروں پر امریکہ کی جنگ آزادی کی قیادت بشمول جارج واشنگٹن کا سایہ تلاش کر رہے تھے‘ اب انھیں زمین پر سب سے زیادہ قابل نفرت اور لائق مذمت گروہ سمجھ کر گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔
بات چلی افغانستان اور القاعدہ سے تھی‘ مگر اب فلسطین ہو یا کشمیر‘ شیشان ہو یا کوسووا یا فلپائن کے مورو __ ہر جگہ اپنی آزادی اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مصروفِ جہاد قوتیں ہی اصل ہدف ہیں۔ ان قوتوں کو دبانے کے لیے عسکری قوت اور ملٹری بلیک میل کے ساتھ ان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس پر پابندیاں لگائیں‘ مسجد اور منبر کی آزادی کو لگام دیں‘ اور اس اُمت کے جسم و جاں کو روح جہاد سے محروم کرنے کا سامان کریں۔ مغربی استعمار نے اپنے اولیں دور میں بھی جہاد ہی کو نشانہ بنایا تھا اور خود مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد اور افکار کو فروغ دیا تھا جو جہاد کو منسوخ اور اسے فرسودہ اور خطرناک قرار دینے والے ہوں۔ خواہ جدید تعلیم یافتہ اور لبرل اور ماڈرنسٹ ہوں یا مذہبی لبادہ اوڑھنے حتیٰ کہ نئی نبوت کی دستار زیب تن کرنے والے‘ سب ہی نے جہاد کو کالعدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر اللہ کی بات جہاں تھی وہیں رہی اور وہ ناکام و نامراد ہوئے۔ اب نئے استعمار کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے بھی وہی ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے!
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ جنوری کا وہ خطاب فرمایا ہے جس کا چرچا تقریر سے پہلے ہی پوری دنیا میں تھا اور اس کے اساسی نکات کا اعلان اسلام آباد سے نہیں‘ واشنگٹن سے اور جنرل صاحب کے نفس ناطقہ کی زبان سے نہیں امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کی زبان سے ہو رہا تھا۔
لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پابندی لگا کر حکومت نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ ہوا کا رُخ کیا ہے۔کس طرح کے اقدامات ان کے پیش نظر ہیں۔ تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ پر پابندی کی خبریں بھی عام تھیں اور دونوں تنظیموں کو پہلے انتباہ بھی کیا گیا تھا۔ دینی مدارس اور مساجد کے بارے میں مغربی قوتیں ایک عرصے سے مہم چلا رہی تھیں اور ان کے زیراثر پاکستان کی سیکولر اور لبرل لابی اور یہاں کا انگریزی پریس اور انگریزی فیشن میگزین مدارس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں عسکریت کے حوالے سے فیچر چھاپ کر مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ خود جنرل پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر اپنے اصل عزائم کی ایک جھلک دکھائی تھی مگر فوری عوامی ردعمل سے گھبرا کر قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔ اب حالات کو سازگار سمجھ کر اور مغربی اقوام کی پشت پناہی حاصل کرکے‘ دبے لفظوں میں اور مغالطہ آمیز اعلان کے ساتھ دین و سیاست کی تفریق کی طرف قوم و ملک کو لے جانے کے لیے اولیں اقدام کر کے اصل ایجنڈے کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کی تقریر میں دین و سیاست کو الگ رکھنے‘ مدارس اور مساجد کو رجسٹر کرنے اور پیشگی اجازت لیے بغیر کوئی نئی مسجد یا مدرسہ نہ کھولنے کے اعلانات اس سمت میں پہلا قدم ہیں۔
جہاں تک فرقہ وارانہ تعصبات اور فسادات کا تعلق ہے سبھی اسے ناپسند کرتے ہیں۔ ملک میں لسانی تعصبات اور علاقائی نفرتیں بھی عام ہیں۔ ان کے نتیجے میں جو فسادات ہوئے ہیں وہ زیادہ سنگین اور بڑے پیمانے پر تھے اور ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ تھے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لسانی اور علاقائی تعصبات والے گروہ موجودہ حکومت کے حلیف ہیں کیونکہ انھیں بھی پرویز مشرف حکومت کی طرح مغربی طاقتوں کی پشتی بانی حاصل ہے۔ اس لیے وہ محفوظ ہیں اور سارا نزلہ مذہبی عناصر پر گرایا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ملک کے اندر فساد پھیلانے والی تنظیمیں چاہے وہ فرقہ وارانہ ہوں یا علاقائی اور لسانی ہوں ملک کی یک جہتی‘ امن و سکون اور معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے زہر قاتل ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک ایک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ ان کی اکثریت کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس کے لیے مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر ظلم اور بے انصافی ہے۔ نیز فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں حقیقی اور موثر کردار اہل مذہب کا نہیں‘ ملکی اور بیرونی تخریبی عناصر اور ایجنسیوں کا تھا جس کا بار بار اعتراف خود سرکاری ذمہ داروں بشمول وزیر داخلہ نے کیا ہے۔ لیکن اب یہ سب پہلو نظرانداز کر دیے گئے ہیں اور ملبہ صرف کچھ مذہبی عناصر پر ڈالا جا رہا ہے۔
جنرل صاحب نے ایک ہی سانس میں پاکستان کو اسلامی ریاست بھی قرار دیا اور دین کو سیاست سے الگ رکھنے اور مسجد میں سیاست نہ کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے تصور پاکستان کی باتیں بھی کی ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ اقبال تو دین و دُنیا اور مذہب و سیاست کی یک رنگی کے قائل ہیں اور دُنیا کے پورے نقشے کی‘ بشمول ریاست و معیشت‘ دین کی بنیاد پر تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ:
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کا تو سارا پیغام ہی قوت کو دین کے تابع کرنے اور اسے حق کی حکومت کے لیے استعمال کرنے کا پیغام ہے:
لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا اور ان کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کو فلاح اور کامیابی کا زینہ سمجھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دین اور سیاست الگ ہیں یامسجد میں سیاست کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ پورا قرآن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے حسین اور دل نشین امتزاج پر مشتمل ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے اسلامی حکومت قائم کی ہے۔ آئین اورقانون عطا کیا ہے۔ ایک مصرع میں علامہ اقبالؒ نے حضور نبی کریمؐ کی زندگی کا یہ حصہ کس خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:
از کلید دیں در دنیا کشاد
یعنی انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں۔ دین‘ دُنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ دین سیاست اوراقتدا کے بغیر نامکمل ہے اور سیاست دین کے بغیر گمراہی اور ظلم کا پلندا ہے۔
مسجد کے لیے پیشگی اجازت کی شرط لگا کر پرویز مشرف صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی پابندی انگریز کے دور استعمار میں بھی علما اور اس اُمت نے قبول نہیں کی۔ آج بھی ناممکن ہے کہ مساجد کو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ مطلق العنان حکومتوں کی ہر دور میں یہ خواہش رہی ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے آواز نہ اٹھ سکے اور مسجد و منبر خاص طورپران کا نشانہ بنے ہیں لیکن مسجد کا مقصد ہی مسلمانوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور اجتماعیت کا درس دینا ہے۔ ان دونوں کے درمیان رشتہ منقطع نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مذہبی جماعتوں میں سے کسی نے بھی افغانوں کی انسانی ضروریات پوری نہیں کیں۔ یہ کام مغربی ممالک کی این جی اوز نے کیا ہے یا عبدالستار ایدھی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور دوسرے اسلامی فلاحی اداروں کی خدمات کا ذکر نہ کر کے انھوں نے صراحتاً حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور قوم اور پوری دنیا کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم افغانوں کی دست گیری کے لیے الرشیدیہ ٹرسٹ‘ اُمّہ تعمیرنو الخدمت اور اسلامک ریلیف کی خدمات یو این او کے خدمتی ادارے سے اگر زیادہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔ خود یو این او کا متعلقہ ادارہ ان مسلمانوںکے ذریعے اپنے بہت سے ریلیف پروگرام چلا رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس زمینی سطح پر وہ کارکن اور انتظام نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی تقریر کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے پاکستانیوں کو دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خدائی فوج دار نہیں۔ بلاشبہہ ہم خدائی فوج دار نہیں‘ لیکن خدا کے سپاہی اور اُمت مسلمہ کے ارکان تو ہیں۔ یہ اُمت ایک اُمت ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّ ھٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً (الانبیاء ۲۱:۹۲) بلاشبہہ تمھاری یہ اُمت ایک اُمت ہے۔ موصوف کے یہ ارشادات دراصل پاکستان کے نظریے پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کا نظریہ اسلام ہے۔ اس کی تشکیل میں برعظیم کے مسلمانوں نے حصہ لیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں مفتی اعظم فلسطین نے ایک تقریر مکہ مکرمہ میں کی تھی جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو ایک مرکز کی ضرورت تھی اور علامہ محمد اقبالؒ کی خواہش تھی کہ برعظیم میں مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جو اُمت مسلمہ کو مرکز و محور عطا کرے۔ اس کے لیے برعظیم کے ان مسلمانوں نے بھی اس کی تشکیل میں حصہ لیا جن کو معلوم تھا کہ وہ خود اس میںشامل نہیں ہو سکیں گے۔
قائداعظم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو ہمیشہ اپنے مسائل کے طور پر پیش کیا اور خصوصیت سے مسئلہ فلسطین پر پوری مغربی دنیا کو ناراض کر کے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ فلسطین ہو یا شیشان‘ بوسنیا ہو یا کوسووا‘ خلافت کا مسئلہ ہو یا الجزائر کی جنگ آزادی‘ پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ آج ’’خدائی فوج دار‘‘ کی پھبتی کس کر اُمت کی وحدت اور مظلوموں کی اعانت سے دست کشی کی باتیں ہو رہی ہیں جو ایمان اور غیرت دونوں کے منافی ہیں۔ اور اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے وژن سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت کے مترادف ہیں۔ اقبال کا پیغام تو ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ تھا۔ جنرل صاحب کون سے اقبال اور قائداعظم کی بات کر رہے ہیں؟
جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ نام تو نہیں لیا لیکن ان کے ارشادات میں امریکی اور صہیونی اثرات کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کا فلسطین سے قلبی لگائو ہے۔ مسئلہ فلسطین دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اُمت مسلمہ سے کاٹنا اور اُمت کا تصور ختم کرنا یہودی لابی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ امریکی اور مغربی اقوام اُمت کے تصور کو ختم کر کے مسلمانوں کو وطنیت اور لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ استعماری ایجنڈا ہے۔ اگر آپ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں تو پھر ان کے نظریہ قومیت کو بھی تسلیم کر لیں۔ اقبال نے اسرار و رموز میں مسلم فرد کی شخصیت کی پرورش اور مسلم اُمت کی تشکیل کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے اور اس طرح اسلام کے تصور قومیت کو واضح کیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوںکو یہ کہنا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے بے فکر ہو جائیں‘قرآن و سنت کے واضح ارشادات ‘ نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مغربی اقوام نے خلافت کو ختم کر کے عربوں اور ترکوں کو قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا اور یہی وہ تقسیم در تقسیم ہے جو اُمت کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔ اس پس منظر میں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دینے کا مطلب یہی نہ ہو کہ پاکستانی قوم کو کل اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ امریکہ نوازسیکولر لابی مدت سے یہ پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ پاکستان کو جب ضرورت پڑتی ہے تو کوئی مسلمان ملک اس کی حمایت کے لیے آگے نہیں آتا تو ہم کیوں ان کے مسائل کے لیے اپنے لیے مشکلات پیدا کریں۔
