مئی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

آپا جان __ پیکرِعزم و ہمت

ثریا اسمائ | مئی ۲۰۰۳ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

جب ہم ۵-اے‘ ذیلدارپارک میں آپا جان کا درس سننے کے لیے آیا کرتے تھے تو اندر کھڑکی کے شیشے میں سے لان کی اسی جگہ پر مولانا مودودیؒ کرسی پر بیٹھے نظر آتے تھے جہاں آج ان کی میت رکھی جا رہی تھی۔ گھر کے اندرونی لان میں شامیانے کے نیچے قالینوں اور چاروں طرف کرسیوں پر خواتین تلاوت اور زیرلب باتوں میں مشغول تھیں۔

سوچتے سوچتے ذہن تقریباً ۵۰ برس پیچھے لوٹ گیا۔ جب پہلی بار ’’آپا جان‘‘ کو ایک بہت بڑے اجتماع میں دیکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ جیل میں تھے اور وہ پوچھنے والوں سے کہہ رہی تھیں: ’’اللہ کی راہ میں جو مشکلات آئیں وہ مبارک ہوتی ہیں‘‘--- یہ جملہ میرے معصوم سے ذہن پر نقش ہوگیا اور زندگی کے کئی مواقع پر میں نے اس کی بازگشت سنی۔

بیگم مودودیؒ کے آبا و اجداد مغل شہنشاہ شاہجہان کے دور میں بخارا سے نقل مکانی کرکے دلّی آئے تھے۔ شاہجہان نے جامع مسجد دلّی کی امامت کے لیے اُنھیں بلایا تھا۔ موجودہ امام عبداللہ شاہ بخاری اِسی خانوادئہ سادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت سے لے آخر تک  وہ لوگ دلّی میں آباد رہے۔ بیگم مودودیؒ ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں دادا اور چچا کے ہاں


o  مدیرہ مسئول‘ ماہنامہ بتول ‘ لاہور

کوئی بیٹی نہ ہونے کے باعث ان کی پیدایش بڑی پُرمسرت تھی۔ پرورش بڑے نازونعم میں ہوئی۔ اِن کے والد بہت متقی پرہیزگار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے انھیں کوئین میری اسکول میں بھیجا گیا۔ مگر تحریکِ خلافت کے موقع پر اکثر مسلم خاندانوں نے اپنے بچوں کو مشنری اسکولوں سے نکال لیا۔ ان کی آیندہ تعلیم گھر پر ہی ہوئی جو مڈل اور منشی فاضل تک محدود تھی۔ اُن کے ماموں اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر تھے جنھوں نے انھیں فارسی پڑھائی۔ فارسی میں اتنی دسترس ہوگئی کہ مادری زبان کی طرح لکھ‘ بول اور پڑھ سکتی تھیں۔ منشی فاضل میں ایک پرچہ عربی کا تھا۔ ماموں نے کہا کہ بیٹا سب سے اچھی عربی قرآنِ پاک میں ہے۔ اس طرح بقول اُن کے‘ قرآنِ پاک سے پہلا معنوی تعارف حاصل ہوا۔

بیگم مودودیؒ کی اپنے سسرال سے پہلے بھی رشتہ داری تھی۔ مولاناؒ کی والدہ اِن کی دادی کی سگی خالہ تھیں۔ آپس میں ملنا ملانا اور دیکھے بھالے خاندان تھے۔ اس لیے نسبت فوراً ہی طے ہو گئی۔ شادی سے پہلے اُنھوں نے مولاناؒ کی کوئی تحریر نہیں پڑھی تھی حتیٰ کہ الجمیعۃ اخبار بھی کبھی نہیں پڑھا تھا۔ اُن کا گھرانہ بہت ماڈرن تھا اور اِدھر کے لوگوں کا طرزِ زندگی ذرا مختلف تھا۔ خصوصاً مولاناؒ تو ذہنی طور پر بہت بدل رہے تھے۔ اس لیے جب مولاناؒ کی والدہ مرحومہ نے یہ بات پوچھی کہ تمھارے اِتنے دینی نظریات کی وجہ سے آپس میں کیسے گزارہ ہوگا تو مولاناؒ کا پُراعتماد جواب اُنھیں لاجواب کر گیا کہ اگر میں ایک لڑکی کا ذہن بھی نہ بدل سکا تو مجھے اپنا یہ کام ہی چھوڑ دینا چاہیے۔

