]غزوہ احد کے موقع پر مسلمان[ جس صدمے سے دوچار ہوئے اس کا کوئی اندیشہ انھیں غزوئہ بدر کی عجیب و غریب فتح کے بعد نہ تھا۔ جب مسلمانوں پر یہ مصیبتیں ٹوٹیں تو وہ چیخ اُٹھے: اَنّٰی ھٰذا ، ’’یہ کیونکر ہوا؟‘‘ آخر ہمارے مسلمان ہوتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ قرآن کریم ]سورہ آل عمران کی ان آیات میں[ مسلمانوں کو اللہ کی سنتوں کی طرف‘ جو اُس کی زمین میں جاری و ساری ہیں‘ متوجہ کرتا ہے۔ وہ اُن اصولوں کو واضح کرتا ہے جن کے مطابق معاملات انجام پاتے ہیں۔ آخر وہ زندگی سے الگ اور نئی کوئی شے تو نہیں ہیں‘ جو قوانین زندگی پر حاکم ہیں‘ وہ بلاتوقف جاری و ساری رہتے ہیں۔ امور ومعاملات اَلل ٹپ رونما نہیں ہوتے‘ وہ اِن قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کی اِس توضیح کے نتیجے میں مسلمانوں کو اِن قوانین کا علم ہوا‘وہ ان کے مقاصد سے واقف ہوگئے‘ واقعات و حوادث کے پیچھے اللہ کی حکمت اُن پر منکشف ہو گئی‘ واقعات کے پیچھے جو مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں‘ وہ اُن پر واضح ہو گئے‘ جس نظام کے تحت واقعات رونما ہوتے ہیں‘ اس کے ثبوت اور اس نظام کے پیچھے جو حکمت ِ خداوندی ہے‘ اس کے وجود پر انھیں اطمینان ہوگیا۔ اور اِس راہ کے ماضی میں جو کچھ ہوا تھا‘ اُس کی روشنی میں وہ اپنے سفرکے راستے کو بخوبی دیکھنے لگے۔ وہ یہ بات جان گئے کہ فتح و نصرت اور غلبہ و سربلندی حاصل کرنے کے لیے فتح و نصرت کے اسباب مہیا کیے بغیر--- جن میں اوّلین سبب اطاعت ِ خدا اور رسولؐ ہے--- صرف اپنے مسلمان ہونے پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔
اللہ کی سنتیں‘ جن کی طرف آیات اشارہ کرتی اور مسلمانوں کی نظروں کو ان کی طرف ملتفت کراتی ہیں‘ یہ ہیں: تاریخ کے دوران مکذبین کا انجام‘ اچھے اور بُرے دنوں کی لوگوں میں گردش‘ دلوں کی کیفیات کو کھوٹ سے پاک کرنے کے لیے ابتلا و آزمایش‘ مصائب و شدائد پر صبرواستقامت کی قوت کا امتحان اور ارباب صبرواستقامت کے لیے فتح و نصرت اور مکذبین کے لیے ہلاکت و مغلوبیت کا استحقاق۔
اِن سنتوں کو پیش کرنے کے دوران آیات مشکلات و مصائب کو برداشت کرنے پر اُبھارتی ہیں‘ شدائد و آلام میں مواساۃ و غم خواری کی تلقین کرتی ہیں اور اُن زخموں پر‘ جو صرف انھیں نہیں‘ اُن کے دشمنوں کو بھی پہنچے‘ اُن کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کرتی اور انھیں تسلی دیتی ہیں اور انھیں سمجھاتی ہیں کہ وہ اپنے عقیدے اور مقصد کے لحاظ سے اپنے دشمنوں سے بلند و برتر ہیں‘ راہِ عمل اور طریق زندگی کے پہلو سے اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں اور پھر کامیابی بالآخر اُن کے لیے ہے اور اہل کفر کے لیے مغلوبیت اور ذلّت و خواری ہے۔
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌلا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ o ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ o (آل عمران ۳:۱۳۷-۱۳۸)
