مئی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

عالمی امریکی استعمار‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان

قاضی حسین احمد | مئی ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

’’امریکہ‘‘آج روے زمین پر طاقت‘ ظلم اور جبر سے اپنی مرضی مسلط کرنے کی علامت بن چکا ہے۔ اس ملک کی قیادت نے جس کی پس پشت قوت دراصل یہودی ہیں‘ فساد فی الارض کو اپنا یک رکنی ایجنڈا بنا لیا ہے اور وہ اس کے خاکے میں انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خون سے مسلسل رنگ بھرنے میں مصروف ہے۔ برطانیہ سے آزادہونے کے بعد سے امریکی فوج ۱۰۲ سے زائد مرتبہ دنیا کے مختلف ممالک میں دخل اندازیاں کر چکی ہے اور صرف ۱۹۴۵ء کے بعد سے‘ اب تک یہ ۲۰ سے زائد ملکوں میں فوجی مداخلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ۲۳سے زائد ملکوں پر بمباری کر کے لاکھوں معصوم شہریوں کا خون بہایا ہے۔ ان ممالک میں عراق‘ افغانستان‘ لبنان‘ سوڈان‘ انڈونیشیا‘ کوریا‘ چین‘ ویت نام سمیت متعدد چھوٹے ممالک شامل ہیں۔ امریکہ ۲۰ سے زائد ممالک میں بغاوتوں میں مدد کر چکا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی‘ سربراہانِ مملکت کے قتل میں شریک ہونا ثابت ہے۔ انڈونیشیا کے سوئیکارنو ہوں یا مصر کے جمال عبدالناصر‘ مراکش کے جنرل احمد ولیمی ہوں یا ایران کے آیت اللہ خمینی‘معمرقذافی ہوں یا شاہ فیصل شہید‘ امریکہ اور اس کی خفیہ تنظیمیں دنیا بھر کے رہنمائوں کے قتل یا اقدامِ قتل کی منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں۔ اور یہ باتیں اب محض دعوے یا الزامات نہیں بلکہ ان پر متعدد تحقیقی کتب اور مضامین شائع ہوچکے ہیں۔

آخر امریکہ یا بالفاظ دیگر پس پردہ قوت محرکہ یہودی کیا چاہتے ہیں؟ تمام امریکی اقدامات‘ کارروائیوں‘سازشوں اور حملوں کی کڑیاں جوڑ لی جائیں تو اس سوال کا جو جواب واضح طور پر سامنے آجاتا ہے اور وہ ہے: ’’ایک ایسے عالمی نظام کا قیام جس میں امریکہ کے معاشی مفادات اور ہوس پر مبنی امریکی تہذیب کا مکمل غلبہ ہو۔ اس کے افکار کو فروغ حاصل ہو رہا ہو‘ زیادہ سے زیادہ کی طلب کی بنیاد پر قائم نظامِ معیشت چل رہا ہو‘ جس کے نتیجے میں دولت کا بہائو عالمی اور مقامی سرمایہ داروں کی طرف رہے‘ میڈیا کے ذریعے ایک ایسی فضا بنا دی جائے کہ لوگ اس کے دیے ہوئے زاویۂ نگاہ کے مطابق دیکھتے اور سوچتے ہوں‘ اس کا حکم مانا جاتا ہو اور اس کی بارگاہ میںسرتسلیمِ خم کیا جاتا رہے اور لوگ اس کی قائم کردہ عدالتوں میں اپنے معاملات لے کر پہنچیں اور اسی کے عطا کردہ قوانین پر اپنے فیصلے کروائیں‘‘۔ غرض اخلاق‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت سب کچھ اسی کے متعین کردہ پیمانوں‘ ضابطوں‘ قاعدوں کی بنیادوں پر استوار ہو۔ اسی پروگرام اور منصوبے کے تحت اس نے کبھی لیگ آف نیشنز قائم کی تو کبھی اقوامِ متحدہ ‘کبھی وہ اپنی فوجوں کے ساتھ ویت نام‘ افغانستان اور عراق میں اترا تو کبھی سازشوں کے ذریعے اس نے ایران پر بھاگ جانے والے شاہ کو دوبارہ مسلط کیا (۱۹۵۳ئ)‘ انڈونیشیا میں فوجی حکومت لانے کی کوشش کی۔ اور کبھی لیبیا‘ کمبوڈیا‘ گوئٹے مالا‘ پاناما‘ نکاراگوا‘ لائوس اور پیرو جیسے چھوٹے اور کمزور ممالک میں مداخلتیں کرتا رہا اور اپنے ایجنڈے کوآگے بڑھاتا اور فروغ دیتا رہا۔

ذرائع ابلاغ اور معیشت کی قوتوں کو استعمال کر کے اپنے مذہب ’’لبرلزم‘‘ کے فروغ کے لیے امریکہ کو عراقی تیل کی ضرورت پیش آئی یا افغانستان میں فوجی چوکی قائم کرنے کی ‘اس نے کبھی کسی رکاوٹ یا لومۃ لائم کی پروا نہیں کی۔ اقوامِ متحدہ سمیت ساری دنیا کی رائے کو نظرانداز کر دیا اور ہمیشہ پوری قوت سے اپنے ایجنڈے کے خاکے میں رنگ بھرتا چلا گیا۔ اسی حوالے سے اس کا تازہ ترین شکار ایک بار پھر عراق ہے۔

