سوال: کیا عورت جج (قاضی) بن سکتی ہے جس کے لیے آج کل judiciary کا امتحان دیا جاتا ہے؟ میں نے قاضی کی شرائط میں پڑھا تھا کہ مرد ہونا بھی لازمی ہے۔ اگر یہ جج صرف فیملی کیسز سے متعلق ہو تو اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہوگی؟
جواب: اسلام کے حوالے سے عصری مباحث میں زیربحث مسئلے پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے اور خصوصاً غیرمسلم اپنی تنقید میں اس طرف ضرور اشارہ کرتے ہیں۔ مسلمان دانش ور بعض اوقات اپنے خیال میں اسلام کا دفاع کرنے کے لیے اور نام نہاد انسانی حقوق کے علم برداروں کے مسلسل حملوں کو پسپا کرنے کے لیے محض عقلی بنیاد پر ایک موقف اختیار کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف عقل بلکہ قرآن و سنت کا مدعا و مزاج اور ہدایات کے پیشِ نظرایک رائے قائم کی جائے‘ چاہے وہ حقوقِ انسانی کے نام نہاد علم برداروں کو پسند آئے یا سخت ناپسند ہو۔
اگر معروف فقہی مذاہب پر نظر ڈالی جائے تو صاحب ہدایہ نے قاضی یا جج کے لیے جو شرائط مقرر کی ہیں اور جو فقہ حنفی کی عمومی رائے کہی جا سکتی ہے ‘ اس میں سات شرائط پائی جاتی ہیں: ۱- مسلمان ہونا‘ ۲- مکلف ہونا‘ ۳- آزاد ہونا‘ ۴- صاحب ِ عقل و بینا ہونا‘ ۵- کبھی حدِ قذف نہ لگی ہو‘ ۶- سماعت درست ہو‘ ۷- گونگا نہ ہو۔ ان صفات میں اس کا مرد ہونا اور مجتہد ہونا شامل نہیں ہے (البحرالرائق‘ ج ۶‘ ص ۲۵۷-۲۵۸)۔ اس کے مقابلے میں فقہ مالکی میں مرد ہونا بھی شرائط میں شامل کیا گیا ہے (الشرح الصغیر‘ ج ۴‘ ص ۱۸۷-۱۸۸)۔ فقہ حنبلی میں مرد ہونا ضروری سمجھا گیا ہے لیکن امام ابن جریر طبری سے منقول ہے کہ مرد ہونا شرط نہیں۔ فقہ شافعی بھی مرد ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے (المنہاج‘ ج۴‘ ص ۳۷۵-۳۷۷)۔ البتہ فقہ حنفی میں حدود اور قصاص کے مقدمات کی سماعت ایک خاتون جج نہیں کرسکتی۔ (ہدایہ‘ ج۳‘ ص ۱۲۵)
جومذاہب عورت کو قاضی تصور کرنے کے حق میں نہیں ہیں ان کی بنیاد ایرانیوں کے ایک عورت کو فرمانروا بنانے اور اس پر حضور نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر ہے کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کر دے‘ یا اس پہلو پر ہے کہ وہ مردوں کی محفل میں دقت میں پڑے گی اور مشکلات کا شکار ہوگی۔ چونکہ ہمارے ہاں اکثریت کا مسلک حنفی ہے اس لیے قصاص و دیت کو چھوڑتے ہوئے بقیہ معاملات ایک خاتون جج کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: سعودی عرب کے فتاویٰ شائع شدہ فتاویٰ براے خواتین (جمع و ترتیب محمد بن عبدالعزیز‘ دارالاسلام مطبوعات) میں پڑھا کہ عورت کے لیے گاڑی چلانا ناجائز ہے۔ جس کی وجہ انھوں نے ان امکانات سے بھی بچنا قرار دیا جن سے حدود کو نقصان پہنچ سکتا ہو‘ یعنی خلوت اور گھر کی چار دیواری کے تصور کو مجروح کرنا۔ موجودہ حالات اور ضروریات کے پیشِ نظر اس کی کیا حیثیت ہوگی‘ جب کہ پردہ (شرعی) کیا جائے؟
ج : آپ نے سعودی حکومت کے زیرانتظام دارالافتاء کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ خواتین کے تحفظ و احترام کے پیش نظر ان کی رائے میں گاڑی چلانا ناجائز ہے۔ بلاشبہہ دین کی تعلیمات اہل ایمان کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے ہیں اور بہت سے معاملات میں مصلحتِ عامہ کے پیش نظر ایک ایسا کام بھی جائز ہو جاتا ہے جو عام حالات میں جائز نہ ہو‘ یا اسی طرح بعض جائز امور ممنوع قرار پاتے ہیں لیکن حلّت و حرمت کی بنیاد حکمت پر نہیں‘ علت پر ہوتی ہے اور نصوص ہی کی بنیاد پر ایک فعل کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے۔
خواتین کے گاڑی چلانے کو اگر گھڑسواری یا اُونٹ کی سواری پر قیاس کیا جائے تو ہمیں آثار میں یہ تلاش کرنا پڑے گا کہ کیا قرآن وسنت نے کسی مقام پر ایک مسلمان عورت کو تنہا گھوڑے یا اُونٹ پر سواری کرنے سے منع کیا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا گاڑی چلانے میں ایک خاتون ڈرائیور کی جان‘ عزت‘ ملکیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے یا گاڑی چلانا اس کے لیے بہت سے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کاروبار کی بنا پر گھر سے دُور رہتا ہو‘ اور اس کے گھر میں سوائے بیوی اور بچوں کے‘ جو کم عمر ہوں کوئی اور نہ ہو اور بچوں میں سے کسی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو یا انھیںاسکول سے لانا ہو تو کیا کار چلانا مقاصدِ شریعت کے منافی ہوگا؟
