ڈاکٹر حسن صہیب مراد


جماعت اسلامی اپنی ہم عصر قومی سیاسی و دینی جماعتوں ہی میں نہیں‘ بلکہ دیگر اسلامی تحریکوں کے درمیان بھی ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ۲۰ ویں صدی میں اس جماعت نے نہ صرف ملکی سیاست بلکہ معاشی‘ معاشرتی‘ تعلیمی‘ ثقافتی اور دفاعی معاملات میں قومی ترجیحات کے تعین‘ اقدار کے تحفظ اور رجحانات کے فروغ میں بھی اپنا خاطرخواہ اثر ڈالا ہے۔ سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اہل دانش‘ جماعت اسلامی کو پاکستان کی انتہائی منظم اور بین الاقوامی سطح پر با اثر جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔

جماعت کا کردار‘ قومی ارتقا میں تبدیلی کے جان دار محرک کے طور پر ہمیشہ مسلمہ رہا ہے۔ جماعت کی اس دیرپا اور ممتاز خصوصیت کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھنے کے بجاے بعض تجزیہ نگار مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سوشلسٹ لیڈر طارق علی نے لاہور میں گذشتہ برس تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے زیادہ منظم جماعت ہے‘ مگر اس نے تنظیمی اصول کمیونسٹ پارٹی سے لیے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کمیونسٹ پارٹی کوئی آئیڈیل اور مثالی تنظیمی اصول رکھتی تھی‘ تو پھر وہ اپنی اٹھان کے بعد بقا اور اقتدار کے لیے محض ریاستی جبر ہی کی محتاج کیوں رہی‘ اور پھر یہ کہ آج معدوم کیوں ہوگئی ہے؟

  • ابتـدائیہ: جماعت اسلامی‘ اپنے موسس سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شاہکار تخلیق ہے۔ بجا طور پر اسے ان کی تنظیمی فکر اور قائدانہ صلاحیت کا پر تو قرار دیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی جماعت یا ادارے کے لیے اپنے بانی کی فکر اور قیادت کی چھاپ سے فرار اختیار کرنا ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تنظیم کا قیام‘ اس کی ترقی اور وسعت‘ اس کا زمانی و مکانی ارتقا‘ پیش آمدہ چیلنج اور مقابلے کی حکمت عملی‘ ان سب کا انحصار خاصی حد تک بانی کی سوچ پر ہوا کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد‘ تنظیم و قیادت کے جن اساسی تصورات پر رکھی گئی اور جس کی جھلک آج بھی اس کے کام کے مختلف گوشوں میں دیکھی جا سکتی ہے‘ اس کا مشاہدہ اس کے بانی کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ مولانا مودودیؒ Organization & Management Science (علم نظمیات و ادارات)کے شعبے میں کلیدی مقام کے حامل ہیں۔ نظم و قیادت کے امور پر سوچنے اور سمجھنے والوں کی اکثریت‘ مشاہدے کے ذریعے تنظیمات و قیادت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی ہے اور بالعموم قرطاس و قلم تک ہی محدود رہتی ہے۔ دوسروں کے کام کو دیکھنا‘ پرکھنا‘ اور سمجھنا آسان کام ہے۔ مولانا مودودی کی خدمات‘ علم و عمل دونوں لحاظ سے کسی بھی دوسرے ماہر علم اجتماعیات و ادارات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس پہلو سے ان کی فکر اور ان کی عملی کوشش کا ماہرانہ جائزہ اب تک باقاعدہ طور پر نہیں لیا گیا ہے۔

اس مضمون میں پیش کردہ معروضات کا مقصد مولانا مودودی کو ان کے تنظیمی کارنامے کی روشنی میں‘ علم نظمیات کے شعبہ میں متعارف کرانا ہے۔ اس شعبہ علم میں وہ دو لحاظ سے تحقیق اور مباحثے کا اہم اور دل چسپ موضوع بن سکتے ہیں۔ انھوں نے اس موضوع پر تفہیم القرآن اور دیگر تحریروں میں تفصیلی گفتگو کی ہے: معاشرے کی تنظیم‘ قوم و ملک کی سطح پر بننے والی اجتماعیت‘ تنظیم سازی‘ تحریک اٹھانے اور چلانے کا عمل‘ حکومت کا نظام اور اس کے متبادل راستے‘ قیادت اور اولوالامر کی ذمہ داریاں‘ شہریوں یا ممبران کے فرائض و حقوق وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اور اس کے علاوہ بھی اس اہم موضوع سے متعلق دیگر امور پر مولانا مودودی نے گہرائی کے ساتھ اور کھل کر اپنی آرا کو پیش کیا ہے۔ نظریاتی دلائل دینے کے ساتھ ساتھ تاریخی تجزیے بھی کیے ہیں۔یہ افکار تنظیم سازی کے میدان میں ایک نئے زاویۂ نظر کے اضافہ کا باعث ہیں۔ بالخصوص ایک ایسے شعبۂ فکر میں کہ جس کی تشکیل بنیادی طور پر لادینی فکر کے سائے میں ہوئی ہے۔

ثانیاً‘ انھوں نے اپنے آپ کو نظریت تک محدود رکھنے اور علمی قیادت کے بلند منصب پر محض فائز رہنے کو کافی سمجھنے کے بجاے عملی قیادت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اس لحاظ سے خود اپنا ایک ’خصوصی مطالعہ‘ (case study) بھی فراہم کیا۔ نظری و اصولی بحث کے شیش محل سے باہر نکل کر‘ عملی میدان میں خاک آلود ہونے کا خطرہ مول لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے مولانا مودودی نے اپنے افکار و نظریات کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچایا؟ انھوں نے مقصدی لحاظ سے کیا کھویا اور کیا پایا؟ خلافت و ملوکیت اور تجدید و احیاے دین کے بے لاگ مصنف نے خود کیا معیار اور نمونہ چھوڑا؟ اس نمونے کے مثبت یا منفی پہلو کیا ہیں؟ یہ سوالات آج کے اور مستقبل کے مورخ کی دل چسپی اورتوجہ کا موضوع بن چکے ہیں۔ زیر نظر مضمون مولانا مودودی کی تنظیمی میدان میں فکری و عملی کاوش کو مرکز بحث بنانے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ بلاشبہہ ان کی تنظیمی خدمات کو جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا وہ اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ یہ کام ایک معروضی جائزے کا محتاج ہے۔

۱

گذشتہ نصف صدی میں‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد نظم و ادارات اور تنظیم و قیادت کے شعبے میں فکری وعملی اعتبار سے بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ جامعات میں اس مضمون سے متعلق خصوصی شعبے اور ادارے بہت مقبول ہوچکے ہیں۔ ایک نئے اختصاصی صنفِ علم کی تشکیل کا یہ سارا کام‘ مادیت اور لادینیت کے فکری ڈھانچے میں ڈھلا ہے۔ اس فکر کے تحت قائم ہونے والے تعلیم و تربیت کے مراکز دنیا بھر میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ ہر ایک یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ انسان کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟ قیادت کے اوصاف کیا ہونا چاہییں؟ تنظیمی عمل کن عوامل کا مرکب ہے؟ انسانوں کی فطری جبلت کیا ہے؟ ان سے کس طرح اعلیٰ معیار پر کام لیا جا سکتا ہے؟ کون سی اقدار اور کون سے اصول انسانی تعلقات کو مثبت رخ دے سکتے ہیں؟ تنظیم کی ساخت کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟ تنظیمیں اپنے ماحول پر کیسے اثر ا نداز ہوتی ہیں اور کس طرح ماحول پر اثر ڈال سکتی ہیں؟ فیصلہ سازی کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟ اجتماعیت میں انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ کون سے محرکات انسان کو فعال بنا سکتے ہیں؟ تنظیم کا تشخص کیسے قائم ہوتا ہے؟

ریاستی اداروں‘ فوج‘ سیاسی جماعتوں‘ کاروباری اداروں‘ غیر سرکاری تنظیموں‘ بین التنظیمات انجمنوں (Interorganizational Associations) ہی کا نہیں بلکہ ہر خاندان اور فرد کی کامیابی و ناکامی کا انحصار درج بالا سوالات کے جوابات پر ہے۔ مغرب میں علوم اجتماعیہ کے فکری امام اور ان کے پیروکار گذشتہ عرصے میں افراط و تفریط کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ایک نظریے کی ناکامی کے بعد وہ دوسرے نظریے کی طرف قلابازی کھا کر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے سے مایوس ہو کر تیسری طرف ٹکر مارتے ہیں۔ انھی ٹامک ٹویوں کے نتیجے میں نظریۂ قیادت‘ فکرِاجتماعی اور اصولِ ادارت کو ٹھیرائو نہیں مل سکا۔ ایک دور کے مقبول ترین قاعدے اور مقدس کلیے اگلے دور میں آسانی کے ساتھ مسترد کر دیے گئے۔ اس شعبۂ علم کا جھکائو اب آخرکار ان نظریات اور اقدار کی جانب ہو رہا ہے‘ جس میں بعض مولانا مودودی کے طرز قیادت اور تصور تنظیم سے کسی نہ کسی درجے مناسبت بھی رکھتی ہیں۔

آج کاروباری اداروں میں مشن‘ مقاصد‘ اخلاقیات‘ خدمتِ عامہ‘ ایمان پر مبنی قائدانہ کردار‘ انسانی اثاثہ کی نشوونما‘ کسی بھی کام کے نتیجے کا انتظار کرنے کے بجاے نتیجے کا پہلے سے اندازہ لگانا‘ فیصلہ سازی میں اقدار اور پیمان کو اولیت دینا‘ تنظیم میں روایات کو شعوری طور پر فروغ دینا‘ طویل المیعاد اور مابعد طویل المیعاد بنیاد پر سوچنا‘ دنیا کو اکائی کی صورت میں دیکھنا‘ اموال اور افراد کے مابین ترتیب کو درست کرنا‘ انسان کو محض مادی جنس سمجھنے کے بجاے اس کے دل و دماغ کے مرکب اور روحانی اور جذباتی پہلوئوں کو بھی بروے کار لانا‘ اجتماعی سرگرمیوں کو ہر سطح پر جواب دہی اور امانت داری کے ساتھ انجام دینا‘ یہ اور اس طرح کے بہت سارے دیگر تصورات جو آج تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں‘ جدید دور میں مولانا مودودی نے کم و بیش ان تمام امورِ نظم و ربط کو عملاً جماعت میں کہیں زیادہ خوبی اور کمال کے ساتھ رائج کیے ہیں۔ اگر مولانا مودودی کے تنظیمی نظریات اور ان کا تنظیمی کارنامہ مغربی درس گاہوں اور علم تنظیم کے ماہرین تک کسی صورت میں پہنچ پاتا تویقینا ان کے افکار کی ضرور قدر ہوتی اور وہ اس مضمون کے صف اوّل کے ماہرین بھی شمار ہوتے۔

مولانا مودودی نے عملی زندگی کا آغاز علمی صحافت سے کیا تھا۔ ان کے مضامین کی پذیرائی اور مقبولیت نے ان کو بہت جلد صف اول میں لاکھڑا کیا۔ ان کے فکر کی گہرائی‘ اسلام سے لگن‘ حالات پر عبور‘ اور طرز تحریر کی اثر پذیری نے ان کو فکری رہنما بنا دیا۔ کسی عام فردکے لیے اس مقام پر پہنچ جانا کافی ہوتا ہے۔ کتب کی تصنیف‘ مذاکرے اور مباحث میں شرکت کی دعوتوں کا طومار‘ نقادوں اور تبصرہ نگاروں کی دل چسپی‘ اور فکر کی بڑھتی ہوئی چھاپ‘ صاحب قلم وقرطاس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بس اسی میدان کا ہو کر رہے اور بلاوجہ عملی کاوش کی آزمایش میں اپنے آپ کو مبتلا کرنے سے بچ کر رہے۔ فکر کو عملی روپ دینا سخت مشکل کام ہوتا ہے۔مولانا مودودی اگر قُل تک محدود رہتے تو بھی وہ برصغیر کے نامور ترین علما میں شمار ہوتے اور ان کی فکر دُور دُور تک پھیلتی۔ لیکن قُل کے بعد قُم کے منصب پر فائز ہو کر انھوں نے ان گنت دشمنیاں‘ مصائب اور خطرات مول لیے۔

مولانا مودودیؒ نے حق کو واشگاف کیا اور ا س کے بعد ’حقیقت‘ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ جمعیت العلما کے اخبار الجمعیۃ کی ادارت سے جماعت کی امارت کا سفر‘ اجتہاد سے جہاد کی معراج کا عنوان بنا۔ اسی سفر کے دوران وہ رسولؐ اللہ کی اتباع کرتے ہوئے ہجرت کے راستے پر چلے اور تاسیسِ تحریک کے اقدام کی منزل کو سامنے پایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنف مودودی کی خشتِ اوّل ہی میں موسسِ تحریک‘ سید مودودی کی صورت پنہاں تھی۔ الجہاد فی الاسلام ان کی پہلی پکار بھی تھی اور اس پکار پرپہلی لبیک بھی ان کی اپنی تھی۔ منزل کی طرف  قدم بڑھانے کا عزم بھی موجود تھااور تحریک کے لیے قربانی کا شعور بھی موجزن تھا۔

مولانا مودودی کے لیے فکری قیادت سنبھالنے کے بعد‘ عملی قیادت کے میدان میں قدم رکھنا ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ بالعموم یہ دو مختلف خصوصیات رکھنے والے مزاج کی شخصیتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ فکری قیادت: سوچ‘ مطالعے‘ مشاہدے‘ خلوت اور فکری مباحث میں شرکت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میدان میں ممتاز ہونے کے لیے عمل کا روگ نہ لگا ہو تو اسے بھی ایک خوبی سمجھا جاتا ہے۔ فرد‘ حساب دینے کی پابندی سے آزاد رہ کر صرف نظری مہارت تک محدود رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عملی قیادت: تحرک‘ رابطہ‘ دورہ‘ مہمات اور اثر و نفوذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے جتناکام کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا ہوتا ہے کہ نظریات کے قلاوے سے دور رہا جائے‘ تاکہ پابندیاں کم سے کم ہوں۔ اکثر مفکر‘ مصلح بن کر پھر مصلحت اور مصالحت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ بالعموم بڑے رہنما ان دوخانوں میں سے کسی ایک میں تخصص حاصل کرکے ہی اپنی قیادت کے جوہر دکھلا پاتے ہیں اور ایسا کرنے کو بالعموم کوئی عیب بھی نہیں کہتا۔

مولانا مودودی نے دونوں میں منقسم یا کسی ایک میں مقید ہونے کے بجاے دونوں کو ایک ہی وحدت کے دو تقاضوں کے طور پر دیکھا۔ ان کی تقریر آسانی سے تحریر بن جاتی ہے اور تحریر میں تقریر کا مزا لیا جاسکتا ہے۔ ان کا قول ایک پکار کی مانند بلند ہوتا ہے‘ جب کہ ان کا    عمل اس قول کی تائید میں گواہی دیتا ہوا ہر لفظ کے پیچھے نظر آتا ہے۔ ایک صاحبِ کلام فرد کا صاحبِ تنظیم بن جانا شخصی لحاظ سے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کمال درجے کے قائدانہ معیار پر گذشتہ صدی میں مشرق و مغرب میں اور کون پہنچ سکا ہے؟ یہ نمونہ پیش کرنا کسی کرشمے سے کم نہ تھا۔ قولی شہادت اور عملی شہادت دونوں کی ادایگی‘ زمین کے اوپر تنظیم کی گاڑی کی ڈرائیوری اور ساتھ ہی افکار کے افق پر مسلسل ضربِ کاری اور ان دونوں کاموں کو ساتھ لے کر چلنا ایک ایسے ذہن کی غمازی کرتا ہے کہ جو تنوع کو وحدت کا رخ دے سکتا ہے۔ جو کہنے اور کرنے کو دو الگ نوعیت کے کام سمجھنے کے بجاے ان کو ایک کام کے دو زاویوں کے طور پر نبھا سکتا ہے۔

علمی کام تو عام طور پر درس گاہوں‘مکتبوں اور کتب خانوں تک محدود رہتا ہے۔ جہاں بعد میں بھی ان کو پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ تنظیم کی بنا ڈال کر مولانا مودودی نے اپنے علمی کام کو جہاں ایک جانب محدود کر لینے کا اور اسے مخالفین کی جانب سے تنقید و جرح کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لیا‘ وہیں بالآخر اس کام کو تحریک کی شکل دے کر زیادہ موثر اور دیرپا بنانے کا انتظام بھی کیا۔ مؤثر تحریر وہی کہلائے گی جو عملی دنیا میں تبدیلی لا سکے۔

مولانا مودودی نے کتاب اور انسان دونوں ہی تصنیف کیے ہیں۔ انسان کے لیے کتاب تھی اور کتاب کے لیے انسان تیا ر ہوئے۔ فَانْتَظِرُو سے فَفِرُّوکے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہا۔ مفکرمودودی کی فکر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے: انھیں جو کرنا چاہیے وہ اسے       نہ کرتے‘ قعدہ ہی میں رہ کر سوزوساز میں مشغول اور قیام سے غافل رہتے تو ان کی تحریریں    بے جان اور غیر متعلق ہوکر رہ جاتیں اور تاریخ کا فیصلہ ان کے بارے میں مختلف ہوتا۔

۱۴۰۰ سال پہلے کہی ہوئی بات کو نئے تناظر میں پیش کر دینا ایک طرف‘ لیکن اس نظام کے ازسرنو قیام اور اس کو اعلیٰ درجے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا معیار قرار دے کر تحریک کھڑی کر دینا‘ مجاہدانہ جرأت ہے۔ وہ بھی ایک ایسے دور میں جبکہ زوال پستیوں کو چھو رہا ہو‘ ملت کا شیرازہ پارہ پارہ ہو چکا ہو‘ غلامی کا شکنجہ ذہنوں کو جکڑ چکا ہو‘ مغرب زدگی کا چلن عام ہو‘ مذہبیت فرسودگی کی علامت ہو‘ مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو متحدہ قومیت کے تیزاب میں پھینکے جانے کی تیاری ہو رہی ہو‘ مجرد مادی ترقی کو تمدنی ترقی کا قائم مقام سمجھ لیا گیا ہو‘ اور مشین کے اوتار کو قیام و سجود کا سزاوار سمجھ لیا گیا ہو۔

ایسے دور میں کیا مولانا مودودی تنظیم کھڑی کرنے میں حق بجانب تھے؟ کیا وہ یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ ’’حالات مزید سازگار ہو جائیں تو قدم اٹھانا چاہیے‘‘ --- بھلا ۷۵ افراد اور ۷۴روپے سے کیا بوجھ اٹھانا مقصود تھا۔ جو کام صدیوں میں دوبارہ نہ ہو سکا‘ اس کو منزل مقصود بناکر چلنا کیا دانش مندی تھی؟ ان کے سامنے کیا نسخہ تھا جس پر ان کو بھروسا تھا کہ اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اسباب و تدابیر کا کون سا امتزاج پیش نظر تھا جو ان کے خیال میں قومی سطح پر بڑی تبدیلی لانے کا باعث بن جائے گا؟ مولانا نے تنظیم کی جدت کو‘ اسلام کے کا م کے لیے کیوں اختیار کیا؟ اور پھر سب کچھ تنظیم کے لیے وقف کر دیا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو فکری قیادت کے وسیع اور محفوظ اُفق سے گرا کر کچھ کر کے دکھانے کا شوق کس بل بوتے پر پالا؟

۲

درحقیقت تنظیم وہ حکمت تھی‘ جو ان کو امید دلاتی کہ صرف کچھ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ پاکیزہ اور پختہ افکار کی قوت کے ساتھ اگر تھوڑی تعداد میں سہی‘ لیکن منظم گروہ کھڑا ہو تو وقت کے دھارے کو موڑنے اور نئے مستقبل کو ترتیب دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنظیم ایک موثر ہتھیارہے جو پیغام کو تحریک کا روپ دے کر قوت و اختیار کے ایوان میں پہنچا سکتا ہے۔ مولانا مودودی پختہ نوعیت کا تنظیمی ذہن رکھتے تھے‘ جو دلیل‘ اسباب اور عمل کے پیمانے کو اُس کے ربط اور ضبط کے ساتھ اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔ ان کی وہ تحریریں جو قیام جماعت سے قبل شائع ہوئی ہیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ قوموں کی ہیئت ترکیبی‘ اجتماعی بنائو اور بگاڑ‘ عملِ قیادت‘ مقصدیت اور اس کے تقاضے‘ نظمیات‘ علوم اجتماعی اور قانون سازی پر انھیں گہرا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے غالب جماعتوں اور ان کی مقبول قیادت کو منطق سے بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا۔    تجدید واحیاے دین کی کاوشوں کا تاریخی طور پر جائزہ لیا‘ اور نظام ریاست کو اس کی تمام تر باریکی اور پیچیدگی کے ساتھ سمجھا۔  شہادت حق سے لے کر اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘ پھر ہدایات سے لے کر کامیابی کی شرائط تک‘ اور تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل سے لے کر خلافت وملوکیت تک‘ ان کا تجزیہ ایک ماہر تنظیم کا ثبوت دیتا ہے۔ رسولؐ اللہ کی بنائی ہوئی اجتماعیت اور تحریک پر اُن کی گہری نظر‘ ان کے قاری سے چھپی نہیں ہے۔