۲۲ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکی عسکری سالار جنرل ٹومی فرینکس نے دوحہ میں عراق پر اپنے حملے کے جو اسباب بیان کیے تھے ان میں مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنا‘ دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کا نیٹ ورک ختم کرنا‘ موجودہ عراقی حکومت کی معزولی اور پھر تبدیلی‘ اور تیل کے کنوئوں کی حفاظت شامل تھی۔ ان سارے مقاصد کے حصول کے لیے مہم جوئی ان مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے جو وہ خود اقوامِ متحدہ کی ربڑاسٹمپ کے ذریعے طے کروا چکا ہے۔ امریکہ جن مہلک ہتھیاروں کی بات کرتا تھا اقوامِ متحدہ کے چیف اسلحہ انسپکٹر ہنس بلکس اور عالمی ادارہ براے جوہری توانائی کے سربراہ محمدالبرادی ۷ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنی رپورٹ میں عراق میں ان کے عدمِ وجود کا اعتراف کر چکے ہیں اور پھر ۶۰ سے زیادہ الصمود میزائلوں کی تباہی کے بعد تو اس کا قطعاً کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ممالک خودمختاری کے حوالے سے برابر ہیں اور کسی ملک کی سرحدوں کو بزورِ قوت پامال نہیں کیا جائے گا مگر امریکہ خود یہ کر رہا ہے اور مزید کرنے پر مصر ہے۔ جہاں تک عراق میں موجود دہشت گردوں کی گرفتاری کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر آج تک دہشت گردی کی کوئی تعریف ہی متعین نہیں کی جا سکی ہے اور اب تک عملاً جسے امریکہ دہشت گرد کہتا ہے اسے اقوامِ متحدہ دہشت گرد تسلیم کر لیتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان الزامات میں کوئی حقیقت سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔

دراصل امریکہ کے پیشِ نظر عراق کے حوالے سے بالکل مختلف اہداف ہیں۔ اور یہ  اب کوئی راز نہیں رہے۔

۱-  مشرق وسطیٰ کے عین بیچ میں بیٹھ کر اطراف کے ممالک پر تسلط قائم کرنے اور اس پورے خطے اور خود عراق کی جغرافیائی تشکیلِ نو (۷ مارچ کو ۲۰۰۳ء کو اپنی پریس کانفرنس میں بش نے تین مرتبہ شیعہ سنی اور کردوں کا الگ الگ تذکرہ کیا)۔ یاد رہے کہ ماضی میں دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد بھی استعمار نے پہلے تو عربوں کو ترکوں سے لڑایا اور پھر ایک ہی مذہب‘ خطے و جغرافیے‘ زبان‘ نسل‘ تہذیب‘ تمدن اور کلچر رکھنے والے عربوں کو بیسیوں ممالک میں تقسیم کیا اور ان پر اپنے نمایندہ بادشاہوں کو مسلط کر کے دراصل اپنی کالونیاں بنائے رکھا۔ اور اب وہ انھیں تقسیم در تقسیم سے دوچار کرنا اور ان پر اپنی تہذیب مسلط کرنا چاہتا ہے۔

۲- دنیا کے تیل کے دوسرے بڑے ذخیرے کے مالک ملک عراق کے تیل اور گیس پر قبضہ‘ اور عراق کو ۲۰۰۰ء میں تیل کی فروخت کے لیے ڈالر کے بجائے یورو کرنسی کے طور پر منتخب کر کے ڈالر کو نقصان پہنچانے کی سزا دینا اور عالمی معیشت کے یورو کی طرف رجحان کو توڑ کر دوبارہ ڈالر کی طرف موڑنا۔

۳-  دنیا میں تیل کے سب سے بڑے صارف‘ یعنی خود امریکہ کو تیل کی سستی‘ محفوظ‘ مسلسل‘ بلاتعطل فراہمی کا مستقل بندوبست کرنا۔ اور عراق اور شرق اوسط سے تیل حاصل کرنے والے دوسرے ممالک جن میں یورپ کے ممالک اور چین اہم ہیںپر اپنا دبائو اور گرفت قائم کرنا۔

۴- اگلے مرحلے پر سعودی عرب‘ ایران اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کے خلاف کارروائیوں کی راہ ہموار کرنا۔

۵ - خطے میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا (حال ہی میں کولن پاول نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ ہم اسرائیل پر سے مہلک ہتھیاروں کے تمام سائے ہٹا کر دم لیں گے)۔

۶ - جنگ اور پھر تعمیرنو کے نام پراپنی فوجی اور تعمیری صنعتوں کو اربوں ڈالرکی فراہمی۔