تم سے پہلے سنت ِ (الٰہی) کی بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں توزمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ یہ لوگوں کے لیے بیانِ (حقیقت) ہے اور متقیوں کے لیے ہدایت و نصیحت۔
اللہ کے یہ قوانین و سنن زندگی پر حکمراں ہیں اور یہ قوانین اللہ کی مشیت ِ مطلقہ کے وضع کردہ ہیں۔ اس لیے جو کچھ کسی اور زمانے میں رونما ہوا‘ ویسا ہی اللہ کی مشیت کے تحت تمھارے زمانے میں بھی واقع ہوگا اور جو کچھ تمھارے جیسے حالات پر منطبق ہوا‘ وہ تمھارے حالات پر بھی منطبق ہوگا۔ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (۳: ۱۳۷) ’’تو زمین میں چل پھر کر دیکھو‘‘۔ زمین پوری کی پوری ایک وحدت ہے۔ زمین پوری کی پوری انسانی زندگی کی آماج گاہ ہے۔ اور زمین اور اُس میں موجود زندگی ایک کھلی کتاب ہے جس میں نگاہوں اور بصیرتوں کے لیے بہت کچھ سامانِ عبرت ہے۔ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (۳: ۱۳۷) ’’تو دیکھو کہ مکذبین کا انجام کیا ہوا؟‘‘
اِس انجام کی شہادت زمین میں اُن کے پھیلے ہوئے آثار دیتے ہیں--- یہاں قرآن اِس انجام کی طرف مجمل اشارہ کر رہا ہے تاکہ ایک مجمل فتح تک پہنچا جاسکے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ مکذبین پر کل گزرا‘ ایسے ہی انجام سے آج اور کل مکذبین دوچار ہوں گے۔ یہ اس لیے کہ اُمت مسلمہ کے دل انجام کی طرف سے مطمئن ہوں‘ نیز وہ پھسل کر مکذبین کی طرف جانے سے بچ سکیں--- اس سنت کے ذکر کے بعدنصیحت و عبرت کا بیان ہے:
ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ o (۳: ۱۳۸)
یہ بیانِ (حقیقت) ہے لوگوں کے لیے اور ہدایت اور نصیحت ہے متقین کے لیے۔
یہ سب انسانوں کے لیے بیان ہے--- اس کے ذریعے ]لیکن ایک ہی گروہ[ ہدایت سے سرفراز ہوگا اور وہ ’’متقین‘‘ کا گروہ ہے۔
صرف ایمان رکھنے والا دل‘ جو ہدایت کے لیے کھلا ہوتا ہے‘ ہدایت دینے والی بات کو قبول کرتا ہے اور نصیحت و موعظت سے خدا ترس دل ہی کو‘ جو اُس کو سُن کر ہل جاتا ہے‘ نفع ہوتا ہے… مجرد علم اور معرفت کچھ نہیں! کتنے ہی لوگ ہیں جو حق کا علم رکھتے اور اس کی معرفت کے حامل ہیں لیکن وہ باطل کے کیچڑ میں لوٹتے رہتے ہیں‘ اپنی خواہشات کی بندگی کی وجہ سے ‘ جس کے ساتھ علم بے سود ہوتا ہے‘ یا ان مصائب و شدائد کے خوف سے جو حق کے علم برداروں اور اربابِ دعوت کا انتظار کرتی ہوتی ہیں۔
اس بیان کے بعد قرآن مسلمانوں کی طرف رخ کرتا ہے اور انھیں تسلی دیتا اور اُن کے لیے ثابت قدمی اور تقویت کا سامان بہم پہنچاتا ہے:
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَخْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (۳:۱۳۹)
اور تم پست ہمت نہ ہو اور نہ غم کرو --- اور تم ہی غالب و سربلند ہو--- اگر تم مومن ہو!