مولانا مودودی نے دوسروں کے تنظیمی ماڈل کے محاسن و عیوب کا کھلے عام جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک مختلف اور نیا تنظیمی ماڈل تجویز کیا۔ حکمت و ہمت کے ساتھ اس ماڈل کو عملی روپ دینے کی کوشش کی۔ ان کی بنائی ہوئی تنظیم کا ایک عرصہ ان کی قیادت میں گزرا اور پھر ان کی رحلت کو بھی ایک عرصہ گزر چکا ہے۔  اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے مولانا مودودی کا فیصلہ درست تھا۔ ان کی بنائی ہوئی تنظیم ان کے طے شدہ اہداف پر اور دیے ہوئے معیار پر کس حد تک پورا اتر سکی ہے؟ اس پر بات کرنے کی گنجایش موجود ہے‘ لیکن یہ امر کسی بحث سے بالاتر ہے کہ کیا تنظیم بنانا واقعی ضروری تھا؟

مولانا مودودی کے تصور تنظیم کی آبیاری تو قرآن و سنت کے مطالعے سے ہوئی‘ لیکن مسلمانوں کی تاریخ کے مطالعے نے ان کے اندر تنظیمی ضرورت کی شدت کو ایک نیا اُبھار دیا۔ انھوں نے اس کائنات کو نظم کی نظرسے دیکھا اور اس عظیم نظام کو نقص سے پاک ‘ایک فعال و متحرک کرشمے (dynamic organized entity) کے طور پر دیکھا۔ توحید کو تنظیم کے بنیادی اصول کے طور پر سمجھا اور اختیار کیا۔ صرف اللہ تعالیٰ کو حاکمیت کا مالک سمجھا۔ واضح کیا کہ انسان کو اللہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ بندگی رب اور اطاعت الٰہی نے ان کو دستور‘ ضابطے‘ قوانین سے روشناس کرایا۔ حدود و قیود کی اہمیت کی وضاحت کی۔ انسانوں کی ہدایت کے بعد گمراہی‘ طاغوت کے روپ میں دوسرے انسانوں کو اپنی بندگی کی زنجیر میں جکڑنے کی کوششوں کا تجزیہ انھوں نے قرآن میں  مذکور واقعات کی روشنی میں کیا۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی جدوجہد سے پھوٹنے والی ہدایت سے رہنمائی لینے کا قرینہ سکھایا۔ بالخصوص رسول اللہؐ کی عظیم الشان جدوجہد جو قرآن میں مذکور ہے‘ اسے جدید ترین اسالیب میں پیش کیا۔ امت کا تصور جو نسلی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان پر استوار ہے‘ دراصل ایک جماعت کا عندیہ دیتا ہے۔ امت ایک پارٹی ہے جو حاکمیت الٰہی اورحکومت الٰہیہ کے لیے قائم ہوئی ہے۔ اگر امت یہ کام نہ کر رہی ہو تو وہ بحیثیت امت اپنا منصبی کام نہیں کر رہی ہے۔ امت کا یہ تصور‘ قوموں کی تشکیل کے نظریات سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ایک متحرک اور مقصدی گروہ ہے  جس کا اصل رشتہ زمین کے کسی ٹکڑے یا نسل کے کسی سلسلے سے نہیں‘ بلکہ ایمان سے ہے۔ مملکت اور ریاست کی یہ محتاج نہیں اور زبان و نسل‘ رنگ و علاقہ کی یہ پابند نہیں۔

امت کا یہ تصور‘ اور پھر امت کے اندر ایک ایسے گروہ کی نشان دہی جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے وقف ہو‘ جس نوعیت کی تنظیم سازی کا تقاضا کرتا ہے مولانا مودودی نے عملاً اس کی بنیاد رکھی۔ رسولؐ اللہ نے کس طرح جماعتِ صحابہؓ کے ذریعے تیس سال میں پورب و پچھم کو اسلام کی دعوت سے ہمکنار کر دیا؟ اسوہ رسولؐ اس کا ایک عملی نمونہ ہے۔ یہ ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ عام انسانوں کے ہاتھوں یہ کچھ ہونا ممکن ہے اور ایسا بار بار ہو سکتا ہے۔ بہرصورت اس طرح کی تبدیلی کے قریب پہنچا جا سکتا ہے۔ ایمان اور پھر ہو سکنے پر یقین ہی کر سکنے کی بنیادی تدبیر یعنی تنظیم کی طرف راغب کرتا ہے۔

مولانا مودودی کا ذہن نظم کا خوگر تھا‘ تنظیم کا بھرپور ادراک رکھتا تھا‘ اور تاریخی لحاظ سے انسانی معاشرے میں نظم و تنظیم کے ارتقا کے مراحل کو پہچانتا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ بادشاہت پر مبنی سلطنت کی جگہ جمہوریت پر مبنی مختلف نظریات کے حامل افراد ‘سیاسی پارٹیوں کی صورت میں مجتمع ہو رہے ہیں‘ تاکہ ریاست کا انتظام ان کی ترجیحات اور اقدار کے مطابق چلایا جائے۔

دوسری جانب طبقات اور مفادات کا گٹھ جوڑ ریاستی نظام کی چولیں مسلسل ہلا رہا تھا۔ ریاستی نظام‘ سیاسی جماعتوں کی کش مکش اور ان کے ذریعے نظریات و قیادت کی فراہمی پر منحصر ہوگیا تھا۔ یورپ و امریکہ میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قیام کے ساتھ ہی تجارت و معیشت کے میدان میں بھی بڑی بڑی کمپنیاں عالمی سطح پر اشیا کی کثیر المقدار ترسیل و صناعی کے لیے وجود میں آرہی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجارتی لین دین ہی سیاسی تسلط اور حکمرانی کا ذریعہ بن گیا تھا۔ ریل‘ ڈاک‘ پریس‘ تار‘ موٹر گاڑی‘ ریڈیو‘ فلم‘ اخبار یہ سب کچھ ایسے دور کے آغاز کی نوید دے رہے تھے کہ جس میں کسی قوم کے تمام افراد پہلے سے زیادہ مربوط اور باہم پیوستہ ہوں گے۔ آسانی سے اور جلدی میں متاثر کرنے اور متاثر ہو سکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

مغربی افکار کی گھن گرج‘ اخلاق و اقدار کو لپیٹ میں لے رہی تھی۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے میں کمیونسٹ پارٹی نے روس کو عملاً اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ روس کی قدیم سلطنت ’زار‘(Czar) کا تار و پود کمیونسٹ پارٹی کی یلغار کے سامنے ڈھیر ہو گیا تھا۔ دونوں بڑی عالمی جنگوں نے جدید خطوط پر منظم افواج کی برتری کے نئے اسلوب نمایاں کیے۔ اسی عرصے میں خلافت عثمانیہ کی  ٹوٹ پھوٹ‘ مسلم ممالک میں اسلام کی غربت‘ عوام کی جہالت‘ اخلاقی زوال اور دوسری تبدیلیاں اس بات کا پتا دے رہی تھیں‘ کہ مسلمان قوم‘ تباہی کے غار میں گرچکی ہے‘ نصب العین کھو چکی ہے‘ اپنے عظیم کارنامے بھول چکی ہے‘ اور مرعوبیت نے اس کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ تحرک اور داعیہ مفقود ہے‘ اور قیادت کا بحران‘ نظم و ضبط کا فقدان‘ باہم رسہ کشی اور فکری ژولیدگی اس سب پر مستزاد۔

جس مفکر کو تبدیلی مطلوب تھی‘ وہ اس فضا میں تنظیم کو بحیثیت قوت اور ذریعہ (instrument) کے طور پر روبہ عمل لانے کا قائل ہو چکا تھا۔ مولانا مودودی کا یہ وہ رفیع الشان اجتہاد ہے‘ جس کے اثرات ان کے دیگر فکری کارناموں سے کہیں زیادہ وقیع ثابت ہوئے۔ مسلمانوں کو جدیدتنظیم کی صورت میں پرونے کا کام آسان نہ تھا۔ وہ ایک عام فرد تھے‘ اور ان کے پاس کوئی الہٰ دین کا چراغ نہ تھا۔ دنیا کے مروجہ چلن کے مطابق وہ حکمرانی کا حق بھی نہ رکھتے تھے‘ دولت و قوت بھی نہیں رکھتے تھے‘ اللہ کے عاجز بندے تھے۔ ان کی یہ سوچ کہ: ’’میں بندگان رب کو اکٹھا کروں گا‘‘ اُس زمان و مکان میں ایک جسارت تھی۔ خود اﷲ کے مددگار کی حیثیت سے کھڑا ہوجانا اور دوسروں کو بلانا ایک عظیم الشان چیلنج کو دعوت دینا تھا۔ خدائی فوجداری کا طعنہ سننے کے لیے تیار ہونا سخت مشکل کام تھا۔ حصولِ اقتدار کی خاطر کوشش کرنے والوں کے مقابلے میں حاکمیت الٰہی کے لیے امامت ِ صالحہ کا نسخہ لے کر کھڑا ہونا کسی بھی طرح آسان نہ تھا۔

مسلمانوں میں تنظیم کا شعور‘ معاصر مغربی اقوام کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور تھا۔ مسلمانوں کے اندر اسلام کی بنیاد پرمسلمانوں کی الگ سے تنظیم‘ یہ ایک عجیب سی بات نظر آتی تھی۔ تعلیمی و تربیتی ادارے‘ علما کی مستقل تحقیقی مجالس‘ اولیا کے مراکز سے لوگ مانوس تھے اور انھی ’مراکز تجلیات‘ سے باخبر تھے۔ لیکن ایک بھرپور جماعت جس میں شمولیت کو ایمان کا تقاضا سمجھا جائے‘ اس حقیقت سے لوگ ناآشنا تھے۔ جو چند ایک آشناے راز تھے بھی تو اس بھروسے اور اعتماد کے مقام پر نہ تھے جو افراد کو کھینچ کر قریب لے آتا ہے‘ یا وہ اس عزم و استقلال سے محروم تھے جو پہاڑوں سے ٹکرانے اور طوفانوں کا رخ موڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

مولانا مودودی نے تنظیم کی روایت کو‘ جیسا کہ اسے اس وقت کے ’جدید معاشرے ‘ میں سمجھا جاتا ہے‘ مسلمانوں میں فروغ دیا۔ اس کو جہاد اور عمل صالح کا لازمی تقاضا قرار دیا۔ اس طرح تنظیم کو ایمان کا جزو لاینفک ٹھیرایا۔ یہی ان کا بہت بڑا اجتہاد تھا۔ یہ کار خیر ان کے دوسرے کار ہائے خیر سے کہیں زیادہ بھاری اور بابرکت ثابت ہوا ہے۔ دینی جدوجہد کے پورے دھارے کو گذشتہ صدی میں ایک نئی جہت ملی ہے۔ اس ماڈل پر ہر معاشرے میں جہاں مسلمان بستے ہیں‘ چھوٹی بڑی تنظیمات وجود میں آئی ہیں۔ مسلمانوں میں تنظیمی رویے کو فروغ ملا ہے۔ اس کے ذریعے امت اور جماعت مسلمین کے تصور کو‘ ریاست کے نظام کی مخالفت کے باوجود اپنانے کا موقع ملا ہے۔ حاکمیت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کے ساتھ‘ نظم جماعت کو وابستہ کرنے سے وحدت اور حرکت کو بیش بہا قوت ملی ہے۔ ریاست کی چھتری اور مملکت کی چار دیواری میسر نہ ہونے کے باوجود معاشرے میں اثر و نفوذ حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

آج عالمی کش مکش میں اسلام کا جو وزن محسوس کیا جا رہا ہے‘ وہ ان درجنوں ریاستوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان اجتماعی کوششوں کے سبب ہے جو مسلمانوں نے از خود اختیار کیں اور جن کے ذریعے تعلیم و تربیت‘ تحقیق و مطالعے‘ دعوت و ابلاغ‘ اتحاد و اجتماعیت سے متعلق سرگرمیاں ترتیب دی گئیں۔ تنظیمات کے اس جال نے امت کے سفینے کو بھنور سے نکالنے کی راہ دکھائی ہے‘ اقدار کا تحفظ کیا ہے‘ خطرات اور یلغار کا مقابلہ کیا ہے‘ اندرونی طور پر استحکام عطا کیا ہے‘ حکومت پر قابض گروہوں کی اندرونی سازشوں کے آگے بند باندھا ہے۔ یہ جذبہ مسلمانوں کو ملا ہے کہ وہ از خود اپنے آپ کو مجتمع کر کے درحقیقت بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں۔ جمع ہونا اور جمع ہو کر کام کرنا‘ ایمان کا لازمی حصہ ہے‘ تاہم اس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ محاذ اور انداز و طریقہ کار میں اختلاف ہو سکتا ہے‘ مقاصد کے دائرہ کار میں انتخاب کیا جا سکتا ہے‘ قیادت و فیصلہ سازی کا نظام‘ دستوری اصول اور ضابط کار مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس قافلے میں شمولیت اور عمل شرکت ایک ناگزیر عمل ہے۔ اسی کے ذریعے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے‘ اعمال صالحہ کا حصول ہوتا ہے۔ یہی سنت نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم اور سنت صحابہؓ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تنظیم پر مبنی اجتماعی ماڈل کا احیا ہونے سے مسلمانوںکو ایک بھرپور شناخت قائم کرنے کا موقع ملا۔ اس شناخت نے ناتواں اور منتشر قوم میں عظیم قوت کی لہر دوڑا دی۔ پژمردگی اور مردنی کو امید اور زندگی سے بدل دیا۔

تفہیم القرآن کے اکثر قارئین جن کا دائرہ صاحب تفہیم القرآنکی بنائی ہوئی  تنظیم سے باہر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جس میں ان کے مخالفین بھی شامل ہیں‘ کے لیے   تنظیم بالقرآن کی صورت میں عملی تفسیر کی جہت پر قدم بڑھانا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ گویا کہ تفہیم القرآن علمی تصویر ہے‘ جبکہ جماعت اسلامی عملی تفسیر اور تحریک کا روپ لیے ہوئے ہے۔ اس تحریک میں ہرقاری خود تفسیر کا رنگ بھر سکتا ہے۔ خطوط کار موجود ہیں۔ صاحب تفہیم القرآنکا   مطلوب و مقصود‘ انقلاب امامت تھا۔ جو شخص ترجمان القرآن کا مدیر‘ مضمون نگار‘ خزانچی‘ اور قاصد تھا‘ وہ اس کڑی سے بخوبی واقف تھا‘ جو کسی ادارے کو عمل کا روپ دینے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے تسلسل سے قائم کرنا ہوتی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ تنظیم کا قیام پیغام حق کی ترویج و اشاعت کے ذریعے کے طور پر انتہائی ضروری ہے‘ ایک مفکر انقلاب اور قائد تحریک میں بنیادی فرق‘ منتظم کے کردار کا ہے۔ مولانا مودودی کی سب سے بڑی انفرادیت دراصل منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے ان کا کردار ہے۔ تنظیم بالقرآن کی اٹھان اور صورت گری‘ اجتماعیت کی تشکیل اور اس کو تحریک کی شکل میں فعال بنا کر نتیجہ خیز بنانا‘ یہ ان کا اصل ورثہ ہے۔ یہی خصوصیت ان کو ہم عصر علما اور دانش وروں کی صف میں ممتاز کرتی ہے۔موذنِ جماعت‘ مصورِ جماعت‘ کارکن جماعت اور امیرجماعت کی حیثیت سے ان کا کردار اسلامی تاریخ میں ایک نئی روایت اور ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔

۳

اس مضمون کے دوسرے حصے میں ان تصورات کا مختصراً تذکرہ کیا جائے گا جو مولانا مودودی نے عصر حاضر میں تنظیم کی تشکیل کرتے ہوئے پیش نظر رکھے:

  • محرکات اور مقصدیت: متفرق انسانوں کو ایک اجتماعی نظام میں اکٹھا کرنا اور کام پر لگانا‘ بغیر محرکات کے ممکن نہیں۔ آخر کوئی اپنا وقت کیوں لگائے؟ کیوں قربانی دے؟ کیوں کسی کی بات مانے؟ کیوں اس ایک مخصوص نوعیت کے اجتماع میں زندگی کی متاع کو صرف کرنے کے بارے میں سوچے؟ یہ سب کیسے ممکن ہو؟

مولانا مودودی نے محرکات پر بہت زور دیا ہے۔ ان کی رائے میں ایمان اور علم یہ دونوں وہ جذبہ اور داعیہ فراہم کرتے ہیں جس کی قوت انسان کو عمل پر ابھارتی ہے۔ ایمان‘ علم اور عمل پر بیک وقت ان کا زور رہا ہے۔ ’’اسلام پہلے علم کا نام ہے اور علم کے بعد عمل کا نام ہے‘‘ (خطبات: ص ۳۲)۔ شعوری مسلمان کا تصور‘ پیدایشی مسلمان اور پیدایشی برہمن یا عیسائی کے تصور سے مختلف ہے۔ اسلام کو جاننا اس کو ماننے سے قبل ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ محرک اور داعیہ پیدا ہوتا ہے‘ جو عقل اور قلب دونوں کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ عقلی محرکات یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں‘ جبکہ قلبی محرکات فرد کو عمل کے لیے اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔

مولانا مودوی نے انسانوں کو اجتماعی تحریک میں لانے کے لیے ’’شعوری ایمان‘‘ کی طاقت ور اصطلاح کو رائج کیا۔ ایک مقصد اور نظریہ فراہم کیا۔ جماعت ایک نظریاتی قوت کے طور پر نمایاں ہوئی‘ کیونکہ یہاں افراد کی وابستگی نظریے سے اور مقصد سے پہلے استوار ہوئی۔ جماعت میں شرکت نظریے کی بالادستی کی کوشش کا ذریعہ قرار پاتی ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی تحریک ہے۔ جس کی بنیاد اور اٹھان ’علم‘کے اوپر ہوئی ہے۔ اس کی ترقی اور کامیابی کا انحصار اس علم کی وسعت پر ہے۔ اس علم پر ایمان اور وفاداری‘ اس جماعت کے افراد کی اولین خصوصیت ہے۔مولانا مودودی نے نظریے کو تنظیم پر سبقت دی۔ نظریے کو تسلیم کر کے تنظیم میں شامل ہونا ایک مختلف معنی رکھتا تھا۔ بالخصوص ایک ایسے دور میں کہ جب اصلاً لوگ تنظیم کو اور اس کے مفادات کو نظریے سے اوپر غالب رکھتے تھے۔ جماعت نظریے سے بنتی ہے اور نظریے کو ماننے والے اس میں حصول مقاصد کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ افراد کی حیثیت اور اہمیت نظریے کے تابع ہونے کے اعتبار سے ہے۔ تنظیم کے بجاے خود افادیت نظریے کے مفاد کے لیے ہے۔ یہ کلیہ ہر خاص و عام فرد کو مطمئن رکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اجتماعیت کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملتا ہے‘ نیز فرد تنظیم کو جبر اور زیادتی کا آلہ کار سمجھنے کے بجاے‘ بقاے ایمان اور تقاضاے علم کے تحت ناگزیر سمجھتا ہے--- اساس تنظیم کا اس سے زیادہ دائمی نظریہ قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مقصدیت پر مبنی مرکزیت‘ افراد کو تنظیم پر قائم رکھنے اور امانت کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ذمہ داران کو بے قابو ہونے کے بجاے احساس گرانباری سے بوجھل رکھتی ہے‘ سبک رفتاری اور نتیجہ خیزی کے ساتھ انھیں بے چین اور بیدار رکھتی ہے۔ مولانا مودودی نے جدید دور میں Management by Knowledge - Orineted Mission کی بنیاد پر جماعت کے نظم کی بنیاد رکھی۔مولانا مودودی کے الفاظ میں: ’’نظم جماعت کے لیے ہم نے اول روز سے جو بات لوگوں کے ذہن نشین کی‘ وہ یہ تھی کہ اس جماعت میں وہی شخص داخل ہو جو اس کو جانچ پرکھ کر‘ اچھی طرح اس بات کا اطمینان کر لے کہ یہ جماعت فی الواقع اقامت دین کے لیے قائم ہوئی ہے‘ اور اس کی دعوت‘ طریق کار اور اصول تنظیم وہی ہیں‘ جو قرآن و سنت کے مطابق اقامت دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت کے ہونے چاہییں۔ پھر جب اس معاملے میں پوری طرح مطمئن ہو جانے کے بعد وہ جماعت میں آئے تو اسے ٹھیک اس سمع و طاعت فی المعروف کا التزام کرنا چاہیے جس کا حکم قرآن و حدیث میں دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جماعت کے ڈسپلن کو توڑنا محض یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی نے ایک پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے‘ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے خود اپنے عقیدے میں جس کام کو خدا کا کام سمجھا تھا‘ اس کو جان بوجھ کر خراب کیا اور قصداً خدا اور رسول کی نافرمانی کی‘ (جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ‘ اور لائحہ عمل ، ص ۶۳ - ۶۴)