۷ - دنیا پر اپنی فوجی اور معاشی دھاک بٹھانا اور عالمی اور علاقائی سیاسی نقشے کی اپنے منصوبے اور مفاد کے مطابق تشکیلِ نو۔

ان عزائم کے ساتھ امریکہ اس وقت دنیا کی قریبی تاریخ کا سب سے بڑا غاصب اور امریکی دانش ور چومسکی کے بقول (rogue) بدمعاش ملک بن کر سامنے آیا ہے اور دنیا پر اپنے قبضے کے ارادے کے سامنے چند لاکھ عراقیوں کا خون اسے سستا سودا معلوم ہو رہا ہے اور بظاہر ساری دنیا اس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ مگر امریکی ظلم کی جو تاریکی گھٹاٹوپ اندھیرے میں بدل چکی ہے یہیں سے اس کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہیں سے ایک تابندہ سویرے کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں اور سپیدۂ سحرطلوع ہونے کے آثار ہیں۔ کنارفلک کا یہی سیاہ ترین گوشہ ان شاء اللہ مطلع ماہِ تمام بن سکتا ہے۔ آیئے ذرا اس کاجائزہ لیتے ہیں:

۱-  امریکی استبداد نے دنیا بھر کے دردِ دل رکھنے والے اربوں انسانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ۱۵ فروری اور اس کے بعد ہونے والے زبردست مظاہرے عوامی مزاج میں بڑی تبدیلیوں کا پتا دے رہے ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے نبض شناس جانتے ہیں کہ ہر دور میں تبدیلی کا نکتۂ آغازیہی ہوتا ہے۔

۲-  امریکہ کو اس کے جبر نے تنہا کر دیا ہے۔ جو چند ممالک اس کے ساتھ ہیں ان میں اکثریت ناقابلِ ذکر ممالک کی ہے اور عراق پر قبضے کے بعد علاقے میں امریکہ کے لیے اہداف کے سلسلے میں اختلاف رائے سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکہ نے جن ۴۴ ممالک کی فہرست عراق کے خلاف حملے کے حامیوں کے طور پر پیش کی تھی ان میں کوسٹاریکا‘ جمہوریہ ڈومینگن‘ ایل سلواڈور‘ اسٹونیا‘ ایتھوپیا‘ منگولیا‘ مائیکرونیشیا‘ مارشل آئس لینڈ‘ روانڈا‘ سولومن  آئی لینڈ‘ یوگنڈا‘ ہنڈوراس‘ اریٹیریا اور پائولا جیسے ممالک شامل ہیں۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب امریکہ اپنے موقف کی حمایت میں ایسے نام پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے تو عالمی سطح پر اس کی حیثیت کیا ہو چکی ہے اور آنے والے ماہ و سال اسے مزید کہاں پہنچا سکتے ہیں۔

۳ -  ایک بات تو اب طے ہے کہ آنے والے دنوں میں بنائوبگاڑ کے فطری اصولوں کے مطابق امریکہ کی شکست کے بعد اُمت مسلمہ ہی کو دنیا کی امامت کرنی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے اندر ردعمل کا جو شدید لاوا پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت آتش فشاں کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اس بے پناہ قوت کا رخ درست سمت میں موڑ کر اسے امریکی استعمار کے خلاف مستقبل کی طاقت ور مزاحمت کی شکل دی جا سکتی ہے۔

۴ - عراق کے عوام نے جس طرح پوری جرأت کے ساتھ امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اور قبضے کے بعد بھی مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ    یہ بزعم خود عالمی سوپرپاور قابلِ مزاحمت ہے اوراس کے بارے میں ناقابلِ شکست کا جما جمایا تاثر ختم ہوگیا ہے۔ یہ بڑی اہم اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اور ماضی میں بھی ہمیشہ بڑی قوتوں کو کمزور قوموں کی مزاحمت ہی سے زوال آیا ہے۔

۵- جس طرح افغانستان روس کے لیے دلدل بن گیا تھا اسی طرح آثار و قرائن‘ عراقیوں کی منصوبہ بندی اور بعض دیگر اطلاعات بتا رہی ہیں کہ عراق بھی ان شاء اللہ امریکہ کے لیے سیاسی مزاحمت اور گوریلا جنگ کا ایسا میدان بنے گا جس سے نکلنا امریکہ کے بس میں نہیں ہوگا۔ روسی مہم جوئی کے دوران پاکستان نے جس طرح سمجھ لیا تھا‘ اسی طرح عراق کے بعض سرحدی ممالک نے بھی جان لیا ہے کہ امریکہ کو عراق میں ہی پھنسا دینا درست حکمت عملی ہے۔

۶- افغان جہاد دورِ جدید میں جہاد کا ایک ایسا بابرکت چشمہ تھا جو اب بڑھ کر سیلِ رواں بن چکا ہے اور اس سے سیراب ہونے والے لاکھوں عرب و غیر عرب نوجوان شہادت کی تمنا لیے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ عراق نے ان بہت سے بے وطن قافلوں کو ایک اور منزل کا پتا دے دیا ہے اور شہادت کے متوالے اب اس جانب کوچ کر رہے ہیں۔ علما نے خودکش حملوں کو استشہادی مشن قرار دے دیا ہے اور اسے اللہ سے اپنی جان و مال کے سودے پر عمل درآمد سے تعبیر کیا ہے جس سے دشمن پر ایک لرزہ طاری ہے۔