بیگم مودودیؒ کو ہم سب ’’آپا جان‘‘ کہتے اور وہ عمر اور مرتبے کے حساب سے لڑکیوں کو ’’بیٹا‘‘ اور خواتین کو ’’بی بی‘‘ کہتیں۔ بیٹیوں کی تربیت کے معاملے میں آپا جان نے پردے اور  حیا و شرم کو بہت فوقیت دی۔ ۱۰ برس کی عمر میں اُنھیں نقاب اُوڑھا دیا۔ اسکول میں تعلیم نہیں دلوائی‘ گھر پر ٹیوٹر رکھی اور پھر میٹرک کے بعد کالج میں داخلے دلوائے۔ بچیوں کا گھر میں آنے والی خواتین کے اندر بیٹھنا بھی اُنھیں پسند نہیں تھا۔ کسی بچی کے بال نہیں کاٹے۔ چار پانچ سال کی عمر سے ہی کس کر چوٹیاں باندھیں اور نہایت عمدہ طریقے سے دوپٹہ اوڑھنا سکھایا۔ سلائی کڑھائی‘ سینا پرونا اور کھانا پکانا ہرچیز میں بچیوں کوماہر کیا۔ تشکیلِ جماعت اسلامی سے پہلے   تین سال اسلامیہ پارک میں رہے۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ پھر تقسیم کے بعددوبارہ جب یہاں آئے تو بچے بڑے ہوچکے تھے۔ سعیدہ احسن بتاتی ہیں کہ جب آپاجان نے ہمارے بڑے بھائی سے پردہ کیا تو بی بی (والدہ بنت الاسلام) کہنے لگیں محمودہ یہ تو تمھارے سامنے بڑا ہوا ہے۔ آپا جان نے بڑے اعتماد سے کہا: بی بی‘ بیٹا ہو یا بھائی‘ جہاں بات اللہ کے حکم سے ٹکرائے اُسے نہیں ماننا چاہیے۔ اس طرح حمیرا‘ اسماء جن لڑکوں بالوں سے کھیلتی گئی تھیں اُن سے اجنبی ہوکر الگ ہوگئیں حالانکہ ابھی اُن کے پردے کی عمر نہیں تھی۔ لیکن اُنھوں نے پردے کی اہمیت اس طرح دلوں میں بٹھا دی کہ وقت آنے پر وہ کوئی بحث مباحثہ نہ کرسکیں۔

آپا جان دمہ کی پرانی مریض تھیں۔ صحت کی کمزوری کے باعث اکثر اس کا حملہ ہوجاتا لیکن اُن کا سب سے اہم کام مولاناؒ کو ہر قسم کا جسمانی اور ذہنی سکون بہم پہنچانا تھا جس کی وجہ سے وہ اتنا بڑا کام کر گئے۔ وہ بھی ان کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ جن دنوں آپا جان کی طبیعت خراب ہوتی اُنھیں دفتر کے ساتھ والے کمرے میں لے آتے۔ گھر کی طرف سے دروازہ بند کر دیتے تاکہ بچے ڈسٹرب نہ کریں اور اندر سے اپنے دفتر کا دروازہ کھلا رکھتے۔ بعض اوقات لکھنے پڑھنے کاکام بستر کے پاس ہی لے آتے تاکہ طبیعت کا پتا رہے۔ آپا جان مولاناؒ کے صحت و آرام کا اس سے بھی زیادہ خیال رکھتیں۔ مولانا کا تمام دن گھڑی کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ‘ دوپہر کا کھانا‘ سہ پہر کی چائے‘ رات کا کھانا سب وقت کے ساتھ طے تھا۔ عصرکی نماز کے بعد جب ٹوپی رکھنے کمرے میں آتے توآپا جان چائے کا کپ لیے کھڑی ہوتیں۔ ایک منٹ کی دیر بھی اُس میں نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ باہر عصری مجلس شروع ہوجاتی۔ کھانے کے بعد ذرا ساکچھ میٹھا‘ کچھ نہ ہو تو شہد۔ صبح ناشتہ کے بعد پان اور پھر دن بھر کا پان کا کوٹہ ڈبیا میں ڈال کر دینا۔ باورچی نہ ہو تو مولانا کا کھانا خود پکانا۔ خاص طور پر پھلکے‘ دلیہ انھیں بہت پسند تھا لیکن آپا جان ہمیشہ گھر میں پسواتیں۔ اُنھیں وہم رہتا کہ اِتنی تو مخالفت ہے‘ باہر سے پسوائی ہوئی چیز میں کوئی کچھ ملا نہ دے۔اِس طرح کھانے میں اُن کی پسندیدہ چیزیں خود اہتمام سے تیار کرلیتیں۔ اجتماعات میں صحیح وقت پر اُٹھ جاتیں کہ میاں کو کھانا دینا ہے۔