  • قیادت اور وحدت: جماعت اسلامی کا دستور اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ ایک جماعت ہے اور اس کا ایک امیر ہے۔ ایمان اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بھرپور یہ نظریہ‘ جماعت کو وہ بیش بہا قوت فراہم کرتا ہے‘ جو اس کی بقا اور دوام کے لیے ضروری ہے اور جو اسے بیوروکریٹک نقائص سے دُور رکھتا ہے۔ جماعت افراد پر مبنی ہے۔ تمام افراد اس مقصد کے لیے اکٹھا ہیں اور ایک فرد کے گرد جمع ہوکر رہتے ہیں۔ خواہ افراد کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ‘ اس نظریے کے تحت جماعت کو ہمیشہ ایک پکار پر مستعد ہونے اور ایک مرکز پر متحد ہونے کا سامان فراہم کر دیا گیا ہے۔ پوری جماعت کی یکجہتی کو بحران کے گرداب میں بھی یقینی بنا دیا گیا ہے۔ اس کلیے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جماعت چلانے کے لیے جو بھی نظام اختیار کرے‘ کتنا ہی پیچیدہ ڈھانچہ ترتیب دے‘ کام کا پھیلائو ڈھانچے پر کتنا ہی بوجھ ڈال دے‘ افراد میں ذمہ داریاں جس انداز سے بھی تقسیم کی جائیں‘ بحمدللہ جماعت کا شیرازہ منتشر نہیں ہو گا۔ اس کلیے کے تحت جماعت اس حد درجہ سیدھے سادے اصول پر استوار رہے گی۔

اس قاعدے کا مطلب امیر کی آمریت نہیں ہے‘ بلکہ وہ امیر کی مرکزیت کو اختیارات کی تقسیم اور وحدت کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یہ ایک باریک نزاکت ہے جسے مولانا مودودی کے تنظیمی ادراک کی عظمت سمجھا جا سکتا ہے۔ مرکزیت کے بجائے جب اسے وحدت کے معنوں میں سمجھا جائے تو اس کلیے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جماعت کو وسعت پانے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ وسعت کے ساتھ تنظیم کو پھیلانے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہوئی اور اختیارات کی تقسیم کوئی مسئلہ نہیں بنی۔

مسلم دنیا کے ریاستی اور پارٹی تجربات میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قیادت پر فائز اپنے آپ کو تاحیات منصب پر برقرار رکھتے ہیں۔ ’ایک جماعت‘ ایک امیر اور قیادت میں تبدیلی کے لیے مقررہ مدت پر انتخاب کا طریقہ کار بھی وضع کیا‘ اور اس کی مکمل پاسداری کی۔ مولانا مودودی نے خرابی صحت کی بنا پر معذوری پیش کر کے یہ اصول تسلیم کرایا‘ کہ دیگر شرائط کے ساتھ کام کرنے اور بوجھ اٹھانے کی جسمانی سکت کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ بانی کی حیثیت سے اپنے آپ کو منصب کے ساتھ لازم نہ کر کے جماعت کے اندر جمہوری مزاج کو پروان چڑھایا۔ ورنہ جو شخص اپنی قائدانہ ذمہ داری کے شعور میں اتنا پختہ تھا اور جس کے دل و دماغ نے اس منصب کے تقاضوں کو اس انتہا پر جذب کر لیا تھا‘ کہ جب ۱۹۶۳ء میں اجتماع عام میں سامنے سے فائرنگ ہوئی اور ایک صاحب نے مولانا مودودی سے درخواست کی کہ وہ ڈائس سے ہٹ کر بیٹھ جائیں تو مولانا نے بے ساختہ کہا: ’’میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا‘‘۔ قیادت کا یہی شعور تھا کہ  جس کا انھوں نے اس مرحلے پر بے ساختہ اظہار کیا۔

جماعت کا قیام کسی شخصیت کے افکار یا اثرات پھیلانے کے لیے عمل میں نہیں آیا تھا‘ بلکہ اس کا مقصدِ وجود ہی دعوت ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلنا تھا کہ مختلف مراحل پر مختلف مزاج‘ سوچ اور انداز کار کے حامل افراد اس میں شامل ہوتے جائیں گے۔ یہ افراد جغرافیائی لحاظ سے بھی پھیلے ہوئے ہوں گے۔ لیکن ایک جماعت اور ایک امیر کے اصول میں وحدت کو متاثر کیے بغیر وسعت میں سمونے کی بے پناہ گنجایش موجود ہو گی۔ غور کیا جائے تو جماعت بندی کا یہ تصور درحقیقت توحید کے عقیدے کا پرتو ہے۔ قرآن میں اطاعتِ امیر کو اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول کے بعد کا درجہ دیا گیا ہے۔ ایک جماعت اور ایک امیر کا اصول‘ اس آیت سے مترشح ہوتا ہے۔ تنظیم ایک حکم ہے۔ امیر خود اس حکم کا پابند ہے۔ عملاً پوری تنظیم اس حکم کے ماتحت ہے۔

  • مشاورت اور سمع و طاعت:تنظیمیں حکم سے چلتی ہیں‘ لیکن مشاورت کے ذریعے قائم رہتی اور ترقی حاصل کرتی ہیں۔ قیادت و کارکنان میں سے کوئی بھی مشورے سے  بے پروا نہیں ہو سکتا ہے۔ فیصلے کے معیار کا انحصار‘ مشاورت کے معیار پر ہوتا ہے۔ شورائیت محض ایک حکم خداوندی کے تحت رسمی طور لینے کے بجاے‘ مولانا مودودی نے پوری جماعت کو اس اصول پر استوار کیا۔ ہر سطح‘ ہر مقام اورہر مرحلے پر شورائیت کو فروغ دیا۔ اس عمل کو ان خرابیوں سے بچایا جس کی وجہ سے کسی کو تنقید کرنے میں جھجک آتی ہو۔ رائے کے لیے بے لاگ اظہار کو شعار بناتے ہوئے‘ ہر بات کو سننے اور اس کا جواب دینے کی روایت ڈالی۔ احتساب اور تنقید کے آداب کو اپنایا۔ مباحثے اور گفتگو کو مسائل سلجھانے اور فیصلے تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کا مقصدمحض شرکت کا احساس دینا نہ تھا‘ بلکہ جماعت کو احسن انداز میںچلانا تھا۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’ہم نے عام انسانیت کی‘ اپنے ملک کی اور اپنی ملت کی خرابیوں پر تنقید کرنے میں جو آزادی برتی‘ اس آزادی تنقید کو اپنی جماعت میں بھی برقرار رکھا‘ تاکہ جماعت کے اندر جہاں جو خرابی بھی موجود ہو‘ اس کی بروقت نشان دہی ہو جائے‘ اور اسے دور کرنے کی کوشش کی جاسکے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ‘ اور لائحہ عمل‘ ص ۶۵)۔

سمع و طاعت کے اس تصور کو جماعت اسلامی کی تنظیم کی بنیادی صفت بنانے کے بارے میں مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’جو لوگ بھی جماعت میں آئے وہ ڈسپلن کی پابندی کے لیے خارجی دبائو کے محتاج نہ تھے۔ انھوںنے زیادہ تر خود اپنے ایمان کے تقاضے سے ڈسپلن کو قبول  کیا اور انھیں باقاعدگی‘ نظم ‘ اور ضبط کے ساتھ کام کرنے کا عادی بنانے میں کچھ زیادہ زحمت پیش نہیں آئی۔ (ایضًا‘ ص ۶۴)

لیکن سمع و طاعت کو شخصی بیعت یا اندھی اطاعت مطلق سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اطاعت فی المعروف اور اطاعت نظم کو توحید اور رسالت کے تابع سمجھا اور سمجھایا گیا۔ اس طرح قرآن کے اطاعت امیر کے حکم کے بے جا استعمال یا حدود سے تجاوز کے امکانات کو ختم کر دیا گیا۔

مشاورت میں تخلیقی قوت کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں مناسب حکمت عملی کی تشکیل ضروری ہوتی ہے۔ جماعت نے جدید ترین اسلوب کو تکنیکی اعتبار سے مقاصد کے حصول کے لیے اپنانے میں پہل قدمی کی۔ تجزیے‘ معلومات کا حصول‘ سوچ بچار‘ میڈیا کی آرا‘ بین الاقوامی سطح پر دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا لائحہ عمل‘ ان تمام ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے کھلے دل و ذہن کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کے لیے سوچا۔

  • مقاصد‘ معاشرہ‘ تنظیم اور قیادت: تنظیموں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ نظام العمل کو ترتیب دیں تاکہ استحکام نصیب ہو۔ تنظیمی ڈھانچہ اور قواعد و ضوابط وغیرہ کی تفصیلات جب ایک دفعہ طے ہو جاتی ہیں تو ان کو تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ مشکل ہر تنظیم کو پیش آتی ہے‘ جب کہ ماضی کے تمام ہی فیصلے مستقبل میں من و عن جاری رہیں تو کام جمود کا شکار ہو کر پیچھے  سمٹ جاتا ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ نظام اور ڈھانچے سے متعلق امور‘ مقاصد اور حکمت عملی کے تابع ہوتے ہیں۔ جب حکمت عملی تبدیل ہوتی ہے تو نظام بھی تبدیل ہوتا ہے۔ اگر حکمت عملی کے بجائے نظام کو فوقیت مل جائے تو مقاصد سے انحراف‘ عمل میں رونما ہو جاتا ہے۔ نظام کی حیثیت ذریعے کی ہے۔ یہ ایک سواری ہے۔ جب کہ حکمت عملی کا تعلق سمت اور طریقہ کار سے ہے۔

مولانا مودودی نے جماعت کو جمود سے بچایا۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد تقسیم برعظیم‘ تحریک پاکستان‘ دستور پاکستان‘ تحریک جمہوریت‘ انتخابات اور دیگر مراحل‘ جیسے جیسے نئی حکمت عملی اور نئے اہداف کا تقاضا کرتے گئے‘ مولانا مودودی نے طریق کار اور نظام‘ دستور اور اہداف بھی تبدیل کیے۔ لائحہ عمل کی تبدیلی میں بھی دیر نہ کی۔ اس طرح جماعت کو پاکستان کی انتہائی موثر تنظیم بنا دیا۔ یہ قائدانہ شعور کی پہچان ہے‘ کہ قائد اپنی تنظیم کو حکمت عملی اور نظام العمل کے لحاظ سے ماحول کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے تحت مقاصد کے حصول کے لیے ترتیب دیتا رہتا ہے۔ نئے شعبہ جات کا قیام‘ معاونت کے لیے نئی تنظیمات کا قیام‘ مختلف مواقع پر تحریکوں کا آغاز‘ دیگر جماعتوں کے ساتھ یا حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون وغیرہ ان تمام معاملات میں مولانا مودودی نے مقاصد و اصول کی رہنمائی میں پیش قدمی کے لیے طریق کار وضع کیا۔ اسی لیے جماعت ہمیشہ پہلی صف میں ممتاز اور اہم ترین جماعت کی حیثیت سے ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ۔

مولانا مودودی محض تنظیمی سربراہ نہ تھے‘ بلکہ وہ تنظیم ساز قائد تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اس عمل کے چاروں اجزا کو الگ الگ تجزیے سے گزارتے تھے‘ یعنی مقاصد کو جو حاصل کرنے ہیں یا نتائج جو رونما ہونا چاہییں‘ معاشرہ جس میں کام کرنا ہے‘ قیادت کہ جسے معاشرے اور مقاصد میں ربط پیدا کرنا ہے‘ اور تنظیم جسے معاشرے میں مقاصد کے حصول کے لیے تشکیل دیا جانا چاہیے۔ وہ مسلسل ایک ایسے امتزاج اور مرکب کی جستجو میں رہتے تھے  جس میں بہتر تنظیم کے ذریعے معاشرے میں زیادہ سے زیادہ نتائج کا حصول ممکن ہو۔ یہ قیادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کی نشانی ہے کہ وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو تنظیم کی حدود سے باہر سمجھ کر بھی تنظیم کا جائزہ لے سکتی ہے۔ یعنی قائد‘ اپنی تنظیم کے اندر اپنے آپ کو گرفتار رکھ کر سوچے تو وہ محدود پیمانے پر ہی سوچ سکتا ہے۔ قائد کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ تنظیم سے ذہنی طور پر جدا ہو کر (detach)تنظیم کو اس کے ماحول میں پرکھے اور اس کی سمت اور رفتار‘ مقاصد اور طریقۂ کار کے بارے میں سوچتا رہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی زمین کو زمین پر کھڑے ہوکر دیکھے یا کوئی خلا میں جاکر دُور سے زمین پر نگاہ ڈالے۔ زمین کو دونوں صورتوں میں دیکھنے ہی سے مکمل تصویر بن سکتی ہے۔ اس طرح قائدمعاشرے میں مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں مولانا مودودی کی یہ قائدانہ سوچ اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ وہ جماعت کو نئے حالات کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مشاورت کے ذریعے راغب کرنا چاہتے تھے۔

  • تحریکی معاشرت اور تنظیم: بعض تنظیمیں محض کاغذی نوعیت کی ہوتی ہیں‘ بعض جزوی نوعیت کے تعلق پر اکتفا کرتی ہیں اور بعض مکمل انہماک اور لگائو کا تقاضا کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی اقامت دین کے لیے کھڑی ہوئی ہے‘ اس لحاظ سے یہ کُلّی تبدیلی اور کُلّی وابستگی کی دعوت دیتی ہے۔ ایسا محض لٹریچر کے مطالعے‘ تربیت گاہوں میں تقاریر‘ نعروں‘ اور دفتری سرگرمیوں کے ذریعے ممکن نہیں۔ مولانا مودودی نے انقلاب کے لیے فکری رہنمائی فراہم کی‘ اس فکر پر کام کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی کوشش کی بنیاد رکھی‘ اجتماعیت کو تنظیم کی باقاعدہ شکل دی اور پھر اس تنظیم کو ایک جیتی جاگتی بستی بنایا۔ اس بستی کو ایک بڑا خاندان اور گھر بنایا۔ روکھی پھیکی تنظیم مولانا مودودی کے پیش نظر نہ تھی۔ وہ تنظیم کے جسم میں تحریکی معاشرت کی روح ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ انفرادی طور پر افراد کار کو اجتماعی مزاج کا خوگر بنانا آسان نہیں ہوتا۔ انھوں نے اخوت‘ محبت‘ اعتماد‘ للٰہیت‘ مقصدیت‘ شورائیت اور نصیحت جیسی اقدار سے لبریز اجتماعیت اور معاشرے میں نئے طرزمعاشرت کی بنیاد ڈالی۔

مولانا مودودی نے ایک طرف بار بار اس امر کی تنبیہ کی کہ اس تنظیم کا مقصد کوئی خانقاہ بنانا نہیں ہے۔ جس معاشرے میں تنظیم کام کر رہی ہے‘ اس معاشرے سے کسی کمزور سے رشتے  کو قائم رکھ کر تنظیم کو چلانا مقصود نہیں۔ بلکہ ایک ایسی تنظیم مطلوب ہے ‘جو اندرونی طور پر مستحکم ہو‘ لیکن اپنے بیرونی ماحول میں پوری طرح مربوط ہو ۔ گویا کہ اس کو معاشرے پر اثرانداز ہونا ہے اور معاشرے سے یقینا متاثر بھی ہونا ہے۔ جماعت نے شخصیت کی تعمیر‘ خاندان کی تشکیل اور تنظیم میں شامل افراد کے درمیان روابط اور معاملات جیسے امور پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔گفتگو کا طریقہ‘ اخلاق‘ مختلف مواقع پر رویہ اور سلوک ان سب کو متاثر کیا ہے۔ جماعت کا فر داور گھرانہ پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ طور طریق‘پسند و ناپسند‘ شخصی انداز‘بودوباش‘ معاملات‘ رکھ رکھائو‘ زبان کے لحاظ سے ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اجتماعی امور میں جماعت کا مخصوص طریقہ کار ایک خاص طرز معاشرت کو ترتیب دیتا ہے۔ ایسا طرز معاشرت جس میں افراد آسانی سے ڈھل جائیں‘ اور تحریکی کام ان کی زندگی کا اس طرح جزو بن جائے کہ انھیں کوئی بوجھ محسوس نہ ہو۔ عام معاشرے میں رہ کر‘ بلکہ اس میں سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے ایک نئی معاشرت و ثقافت کو پروان چڑھانا ایک مشکل کام تھا۔ حفاظتی خول (enclave) کے بغیر ایک نیا اجتماعی ماحول ترتیب دینا‘ سیاسی و معاشرتی تبدیلی کے لیے کھڑی ہونے والی تنظیم کے لیے بیش بہا تجربہ ثابت ہوا اور تنظیم کی فعالیت کا بھی بہتر اہتمام ہوا۔

  • نیوکلیئس اور آزادی عمل: جماعت میں درجہ بندی شروع ہی سے موجود رہی ہے۔ اس کی موجودگی مختلف حوالوں سے دیکھنے والوں کے لیے مختلف نوعیت کے ردعمل کا باعث بنتی ہے۔ بعض نقاد حضرات کا کہنا ہے: اُس طرزِعمل میں کمیونسٹ پارٹی کی چھاپ نظرآتی ہے۔ بعض کے نزدیک: ’یہ ایک مخصوص تنظیمی نوکرشاہی (hierarchy) کو فروغ دیتا ہے ‘جس کے نتیجے میں خودساختہ نیکوکاروں یا سندیافتہ نیکوکاروں کا جتھا بن کر حکمرانی کرتا ہے‘۔ جماعت سے باہر جماعت کے متاثرین کا کہنا ہے:’جماعت میں شمولیت کی شرائط سخت ہیں اور ہر ایک شامل نہیں ہو سکتا ہے۔ خود جماعت کے اندر یہ رائے سامنے آتی ہے:’درجہ بندی جماعت کے عوامی جماعت بننے میں‘ اہم افراد کی شمولیت اور وسعت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

جماعت اسلامی‘ پاکستان کی واحد دینی و سیاسی تنظیم ہے جو ساتھ چلنے والوں کی درجہ بندی کرتی ہے۔ اس سے قبل کسی دینی جماعت میں اس طرح کی روایت بھی نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ مولانا مودودی کے نزدیک اس میں کیا حکمت تھی؟ انھوں نے کیوں اس کو اختیار کیا؟ مولانا مودودی کے نزدیک ہر جماعت کو ایک نیوکلئیس چاہیے ہوتا ہے۔ یعنی وہ جماعت کو ایک متحرک ایٹم کی طرح دیکھتے تھے کہ جن میں ایک حصہ مرکز ثقل (core) کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ پوری تنظیم اس مرکزثقل کے گرد گھومتی ہے۔ اس مرکزثقل کا کام‘ معیار اور مقصد کی حفاظت ہے۔ اس مرکزثقل کا وجود اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہ جماعت کی عملاً کوئی سرحد نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی دعوت ہے‘ ایک تحریک ہے۔ لاکھوں افراد جو اس کے پیغام کو درست مان لیتے ہیں‘ وہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر اس مرکز ثقل کو تحلیل کر دیا جائے یا یہ محو ہوجائے تو تنظیم کس بنیاد پر کھڑی رہ سکے گی؟ ارکان جماعت دراصل ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یعنی تنظیم اس ادارے کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اجتماعی تحریک جس میں شمولیت کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں‘ اگر اسے تنظیم کی شکل دینا ہو تو ایسے بنیادی ادارے کا قیام ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی جماعت اسلامی اپنی تنظیمی ہیئت کی بنا پر کام کو مسلسل آگے بڑھا رہی ہے۔

