عراق پر امریکی افواج نے جس جارحانہ فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا ہے اس نے اس باب میں کوئی شبہہ باقی نہیں چھوڑا کہ امریکہ اب پورے عالمِ اسلامی کے خلاف برسرِجنگ ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور اس کی امریکی تائید ومعاونت‘ سرپرستی اور مالی اور سیاسی مدد تو ایک کھلی حقیقت تھی لیکن اب گذشتہ ۲۲ سال سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکہ دنیا پر صرف اپنی بالادستی قائم کرنے ہی کی جدوجہد میں مصروف نہیں بلکہ شرق اوسط پر اسرائیل کی بالادستی اور علاقے میںعظیم تراسرائیل کے قیام کی جنگ میں بھی کھلا کھلا شریک ہے۔ جس کا تازہ ترین ثبوت امریکی کانگریس کی ۱۰ ارب ڈالر کی وہ امداد ہے جو سالانہ ۳ ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ صرف عراق پر فوج کشی کے موقع پر اسرائیل کو دی گئی ہے۔ عراق پر امریکی قبضہ جنگ کا خاتمہ نہیں‘ جنگ کے ایک نئے اور دیرپا دَور کا آغاز ہے۔
اُمت مسلمہ کی حقیقی قیادتوں نے دنیا کے ہر حصے میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ مسلمان اس جنگ میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ انھیں خود اور دنیا کے دوسرے امن پسند انسانوں کے ساتھ مل کر جہاں اس نئی سامراجی یلغار کے خلاف سیاسی جدوجہد اور عوامی مزاحمت (resistance) میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے‘ وہیں امریکی ‘ برطانوی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے معاشی دبائو کا ہتھیار بھی استعمال کرنا چاہیے۔ عالم عرب کے تمام ہی اہم علما نے بائیکاٹ کا فتویٰ دیا ہے اور انڈونیشیا سے مراکش تک تمام اہم دینی جماعتوں نے بائیکاٹ کی کال دی ہے۔ پاکستان میں بھی متحدہ مجلس عمل نے اس سلسلے میں قوم کو رہنمائی دی ہے اور دوسرے امن پسند عناصر اس کی تائید کر رہے ہیں اور عملاً اس جدوجہد میں شریک ہیں۔ اس موقع پر ایک لابی بڑے معصوم انداز میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ کہہ رہی ہے کہ بائیکاٹ سے امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ خود پاکستان اور مسلم ممالک کے تاجر اس سے متاثر ہوں گے‘ نیز اسی طرح ہم امریکہ کے عتاب کا نشانہ بنیں گے‘ جس سے بچنا اولیٰ ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اب عملاً اسرائیل کی معیت میںمسلمانوں کی سرزمین پر قابض ہے اور مزید کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ اس موقع پر خاموشی اور مقابلے کی کارروائی سے اجتناب بے غیرتی ہی نہیں‘ سیاسی اور معاشی خودکشی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس چیلنج کا بروقت مقابلہ کیا جائے اور مزید مقابلے کی تیاری کی جائے۔ اس کے لیے کم سے کم چیزیں دو ہیں: ایک یہ کہ سیاسی اور سفارتی سطح پر امریکی‘ اسرائیلی جنگی حکمت عملی کی بھرپور مخالفت ہو‘ راے عامہ کو بیدار کیا جائے اور عالمی جمہوری مزاحمت میں شرکت اور اس کی تقویت کے لیے جدوجہد کی جائے۔ دوسری چیز معاشی میدان میں بائیکاٹ کے ذریعے صرف احتجاج ہی نہ کیا جائے بلکہ اسے اتنا موثر بنایا جائے کہ امریکی اسرائیلی معیشت اس کا دبائو محسوس کرسکے۔