وَلَا تَھِنُوْا --- ’’وھن‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں‘ ضعف--- ’’کمزور نہ پڑو‘‘۔ وَلَا تَخْزَنُوْا ’’غم نہ کرو‘‘ یعنی اُن مصیبتوں کے باعث‘ جو تمھیں پہنچیں اور اُن چیزوں کے باعث جو تم نے کھو دیں‘ کمزور نہ پڑو اور غم نہ کرو۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ’’اور تم ہی غالب و سربلند ہو‘‘۔ غالب و سربلند اس لیے کہ تمھارا عقیدہ بلند و برتر ہے‘ تم صرف ایک خدا کو سجدہ کرتے ہو‘ جب کہ تمھارے مخالفین اُس کی کچھ مخلوقات کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تم اس لیے بھی بلندوبرتر ہوکہ تمھارا طریق زندگی بلند و برتر ہے‘ تم اللہ کے وضع کردہ نظامِ زندگی کے مطابق زندگی کا سفر طے کرتے ہو‘ اور وہ اُس نظامِ زندگی کو اختیار کرتے ہیں جو اُس کی مخلوق کا وضع کردہ ہے۔ دنیا میں تمھارا رول بھی سب سے اعلیٰ ہے‘ تم ساری انسانیت کی نگرانی و سرپرستی کے لیے اللہ کے منتخب کردہ اور ساری انسانیت کے لیے ہادی و رہنما ہو‘ جب کہ تمھارے اعدا حق سے بہت دُور‘ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ تم اِس لیے بھی بلندوبرتر ہو کہ زمین کی وراثت--- جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا ہے--- تمھارے لیے ہے‘ اِس کے برعکس تمھارے اعدا کے لیے فنا اورنسیان مقدر ہے (وہ فنا ہو جائیں گے اور بھلا دیے جائیں گے)۔ اِس لیے اگر تم سچ مچ مومن ہو تو تم ہی غالب و بلند ہو اور اگر تم سچ مچ مومن ہو تو نہ کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ تم بھی مصائب و آلام میں مبتلا ہو اور تمھارے ہاتھوں تمھارے اعدا بھی‘ اور جہاد‘ ابتلا اور کھرے اور کھوٹے کے درمیان امتیاز کے بعد انجامِ کار کامیابی تمھارے ہی لیے ہے۔
اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۰-۱۴۱)
اگر تمھیں کوئی چوٹ لگتی ہے تو (دیکھو) اِس طرح کی چوٹ تو اُن لوگوں کو بھی لگ چکی ہے اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں‘ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان اَدلتے بدلتے رہتے ہیں۔ اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں‘ جو (واقعی) ایمان لائے ہیں اور اُسے تم میں سے (حق کے) گواہ بنانے تھے‘--- اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا--- اور جو لوگ ایمان لائے ہیں‘ اللہ کو انھیں نکھار کر پختہ کرنا اور اہلِ کفر کا زور توڑنا تھا۔
’’اگر تمھیں کوئی چوٹ لگتی ہے تو (دیکھو) اِس طرح کی چوٹ تو اُن لوگوں کو بھی لگ چکی ہے‘‘ اس میں اشارہ غزوئہ بدر کی طرف بھی ہو سکتا ہے جس میں اہلِ کفر پٹ گئے تھے اور مسلمان صحیح و سالم رہے تھے اور غزوئہ احد کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ اِس غزوہ کے آغاز میں مسلمانوں کو فتح اور مشرکین کو شکست ہوئی تھی… یہ درحقیقت اُن کے باہمی اختلاف اور حکمِ رسولؐ کی خلاف ورزی کی پوری پوری سزا تھی۔ اور یہ سب کچھ اللہ کی سنت کے مطابق ہوا‘ جس میں کبھی تخلف ]وعدہ خلافی[ نہیں ہوتا۔ تیراندازوںکی‘ حکمِ رسولؐ کی خلاف ورزی اور اُن کا باہمی اختلاف مالِ غنیمت کی طمع کا نتیجہ تھا‘ جب کہ اللہ نے جہاد کے معرکوں میں فتح و نصرت اُن لوگوں کے لیے مقدر کی ہے جو اُس کی راہ میں جہاد کریں اور اس حقیردنیا کے سازوسامان کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھیں۔
وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (۳:۱۴۹)
اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں‘ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں‘ اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں‘ جو (واقعی) ایمان لائے ہیں۔