اس درجہ بندی کا غلط طور پریہ مطلب لیا گیا ہے کہ اس کا مقصد کوئی تفریق پیدا کرنا ہے۔ یہ درجہ بندی کارکردگی کی بنیا دپر ہے۔ تنظیمیں اس وقت آگے بڑھتی ہیں جب کارکردگی کو تنظیمی معیار بنا لیں۔ وہ افراد‘ جو ذمہ داریاں اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں‘ تنظیم کے لیے قابل بھروسا ہوتے ہیں‘ جن کی رائے فیصلہ سازی اور امیر اور شوریٰ کے انتخاب کے لیے ضروری ہوتی ہے‘ اور جو مقصد سے وفاداری اور تنظیم کے ساتھ مکمل وابستگی کا حلف اٹھاتے ہیں‘ ان کو الگ سے شمار کرنا‘ اور نیوکلیئس کی حیثیت سے تنظیم کا ذمہ دار گرداننا‘ یقینا حکمت عملی کے لحاظ سے انتہائی دانش مندی ہے۔ بالخصوص ایک ایسی تنظیم کے لیے کہ جس کا مقصد وجود ہی وسعت اور تبدیلی ہے۔ یہ طریقۂ کار دراصل پھیلائو اور ارتقا و نمو کے نامیاتی طریقہ کار (organic growth) سے حددرجہ مماثل ہے۔ درخت کی مثال لے لیجیے۔ ایک بیج کا زمین میں جذب ہو کر اثرات کو جذب کرنے کا اور اپنی اصل پرکار بند رہنے کا نتیجہ مضبوط تنے‘ پھیلی ہوئی شاخیں‘ ایک ہی انداز کے پتے اور پھل کی مسلسل افزایش کی صورت میں نکلتا ہے۔ یوں مضبوط جڑ کے ساتھ وسعت کے لامتناہی امکانات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم جہاں ایک مرکزثقل کی تشکیل کو اپنا ایک بنیادی کام سمجھتی ہے‘ وہیں وہ اس کو سمیٹ کر رکھنے یا محدود ہوکر جم جانے کے بجاے متحرک کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انھی نظریات کے مطابق استوار کرنے کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ یعنی اس مرکزثقل کامقصد نمو ہے جمود نہیں‘ اور ہر فرد مکمل طور پر خود مختار ہے‘ کہ وہ اپنے اندر قائدانہ اوصاف پیدا کرے‘ معاشرے کے لیے نقیب بن جائے‘ اور دعوت کا کام کرے۔ ہر فرد مکمل طور پر بااختیار ہے کہ زیادہ اور بہتر کام کرنے کی کوشش کرے۔ درجہ بندی درحقیقت صلاحیتوں کی وسیع پیمانے پر نشوونما کو یقینی بنانے کے لیے ہے‘ اختیارات اور کام کو چند افراد تک سمیٹنے کے لیے نہیں ہے۔

  • توازن اور اعتدال: منہاج علی النبوۃ پر تحریک اقامت دین کو کھڑا کرنا اس لحاظ سے کٹھن ہوتا ہے‘ کہ اس کام کی مختلف جہتوں کا مکمل احاطہ کرنا ضروری ہے۔ تربیت‘ دعوت‘ سیاست‘ تعلیم اور تحقیق یہ سارے بنیادی افعال قرار پاتے ہیں۔ تحریک اسلامی کو تنظیم کی شکل میں چلانے کے نتیجے میں یہ صلاحیت بھی بہم پہنچ گئی کہ تمام کاموں کا احاطہ کیا جا سکے۔ ہمہ پہلو تبدیلی کے لیے تکمیلی لائحہ عمل‘جو ہر محاذ کا احاطہ کرتا ہو‘اس کی تیاری‘ عمل اور جائزہ ضروری ہوتا ہے۔ تنظیم کے ذریعے وہ مشینری وجود میں آ جاتی ہے‘ جو ترجیحات‘ منصوبے اور حالات کے پیش نظر تمام متفرق محاذوں پر کام کو گرفت میں لے سکے۔ مقاصد کی نگہداشت کرسکے اور پیش رفت کا جائزہ لے سکے۔

مولانا مودودی نے توازن و اعتدال کو تنظیم کا خاصّہ قرار دیا۔ تنظیم‘ عالم اسباب میں ایک کڑی کی حیثیت سے وجود میں آتی ہے اور مادی و انسانی وسائل کو سمیٹ کر مطلوبہ نتائج کے حصول کی کوشش کرتی ہے۔ عمل اور ردعمل میں جذباتیت کا شکار ہونے سے بچاتی ہے۔ تنظیم کا قیام اس ادراک کا نتیجہ ہے کہ اقامت دین کا کام جدید معاشرے میں حد درجہ نظم کا تقاضا کرتا ہے اور یہ کام آناً فاناً نہیں ہوتا‘ بہ تدریج آگے بڑھتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے‘ صلاحیتوں اور وسائل کو کھپانا مقصود نہیں‘ انتہائی احتیاط اور فکر مندی کے ساتھ اس قوت کو مستقبل میں تبدیلی کے لیے بروے کار لانا مطلوب ہے۔ تنظیم کے دیرپا استحکام اور چلتے رہنے کے لیے قیادت و مشاورت انتہائی ضروری ہیں۔ مشاورت کے ذریعے حکمت کو نکھارا جاتا ہے اور اجتماعی فیصلہ سازی میں بہتری آتی ہے۔ اجتماعی فیصلے ہی اجتماعیت کو لے کر چل سکتے ہیں۔ قیادت‘ مشاورت کے ذریعے جب کام کرتی ہے تو اس کا حکم موثر ہوتا ہے اور سمع وطاعت کے اعلیٰ درجے کا جواب (response) ملتا ہے۔

مولانا مودودی کے ہاں اعتدال کا مطلب سست روی یا سہل انگیزی یا مصلحت کوشی نہیں ہے‘ بلکہ اس کا مطلب ہوش مندی کے ساتھ مسلسل جدوجہد ہے‘ تاکہ مجموعی طور پر اسلام کے احیا کے لیے کام ہو۔

  • اعلانیہ کام اور دستوری طریقۂ کار: مولانا مودودی کا ذہن‘ ضابطہ اور قانون کا پابند تھا۔ وہ اپنے معمولات اور ذاتی زندگی کے طریقہ کار میں نظام کو خود اختیار کر کے اس کی پاس داری کرتے تھے۔ تنظیم ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ ان کی شخصیت اعلیٰ درجے کے  نظم و ضبط کی آئینہ دار تھی۔ جماعت اسلامی کو تنظیم کی شکل میں قائم کرتے ہوئے بھی جو بات ابتدا سے طے کر دی گئی تھی‘ وہ یہ کہ یہ جماعت دستور اور قانون کے مطابق کام کرے گی۔ اور جہاں دستور و قانون کا اسلام سے ٹکرائو ہو گا‘ اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن یہ کوشش بھی قانونی دائرے میں رہ کر ہو گی۔ جماعت‘ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی۔ اس طرح مولانا نے جماعت اسلامی کو انارکی اور اشتراکی طریقہ انقلاب سے دور رکھا اور جماعت کو یہ راستہ دکھایا کہ اپنے تمام تر نظام کار کے باوجود وہ معاشرے سے کٹ نہ جائے‘ ریاستی نظام میں جمہوری انداز سے آگے بڑھتے ہوئے اپنا مقام بنائے اور معاشرے میں خیر کو پروان چڑھانے کی کوشش کرے۔

تنظیم کی حیثیت سے جماعت ‘ریاست کے دوسرے تنظیمی اداروں کے مدمقابل نہیں آئی‘ بلکہ کھلے عام کام کے ذریعے اثر و نفوذ کے راستے کو اختیار کیا گیا۔ جس طرح مولانا مودودی کی شخصیت کھلی کتاب کی طرح تھی اسی طرح ان کی بنائی ہوئی تنظیم کے دستور میں بھی واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ یہ علانیہ جدوجہد کرے گی‘ کوئی خفیہ تحریک جو زیرزمین کام کرتی ہے  اس کے     علی الرغم یہ تنظیم راے عامہ کو ابلاغ عام کے ذریعے مخاطب کرے گی۔ اس تنظیم کے حسابات‘ معاملات‘ فورم‘ سرگرمیاں ہر چیز ہمیشہ کھلی کتاب کی طرح ہر ایک کے سامنے رہی ہیں۔ بنیادی طور پر جماعت کا قیام ایک کھلی تنظیم کے طور پر عمل میں آیا۔ اس میں ہر ایک شامل ہوسکتا ہے‘    ہر ایک اس کو قریب سے دیکھ سکتا ہے‘ ہر ایک کے لیے اس کی دعوت عام ہے‘ اور معاشرے کا ہرفرد اس کے لیے اہم ہے۔ یعنی ایک ایسی تنظیم جو پورے معاشرے کو اپنے اندر سمونا چاہتی ہو‘ جوکسی قسم کی طبقاتی تفریق‘ لسانی و نسلی تعصب‘ کی حامل نہ ہو۔

مضمون کا آغاز طارق علی کے جملے سے کیا گیا تھا۔ اس کا اختتام اس جملے پر مولانا مودودیؒ کے ردعمل پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ایک معروف سیاسی و دینی شخصیت نے اس انداز کا تقابل مولانا مودودیؒ کے سامنے کیا تو انھوں نے بجاطور پر اس تقابل پر ناگواری کا اظہار کیا۔ گذشتہ صفحات پر پائے جانے والے مباحث مولانا مودودی کے ردعمل کی بجا طور پر تائید کرتے ہیں۔

(آخری قسط)

وقت کی اقسام اور ہر قسم کا ایک منفرد انداز اس کائنات کے پیچیدہ نظام کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تخلیقات کا تنوع اوقات کے تنوع کا بھی تقاضا کرتا ہے‘ اور ساتھ ہی تمام تر تخلیقات کے ایک خالق اور اوقات کے ایک مالک کی سب سے بڑی شہادت بھی اس نظام پر غور کرنے سے مل جاتی ہے۔ گویا کثرت ہی میں وحدت کی دلیل چھپی ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی وہ منفرد اور یکتا ہستی ہے جو اول بھی ہے اور آخر بھی‘ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘ اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔ توحید کا تصور اتنا جان دار اور جامع ہے کہ اس کا مطلب وقت کی مختلف حالتوں کا کوئی مجموعہ نہیں بلکہ وقت کی مختلف حالتوں کا وحدت اور اکائی کی صورت میں سمو لیا جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے‘ اس دن وہ ہو جائے گا۔ اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائے گا اس روز بادشاہی اسی کی ہوگی۔ وہ غیب اور شہادت ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے‘‘(الانعام ۶:۷۳)۔ یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ کے توحید کی طرف فکری سفر کی روداد سے قبل آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں چار مختلف قسم کے اوقات


o  ریکٹر‘ انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی ‘ لاہور

کی تخلیق اور ان کی مدت کے ایک دوسرے کے بعد آنے اور جانے کا امر واقعہ بیان فرما یا ہے۔ زمین اور آسمان کی تخلیق کے ساتھ ہی سورج اورچاند اور زمین کے گردشی نظام کے ذریعے وجود میں آنے والا وقت کا خول بھی ظاہرہے کہ کسی اور طرح کے وقت کے بعد وجود میں آیا ہوگا‘ یعنی ایک وقت تخلیق سے قبل تھا‘ دوسرا تخلیق کے بعد سے شروع ہو کر قیامت تک رہے گا۔ زمین کی تخلیق کا عمل بھی کروڑوں اور اربوں سالوں پر محیط نظر آتا ہے۔ تیسرا نظامِ وقت قیامت کی گھڑی سے قائم ہوجائے گا جب موجودہ وقت کے اجزاے ترکیبی نیست و نابود ہو جائیں گے ۔ اس وقت کے لیے مشرق و مغرب اور چاند‘ سورج اور ذہن کی حرکت کا نظام العمل کیا ہوگا‘اس کی تفصیل اس وقت واضح نہیں ہے۔ چوتھا  نظامِ وقت اس وقت قائم ہوگا کہ جب لوگ دوبارہ اُٹھا کر زندہ کیے جائیں گے۔ آیت مذکورہ میں اوقات کی مختلف اقسام کے بتدریج قیام کو اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور قدرتِ کاملہ کی تصدیق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو وقت کے نظام پر قادر ہو وہی غیب کا جاننے والا ہے اور دانا اور باخبر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی جامعیت‘ کاملیت اور ہر شے پر اس کا محیط ہونا ممکن ہی اس وقت ہو سکتا ہے کہ جب وہ وقت کے ایک خول سے اندر اور باہر سب کچھ اس طرح دیکھ سکتا ہو کہ جیسے انسان آئینہ دیکھتا ہے۔ وہ وقت کہ جو ابھی آیا نہیں ہے اس کے بھی انتہائی سرے پر دیکھ سکتا ہے کہ کیا کچھ آیندہ ہونے والا ہے۔

زمینی وقت کی ایک خصوصیت اس کا مدت اور مہلت کی شکل میں پایا جانا ہے۔ حضرت آدم ؑکے زمین پر اتارے جانے کے بعد بنی نوع انسانیت کی مہلت کا آغاز ہوگیا اور یہ مدت وہ ہے جو اس دنیا میں قیامت تک جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’فرمایا‘ اُتر جائو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو‘ اور تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جاے قرار اور سامانِ زیست ہے‘‘۔ دوسری مدت وہ ہے جو ہر قوم یا قریہ کے لیے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہرقوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے‘ پھر جب کسی قوم کی مدت پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی‘‘ (الاعراف ۷:۳۴)۔ تیسری مدت وہ ہے جو ہر فرد کو اُس کی عمر کی صورت میں ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اس میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘ (الاعراف ۷:۲۴)۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے‘ روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنھوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھہرا رہے ہیں۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر تمھارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے‘‘۔(الانعام ۶:۱-۲)

دورہ‘ مدت‘ مہلت‘ بار بار پھیر‘ یہ انسانی وقت کی خصوصیات ہیں۔ قرآن میں مہلت کے اٹل ہونے پر بے انتہا زوردیا گیا ہے۔ یہ وقت کبھی ٹل نہیں سکتا۔ کسی کو مفر نہیں۔ کوئی اس نظامِ سلطنت سے باہر نہیں جاسکتا۔ کوئی اس طریقۂ کار کو تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ یعنی مدت و مہلت کی شرائط کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مشرق اور مغرب نظامِ وقت کے وہ دو ستون ہیں کہ جن پر وقت کا نظام قائم ہے۔ وقت مشرق سے شروع ہوتا ہے اور مغرب میں ختم ہوتا ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہستی کے اقتدار کا حصہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے‘ اس طرف اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۱۵)

وقت کے اندر سمت کا تصور بھی موجود ہے۔ وقت بذاتِ خود مخصوص سمت پر سورج اور زمین کی حرکت سے وجود میں آتا ہے اور اس کے وجود میں آنے سے انسان سمیت ہر شے اپنی تخلیق کے تدریجی مراحل سے گزرنا شروع ہوگئی ہے‘ یعنی وقت میں جغرافیائی سمت کے علاوہ معنوی سمت بھی موجود ہے۔ انسان کا مقام اور اس کی عمر‘ ان دونوں کا تعین سمت کے جغرافیائی و معنوی پہلوئوں کو بالترتیب نمایاں کرتا ہے۔ ذہن میں جاے مقام مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے تعین سے ہوتا ہے‘ جب کہ مشرق و مغرب کا تعین پھر وقت کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ گویا  سورج اور زمین کی گردش سے --- انسان کے لیے جائے مقام کے ساتھ ساتھ مدت قیام کی معلومات اس کے تخلیقی سفر کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ جو وقت گزر گیا ہے عمر سے معلوم ہوجاتا ہے۔ طے شدہ وقت سے اتنا وقت گویا کم ہوگیا۔

کس جگہ کیا وقت ہو رہا ہے؟ اس کے حساب کے لیے سمت کا حساب ضروری ہے۔ مشرق و مغرب سمت ہی کے دو اشارے ہیں۔ صبح و شام اور ستارے سمت کو واضح کرتے ہیں۔ انسان کے لیے یہ سمت انتہائی اہم ہے اور وہ کبھی بھی اس سے بے پروا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ سمت سے باہر ہے۔ وہ سمت کا خالق ہے۔ وہ اطراف اور میقات‘ میعاد اورانجام پر غالب ہے۔ ہر رخ اور ہر سمت اس کی ہے وہ سب کو سموئے ہوئے ہے۔

اللہ تعالیٰ وقت پر کس طرح قادر ہے اس کا اعلان ایک آیت کو چھوڑ کر پھر ہوتا ہے:’’وہ زمین اور آسمان کا موجد ہے‘ اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے ‘ اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ’ہوجا‘ اور وہ ہو جاتی ہے‘‘۔ کن فیکون کے تصور میں تمام فاصلے اور نظام ہاے اوقات سمٹ کر آگئے ہیں۔ کن فیکون اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا حتمی اظہار ہے۔ وقت اُس کا ہے۔ سارے رُخ اُس کے ہیں۔ زمان و مکاں اپنے تمام تر وجود اور خلق کے ساتھ اُس کا ہے۔ توحید کی ایسی تعریف کہ جس میں مادہ‘ قوت‘ قدر‘ وقت اور خلق کی تمام صورتوں پر مکمل اختیار ماقبل اور مابعد کے ساتھ جھلکتا ہو کن فیکون کے دو الفاظ سے زیادہ بہتر صورت میں ادا نہیں ہوسکتی ہے۔

توحید اور تخلیق اور وقت کے مابین تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی طرح زمین اور آسمان کے وقت کا پابند ہوچکا ہے‘ یا اس گھیر سے اب کوئی مفر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خلق اور امر دونوں اُس کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے نظام کی کنجیاں کس طرح اس کے پاس ہیںاور وہ نشانی کے طور پر ماضی کو مستقبل سے اورمستقبل کو ماضی سے تبدیل کر سکتا ہے۔ گھڑی کی سوئی کو تیزی سے آگے یا پیچھے گھما سکتا ہے یا وقت گزرنے کے باوجود وقت کی زد میں آئی ہوئی اشیا کو وقت کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے: ’’تم نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا‘ جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مرجائو۔ پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے‘ مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘ (البقرہ ۲:۲۴۳)‘ یعنی اس دنیا ہی میں دوبارہ زندگی بخش دی۔ اس طرح بنی اسرائیل نے جب کہا کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہ لیں‘ ایمان نہیں لائیں گے تو ایک زبردست کڑکے نے ان کو آلیا وہ بے جان ہو کر گر گئے اور پھر انھیں دوبارہ زندگی دی گئی۔ (دیکھیے:  البقرہ ۲:۵۵-۵۶)

اسی طرح جب حضرت ابراہیم ؑ کا نمرود سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں مکالمہ ہوا تو زندگی اور موت کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں ہے۔ لیکن پھر جب حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ اچھا‘ اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو ذرا مغرب سے نکال لا تو یہ  سن کر وہ ششدر رہ گیا۔ ظاہرہے کہ وہ سمجھ گیا کہ یہ دونوں اختیارات لازم و ملزوم ہیں اور یہ اللہ ہی کی ذات میں جمع ہیں۔ قادر وہی ہو سکتا ہے کہ جو محیط ہو۔ جو محیط نہ ہو وہ سمت کا تابع ہو کر حدود میں رہتا ہے۔

زندگی بعد موت اور زمینی وقت کے بارے میں کس طرح قرآن احساس و شعور کو جھنجھوڑنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے یہ واقعہ نہایت سبق آموز ہے۔ اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے: ’’یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو‘ جس کا گزر ایک بستی پر ہوا‘ جو اپنی چھتوںپر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے کہا: ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے‘ اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟‘‘ اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ ۱۰۰ برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: ’’بتائو کتنی مدت پڑے رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا‘‘۔ فرمایا: ’’تم پر ۱۰۰ برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو‘ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ ہم تمھیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنادینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں‘‘۔اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی تو اس نے کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۵۹)

اس دنیا میں وقت گزرنے کے بعد محض ایک ذہنی تاثر کی حد تک محدود رہ جاتا ہے۔ ۱۰۰برس کے بعد انسان سوچتا ہے کہ یہ چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن گزرا ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کس طرح کھانے اور پانی جیسی اشیا جن میں چند دنوں میں تغیرآجاتا ہے وہ وقت گزرنے پر پڑنے والے معمول کے اثرات سے قطعی طور پر ۱۰۰ سال تک مستثنیٰ رہیں ‘جب کہ ساتھ ہی پڑا ہوا گدھا ۱۰۰ سال میں کس طرح بوسیدہ ہوگیا۔ اسی طرح پھر اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ کس طرح وقت کو سکیڑ کر اور سمیٹ کر ہڈیوں میں آناً فاناً گوشت پوست چڑھ جاتا ہے۔ بیک وقت یہ ایک ہی مقام پر پڑی مختلف اشیا پر مختلف طریقے سے اثرانداز ہوا۔ وقت آگے سے پیچھے ہوگیا۔ پھر پیچھے سے آگے آگیا۔ کہیں بالکل ہی رُک گیا۔ حالانکہ زمین کا طبیعی و مشینی وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا۔

دنیاوی وقت ایک سراب کی مانند ہے۔ جب تک انسان دور سے آنے والے وقت کو دیکھ رہا ہوتا ہے‘ اس کو بہت حسین لگ رہا ہوتا ہے۔ حال میں رہ کر مستقبل اچھا لگتا ہے۔ مستقبل میں پہنچ کر وہ تاثر محو ہو جاتا ہے۔ انسانی ذہن کل اور مستقبل کے پیرائے میں سوچ کر حال کو ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اچھے مستقبل کی توقع حال میں قوتِ عمل فراہم کرتی ہے۔ فکرآخرت سے بے نیازی‘ آخرت میں اچھے انجام کی ضمانت‘ دنیا اگر اچھی مل جاتی ہے تو آخرت بھی اچھی مل جائے گی‘ اس طرح کے عقائد یہودیت و نصرانیت اور مادہ پرست تہذیب کا خاصہ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میںمزید مست ہو جانے کی شکل میں نکلتا ہے۔ قرآن میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا‘ اس روز وہ جنوں (یعنی شیاطین) سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ ’’اے گروہِ جن‘ تم نے تو نوعِ انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا‘‘۔ انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے ’’پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے اور اب ہم اس وقت پر آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا‘‘۔ اللہ فرمائے گا: ’’اچھا‘ اب آگ تمھارا ٹھکانہ ہے اس میں تم ہمیشہ رہو گے۔ اس سے بچیں گے صرف وہی جنھیں اللہ بچانا چاہے گا۔ بے شک تمھارا رب دانا اور حلیم ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۰)