۷ - مومن کا سب سے بڑا ہتھیار موت سے بے خوفی اور کافر کی سب سے بڑی کمزوری موت کا خوف ہے۔ یہی وہ فیصلہ کن نکتہ ہے جو بالآخر ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست پر منتج ہوتا ہے۔ آج جس طرح کروڑوں مسلمانوں کے دل شہادت کی تمنا سے لبریز ہیں‘ یہ اتنی بڑی قوت ہے جس سے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔

۸ - جنگ میں دشمن کے نازک مقام پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ پورے عالم اسلام میں امریکی و یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی طاقتور ہوتی تحریک دشمن پر ایک ایسی ضرب ہے جسے وہ اپنی پہلے سے گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے گا‘ ان شاء اللہ۔ (یاد رہے کہ ۲۸۰ ملین امریکی عوام ۱۲ ہزار ڈالر فی کس کے مقروض ہیں اور یہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے)۔ اس مہم کا ایک اضافی فائدہ صارفین کی یہ تربیت ہے کہ وہ ضروریات اور تعیشات میں فرق کریں۔ کم اور صرف ضروری اشیا پر قناعت سیکھیں تاکہ وسائل دشمن سے مقابلے کی تیاری میں صرف کرنے کے لیے بچائے جا سکیں۔

۹-  امریکی طغیانی نے مسلمانوں کو نہیں خود عیسائی یورپی ممالک کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس وقت عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر رابطے جاری ہیں اور اس بات کے پورے پورے امکانات موجود ہیں کہ ایک ایسا بلاک وجود میں آجائے جو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط بند باندھ سکے۔ امریکی جارحیت کے مقابل ردعمل کی اس صورت میں بھی اُمید کا پہلو موجود ہے۔ روس‘ جرمنی اور فرانس نے حال ہی میں ایک سربراہی کانفرنس میں امریکہ کو مزید مہم جوئی کرنے کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔

مادی اسباب کے لحاظ سے اس وقت امریکہ عالمی انسانی تاریخ کی بظاہر سب سے بڑی معاشی‘ فوجی اور سیاسی طاقت بن چکا ہے۔ اسی بے مثال قوت نے اسے ایک ایسے غرور اور تکبر میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس کی قیادت طاقت کے نشے میں ہر اخلاقی حد کو پھلانگ رہی ہے۔ یہ رویہ ہمیشہ طاقت ور اقوام کے عروج کے بعد اس کے زوال کا سبب بنتا ہے اور وہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ امریکی صدر بش اور اس کے قریبی ساتھیوں کا حلقہ اپنی اس ہوس ملک گیری کو مذہبی لبادہ اوڑھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کوئی بھی انصاف پسند آدمی‘ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ اس بڑے پیمانے پر تباہی کو کسی مذہبی گروہ کا کارنامہ قرار نہیں دے سکتا اور خود پاپاے روم جان پال ثانی کے امریکی جارحیت کے خلاف بیانات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعماری ممالک کی وہی ہوس ملک گیری ہے جس کا تین سو سال سے کمزور اقوام شکار ہیں:

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا

مادی قوت کے مقابلے میں برتر اخلاقی قوت‘ حوصلے اور ثابت قدمی کی طویل عرصے کی جدوجہد کے لیے اُمت مسلمہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مسلم حکمرانوں سے زیادہ مسلم اُمت کا ہے۔ سعودی عرب کے علما نے متفقہ طور پر جارحیت کے خلاف ’’مکہ مزاحمت‘‘ کے نام سے جس تحریک کے آغاز کی طرف دعوت دی ہے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور اس کو حکمرانوں کے سائے سے نکال کر عوام کی تحریک میں تبدیل کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کی تقسیم ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس تقسیم کی دیواروں کو اُمت مسلمہ کی ایک عالمگیر اسلامی تحریک کی قوت اور معاشی‘ سیاسی‘ عسکری‘ ہر میدان میں موثر تیاری اور منصوبہ بندی کے ہتھیاروں سے گرایا جا سکتا ہے۔

امریکی جارحیت کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمت مسلمہ میں تبدیلی کی موجودہ بھرپور سیاسی مزاحمتی لہر کو ایک زبردست تہذیبی جنگ میں بدل دیا جائے۔ لوگوں میں مایوسی کی جگہ اُمید کو عام کیا جائے‘ اضطراب و اشتعال کی طاقت ور لہر کو قوت میں بدل دیا جائے اور اس قوت کو اصلاحِ ذات‘ اصلاح معاشرہ اور اصلاح حکومت کی طرف موڑ کر نتیجہ خیزبنا لیا جائے۔

