مئی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

وقت : اسلامی تصورات

ڈاکٹر حسن صہیب مراد | مئی ۲۰۰۳ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

وقت کو عقیدئہ توحید کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مغربی تصورات (اپریل ۲۰۰۳ئ) سے یکسر مختلف تصویر بنتی ہے۔ فہمِ وقت کا یہ انداز خلافت ِ ارضی پر مبنی انسانی زندگی کے تقاضوں اور ضروریات کا مکمل طور پر لحاظ رکھتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کو آشکار کرتا ہے‘ اس کی شانِ ربوبیت پر دلالت کرتا ہے اور بندے کو اپنے رب سے جوڑ دیتا ہے۔حقیقتاً یہ تصور انتہائی جان دار ہے۔

وقت پر غوروفکر ہرانسان کے بس میں ہے۔ گردش لیل و نہار‘ آئینہ ایام‘ اور تماشاے دنیا میں انسان مشاہدے‘ تجربے کے علاوہ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اثر لیتا ہے اور ڈالتا ہے۔ روز مرہ کے واقعات وقت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگرکرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت ایک ڈرانے والی اور جھنجھوڑنے والی شے ہے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو خوش کن کم اور خوف ناک زیادہ ہے۔ وقت سراب کی طرح نظر آتا ہے۔ انسان لمحات کی تلاش میں‘ گذشتہ اوقات کی یاد میں‘ اور توقعات کے پورا ہونے کے انتظار میں اور تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کو کسی کام سے بھرنے کے بارے میں سوچتے سوچتے گزر جاتا ہے۔ یہ ایسا جام ہے جو غافل کو اور دھوکے میں رکھتاہے اور سوتے ہوئے کو اور مدہوش کر دیتا ہے۔ جو اس کے پیچھے ہوتا ہے‘ وقت اس سے آگے بھاگتا ہے۔


o  ریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی ‘ لاہور

وقت مومن کے لیے نعمت ہوتا ہے۔ ایمان گزر جانے والے وقت کو محو نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے امر بنا دیتا ہے۔ ایمان وقت کے انتظار سے بچاتا ہے‘ قوتِ عمل کو بروے کار لانے کا داعیہ فراہم کرتا ہے۔ ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر آن ہمیشہ کی زندگی کا نیا باب کھول دیتا ہے۔ اللہ کی نصرت سے وقت سکڑتا ہے اور پھیلتا ہے۔ کام آسان ہو جاتے ہیں‘ راہیں کھل جاتی ہیں۔ مزید کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جو زندگی پلک جھپکتے گزر جاتی ہے وہ ابدی و لازوال نعمتوں کی حقیر سی قیمت ٹھہرتی ہے۔ ایسی زندگی آہ! کاش! اور انتظار کی صعوبت سے ناآشنا رہتی ہے۔ وقت اس کی مٹھی میں بند رہتا ہے۔ جو وقت کے پجاری ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور جو وقت کے شکاری ہوتے ہیں وہ اسے سر نگوں کر لیتے ہیں۔

وقت اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ ایک ایسی تخلیق ہے جو دیگر مادّی تخلیقات سے قبل وجود میں آتی ہے۔ تخلیقی عمل کے تسلسل کا اسٹیج وقت کی لہر پر استوار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کے درمیان رابطہ اور تعلق کا وسیلہ بھی ہے۔ اس لیے وقت پر غوروفکر انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب لے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حقیقی ہے۔ اس پر ایمان وقت کے معیار پر انسانی زندگی اور تمام مادّی اشیا کے فانی ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ابدی وجود کو واشگاف حقیقت کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ غیب تک رسائی وقت کے نظام پر غور کرنے سے ہو جاتی ہے۔ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے وقت اور اس کی بعض خصوصیات کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ وہ زندۂ جاوید ہستی‘ جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے‘ اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے‘ اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی بزرگ و برتر ذات ہے۔ (البقرہ ۲:۲۵۸)

اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقت کا وہ سانچہ یا معیار جو انسانی زندگی کے ساتھ متعلق ہے‘ استعمال نہیں ہو سکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نظمِ وقت کی خالق ہے‘ اور وہ خود تمام پہلوئوں سے اُس وقت کے نظام سے ماورا اور بالاتر ہے۔ اللہ زندہ و جاوید ہے‘ حّی و قیوم ہے۔ یہ وقت کا کون سا تصور ہے؟ اس کا ادراک شاید انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ زمین اور آسمان میں جو وقت برپا ہے اس کے محدود علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اندازہ لگانا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ ایسے ہے کہ جیسے ہمیں معلوم ہے کہ اللہ جمیل ہے لیکن اس خوب صورتی کا ادراک انسانی ذہن کی صلاحیت سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وقت اور کام میں تھکن اور نیند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی وقت دورے کی مانند چلتا ہے۔ جو روزانہ ایک بار ایک دورہ مکمل کرتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ماہ و سال کا دورہ ہوتا ہے‘ اور پھر پوری زندگی اپنا دورہ مکمل کر لیتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ انسان پہلے بچہ ہوتا ہے اور پھر مختلف ادوار سے گزر کر دوبارہ بچے کی طرح محتاج بن جاتا ہے۔ اس طرح زمانے کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بار بار لوٹ کر آتا ہے‘ عروج و زوال کی تصویریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ سورۃ آل عمران میں آیا ہے کہ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں (آیت ۱۴۰)۔

اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقت نہ دورہ ہے اور نہ ہی کوئی لکیر جو کھینچ دی گئی ہو۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اس کائنات کے وقت کی حیثیت ایک ایسے خط کی ہے کہ جو مسلسل حرکت پذیر ہے۔ اس کے سارے مراحل اور نقش عملاً پہلے سے بتائے نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ تیر نہیں کہ جو چھوڑا جا چکا ہو۔

انسانی جسم وقت گزرنے کے ساتھ تھک جاتا ہے۔ وقت کا بوجھ اسے مجبور کر دیتا ہے کہ وہ کام سے دست بردار ہو جائے۔ آرام اور کام کا پھیر وقفوں کی شکل میں بار بار آتا ہے اور یہ طبعاً انسان کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ باور کراتا ہے کہ وہ اس سے بالاترہے۔ آیت الکرسی کی آیت کے درمیانی حصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوراتی نوعیت کا یہ وقت دراصل ایک مخصوص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا مدار مسلسل اس کو ایک منزل کی جانب لے جا رہا ہے۔ وقت بذاتِ خود حالت ِ سفرمیں ہے اور وقت کا وہ مرحلہ جو انسان دنیا میں گزارتا ہے ایک مہلت اور آزمایش کی شکل میں ہے۔ یہ وقت اپنا بڑا دورہ مکمل کر کے اُس مقام پر پہنچے گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور واپسی ہوگی۔ دن اور رات کا پھیر‘ زندگی کا پھیر اور پھر زمین اور آسمان کے وقت کا پھیر اور آخر میں انسانیت اسی مرحلے پر واپس پہنچ جائے کہ جہاں سے سفرکا آغاز ہوا تھا۔

آیت الکرسی کے آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اقتدار کی تصدیق فرماتے ہوئے علم کے احاطے کا ذکر کرتے ہیں۔ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ اوجھل ہے‘ اس میں سب کچھ آگیا ہے۔ عبادت کے لائق کوئی ایسی ہی ذات ہو سکتی ہے کہ جو وقت کی خالق ہو‘ جس کی مشیت وقت پر غالب رہ سکتی ہے اور جو وقت کی منزل یعنی آخرت کا مالک ہو۔جب کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ موت کے بعد زندہ ہوا اور زندگی کے بعد پھر موت سے ہم کنار ہوکر دوبارہ زندگی پاتا ہے۔ انسا ن اپنے وقت اور کام کے معاملے میں مجبور ہے۔ نہ وہ اپنے وقت پر قادر‘ نہ  اپنے کام کو ازخود کر لینے کے لیے خودمختار۔ وہ محتاج ہے اور اپنے عالمِ قید سے باہر نہیں نکل سکتا ہے۔

آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے چار انداز کے اوقات بتائے ہیں۔ ایک وہ وقت جو زمین اور آسمان میں پائے گئے وقت کی پیمایش اور تصور سے مبرا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کی تعریف صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے۔ وہ خود زندہ ہے اور قائم ہے۔ وہ تمام مشرقین و مغربین اور میقات و قطبین کا خالق اور مالک ہے۔ دوسرا وقت وہ ہے جو زمین اور آسمان میں ہے۔ اس وقت کوسائنسی انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی خصوصیات‘ تجزیہ اور فکر کے نتیجے میں واضح ہوسکتی ہیں۔ تیسرا وقت ہر انسان کا اپنا وقت ہے۔ یہ وقت زمین اور آسمان میں پائے جانے والے نظم وقت ہی کے تابع ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی مخصوص مُہلت اور مدت کے لیے آتا ہے۔ چوتھا وقت آخرت کا وقت ہے۔

مغربی تصورات نے فہمِ وقت کی حدود سے آخرت کو بے دخل کرکے اس کو ایک ایسی ریل گاڑی بنا دیا ہے جس کے نیچے پٹڑی نہیں ہے۔ اور چونکہ پٹڑی نہیں اس لیے اس کا کوئی اسٹیشن بھی نہیں ہے۔ زمینی‘ کائناتی‘ انسانی‘ علمی‘ معاشرتی‘ تاریخی‘ کسی بھی نقطۂ نظر سے وقت کا تصور قائم کرنے کے لیے وقت کا سرا تلاش کرنا ہوگا۔ وقت کی منزل‘ اس کی ابتدا اور انتہا کا اندازہ لگانا ہوگا۔ وقت کی سمت سے لاعلمی یا بے توجہی کے نتیجے میں وقت ایک حسابی مشق بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کا میکانیکی تصور بے جان ہے اور انسانی زندگی کو مسخ کر دیتا ہے۔ وقت ایک ایسا معمہ ہے جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انسان کو اپنے حس و شعور کی گہرائیوں اور تجرباتی و مشاہداتی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک کیفیت بھی ہے اور حقیقت بھی۔ ایک قدر بھی ہے اور خبربھی۔ ایک قوت بھی ہے اور ہتھیار بھی۔ ایک موقع بھی ہے اور نتیجہ بھی۔

وقت کا آغاز حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل ہوا تھا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل زماں و مکاں کی صورت گری اور ہیئت سازی کرنے کا اشارہ کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو‘ حالانکہ تم بے جان تھے‘ اس نے تم کو زندگی عطا کی‘ پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا‘ پھر وہی تمھیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا‘ پھر اسی کی طرف تم کو پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے‘ جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں‘ پھر اُوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۸-۲۹)۔انسان کو خلیفہ کی حیثیت سے بنانے سے قبل زمین کو انسان کے لیے تیار کر دیا گیا تھا اور زمین نے اپنا دورہ شروع کر دیا تھا۔ زمینی وقت میں دن اور رات کی گردش‘ موسمیاتی تغیرات‘ ماہ و سال‘ صدی و ہزاروں کا ایسا نظام بنایا گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا اور اس کے تمدن کا ارتقا ممکن ہوجائے۔ تمام قدرتی عوامل وقت کے نظم کے پابند ہیں۔ ہر شے اور ہر فعل کے ساتھ وقت کی تقدیر مطلق ہے۔