یہ بھی اللہ کی سنت ہے کہ اچھے اور بُرے دن لوگوں کے درمیان گردش کرتے ہیں۔ لوگوں کی نیتوں اور ان کے اعمال کے لحاظ سے اس سنت پر عمل ہوتا ہے۔ حالات میں فراخی ونرمی کے بعد شدت اور شدت کے بعد فراخی و نرمی‘ اِنھی سے لوگوں کے جوہر اور دلوں کی طبیعتوں کا علم ہوتا ہے اور انھی سے اِس بات کا انکشاف ہوتاہے کہ دلوں میں کس درجہ کھوٹ یا صفائی ہے‘ بے صبری یا صبر ہے‘ اللہ پر بھروسا یا مایوسی ہے اور خود کو اللہ کی قضا وقدر کے حوالے کر دینے کا جذبہ ہے یا سرکشی و نافرمانی کا۔ اُسی وقت مسلمانوں کی صف میں لوگوں کے مابین امتیاز پیدا ہوتا اور مومنین اور منافقین کا انکشاف ہوتا ہے۔ اُسی وقت اِن دونوں گروہوں کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے ‘ دلوں کے اندرونی جذبات لوگوں کی دنیا کے سامنے منکشف ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی صف سے خرابی اور اُس ڈھیلے پن کا ازالہ ہوتا ہے ‘ جس سے اُس کے اعضا و افراد میں تنظیم کی کمی رونما ہوتی ہے‘ جب کہ منافق اور مومن باہم خلط ملط ہوں اور الگ الگ پہچانے نہ جاتے ہوں…
گردشِ ایام اور حالات کی شدت و فراخی کا یکے بعد دیگرے آنا ایک ایسی کسوٹی ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی اور ایک ایسی میزان ہے جو کبھی زیادتی نہیں کرتی اور اس معاملے میں حالات کی فراخی حالات کی شدت کی طرح ہے۔ کیونکہ کتنے ہی نفوس ہیں جو شدید حالات میں صابر و ثابت قدم رہتے اور اپنے آپ کو تھامتے رہتے ہیں لیکن خوش گوار اور نرم حالات میں وہ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ مومن وہ ہے جو مصیبت میں صبر کا رویہ اختیار کرتا ہے اور خوش حالی و فراخی سے وہ سبک سراور غافل نہیں ہوتا۔ دونوں حالتوں میں وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ خیراور شر‘ جس سے بھی اُسے سابقہ پیش آتا ہے‘ سب اللہ ہی کے اِذن سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اِس اُمت کی تربیت فرما رہا تھا اور ابھی یہ اُمت انسانیت کی قیادت کے لیے تیاری کے اوّلین مرحلے ہی میں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فراخی و نرمی سے آزمانے کے بعد شدید حالات سے اُس کی آزمایش کی اور عجیب و غریب فتح و نصرت کے بعد تلخ شکست کی آزمایش میں ڈالا۔ اگرچہ یہ سب اپنے اسباب کے تحت اور فتح و شکست کے سلسلے میں اللہ کی سنت ِ جاریہ کے مطابق ہوا لیکن یہ اس لیے ہوا کہ یہ اُمت فتح و شکست کے اسباب سے آگاہ ہوجائے۔ اللہ کی اطاعت ‘ اس پر توکل اور اس کے سہارے کو مضبوطی سے پکڑنے میں آگے بڑھے اور اِس نظام کی طبیعت اور اس کی ذمہ داریوں اور گراں باریوں کو پورے یقین کے ساتھ جان لے۔
سلسلۂ کلام اُمت مسلمہ کے لیے اِس معرکے کے واقعات کے سلسلے میں اللہ کی حکمت کے پہلوؤں اور گردشِ ایام اوراُس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں کھوٹے اور کھرے کے درمیان فرق و امتیاز اور سچّے اہل ایمان کی معرفت جیسے امور کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے:
وَیَتَّخِذَ مِنْکُم شُھَدَآئَ ط (۳:۱۴۰)
اور تاکہ اللہ تم میں سے (حق کے) گواہ بنائے!
یہ ایک عجیب اندازِ بیان ہے ‘ جس کا مفہوم بہت عمیق ہے۔ شہدا‘ اللہ کے برگزیدہ ہیں‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین کے درمیان میں سے انھیں منتخب فرماتا ہے اور اپنے لیے خاص کر لیتا ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں‘ان کی شہادت سرے سے کوئی مصیبت اورکوئی خسارے کا سودا نہیں‘ یہ تو اللہ کا انتخاب و اختصاص اور اعزاز و اکرام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے مختص کیا اور انھیں شہادت سے سرفراز فرمایا‘ یہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انھیں خالصتاً اپنا بنا لے اور اپنے قرب کے لیے انھیں مخصوص فرما لے…