ایل ایف او پر ہمارا موقف

مذکورہ بالا عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک کے اندر فوجی‘ اور آدھی تیترآدھی بٹیر  قسم کی جمہوری حکومت بھی تشویش کا باعث ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی اسٹاف ہونے کی حیثیت میں وزیراعظم کے ماتحت ہیں‘مگر صدرکے طور پر ان کے ’’باس‘‘ ہیں! وزیراعظم ہی نہیں‘ ۲۲گریڈ کے سرکاری افسر کی حیثیت سے وہ وزیردفاع کے بھی ماتحت ہیں اور صدر مملکت کی حیثیت سے پوری کابینہ ان کے ماتحت ہے! بحیثیت چیف آف اسٹاف وہ جوائنٹ چیف کے ماتحت اور فضائی اور بحری افواج کے سربراہوں کے برابر ہیں اور بحیثیت صدر وہ تمام افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ بحیثیت صدر مملکت پارلیمنٹ ان کے خلاف مواخذے کی قرارداد لا کر انھیں برطرف کر سکتی ہے مگر چیف آف اسٹاف پارلیمنٹ کے احتساب کے دائرہ سے باہر ہے۔ یہ تمام تضادات اپنی جگہ مگر اس پر بھی وہ مصر ہیں کہ اپنی اس مضحکہ خیز پوزیشن کوبرقرار رکھیں گے۔

اس صورت حال میں دو حوالوں سے ہمارا ایک واضح موقف ہے جسے سمجھ لینا چاہیے۔ ایک فوج اور اس کی قیادت اور دوسرا پارلیمنٹ اور ایل ایف او۔

ہم اپنی فوج کا احترام کرتے ہیں‘ بحیثیت ادارے کے ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کی جائز ضروریات پوری کرتے اور ملکی دفاع کے تناظر میں ان کو پوری اہمیت دیتے ہیں اور آیندہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہم اس کی موجودہ قیادت‘ اس کی اخلاقی و عملی حالت اور رویوں پر تحفظات رکھتے ہیں اور انھیں فوری طور پر اصلاح طلب سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمان‘ تقویٰ‘ جہاد فی سبیل اللہ کا موٹو رکھنے والی اس فوج کی قیادت کو اپنا طرزِعمل درست کرنا ہوگا۔ ہمیں آج کی فوج کی کچھ سطحوں اور دائروں میں ایک بار پھر یحییٰ خانی کلچر کو فروغ دیے جانے پر شدید تشویش ہے۔ ہماری فوجی قیادت کی اخلاقی حالت نے انھیں اندر سے اتنا کمزور کردیا ہے کہ وہ رات گئے موصول ہونے والی ایک ٹیلی فون کال پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ انھی خامیوں نے انھیں امریکہ کا اتحادی بنا دیا جس کے باعث وہ اس وقت قوم کی نظروں میں اپنی عزت و توقیر کھو چکے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے افغانستان و عراق میں ظلم کے اتحادی بن کر اپنی مائوں اور بہنوں کی ردائیں‘ بھائیوں اور بیٹوں کا خون ایک ارب ڈالرکے عوض فروخت کر دیا ہے۔ ہماری حمیت گروی رکھ کر یہ لوگ رقم حاصل کرتے ہیں اور پھرنہ صرف یہ کہ انھیں اللّے تلّے میں اڑا دیتے ہیں بلکہ نہ معلوم کہاں کہاں اس میں سے کیا کچھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ بقول اقبال  ع

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

یہ نہیں دیکھ رہے کہ پاکستان کے خلاف کیس مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کہوٹہ پابندیوں کی زد میں ہے۔ دشمن جس نے ڈھائی سو کلومیٹر مار کرنے والے عراقی میزائل برداشت نہیں کیے وہ پاکستان کے ڈھائی ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کو کس طرح نظرانداز کر سکتا ہے۔ ہماری موجودہ قیادت اس احساس سے عاری ہے کہ ہمارے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں تنہا کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہندو پنڈتوں کے جارحانہ بیانات آرہے ہیں‘ بھارت کو بیرونی قوتیں ہمارے خلا ف استعمال کر سکتی ہیں اور کسی بھی لمحے جرمِ ضعیفی کی سزا اچانک مرگ کی صورت ہم پر نازل کرنے کی سازشیں ہیں‘ امریکی ان داتا تک آنکھیں دکھا رہے ہیں اور    ان کے دوسری اور تیسری صف کے افسران ’’وعدے پورے کرنے‘‘ اور ’’کنٹرول لائن‘‘ پر     بین الاقوامی سرحد کے قواعد کا اطلاق کرنے کے مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیز افغان پاک سرحد کو پھر شعلہ فشاں کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اورہماری یہ فوجی قیادت چین کی بنسری بجا رہی ہے‘ خطروں پر پردے ڈال رہی ہے‘ خوش فہمیوں کے ہوائی قلعے تعمیر کر رہی ہے اور خود اپنی ہی قوم کو مفتوح رکھنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کیا قومی سلامتی اور دفاعِ وطن کے یہی طور طریقے ہیں؟ کیا عراق کے عوام کی بے مثال مزاحمت اور سیاست میں ملوث فوج کے پادر ہوا ہونے سے بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل رہیں؟ عالمی خطرات اور علاقائی طالع آزمائوں کی طرف سے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں فوج کو سیاست سے پاک رکھنا اور اس کی دفاعی قوت اور قوم کے اعتماد کو ہر تنازع سے بالا رکھنا ضروری ہے‘ وہیں ملک کے اندر بنیادی امور پر یک جہتی اور حقیقی سیاسی استحکام بھی ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ لیگل فریم ورک آرڈر کو ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے؟

سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بسااوقات ایک درست موقف پر مدلل گفتگو اور اپنی بات پر پوری دیانت داری کے ساتھ جمے رہنے کو فریق مخالف منفی طور پر پیش کرنے اور اپنے موقف کی کمزوری کو دوسرے پر حملہ کر کے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ایل ایف او کے سلسلے میں بھی کیا جا رہا ہے اور حکومتی حلقے کوئی مضبوط بنیاد نہ پا کر بات کو الفاظ کی گرد میں اڑانے‘ ابہام پیدا کرنے اور نان ایشوز میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم پورے شرح صدر کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ کسی فردِواحد کو آئین جیسی مقدس و محترم دستاویز میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کی اجازت نہیں۔ ملک کی کوئی عدالت کسی کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ آئین کو پنسل کی لکھی دستاویز سمجھ لے اور اسے جب چاہے لکھتا مٹاتا اور تبدیل کرتا رہے۔

اسی اصولی موقف کے ساتھ ہم لیگل فریم ورک آرڈر کے نام پر کسی غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن چونکہ ہم زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے قائل ہیں اس لیے یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت کی جانب سے صدرمشرف کو دیا گیا تین سال کا عرصہ غلط ہونے کے باوجود اب گزر چکا ہے۔ پارلیمنٹ وجود میں آچکی ہے۔ لہٰذا اب آئین و قانون کے مطابق سارے معاملات اسی فورم پر طے ہونے چاہییں۔ ماضی میں ایل ایف او پر جو مذاکرات ہوئے وہ بھی اس مقصد کے لیے تھے کہ ہم مسائل پیدا کرنا اور قوم اور حکومت کو بندگلی میں دھکیلنا نہیں چاہتے بلکہ اسے روشن شاہراہ پر نکال لانا چاہتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے ایل ایف او کی متعدد شقوں پر اتفاق کر لیا ہے یا مناسب ترمیم کے ساتھ انھیں قابلِ قبول بنا لیا ہے اور پارلیمنٹ میں انھیں منظور کروانے کے لیے اپنا تعاون بھی پیش کر دیا ہے‘ تاہم یہ طے ہے کہ متحدہ مجلس عمل‘ وردی والے صدر کو قبول کر کے فوجی آمریت کا تسلسل قائم نہیں رہنے دینا چاہتی۔ ہم اس موقف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ فوج اپنے دائرے میں اپنی    ذمہ داری پوری کرے اور پارلیمنٹ اپنے دائرے میں۔ فوج کو بھی ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے اور ملک کو بھی ہمہ وقتی صدر کی۔ تاہم پوری وسعت ظرف کے ساتھ یہاں بھی ہم یہ پیش کش کرتے ہیں کہ اگر صدر مشرف وردی اتارنے کی کوئی تاریخ دے دیں تو اس سے پہلے       ہم پارلیمنٹ سے انھیں صدر منتخب کروا دیں گے اور ایک منتخب صدر کی حیثیت سے انھیں ان کا پورا مقام دیں گے۔ البتہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے اصولی موقف سے اب یا آیندہ    ہٹا لے گا توایسے شخص کی صحتِ دماغی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت اس وقت قوم کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہو چکی ہے اور مجلس عمل نے لاکھوں کے اجتماعات سے اپنے بھرپور عوامی قوت ہونے کی حیثیت کو ثابت کر دیا ہے۔ ایسے میں اس قوت کا رخ پرویز مشرف کی طرف موڑکر انھیں ہٹایا بھی جا سکتا ہے لیکن ہم موجودہ عالمی تناظر میں فی الحال کوئی ایسا اقدام نہیں چاہتے جس سے ملک عدمِ استحکام کی کیفیت سے دوچار ہو۔ تاہم ہمارے اس خیرسگالی پر مبنی جذبے کا مثبت جواب دیا جانا چاہیے۔

