’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ لیکن عراق میں امریکہ کی فتح سے ہمارے لیے ایک نئی روشن صبح طلوع ہوئی ہے جس کے بعد دنیا کبھی دوبارہ اس طرح کی نہیں ہوسکتی جس طرح اس جنگ سے پہلے تھی۔ اسرائیل اس نئی اور بہتر دنیا کا ایک فعال ملک ہوگا‘‘--- یہ الفاظ ہیں صہیونی دانش ور موشیہ ایرنز کے جو بڑے صہیونی روزنامہ ہآرٹس میں ۱۵اپریل ۲۰۰۳ء کو شائع ہوئے۔
وہ مزید لکھتا ہے: ’’اسرائیل کے لیے امریکہ کی جیت ایک بڑی خوش خبری ہے کیونکہ عالم عرب میں اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ‘ جس نے اسے کیمیائی اسلحے کی دھمکی دی اور ۱۹۹۱ء کی جنگ میں اس پر میزائل چلائے‘ شکست کھا گیا۔ اس کی شکست کے بعد عراق اسرائیل کے ساتھ صلح کے لیے واضح اور نمایاں قدم اٹھائے گا‘‘۔ یہ صرف موشیہ ایرنز ہی نہیں خود امریکی و صہیونی ذمہ داران آئے روز طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ شارون کہتا ہے: ’’اب ایک سنہری موقع ہاتھ لگا ہے اور میں اسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دوں گا‘‘۔
امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے اپنے صہیونی ہم منصب سلفان شالوم سے ملاقات کے دوران کہا: ’’ہماری کامیابی پورے خطے میں دہشت گرد اور شدت پسند طاقتوں کے خاتمے کا آغاز ہے‘ اور آپ بہت جلد‘ مختلف ممالک اور تنظیموں کی پالیسیوں سے اس کے آثار واضح طور پر دیکھ لیں گے‘‘۔ شارون نے اس موقع پر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’’شام کی حکومت پرشدید ترین دبائو ڈالے تاکہ وہ شام میں موجود فلسطینی تنظیموں کا خاتمہ کر دے اور ایران سے اپنے تعلقات منقطع کر لے (صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت‘ ۱۵ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ سابق روسی وزیراعظم پریماکوف نے اپنے ایک انٹرویو میں صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ’’شارون اور اس کا احاطہ کیے ہوئے لوگ امریکہ کو بہرصورت شام کے مقابل لانا چاہتے ہیں کیونکہ شام پر حملہ درحقیقت انھی لوگوں کی جنگ ہے جو عسکری ذرائع سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘‘۔ (الشرق الاوسط‘ ۱۶ اپریل ۲۰۰۳ئ)
اس ضمن میں اب تک شام پر مختلف الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ اس کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں امریکی ذمہ داران اپنے عراق والے بیانات متعدد بار دہرا چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہمارے پاس اس بارے میں ثبوت ہیں‘‘۔ ’’شام نے یورپی ممالک سے اپنے نام پر عراق کے لیے ہتھیار خریدے‘‘۔ ان ہتھیاروں میں رات کے وقت دیکھ سکنے والی خطرناک دوربینیں بھی شامل ہیں۔ پھر کہا گیا کہ ’’دورانِ جنگ شام سے مجاہدین اور شامی فوجی عراق بھیجے‘‘۔ اب کہا جا رہا ہے: ’’عراق سے سائنس دان اور دیگر عراقی ذمہ داران شام میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘‘۔ وائٹ ہائو س کے ترجمان ایری فلیشر نے تو ہر گردن میں پورا آجانے والا پھندا پھینک دیا ہے کہ ’’شام دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے‘‘۔ یہی بات صہیونی تجزیہ نگار زائیف شیف لکھتا ہے: ’’شام حزب اللہ کے ساتھ مل کر عراق کو امریکی فوجیوں کے لیے لبنان بنانا چاہتا ہے‘‘۔ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیچ کا کہنا ہے: ’’حزب اللہ القاعدہ سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے‘‘۔
۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کا صہیونی روزنامہ ہآرٹس لکھتا ہے: ’’لگتا ہے کہ اس بار امریکی کانگریس زیادہ موثر کردار ادا کرے گی۔ وہ اپنی وزارت خارجہ کے اس فیصلے کے انتظار میں نہیں رہے گی کہ وہ شام کو باقاعدہ برائی کا محور قرار دے۔ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اور شام و عراق کے مابین جو تعاون سامنے آچکا ہے‘ اس کے بعد بشارالاسد کے ساتھ کسی اور زبان میں ہی بات کرنا ہوگی۔ اب یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ دمشق میں بیٹھے فلسطینی جہادی لیڈر اسرائیلی شہروں میں بسیں اُڑانے کے احکام جاری کرتے رہیں اور دمشق و حلب محفوظ رہیں‘‘۔ مزید لکھتا ہے: ’’اس وقت دنیا میں کسی اور ملک کے پاس اتنا قابلِ استعمال کیمیائی اسلحہ نہیں ہے جتنا شامیوں کے پاس ہے‘‘۔ البتہ صہیونی تجزیہ نگار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا یہ کیمیائی اسلحہ (اگر ہے تو) اسرائیل کے پاس موجود ۱۹قسم کے مہلک کیمیائی و حیاتیاتی اسلحے سے بھی زیادہ ہے‘ خود امریکہ کے اسلحے سے بھی زیادہ ہے کہ جس کا دفاعی بجٹ اب ۴۲۲ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو دنیا بھر کے تمام ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے متجاوز ہے۔ واضح رہے کہ روس کا دفاعی بجٹ ۶۵ارب ڈالر‘ چین کا ۴۷ ارب ڈالر‘ جاپان کا ۳.۴۰ ارب ڈالر‘ برطانیہ کا ۴.۳۵ ارب ڈالر‘فرانس کا ۶.۳۳ ارب ڈالر اور جرمنی کا ۵.۲۷ ارب ڈالر سالانہ ہے۔
ایک طرف تو شام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے دوسری طرف خود فلسطینی محاذ پر ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے اختتام پر بش (خورد) نے اعلان کیا تھا کہ فلسطینیوں کو نئی قیادت منتخب کرنا ہوگی‘ حالیہ قیادت سے مزید کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یاسرعرفات نے ایک آدھ بار یہ کہا کہ جیسے ہی انتخابات کے لیے مناسب حالات پیدا ہوئے انتخابات کروا کے نئی فلسطینی قیادت چن لی جائے گی‘ لیکن آخرکار ۸ مارچ کو دستور میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نیا عہدہ تراش لیا گیا۔ محمود عباس (ابومازن) کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم چن لیا گیا۔ محمود عباس صہیونی و امریکی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں دونوں کے اعتماد پر پورے اُترے تھے۔ اوسلو معاہدے کے پیچھے اصل کردار ابومازن ہی کا تھا۔ اسے وزیراعظم بنوانے کا اصل مقصد یاسرعرفات کو نمایشی صدر بنا کر اس کے تمام اختیارات سلب کرلینا ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار ایلیکس فش مین یدیعوت احرونوت میں لکھتا ہے: ’’فلسطینیوں کے حملے اور شدت پسندی روکنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یاسرعرفات اور اس کے قریبی ساتھی ہیں۔ یہ لوگ مسلح جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)
ساری دنیا کو یاد ہے کہ ۱۹۸۷ء میں پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو اسے کچلنے کے لیے یاسرعرفات کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی تشکیل دی گئی اور ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کے ذریعے فلسطین کے اڑھائی فی صد رقبے میں فلسطینی ریاست اور باقی ساڑھے ستانوے فی صد سرزمین پر اسرائیلی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یاسرعرفات کو عالمِ اسلام کے تمام حکمرانوں کے سامنے مثالی لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ یاسرعرفات نے امریکی اور صہیونی امداد سے متعدد سیکورٹی فورسز تشکیل دیں اور ہر آزادی پسند لیڈر اور مجاہد کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ غزہ میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا جواخانہ اور علاقے کی بڑی زیرزمین جیل تعمیر کی گئی۔ قومی سلامتی کی ذمہ داری محمد دحلان نامی ایک شخص کو سونپی گئی جس نے اپنے فلسطینی بھائی بندوں کو ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا‘ ۱۹۹۹ء کے اختتام پر تحریکِ انتفاضہ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ شہادتوں کی نئی تاریخ رقم کی جانے لگی۔ شارون نے بھی بہیمیت کی انتہا کر دی۔ جنین اور دیگر فلسطینی علاقوں کو ٹینکوں سے روندا جانے لگا‘ میزائل برسنے لگے لیکن شہادتی کارروائیوں کو نہ روکا جا سکا۔ یاسرعرفات کو بھی اس کے ہیڈکوارٹر میں محصور ہونا پڑا۔ گولہ باری کا نشانہ بننا پڑا‘ اور اب اسے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
محمود عباس کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فلسطینی تحریک پر سے عسکری چھاپ ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی عسکری اور شہادتی کارروائیاں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یدیعوت احرونوت لکھتا ہے: ’’ابومازن کی کابینہ یاسرعرفات کی کابینہ سے یکسر مختلف اور فلسطینی تاریخ کا ایک حقیقی اہم موڑ ہے۔ اس میں پیشہ ور‘ صاحب اختصاص‘ صاف ستھری شخصیتیں شامل ہیں۔ اس میں شامل سب سے نمایاں شخصیت وزیرداخلہ محمد دحلان کی ہے جس نے حماس کی قیادت کو ابھی سے یہ باور کروا دیا ہے کہ اگراس نے نئی قیادت کے احکام نہ مانے تو وہ ان سے اسی طرح نمٹے گا جیسے ۱۹۹۶ء میں نمٹا تھا۔ دحلان ایسے پیغامات دے کر ان تنظیموں سے عملاً تصادم چاہتا ہے تاکہ انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سبق سکھا دے۔ اس ہفتے ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو اسرائیل کے لیے بڑی نیک فالی ہے۔ فلسطینی انتظامیہ نے سامرہ کے علاقے میں ایک اہم جہادی لیڈر کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ ابھی پٹرول دریافت نہیں ہوا لیکن اس کی موجودگی کے بڑے قوی امکانات و آثار ہیں‘‘۔ (۱۸ اپریل۲۰۰۳ئ)
واضح رہے کہ ابومازن نے اپنی کابینہ کے لیے جو نام پیش کیے ہیں ان میں سات افراد ایسے تھے جو یاسر عرفات سے کھلم کھلا بغاوت کرچکے ہیں۔ محمددحلان بھی ان میں سے ایک ہے جسے یاسرعرفات نے بڑی رشوت کھانے اور قومی مفادات سے غداری کے الزام میں نکال دیا تھا۔ اب اسی کا نام وزیرداخلہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پہلے اسی کو وزیراعظم کے لیے لائے جانے کی افواہیں بھی تھیں۔ یاسرعرفات نے وزارتِ داخلہ کے لیے دحلان کا نام یکسر مسترد کر دیا ہے‘ لیکن صہیونی مشیرابومازن کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم وزارت داخلہ کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا اعلان کر دو اور دحلان کو وزیرمملکت بنا کر وزارتِ داخلہ عملاً اس کے سپرد کر دو۔
صہیونی منصوبہ یہ ہے کہ عراق پر امریکی تسلط‘ شام و ایران کے خلاف بلند بانگ دھمکیوں اور دنیا بھر پر امریکی جنگی مشنری کی دھاک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے دوران ہی فلسطینی مسئلے سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اسی موقع پر بڑی تعداد میں فلسطینیوںکو عراق واُردن میں بسانے کے منصوبے بھی سامنے لائے جا رہے ہیں ۔ بش عنقریب ایک روڈمیپ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس کا مسودہ کہیں سامنے نہیں آیا لیکن شارون نے اعلان کر دیا ہے کہ ہمیں اس پر ۱۴اعتراضات ہیں ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ملک بدر لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی پر بھی بات کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ ایک ایسا سرخ خط ہے جسے پار کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔
صہیونی وزیرخارجہ شالوم کے الفاظ ہیں: ’’ہم یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی واپسی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ روڈمیپ میں اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ تل ابیب میں امریکی سفیر ڈینیل کیرٹزر نے فوراً ہی صہیونی حکمرانوں کے در پہ حاضری دیتے ہوئے انھیں تسلی دلائی اور کہا کہ ’’روڈ میپ اصل حل نہیں ہے یہ تو صرف مذاکرات شروع کرنے کا ایک بہانہ ہے‘‘۔ اسی دوران امریکی کانگریس کے ۲۳۵ اور امریکی سینیٹ کے ۷۰ ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’حکومت امریکہ کو شارون حکومت کے ساتھ کوئی تصادم مول نہیں لینا چاہیے‘‘۔ اسی مضمون کے کئی خطوط بش کی مشیرہ براے قومی سلامتی کونڈالیزا رائس کو متعدد صہیونی تنظیموں کی طرف سے موصول ہوئے۔ (صہیونی روزنامہ معاریف)
سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا: ’’القدس جانے کا راستہ بغداد سے گزرتا ہے‘‘۔ کیا اس کی بات اس معروف صہیونی ماٹو کی طرف اشارہ تھا کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے نیل تک ہیں‘‘ (حدودک یا اسرائیل من الفرات الی النیل)‘ یا اس نے پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون کے اس جملے کو عراق پر منطبق کرنے کی کوشش کی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کی سلامتی صرف اس بات میں مضمر نہیں ہے کہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر اس ایٹمی طاقت کو تباہ کر دیا جائے جو اس میدان میں اسرائیل کے مقابل ہو اور اس کے وجود اور علاقائی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہو‘‘۔ کسنجرکا یہ معروف جملہ آج کے حالات پر بھی پوری طرح درست بیٹھتا ہے۔
سقوطِ بغداد کے بعد اب القدس کی تحریک آزادی کو ختم کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ عالمِ اسلام اس صہیونی امریکی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ تو کیا اس میں شرکت کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ خود صہیونی نقشہ نویس اپنے اس نقشۂ کار کے متعلق شکوک کا شکار ہیں۔ ایلیکس فش مین لکھتا ہے: ’’اس پورے معاملے میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ابومازن یاسرعرفات کی جگہ تو لے لے لیکن وہ سیاسی اور امن و امان سے متعلقہ مقاصد حاصل نہ ہوں جو اسرائیل چاہتا ہے‘ دہشت گردی جاری رہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا‘ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری پوری کی پوری پالیسی ہی غلط تھی‘‘ (یدیعوت احرونوت‘ ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ئ)۔ لیکن پاکستانی وزیرخارجہ کا بیان ملاحظہ فرمایئے: ’’عراق کے بعد فلسطین اور پھر کشمیر کامسئلہ حل ہوگا‘‘، یعنی ہم نہ صرف سقوطِ بغداد اور فلسطین کا کانٹا نکل جانے کے لیے بھی ذہناً تیار بیٹھے ہیں بلکہ اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی امریکہ ہی کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں۔
یہ بات پتھر پہ لکیر ہے کہ فلسطین کے سربراہ موعود ابومازن کا انجام عبرت ناک ہوگا۔ اپنے مجاہدین اور اپنی قوم کے بجائے دشمن کے کام آنے والا ہر بدقسمت عبرت کا نشان ضرور بنتا ہے‘ لیکن کیا پاکستان‘ اہل پاکستان‘ اور کارپردازانِ پاکستان کے لیے بھی اس میں کوئی پیغام‘ کوئی سبق ہے!