زمینی وقت کا‘ جس کا اہتمام انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے لیے کیا گیا ہے‘ نقطۂ اختتام قیامت ہے۔ یہ وہ دن ہے جب وقت کا دورہ تھم جائے گا۔ اس کا پھیر اس کو ایک ایسے مقام تک پہنچا دے گا جہاں یہ پورا نظمِ وقت تہس نہس ہوجائے گا۔ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ وقت کے اس دورے اور پھیرے کے اُوپر اپنی زندگی کی بقا کے لیے منحصر ہے۔ کوئی شے‘ کوئی زمینی عمل‘ بس اتنا ہی پایدار ہو سکتا ہے جتنا کہ زمینی وقت۔ زمین اور آسمان کے درمیان ہر شے اس وقت کو قائم رکھنے اور اپنے عرصۂ حیات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وقت کے کندھوں پر یہ سفر اِن کو آغاز سے فنا کی طرف لے جاتا ہے۔

زمینی وقت کی خصوصیات میں اس کے نقطۂ آغاز‘ نقطۂ اختتام‘ دورے اور پھیرے کی شکل میں مسلسل حرکت‘ مدت اور مہلت کے تعین اور آخرت کی سمت کی جانب بہائو کے علاوہ ایک اور بڑی خصوصیت اس کا مختلف مرحلوں اور ادوار میں قابلِ تقسیم ہونا ہے۔ اس طرح واقعات کا ہونا ممکن ہو جاتا ہے اور وقت کا میدان مختلف مدارج سے گزرنے کے قابل بناتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی اُوپر پیش کی گئی آیت میں زمینی وقت کے ساتھ انسانی زندگی کی پانچ حالتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ انسان پہلے بے جان تھا‘ پھر اس نے زندگی پائی اور اپنے عرصۂ حیات کو مکمل کر کے دوبارہ بے جان ہوگیا۔ اس کے بعد پھر اسے زندگی دی جائے گی اور وہ اللہ کی طرف پلٹ کر جائے گا--- ہر انسان کی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقلی وقت کی اپنی منزل کی جانب مسلسل پیش رفت کا ثبوت ہے۔

انسانی شعور کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے جسم و جان کے زمینی وقت کی حدود و قیود میں مجہور اور پابند ہونے کے باوجود آخرت اور اس کے بعد کے وقت کا نہ صرف ادراک کر سکتا ہے بلکہ غیب سے تعلق جوڑتے ہوئے آخرت اور دوزخ و جنت کی کیفیات کو پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو سکتاہے۔ انسان اور کسی بھی دوسری تخلیق میں جو زمینی وقت میں گرفتار ہے یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی یہی صفت بیان کی ہے کہ ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۴) ۔ گویا انسان آخرت کو اس انتہا تک دیکھ سکتا ہے جہاں اُس کو یقین ہو کہ وہ وقت موجود ہے‘ بلکہ اگر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے اس سوال کے جواب میں کہ احسان کیا ہے؟ رسولؐ اللہ کے اس ارشاد پر غور کیا جائے کہ ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اس کی قدرت نہیں رکھتے تو اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘، یعنی غیب کو بغیر اپنی آنکھوں سے دیکھے انسان چشمِ بصیرت سے پا سکتا ہے اور اپنے دل میں جذب کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسان طبیعی لحاظ سے زمینی وقت کے تابع رہتے ہوئے بھی حقیقی طور پر آخرت کے وقت پر یقین رکھے اور اپنے آپ کو اُس کے لحاظ سے تیار کرے۔ تجرباتی و مشاہداتی سطح پر اس کا اس طرح ادراک کرے جیسے اس کو دونوں آنکھوں سے نظرآجانے والی کسی چیز کا ہو سکتا ہے۔ ایمان بالآخرت نام ہی بیک وقت دو اقسام کے وقت کی مختلف حالتوں اور اُن کے تقاضوں کو سمجھنے اور برتنے کا نام ہے۔ ایمان سے محرومی کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو آخرت کے وقت کے اُن عظیم تصورات اور اس کے لامتناہی اثرات سے الگ کر لیتا ہے۔ وہ ایک ساکت نما وقت کی سلسلہ وار حرکت اور اس کے بتدریج ماہ و سال کی صورت میں آگے بڑھنے کی حد تک محدود ہوجاتا ہے۔ وقت کا ایسا ساکت اور یک رُخا تصور انسانی زندگی کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ زندگی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے سارے مراحل اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انجامِ کار اور اتمام سعی کی فکر ختم ہوجاتی ہے۔ ذمہ داری اور جواب دہی کے ذریعے نظم پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ ظاہرہے زندگی کی تعریف اور اس کا تقاضا وقت کے آئینے ہی میں ہو سکتا ہے۔