جو شخص زبان سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت دیتا ہے‘ اُس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے شہادت دے دی‘ اِلا یہ کہ وہ اُس کے مفہوم اور اس کے تقاضوں کا حق ادا کرے۔ اُس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو ’’الٰہ‘‘ نہ بنائے اور اِس لیے اللہ کے سوا کسی سے شریعت حاصل نہ کرے۔ کیونکہ اُلوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت بندوں کے لیے تشریع و قانون سازی ہے‘ اور عبودیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تمام ہدایات اللہ ہی سے حاصل کی جائیں۔ اِسی طرح اِس کلمے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ سے ہدایات محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ہی سے اخذ کی جائیں کیونکہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں‘ اور اللہ سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے اس واسطے کے علاوہ کسی اور واسطے اور ذریعے پر اعتماد نہ کیا جائے۔
اس شہادت کا تقاضا ہے کہ مومن اِس بات کی جدوجہد کرے کہ زمین میں اُلوہیت صرف اللہ کے لیے ہو‘ جیساکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُسے پہنچایا اور جس نظام کو اللہ نے انسانوں کے لیے پسند کیا اور چاہا اور جسے اللہ کی جانب سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا‘ وہی دنیا میں غالب اور چھایا ہوا نظام ہو‘ اور لوگ اُسی کی اطاعت کرتے ہوں۔اور بلااستثنا یہی نظام انسانوں کی پوری زندگی میں متصرف ہو۔
جب اس شہادت کا تقاضا یہ ہو کہ مومن اُس کی راہ میں جان دے دے اور وہ جان دے دے تو وہ ’’شہید‘‘ ہے‘ یعنی ایسا گواہ‘ جس سے اللہ نے شہادت طلب کی تو اس نے یہ شہادت ادا کر دی‘ اللہ نے اُسے ’’شہید‘‘ بنایا اور اسے یہ مقامِ بلند عطا فرمایا! یہی لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت کا مفہوم و مقتضا ہے‘ نہ یہ کہ رخصتوں‘ ناکارہ پن اور بے عملی کا راستہ اختیار کیا جائے (اور صرف زبان سے کلمے کی شہادت ادا کی جائے)۔
وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o (۳: ۱۴۰)
اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
… یہ اُسی انجام کا تاکیدی بیان ہے جو ظالم مکذبین کا‘ جو اللہ کے مبغوض ہیں‘ انتظار کررہا ہے۔…
سلسلۂ کلام آگے بڑھتا ہے اور وہ واقعات کے پیچھے چھپی ہوئی اللہ کی حکمت پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ حکمت کیا ہے؟ اُمت مسلمہ کی تربیت۔ کھوٹ سے پاک کر کے اُسے کھرا اور مضبوط بنانا‘ بلند ترین رول کے لیے‘ جو اُس کا ہے اسے تیار کرنا‘ نیز یہ امر کہ اُمت کفار کا زور توڑنے اور انھیں مغلوب کرنے کے لیے خدا کی قضا و قدر کا آلہ بنے اور مکذبین کی ہلاکت کے لیے اُس کی قدرت کا پردہ بنے۔
وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۱)
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں‘ اللہ کو انھیں نکھار کر پختہ کرنا اور اہل کفر کا زور توڑ دینا تھا۔
’’تمحیص‘‘ (نکھارکر پختہ کرنا) کا درجہ کھوٹ کو دُور کرنے اور کھرے اور کھوٹے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے بعد کا ہے۔ یہ ایک عمل ہے‘ جو دل اور ضمیر کی گہرائیوں میں تکمیل پاتا ہے۔ یہ شخصیت کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرنے اور ان پر روشنی ڈالنے کا عمل ہے تاکہ وہ ہر طرح کی ملاوٹ اور کھوٹ اور عیب سے پاک صاف ہو کر حق پر قائم ہو سکے۔
انسان بسااوقات اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ وہ اپنے پوشیدہ گوشوں‘ اپنے شگافوں اور اپنی کجیوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ وہ بسااوقات اپنی کمزوری اور قوت کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا اور اس کی شخصیت کے اندرون میں جو چیزیں تہ نشین اور مخفی ہیں‘ اُن کا اُسے علم نہیں ہوتا۔ یہ سب چیزیں کسی اُبھارنے والے واقعے ہی سے اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔
شدید اور نرم حالات کی اُلٹ پھیر اور گردشِ ایام کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمحیص (نکھارنے) کا جو عمل اختیار فرماتا ہے‘ اس کے نتیجے میں اہل ایمان اپنی ذات کے مخفی پہلوئوں کو اچھی طرح جان لیتے ہیں جنھیں وہ اِس تلخ کسوٹی--- حوادث‘ تجربات اور عملی مواقف کی کسوٹی پر پرکھے جانے سے قبل جانتے نہیں ہوتے۔