خود فرماتی ہیں: ’’مودودی صاحب سے جو جذبۂ ایمانی لیا تھا اُس کی طاقت مجھے لے کر چلتی رہی ورنہ نو بچے‘ ان کی تعلیم و تربیت‘ گھرداری‘ مہمان داری اور درس و تدریس--- آج بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ اتنے بڑے چھکڑے کو مجھ جیسی دھان پان اور نامکمل صحت کی عورت نے کیسے گھسیٹا---ظاہر ہے اس میں قوتِ ایمانی اور تائید ربانی ہی کا فضل تھا‘‘۔

آپا جان ایک نہایت منضبط‘ سلیقہ شعار اور سُگھڑخاتون تھیں۔ بہت نفاست پسند‘ صفائی پسند اور پاکیزہ صفت۔ یہ تمام سلیقہ اُنھوں نے آگے اپنی بچیوں میں اُتارا۔ آپاجان کا لباس ساڑھی تھا۔ بلائوز کی آستینیں کف والی اور کلائیوں تک ہوتیں۔ اونچا گریبان اور ساڑھی کے پلّو سے لپٹا ہوا سر۔ سوائے وقت ِ وضو کے کبھی بازو اور سر ننگا نہیں دیکھا۔ سعیدہ احسن کہتی ہیں میں کہا کرتی آپا جان آپ ساڑھی کو کام کے وقت کیسے سنبھالتی ہیں۔ وہ کہتیں آپ کا دوپٹہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ اسے کیسے سنبھالتی ہیں؟ بہرحال کئی لوگ اُن کی ساڑھی پر اعتراض کرتے۔ اچھرہ مین روڈ پر جس گھر میں درس دینے جاتیں اُنھیں ساڑھی پر اعتراض تھا۔ کہتے آپ شلوارقمیض پہنیں۔ آپا جان نے کہا میری ساڑھی باپردہ ہے میں تو یہی پہنوں گی۔ درس خواہ رکھو یا نہ رکھو۔ چنانچہ وہاں جانا چھوڑ دیا۔

مسلم ٹائون اور ماڈل ٹائون آپا جان کے ہفتہ وارحلقے تھے۔ ماڈل ٹائون تو ۲۶ سال گئیں۔ بڑا منضبط پروگرام ہوتا۔ ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل درسِ قرآن اور سوال و جواب۔ اس کے بعد وہ بہت روکنا چاہتیں مگر آپا جان اپنے وقت پر اُٹھ جاتیں کہ مولانا کا کھانا لیٹ نہ ہو جائے۔

۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۷ء تک آپا جان نے سیاسی جلسے بھی کیے۔ یہ اُن کی زندگی کے بڑے مصروف دن تھے۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتیں۔ ۷۷ء میں نو جماعتوں کا‘ پاکستان قومی اتحاد عمل میں آیا تھا۔ ماڈل ٹائون میں بہت بڑا جلسہ تھا۔ پانچ چھ ہزار کے قریب خواتین جمع تھیں کہ اسٹیج پر فوٹوگرافر آگئے۔ آپا جان نے برقعہ تو لیا ہوا ہی تھا۔ فوراً احتجاجاً اسٹیج سے اُتر کر اپنی گاڑی میں جابیٹھیں۔ مسلم لیگی خواتین کے کہنے پر واپس آئیں۔ جلسے میں جو بھگدڑ مچی ہوئی تھی وہ بھی ٹھیک ہوگئی اور سب خواتین جلسہ گاہ میں اپنی جگہ لوٹ آئیں۔

بھٹو کے خلاف تحریک میں ۹ اپریل ۱۹۷۷ء کے احتجاجی جلوس میں ساری جماعتوں کی خاتون سربراہان قیادت کر رہی تھیں۔ جیسے ہی آنسوگیس کے شیل پھینکے گئے اور لاٹھی چارج ہوا‘ سب جماعتوں کی خواتین پچھلی صفوں کی طرف بھاگیں۔ لیکن آپا جان اور باقی ارکانِ جماعت اگلی صفوں میں ہی رہیں۔ سب کو بیٹھ جانے کوکہا۔ بھاگنے سے روکا اور بڑی ہمت اور جرأت سے اس وقت کو گزارا۔ گولی چلنے سے جمعیت کے کئی لڑکے جو خواتین کی حفاظت کے لیے دو رویہ چل رہے تھے‘ شہید ہوئے۔ کچھ عرصے بعد پھرصاحبزادی محمودہ بیگم نے کہا کہ عورتوں کا جلوس دوبارہ نکالا جائے۔ اس پر آپا جان ذرا تلخ ہو گئیں۔ کہنے لگیں:’’بی بی جب عورتیں میدان میں آتی ہیں تو مرد جانیں دے کر اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے فالتو مرد نہیں ہیں‘‘۔