کسی انسانی جان کی پیدایش یا اس کا خاتمہ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کی نشانی ہوتا ہے‘ یہ آیت انسانی زندگی کے دورہ کو سمیٹ لیتی ہے۔اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے اور اسی  طرف واپس لوٹ کر چلی جاتی ہے۔ کیلنڈر اور گھڑی کے بتائے ہوئے وقت سے ایک گاڑی کی طرح وقت کے آگے بڑھنے یا دریا کے بہنے کی طرح وقت کے گزرنے کا تاثر تو ملتا ہے لیکن وقت کا مہلت اور میعاد ہونے کا تاثر نہیں ملتا ہے۔

آخرت کے وقت کی فکر میں جذب ہو کر زمینی وقت کی مجبوریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے‘ اس کی پابندیوں سے بالآخر آزاد ہوا جا سکتا ہے۔ زماں کی حدود‘ مکاں کی قیود کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ زماں و مکاں کا نظام انسانی زندگی کی استواری کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے خول سے ایمان کے نتیجے میں ہی باہر نکلا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لیلۃ القدر کا انعام ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ ایک ہزار مہینوں کا مطلب ۳۰ ہزار دن یا ۸۳ برس سے زائد کی عمرہے‘ یعنی ایک رات یا پانچ راتوں کی عبادت ایک زندگی اور ایک عمر کے برابرقراردی گئی ہے۔ ۱۰ سال اگر لیلۃ القدر کا اہتمام کیا جائے تو ۱۰ زندگیاں نذر ہوگئیں۔ ایمان کے علاوہ وہ کون سا دوسرا راستہ ہے جو ایک رات کی یہ قیمت دے سکتا ہو۔ اس طرح ہر نیکی کا کم از کم اجر ۱۰گنا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر منحصر ہے۔ شہادت موت کو شکست دے دیتی ہے۔ موت کو موت کا شکار کر دینا نظمِ وقت کے طبیعی اصولوں کی اور سائنس دانوں کے فہم وفراست کی روشنی میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ صرف ایمان بالآخرت کی وجہ سے ممکن ہے۔

تاریخوں کے تعین کے لیے اسلامی کیلنڈر قمری حساب سے استوار ہوتا ہے۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے نبی! لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۹)۔ اس آیت سے قبل جو آیت ہے وہ لوگوں کے مال ناروا طریقے سے نہ کھانے کی ہدایت کرتی ہے۔ شمسی نظام کو اختیار کرنے کی ایک وجہ دراصل سودخوری تھی۔رومی دور میں سود کا حساب رکھنے کے لیے کیلنڈر کی صورت میں ایام اور ماہ و سال کا حساب رکھا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں موسم اور دوسرے قدرتی تغیرات کا حساب تو رکھا ہی جاتا تھا۔ اسلام کیلنڈر کے لحاظ سے قمری اور دن میں عبادات کے اوقات کے تعین کے لیے سورج کو ذریعہ بناتا ہے۔ نمازوں اور رمضان میں سحروافطار کا حساب سورج سے ہوتا ہے‘ جب کہ رمضان اور حج کا حساب چاند سے رکھا جاتا ہے۔ چاند کے ذریعے وقت کا دوراتی حساب رکھا گیا ہے اور سورج کے ذریعے وقت کا سلسلہ جاتی حساب رکھا گیا ہے۔ وقت کا پیغام دورے کے لحاظ سے پلٹنے کا ہے‘ گھیرا مکمل کر جانے کا ہے اور مدت کے لحاظ سے دو واقعات کے درمیان عرصے کی پیمایش کا ہے۔ اسی لیے گھڑی سورج کے حساب سے مدت بتاتی ہے۔