ایل ایف او پر ہمارا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ فردِواحد کا تیار کردہ ہے اور اس کا برقرار رہنا پہلے سے کمزور نظام والے ملک کو مزید خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔ صدرمشرف کو جان لینا چاہیے کہ مستقبل کے خطرات کا مقابلہ عوامی شرکت والے نظام کے بغیر ممکن نہیں: ایک ایسا نظام جس میں عام آدمی اپنی عزت محسوس کرے‘ عدل اجتماعی قائم ہو‘آئین و عوامی نمایندوں پر مشتمل ایوان بالادست ہوں‘ معاملات شورائیت کے ذریعے طے پاتے ہوں اور دستور پر عمل ہوتا ہو۔ انھیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ دینی قوتوں کی قیادت میں ایک بڑی طاقت ور عوامی لہر موجود ہے جو ملکی نظام کو قرآن و سنت کے تابع دیکھنا چاہتی ہے۔ جو چاہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تیار کردہ سفارشات سے قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ پورے اخلاص کے ساتھ رہنمائی حاصل کریں‘  اور جو امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک سے باوقار دوستی کا تعلق تو ضرور قائم کرنا اور رکھنا چاہتی ہے مگر اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور ملکی اور ملّی مفادات کے تحفظ کا عزم رکھتی ہے اور ان کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہم آزاداور متوازن خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی کو ہر قیمت پر استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور یہی اس قوم کی آرزو اور عزم ہے۔

جہاں تک جمالی شجاعت حکومت کا تعلق ہے ‘ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہم اسے گرانا نہیں چاہتے۔ یہ بھلی بری حکومت بہرحال جمہوری ہے۔ ہم تو ان منتخب نمایندوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے اندر جرأت پیدا کریں اور خود کو مشرف کا غلام بے دام بننے سے بچائیں۔ اسی میں   ان کی‘ حکومت کی اور ملک و قوم کی بہتری ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے مشرف کے بغیر    شجاعت صاحب اور جمالی صاحب اپنے آپ کو غیرمحفوظ اور سرپرستی سے محروم سمجھتے ہیں‘ اور مشرف صاحب کو بھی افواج پاکستان پر اپنا زائدالمیعاد تسلط قائم رکھنے کے لیے سیاست دانوں کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔

متحدہ مجلس عمل کی اُبھرتی ہوئی طاقت

متحدہ مجلس عمل ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے اللہ کا انعام ہے۔ یہ اُمت کے عالم گیر اتحاد کا نقطۂ آغاز ہے اور اس پہلے قدم کی برکتیں اور رحمتیں ہر صاحب ِ ایمان کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ اور ان شاء اللہ آنے والے دنوں میں اس کی فیوض و برکات کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔

مجلس عمل کی بنیاد اخلاص‘ ایثار‘ قربانی اور اللہ اور اس کے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت کے ساتھ غیر مشروط وفاداری پر رکھی گئی ہے۔ اس بابرکت اتحاد کے قیام اور برقرار رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان نے اپنے مقاصد کو آگے اور خود کو پیچھے رکھا ہے۔ مشترکات پر جمع ہوئے ہیں اور اختلافی نکات پر سکوت اور باہمی احترام کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں اچھی بات کہی ہے یا پھر خاموش رہنے کو بہتر جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم نے بھی اس پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا‘ اسے اپنی محبتوں سے نوازا ہے اور اسے پورا مان دیا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ملین مارچ کی وہ پوری سیریز ہے جس میں بلامبالغہ لاکھوں افراد شریک رہے ہیں۔ اس حدیث رسول کے مطابق کہ:

من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہٖ فان لم یستطع فبلسانہٖ وان لم یستطع فبقلبہٖ وذلک اضعف الایمان (او کما قالؐ)

تم میں جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے۔ اس کی قوت بھی نہ رکھتا ہو تو زبان سے اسے بُرا کہے‘ اور اس کی قوت بھی نہ رکھتا ہو تو کم از کم اسے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

الحمدللہ! مجلس عمل نے پوری قوم کو اس کمزور درجے سے نکال کر علی الاعلان برائی کو للکارنے کاحوصلہ اور پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ اس ملک کے وہ کروڑوں لوگ جو موجودہ صورت حال پر دل میں کڑھتے تھے ‘ آج مجلسِ عمل کے ہم آواز ہیں اور دشمن کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ہم نے لاکھوں افراد کو متحرک کر دیا ہے اور اخلاقی تائید کی زبردست کمک عراق کو فراہم کی ہے اور آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امریکہ کے استعماری عزائم اور کارروائیوں کے خلاف بڑی تحریک منظم کر رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ لوگ امریکہ کے عالمی استعمار کے خلاف اُٹھ رہے ہیں اور امریکی و یہودی مصنوعات تک استعمال کرنے کو تیار نہیں۔ نوجوانوں کے گروپ کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے باہر کھڑے ہوکر وہاںآنے والے لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد ان کی مدلل گفتگو اور پمفلٹس سے متاثر ہو کر واپس لوٹ جاتی ہے۔ جگہ جگہ عمومی بیداری کی ایک لہر ہے جس کی قیادت ایم ایم اے کے پاس ہے اور تمام آزادی پسند اور باضمیر افراد اس تحریک کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جب کہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے دُور دُور تک موجود نہیں۔ یہ کسی کا کمال نہیں محض اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے ممکن ہوا ہے۔