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت ِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا‘‘ (النور۲۴:۳۹)۔ وقت کے عارضی ہونے کی اس سے بڑی کیا مثال ہو سکتی ہے۔ وقت جب بے پروا نظر آتا ہے تو اس لیے کہ وقت کے مالک نے ڈھیل دی ہے۔ انسان سمجھ بیٹھتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہوتا رہے گا۔ وقت گزرنے کی کیفیت غیر یقینی‘ مسلسل‘ یکسانیت اور بالخصوص خوش حالی کی صورت میں ختم ہوتی ہوئی لگتی ہے یہاں تک کہ اللہ کی پکڑ آجاتی ہے۔ تاثرات پر مبنی وقت کی حالت پر صرف اور صرف ایمان ہی کے ذریعے یقینی کیفیت غالب ہو سکتی ہے۔ جب انسان آخرت پر نگاہ جما کر دنیا گزارتا ہے تو وہ اس دنیا کے گزرنے والے لمحات کو آخرت کے خالصتاً‘ دائمی اور حقیقی لمحات کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔

وقت کا تاثر انسان کی حِّس اور شعور کی پیداواربھی ہوتا ہے۔ ’کیا وقت ہے‘ کا جواب جب گھڑی سے ملتا ہے تو ساتھ ’کیسا وقت ہے‘ کا جواب بھی ذہن جوڑ دیتا ہے۔ انسان اپنی شناخت اپنے وقت کے بارے میں تاثرات سے قائم کرتا ہے۔ کامیابی و ناکامی‘ عزت و ذلت‘ خوشی و غم‘ تکلیف و راحت‘ محبت و عداوت‘ رحم وعفو‘ یہ سارے تاثرات اور رویے وقت کے گزرنے کے ساتھ بنتے ہیں۔ ایک صاحب ِ ایمان کے لیے وقت کی تعریف اس لحاظ سے بغیر ایمان کے کسی فرد سے مختلف ہوگی۔ ایمان کی روشنی میں وقت دیکھنا‘ اس کی منصوبہ بندی کرنا‘ اس کو گزارنا‘ یقینا زیادہ معنی خیز ہوتا ہے۔


نظمِ وقت میں انتہائی درجے کی باقاعدگی کا پایا جانا ایک حیران کُن عمل ہے۔ اس کے لیے پورے نظامِ کائنات میں جس ربط اور گرفت کی ضرورت ہے وہ ایک غالب قوت کے کارفرما ہونے کی واضح دلیل ہے۔ کائنات کا پورا نظام ضابطے کے مطابق معمولات کی شکل میں چلتا نظرآتا ہے۔ اس باقاعدگی میں جو تسلسل اور ہمیشگی نظر آتی ہے وہ انسان کو دھوکے میں بھی مبتلا کر ڈالتی ہے۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ کائنات ایک دفعہ بنا دی گئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے تخلیق سے ہاتھ روک دیا۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھا کہ یہ نظام تو گھڑی کی طرح بس چلتا ہی نہیں ہے۔

اس نظام میں جہاں باقاعدگی پائی جاتی ہے وہاں اتفاق وحادثاتی نوعیت کی بھی پوری گنجایش ہے۔ اس نظام کے یقینی ہونے کے اندر ہی اس کے غیریقینی ہونے کی گنجایش بھی موجود ہے۔ بظاہر انتشار نظر آتا ہے لیکن اندرونی طور پر تنظیم کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ بعض اوقات بظاہر ترتیب محسوس ہوتی ہے لیکن اندرونی طور پر خلفشار کا سماں ہوتا ہے۔ یقینی و غیر یقینی‘ نظام و انتشار‘ منصوبہ جاتی و اتفاقی‘ ارادی و حادثاتی‘ کش مکش اور ٹھیرائو‘ تعمیروتخریب‘ ان سب کا امتزاج اس کائنات کو انسان کے لیے بہترین جولان گاہ بنا دیتا ہے۔ اس کی فکر اور شعور کے اندر یہ طاقت رکھی گئی ہے کہ وہ اس کائنات کے رازوں کو تہہ بہ تہہ سمجھ سکے‘ عوامل و عواقب کو معلوم کر سکے‘ مابعد وماقبل کا تعین کر سکے۔ اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے مواقع تلاش کر سکے اور اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھا سکے۔

معمولات میں باقاعدگی ایک ظاہری صفت ہے۔ اگر کہیں باقاعدگی پائی جاتی ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بڑا اہم اور نازک کام مقصود ہے۔ اس کائنات میں ذرات کے اندر کی دنیا سے لے کر کھربوں کہکشانوں (galaxies) کا نظام دراصل وقت کی ایسی زنجیر سے بندھا ہے کہ جس کی بعض کڑیاں ایک سیکنڈ کے کھربوں حصے پر مشتمل ہے اور بعض کھربوں سالوں پر محیط ہیں۔ نوعِ وقت کی یہ وسیع تقسیم اور اس میں ربط کا مسلسل قائم رہنا ایک انوکھی صفت ہے۔ یہی باقاعدگی اورنظم‘ اسلام اہل ایمان میں بھی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قرآن میں عبادات‘ معاہدات سے متعلق احکامات جب بھی آئے ہیں تو وقت کا ذکر حکم کی مناسبت سے ضرور کیا گیا ہے۔ شادی‘ طلاق‘ حرام و حلال‘ جہاد‘ انفاق اور نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ان تمام امور کے متعلق آیات میں وقت کے پہلو پر بھی جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ سود کی حرمت اس لیے کی گئی ہے کہ اس کو محض وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور چڑھتا سمجھ لیا گیا۔ انفاق کے بارے میں بتایا گیا کہ جہاد سے پہلے انفاق کرنے والے فتح کے بعد انفاق کرنے والوں سے بہتر ہوں گے۔ نماز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ سحری کے بارے میں بہت ہی باریک بینی سے وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ نیک کام اس وقت اور اتنا ہی نیک تصور ہوگا جتنا وہ وقت کے لحاظ سے درست ہوگا‘ برموقع اور برمحل ہوگا۔ فرعون عذاب شروع ہونے کے بعد ایمان لایا‘ لہٰذا بے کار رہا۔ موت کا منہ دیکھ کر توبہ کرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

باقاعدگی بالآخر مستقل مزاجی اور استقامت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جو ضعف انسان کے ارادے میں ودیعت کیا گیا اس کو ختم کرتی ہے‘ اور جو نسیان اُسے غفلت میں مبتلا کر دیتا ہے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ اسلامی معاشرت کی آبادیاںدن میں پانچ مرتبہ اللہ اکبر کی صدائوں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ اذان کی حیثیت ایک گھنٹے کی ہے۔ وقت کے پہروں پر اذان سن کر وقت کا مجموعی حساب رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے interactive clock ہے۔ اس لیے کہ اذان کے ساتھ جواب بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح وقت کا ہر پہر شہادت اور عبادت کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور ختم ہوتا ہے۔ مقصد گزرتے ہوئے دن کے ہر پہر کے سرے پر اللہ کی یاد کے لیے باقاعدگی سے نماز پڑھنا ہے۔ کائنات میں نظمِ وقت کی موجودگی دراصل اللہ تعالیٰ کی فطرت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی کا اہتمام اہلِ ایمان سے بھی مطلوب ہے۔ یہ باقاعدگی اُس خود نظمی (self-organization) کو پروان چڑھاتی ہے جو اس کائنات کا خاصہ ہے۔ مغرب نے جو Time Culture دیا ہے اس کا خاصہ مشینی انداز سے وقت گزار کر محض تفریح و مسرت کے لیے وقت صَرف کرنا ہے۔

وقت ایک گواہ ہے۔ والعصر سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا بھی یہ خیال ہے کہ ہر سیکنڈ اور گھنٹہ یا کوئی بھی اور وقفہ درحقیقت ایک لفافے یا فائل کی صورت میں کھلتا اور اس عرصے میں وقوع پذیر ہر شے اور اُس کی کیفیت کا نقش محفوظ کرتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ گویا وقت ایک گواہ ہونے کے ساتھ اپنا دفتر اور اپنا ریکارڈ خود رکھتا ہے۔ ذرات سے لے کر پہاڑوں کی چٹانوں میں‘ گلیشیئرمیں‘ یہ گواہی مرتسم ہے۔ اس کی زبان قدرتی ہے اور انسان اب تحقیق کے نتیجے میں قدیم زمانے میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو جان لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ حقیقت تقاضا کرتی ہے کہ وقت کا استعمال وقت کے مقاصد کی روشنی ہی میں کیا جائے۔


تنظیمِ وقت کے اصولوں کو فہمِ وقت کے اسلامی تصورات کی روشنی میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ درج ذیل احادیث عملی زندگی کے لیے زبردست رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: ’’کوئی صبح نہیں ہوتی‘ جب کہ دو فرشتے نہ پکاریں کہ اے آدم کے بیٹے میں ایک نیا دن ہوں اور تمھارے اعمال پر گواہ ہوں۔ پس مجھ سے زیادہ فائدہ اٹھائو کیونکہ اب روزِ قیامت سے قبل نہ پلٹوں گا‘‘۔

گویا وقت ایک عظیم نعمت ہے کہ جو دوبارہ نہیں ملے گی۔ دولت‘ صحت اور دوسری اشیا سے محروم ہونے کے بعد دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن وقت کو نہیں--- یہ حدیث وقت کی منصوبہ بندی کی دعوت دیتی ہے۔ اس منصوبہ بندی کا مقصد وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ فائدہ کم وقت میں زیادہ کام کرنے ہی سے نہیں بلکہ صحیح وقت پر صحیح کام اور زیادہ دیرپا فائدے والے کام کرنے سے ممکن ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ ہر دن کو ایک نیا دن سمجھ کر شروع کرنا چاہیے۔ ہر روز ایک نیا یونٹ ہے‘ ایک نئی زندگی ہے۔

وقت انسان کا کتنا بڑا اور قیمتی ہتھیار ہے‘ اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولؐ اللہ نے دو آدمیوں میں بھائی چارہ قائم فرمایا۔ پھر ان میں ایک شہید کر دیا گیا۔ پھر دوسرا ایک ہفتہ یا کم و بیش اسی مدت میں فوت ہوگیا۔ رسولؐ اللہ نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد رسولؐ اللہ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ اس کے بارے میں تم نے کیا کہا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ ہم نے دعا کی کہ اللہ اس کی مغفرت فرمائے‘ اس پر رحم کرے‘ اور اُسے اپنے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ پھر اُس کی نماز اس کی نماز کے بعد اور اس کا عمل اس کے عمل کے بعد یا فرمایا اس کا روزہ اس کے روزے کے بعد کہاں گئے؟ ان دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان بھی نہیں ہے۔ گویا ایک ہفتہ کے نیک اعمال بھی اتنے کافی ہو سکتے ہیں کہ نہ صرف شہید کے درجے سے زیادہ بڑا درجہ مل جائے بلکہ جو فرق ہو وہ زمین اور آسمان سے بھی زیادہ ہو۔ ہر دن‘ ہر لمحہ‘ ہر گھنٹہ انتہائی قیمتی ہے۔ ہر دن کو کیسے گزارا جائے؟ یہ حدیث ملاحظہ کیجیے:

حضرت ابوذرؓ نبی اکرمؐ سے بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابراہیم ؑکے صحیفوں میں یہ بات بھی ہے کہ عقل مند آدمی کے لیے ‘ جب کہ اس کی عقل کام کرے‘ لازم ہے کہ وہ اپنے اوقات اس طرح تقسیم کرے کہ اس میں کچھ گھڑیاں ایسی ہوں کہ ان میں اپنے رب کی مناجات کرے‘ کچھ گھڑیاں ایسی ہوں کہ ان میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے‘ ایک گھڑی ایسی بھی ہو کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی شان صناعی میں غوروفکر کرے‘ اور ایک گھڑی ایسی بھی کہ اس میں اپنی ضروریات خوردونوش کے لیے فارغ ہو۔ اور عقل مند آدمی کا کام ہے کہ رخت سفر نہ باندھے مگر تین چیزوں کے لیے: آخرت کے توشے کے لیے‘ معاش کے سلسلے میں کاروبار کے لیے یا ایسی لذت کے حصول کی خاطر جو حرام نہ ہو۔ اور عقل مند آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کودیکھنے‘ سمجھنے والا ہو‘ اپنی حالت پر توجہ دینے والا ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ جو آدمی اپنے کلام کو اپنا عمل سمجھتا ہو‘ اس کا کلام تھوڑا ہوگا مگر یہ کہ بامقصد باتیں ہوں‘ وہ ان ہی تک اپنے آپ کو محدود رکھے گا۔ (صحیح ابن حبان)

اوقات کی تقسیم کے چار اہم خانے بتائے گئے ہیں۔ مناجات و عبادات‘ ذاتی محاسبہ‘ کائنات و قدرت پر غوروفکر‘ خوردونوش و ضروریاتِ زندگی۔ سفر کہ جو زندگی کی ایک بڑی سرگرمی ہوتی ہے اس کے تین مقاصد بتائے گئے ہیں اور انسان کا رویہ اپنے زمانے کے ساتھ اپنی حالت کے ساتھ‘ اپنی زبان کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔ تنظیمِ وقت کا نسخہ اس حدیث میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے--- زمانے سے بے پروا ہو کر زندگی گزارنا دین داری کا کوئی تقاضا نہیں۔ زمانے کو پلٹانے کی کوشش کرنا ہی درست رویہ ہے۔ وقت کے ساتھ صحیح سلوک وقت کے دھاروں سے بے تعلقی نہیں بلکہ مقصد میں نوعیت کا ضبط و عمل ہے۔

وقت ایک موقع لے کر آتا ہے۔ اس موقع کو کسی کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے متعلق ایک حدیث بخاری میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ایک صحت‘ دوسرے فارغ البالی۔ جو کام حالت ِ صحت اور فارغ البالی کی صورت میں ہوسکتے ہیں وہ کسی اور صورت میں ممکن نہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول ؐاللہ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا اچھی ہے اس کے لیے جو اس سے اپنی آخرت کے لیے توشہ بنائے حتیٰ کہ اس کا رب اس سے راضی ہو جائے۔ (حاکم فی المستدرک)

وقت کی منصوبہ بندی --- دراصل زندگی کی منصوبہ بندی ہے۔ اور زندگی کی منصوبہ بندی کے لیے زندگی کی ترجیحات کا صحیح تعین ضروری ہے۔ دنیا اور آخرت کے تعلق کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ چونکہ دنیا میں یہ موقع اللہ کی طرف سے نعمت ہے اس لیے اس کے خاتمے کی تمنا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے وہ نیک ہو تو اس لیے کہ شاید نیکی میں اضافہ ہو اور برا ہو تو اس لیے کہ شاید توبہ کرلے۔ (بخاری)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ موت کی تمنا نہ کرو‘ اس لیے کہ موت کی سختیاں جو آنے والی ہیں وہ بہت سخت ہیں‘ سو سعادت کی بات ہے کہ آدمی کی عمر لمبی ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف رجوع کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

ظاہر ہے کہ جس کو زیادہ موقع ملا اور اس نے اس کا زیادہ فائدہ اٹھایا‘ اس کا اجر زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمل کا ہر ذخیرہ ناکافی محسوس ہوگا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اگر بندہ پیدایش کے وقت سے لے کر بوڑھا ہونے تک اللہ کی اطاعت میں اپنے چہرے کے بل گرا پڑا ہو‘ تو اسے قیامت کے روز حقیر سمجھے گا اور چاہے گا کہ اسے دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ اجروثواب میں اضافہ کرے۔ (مسنداحمد‘ رواہ محمد بن عمیرہ)


کون سا وقت زیادہ باعث برکت ہے؟ احادیث اور قرآنی آیات فجرسے قبل اور بعد کے وقت کو دن اور رات کے تمام اوقات سے بہتر بتاتی ہیں۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے اللہ! تو میری اُمت کو اس کے بکور میں برکت دے۔ (الطبرانی فی الاوسط)

بکور سے مراد دن کا پہلا حصہ ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی پھر وہ طلوعِ آفتاب تک بیٹھا رہا۔ اللہ کا ذکر کرتا رہا اور پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اُس کا اجر حج اور عمرے کے برابر ہوا۔ آپؐ نے اسے تین مرتبہ فرمایا:  تامۃ‘ تامۃ‘ تامۃ‘ یعنی حج و عمرے کا مکمل اجر۔

اس طرح رات کا مقصد جہاں سکون و آرام بتایا گیا ہے وہیں اس کے ایک حصہ کو عبادت اور مناجات کے لیے وقف کرنے کے بارے کہا گیا ہے۔ اختصار کے سبب یہاں تفصیل سے ان آیات و احادیث کا حوالہ نہیں دیا جا رہا ہے لیکن وقت کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس ضرورت کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ دن کے کاموں میں اللہ کی برکت‘ مشیت کی شمولیت اور زندگی کے راستے میں کامیابی کے ساتھ سفر کے لیے رات کی عبادت ناگزیر ہے۔

نمازباجماعت کی ادایگی وقت کے معمولات کو خود بخود ترتیب دے دیتی ہے ۔ یہ معمول اوقات کو بڑے حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ دیگر تمام مصروفیات کو نماز باجماعت کے اوقات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے بے انتہا سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ دعا بھی آئی ہے کہ ’’اے اللہ! میرے دن کے پہلے حصے کو درست‘ درمیانے کو کامیاب اور آخری کو آسان بنا دے اور میں تجھ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتا ہوں۔ لمبی عمر کا مطلب لمبی مدتِ عمل ہے۔ اگر مدتِ عمل کا استعمال درست ہو تو یہ باعث ِ فخر ہے ورنہ وبال اور تباہی۔ یہ تین حدیثیں خوشخبری بھی دیتی ہیں اور ڈراتی بھی ہیں۔

حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تقدیر کوکوئی چیز بھی پھیر نہیں سکتی سوائے دعا کے‘ اور عمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کر سکتی سوائے حق شناسی اور نیکی کے۔ اوریقینا آدمی گناہ کی شامت سے کبھی رزق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

حضرت ابوصفوانؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: سب سے بہتر آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا جس کی عمر ۶۰ سال کو پہنچ گئی۔


فہمِ وقت کے بارے میں آخری بات یہ ہے کہ اگرچہ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آسکتا لیکن گزرے ہوئے وقت میں کیے گئے برے اعمال کو نیک اعمال سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام میں جہاں تزکیے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ حال اور مستقبل کی اصلاح ہو سکے وہیں توبہ اور استغفار کے ذریعے انسان اپنے ماضی کو درست کرسکتا ہے۔ جوبوجھ لدا ہوا ہو اس کو اتار پھینک سکتا ہے۔

اس طرح اسلام نے گزرے ہوئے وقت کو حال میں گرفت میں لے کر تبدیل کرنے کا راستہ بتایا ہے۔ یہ سہولت بار بار استعمال ہوسکتی ہے اور وقت کے معیار پر اور اس کے آئینے میں جب بھی انسان کو احساس ہو کہ یہ کام غلط ہوا تھا وہ واپس پلٹ سکتا ہے‘ اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔ توبہ و استغفار کے ذریعے انسان اپنی پوری زندگی کو نئے سرے سے شروع کر سکتا ہے۔ زندگی اُمید کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر توکل اور اس کی رضا پر قناعت کے ذریعے آیندہ آنے والے وقت کو ماضی سے بہتربنایا جا سکتا ہے۔ ماضی ہمیشہ کے لییانمٹ نہیں ہے بلکہ بندے کی توجہ کا متلاشی ہے۔ جب بھی بندہ اپنا محاسبہ کرے اور ماضی کو دھونا چاہے تو وہ اس کے لیے ممکن ہے۔ ایک نیا انسان کسی بھی وقت اُبھرسکتا ہے۔ انسان اپنی زندگی کو ماضی کے برے عمال کے شکنجے سے نکال کر ازسرنو ترتیب دے سکتا ہے--- حقیقت یہ ہے کہ ماضی کو حال میں تبدیل کرنے کی جو قوت توبہ اور استغفار اور تزکیے میں موجود ہے‘ انسان کے لیے وقت کے سلسلے میں سب سے بڑی نعمت ہے۔

وقت کو عقیدئہ توحید کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مغربی تصورات (اپریل ۲۰۰۳ئ) سے یکسر مختلف تصویر بنتی ہے۔ فہمِ وقت کا یہ انداز خلافت ِ ارضی پر مبنی انسانی زندگی کے تقاضوں اور ضروریات کا مکمل طور پر لحاظ رکھتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کو آشکار کرتا ہے‘ اس کی شانِ ربوبیت پر دلالت کرتا ہے اور بندے کو اپنے رب سے جوڑ دیتا ہے۔حقیقتاً یہ تصور انتہائی جان دار ہے۔