انسان اپنے بارے میں خیال کرتا ہے کہ وہ قوت وشجاعت کا پیکر ہے اور حرص و بخل سے بالکلیہ پاک ہے۔ لیکن عملی تجربے اور عملی واقعات و حوادث سے دوبدو ہونے کی روشنی میں اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے نفس میں ابھی ایسے نقائص موجود ہیں‘ جن کا ازالہ نہیں ہوا اور وہ اِس سطح کی شدتِ حالات کو برداشت کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے‘ اور بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کی اِن سب کمزوریوں کو جان لے تاکہ ازسرنو وہ اُسے تیار کرنے اور ڈھالنے کی جدوجہد کرے۔ اِس حد تک کہ وہ اس سطح کی شدتِ حالات کو انگیزکرسکے‘ جو اِس دعوت کی فطرت کا مقتضا ہے اور ان ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کر سکے جن کا تقاضا یہ عقیدہ کرتاہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسانیت کی قیادت کے لیے اِس اُمت کی تربیت کر رہا تھا اور اُس سے زمین میں ایک خاص کام لینا چاہتا تھا‘ اسی لیے اللہ نے غزوئہ احد کے واقعات و حوادث کے ذریعے اُسے اس حد تک نکھارا اور پختہ کیا تاکہ وہ اُس رول کی--- جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کیا ہے--- سطح تک بلند ہوسکے اور اس کے ہاتھوں اللہ کا منصوبہ--- جو اُس نے اِس اُمت سے وابستہ کیا ہے--- انجام پذیر ہوسکے۔
وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (۳:۱۴۱)
اور اُسے اہل کفر کا زور توڑنا تھا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ حق کے ذریعے باطل کا زور توڑ دیتا اور اُسے ختم کر دیتا ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے‘ جب کہ حق کھل کر سامنے آجائے اور اللہ تعالیٰ کے عملِ تمحیص کے نتیجے میں وہ ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہو جائے۔
اب ایک استفہامِ انکاری کے ذریعے اللہ تعالیٰ دعوتِ حق ‘ فتح و شکست اور عمل اور جزا کے بارے میں سنت اللہ کو بیان فرماتا اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے تصورات کی تصحیح کرتا ہے۔ وہ واضح فرماتا ہے کہ جنت کاراستہ مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے اور راہِ حق کے مصائب وشدائد پر صبر اختیار کرنا اِس راہ کا توشہ ہے‘ نہ کہ آرزوئیں اور تمنائیں جو مصائب و شدائد اور تمحیص کے عمل کے موقع پر ٹھہر نہ سکیں:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہٗص فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ o (۳:۱۴۲-۱۴۳)
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ تم جنت میں یوں ہی پہنچ جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا‘ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا--- اور اُسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘ اور تم موت کی --- قبل اِس کے کہ اُس سے دوچار ہو--- تمنا کر رہے تھے تو اب تو تم نے اُسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
استفہام انکاری کے صیغے سے مقصود فکرونظر کی غلطی پر شدت کے ساتھ تنبیہ کرنا ہے۔ فکرونظر کی یہ غلطی کہ انسان زبان سے ’’اسلام لایا‘‘ کے الفاظ دُہرا دے اور سمجھے کہ اب میں موت کے لیے تیار ہوں اور محض اِن الفاظ کی ادایگی سے وہ ایمان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور جنت اور اللہ کی رضا تک پہنچنے کا اہل ہو جائے گا۔ نہیں‘ عملی تجربے اور عملی جہاد کی ضرورت ہے۔ جہاد کرنے اور مصائب سے دوچار ہونے اور پھر جہاد کی تکالیف اور مصائب و آلام سے دوچار ہونے پر صبر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآنِ مجید کے یہ الفاظ بہت معنی خیز ہیں: وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ (۳:۱۴۲) ’’حالانکہ ابھی اللہ نے اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں تھا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا‘‘ اور وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ (۳:۱۴۲) ’’اور اُسے دیکھنا تھا کہ کون لوگ (ہر حال میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘ ، یعنی اتنی بات کافی نہیں ہے کہ اہل ایمان جہاد کریں‘ دعوتِ حق کی تکالیف پر صبر بھی ضروری ہے۔