شریعت کا ایک معروف قاعدہ یہ ہے کہ اصلاً اشیا مباح ہیں جب تک‘ اس کی ممانعت نہ ہو۔ اس بنا پر گاڑی چلانا یااس میں سفر کرنا ناجائز کی تعریف میں نہیں آسکتا۔ اگر قیاس کو تھوڑا اور آگے بڑھایا جائے ‘ فرض کیجیے ہمارے علم میں یہ بات آئے کہ پشاور سے لاہور جاتے وقت ایک مرد کی گاڑی خراب ہو گئی اور اسے رات سخت سردی کے عالم میں ٹھٹھرکر گزارنی پڑی جس کی وجہ سے اسے نمونیہ ہوگیا اور وہ انتقال کر گیا۔ اب یہ کہا جائے کہ اس بنیاد پر آیندہ کسی مرد کو پشاور سے لاہور گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے تو یہ ایک انتہائی مبالغہ آمیز فیصلہ ہوگا۔ آج‘ جب کہ کار میں دو طرفہ بات کرنے کے لیے ایسا سسٹم لگوایا جا سکتا ہے جس میں گاڑی چلاتے ہوئے ایک فرد اپنے گھر یا جس سے چاہے رابطہ رکھ سکتا ہے‘ جب سڑکوں پر ہر تھوڑے فاصلے کے بعد ہنگامی امدادی مراکز پائے جاتے ہیں اور جب عموماً ایک خاتون جنگل بیاباں میں نہیں‘ شہر میں تفریحاً نہیں ضرورتاً گاڑی استعمال کرے تو اس میں شریعت کے کون سے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔
رہا معاملہ چار دیواری کے تصور کا‘ تو کیا تعلیم و تجارت اور دیگر ضروریات کے لیے ایک خاتون پر گھر سے نکلنے پر شریعت نے کوئی بندش عائد کی ہے یا وہ ضوابط فراہم کیے ہیں جن کی پابندی کرتے ہوئے اس کا چلنا پھرنا‘ لباس پہننا‘ نگاہوں کو محفوظ رکھنا‘ غرض ہر اس پہلوپر جو معاشرتی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے ہدایات دے کر اس کے لیے گھر سے باہر جانے کے آداب متعین کر دیے ہیں۔ ان واضح تعلیمات کا مقصد اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے بلاکسی احساسِ گناہ کے گھر سے باہر جائے۔ جس کا یہ مطلب قطعاً نہیں لیا جاسکتا کہ وہ وقت کابڑا حصہ بالاستمرار گھر سے باہر گزارے اور محض سونے کے لیے گھرآجائے۔ دین میں غلو کی جگہ توازن اور شفقت اور پریشانی کی جگہ آسانی شریعت کا منشا و مقصود ہے۔ توازن اور وسط کا طریقہ ہی ہمیں دین پر عمل کرنے کے لیے صحیح فضا فراہم کر سکتا ہے۔ (ا - ا)
س: ابرئوں کے بالوں کو اُتارنا اور باریک کرنا حرام ہے‘ جب کہ غیر فطری بالوں کی نسبت کچھ رعایت ملتی ہے‘ مثلاً مونچھوں کی جگہ پر یا رخساروں پر عورتوں کے بال آنا--- تو کیا ابرئوں کے درمیان‘ ناک کے اُوپر ملنے کی جگہ بھی غیر فطری شمار ہوگی؟
ج : احادیث میں واضح حکم آتا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ لیکن یہ حکم تمام بالوں کے بارے میں نہیں ہے۔ چنانچہ طہارت کے لیے جسم کے بعض حصوں کے بالوں کو صاف کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی شکل صورت اور جسم کو متوازن اور خوب صورت بنایا ہے۔ اگر کسی کی ابرئویں گھنی ہیں تو یہ اس کی خوب صورتی کا حصہ ہے۔ کسی کی بھنویں پیشانی کے وسط میں آکر مل جاتی ہیں اور کسی کی نہیں ملتیں تویہ اس کی پہچان بن جاتی ہیں۔ اس کے خلاف کیا جائے تو فطری توازن اور صورت میں تبدیلی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
فرض کیا جائے کہ ایک خاتون کے گالوں اور لبوں کے اُوپربال اُگ آتے ہیں جن کی بنا پر اس کا شوہر اسے چھوڑنے پر غور شروع کر دیتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ بات خوش کرے گی کہ وہ طلاق قبول کر لے لیکن زائد بالوں کو صاف نہ کرے؟
جن معاملات میں قرآن و حدیث نے وضاحت کر دی ہے ان کی بغیر کسی تردد کے اطاعت لازمی ہے اور جن معاملات میں رخصت اور اجازت ہے ان میں قیاس کر کے مشکل بنانا‘ دین کی حکمت کے منافی ہے۔ اللہ کے کسی حکم یا رسولؐ اللہ کی کسی ہدایت کو ناپسند کرنا‘ ردّ کرنا یا اس کے خلاف کرنا دین سے بغاوت ہے۔ لیکن جہاں دین نے رخصت دی ہو وہاں شدت اختیار کرنا نہ تقویٰ ہے‘ نہ عزیمت۔ جائزکے دائرے میں رہتے ہوئے رشتہ ازدواج کو برقرار رکھنے اور مستحکم کرنے کے لیے کسی کام کا کرنا مقاصدِ شریعت سے مطابقت رکھتاہے۔ اس لیے بلاوجہ ایسے معاملات میں غلو سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ا - ا)