فلسطین کو عربوں کا مسئلہ قرار دینا یا اسے محض فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے۔ القدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے اور پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دوسروں کا نہیں خود ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمانوں کی دوسری حکومتیں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی میںآزاد نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان کی حکومتوں پر قابض گروہ‘ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی استعمار کے مفادات کے تابع ہیں۔
پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر کیا:
فرد قائم ربط ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
لیکن ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ جنرل صاحب اقبال کے پیغام کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقبال نے اس شعر میں ملّت اسلامیہ سے مربوط ہونے کی تلقین کی ہے۔ ملّت سے ان کی مراد مسلمانوں کی اُمت ہے اور قومیت کا اسلامی تصور ان کے پورے پیغام کی روح ہے۔ ان کی تو تعلیم ہی یہ ہے کہ: ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
یہ تصورِ قومیت قرآن کریم کا پیغام اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کا اصل سبق ہے ۔ پاکستان کی ملّت اسلامیہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے تصورِ قومیت کو قبول نہیں کرے گی۔
یہ درست ہے کہ ہمیں دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اپنے ملک کے اتحاد‘ دفاع اور استحکام کو اولیں اہمیت دینی چاہیے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم استحکام پاکستان کے نام پر اس بنیادی تصورِ قومیت کی نفی کر دیں جس پر پاکستان بنا ہے۔
یہ پاکستان اگر مستحکم بن سکتا ہے اور متحد رہ سکتا ہے تو اسلام کے تصورِ قومیت کی بنیاد پر ہی متحد رہ سکتا ہے ورنہ علاقائی اور لسانی قومیتوں کے پرچارک مغربی آقائوں کی سرپرستی حاصل کر کے اس کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے ایک اور خطرناک مغالطہ خود جہاد کے تصور کے بارے میں دیا ہے۔ جس حدیث کا سہارا لے کر انھوں نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی بات کی ہے اہل علم جانتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے مفہوم کے معتبر ہونے کے باوجود اس کے الفاظ اور حضورؐ سے اس کی نسبت ثابت اور محکم نہیںنیز اس کی جو تعبیر موصوف نے فرمائی ہے وہ غلطیوں کا مجموعہ اور اسلام کے تصور جہاد کی ضد ہے۔ اس کا مطلب جہاد کا ختم ہونا نہیں‘ جہاد کی تمام جہات کا ادراک اور ان کی وحدت ہے۔ بلاشبہ اسلام کا تصور جہاد بڑا جامع اور منفرد تصور ہے۔ یہ انسانیت کو ظلم و طغیان اور فساد و افتراق سے محفوظ رکھنے اور اللہ کی رضا کے لیے اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے جان اور مال کی بازی لگانے سے عبارت ہے۔ جہاد ایک عبادت ہے اور اللہ کے دیے ہوئے قانون اور شریعت کا ایک لازمی اور ناقابل تنسیخ اور اٹل حکم ہے۔ جہاد سب سے پہلے خود اپنے نفس کی اصلاح سے عبارت ہے تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو اور انسان محض مال و متاع‘ قوت و اقتدار‘ زمین اور جاہ وحشم کے حصول کے لیے سرگرداں نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کا طالب‘ اس کے دیے ہوئے اخلاقی ضابطے کا پابند اور صرف ان مقاصد اور اہداف کے لیے سرگرم عمل ہو جنھیں اللہ نے معتبر قرار دیا ہے۔ جیساکہ اقبال نے کہا: ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جہاد زبان اور قلم سے حق کی بات کو ادا کرنے اور عدل و انصاف اور اطاعت الٰہی کے نظام کے لیے دلوں کو مسخر کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل جہادقرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ جہاد‘ ظلم اور باطل کی قوتوں سے ٹکر لینے کا نام ہے‘ تاکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور انسان جبرو ظلم کے نظام سے نجات پاسکے۔ یہ جہاد جسم و جان‘ مال و دولت اور شمشیر و سناں سب سے ہے۔ لیکن جہاد میں مصروف تلوار صرف حق کے دفاع اور مظلوم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کسی پر ظلم کرنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اور اس سے جہاد اکبر اور جہاد اصغر یک رنگ ہو جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جسے جہاد اکبر اور جہاداصغر کہا گیا ہے وہ دو الگ الگ چیزیں نہیں‘ ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ جہاد اکبر قلب کی اصلاح‘ تزکیہ نفس‘ اعلیٰ اخلاقی صفات کی پرورش‘ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی پوری پوری پاسداری کا نام ہے ۔ جہاد بالسیف بھی بعینہٖ انھی مقاصد اور انھی اقدار کے حصول اور تحفظ کے لیے ضرورت کے وقت قوت کے استعمال کا نام ہے۔ میدان کارزار میں بھی تقویٰ اور تزکیہ ہی اصل ہتھیار ہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا ہی مسلمان کی شان ہے۔
اس پس منظر میں جنرل صاحب کا یہ ارشاد کہ ’’غزوئہ خیبر کے بعد حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اب جہاد اصغر ختم ہو گئی ہے لیکن جہاد اکبر شروع ہے یعنی عسکری جہاد جو چھوٹی جہاد ہے وہ ختم ہے اور پس ماندگی اور جہالت کے خلاف جہاد جو کہ بڑی جہاد ہے‘ وہ شروع ہے۔ اس وقت پاکستان کو جہاد اکبر کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یاد رکھیں کہ عسکری جہاد صرف حکومت وقت کے فیصلے سے ہو سکتی ہے‘‘۔ جنرل صاحب کا اس تحدی کے ساتھ جہاد اصغرکے ختم ہوجانے کی بات کرنا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ لازماً ان کے یہ الفاظ کم علمی اور بے احتیاطی کا نتیجہ ہیں ورنہ جہاد اصغرکے ختم ہونے کی بات کسی مسلم کے قلم یا زبان سے نہیں نکل سکتی۔ یہ تو مستشرقین کا مشغلہ اور بہاء اللہ اور غلام احمد قادیانی جیسے دشمنانِ دین کا فکری شاخسانہ ہے ورنہ غزوئہ خیبر (۷ھ) کے بعد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت میں غزوئہ موتہ (جمادی الاول ۸ھ)‘ فتح مکہ (رمضان المبارک ۸ھ)‘ غزوئہ حنین (شوال۸ھ)‘ محاصرہ طائف (شوال ۸ھ) اور غزوئہ تبوک (رجب ۹ھ) واقع ہوئے اور پھر عہد صدیقی (۱۱-۱۳ھ) سے لے کر آج تک جہاد مسلمانوں کا شعار اور اسلام کی قوت اور سطوت کا ضامن رہا ہے۔ یہی وہ تاریخی روایت ہے جسے اقبال نے ’’ترانہ ملّی‘‘ میں یوں پیش کیا ہے:
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے‘ قومی نشاں ہمارا
جنرل صاحب جو اس فوج کے چیف آف اسٹاف ہیں جس کا موٹو ہی ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے بزعم خود جہاد اصغر کے ختم ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اکبر اور اصغر ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جو ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے حسین الفاظ میں مجسم کر دیے گئے ہیںاور ان کے درمیان کوئی فصیل حائل نہیں کی جا سکتی۔
جس عمل کی طرف اس حدیث میں اور قرآن و سنت کے دوسرے احکام میں متوجہ کیا گیا ہے اور جسے یہاں جہاد اکبر کہا گیا ہے‘ وہ تزکیہ نفس‘ اصلاح ذات‘ حصول تقویٰ‘ اخلاقی اور روحانی بالیدگی کا حصول ہے‘ تاکہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے استعمال ہوں۔ بلاشبہہ پس ماندگی اور غربت کے خلاف جدوجہد اسلام کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے ۔ دین اسلام‘ تمام انسانوں کے لیے روحانی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ مادّی ضرورتوں کی فراہمی اور حیات طیبہ کے حصول کی ضمانت دیتا ہے‘ تاکہ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَھُمْ مِنْ خَوْف کی کیفیت پیدا ہو سکے۔لیکن احادیث نبوی ؐ اور احکام شریعت کی تعبیر اور تشریح کا کام بڑی احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ خیبر سے واپسی پر جہالت اور پس ماندگی کے خلاف جہاد اصل ایشو نہ تھا بلکہ وسیع تر معنی میں تزکیہ نفس اور اخلاقی قوت کی تعمیر تھا۔ حدیث کو اسی معنی میں پیش کرنا چاہیے جو اس کا مدعا ہے۔ غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے لیے دوسرے احکام موجود ہیں۔ اس کے لیے اس حدیث کا استعمال صحیح نہیں۔
عسکری جہاد جسے جہاداصغر کہا گیاہے‘ اس کے ختم ہونے کا ارشاد تو صریح مداخلت فی الدین اور اسلام کے ابدی قانون کو منسوخ قرار دینے کی مذموم کوشش ہی سمجھی جائے گی خواہ یہ حرکت نافہمی ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جنرل صاحب کو یہ کس نے بتا دیا کہ عسکری جہاد کے اعلان کا صرف ایک طریقہ ہے۔ بلاشبہہ اسلامی ریاست کا یہ حق اور فریضہ ہے کہ جب حالات جہاد کا تقاضا کریں تو وہ جہاد کا اعلان کرے لیکن حالات کی مناسبت سے اس کی دوسری جائز اور مشروع شکلیں بھی ہیں۔ اگر اسلامی ریاست قائم نہ ہو تو اس کو قائم کرنے کے لیے بھی جہاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کے جبری تسلط کے تحت ہوں تووہ اپنی آزادی کے لیے اپنے علما کے مشورے سے عسکری جہاد کرسکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ شیخ یوسف القرضاوی اور علماے اُمت نے فلسطین اور کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا۔ کوئی حکومت اعلان کرے یا نہ کرے‘ جہاد کا فیصلہ حالات کی روشنی میں شریعت کے اصولوں اور ضوابط کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس علم سے جنرل صاحب واقف نہیں اس پر کرم نہ فرمائیں تو ان کے لیے بھی بہتر ہے اور اس مظلوم اُمت کے لیے بھی اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لیے بھی۔
یہ بھی پیش نظر رہے تو مناسب ہے کہ جہاد اسلامی مخالف قوتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ یہی وہ قوت ہے جس سے ان کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ان کے ظلم و تعدّی کا مداوا ممکن ہے۔ دور جدید میں جب استعماری قوتوں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا تو ان کے دو ہی ہدف تھے: ایک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور دوسرا مسلمانوں کا تصور جہاد۔ حضورؐ کی ذات اور تعلیمات اس اُمت کی شناخت اور اس کے عالمی کردار کی صورت گر ہیں اور جہاد وہ قوت ہے جس کے ذریعے شیطانی نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے اور انسانیت کو ظلم کے چنگل سے نکالنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ یہی چیز غیروں کے غلبے اور تسلط کی راہ میں حائل ہے اور یہی ان کا ہدف ہے۔ اقبال نے ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بتایا ہے کہ ساری سازش مسلمان کو جہاد ہی سے دست بردار کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
اس میں کیاشک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوے غلامی میں عوام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
’ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام‘
اقبال کی نگاہ میں دورِ حاضر میں ابلیس کی ساری حکمت عملی یہی ہے کہ مسلمان جہاد کو ترک کر دے اور دوسرے مشغلوں میں مصروف رہے۔ اس کا مشورہ یہی تھا کہ:
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشاے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
جہاد اسی احتساب کائنات کا دوسرا نام اور اس کا موثر ترین ذریعہ ہے اسی لیے ابلیس کا نسخہ یہ ہے کہ:
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
یہ تو ہے شیطان کی حکمت عملی جس کی آواز بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ اقبال نے ان ہدایات کا برملا اظہار کر دیا ہے جو ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کو دی ہیں:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ رختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
جہاد کے بارے میں ضرب کلیم میں اقبال نے اپنے دور کے سارے مباحث کو چند شعروں میں بیان کر دیا ہے:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر
تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
اور پھر ’جہاد اکبر‘ اور ’جہاد اصغر‘ کے حسین امتزاج کی طرف اُمت کو بلایا ہے جو اسلام کی اصل تعلیم ہے:
سوچا بھی ہے اسے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار
اس بیت کا یہ مصرِع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار
ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ!