اس طرح جماعت کے اجتماع ۱۹۶۴ء میں مولانا کی تقریر کے آغاز میں ہی غنڈوں نے حملہ کیا۔ گولیاں چلنے کی آواز آئی اور خواتین کے کیمپ میں بوتلیں پھینکی گئیں۔ میرابڑا بچہ گودمیں تھا۔ سب کا خوف کے مارے برا حال تھا لیکن آپا جان اور آپا جی حمیدہ بیگم مسلسل سب کو تسلی دینے اور اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی تھیں اور خواتین کو وہاں سے نکلوا کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کے بعد وہاں سے خود نکلیں۔

قیامِ پاکستان کے تقریباً ۱۴ ماہ بعد مولانا کی پہلی گرفتاری عمل میں آئی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ سزاے موت کا بھی حکم ہوا۔ عورتیں اخبار پڑھ کر روتی ہوئی آ رہی تھیں۔ آپا جان نے سختی سے ڈانٹا کہ سزاے موت اللہ کی طرف سے تو نہیں۔ دیکھیں اللہ کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو تسلی دی۔ بچے تمام اسکول گئے ہوئے تھے۔ خود وہ پُرسکون تھیں۔

جب بھی گرفتاریاں ہوتیں‘ کبھی جزع فزع نہ کرتیں۔ دوسرے گرفتار ہونے والے ارکان کے گھروں میں جاتیں ‘ اُنھیں تسلی دیتیں‘ مالی امداد جتنی ممکن ہوتی کرتیں اور صبروسکون سے رہنے کی تلقین بھی۔ ایسی پریشانی کے دنوں میں مرکز کی خواتین خود بھی آپا جان کے پاس رات کو جمع ہو جاتیں۔ وہ انھیں قرآن سناتیں‘ آزمایش کو برداشت نہ کرنے پر بہت خفا ہوتیں‘ سختی سے کہتیں کہ اگر مارپیٹ‘ بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی تو اس راہ میں کیوں نکلے؟ پھر نرمی سے پٹھان کوٹ کی زندگی کا ذکر کرتیں کہ وہاں تو تنہائی‘ سانپ‘ بچھو اور گیدڑ تھے اور یہاں ہم سب اکٹھے ہیں۔ شوہروں کے جیلوں میں ہونے کے باعث ننھے ننھے بچوں کی معیت میں اِن خواتین کے لیے پریشانیاں تو بہت تھیں لیکن آپا جان اپنی جیلوں اور پھانسی کے تختوں کو بھول کر اُن کی تربیت اور تسلی میں لگ جاتیں:’’اللہ کے راز کبھی نہ کھولنا کہ آج تم فاقے سے ہو۔ بھوک کا حال کسی باپ‘ بھائی یا ساس سسر کے آگے نہ کھولنا‘ یہ اللہ کا راز ہے۔ تمہارا اجر مارا جائے گا اگر کسی کے آگے بھی یہ شکوہ کردیا۔ اللہ کا رحم اور اُس کی رضا لینے کے لیے زبان بند رکھو۔ گورنمنٹ کا شکوہ بھی نہ کرو کہ جیل میں ملنے نہیں دیتے‘‘۔

آپا جان کی خوش حالی کی زندگی تو دوچار سال میں ختم ہو گئی۔ پٹھان کوٹ کی زندگی نے دراصل اُن کو اُس ابتلا کے لیے تیار کیا جو آیندہ اُن پر آنے والی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ دادا ابا مرحوم نے اپنے خط میں میری شادی سے پہلے مولانا کو لکھا تھا کہ ہماری بیٹی محل میں بھی تمھارا ساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی۔ یہ جملہ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتا رہا اور اللہ کی رضا میں میری رہنمائی کرتا رہا۔