وقت پر غوروفکر ہرانسان کے بس میں ہے۔ گردش لیل و نہار‘ آئینہ ایام‘ اور تماشاے دنیا میں انسان مشاہدے‘ تجربے کے علاوہ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اثر لیتا ہے اور ڈالتا ہے۔ روز مرہ کے واقعات وقت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگرکرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت ایک ڈرانے والی اور جھنجھوڑنے والی شے ہے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو خوش کن کم اور خوف ناک زیادہ ہے۔ وقت سراب کی طرح نظر آتا ہے۔ انسان لمحات کی تلاش میں‘ گذشتہ اوقات کی یاد میں‘ اور توقعات کے پورا ہونے کے انتظار میں اور تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کو کسی کام سے بھرنے کے بارے میں سوچتے سوچتے گزر جاتا ہے۔ یہ ایسا جام ہے جو غافل کو اور دھوکے میں رکھتاہے اور سوتے ہوئے کو اور مدہوش کر دیتا ہے۔ جو اس کے پیچھے ہوتا ہے‘ وقت اس سے آگے بھاگتا ہے۔


o  ریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی ‘ لاہور

وقت مومن کے لیے نعمت ہوتا ہے۔ ایمان گزر جانے والے وقت کو محو نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے امر بنا دیتا ہے۔ ایمان وقت کے انتظار سے بچاتا ہے‘ قوتِ عمل کو بروے کار لانے کا داعیہ فراہم کرتا ہے۔ ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر آن ہمیشہ کی زندگی کا نیا باب کھول دیتا ہے۔ اللہ کی نصرت سے وقت سکڑتا ہے اور پھیلتا ہے۔ کام آسان ہو جاتے ہیں‘ راہیں کھل جاتی ہیں۔ مزید کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جو زندگی پلک جھپکتے گزر جاتی ہے وہ ابدی و لازوال نعمتوں کی حقیر سی قیمت ٹھہرتی ہے۔ ایسی زندگی آہ! کاش! اور انتظار کی صعوبت سے ناآشنا رہتی ہے۔ وقت اس کی مٹھی میں بند رہتا ہے۔ جو وقت کے پجاری ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور جو وقت کے شکاری ہوتے ہیں وہ اسے سر نگوں کر لیتے ہیں۔

وقت اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ ایک ایسی تخلیق ہے جو دیگر مادّی تخلیقات سے قبل وجود میں آتی ہے۔ تخلیقی عمل کے تسلسل کا اسٹیج وقت کی لہر پر استوار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کے درمیان رابطہ اور تعلق کا وسیلہ بھی ہے۔ اس لیے وقت پر غوروفکر انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب لے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حقیقی ہے۔ اس پر ایمان وقت کے معیار پر انسانی زندگی اور تمام مادّی اشیا کے فانی ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ابدی وجود کو واشگاف حقیقت کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ غیب تک رسائی وقت کے نظام پر غور کرنے سے ہو جاتی ہے۔ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے وقت اور اس کی بعض خصوصیات کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ وہ زندۂ جاوید ہستی‘ جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے‘ اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے‘ اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی بزرگ و برتر ذات ہے۔ (البقرہ ۲:۲۵۸)

اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقت کا وہ سانچہ یا معیار جو انسانی زندگی کے ساتھ متعلق ہے‘ استعمال نہیں ہو سکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نظمِ وقت کی خالق ہے‘ اور وہ خود تمام پہلوئوں سے اُس وقت کے نظام سے ماورا اور بالاتر ہے۔ اللہ زندہ و جاوید ہے‘ حّی و قیوم ہے۔ یہ وقت کا کون سا تصور ہے؟ اس کا ادراک شاید انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ زمین اور آسمان میں جو وقت برپا ہے اس کے محدود علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اندازہ لگانا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ ایسے ہے کہ جیسے ہمیں معلوم ہے کہ اللہ جمیل ہے لیکن اس خوب صورتی کا ادراک انسانی ذہن کی صلاحیت سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وقت اور کام میں تھکن اور نیند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی وقت دورے کی مانند چلتا ہے۔ جو روزانہ ایک بار ایک دورہ مکمل کرتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ماہ و سال کا دورہ ہوتا ہے‘ اور پھر پوری زندگی اپنا دورہ مکمل کر لیتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ انسان پہلے بچہ ہوتا ہے اور پھر مختلف ادوار سے گزر کر دوبارہ بچے کی طرح محتاج بن جاتا ہے۔ اس طرح زمانے کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بار بار لوٹ کر آتا ہے‘ عروج و زوال کی تصویریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ سورۃ آل عمران میں آیا ہے کہ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں (آیت ۱۴۰)۔

اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقت نہ دورہ ہے اور نہ ہی کوئی لکیر جو کھینچ دی گئی ہو۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اس کائنات کے وقت کی حیثیت ایک ایسے خط کی ہے کہ جو مسلسل حرکت پذیر ہے۔ اس کے سارے مراحل اور نقش عملاً پہلے سے بتائے نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ تیر نہیں کہ جو چھوڑا جا چکا ہو۔

انسانی جسم وقت گزرنے کے ساتھ تھک جاتا ہے۔ وقت کا بوجھ اسے مجبور کر دیتا ہے کہ وہ کام سے دست بردار ہو جائے۔ آرام اور کام کا پھیر وقفوں کی شکل میں بار بار آتا ہے اور یہ طبعاً انسان کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ باور کراتا ہے کہ وہ اس سے بالاترہے۔ آیت الکرسی کی آیت کے درمیانی حصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوراتی نوعیت کا یہ وقت دراصل ایک مخصوص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا مدار مسلسل اس کو ایک منزل کی جانب لے جا رہا ہے۔ وقت بذاتِ خود حالت ِ سفرمیں ہے اور وقت کا وہ مرحلہ جو انسان دنیا میں گزارتا ہے ایک مہلت اور آزمایش کی شکل میں ہے۔ یہ وقت اپنا بڑا دورہ مکمل کر کے اُس مقام پر پہنچے گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور واپسی ہوگی۔ دن اور رات کا پھیر‘ زندگی کا پھیر اور پھر زمین اور آسمان کے وقت کا پھیر اور آخر میں انسانیت اسی مرحلے پر واپس پہنچ جائے کہ جہاں سے سفرکا آغاز ہوا تھا۔

آیت الکرسی کے آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اقتدار کی تصدیق فرماتے ہوئے علم کے احاطے کا ذکر کرتے ہیں۔ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ اوجھل ہے‘ اس میں سب کچھ آگیا ہے۔ عبادت کے لائق کوئی ایسی ہی ذات ہو سکتی ہے کہ جو وقت کی خالق ہو‘ جس کی مشیت وقت پر غالب رہ سکتی ہے اور جو وقت کی منزل یعنی آخرت کا مالک ہو۔جب کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ موت کے بعد زندہ ہوا اور زندگی کے بعد پھر موت سے ہم کنار ہوکر دوبارہ زندگی پاتا ہے۔ انسا ن اپنے وقت اور کام کے معاملے میں مجبور ہے۔ نہ وہ اپنے وقت پر قادر‘ نہ  اپنے کام کو ازخود کر لینے کے لیے خودمختار۔ وہ محتاج ہے اور اپنے عالمِ قید سے باہر نہیں نکل سکتا ہے۔

آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ نے چار انداز کے اوقات بتائے ہیں۔ ایک وہ وقت جو زمین اور آسمان میں پائے گئے وقت کی پیمایش اور تصور سے مبرا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کی تعریف صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے۔ وہ خود زندہ ہے اور قائم ہے۔ وہ تمام مشرقین و مغربین اور میقات و قطبین کا خالق اور مالک ہے۔ دوسرا وقت وہ ہے جو زمین اور آسمان میں ہے۔ اس وقت کوسائنسی انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی خصوصیات‘ تجزیہ اور فکر کے نتیجے میں واضح ہوسکتی ہیں۔ تیسرا وقت ہر انسان کا اپنا وقت ہے۔ یہ وقت زمین اور آسمان میں پائے جانے والے نظم وقت ہی کے تابع ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی مخصوص مُہلت اور مدت کے لیے آتا ہے۔ چوتھا وقت آخرت کا وقت ہے۔

مغربی تصورات نے فہمِ وقت کی حدود سے آخرت کو بے دخل کرکے اس کو ایک ایسی ریل گاڑی بنا دیا ہے جس کے نیچے پٹڑی نہیں ہے۔ اور چونکہ پٹڑی نہیں اس لیے اس کا کوئی اسٹیشن بھی نہیں ہے۔ زمینی‘ کائناتی‘ انسانی‘ علمی‘ معاشرتی‘ تاریخی‘ کسی بھی نقطۂ نظر سے وقت کا تصور قائم کرنے کے لیے وقت کا سرا تلاش کرنا ہوگا۔ وقت کی منزل‘ اس کی ابتدا اور انتہا کا اندازہ لگانا ہوگا۔ وقت کی سمت سے لاعلمی یا بے توجہی کے نتیجے میں وقت ایک حسابی مشق بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کا میکانیکی تصور بے جان ہے اور انسانی زندگی کو مسخ کر دیتا ہے۔ وقت ایک ایسا معمہ ہے جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انسان کو اپنے حس و شعور کی گہرائیوں اور تجرباتی و مشاہداتی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک کیفیت بھی ہے اور حقیقت بھی۔ ایک قدر بھی ہے اور خبربھی۔ ایک قوت بھی ہے اور ہتھیار بھی۔ ایک موقع بھی ہے اور نتیجہ بھی۔

وقت کا آغاز حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل ہوا تھا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل زماں و مکاں کی صورت گری اور ہیئت سازی کرنے کا اشارہ کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو‘ حالانکہ تم بے جان تھے‘ اس نے تم کو زندگی عطا کی‘ پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا‘ پھر وہی تمھیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا‘ پھر اسی کی طرف تم کو پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے‘ جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں‘ پھر اُوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۸-۲۹)۔انسان کو خلیفہ کی حیثیت سے بنانے سے قبل زمین کو انسان کے لیے تیار کر دیا گیا تھا اور زمین نے اپنا دورہ شروع کر دیا تھا۔ زمینی وقت میں دن اور رات کی گردش‘ موسمیاتی تغیرات‘ ماہ و سال‘ صدی و ہزاروں کا ایسا نظام بنایا گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا اور اس کے تمدن کا ارتقا ممکن ہوجائے۔ تمام قدرتی عوامل وقت کے نظم کے پابند ہیں۔ ہر شے اور ہر فعل کے ساتھ وقت کی تقدیر مطلق ہے۔

زمینی وقت کا‘ جس کا اہتمام انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے لیے کیا گیا ہے‘ نقطۂ اختتام قیامت ہے۔ یہ وہ دن ہے جب وقت کا دورہ تھم جائے گا۔ اس کا پھیر اس کو ایک ایسے مقام تک پہنچا دے گا جہاں یہ پورا نظمِ وقت تہس نہس ہوجائے گا۔ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ وقت کے اس دورے اور پھیرے کے اُوپر اپنی زندگی کی بقا کے لیے منحصر ہے۔ کوئی شے‘ کوئی زمینی عمل‘ بس اتنا ہی پایدار ہو سکتا ہے جتنا کہ زمینی وقت۔ زمین اور آسمان کے درمیان ہر شے اس وقت کو قائم رکھنے اور اپنے عرصۂ حیات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وقت کے کندھوں پر یہ سفر اِن کو آغاز سے فنا کی طرف لے جاتا ہے۔

زمینی وقت کی خصوصیات میں اس کے نقطۂ آغاز‘ نقطۂ اختتام‘ دورے اور پھیرے کی شکل میں مسلسل حرکت‘ مدت اور مہلت کے تعین اور آخرت کی سمت کی جانب بہائو کے علاوہ ایک اور بڑی خصوصیت اس کا مختلف مرحلوں اور ادوار میں قابلِ تقسیم ہونا ہے۔ اس طرح واقعات کا ہونا ممکن ہو جاتا ہے اور وقت کا میدان مختلف مدارج سے گزرنے کے قابل بناتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی اُوپر پیش کی گئی آیت میں زمینی وقت کے ساتھ انسانی زندگی کی پانچ حالتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ انسان پہلے بے جان تھا‘ پھر اس نے زندگی پائی اور اپنے عرصۂ حیات کو مکمل کر کے دوبارہ بے جان ہوگیا۔ اس کے بعد پھر اسے زندگی دی جائے گی اور وہ اللہ کی طرف پلٹ کر جائے گا--- ہر انسان کی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقلی وقت کی اپنی منزل کی جانب مسلسل پیش رفت کا ثبوت ہے۔

انسانی شعور کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے جسم و جان کے زمینی وقت کی حدود و قیود میں مجہور اور پابند ہونے کے باوجود آخرت اور اس کے بعد کے وقت کا نہ صرف ادراک کر سکتا ہے بلکہ غیب سے تعلق جوڑتے ہوئے آخرت اور دوزخ و جنت کی کیفیات کو پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو سکتاہے۔ انسان اور کسی بھی دوسری تخلیق میں جو زمینی وقت میں گرفتار ہے یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی یہی صفت بیان کی ہے کہ ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۴) ۔ گویا انسان آخرت کو اس انتہا تک دیکھ سکتا ہے جہاں اُس کو یقین ہو کہ وہ وقت موجود ہے‘ بلکہ اگر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے اس سوال کے جواب میں کہ احسان کیا ہے؟ رسولؐ اللہ کے اس ارشاد پر غور کیا جائے کہ ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اس کی قدرت نہیں رکھتے تو اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘، یعنی غیب کو بغیر اپنی آنکھوں سے دیکھے انسان چشمِ بصیرت سے پا سکتا ہے اور اپنے دل میں جذب کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسان طبیعی لحاظ سے زمینی وقت کے تابع رہتے ہوئے بھی حقیقی طور پر آخرت کے وقت پر یقین رکھے اور اپنے آپ کو اُس کے لحاظ سے تیار کرے۔ تجرباتی و مشاہداتی سطح پر اس کا اس طرح ادراک کرے جیسے اس کو دونوں آنکھوں سے نظرآجانے والی کسی چیز کا ہو سکتا ہے۔ ایمان بالآخرت نام ہی بیک وقت دو اقسام کے وقت کی مختلف حالتوں اور اُن کے تقاضوں کو سمجھنے اور برتنے کا نام ہے۔ ایمان سے محرومی کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو آخرت کے وقت کے اُن عظیم تصورات اور اس کے لامتناہی اثرات سے الگ کر لیتا ہے۔ وہ ایک ساکت نما وقت کی سلسلہ وار حرکت اور اس کے بتدریج ماہ و سال کی صورت میں آگے بڑھنے کی حد تک محدود ہوجاتا ہے۔ وقت کا ایسا ساکت اور یک رُخا تصور انسانی زندگی کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ زندگی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے سارے مراحل اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انجامِ کار اور اتمام سعی کی فکر ختم ہوجاتی ہے۔ ذمہ داری اور جواب دہی کے ذریعے نظم پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ ظاہرہے زندگی کی تعریف اور اس کا تقاضا وقت کے آئینے ہی میں ہو سکتا ہے۔

کسی انسانی جان کی پیدایش یا اس کا خاتمہ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کی نشانی ہوتا ہے‘ یہ آیت انسانی زندگی کے دورہ کو سمیٹ لیتی ہے۔اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے اور اسی  طرف واپس لوٹ کر چلی جاتی ہے۔ کیلنڈر اور گھڑی کے بتائے ہوئے وقت سے ایک گاڑی کی طرح وقت کے آگے بڑھنے یا دریا کے بہنے کی طرح وقت کے گزرنے کا تاثر تو ملتا ہے لیکن وقت کا مہلت اور میعاد ہونے کا تاثر نہیں ملتا ہے۔

آخرت کے وقت کی فکر میں جذب ہو کر زمینی وقت کی مجبوریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے‘ اس کی پابندیوں سے بالآخر آزاد ہوا جا سکتا ہے۔ زماں کی حدود‘ مکاں کی قیود کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ زماں و مکاں کا نظام انسانی زندگی کی استواری کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے خول سے ایمان کے نتیجے میں ہی باہر نکلا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لیلۃ القدر کا انعام ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ ایک ہزار مہینوں کا مطلب ۳۰ ہزار دن یا ۸۳ برس سے زائد کی عمرہے‘ یعنی ایک رات یا پانچ راتوں کی عبادت ایک زندگی اور ایک عمر کے برابرقراردی گئی ہے۔ ۱۰ سال اگر لیلۃ القدر کا اہتمام کیا جائے تو ۱۰ زندگیاں نذر ہوگئیں۔ ایمان کے علاوہ وہ کون سا دوسرا راستہ ہے جو ایک رات کی یہ قیمت دے سکتا ہو۔ اس طرح ہر نیکی کا کم از کم اجر ۱۰گنا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر منحصر ہے۔ شہادت موت کو شکست دے دیتی ہے۔ موت کو موت کا شکار کر دینا نظمِ وقت کے طبیعی اصولوں کی اور سائنس دانوں کے فہم وفراست کی روشنی میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ صرف ایمان بالآخرت کی وجہ سے ممکن ہے۔

تاریخوں کے تعین کے لیے اسلامی کیلنڈر قمری حساب سے استوار ہوتا ہے۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے نبی! لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۹)۔ اس آیت سے قبل جو آیت ہے وہ لوگوں کے مال ناروا طریقے سے نہ کھانے کی ہدایت کرتی ہے۔ شمسی نظام کو اختیار کرنے کی ایک وجہ دراصل سودخوری تھی۔رومی دور میں سود کا حساب رکھنے کے لیے کیلنڈر کی صورت میں ایام اور ماہ و سال کا حساب رکھا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں موسم اور دوسرے قدرتی تغیرات کا حساب تو رکھا ہی جاتا تھا۔ اسلام کیلنڈر کے لحاظ سے قمری اور دن میں عبادات کے اوقات کے تعین کے لیے سورج کو ذریعہ بناتا ہے۔ نمازوں اور رمضان میں سحروافطار کا حساب سورج سے ہوتا ہے‘ جب کہ رمضان اور حج کا حساب چاند سے رکھا جاتا ہے۔ چاند کے ذریعے وقت کا دوراتی حساب رکھا گیا ہے اور سورج کے ذریعے وقت کا سلسلہ جاتی حساب رکھا گیا ہے۔ وقت کا پیغام دورے کے لحاظ سے پلٹنے کا ہے‘ گھیرا مکمل کر جانے کا ہے اور مدت کے لحاظ سے دو واقعات کے درمیان عرصے کی پیمایش کا ہے۔ اسی لیے گھڑی سورج کے حساب سے مدت بتاتی ہے۔

وقت کے ذریعے سے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انسانی عمل کا وسیلہ وقت کی سواری   ہے۔ وقت کے دو مرحلوں میں جو تبدیلی واقع ہوتی ہے وہ ایک واقعے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا یہ اوّلین مظہر توحید کا بھی بہت بڑا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ ’’اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے‘ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ پردئہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے۔ اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے۔ اسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے۔ یہ سب اسی زبردست قدرت اورعلم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں‘‘۔ (الانعام ۶:۹۶)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ وقت کو‘ وقت کے ساتھ ارتقا کو‘ تخلیق کے تسلسل کو‘ زندگی اور موت کے مدارج کو‘ توحید کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے‘ یعنی وقت‘ توحید‘ اور تخلیق ان تینوں کا تعلق اس آیت میں ظاہر ہے۔ مغرب کے مادی اور مشینی تصور کے مقابلے میں اسلام وقت کو زبردست تخلیقی تحریک اور قوتِ کار کے طور پر پیش کرتا ہے۔

سورج اور زمین اپنے محور اور مدار پر ہیں۔ لیکن اِن کے تعلق میں اس انداز سے تبدیلیاں آتی ہیں کہ اس دنیا میں نباتات‘ جمادات‘ حیوانات اور انسان کی زندگی کی بقا ‘ نسل کے تسلسل اور پھیلائو کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ دن اور رات کا اختلاف‘ رات کی تاریکی میں دن کا نکل آنا اور دن کی روشنی کا ڈھل کر دوبارہ رات ہوجانا‘ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر معانی کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ دن اور رات کا اختلاف درحقیقت دو متضاد اور مختلف حالتوں کی موجودگی کی دلیل ہے۔ اس دنیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ دو قوتیں حق اور باطل کی ہیں‘ خیر اور شر کی ہیں‘ ایمان اور کفر کی ہیں۔ دن کی روشنی دعوتِ عمل دیتی ہے‘ رات کی تاریکی طلبِ سکوت لے کر آتی ہے۔ دن کا پوری طرح سے روشن ہو کر پھربتدریج مدہم ہو جانا اور رات کے سماں کا چھا جانا‘ اس دنیا کی عارضی چکاچوند کا ثبوت ہے۔ فنا ہو جانا اور ختم ہو جانا جو اِس کا مقدر ہے‘ اُس کا اظہار ہے۔  جس خدا کے ہاتھ میں دن اور رات کا آنا اور جانا ہے اس کے ہاتھ میں عزت و ذلت بھی ہے۔ زندگی کے بعد موت کی یاد دہانی کے لیے شام کا اور پھررات کا آنا بہترین تذکیر ہے۔