وقت کے ذریعے سے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انسانی عمل کا وسیلہ وقت کی سواری   ہے۔ وقت کے دو مرحلوں میں جو تبدیلی واقع ہوتی ہے وہ ایک واقعے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا یہ اوّلین مظہر توحید کا بھی بہت بڑا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ ’’اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے‘ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ پردئہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے۔ اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے۔ اسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے۔ یہ سب اسی زبردست قدرت اورعلم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں‘‘۔ (الانعام ۶:۹۶)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ وقت کو‘ وقت کے ساتھ ارتقا کو‘ تخلیق کے تسلسل کو‘ زندگی اور موت کے مدارج کو‘ توحید کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے‘ یعنی وقت‘ توحید‘ اور تخلیق ان تینوں کا تعلق اس آیت میں ظاہر ہے۔ مغرب کے مادی اور مشینی تصور کے مقابلے میں اسلام وقت کو زبردست تخلیقی تحریک اور قوتِ کار کے طور پر پیش کرتا ہے۔

سورج اور زمین اپنے محور اور مدار پر ہیں۔ لیکن اِن کے تعلق میں اس انداز سے تبدیلیاں آتی ہیں کہ اس دنیا میں نباتات‘ جمادات‘ حیوانات اور انسان کی زندگی کی بقا ‘ نسل کے تسلسل اور پھیلائو کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ دن اور رات کا اختلاف‘ رات کی تاریکی میں دن کا نکل آنا اور دن کی روشنی کا ڈھل کر دوبارہ رات ہوجانا‘ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر معانی کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ دن اور رات کا اختلاف درحقیقت دو متضاد اور مختلف حالتوں کی موجودگی کی دلیل ہے۔ اس دنیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ دو قوتیں حق اور باطل کی ہیں‘ خیر اور شر کی ہیں‘ ایمان اور کفر کی ہیں۔ دن کی روشنی دعوتِ عمل دیتی ہے‘ رات کی تاریکی طلبِ سکوت لے کر آتی ہے۔ دن کا پوری طرح سے روشن ہو کر پھربتدریج مدہم ہو جانا اور رات کے سماں کا چھا جانا‘ اس دنیا کی عارضی چکاچوند کا ثبوت ہے۔ فنا ہو جانا اور ختم ہو جانا جو اِس کا مقدر ہے‘ اُس کا اظہار ہے۔  جس خدا کے ہاتھ میں دن اور رات کا آنا اور جانا ہے اس کے ہاتھ میں عزت و ذلت بھی ہے۔ زندگی کے بعد موت کی یاد دہانی کے لیے شام کا اور پھررات کا آنا بہترین تذکیر ہے۔

دن اور رات کا مسلسل ایک ڈھب پر اور ایک اصول کے مطابق آنا اور جانا‘ اس کائنات میں تنظیم‘ ترتیب‘ اور پیہم حرکت کی نشانی ہے۔ جمود کے مقابلے میں تبدیلی پر مبنی فطرت کا اظہار ہے۔ تغیر اور تبدل کا پیغام ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا‘ اس کے تقاضوں کا مؤثر جواب دینا‘ اس کی ضرورت کا شعور اور احساس کرنا‘ کامیاب زندگی کا تقاضا ہے۔ انسان کی زندگی کو جہاں سورج کی حرارت چاہیے تاکہ روشنی اور گرمی پہنچے ‘ وہیں رات کا سکون اور ٹھنڈک بھی چاہیے تاکہ قوتِ عمل کو تازہ کیا جائے اور زندگی کو جو گھر اور باہر تقسیم ہو جاتی ہے‘ مربوط کیا جائے۔ زندگی کے خارجی اور اندرونی پہلوئوںمیں توازن پیدا کیا جائے۔دن کو دنیا نظر آتی ہے اور خوب متاثر کرتی ہے‘ اپنے آپ سے وابستہ کرلیتی ہے۔ رات کو آسمان کے نیچے ستاروں کا خوب صورت ہجوم نظر آتا ہے۔ نگاہ اُوپر اٹھ جائے تو واپس نہیں آتی۔