حقیقی جہادی کلچر ہی آج ہمارے ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تحریک کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی تائید حسب سابق جاری رکھے گا اور یہ بھی بجا طور پر کہا ہے کہ کشمیر ہمارے جسم میں خون کی طرح رواں ہے‘ لیکن دو جہادی تنظیموں پر پابندی لگا کر‘ ان کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر کے‘ جہادی فنڈ کو ضبط کر کے وہ عملاً کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اگر امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے نتیجے میں وہ دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سے بھارتی قیادت اور امریکی شاطر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر بھی اس کی زد میں آتی ہے تو جنرل صاحب کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ بجا‘کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے اور پاکستان میں اتنی بڑی فوج کا کوئی جواز ہے تو وہ کشمیر کی رِگ جان کی حفاظت اور بھارت کے توسیعی عزائم کے مقابلے ہی کے لیے ہے لیکن جو کچھ جہادی تنظیموں کے ساتھ اب کیا جا رہا ہے اور جس طرح جہاد اور جہادی کلچر کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جا رہا ہے‘ اور اس سے جو پیغام مقبوضہ کشمیر میں جان کی بازی لگا دینے والے نوجوانوں کو دیا جا رہا ہے وہ تباہ کن ہے۔ اگر فی الحقیقت کشمیر ان رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے تو پھر اسے جہاد آزادی کو سیراب کرنے کا سامان کرنا چاہیے ورنہ : ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘ تو پھر لہو کیا ہے؟
جنرل پرویز مشرف صاحب کی تقریرمیں پسپائی کے بہت سے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے‘ شوریٰ اور ملک کے عوام اور ان کے قابل اعتماد نمایندوں کے ذریعے نہیں ہو رہے‘ ساری قوت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے اور ایک فردِواحد نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اوڑھ لی ہے کہ وہی قومی مفاد کا واحد شناسا اور محافظ ہے۔ آمریت بظاہر مضبوطی کی مدعی ہوتی ہے لیکن فی الحقیقت اس سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا۔
اس وقت ہمارے ملک میں قومی مفاد اور مصلحت کا محافظ کون ہے؟ پارلیمنٹ موجود نہیں ہے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر دستورِ پاکستان کے بجائے جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلانیہ اقرار کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی ذات میں چیف آف آرمی اسٹاف کے علاوہ چیف ایگزیکٹو اور صدر کے مناصب بھی سمیٹ رکھے ہیں۔ فوج کے کور کمانڈروں اور جرنیلوں کے بارے میں انھوں نے فرانس میں بیان دیا کہ"I command and they follow" (میں حکم دیتا ہوں اور وہ احکامات بجا لاتے ہیں)۔ کیا ایک ایسے فردِ واحد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر دینا جو اتفاقاً بری فوج کا چیف آف اسٹاف بن گیا اور جس کو کسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے‘ ملک کے چودہ کروڑ عوام کی حق تلفی نہیں ہے؟
بد قسمتی سے اسی دور میں۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد وہ شدید بحرا ن پیدا ہو گیا جس کے با رے میں خو د پرویز مشرف نے سیا ست دا نوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا: ملکی تا ریخ میں اس سے زیادہ خطرناک صو رت حا ل پہلے پیدا نہیںہو ئی اور یہ کہ صدر بش نے ہمیں کہا کہ سا تھ دے کر اکیسویں صدی میں ترقی اورخو ش حا لی کے راستے پر جا نا چا ہتے ہو یا سا تھ دینے سے انکا ر کر کے پتھر کے زما نے کی طرف لو ٹنا چا ہتے ہو۔ اس مو قع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ اگر بحران اتنا شدید ہے کہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ ملکی تا ریخ میں اس سے شدید تربحران پہلے نہیں آیا تو اس بحران کا سا را بوجھ آپ نے صرف تنہا اپنے کندھوں پر کیوںاُٹھا رکھا ہے؟ اس کا کو ئی جواب جنرل پرویز صا حب سے بن نہیں پایا ۔
اس دورا ن میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جن لوگوں کی سرپرستی کر کے افغا نستا ن میں حکمرانی دلوا ئی تھی‘نہ صر ف ہم ان کی تبا ہی میں شریک ہو ئے بلکہ جب طالبان کی حکومت ختم ہو ئی تودُنیا بھر کے سفا رتی آداب کے خلا ف اسی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے سفیر براے پاکستان کو امریکی حکو مت کے حوا لے کردیا۔ اگر ملک میں کو ئی آئین ہو تا‘ آئینی ادارے ہو تے‘ ملک کے مفا دات اور مصلحتوں کی نگرا نی میں یہا ں کے چو دہ کروڑ عوام کا بھی کوئی حصہ ہوتا تو یہ بے حمیتی اور بے مروتی ہماری قو م کے حصے میں نہ آتی۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مجا ہدین جنھو ں نے ہرمشکل محا ذ پر پاکستانی افوا ج کا سا تھ دیا ، آج امریکی حکم پر اسی فوجی حکومت کے زیر عتا ب ہیں۔ حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہربھا رت کی خوا ہش پر زیر حرا ست ہیں۔
۱۲جنوری کی تقریر میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ساتھ سپاہ صحابہ‘ تحریک جعفریہ اور تحریک نفاذ محمدیؐ کو بھی کسی عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر خلاف قانون قرار دے دیا ہے اور ان کے سیکڑوں کارکنوں کو زیرحراست لے لیا ہے۔ ان پر جو الزامات تھے اور ان کے گرفتار شدگان پر جو مقدمات قائم ہیں ان کی سماعت اور عدل کے مطابق فیصلے سے انھیں کس نے روکا تھا؟ ان میں جن افراد نے واقعی جرم کیا ہے قانون‘ ضابطہ اور عدالت اس کے لیے قائم ہیں مگر یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اندھادھند سبھی کو یوں جیلوں میں ٹھونس دینے کا کیا جواز ہے۔ امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں گرفتار شدگان کی تعداد: ۱۹۷۵ کا اعلان کرے تو یہ سمجھنا کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے تحت کیا جا رہا ہے‘ کوئی غلط بات نہیں۔ انھیں قوم کے آزاد فیصلے نہیں کہا جا سکتا۔
اخبا را ت شذرے لکھ رہے ہیں۔تجزیہ نگار اور کالم نویس لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔ اخبا ر کے قا رئین خطو ط لکھ رہے ہیں۔سیا ست دان آل پا رٹیز اجتماعات منعقد کر کے عبو ری قومی حکو مت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور آزادانہ انتخابات کے مطالبے کررہے ہیں‘ لیکن جنرل پر ویز مشرف صاحب بضد ہیں کہ وہ دستور میں اپنی مرضی کے مطا بق ترمیم بھی کر یں گے‘آیندہ کے لئے صدر بھی رہیں گے‘ سیکو رٹی کو نسل قا ئم کر کے پارلیمنٹ پر ایک با لا دست ادا رہ بھی قا ئم کر یں گے اور اقتدار اس وقت چھو ڑیں گے جب وہ اس پر مطمئن ہو ںگے کہ انھوں نے قوم کو ٹھیک کرنے کا اپنا کا م مکمل کر لیاہے۔
اگر اس صورت حال کے خلاف عوام میں آواز اٹھائی جاتی ہے تو بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اگر فوج سے کہا جاتا ہے کہ: تمھی نے درد دیا ہے‘ تمھی دوا دینا___ تو کہا جاتا ہے کہ: تم فوج کو جانتے نہیں ہو اور فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہو‘ فوج تمھیں سبق سکھا دے گی۔ یعنی وہ مطلق العنان حکمران رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ذاتی فیصلوں پر تنقید کو ’’فوج کے خلاف تنقید‘‘ کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فوج کا حکمران ملک کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہو (جو دونوں سیاسی عہدے ہیں) اور جب وہ فوج کی قوت اور قیادت کو اپنے سیاسی پروگرام کی اصل قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرے تو پھر اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی اقدامات کو عوامی تنقید اور احتساب سے بالا رکھے یا فوج کے بنکر (پختہ مورچے) میں بیٹھ کر اور فوج کی چھتری استعمال کر کے سیاست کرے۔ فوج اور اس کی قیادت کو دستور کے تحت احتساب سے بالا نہ ہوتے ہوئے بھی ایک تحفظ حاصل ہے اور وہ ملکی دفاع کے لیے ضروری ہے لیکن یہ تحفظ صرف اس فوجی قیادت کے لیے ہے جو سیاست میں ملوث نہ ہو۔ جب آپ اس سیفٹی لائن کو پار کر کے سیاست کے سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ہیں تو پھر آپ میں تنقید اور احتساب کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم تو ہمیشہ سے اس کے قائل ہیں کہ فوج کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر اسے سیاست میں کھینچ کر متنازع بنایا جا رہا ہے جس کی ذمہ داری ان پر ہے جو فوج کو اس کی دستوری ذمہ داریوں سے ماورا استعمال کر رہے ہیں۔
اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے جمہوری طریقہ کار یہی ہے کہ سیاست دان مل کر عوامی حقوق اور دستور کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں اور جو مطالبات آل پارٹیز کانفرنس نے طے کیے ہیں ان کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست دانوں نے خرابیِ بسیار کے باوجود بھی سبق نہیں سیکھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو شریک اقتدار ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے لیے وہ آسان راستہ یہی سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف صاحب کا قرب حاصل کیا جائے اور ان کی بے جا حمایت کی جائے۔جن لوگوں کو کوشش کے باوجود جنرل صاحب کا قرب نہیں ملتا اور وہ جنرل صاحب سے مایوس ہوگئے ہیں وہ بھی دینی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہیں کہ اس طرح امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ اقتدار سے اور دُور ہو جائیں گے۔ جان لینا چاہیے امریکہ اور فوج کی رضامندی حاصل کر کے جو حکومت بنے گی وہ پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی‘ جبکہ ہمارے ملک میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ہمارا سول انتظامی ڈھانچا‘ معاشی نظام ‘ عدالتی نظام اور افواج پاکستان کا نظم برطانوی استعمار کے تربیت یافتہ گروہ کے ہاتھ سے نکل نہیں سکے ہیں۔ ملک میں ایک طرف غربت ہے اور ۳۰ فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی مکمل غذا‘ علاج‘ تعلیم اور رہایش کی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ ایک کم تعداد لوگوں کی ایسی بھی ہے جو ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک جمع کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعدادبڑے سول اور ملٹری بیورو کریٹس کی ہے۔ کرپشن کے خلاف ایک مسلسل تحریک کے نتیجے میں بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں ختم ہوئیں اور اسی تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر جنرل پرویز صاحب برسرِاقتدار آئے‘ لیکن کرپشن کے خلاف احتساب کو بلیک میلنگ اور سیاسی سودے بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی پہلے ہوا اور یہی آج ہو رہا ہے۔ جو سیاست دان جنرل صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائے وہ ہر طرح کی بدعنوانی کے الزام سے پاک و صاف ہو کر ہم خیال بن جاتا ہے اور جو ہم خیال بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس پر کوئی بھی الزام نہ لگ سکے‘ پھر بھی پابجولاں ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے لوگ بھی ایسے مل سکیں جو امریکہ یا پرویز مشرف صاحب کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام کو ساتھ ملا کر معاشرے کو ایک حقیقی اسلامی جمہوری عادلانہ رنگ میں رنگنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوں‘ وہ متحد ہو کر آگے بڑھیں اور عوام الناس کو ساتھ لے کر ان مطالبات کے لیے تحریک چلائیں‘ جس پر ملک کی تمام بڑی جماعتیں متفق ہیں‘ یعنی:
ملک کے موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اوروہ مندرجہ بالا خطوط پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور جمہوری عمل کے ذریعے ایک خدا ترس‘ عوام دوست ‘ لائق اور امین قیادت کو زمام کار سونپنا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی اپنی افواج اور ان کی قیادت سے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ وہ پوری حکمت اور دانش مندی کے ساتھ اور کسی تاخیر کے بغیر وہ راستہ اختیار کریں گے‘ جس کے نتیجے میں ملک کا دستور‘ جو اسلام‘ جمہوریت اور اصول وفاق پر مبنی ہے‘ اپنی اصل روح کے مطابق موثر رہ سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے واضح الفاظ میں قوم اور قیادت سے کہا تھا:
’’جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اپنے اس اصولی موقف کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ ملک ماضی میں مارشل لا کے متعدد تجربات کر چکا ہے اور ہمارے مسائل کا حل مارشل لا نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آزمائی ہوئی اور کرپٹ سیاسی قیادتوں کے درمیان محض چہرے بدلنے سے ہم مسائل کی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے‘ جس میں ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں نے ملک و ملّت کو دھنسا دیا ہے۔ اسی طرح محض ایسے ٹیکنوکریٹ بھی‘ جن کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور جو ان کے سامنے جواب دہ نہ ہوں‘ صحیح قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔ نیز فوجی قیادت کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ماضی کے دونوں حکمران یعنی بھٹو فیملی اور شریف فیملی جنھوں نے فسطائیت اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے‘ مارشل لا ادوار ہی کی پیداوار تھے اور اگر ایسے ہی کچھ لوگ ایک بار پھر آگے آتے ہیں تو نتائج اور عوامی ردّعمل ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا ہے۔ افسوس کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب بھی اصلاح کا ایک ہی راستہ ہے اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس (۷ تا ۹ جنوری ۲۰۰۲ء) میں ایک بار پھر بہت واضح الفاظ میں ملک کو خطرات اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے دستور کے تحفظ‘ انتخابی عمل کے آغاز‘ معتمدعلیہ حکومت کے قیام اور دستور کے مطابق اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور فیڈریشن کے اصول پر ایک منصفانہ معاشرہ اور جمہوری سیاسی نظام کے قیام کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں شوریٰ نے جو مطالبات کیے ہیں‘ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱- حکومت پاکستان بیرونی دبائو میں آکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی ناپاک سازش میں شرکت سے گریز کرے۔ پاکستان کے آئین اور تحریک پاکستان کے مقاصد اور وعدوں کے مطابق اسے حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
۲- ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین کو بحال کیا جائے۔ حکومت کو اس میں ترمیم کرنے کا سرے سے کوئی اختیار حاصل نہیں اور کسی عدالت کو بھی اسے یہ اختیار عنایت کرنے کا حق نہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا اقدام ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا دستور میں بیان کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی دستوری ترمیم کرنے سے اجتناب کیا جائے اور جمہوری اداروں پر بالادست کوئی ادارہ کسی بھی نام سے نہ بنایا جائے۔
۳- حکومت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کرانے کا عمل بلاتاخیر شروع کرے۔ یہ انتخابات آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق متناسب نمایندگی کے اصول پر شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہوں۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بلاتاخیراہل‘ دیانت دار اور قابل قبول افراد پر مشتمل ایک آزاد اور کلیتاً خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ نیز صدر کا انتخاب بھی آئین میں درج طریق کار کے مطابق کرایا جائے۔
۴- انتخابات ایک ایسی عبوری سول حکومت کے تحت کرائے جائیں جو دیانت دار‘ امانت دار اور اہل افراد پر مشتمل ہو اور اس میں شریک افراد خود انتخابات میں حصہ نہ لیں۔
۵- سیاسی اور دینی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔ عوام کے بنیادی حقوق بحال کیے جائیں۔ جماعتوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی راہنمائوں کو رہا کیا جائے۔
۶- مسئلہ کشمیر کے بارے میں حکومت شکوک و شبہات کا ازالہ کرے اور اس بات کا کھل کر اعلان کرے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت ہمارا فرض ہے اور بھارت اپنی سات لاکھ جارح فوج کو فی الفور واپس بلائے جو برسوں سے دہشت گردی میں ملوث ہے۔
۷- افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی فوجیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور جو ہوائی اڈے اور دوسری سہولتیں ان کو دی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں۔ امریکہ میں جن پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی فوری رہائی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ نیز جو پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔
۸- بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو تیار کیا جائے اور معذرت خواہانہ رویہ اور اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی فوجیں اور جنگی سازوسامان سرحدوں سے پیچھے ہٹائے۔
مجلس شوریٰ کے اس اجلاس نے واشگاف الفاظ میں اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگی۔ قوم کا بچہ بچہ افواج کے شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کرے گا اور دشمن کو عبرت ناک شکست دے گا‘ ان شاء اللہ!