جماعت اسلامی کی رُکنیت آپا جان نے خود سوچ سمجھ کر اختیار کی لیکن اپنی صحت‘ مولانا کی خدمت‘ اور گھر کی ذمہ داریوں کے باعث کوئی تنظیمی ذمہ داری نہ لی۔ شروع میں اجتماعات کے لیے باہر بھی نکلتیں۔ بک اسٹال کی ذمہ داری بھی کبھی لے لیتیں۔ جماعت کے ارکان پر اُنھیں اِتنا بھروسا تھا کہ ایک دفعہ کہنے لگیں: اسٹال پر کاپی پنسل رکھ دو۔ لوگ کتابیں لیں اور پیسے رکھتے جائیں۔ پھر کہنے لگیں:رُکن جماعت کا ستون ہے۔ یہ بذاتِ خود ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ جماعت کا نقصان ہو رہا ہو‘ کارکن کم ہوں‘ مت انتظار کرو کہ کوئی آپ سے کہے۔ خود اپنا مورچہ سنبھال لو۔

آپا جان کا گھر دعوت کا مرکز تھا۔ تمام دن لوگ آتے جاتے رہتے۔ اُنھوں نے یہ نکتہ نہایت اچھی طرح سمجھ رکھا تھا کہ اس گھر کے دروازے لوگوں کے لیے ہروقت کھلے رہنے چاہییں۔ لہٰذا کبھی ماتھے پر بل نہ ڈالا۔ خواتین آتی رہتیں اور بیٹھتی جاتیں‘ آپاجان فرصت ملتے ہی حاضرہوجاتیں۔ روزانہ قرآن کی کلاس‘ ہفتہ وار درس‘ ماہانہ ادبی نشست‘ تربیت گاہیں‘ ناگہانی اور فوری اجتماعات۔ اسماء بتاتی ہیں کہ جمعہ کے روز نماز اور بعد میں درس سالہا سال ہوا ہے۔ مولانا مبارک مسجد میں جب تک جاتے رہے قرآنِ پاک اور مشکوٰۃ اُٹھائے ہمیشہ ساتھ ہوتیں کہ گھر میں فرصت نہیں ‘ وہیں میں اُن سے پڑھ لوں۔

مولانا کی وفات کے بعد آپا جان نے باہر نکلنا تقریباً ختم کر دیا۔ لیکن قرآنِ پاک کا محاذ اُسی طرح گرم تھا۔ اسماء کے میاں کی وفات کے کچھ سال بعد اُدھر چلی گئیں۔ وہاں بھی   ۱۵‘ ۱۶ لوگوں کی روزانہ کلاس چلتی رہی۔ پچھلے سال مارچ میں جب معدے کا السر پھٹ گیا تو کلاس ختم کرنا پڑی۔ اسماء نے اپنے تمام پروگرام ختم کر کے ماں کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیا۔ کبھی کبھار کہتیں: ’’اسماء میں تم پر بوجھ ہوں‘‘۔ اسماء کہتیں: ’’اماں میں تو مزدور ہوں۔ اللہ سے اپنی مزدوری لے لوں گی‘‘۔ اس طرح سال بھر بستر پر رہیں۔ چھ بار ہسپتال لے جانا پڑا۔ آخری دنوں میں ایک بار اسماء سے نیم بے ہوشی میں کہا: ’’ماموں سے پوچھو‘ میں اُن سے پڑھنے آجائوں؟‘‘ یہ وہ ماموں تھے جنھوں نے اُنھیں فارسی پڑھائی تھی۔

آپا جان کی باتیں لکھتے وقت دل بے حد دُکھی ہو رہا ہے۔ احساسِ زیاں بڑھ گیا ہے۔ لیکن مولاناؒ کی بذلہ سنجی کا ایک واقعہ لکھے بغیر ختم کرنے کو دل نہیں چاہا۔ مولانا سے اگر خواتین ملنا چاہتیں تو برقعہ لے کر آپا جان کے ہمراہ بیٹھ جاتیں اور اپنے سوال و جواب اور مسائل پوچھتیں یا پردے کے پیچھے سے بات کرلیتیں۔

بھرپور مخالفتوں کے زمانہ میں گوجرانوالہ سے کچھ خواتین آئیں۔ مولانا اور آپا جان کے پاس بیٹھی شکوہ بھرے انداز میں کہنے لگیں: ’’آپ مخالفین کی کسی بات کا جواب دیتے‘ نہ تردید کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ مودودی صاحب نے ایک سولہ سالہ لڑکی سے شادی کر رکھی ہے‘‘، آپا جان اِس الزام پر بہت ہنسیں۔ مولاناؒ اُن کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ’’ٹھیک تو کہتے ہیں لیکن تھوڑی سی غلطی ہے۔ سولہ سالہ نہیں اٹھارہ سالہ!‘‘ (آپا جان کی عمر شادی کے وقت اٹھارہ سال تھی)۔

اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کونور سے بھر دے۔ اُن کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ (آمین)