پرویز مشرف کے نعرے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کو جو ایک طرف دراصل ’’سب سے پہلے میں‘‘ اور دوسری طرف پاکستان کے رشتے کو اُمت ِ مسلمہ سے کاٹنے کی ایک عیارانہ چال ہے‘ عوام مسترد کر چکے ہیں۔ مسلمان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ مفکر پاکستان کے بقول:

پھر سیاست چھوڑ داخل حصار دیں میں ہو

ملک و ملت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر

اور

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

اور ان کا یہ اعلان ہے کہ

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے

یہ عقیدہ پاکستان کے ہر مرد اور عورت‘ جوان‘ بچے اور بوڑھے کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا ہے۔ اور اگر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا کوئی مفہوم ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنایا جائے اور پاکستان اُمت مسلمہ کی تقویت کا باعث ہو اور مسلم اُمہ پاکستان کی۔ ہمارا تو اصل ہدف ہی ’’اُمت احمد مرسل‘‘ کو ایک حقیقت میں تبدیل کرنا ہے اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا یہی کام ہے۔ متحدہ مجلس عمل اس تحریک کی قوتِ محرکہ ہے۔ اس تحریک کے تمام کارکنان کو وقتی اور عارضی مفادات سے صرفِ نظر کرکے دُور رس نتائج کے حامل مشترک اعلیٰ مقاصد پر نظررکھنی چاہیے جو اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر کے انسانیت کو عدل و انصاف فراہم کرتا ہے۔

صوبہ سرحد میں ہماری قوت صدیوں کے جمود کو توڑ رہی ہے۔ لوگوں کے لیے اس کی حیثیت ایک خوش گوار اور تازہ ہوا کے جھونکے کی سی ہے۔ عوام کو محلات میں لے جانا توشاید جلد ممکن نہ ہوسکے مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ نئے حکمران محلات میں رہنے کے بجائے‘ اپنے شب و روز عوام کے درمیان گزار رہے ہیں۔ جبر کے نظام کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ نئی قانون سازی ہورہی ہے۔ حکومت سرحد کی مقرر کردہ شریعت کونسل کی وقیع تجاویز آچکی ہیں جنھیں جلداسمبلی سے منظور کرا کے ان شاء اللہ بتدریج نافذ کر دیا جائے گا۔ صوبائی سطح پر اسلامی حکومت کے پہلے کام اقامت صلوٰۃ پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ تمام دفاتر اور سرکاری مقامات پر اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔ غیرسودی بنک کاری‘ چھوٹے قرضوں کی فراہمی‘ خواتین کے حقوق‘ صحت و تعلیم کے محکموں کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور صوبے کی منتخب دیانت دار ٹیم اپنے اُجلے دامن کے ساتھ دن رات عوامی خدمت کے پروگرام ترتیب دیتی اور ان کے مطابق عمل درآمد کرتی نظر آتی ہے۔ الحمدللہ! تبدیلی کی یہ لہر جس میں صوبہ سرحد سبقت لے گیا ہے‘ اٹک کا پُل پار کر چکی ہے اور باب الاسلام سندھ نے بھی اس کے لیے اپنا سینہ کھول دیا ہے۔ آنے والے دن ان شاء اللہ ایک بڑے انقلاب کی نوید سناتے دکھائی دیتے ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں کے کارکنان اپنے دل ایک دوسرے کے لیے کھول دیں‘ باہمی رنجشیں اور چھوٹے چھوٹے اختلاف بھلا دیں اور سب مل کر مجلس عمل کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوت بنا دیں۔ پھر دیگر دینی طبقات اور ہر باضمیر اور باشعور انسان تک پہنچیں‘ انھیں قریب لائیں ۔ اس وقت بیشتر دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنی قیادتوں سے مایوس ہیں۔ انھیں ذاتی مفادات کا اسیرپاتے ہیں۔ ایسے میں ان کارکنان کو محبت سے اپنی جانب متوجہ کریں اور اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے اپنے ساتھ ملا لیں۔ یقین کیجیے‘ یہ مواقع قوموں کو صدیوں میں کبھی کبھی ملاکرتے ہیں کہ جب وہ برسوں کا سفر لمحوں میں طے کرسکتے ہیں۔ ایسے وقت میں ساری توانائیاں‘ سارے وسائل‘ ساری صلاحیتیں لوگوں کو اپنے اندر جذب کرنے میں لگا دیں۔ معاشرے کے بااثر طبقات تک پہنچیں‘ انھیں اپنی صفوں کا حصہ بنا لیں۔ اپنے سینے کشادہ کر لیں اور چھوٹے چھوٹے دائروں سے باہر نکل آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ موقع اس صبح کو ہمارے بالکل قریب کر دے گا جس کی دُھن میں ہم نے اپنا سب کچھ لگا اور کھپا دیا ہے۔ آپ ایک قدم بڑھائیں‘ اللہ اور پوری قوم دس قدم آگے بڑھنے کو تیار ہے۔ آیئے‘ اس انمول لمحے کو گرفت میں لے کر آنے والے کل کو تابندہ سویروں میں بدل ڈالیں!