نیز مجلس شوریٰ نے ملک کی تمام محب وطن سیاسی اور دینی جماعتوں سے بھی ملکی سالمیت‘ بقا اور اسلامی نظام کے قیام اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی مشاورت اور تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ ملک کو خطرات سے بچا کر ایک مرتبہ پھر جمہوری پٹڑی پر ڈالا جاسکے تاکہ پاکستان اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے خواب اور تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق حقیقی معنوں میں ایک فلاحی‘ جمہوری اسلامی مملکت بن سکے۔
پاکستان کے معاشی‘ سیاسی ‘ اخلاق اور نظریاتی مستقبل کا انحصار صحیح جمہوری نظام کے قیام پر ہے لہٰذا جو بھی اس ملک کا حقیقی بہی خواہ ہے اسے اس کو ملک کو قبرستان بنا کر اس پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔ کسی کو بھی جمہوری عمل کے احیا کا راستہ نہیں روکنا چاہیے اور جلد از جلد جمہوری اور دستوری عمل کی بحالی کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔
عوامی قیادت کو عوام تک پہنچنے کے راستے کھول دینے چاہییں اور اداروں کے ذریعے مصنوعی قیادت تیار کرنے کا تجربہ کرنے کے بجاے فطری سیاسی قیادت پر پابندیاں ختم کر دینی چاہییں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تمام محب وطن دینی اور سیاسی قوتوں کے تعاون اور اشتراک سے وہ اجتماعی جدوجہد قوت پکڑے گی جس کے نتیجے میں قوم اپنی منزل کو حاصل کر سکے گی۔
یہ عوامی جدوجہد ایک جمہوری اور نظریاتی تحریک ہے جو تعمیر اور اصلاح کی داعی ہے۔ یہ کسی طرح بھی فوج کے خلاف نہیں۔ بلکہ یہ افواج پاکستان کے استحکام اور قوت کا باعث بنے گی۔ جو اضافی بوجھ افواج پاکستان پر ڈالا گیا ہے اس سے انھیں نجات ملے گی اور افواج پاکستان اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے سکیں گی۔ قوم جب بیدار اور متحد ہو تو اس کے تمام ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور پوری قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ ایک اچھا فوجی اپنی قوم کے منتخب نمایندوں اور اپنے ملک کے دستور‘ قانون اور ضابطوں کی پابندی کی فکر کرتا ہے۔ یہ اصرار کرنا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کے بجائے فوجی افسران قوم کو آئین اور ضابطے عطا کریں گے ‘ بے جا اصرار ہے۔ افراد آتے جاتے ہیں لیکن قومی روایات اور مشترک اقدار مستقل اور دیرپا حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی ٹیم پاکستان کے متفقہ دستور کے سامنے جھک جائیں تو اس سے وہ سرخرو اور سرفراز ہوں گے اور اسے ان کی عالی ظرفی سمجھا جائے گا۔ اس سے کسی طرح بھی ان کی سبکی نہیں ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ان تجاویز اور مطالبات پیش کرنے والوں کو فوج میں اختلاف ڈالنے کاالزام نہ دیں بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیںاور ملک و قوم کو اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں‘ وہ دوسروں کو بھی ان مشکلات کا حل پیش کرنے کا حق دار سمجھیں۔
اگرچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ملک کو زیادہ نقصان سیاست دانوں نے پہنچایا ہے یا سول اور ملٹری بیورو کریٹس نے‘ لیکن پاکستان کی تایخ سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا اور بار بار کی مداخلت سے فوج نے سیاسی عمل کو روکا ہے اور اپنی پسند کی قیادت کی پرورش کی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے بیرونی سرپرستی اور فوج کی سرپرستی پر تکیہ کرنے لگی ہیں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک سیاسی انتشار اور فساد پھیل گیا ہے۔ اس بیماری کا مداوا عوام کی طرف رجوع کرنے اور دستوری نظام کو بحال اور متحرک کرنے میں ہے۔ جمہوریت میں جو بھی خامیاں ہوں لیکن جمہوریت کی خامیوں کا علاج جمہوری عمل ہی کے ذریعے ہوتا ہے‘ بادشاہت یا آمریت کے ذریعے نہیں۔ یہ جمہوریت کی خامیوں سے بھی بڑی بلا ہے جس سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنا وقت کی بڑی ضرورت ہے اور یہ ضرورت تقاضا کر رہی ہے کہ محب وطن سیاسی کارکن‘ عوام الناس کو بیداری کی ایک ملک گیر جدوجہد کے لیے تیار کریں تاکہ عام انتخابات جلد از جلد منعقد ہوں اور ایک ایسی قیادت اُبھرے جس کے ہاتھوں ہمارے قومی دکھوں کا مداوا ہو سکے۔
انسان کی طبعی کمزوریوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا ہے۔ یہ طبعاً حریص ہے اور بخیل ہے۔ خواہشات نفس اور ترغیبات نفسانی کی طرف کھچ جاتا ہے اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔انسان جلد باز ہے۔ دور کے فائدے کی بجائے نظر آنے والے فوری فائدے اور نفع کی طرف لپکتا ہے۔ اجتماعی اورملّی فائدے کے بجائے ذاتی فائدے کو وقعت دیتا ہے۔
وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط (النساء ۴:۱۲۸) نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں۔
اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً o (الاحزاب ۳۳:۷۲) بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o (المعارج ۷۰:۱۹-۲۱) انسان تُھڑدلا پیدا کیا گیا ہے‘ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اُٹھتا ہے اور جب اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط (الانبیاء ۲۱:۳۷) انسان جلد باز مخلوق ہے۔
کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰) ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے ‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں انسان کے اس طبعی بخل اور مال کے حرص کا ذکر کیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور ان کا علاج کرنے کے لیے انسان کو دنیا و مافیہا سے ماورا بلند مقاصد اور ذاتی کی بجائے اجتماعی مقاصدکی طرف ترغیب دلائی ہے۔
ترغیبات نفسانی میں مال کی حرص ‘ جنسی حرص اور اقتدار کی حرص بنیادی ترغیبات ہیں۔ قرآن دنیا کی زندگی کو زینت‘ ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے سے تعبیر کیا ہے:
اِعْلَمُوْآ اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ م بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ ط(الحدید ۵۷:۲۰) خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔
قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کمزوریوں کی نشان دہی کے ساتھ ان کے مضر اثرات سے بچنے اور ان طبعی میلانات کو مثبت اور بلند مقاصد کے حصول کی طرف موڑنے کا عملی راستہ دکھایا گیا ہے۔اس کے برعکس مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب نے انسان کے اس طبعی حرص اور بخل اور زینت و تفاخر اور تکاثر اور ترغیبات و خواہشات نفس کو مہمیز لگا کر انسان کو ان کی خاطر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مادی سہولتوں کے حصول کی خاطر محنت کرنے کا عادی بنایا ہے۔ چنانچہ ان کا مشہور مقولہ ہے: Work like donkey and eat like king.گدھے کی طرح محنت کرو اور بادشاہ کی طرح کھائو۔
بعض لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام چونکہ ترغیبات و تحریصات کو مہمیز لگا کر زیادہ محنت پر آمادہ کرکے جسمانی اور ذہنی قویٰ کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسلامی تعلیمات قناعت اور زہد اختیار کرنے کی تلقین پر مشتمل ہیں‘ اس لیے مادی طور پر مغرب نے ترقی کی ہے اور مسلمان پس ماندہ رہ گئے ہیں۔
اسلامی معاشیات پر کام کرنے والے مسلمان معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیں اور ان بنیادی معاشی ترغیبات کی نشان دہی کریں جن کی بنا پرمسلمان زیادہ مفید پیداواری محنت پر آمادہ ہو سکیں۔ معاشی ترقی قوت ہے اور قوت کے بغیر مسلمانوں کی موجودہ پستی دُور نہیں ہو سکتی۔ حقیقی آزادی کے لیے معاشی احتیاج سے نکلنا لازمی ہے۔ آزادی اور احتیاج ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قومی خود مختاری (sovereignty)کے لیے معاشی خود کفالت حاصل کرنا لازم ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے مقابلے کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے (الانفال ۸: ۶۰)یہ ہدایت بنیادی طور پر جنگی قوت سے متعلق ہے لیکن آج کے دور میں جنگی قوت علمی اور معاشی قوت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی قوت‘ علمی قوت اور معاشی قوت ایک مضبوط دفاعی قوت کے لیے لازم ہیں۔ اسی آیت کے دوسرے حصے میں اس تیاری کے حکم کے معاً بعد اس ارشاد : وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔ الانفال ۸: ۶۰) میں ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جہاد کی اس تیاری کے لیے انفاق ضروری ہے اور انفاق مالی استعانت اور معاشی قوت پیدا کیے بغیر محال ہے۔ مقابلے کی کم از کم قوت کے لیے مقابلے کے عسکری اور مالی دونوں ہی وسائل دین اور اہل دین کی ضرورت ہیں۔
اگر مسلمان مرد ‘ عورتیں اور نوجوان نسل اس بنیادی جذبے سے سرشار ہو جائیں کہ انھوں نے دنیا میں عدل و انصاف کی سربلندی‘ اعلاے کلمۃ اللہ اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے قوت حاصل کرنی ہے تو وہ ذاتی حرص اور ترغیبات نفسانی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ ان کے ذاتی تقویٰ‘ قناعت اور زہد و ورع میں بھی کمی نہیں آئے گی اور وہ علمی اور معاشی میدان میں بلند تر مقصد کے لیے مادہ پرستوں سے آگے بڑھ کر زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت میں جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کو اس وسیع تر مفہوم میں سمجھنے سمجھانے اور اسے اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ آپؐ نے جاہلی جذبات کو خدا پرستی اور اللہ سے محبت کی طرف موڑا ہے۔
ایام جاہلیت میں حج کے موقع پر عرب قبائل اپنے اپنے شعرا کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اپنے آباواجداد کے کارنامے بیان کر کے ان پر فخر کرتے تھے۔ اللہ نے حکم دیا کہ جس طرح تم اپنے آباواجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط (البقرہ ۲:۲۰۰) پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو‘ تو جس طرح پہلے اپنے آباو اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
قبائلی تفاخر کو اللہ کے راستے میں جہاد اور قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے استعمال کیا۔ اللہ کی رضا اور جنت کی نعمتوں کے حصول کے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کو ذریعہ قرار دیا اورفرمایا: وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔
قناعت اور زہد کا یہ تصور سراسر غیر اسلامی ہے کہ مسلمان محنت نہ کرے۔ قناعت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ محنت کر کے کمائے‘ بقدر ضرورت اپنے لیے رکھے اور باقی معاشرے کے ضرورت مندوں اور اجتماعی مفاد کی طرف لوٹا دے۔
پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمن بابا کا ایک شعر ہے ؎
’’دَ دلبرو و صدقے لرہ ئے غواڑم
ھسے نہ چہ پۂ دنیا پسے زھیریم
میں دنیا کا حریص نہیں ہوں۔ اس کی طلب اس لیے کرتا ہوں کہ اسے محبوب مقاصد کی خاطر صدقہ کرسکوں۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ہی مصرعے میں دین اور دنیا کو کس خوبصورتی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’از کلید دین در دنیا کشاد‘‘۔ انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا‘ یعنی دین الگ اور دنیا الگ نہیں ہے بلکہ دین ‘دنیا کی زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے۔ بھلا جو دنیا کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے وہ کیونکریہ تعلیم دے سکتا ہے کہ دنیاوی ترقی کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ یہ تو بنیادی تعلیم ہے کہ الاسلام یعلو ولا یعلی‘ اسلام بالادستی چاہتا ہے دوسرے نظاموں کی بالادستی قبول نہیں کرتا۔
مسلمانوں کے معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ترغیبات کے مقابلے میں اسلامی تصورات عالمی سطح پر شرح و بسط سے پیش کریں۔ اس وقت عالم اسلام میں بیداری کی لہر ہے۔ جہادفی سبیل اللہ کا جذبہ اس حد تک بیدار ہو گیا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں جان کی قربانی اور شہادت کی موت کے لیے آمادہ ہیں۔ اس جذبے کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی خاطر مرنے کی تمنا کے ساتھ ساتھ اسلام کی خاطر جینے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے: اللھم احینی سعید او امتنی شھیدًا‘ ’’اے اللہ! مجھے سعادت کی زندگی و شہادت کی موت عطا فرما‘‘۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی قدر کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اس کی صحیح قدر کرنا یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے کو مفید مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ اپنے اوقات کو کسی مفید کام میں صرف کرنا وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ مفید کام کا دنیوی فائدے کے ساتھ آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ یہ بات اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ایک پودا زمین میں لگانے کے لیے بیٹھا ہو اور اتنے میں قیامت قائم ہو جائے لیکن تمہارے پاس اتنی مہلت ہے کہ پودا زمین میں لگا کر کھڑے ہو جائو تو پودا لگا دو‘ کیوں کہ اس پر تمھیں اجر ملے گا۔یعنی دنیا کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے اور اس کا استعمال آخرت کے اجر کے لیے اتنا مفید اور ضروری ہے کہ تمھیں معلوم ہے کہ قیامت قائم ہوگئی ہے‘ اب اس پودے کی نشوونما کا کوئی موقع نہیں ہے لیکن دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس لیے کاشت کے موقع کو ضائع نہ کرو۔ پھل آخرت میں ملے گا۔ (الدنیا مزرعۃ الآخرۃ)
آج جہاد اور شہادت کے جذبے سے سرشار مسلمان نوجوان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اگر مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہے تو اس کی پشت پر صدیوں کی منصوبہ بندی ‘ باہم مربوط کوششیں‘ آزادانہ علمی اور سائنسی تحقیق‘ سائنسی اور علمی اداروں کا قیام‘ یونی ورسٹیوں کا قیام‘ مشترک قومی مقاصد کا تعین اور ان کے حصول کی خاطر فروعی اور گروہی اختلافات سے بالاتری اور اس قبیل کی تدابیر کی قوت کارفرما ہے۔ بلاشبہ مغربی تہذیب میں اپنے نکتۂ عروج کو چھونے کے بعد زوال کے آثار پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کی اخلاقی بنیادیں کمزور ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کی جگہ لے سکیں۔ محض تخریب اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے ہم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ نہیں بن سکتے‘ نہ وہ بلند مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جن کے لیے امت مسلمہ اٹھائی گئی ہے۔
اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کے جذبے اور تمنا کو عمل میں ڈھالنے کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ ان تدابیر میں معاشی خود کفالت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کی معاشی منصوبہ بندی کرنے والوں کو نئے راستے اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی تشفی ضروری ہے کیونکہ ان کی تربیت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوئی ہے اور وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں کہ مغربی معاشی تصور میں انسان کی حرص اور بھوک کو بڑھا کر جس طرح اسے زیادہ محنت پر آمادہ کیا جاتا ہے ‘ اسلام کے پاس اس سے بہتر راستہ ہے جس سے مسلمان کو اخلاقی‘ علمی اور مادی کاوش اور قربانی کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت ہے کہ اس پورے تصور کو ہمارے تربیتی اور تعلیمی نظام کے ایک بنیادی جزو کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ صدیوں کے انحطاط سے دین اسلام کے بنیادی پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں اور رہبانیت‘ ترک دنیا اور اس کے مختلف مظاہر کو ولایت اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ‘ ہر طرح کی اخلاقی ‘ علمی اور مادی و معاشی کاوش ہے‘ مسلمانوں کی روحانی‘ اخلاقی اور مادی ترقی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
جنرل پرویز مشرف نے جو اب چشمِ بددُور صدر بھی بن گئے ہیں‘ اپنی پہلی تقریر میں جو سات نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے رکھا تھا‘ اس کا پہلا نکتہ ’’قومی اعتماد کی بحالی‘‘ تھا۔ قومی اعتماد کی بحالی کو اولیں ترجیح قرار دے کر درحقیقت یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ قوم مایوسی کا شکار ہے--- اگر سول اور ملٹری انٹیلی جنس کے متعدد محکمے دیانت داری سے اپنی رائے جنرل صاحب کے سامنے باقاعدہ پیش کر رہے ہوں‘ تو ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے حکمران بننے کے بعد قوم کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے‘ کمی نہیں ہوئی۔
جنرل صاحب کے سات نکاتی ایجنڈے کا دوسرا جزو ’’وفاق کی مضبوطی‘‘ تھا۔ وفاق کی مضبوطی سے مراد یہ ہے کہ وفاق کے اجزا کے طور پر تمام صوبے اپنے اپنے دائرہ کار میں خودمختار ہوں‘ ان کے آپس کے تعلقات باہمی اعتماد‘ بھائی چارے اور محبت پر استوار ہوں۔ وہ وفاقی حکومت کے زیرسایہ ہم آہنگ ہو کر مشترک مقاصد کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے صورت حال اس کے برعکس ہے۔ خشک سالی اور آبی ذخائر میں پانی کی کمی کے باعث ‘ زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کے بحران میں صوبوںکے اختلافات بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے ذریعے صوبوں کے مفادات کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ کبھی صوبہ پنجاب کے خلاف تین صوبے مشترکہ مفادات کی کونسل سے واک آئوٹ کرتے ہیںا ور کبھی سندھ پر پانی چوری کا الزام لگا کر پنجاب اور سرحد‘ بلوچستان کی حمایت میں اجلاس سے واک آئوٹ کرتے ہیں۔ یہ خبریں جب اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو صوبوں کے علیحدگی پسند عناصر کی تقویت کا باعث بنتی ہیں اور وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں نکل آتے ہیں۔ علاقائی پریس عوامی احتجاج میں مزید تلخی گھولنے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح وفاق کے مختلف یونٹ (صوبے) فوجی حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کے سبب سرکاری افسران کے ذریعے آپس میں حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وفاق کی تقویت کے بجائے اس کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔
افواج پاکستان کے سربراہ اس وقت مطلق العنان صدر کی حیثیت سے ‘ تمام اختیارات کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہ امر بذات خود صوبوں کے اختیارات کو سلب کرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور صوبوں میں بداعتمادی کا سبب بن رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ایجنڈے کا تیسرا نکتہ ’’معیشت کی بحالی‘‘ ہے۔ معیشت کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت گرتی ہوئی معیشت ہی ہماری سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے ہماری آزادی خطرے میں ہے۔ ہم خارجہ امور‘ دفاع اور معاشی پالیسیوں کے علاوہ تعلیم جیسے اہم شعبے میں بھی آزادی سے محروم ہو گئے ہیں۔ نصاب تعلیم میں نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنٹوں کی مرضی کے مطابق ردّ و بدل پر مجبور ہیں۔ دینی مدارس کے خلاف حکومت کی محاذ آرائی اور میٹرک کے نصاب سے قرآن کریم کے ترجمے کا حذف کرنا بیرونی دبائو کا ہی نتیجہ ہے۔ سرکاری ملازمین کی سالانہ کانفیڈنشل رپورٹوں سے دینی اور اخلاقی حالت اور نظریہ پاکستان سے وابستگی سے متعلق سوالوں کا اخراج بھی معنی خیز ہے اور حکومت کے رجحان میں تبدیلی کا واضح اشارہ ہے‘ جس میں نہ معلوم کس کس کا ہاتھ ہے۔ اس وقت کشمیر کے مسئلے میں بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے لچک کے جو اشارے دیے جا رہے ہیں وہ بھی معاشی دبائو کا نتیجہ ہے۔ حکومت اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکام رہی ہے اور کوئی ایسا انقلابی قدم نہیں اٹھا سکی ہے جس سے معاشی صورت حال میںکوئی حقیقی تبدیلی واقع ہو سکے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضوں پر انحصار میں مسلسل اضافہ اس دَور کی نشانی بن گئے ہیں اور ملک پر عالمی ساہوکاروں کا تسلط مستحکم تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایجنڈے کا چوتھا نکتہ ’’امن و امان کی بحالی‘‘ ہے لیکن دہشت گردی‘ قتل‘ ڈاکا زنی‘ چوری‘ عورتوں کی بے حرمتی اور دوسرے جرائم کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے ناجائز اسلحہ ضبط کرنے اور تعاون نہ کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینے کی محض دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر حکومت شہریوں سے اسلحہ لینے میں قدرے کامیابی حاصل بھی کر لیتی ہے تو یہ کامیابی امن و امان کی ضامن اس لیے نہیں ہو سکے گی کہ پیشہ ور ڈاکو اور لٹیرے کبھی بھی اپنا اسلحہ واپس نہیں کریں گے‘ اور حکومت کی کرپٹ مشینری میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ اصل مجرموں تک پہنچ سکیں۔ اس طرح غیر مسلح ہونے کے بعد عوام بالکل ہی ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ بدامنی کے دوسرے ذرائع میں بھی‘ جیسے بے روزگاری‘ غربت اور جنسی جرائم اور تشدد پر مبنی فلمی مناظرمیں‘ جو سینما‘ ویڈیو‘ کیبل نیٹ ورک‘ انٹرنیٹ اور ڈش پر دکھائے جاتے ہیں ‘برابر اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن بھی ایسے مناظر دکھانے میں پیچھے نہیں ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا پانچواں نکتہ ’’ریاستی اداروں کو غیر سیاسی بنانا‘‘ہے۔ اس کے برعکس خود فوج کو ایک مکمل سیاسی ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور سیاسی ادارے کی تمام خرابیاں اس میں سرایت کرتی جا رہی ہیں۔ جنرل صاحب کے چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے صدر بن جانے سے فوج سیاسی دلدل میں مزید دھنس گئی ہے اور اس سے فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی دفاعی صلاحیت سخت مجروح ہو رہی ہے۔ سرکاری ادارے صوبوں میں علیحدگی پسند عناصر کی قیادت کر رہے ہیں اور منفی سیاست کے مرکز بن گئے ہیں۔