مسلسل‘ مستمر اور متنوع تکالیف پر --- جو میدان کے جہاد تک محدود نہیں ہیں۔ صبر! بسااوقات دعوتِ حق کی تکالیف سے--- جن میں صبر مطلوب ہے اور جن سے ایمان کا امتحان ہوتا ہے--- میدان کا جہاد نسبتاً ہلکی تکلیف کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تو روزانہ مشقتوں کو جھیلنے کا سلسلہ ہے‘ جو ختم نہیں ہوتا۔ پھر ایمان کے اُفق پر استقامت کی مشقت ہے۔ فکروعمل اور زندگی کے رویے میں ایمان کے مقتضیات پر قائم رہنا ہے‘ اور اِسی دوران اپنی ذات اور دوسرے لوگوں کے سلسلے میں--- جن سے مومن کو روزانہ کی زندگی میں سابقہ پیش آتا ہے--- انسانی کمزوری پر صبر۔ اُن اوقات میں صبر‘ جب کہ وہ غالب و سربلند ہوجاتا ہے اور ایک فاتح کی طرح اپنا زور دکھاتا ہے۔ راہِ حق کی درازی و دشواری اور موانع کی کثرت پر صبر۔ جدوجہد‘ کرب و بلا اور جنگ کی زحمتوں کے مقابلے میں راحت و آرام کی طرف رغبت اور اُس کے لیے نفس کے اشتیاق کے مقابلے میں صبر۔ اِسی طرح اور بہت سے امورکے مقابلے میں--- جن میں میدان کا جہاد صرف ایک امر ہے--- صبر‘ اور یہ صبر اُس راستے پر چلنے کے دوران ہے‘ جو مصائب و شدائد سے ڈھکا ہوا ہے‘ یعنی جنت کا راستہ۔ وہ جنت جو آرزووں اور لفظی جمع خرچ سے حاصل نہیں ہوتی! (جہاد اور صبر سے حاصل ہوتی ہے)۔
وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہٗص فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ o (۳:۱۴۳)
اور تم موت کی --- قبل اس کے کہ اُس سے دوچار ہو--- تمنا کر رہے تھے‘ تو اب تو تم نے اُسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
اِس طرح قرآن انھیں ایک بار پھر موت کے--- جس سے اُن کا سامنا میدانِ جنگ میں ہوا تھا--- آمنے سامنے لاکر کھڑا کر دیتا ہے۔ اِس سے قبل وہ موت کی تمنا کر رہے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ کلمے کے وزن کے--- جسے زبان ادا کرتی ہے اور عملی حقیقت کے وزن کے--- جو آنکھوں سے نظر آتی ہے--- مابین موازنہ کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ جو بات بھی‘ اُن کی زبان سے نکلے‘ اُس کا خیال رکھیں‘ پھر اُس کے عملی اثرات کا ‘ جو ان کے نفوس پر پڑیں‘ عملی حقیقت کی روشنی میں--- جس سے وہ عملاً دوچار ہوں--- وزن کریں۔ یہ موازنہ انھیں بتائے گا کہ منہ سے نکل کر اُڑ جانے والے الفاظ اور اُونچی اُونچی آرزوئیں انھیں جنت تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔ جنت تو حاصل ہوگی کلمے کو قائم کرنے‘ آرزووں کو عمل کے پیکر میں ڈھالنے‘ حقیقتاً جہاد کرنے اور مصائب و آلام پر صبر کرنے سے اور یہ اِس حد تک کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی دنیا میں عملاً اِن سب امور کو واقع ہوتا دیکھ لے۔
یقینا اللہ سبحانہ وتعالیٰ اِس بات پر قادر تھا کہ اپنے نبی‘ اپنی دعوت‘ اپنے دین اور اپنے نظامِ زندگی کو پہلے ہی لمحے فتح و نصرت سے نواز دیتا‘ بغیر اس کے کہ اہل ایمان کوئی جدوجہد کرتے اور مشقت برداشت کرتے۔ وہ اِس بات پر بھی قادر تھا کہ فرشتے نازل فرما دیتا‘ جو اہل ایمان کے ساتھ مل کر یا اُن کے بغیر جنگ کرتے اور مشرکین کو اسی طرح ہلاک کر دیتے جس طرح کہ انھوں نے قومِ عاد‘ قومِ ثمود اور قومِ لوط کو ہلاک کر دیا تھا۔
مسئلہ فتح و نصرت کا نہیں‘ اُمت ِ مسلمہ کی تربیت کا تھا‘ جو اِس لیے تیار کی جا رہی تھی کہ اسے انسانیت کی قیادت سونپی جائے۔ انسانیت کی ‘ اُس کی تمام کمزوریوں اور نقائص کے ساتھ‘ اس کی تمام خواہشات و جذبات کے ساتھ اور اس کی تمام جاہلیتوں اور کج رویوں کے ساتھ‘ قیادت! اور قیادت بھی‘ حق و رُشد کی قیادت! یہ قیادتِ راشدہ اِس بات کی متقاضی تھی کہ قائدین اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں۔ اِس قیادت کا اوّلین تقاضا ہے کردار کی مضبوطی و صلابت‘ حق پر ثبات و استقامت‘ مصائب و مشکلات پر صبر‘ ] نیز[ انسانی نفوس میں ضعف اور قوت کے مواقع کی معرفت اور لغزشوں کے مواقع اور کج روی و انحراف کے محرکات اور اُن کے علاج کے ذرائع و وسائل سے آگاہی۔ پھر شدید حالات پر صبر کی طرح حالات کی فراخی و سہولت پر بھی صبر۔ اسی طرح حالات کی سہولت و فراخی کے بعد شدید حالات پر صبر‘ جب کہ اُن کا مزا حد درجہ تلخ ہو۔