دن اور رات کا مسلسل ایک ڈھب پر اور ایک اصول کے مطابق آنا اور جانا‘ اس کائنات میں تنظیم‘ ترتیب‘ اور پیہم حرکت کی نشانی ہے۔ جمود کے مقابلے میں تبدیلی پر مبنی فطرت کا اظہار ہے۔ تغیر اور تبدل کا پیغام ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا‘ اس کے تقاضوں کا مؤثر جواب دینا‘ اس کی ضرورت کا شعور اور احساس کرنا‘ کامیاب زندگی کا تقاضا ہے۔ انسان کی زندگی کو جہاں سورج کی حرارت چاہیے تاکہ روشنی اور گرمی پہنچے ‘ وہیں رات کا سکون اور ٹھنڈک بھی چاہیے تاکہ قوتِ عمل کو تازہ کیا جائے اور زندگی کو جو گھر اور باہر تقسیم ہو جاتی ہے‘ مربوط کیا جائے۔ زندگی کے خارجی اور اندرونی پہلوئوںمیں توازن پیدا کیا جائے۔دن کو دنیا نظر آتی ہے اور خوب متاثر کرتی ہے‘ اپنے آپ سے وابستہ کرلیتی ہے۔ رات کو آسمان کے نیچے ستاروں کا خوب صورت ہجوم نظر آتا ہے۔ نگاہ اُوپر اٹھ جائے تو واپس نہیں آتی۔

دن اور رات کا آنا اور جانا موسمیاتی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ ہوائوں اور بارش کا نظام‘ درجۂ حرارت کی تبدیلیاں اسی عمل سے وابستہ ہیں۔ زمین کے سینے میں چھپا ہوا دانہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے کونپل بن کر نکلتا ہے۔ مختلف موسم مختلف انواع وا قسام کے پھل لاتے ہیں۔ زمین میں زندگی پانا تو ویسے ایک دفعہ ہی ہوتا ہے اور زندگی کا موت کی صورت میں تبدیل ہونا بھی۔ لیکن روزانہ اُٹھنے اور سونے کا جو انسانی عمل ہے اس کو بھی زندگی اور موت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وہی ہے جو رات کو تمھاری روحیں قبض کر لیتاہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔ پھر روز وہ تم کو اس کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ آخرکار اسی کی طرف تمھاری واپسی ہے۔ پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو (الانعام ۶:۶۰)۔ زندگی اور موت جیسی حالت میں‘ روزانہ مبتلا کرنے کا مقصد‘ اس بات کو مسلسل تازہ رکھتا ہے کہ ایک وہ وقت آئے گا جب بند ہونے والی آنکھ دوبارہ حسب معمول نہیں کھلے گی اور جب اس دنیا سے رشتہ کٹ جائے گا۔ اس لحاظ سے طبیعی وقت ایک ڈرانے والا وقت ہے۔ یہ لرزہ طاری کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس وقت میں الحاقۃ‘ القارعۃ ‘ الواقعہ جیسے ہولناک موڑ کا آنا یقینی ہو‘ اس کا ہر لمحہ کتنی نازک ذمہ داری لے کر آتا ہے۔

دن اور رات کے عمل کے بغیر زمین اور آسمان کی تخلیق مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وقت کا جو نظام اس طرح تشکیل پا گیا وہ ایک قرینہ فراہم کرتا ہے‘ ایک فطری اسلوب اور قدرتی ڈھانچا بن جاتا ہے۔ اس کائنات کی ہر شے اپنے نمو اور ارتقا کے نظام کے لیے لیل و نہار کی گردش کی تابع ہے۔ تخلیق کا یہ عمل دن اور رات کے رُک جانے پر ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ بس ایک نظام ہے جس کا ایک مقصد ہے۔ قرآن بار بار اس نظام کی جانب توجہ اس لیے مبذول کراتا ہے کہ وہ مقصد واضح ہو جائے جس کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے جب وقت کے خول سے باہر نکل کر اپنے وجدان اور شعور کا استعمال کیا تو وہ نظمِ وقت کے ظاہری عمل یعنی چاند‘ سورج اور ستاروں کی دوڑ سے دھوکا کھانے سے بچ گئے۔ اُن کو دوسری نظر میں معلوم ہوگیا کہ یہ تو خود محکوم ہیں۔ آپ کی یقین افروز بصیرت نے پھر اُس کو پا لیا جو غیب کے پردوں میں بظاہر چھپا ہوا ہے لیکن سب کا خالق ہے اورخوب واضح ہے۔ سورج باوجود بڑے اور بھاری اور خوب روشن ہونے کے محض ایک علامت تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اس طرح غوروفکر کے عمل سے گزر کر ایمان و یقین کی لازوال نعمت سے مالا مال ہوگئے۔ ان کو اُبھرتے اور ڈوبتے وقت نے یہ بتا دیا کہ یہ سب کچھ ایک مقصد کے تحت خالق کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ وقت نے وہ رخ متعین کر دیا جس کی طرف پھر کر حضرت ابراہیم ؑ یکسو ہوگئے۔ ’’میں نے تو یکسو ہو کر اپنارخ اس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے‘‘ (الانعام ۷:۷۸)۔ (جاری)

وقت کیا ہے؟

یہ انسانی زندگی کا وہ سوال ہے جو سب سے زیادہ بار بار پوچھا گیا لیکن اُتنا ہی کم سمجھا گیا۔ اس سادے سوال کا سادہ جواب کلائی پر لگی گھڑی کی دو سوئیوں کی حرکت یا آسمان میں سورج کی سمت کو دیکھ کر دیا جا سکتا ہے۔ کیا وقت کے معنی بس یہیں تک محدود ہیں؟ آج ایسی کتابوں کا انبار لگا ہوا ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ کاموں کو گرفت میں لانے اور نظامِ زندگی کو استوار کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تعلیمی و تربیتی ادارے جابجا ایسے کورس لاتے ہیں کہ جو وقت بچانے‘ پیداوار بڑھانے‘ وقت تقسیم کرنے اور منصوبہ بنانے کے سلسلے میں اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح گھڑی ساز‘ کیلنڈر اور ڈائری کے شائع کرنے والے وقت کے لحاظ سے ماضی کو ریکارڈ کرنے اور مستقبل میں جھانکنے کے لیے نت نئے الیکٹرانک طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ وقت دیکھنا ایک ایسا شعار بن چکا ہے کہ گو ہزاروں اور لاکھوں روپے کی گھڑی زیب تن ہوتی ہے--- لیکن وقت کی سمجھ بوجھ‘ اس کی نزاکت کا احساس‘ اس کے تقاضوں کا شعور ناپید ہے۔ وقت کو گھڑی کی دو سوئیوں کی گرفت میں لاکر اور سیکنڈ کو لاکھوں حصوں میں تقسیم کرنے کی صلاحیت پیدا کرکے سائنس دان اس وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے وقت کو فتح کرلیا ہے۔

وقت کے اصول و مبادی اس سطحی سے مشاہدے‘ تجربے اور تعلق کی زد میں نہیں آسکتے ہیں جو عمومی طور پر انسان کا لیل و نہار کی گردش سے ہوتا ہے۔ فہمِ وقت کا سائنسی‘ مذہبی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور معاشی پہلوئوں سے انفرادی و اجتماعی زندگی سے متعلق فکر اور عمل دونوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ نظریات کی کش مکش وقت کے متعلق رویوں کو جنم دیتی ہے کیونکہ زندگی کی قوت اور قدر وقت سے وابستہ ہے۔ چھٹی اتوار کی ہو یا جمعہ یا ہفتہ کی--- حال ہی میں اٹھنے والی اس بحث میں مختلف رویوں کی جھلک نظر آئی۔ نئی صدی اور نئی ہزاروی کے آغاز کے موقع پر ‘ عیسوی و ہجری کیلنڈر کے اختیار کرنے پر یہ بحث ہوتی ہے۔ دفتری اوقات کے تعین اور کاموں کے آغاز و اختتام کو طے کرتے ہوئے بھی نظریاتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔وقت محض ایک گھڑی میں نظرآنے والا وقت نہیں ہے بلکہ عقائد کے مجموعے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ مختلف اقوام اور علاقے کے افراد کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں نظریات‘ثبات و تغیر کے بارے میں آرا‘ پیدایش اور موت کے بارے میں سوچ‘ زندگی کے واقعات جو تجربے اور مشاہدے میںآتے ہیں‘ ان کے حوالے سے وقت کے بارے میں تاثرات شامل ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے زیرنظرمضمون میں پہلے مروجہ فکر کا‘ جو مغربی تہذیب اور جدید سائنسی تحقیقات کی مرہونِ منت ہے‘جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد آیندہ اسلامی تصورات کو پیش کیا جائے گا۔ عالمیت (Globalization) کا ایک ہدف وقت کا محاذ بھی ہے۔ ایک وقت‘ ایک اندازِ وقت‘ ایک فکرِ وقت‘ ایک طریقۂ وقت کے ذریعے اُس عالمی تنوع کو سمونا آسان تر ہوجاتا ہے جو مطلوب ہے۔

سائنسی نظریات

گذشتہ دو عشروں میں وقت‘ وقت کے سیاق و سباق‘ اس کی ابتدا اور انتہا‘ اس کا سکڑائو اور پھیلائو‘ اس کی مختلف حالتوں‘ اس کے مرکز اور اس کی سرحدیں‘ رفتار اور بلندی کے اس پر اثرات‘ مادہ اور روشنی کی لہروں کے ساتھ وقت کا ارتکاز‘ انسانی عقل اور شعور میں‘ اس کے جسم کے پورے نظام میں وقت کا نظام‘ معاشرے کی اٹھان اور اس لحاظ سے وقت کے بارے میں عقائد اور رویے‘ حاکمیت‘ ثقافت‘ تاریخ‘ تعلیم ان تمام امور و معاملات میں وقت کی مداخلت‘ انسانی زندگی میں وقت کا جبر‘ انسان کی وقت کو سمیٹنے‘ پھیلانے‘ مختلف خطوں کے وقت میں ربط کو بڑھانے کے سلسلے میں دل چسپی بڑھ گئی ہے۔

پتھرکے زمانے سے لے کر آج تک‘ جب کہ تہذیب و تمدن اطلاعاتی ٹکنالوجی کہ جس کا ایک اہم کام وقت کو گرفت میں لانا ہے‘ انسان کی فطری نوعیت کی بنیادی ضروریات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لیکن وقت کے بارے میں اس کے شعور‘ تجربے‘ مشاہدے میں بہت بڑا فرق دیکھا گیا ہے۔ وقت کے بارے میں اس وقت سائنسی نظریات کا خلاصہ یہ ہے:

۱- ہم کسی بھی صورت میں حال کے وقت کو نہیں پا سکتے ہیں۔ ہم وقت کو روشنی کی لہر کے ذریعے اور دماغ میں اعصاب کے عمل کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ جو وقت ہم جانتے ہیں اور جو وقت عملاً ہوتا ہے اس میں فرق ہوتا ہے۔ جس کو ہم وقت کہتے ہیں وہ عملاً گزر گیا ہوتا ہے۔

۲-  حرکت اور بلندی کی صورت میں وقت ساکت اور سطحی حالت میں وقت سے مختلف ہوتا ہے۔ حرکت وقت کی رفتار کو سست بنا دیتی ہے۔ بلندی وقت گزرنے کی رفتار کو تیز بنا دیتی ہے۔ وقت کی کیفیت ہر جگہ ایک نہیں ہے۔ مختلف دائروں میں وقت کی مختلف لہریں بیک وقت سرگرم عمل ہیں۔

۳-  وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مرہم ہے۔ زخم خواہ جسم پر لگیں یا جذبات پر‘ وقت کے ساتھ مندمل ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت ایک ضربِ کاری ہے۔ یہ آبادی کو اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ انسان کو بوڑھا کر کے مار دیتا ہے۔ اس کے جبر سے کسی کو قرار یا بچائو نہیں۔ وقت کے اندر ملیامیٹ کرنے‘ اور نشوونما دینے‘ دونوں کی صلاحیت موجود ہے‘ یعنی اگر کوئی اور سبب نہ بھی ہو تو وہ تبدیلی کا بڑا سبب ہے۔ یہ خاموشی سے اپنا کام کرتا ہے اور ہر شے کو اس کی انتہا اور فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ اس سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ وقت کا ایک مرکز ہے‘ اس کی مختلف سمتیں ہیں‘ مختلف انداز اور طریقے ہیں۔

۴-  وقت کبھی کسی کو کافی نہیں ہوا ہے۔ گزرا ہوا وقت ایک لمحے کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ آنے والا وقت تو ظاہر ہے کہ ابھی آیا ہی نہیںہے۔ یہ کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے۔ ہاں‘ انسانی شعور ڈرامائی لمحات میں کسی واقعے کو اچانک اور کسی توقع کے باوجود نہ ہونے والے واقعہ کو موت سے زیادہ تکلیف دہ انتظار کی صورت دے دیتا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے۔ اکثر کو یہ خبر نہیںہوتی ہے کہ یہ کہاں گیا ہے۔

۵-  وقت وہ کرنسی ہے جس کو خرچ کر کے انسان کسی جانب توجہ دے سکتا ہے۔ یہ وہ شے ہے کہ جو انمول ہے‘ بلاقیمت ہے‘ فطری اور پیدایشی ہے۔ یکساں حالت سے گزرنے والے افراد کا بھی وقت یکساں نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ توجہات‘ شعور کی حرکت‘ ذہن اور قلب کا ردعمل مختلف ہوتا ہے اور اس سے وقت کا تاثر بھی مختلف بنتا ہے۔ جس طرح اگر سب کے پاس ۱۰۰روپے ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب برابر ہیں۔ کسی کے لیے ۱۰۰ روپے زیادہ ہیں توکسی کے لیے کم۔ اسی طرح وقت اگر شے ہے تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کے پاس ایک معیار کی ہو۔ وقت کا معیار (quality) مختلف صورتوں میں اور مختلف انسانوں میں مختلف ہو سکتاہے۔

۶-  یقین‘ حرکت اور حافظہ یہ تین صلاحیتیں وقت کے فانی اثرات کو کم کرنے اور ان کو مثبت رُخ میں ڈھالنے کے لیے انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔ حرکت اور عملِ پیہم کے ذریعے گزرنے والے وقت کو ضائع ہونے کے بجائے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ طبیعیاتی نوعیت کی تحقیقات بھی یہ بتاتی ہیں کہ تیزرفتاری اور انتہائی تیزرفتاری کا اثر ہوتا ہے--- اسی طرح حافظہ شعور کی دنیا میں ٹھہرائو کا کام کرتا ہے۔ حافظہ مستقل شناخت اور پہچان قائم کرتا ہے۔ انسانی رویے اور سلوک کو مستقل یکساں انداز سے ڈھال کر وقت کی تبدیلی کے باوجود تبدیل ہونے نہیں دیتا۔ بعض جن چیزوں پر انسان قائل ہو کر یقین کرلیتا ہے وہ وقت کے دھارے میں بہہ نہیں جاتیں بلکہ استقامت اور استقلال فراہم کرتی ہیں۔ وقت کا توڑ یقین اور ایمان‘ حرکت اور عمل‘ حافظہ اور شناخت کے اندر پوشیدہ ہے۔

۷- انسان مٹی سے بنا ہے لیکن وقت میں رہتا ہے۔ مٹی اور وقت ان دونوں کی خصوصیات میں کئی اقدار مشترک ہیں اور کئی مختلف بھی۔ مٹی کو ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے لیکن وقت کو عمل ہی سے گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔ مٹی میں بیج بویا جاتا ہے تو وہ زندگی کو جنم دیتی ہے اور پھر مردہ ہو جاتی ہے نئی زندگی پانے کے لیے۔ وقت میں بھی بیج بویا جا سکتا ہے اور نئی صبح اور نئی شام آتی ہے۔ مٹی ہی انسان کو وہ کچھ دیتی ہے کہ جو اس کی بقا اور ارتقا کے لیے ضروری ہے۔ وقت ہی کے ذریعے بقا اور ارتقا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انسان مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وقت انسان کو تمام تر مواقع و امکانات دے کربالآخر اپنا رشتہ کاٹ لیتا ہے۔ گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔

۸-  وقت ایک وسیلہ ہے جو واقعے کو ماضی سے مستقبل کی جانب منتقل کرتا ہے۔ ماضی کہ جو جلد غائب ہوا چاہتا  ہے اور مستقبل کہ جو جلد ماضی بن جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب بہائو ہے کہ جو ماضی بعید کو ماضی قریب میں‘ یعنی حال سے بالکل متصل منتقل کرتاہے۔ جو کچھ پیچھے ہوا اور جو کچھ آگے آنے والا ہے اس میں رابطہ قائم کرتا ہے۔

۹-  فاصلے کی وقت پر برتری ختم ہو چکی ہے۔ پہلے فاصلہ سے وقت ناپا جاتا تھا‘ اب وقت سے فاصلہ ناپا جاتا ہے۔ فاصلے کو کم سے کم تر وقت میں عبور کرنا یا خاص حد تک غیرموثر‘غیر اہم‘ یا غیرمتعلق بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ فاصلے وقت میں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وقت کے فرق کی وجہ سے  کام میں جو فرق آتا تھا وہ بھی کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بڑے فاصلے کے ہوتے ہوئے قریب ہوکر‘ مل جل کر کام کرنا‘وقت کے گزرنے کے ساتھ ممکن ہے۔ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ نے یہ سہولت پیدا کر دی ہے۔

۱۰-  وقت کی اقسام‘ اس کی سرحدیں اور اس کے بہائوکی مختلف صورتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وقت کی سب سے کم پیمایش ایک سیکنڈ کے دسویں حصہ کا مزید ۴۳ گنا کم حصہ ہے۔ ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے میں سے ایک حصے کا بھی ایک ارب حصہ اس وقت پیمایش کی صلاحیت کے اندر ہے۔ ایک ایٹمی ذرہ اپنے مالیکیول (molecule) میں ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے کے اندر دھڑکتا ہے۔ ایک کیمرہ عموماً ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں تصویر کا مکمل نقش بنا لیتا ہے۔

ایک سیکنڈ میں زمین اپنے پورے حجم کے ساتھ گیند کی طرح سورج کے گرد ۳۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیتی ہے‘ جب کہ سورج اپنے نظامِ شمسی (galaxy) میں ایک سیکنڈ کے اندر ۲۷۴ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ آنکھ جھپکنے میں ایک سیکنڈ کا دسواں حصہ لیتی ہے۔ انسانی کان بھی اتنے ہی عرصے میں آواز اور اس کی بازگشت کے درمیان فرق کر لیتا ہے۔

ایک سیکنڈ کا عرصہ کارخانۂ قدرت میں ایک خاصا طویل عرصہ ہے۔ انسان کا دل ایک بار دھڑکنے کے لیے اتنا وقت لے لیتا ہے۔ چاند کی روشنی ۳.۱ سیکنڈ میں زمین تک پہنچتی ہے۔ زمین ایک دن میں مکمل گھوم جاتی ہے اور ایک سال میں سورج کے گرد پورا چکر لگاتی ہے۔ ایک سال میں سمندر کی اوسط سطح ۵.۲-۱ملی لیٹربڑھ جاتی ہے۔ ایک سال میں امریکہ اور یورپ جن    خطہ ء ارض پر مشتمل ہیں ان کا فاصلہ تین سینٹی میٹر بڑھ جاتا ہے۔

بہت کم انسان ۱۰۰ سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں لیکن ایک بڑا کچھوا تقریباً ۱۷۷ سال زندہ رہتا ہے۔ سی ڈی کی جو compact disk اب ریکارڈ رکھنے کے کام آتی ہے تقریباً ۲۰۰ سال تک ریکارڈ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اگر ۱۰ لاکھ سال تک روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو بھی قریب ترین دوسری کہکشاں تک نصف سفر بھی مکمل نہیں ہوگا۔

اس کائنات میں جو عمل برپا ہیں ان کی عمومی مدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کو بننے کے بعد ٹھنڈا ہونے میں صرف ایک ارب سال لگے تھے۔ اس عرصے میں سمندر وجود میں آئے‘ نباتات کا آغاز ہوا‘ یعنی زمین میں بعض عمل ایسے ہیں کہ جن کے لیے ایک سیکنڈ بھی بہت طویل عرصہ ہے‘ جب کہ بعض اربوں سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔

اس روداد کا مختصر حوالہ صرف اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ یہ اندازہ ہو کہ وقت کے کتنے قسم کے دائرے بیک وقت گردش میں ہیں اور ایک سیکنڈ کے اربوں حصے کا معاملہ ہو یا کھربوں سالوں کا‘ یہ ساری گھڑیاں باہم پیوست ہیں۔ اس کا احاطہ کرنا یقینا آسان نہیں۔ انسان نے ابھی اس کا ابتدائی اندازہ لگایا ہے۔ اس کا مکمل حساب شاید اس کی حدود سے باہر ہے۔