حکومت کے ایجنڈے کاچھٹا نکتہ ’’نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم‘‘ ہے۔ اختیارات کی تقسیم کے نام پر جوبلدیاتی انتخابات کرائے جا رہے ہیں‘ اس میں قومی تعمیرنو کے ادارے کے علاوہ کسی کا مشورہ شامل نہیں ہے۔ درحقیقت موجودہ حکومت کے ہاں مشورے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اصل فیصلے کور کمانڈرز کے اجلاس میں ہوتے ہیں اور کورکمانڈر فوجی ڈسپلن کے پابند ہیں۔ وہ فوجی وردی میں ہوتے ہوئے اپنے چیف سے کیسے اختلاف کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ ڈسپلن کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے انتہائی نرمی اور ادب سے کسی مسئلے کا دوسرا پہلو پیش کر دیا جائے۔ اصل فیصلہ تو فردِواحد ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ فوجی حکومت اور اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کا نکتہ باہم متضاد ہیں۔
فوجی حکومت کی سرشت میں اختیارات کے ارتکاز کا رویہ رچا بسا ہوتا ہے۔ اس سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ کوئی ایسا نظام رائج کرے گی جس میں حقیقی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو جائیں۔نئے نظام کے نام سے درحقیقت یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کے لیے ایسا شکنجہ بنایاجائے جس میں انھیں مضبوطی سے جکڑا جا سکے۔ یہ کام بین الاقوامی مالیاتی ادارے‘ مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بلدیاتی اداروں کے ذریعے سرانجام دیں گی جن کی اصل منزل سیکولرزم‘ مغربی ثقافت کی ترویج اور عالمی مالیاتی اداروں کی حکمرانی کا قیام ہے۔ گرتی ہوئی قومی معیشت‘ غربت اور بے روزگاری اس طرح کا شکنجہ تعمیر کرنے میں مدد دیں گی۔ بہ حیثیت صدر جنرل پرویز مشرف اس شکنجے کی حفاظت پر مامور کردیے گئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں جو انتخابات ہوں گے اور جو پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ جنرل صاحب کے اقدامات کی توثیق کر دے۔ اس کے بغیر حکومت ان کی طرف منتقل نہیں کی جائے گی اور جنرل صاحب خود بااختیار صدر بن کر پارلیمانی طرز حکومت کو عملاً صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کروانے کی کوشش کریں گے۔
بلدیاتی اداروں کو غیر جماعتی اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ ادارے براہِ راست این جی اوز کے ذریعے عالمی اداروں کی تحویل میں آسکیں اور ترقیاتی کاموں کے نام سے ان سے اسلامی تہذیب و تمدن کو مٹانے اور عالم گیریت کے نام سے مغربی اور ہندوانہ تمدن کو عام کرنے کا کام لیا جا سکے۔
پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا آخری نکتہ ’’احتساب‘‘ ہے۔ اسی کے نام پر انھوں نے فوجی مداخلت کی۔ احتساب اب سیاسی بلیک میلنگ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اگرچند چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو زیرجال کیا بھی گیا ہے تو وہ نمایشی سے زیادہ نہیں۔ بڑی بڑی مچھلیاں تو نہ صرف گرفت سے باہرہیں بلکہ عزت و اکرام کے ساتھ رہا کر دی گئی ہیں۔
اس وقت عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ رائے عامہ معلوم کرنے کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تقریباً ۸۰ فی صد عوام ان تمام ایشوز پر جن کا احاطہ سات نکاتی ایجنڈے میں کیا گیا تھا‘ حکومت سے مایوس ہیں۔
پرویز مشرف صاحب سات نکاتی ایجنڈے میں ناکامی کے باوجود حکومت کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور اپنا شوق پورا کرنے کے لیے انتہائی بھونڈے انداز میں صدر بن بیٹھے ہیں۔ آئینی لحاظ سے ان کے لیے صدر بننا ممکن نہیں تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے کچھ نام ور ماہرین قانون بلکہ قانون کے جادوگروں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں کہ وہ ان کے لیے انتخاب اور اسمبلیوں کو بحال کیے بغیر صدر بننے اور موجودہ صدر کو فارغ کرنے کی کوئی سبیل نکال لیں۔ غالباً انھیں کوئی مہذب اور شائستہ راستہ دکھائی نہیں دیا اور انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ جس طرح فوج کے سربراہ کی حیثیت کو استعمال کر کے وہ بزور شمشیر چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے اور جس طرح اس حیثیت میں انھوں نے راتوں رات نواز شریف کو ملک بدر کر دیا تھا اور آئین‘ اور قانون ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکا تھا اسی طرح شب خون مار کر وہ صدر تارڑ کو فارغ کر کے خود صدر بن جائیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے صدر بننے سے فوج کو بھی نقصان ہوگا اور ملک کو بھی‘ لیکن پرویز مشرف صاحب کے لیے اب یہی ایک نکاتی ایجنڈا سب سے زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ وہ کسی طرح ملک کے ایک بااختیار صدر بن جائیں۔ ان کا صدر بن جانا وفاقی پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام رائج کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ یہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت موجودہ حکومت کو مشروط طور پر تین سال کی مہلت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی ان شرائط میں پہلی شرط یہ ہے کہ دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کی اسلامی نظریاتی اساس میںکسی قسم کا کوئی ردّ و بدل نہیں کیا جائے گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں کی جائے گی۔
تیسری شرط یہ ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کے اختیارات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔
ان شرائط کے ساتھ فوجی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تین سال مکمل ہونے سے قبل انتخابات کا انعقاد کرائے تاکہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک دستور بحال کر کے سویلین منتخب حکومت بن سکے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کا صدر بن جانا اور یہ کوشش کہ فوج کو ترکی کی طرح ملکی معاملات میں مستقل دستوری کرداردیا جائے اور نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے نام پر قومی دستور میں بنیادی ترامیم کی جائیں‘ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس کے ذریعے اس نے تین سال تک موجودہ حکومت کو مشروط طور پر جائز قرار دیا ہے۔
ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو نظراندازکرنے کی جو رَوش پرویز مشرف صاحب کی حکومت نے اپنائی ہے ‘اس کی ایک تازہ مثال یکم جولائی سے ملک کے اندر سودی کاروبار کو غیر قانونی قرار دینے سے پہلوتہی ہے۔ سپریم کورٹ نے یکم جولائی ۲۰۰۱ء کو عملاً فیصلے کے نفاذ کے لیے حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق بہ تدریج مختلف قدم اٹھائے تاکہ ۳۰ جون کے بعد سود کے خلافِ قانون ہو جانے کے بعد کوئی عملی مشکل یا بحران پیدا نہ ہو سکے۔ لیکن حکومت نے جان بوجھ کر مطلوبہ اقدامات کرنے سے احتراز کیا‘تاکہ عین موقع پر اسی بہانے فیصلے کو مؤخر کروا سکے کہ اس کا نفاذ فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ روش قومی مصلحت کے خلاف ہے ؟ دراصل حکمران معیشت کو سود سے پاک کرنے میں مخلص نہیں ہیں۔
معاشی پالیسی بنانے والوں کا مفاد موجودہ سودی معیشت سے وابستہ ہے۔عالمی اداروں کے یہی آلہ کار‘ قومی معیشت کو ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی معاشی اداروں کے چنگل سے آزاد کرنے کے راستے میں حائل ہیں۔ اس لیے موجودہ حکومت نے بھی یونائیٹڈ بنک کو ذریعہ بنا کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ فی الحال حکومت سپریم کورٹ کے ا پیلیٹ بنچ سے اپنی مرضی کا فیصلہ اس لیے نہیں لے سکی کہ بنچ مکمل نہیں تھا۔اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ بنچ نامکمل ہے اور کیس سننے کے قابل نہیں ہے۔ اس نکتے کو فاضل ججوں نے تسلیم کیا لیکن حکومت نے دبائو کے حربے استعمال کر کے ایک عالم دین کی جگہ خالی رکھتے ہوئے اس عدالتی سقم کے باوجود ایک سال کی مہلت حاصل کر لی جو عدالت کی کمزوری اور حکومت کی بدنیتی کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔
عدالتوں کی بالادستی کے بغیر کسی بھی ملک میں ایک مہذب‘ شائستہ اور جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔ سب سے بڑا سوال اس وقت یہی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو ملک میں دستور‘ قانون اور قاعدے ضابطے کو نافذ کر کے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو دو مرتبہ حکومت میں آنے کے باوجود اپنی ناکامی ثابت کر چکے ہیں۔ اس وقت الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیماکریسی (ARD)کی شکل میں یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہیں۔ اگر فوجی حکومت کی ناکامی ثابت ہونے کے بعد حکومت واپس ان جماعتوں کے پاس چلی جائے تو کیا انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔ خود ان دو جماعتوں کا سب سے بڑا حامی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا‘ نہ عوام اس کو تسلیم کریں گے۔ اگر پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ اور فوجی حکومت مسئلے کا حل پیش نہ کر سکیں تو کیا ملک میں کوئی اور طاقت نہیں ہے۔ کیا ہماری قوم کے مستقبل میں بالکل اندھیرا اور مایوسی ہے!