دن اور رات کا آنا اور جانا موسمیاتی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ ہوائوں اور بارش کا نظام‘ درجۂ حرارت کی تبدیلیاں اسی عمل سے وابستہ ہیں۔ زمین کے سینے میں چھپا ہوا دانہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے کونپل بن کر نکلتا ہے۔ مختلف موسم مختلف انواع وا قسام کے پھل لاتے ہیں۔ زمین میں زندگی پانا تو ویسے ایک دفعہ ہی ہوتا ہے اور زندگی کا موت کی صورت میں تبدیل ہونا بھی۔ لیکن روزانہ اُٹھنے اور سونے کا جو انسانی عمل ہے اس کو بھی زندگی اور موت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وہی ہے جو رات کو تمھاری روحیں قبض کر لیتاہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔ پھر روز وہ تم کو اس کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ آخرکار اسی کی طرف تمھاری واپسی ہے۔ پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو (الانعام ۶:۶۰)۔ زندگی اور موت جیسی حالت میں‘ روزانہ مبتلا کرنے کا مقصد‘ اس بات کو مسلسل تازہ رکھتا ہے کہ ایک وہ وقت آئے گا جب بند ہونے والی آنکھ دوبارہ حسب معمول نہیں کھلے گی اور جب اس دنیا سے رشتہ کٹ جائے گا۔ اس لحاظ سے طبیعی وقت ایک ڈرانے والا وقت ہے۔ یہ لرزہ طاری کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس وقت میں الحاقۃ‘ القارعۃ ‘ الواقعہ جیسے ہولناک موڑ کا آنا یقینی ہو‘ اس کا ہر لمحہ کتنی نازک ذمہ داری لے کر آتا ہے۔

دن اور رات کے عمل کے بغیر زمین اور آسمان کی تخلیق مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وقت کا جو نظام اس طرح تشکیل پا گیا وہ ایک قرینہ فراہم کرتا ہے‘ ایک فطری اسلوب اور قدرتی ڈھانچا بن جاتا ہے۔ اس کائنات کی ہر شے اپنے نمو اور ارتقا کے نظام کے لیے لیل و نہار کی گردش کی تابع ہے۔ تخلیق کا یہ عمل دن اور رات کے رُک جانے پر ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ بس ایک نظام ہے جس کا ایک مقصد ہے۔ قرآن بار بار اس نظام کی جانب توجہ اس لیے مبذول کراتا ہے کہ وہ مقصد واضح ہو جائے جس کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے جب وقت کے خول سے باہر نکل کر اپنے وجدان اور شعور کا استعمال کیا تو وہ نظمِ وقت کے ظاہری عمل یعنی چاند‘ سورج اور ستاروں کی دوڑ سے دھوکا کھانے سے بچ گئے۔ اُن کو دوسری نظر میں معلوم ہوگیا کہ یہ تو خود محکوم ہیں۔ آپ کی یقین افروز بصیرت نے پھر اُس کو پا لیا جو غیب کے پردوں میں بظاہر چھپا ہوا ہے لیکن سب کا خالق ہے اورخوب واضح ہے۔ سورج باوجود بڑے اور بھاری اور خوب روشن ہونے کے محض ایک علامت تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اس طرح غوروفکر کے عمل سے گزر کر ایمان و یقین کی لازوال نعمت سے مالا مال ہوگئے۔ ان کو اُبھرتے اور ڈوبتے وقت نے یہ بتا دیا کہ یہ سب کچھ ایک مقصد کے تحت خالق کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ وقت نے وہ رخ متعین کر دیا جس کی طرف پھر کر حضرت ابراہیم ؑ یکسو ہوگئے۔ ’’میں نے تو یکسو ہو کر اپنارخ اس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے‘‘ (الانعام ۷:۷۸)۔ (جاری)