۱۱-  جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وقت تبدیل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اشیا کی ہیئت بھی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن اس انداز سے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ وقت کی تعمیر سے متعلق عمل میں حیرت انگیز باقاعدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ زمین کی رفتار اور اس کا سورج کے گرد گھومنا--- یہ بڑی بڑی اشیا کا معاملہ ہے۔ لیکن ان میں سال بہ سال بھی ایک سیکنڈ کے دسویں حصے کا فرق تک نہیں آتا ہے۔ انتہائی باریکی کے ساتھ یہ اور اس طرح کے بہت سارے دوسرے عمل جاری ہیں اور ہزاروں لاکھوں سال سے اپنے طریق پر استوار ہیں۔

ایک جانب چھوٹے سے چھوٹے عمل سے لے کر بڑے سے بڑے عمل کے درمیان ربط اور تعلق نظر آتا ہے۔ دوسری جانب اس ربط کے معمولات میں‘ یعنی اجتماعی طور پر بھی انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے جس کے برقرار رکھنے میں انسان کا عمل و ارادہ شامل نہیں---! اس نظام میں کوئی خلل یا فرق واقع نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس کے اسلوب میں کوئی کمی یا نقص بھی نظر نہیں آتا ہے۔

۱۲-  یقینا یہ تمام باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ کوئی ہے جو وقت کا خالق ہے‘ اس کی تنظیم کر رہا ہے‘ اس کے اصول بناتا ہے‘ ان احکامات کو باریک سے باریک اور بڑے سے بڑے معاملے میں نافذالعمل کرتا ہے۔

وقت نہ صرف خالق کائنات کے وجود کا بلکہ توحید کا شاید سب سے بڑا ثبوت ہے۔ رات اور دن کا آنا اور جانا اور آسمان پر ستاروں کی رونق اگر ان دونوں پر غور کیا جائے تو جو اسرار کھلتے ہیں وہ ایک ایسی ذات کے وجود پر دلالت کرتے ہیں کہ جو یکتا ہے اور حی و قیوم ہے‘ جو وقت کو  خوب صورتی سے ترتیب دیے ہوئے ہے‘ تاہم خود اس کے خول سے باہر ہے۔ جو فانی وقت کا مرکز رجوع ہے اور جو وقت کا نظم و نسق اس کی تمام تر نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے۔

مغربی نظریات

مضمون کے اس حصے میں مغربی تہذیب کے وقت اور اس کے شعور کے بارے میں کردار پر روشنی ڈالی جائے گی۔ تاریخی طور پر مغربی فکر کے وقت کے بارے میں نظریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ مغرب نے وقت کے حقیقی تصور کو اپنے مہلک مفادات کے تابع بنا دیا ہے۔ مغرب کا تصور وقت کے بارے میں مغرب کے زندگی کے بارے میں تصورات ہی کا شاخسانہ ہے۔

مغرب نے انسانی زندگی کو خود ساختہ سیمابی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کا انسان اپنے آپ کو وقت کے شدید دبائو میں محسوس کرتا ہے۔ سکون اور راحت کے حصول میں ساری زندگی گنوا دیتا ہے اور پھر بھی اس سے محروم رہتا ہے۔ اس اضطراب اور بے چینی میں ساری دنیا اس لیے نقصان اُٹھا رہی ہے کہ وقت کو وہی سمجھ لیا گیا ہے کہ جو گھڑی اور کیلنڈر بتاتا ہے‘ اور یہ سوچتے ہوئے کہ یہی زندگی بس اصل زندگی ہے۔

افراد‘ اداروں‘ قوموں کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کما لینے اور حاصل کرنے کے لیے وقف ہو جائیں۔ ایک وقت میں کئی کام کرنے کی صلاحیت ایک اچھی صلاحیت ہے جس کا بروے کار لایا جانا ضروری ہے۔ یہ صلاحیت باعث ِ خیر بھی ہے۔ لیکن اس وقت کے استعمال کا مقصد صحیح نہ ہو ‘ جو وقت کو اس کے اصل نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو زندگی کے بے معنی ہو کر خلا سے پُر ہو جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ طمع اور لالچ‘ حرص اور اَمَل (خواہش) نے ایک ایسی بھاگ دوڑ میں گھما دیا ہے کہ جو وقت کی مہلت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔

۱-  وقت کو حصوں میں تقسیم کرنا اور مختلف اوقات کی مناسبت کے لحاظ سے اجتماعی کاموں کو ترتیب دینا یقینا ایک مفید کام ہے۔ بدنظمی‘ غیریقینی ابہام‘ من مانی اور شک کا خاتمہ اوقات پر اتفاق کرنے سے ہو سکتا ہے۔ مغرب میں St. Benedict نے تمام راہبوں کو پہلی مرتبہ عبادت‘ کام اور آرام کے لیے مخصوص اوقات کرکے ان کو سختی سے پابند کیا۔ اس طرح لوگ جو عموماً پہلے قدرتی اوقات جو سورج اور چاند کی حرکات سے وابستہ تھے‘ سے بے نیاز ہوگئے اور ایک انسان کے بنائے ہوئے اوقات کے پابندہوگئے۔ انسان کو قدرتی اوقات کے نظام سے لاتعلق کر کے اپنے بنائے ہوئے نظام الاوقات کا پابند بنانے کا نسخہ بالآخر بازار اور تجارت کی سرگرمیوں پر بھی نافذ ہونے لگا۔ یہ تبدیلی ۱۵۰۰ سال قبل آئی۔ رفتہ رفتہ پورا تعلیمی نظام بھی اس تصور کے مطابق ڈھال دیا گیا۔ آج کوئی اس کے بارے میں سوال یا شک نہیں کرتا ہے۔ متفرق نوعیت کے نظام الاوقات جو کارخانۂ قدرت میں چل رہے ہیں ان کے ساتھ وحدت کے بجائے گھڑی کو‘ جو عبادت گاہوں‘ چوراہوں‘ تجارتی عمارات پر بالعموم نصب کی جاتی ہے‘ آلہ بنا لیا گیا۔ انسان کی زندگی گھڑی کی طرح مشینی نوعیت کی ہوگئی۔ مشینی دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مشینی وقت کا تصور رائج کیا گیا۔

۲-  زندگی بجائے خود ایک گھڑی ہے۔ ایک مقرر میعاد اور طے شدہ مہلت ہے۔ گھڑی کی سوئی کو چلتے رہنا ہے لیکن قلب کا گھنٹہ گھر کس وقت دھڑکنا بند کر دے‘ اس کا کوئی پتا نہیں۔ زندگی کا وقت غیریقینی ہے۔ یہ بات وقت کو گھڑی کی سوئیوں تک محدود کر دینے سے عملاً فراموش ہوگئی۔مشینی وقت کا مرکز و محور معاش اور کام بن گیا ہے۔ وقت کو عددی لحاظ سے ناپنا تولنا یہ اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس کے نتیجے میں وقت کا مادّی تصور غالب آگیا۔ گھڑی جیسے وقت کو بناکر دے رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ خیال عام ہوگیا کہ وقت پر حکمرانی انسان کی ہے۔ نتیجتاًانسان کا اپنا وقت رہ گیا‘ نہ زندگی اس کی اپنی ٹھہری۔

وقت زندگی کا محتاج ہے۔ مغرب نے اس ترتیب کو اُلٹ دیا ہے اور اس طرح انسان کو اس کے سب سے قیمتی اثاثے پر حق ملکیت سے محروم کر دیا اور زندگی کے اہم ترین موڑ موت سے بے پروا کر دیا۔ وقت کے اصل مفہوم کے لحاظ سے ذمہ داری کا شعور بھی اسی لحاظ سے تبدیل ہوگیا۔

۳-  انسان کو اس کے خالق سے دُور لے جانے‘ خالقِ وقت کے دیے ہوئے تقاضوں اور قدرتی ربط اور فطری خول سے ذہنی طور پر باہر نکالنے کے عمل کی ساری کوشش تعلیمی نظام کے ذریعے ہوتی ہے۔ تربیت و تزکیہ‘ تعمیرونشوونما کے فطری عمل کے اُوپر اسکولوں کی صورت میں مصنوعی عمل کو جس تصور کے ساتھ مسلط کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو ایک گھڑی کا کل پرزہ ہی سمجھتا ہے۔ وہ اس زندگی کی مہلت عمل میں ہمیشہ کی زندگی کا سودا کرنے کے بجائے اس مہلت عمل ہی کو انتہا اور آخری سمجھ کر صنعتی میدان کے لیے اپنے آپ کو کارآمد بنانے کے لیے خود کو حوالے کر دیتا ہے۔ انسان کلاس روم کے وقت سے سالہا سال کے بعد جب باہر نکلتا ہے تو دفتر اور کاروبار کے وقت میں بغیر کسی مشکل کے گم ہو جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ طالب علم کے سیکھنے کی متوقع رفتار‘ ماضی کی کارکردگی اور دوسروں کی کارکردگی کے لحاظ سے مستقبل کے بارے میں پیش بینی کا سہولت آمیز طریقہ اختیار کرنے سے انسان کی اندرونی دنیا بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کی خودی اور اس کے اپنے بارے میں تصور کی کوئی اہمیت اس کی نظر میں نہیں رہ جاتی۔ وہ مسلسل خارج کے ساتھ اپنے اندرون کو دبانے ‘ اور ہم آہنگ بنانا سیکھ جاتا ہے۔

۴-  روشن خیالی (Enlightenment) کے دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عقل اور دلیل کے غلبے کے آغاز کا دور ہے۔ سائنسی طرزِفکر اور تجرباتی تحقیقات کے ذریعے حقائق معلوم کرنے کا دور یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس عرصے میں یہ کلیہ قائم ہو گیا کہ وقت کے ساتھ بتدریج ترقی ہی ہوگی‘ یعنی وقت ترقی کا ضامن ٹھہر گیا۔ آیندہ آنے والی کل میں انسانی تمدن اور تہذیب بہتر شکل میں ہوگی۔ اس طرح افکار کی قبولیت کے لیے جدید اور قدیم کا معیار قائم کیا گیا۔ جو نظریہ قدیم ہے وہ جدید کے مقابلے میں محض قدیم ہونے کی بنا پر قابلِ قبول نہیں ٹھہرتا--- اور جو جدید ہے وہ خواہ صحیح نہیں ہو‘ قابلِ قبول ہو جاتا ہے۔اس طرح جدیدیت (modernism) کے دور اور فلسفے کا آغاز ہوا۔ اِدھر وقت کے بارے میں مادی نظریات نے انسانی تاریخ کے بھی مادی کش مکش کی بنیاد پر ارتقا کا نظریہ دیا۔ تاریخ کہ جو رہنمائی کے لیے اہم ذریعہ ہے اس طرح اپنا اصل مقام کھو دیتی ہے۔

ظاہر ہے کہ خدا کی دی ہوئی رہنمائی سے بے غرض ہو کر انسان اگر اپنی کوشش سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے گا تو وہ ہر آنے والے کل میں پہلے تسلیم شدہ حقائق کو مسترد بھی کرتا جائے گا۔ وقت کے اُوپر یہ اعتبار کہ وہ بالآخر صحیح اور ترقی کی جانب لے جائے گا بہت بڑا دھوکا ثابت ہوا ہے۔ Logical positivism اور بتدریج ترقی (incremental progress) کے اصول کا اطلاق طبیعیاتی نوعیت کی تحقیقات میں یوں مفید ہے کہ انسان مرحلہ بہ مرحلہ ہی تجربات و مشاہدات کا دائرہ وسیع اور گہرا کر سکتا ہے۔ آج کا کیا ہوا کام ہی کل کے لیے بنیاد فراہم کرسکتا ہے لیکن اس نظریے کا اطلاق زندگی کے تصورات اور نظامِ زندگی اور تہذیب کے اصول و مبادی کے دائرے میں کامیاب نہیں رہا۔ معارفِ حق تو ایک طرف‘ حقیقت سے بھی صحیح تعارف نہ ہو سکا۔ ایک خبر کی جگہ دوسری خبر لے لیتی ہے۔ تحقیقی میدان میں آج شک اور گمان کا غلبہ ہے۔ کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ جس سے معلوم ہو جانے والی بات پر سب اتفاق کریں کہ یہ یقینا صحیح اور سچ ہوگی۔

۵-  جس تہذیب کا انجن ٹکنالوجی ہے اس میں ’’نئے‘‘ کا ہونا‘ نئے کا پیدا کرنا‘ نئے کا پسند کیا جانا‘ نئے کو ترجیح دینا اور اس کے ساتھ پرانے کو بدل دینا‘ پرانے کو مسترد کرنا‘ پرانے کو کم تر جاننا بھی‘ ایک خاصہ ہے۔ صارفین کا مستقل مطالبہ ہوتا ہے کہ نیا ماڈل‘ نیا تصور‘ نیا طریقہ استعمال میں لایا جائے۔ نئے کو بہتر اور اعلیٰ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جو چیز پہلے سے ٹھیک کام دے رہی ہے اس کو حقیر اور بے کار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لباس‘ سواری‘ ثقافتی طریقہ‘ خاندانی روایات‘ اخلاقیات بھی ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ اقدار جن سے بھلائی وابستہ ہے صرف اس لیے نہیں اپنائی جاتی ہیں کہ وہ پرانی ہیں اور پرانی بات یقینا دقیانوسی ہے۔ وہ لباس کہ جو ابھی ٹھیک کام دے رہا ہے صرف اس لیے قابل زینت نہیں ٹھہرتا ہے کہ اب تراش خراش تبدیل ہو گئی ہے۔

وقت کے گزرنے کو صنعت نے کاروبار کو بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی معیشت کی بنیاد پڑ گئی ہے جس کا اگر غور سے دیکھا جائے تو اصل کام مستقل فائدے کے بجاے عارضی فائدے اور بالآخر وہ اشیا بنانا ہیں جو ضائع ہو جاتی ہیں‘ جن کو بے وقعت ہو جانا ہے۔ مقصد بتایا جاتا ہے کہ value پیدا کرنا ہے ‘ جب کہ نتیجہ waste پیدا کرنا ہے۔

جب نئے اور پرانے کی بحث کا اطلاق معاشرے کے اُوپر کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ  نسلی تفاوت (generation gap) اور بچوں کے والدین کو خبطی سمجھنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

۶-  وقت کے تین مرحلے ہیں: ماضی‘ مستقبل اور حال۔ ان تینوں میں سے مغربی تہذیب اصل اہمیت آج‘ ابھی‘ اسی وقت‘ اسی لمحے کو دیتی ہے‘ یعنی حال میں بھی وہ فوری حال کو حال بعید یا مستقبل قریب کے مقابلے میں قابل ترجیح سمجھتی ہے۔ اس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ کام کرنے کے لیے اس لمحے کو جو ابھی گزر رہا ہے بڑی اہمیت ہے۔ جب تک کہ آج اور اسی وقت کوئی قدم نہ اٹھایا جائے گا کل بھی کچھ نہ ہوگا۔ آج کی آسانی‘ اس وقت کی کشادگی‘ اس لمحے کی مسرت‘ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش‘ اور آج کا ہاتھ کو لگتا ہوا فائدہ اس کی اہمیت کل سے یا کسی عہد سے یا کسی اخلاقی پابندی سے یا کسی اور وجہ سے مؤخر کرنے سے زیادہ ہے۔ اس طرح کل جو پیش آنے والا ہے اس سے آنکھیں بند کر کے آج کو بہتر بنانے کی کوشش حاوی ہوگئی ہے۔

فوری خواہش کے اثرات کردار پر گہرے ہوتے ہیں۔ نفسانی جبلت اور دنیاوی رغبتوں کی غلامی کا یہ انداز جرائم اور ظلم کے راستے پر لے جاتا ہے۔ انسان اپنی اولاد کو قتل کر دیتا ہے کہ میرا رزق کم ہو جائے گا‘اپنے والدین سے رشتہ توڑ لیتا ہے کہ یہ میری راحت میں کمی کا باعث ہوں گے۔

آج اور اس وقت کی طلب نے فوری (instantaneous)  رجحان کو فروغ دیا ہے۔ ہر چیز تیار حالت میں ملے۔ اس کے باعث رفتار کے حصول کی اور اس کو بڑھانے کی کوشش ہوئی تاکہ جہاں پہنچنا ہو‘ جو کام کرنا ہو وہ فوراً ہوسکے۔ رفتار میں اضافے کے نتیجے میں وقت کا دبائو کم ہونے کی توقع کبھی پوری نہ ہوئی بلکہ زندگی کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا۔ جس سے نمٹنے کے لیے خودکاری (automation) اور سبک رفتاری (acceleration)کی ٹکنالوجی آئی۔ عصرِحاضر میں انسانی تمدن کے ارتقا میں ٹکنالوجی کا بہت بڑا کردار ہے۔ انسانی معاشرہ اس کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات میں آج گرفتار ہے۔

۷-   زیادہ سے زیادہ پیداوار اور کم سے کم وسائل کی جستجو کوئی بُری بات نہیں۔ اس کے نتیجے میں وسائل ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ وقت کم صرف ہوتا ہے‘ اخراجات کم ہوتے ہیں لیکن اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کی قیمت لگ گئی۔ وقت خود قیمتی ہوگیا۔ وقت دولت اور کرنسی کی طرح کی حیثیت اختیار کرگیا۔ پیسہ وقت کا قائم مقام بن گیا۔ قوت کا ایک اظہار اس وقت کی خرید و فروخت اور سودے سے ہونے لگا۔ جہاں بس چلا وہاں غلام بنا کر‘ زنجیروں میں  جکڑ کر اور رنگ و نسل کی تفریق کرتے ہوئے وقت کو پیداوار کے لیے زبردستی حاصل کیا گیا۔   سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام میں وقت پر تسلط قائم کیا گیا۔ وقت دینے کو زندگی دینے کے برابر سمجھ لیا گیا۔ جس سے کچھ وقت لینے کا سودا ہوا ‘ اس کی پوری زندگی کو بھی ساتھ ہی قابل تصرف سمجھ لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مغرب میں ٹریڈ یونین کے ہنگامے ہوتے تھے تو مزدور فیکٹری کی گھڑی ضرور توڑ دیتے تھے‘ اس لیے کہ وہ استحصال کی علامت تھی۔ وہ حاکم کے حق میں اور محکوم کے خلاف فیصلہ دیتی تھی۔

۸-  مغرب نے وقت کے ساتھ ہم آہنگی (time culture) کا تصور اُجاگر کیا ہے تاکہ پھیلتی ہوئی اجتماعی زندگی کو باندھا جائے۔ اس سے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تصور اور شوق ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی معمولات منظم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی تصور ملکیتی وقت‘ یعنی (property time) یا اپنے وقت (self time) کا تھا تو وہ بتدریج سکڑتا چلاگیا۔ قوت کے مراکز ادارے اور افراد کا منشا وقت کے بارے میں بھی حاوی ہو گیا۔ کچھ لوگوں کے پاس وقت زیادہ ہے اور کچھ کے پاس کم۔ کچھ کو محسوس ہوتاہے کہ وقت ان سے چھینا جا رہا ہے‘ جب کہ کچھ حسب منشا لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ غریبوں کے حصے میں انتظار اور پھر امید اور مایوسی ہی آئی۔ کمزور کام کے لیے انتظار کرتا رہتا ہے‘ بہتری کی توقع رکھتا ہے اور وقت کو گزارنے کا بندوبست کرتاہے۔ اِدھر امیر اور بااختیار کا وقت بھی اس طرح مختلف مطالبوں کے شکنجے میں پھنسا ہوا رہتا ہے کہ وہ ساری زندگی self time کے حصول اور اضافے کی کوشش میں سارا وقت گنوا دیتا ہے۔

۹-  میڈیا ٹکنالوجی اسکرین کی مدد سے نشریاتی رابطوں (broadcasting networks) کے تعاون سے ایک جانب شعور اور تاثرات میں یکسانیت اور کسی واقعے اور خبر کے بیک وقت مشاہدے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس سے اثرونفوذ کی راہیں تو بڑھ گئیں   لیکن ہم آہنگی کا ایک غلط تاثر قائم ہو گیا۔ ایک وقت میں مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے افراد کے درمیان یکسانیت پیدا کرنے کے لیے ان کو مشترکہ طور پر کسی عمل میں شریک ہونے کا موقع وقت کے اختلاف‘ فاصلوں کی نوعیت کو زائل کر دیتا ہے۔ عالمیت کو تقویت پہنچانے کے لیے         یہ ہم آہنگی کا سراب (illusion of simultaneity)  اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وقت کو سمیٹنا (time compactness) اور اختلافِ وقت کے نتیجے میں شعور و احساس کے اختلاف کے امکان کو کم کرنا جدید کاروباری کوششوں کا اہم مرکز ہے۔ ایک وقت میں دنیا بھر سے کروڑوں افراد کسی ایک جگہ ہونے والے میچ یا جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وقت میں جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دائرہ کار بڑھ گیا ہے۔ جو پہلے فاصلے کی وجہ سے متعلق نہ تھے  وہ بھی براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ (فہمِ وقت کے اسلامی تصورات پر تحریر آیندہ پیش کی جائے گی)