یقینا ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن یہی تصورپیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ’’ناکام ریاست‘‘ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی ریاست ناکام ہے یا وہ سیکولر حکمران گروہ ناکام ہو چکا ہے جو ملک کی تشکیل سے لے کر اب تک مختلف سیاسی اور فوجی لبادوں میں ملک پر مسلط ہے‘ اور جسے سابق استعماری طاقت نے پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے تیار کیا تھا؟آزادی کے بعد کے ساڑھے پانچ عشروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ناقابل تردید حقیقت سامنے آتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال اور قائد ملّت لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد سے ملک میں اسی ایک طبقے کا اقتدار رہا ہے۔ یہ طبقہ ایک آزاد قوم کی اُمنگوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کر سکا اور اپنے اخلاق و کردار کے حوالے سے بلند ہونے کے بجائے مسلسل زوال و انحطاط کی طرف جاتا رہا‘ یہاں تک کہ اب اس میں سَکت نہیں ہے کہ اندر سے اپنی اصلاح کر سکے۔ اب اس کی اصلاح کے لیے ایک انقلابی طاقت کی ضرورت ہے اور وہ انقلابی طاقت‘ عوامی قوت کو منظم اور متحرک کرنے سے ہی وجود میں آسکتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ایک تازہ دم‘ دیانت دار‘ باحوصلہ قیادت اُبھر سکتی ہے جو عوام میں سے ہو اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتی ہو۔
پاکستانی قوم کی بہت بڑی اکثریت اس وقت ملک کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے۔ یہ فکرمندی ان کے حبّ وطن کی ایک مثبت علامت ہے۔
اس فکرمندی کو مایوسی کی طرف لے جانے کے بجائے قوت عمل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو محض خود پُرامید ہی نہ ہو بلکہ ذوق یقین سے سرشار ہو۔ مولانا رومؒ کے ان اشعار کو علامہ اقبال ؒ نے اپنی کتاب‘ اسرار خودی کے سرنامے کے طور پر کتاب کے پہلے صفحے پردرج کیا ہے:
دی شیخ باچراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمرہان سُست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
ایک بزرگ چراغ لے کر شہر کی گلی کوچوں میں پھر رہے تھے کہ جعل سازوں اور فریب کاروں سے آزردہ ہوں اور ایک حقیقی انسان کی تلاش میں گردش کر رہا ہوں۔ ان درماندہ سُست رفتار ہم راہیوں سے بھی میرا دل اُچاٹ ہوگیا ہے ‘کسی شیرخدا اور کسی رستم کی داستان کی آرزو میں نکل کھڑا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ ہم نے بہتیرا تلاش کیا ہے اس طرح کے لوگ نایاب ہیں۔ اس نے کہا جو نایاب ہیں انھی کی آرزو میں پھر رہا ہوں۔
اس وقت ہمیں اس طرح کی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی آرزوئوں کو تازہ رکھے کہ مرگ آرزو ہی اصل میں قوموں کی موت کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے اس لیے اپنی کتاب ‘ زبورعجم پڑھنے والوں کو نصیحت کی ہے :
می شود پردئہ چشم پرکاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں رابنگاہے گاہے
وادیٔ عشق بسے دُور و دراز است ولے
طے شود جادئہ صد سالہ بآہے گاہے
درطلب کوش و مدہ دامن امید زدست
دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے
کبھی تو ایک معمولی تنکا میری آنکھ کے لیے پردہ بن جاتا ہے‘ اور کبھی میں ایک نگاہ سے دونوں جہان دیکھ لیتا ہوں۔ تلاش و جستجو میں سرگرم رہو اور اُمید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو۔ ایسی بھی دولت ہے جو تمھیں کبھی سرراہ بھی مل جاتی ہے۔ عشق کی وادی اگرچہ بڑی وسیع اور دُور و دراز ہے لیکن کبھی کبھی سو سالہ راستہ ایک آہ میں بھی طے ہو جاتا ہے۔
اپنی کتاب‘ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کی ابتدا میں کتاب پڑھنے والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں:
سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق
کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است
زمانہ ہیچ نداند حقیقتِ اورا
جنوں قباست کہ موزوں بقامت خرد است
بآں مقام رسیدم چو در برش کردم
طواف بام و درمن سعادت خرد است
گماں مبر کہ خرد را حساب و میزاں نیست
نگاہ بندئہ مومن قیامت خرد است
عشق کی ولایت سے تازہ افواج کی بھرتی ضروری ہو گئی ہے کہ عقل کی بغاوت سے حرم میں خطرہ نمودار ہو گیا ہے۔ زمانہ اس کی حقیقت سے کلی طور پر بے خبر ہے۔ جنون ایسی قبا ہے کہ عقل کی قامت پر بالکل ہی موزوں اور پوری ہے۔ میں عشق کے اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ جب میں نے اس کا دروازہ کھولا تو مجھ پر یہ راز کھل گیا کہ میرے بام و دَر کا طواف کرنا عقل کی سعادت ہے۔ یہ گمان نہ کر کہ خرد کے لیے حساب و میزان نہیں۔ مرد مومن کی نگاہ خرد کی قیامت ہے (یعنی اس سے خرد کی تگ و تاز کی قیمت جانچی جا سکتی ہے)۔
عشق اور خرد یا جنون اور عقل کا موازنہ اقبال کے پیغام کا ایک اہم موضوع ہے ۔ جب عقل و خرد کے حساب کتاب سے قوم کو ولولہ تازہ دینے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے تو وہ بندئہ مومن کی ایمانی طاقت‘ اس کے عشق اور اس کے جذبۂ جنوں کو اُبھارتے ہیں۔ ایک خوب صورت رباعی میں فرماتے ہیں:
الا یاخیمگی خیمہ فروہل
کہ پیش آہنگ بیروں شدز منزل
خرد از راندن محمل فروماند
زمام خویش دادم در کف دل
خبردار ہو جائو‘ خیمے میں بیٹھنے والوں کو چھوڑ دے کہ قافلے کا پیش رَو (قافلے سے آگے چلنے والا‘ پیش آہنگ) اپنے مقام سے نکل کھڑا ہوا ہے۔ عقل بوجھ اٹھانے سے عاجز آگئی ہے۔ اس لیے اب میں نے اپنی مہار دل کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔
ہم بھی قومی لحاظ سے اس وقت ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ قوم کے ایک بڑے حصے میں پائی جانے والی ایمانی طاقت کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی کو اس ایمانی طاقت کی موجودگی میں شک ہے تو وہ ان ہزاروں نوجوانوں سے ملاقات کا اہتمام کرلیں جنھیں موت کی وادی سے اس پار محبوب کا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ یہ نوجوان ہزاروں میل دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہیں‘ بھارتی درندوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اپنی مائوں اور بہنوں کی عصمتیں بچانے اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ اپنے آپ کو شہادت کے لیے پیش کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ یہ نوجوان اُمت کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ جنوبی لبنان‘ فلپائن‘ ان کی فداکارانہ سرگرمیوں کی آماجگاہ ہے۔ یہ نوجوان خود ہماری پاکستانی قوم کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ رنگ و نسل اور زبان کے تفرقے سے بالاتر ہیں۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور جو قوموں کی ڈوبتی کشتیوں کو طوفانوں سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔
ہماری قوم کی اس ناقابل شکست قوت کے خلاف گہری سازش ہو رہی ہے۔ اسے آپس میں لڑانے کے لیے بیرونی اور اندرونی دشمن مدت سے سرگرم عمل ہیں۔ شیعہ سنی کے درمیان قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن یہ لڑائی دو چھوٹے اور مختصر گروہوں تک محدود رہی اور عوام الناس نے اس میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ اب بریلوی دیوبندی خوں ریزی پھیلانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کی مساجد پر قبضے کا سلسلہ تو بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اب مولانا محمد سلیم قادری اور ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں کے قتل سے یہ کشیدگی ایک تشویش ناک صورت اختیار کر گئی ہے۔ کراچی میں ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر قتل اور دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا‘ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر دینی جماعتوں کے نوجوان مجاہدین کو جو میدانِ جہاد میں دشمن کے چھکے چھڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اس تباہ کن اور بے فیض تصادم میں اُلجھا دیا گیا تو یہ پوری قوم کی بدبختی ہوگی۔
ملک و قوم کو اس روزِ بد سے بچانے کے لیے دینی قائدین کے درمیان گہرے ذاتی روابط کی ضرورت ہے۔ ذاتی روابط سے بدگمانیاں دُور ہو جاتی ہیںاور آپس میں حسن ظن کو فروغ ملتا ہے اور بہت سارے اختلافات جو بدگمانی کی پیداوار ہوتے ہیں‘ محض آپس کے گہرے رابطے اور ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنے سے رفع ہو جاتے ہیں۔ دینی جماعتوں کے کارکنوں اور ہر سطح کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط پیدا کرنے کے لیے پیش رفت کریں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پہل کرنی چاہیے اور ہر سطح پر خوش گوار فضا پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الحمدللہ‘ جماعت کے کارکن پہلے ہی ہر طرح کے لسانی اور فرقہ وارانہ عصبیت سے پاک ہیں‘ لیکن آج کل کے حالات میں نہ صرف انھیں خود زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ دینی گروہوں اور مسلکوں کے درمیان بھی ثالث بالخیر کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہونا چاہیے۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ دینی قوتوں کو باہم لڑانے کی حکمت عملی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یورپ کی تاریخ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں اور ان دونوں فرقوں کے اندر دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقوں(denomminations) کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ و جدال ہی کے ذریعے سیکولر قوتوںنے اپنا سیاسی مقام پیدا کیا اور بالآخرمذہب کو ریاست کی صورت گری کے کام سے بے دخل کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں انگریز سامراجی حکمرانوں نے ہندو مہاسبھا کے احیا اور شدھی کی تحریک کی پشت پناہی اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کے فروغ کی شکل میں یہی کھیل کھیلا ۔لیکن تحریک خلافت‘ تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی نے مسلمانوں کے اندرونی اختلاف کو دور کیا اور باہم رواداری اور مشترک اعلیٰ مقاصد کے لیے اتحاد و یک جہتی کی شاہ راہ دکھائی۔ آج پھر دشمن وہی کھیل کھیل رہا ہے۔ آج پھر دینی قوتوں کا فرض ہے کہ اس کھیل کو ناکام بنا دیں اور دین کے احیا اور شریعت کی بالادستی کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔
جماعت اسلامی اس ملک کی ایک موثر اور منظم دینی سیاسی قوت ہے ۔ جب اس کے کارکن پورے اخلاص سے کسی بڑے کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کے فضل سے چل پڑتا ہے۔ اس وقت قوم کو مایوسی سے نکال کر عمل پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کتاب جہاد ہے اور بے غرض اور مخلصانہ جدوجہد کی تلقین کرتا ہے۔مایوسی سے بچانے کے لیے قرآنی حکم ہے: وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَیَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ o (یوسف ۱۲: ۸۷) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔ وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمٰرن ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ اَلاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’نہ ڈرو‘ نہ غم کرو ‘اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
قوم اس وقت ایک ایسے گروہ کے انتظار میں ہے جو میدان میں نکل کر ان کی قیادت کرے۔ گھروں اور دفتروں میں بیٹھ کر یہ توقع رکھنا درست نہیں ہے کہ قوم ہمای طرف خود بخود آجائے گی۔ اس کے لیے ہمیں ہر دروازے پردستک دینی ہے۔ ہر صاحب ایمان کو پکارنا اور ہر محب وطن کو بیدار اور متحرک کرنا ہے۔ دلوں کو جوڑنا اور سب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ملک و قوم کو اس عذاب سے نجات دلانا ہے ‘جس میں سیکولر اشرافیہ (elites) نے اپنے بیرونی استعمار کے مفادات کی خاطر اسے جھونک دیا ہے۔
پہلے قائدین قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے‘ اندھیروں میں چراغ روشن کریں گے‘ پھر کارکن نکلیں گے۔ اس کے بعد قوم نکل کر ساتھ دے گی۔ جو لوگ صرف ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑا کر اندازے لگاتے ہیں ان کے اندازے ہمیشہ انقلابی قوتوں کے مقابلے میں شکست کھا جاتے ہیں۔ جب اللہ کے بھروسے پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے مردانِ حُر میدان میں نکلتے ہیں تو وہ اللہ کی تقدیر بن جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو دشمنوں کی یلغار سے بچانے کے لیے ان ہی مردانِ حُر کی ضرورت ہے۔ لیکن قومی بیداری کے اس کام میں ہر طبقے کے مخلص لوگوں کو ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری فوج ہم میں سے ہے۔ قوم کو اپنی فوج سے تصادم مول لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قوم کے تمام طبقات کے بہتر لوگوں کی طرح فوج کے اندر صاحب ایمان و تقویٰ عناصر اور جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا طریق زندگی بنانے والے عناصر کی کمی نہیں ہے۔ ملک و قوم جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے وہ لوگ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔اگر قوم کی مخلص قیادت مل جل کر قومی نجات کے لیے حکمت و دانش کے ساتھ‘ لیکن مومنانہ بصیرت اور جرأت کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے گی تو یہ تمام عناصر ان کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
a