دوسری بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ معاشی مقاطعہ ایک معروف احتجاجی حربہ ہے جسے دنیا کی ہر قوم نے استعمال کیا ہے اور یہ مظلوم اقوام کا حق ہے۔ مغربی اقوام نے تو اس کو ناروا انداز میں اور خود ظلم کے لیے استعمال کیا ہے۔ آخر معاشی پابندیاں (economic sanctions) کیا چیز ہیں؟ پاکستان کے خلاف یہ پابندیاں موقع بہ موقع ۱۹۶۵ء سے استعمال کی جا رہی ہیں اور خصوصیت سے ۱۹۷۶ء کے بعد تو کم ہی زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ہم پر کچھ نہ کچھ پابندیاں نہ ہوں۔ اور ابھی حال ہی میں کہوٹہ لیبارٹریز پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ آخر کس چیز کی غماز ہیں؟ خود عراق پر ۱۹۹۱ء سے پابندیاں ہیں جن کے نتیجے میں یونیسیف کے مطابق ۵ لاکھ سے زیادہ بچے ہلاک ہوئے ہیں اور عراق کی فی کس آمدنی ۸۰ فی صد کم ہوگئی ہے اور غربت نے آبادی کے ۶۰فی صد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مغربی اقوام کا تو حال یہ ہے کہ امریکہ نے فرانس اور جرمنی کی مصنوعات کے خلاف صرف اس جرم میں مہم چلا دی ہے کہ انھوں نے عراق کے خلاف جارحیت میں ساتھ نہیں دیا۔ امریکی کانگریس نے فرانس‘ جرمنی اور روس تک کو عراق کے نام نہاد تعمیرنو کے ٹھیکوں کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے اور حد یہ ہے کہ french fries کے نام تک سے french کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر امریکہ دوسروں کے ساتھ یہ معاملہ کر رہا ہے تو حیف ہے ہم پر کہ ہم اس کی کھلی کھلی جارحیت کے جواب میں اس کی مصنوعات تک کا بائیکاٹ کرنے میں تغافل کا شکار ہوں۔
مصنوعات کا بائیکاٹ احتجاج کا ایک معروف طریقہ ہے اور اس کے نتیجے میں‘ اگر یہ موثرانداز میں کیا جائے تو‘ مطلوبہ نتائج رونما ہوتے ہیں: جس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اس کی معیشت پر اثرات کی شکل میں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر ان مصنوعات کو تیار کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے حکومت کی پالیسی کو متاثر کرنے کے ذریعے۔ پھر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بائیکاٹ خود اپنی قوم کی تعلیم‘ شعور کی بیداری اور اسے عالمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لائق بنانے کا ذریعہ بنتا ہے‘ اور ملکی مصنوعات کے فروغ اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مقامی صنعت و تجارت کو موقع فراہم کرنا ہے جو بالآخر معاشی ترقی اور خودانحصاری پر منتج ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ بائیکاٹ موثر ہو اور وسیع پیمانے پر اسے کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گذشتہ چار ہفتوں میں صرف سعودی عرب میں بائیکاٹ کے نتیجے میں امریکی مصنوعات کی کھپت میں ۲۵ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی چند چیزوں کے استعمال کے بارے میں بڑی واضح شہادتیں سامنے آ رہی ہیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بائیکاٹ کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے اور پُرامن ذرائع سے صرف عوامی تائید ہی حاصل نہ کی جائے بلکہ کاروباری مراکز میں مظاہروں کے ذریعے عوام کو اسے کامیاب بنانے کی ترغیب دی جائے۔ متعین اہداف کے بارے میں لوگوں کی تعلیم اور راے عامہ کی بیداری کا اہتمام کیا جائے اور موثر عوامی مظاہروں کی شکل میں امریکی مصنوعات کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اپنے ملک کی مصنوعات کے استعمال کی ترغیب دی جائے۔ یہ وہ کم سے کم شرکت ہے جو امریکہ کی عالمِ اسلام کے خلاف جنگ کے مقابلے میں ہم کرسکتے ہیں۔