یہ ہے اللہ تعالیٰ کی‘ اِس اُمت کے لیے تربیت۔ اللہ تعالیٰ اِس تربیت کے ساتھ اِس اُمت کا‘ جب کہ وہ اُسے قیادت کی کنجیاں سونپنے کا اِذن دیتا ہے‘ ہاتھ پکڑ کر اُسے آگے بڑھاتا ہے‘ تاکہ اِس تربیت کے ذریعے اُس عظیم اور پُرمشقت رول کی ادایگی کے لیے‘ جو زمین میں اِس اُمت سے متعلق کیا گیا ہے‘ اِس اُمت کو تیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ رول اُس ’’انسان‘‘ کے حصے میں آئے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے اِس وسیع و عریض دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔
انسانیت کی قیادت کے لیے اُمت مسلمہ کی تیاری کا خدائی منصوبہ مختلف اسباب و وسائل اور مختلف حالات و واقعات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کبھی یہ منصوبہ اِس طرح بروے کار آتا ہے کہ اُمت مسلمہ کو قطعی اور فیصلہ کُن فتح ہوتی ہے‘ اِس سے وہ خوش خبری پاتی ہے‘ اور اللہ کی مدد کے زیرسایہ اُس کا‘ اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے‘ فتح و نصرت کی لذت کا اُسے تجربہ ہوتا ہے‘ فتح کے نشے کے مقابلے میں وہ صبر کا رویہ اختیار کرتی ہے اور اتراہٹ ‘ خود پسندی اور فخروغرور پر قابو پانے کی‘ اپنی صلاحیت و قوت کا‘ اُسے تجربہ ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اسے اِس بات کا بھی تجربہ ہوتا ہے کہ وہ کس درجہ اِس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتی اور تواضع کے ساتھ اُس کے آگے جھکتی ہے۔ اور کبھی خداے تعالیٰ کا یہ منصوبہ اُمت کی شکست اور مصائب و آلام میں اس کے مبتلا ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس صورت میں وہ اللہ کا دامن پکڑتی اور اس کی پناہ میں آتی ہے۔ اُسے اپنی ذاتی قوت کی حقیقت اور اپنی کمزوری و ناتوانی کا--- جب خدائی نظامِ زندگی سے ادنیٰ انحراف کرتی ہے--- بخوبی علم ہو جاتا ہے اور اسے شکست کی تلخی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ باطل کے مقابلے میں سربلند رہتی ہے‘ کیونکہ اس کے پاس خالص حق ہے اور اُسے اپنے نقائص اور اپنی کمزوریوں اور ان کے مواقع اور اپنی خواہشات کی دراندازی اور اپنے قدموں کی لغزشوں کے مواقع کا علم ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اِس بات کی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ اِن سب کمزوریوں اور لغزشوں سے خود کو پاک کرکے اگلے حملے میں شریک ہواور فتح و نصرت اور شکست و ہزیمت‘ دونوں سے اپنے لیے زادِ راہ اور سازوسامان حاصل کر کے لوٹے--- اس طرح اللہ کا منصوبہ‘ اُس کی اٹل سنت کے مطابق ‘ جس میں کبھی تخلّف نہیں ہوتا‘ پورا ہوتا ہے۔
’’کتنی عجیب و غریب ہے قرآنِ مجید کی بیان کردہ یہ حقیقت! غزوئہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر اُس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ کفر کا زور ختم کر دے گا۔ کیسے؟ اہلِ ایمان کو اپنی کمزوریوں کا علم ہوگا اور وہ اللہ کی توفیق اور رسول کی تربیت کے نتیجے میں پاک صاف اور پختہ تر ہوکرازسرِنو حق کے غلبے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ہاتھوں اہل کفر کا زور توڑ دے گا--- غزوئہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مسلسل پورا ہوا‘ یہاں تک کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں مشرکین کا زور بالکل ٹوٹ گیا‘ پورا عرب اسلام کے زیرنگیں ہوگیا اور اس کے بعد ۲۰‘ ۲۵ سال کے عرصے میں قیصروکسریٰ کی عظیم طاقتیں سرنگوں ہو گئیں اور گردوپیش کے بہت سے ممالک پر انھی اہل ایمان کے ہاتھوں اسلام کا پرچم لہرانے لگا‘‘ (مترجم)۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سیدحامد علی‘ ج ۲‘ ص ۳۳۱-۳۴۴۔ تدوین: امجد عباسی)