یہ انسانی زندگی کا وہ سوال ہے جو سب سے زیادہ بار بار پوچھا گیا لیکن اُتنا ہی کم سمجھا گیا۔ اس سادے سوال کا سادہ جواب کلائی پر لگی گھڑی کی دو سوئیوں کی حرکت یا آسمان میں سورج کی سمت کو دیکھ کر دیا جا سکتا ہے۔ کیا وقت کے معنی بس یہیں تک محدود ہیں؟ آج ایسی کتابوں کا انبار لگا ہوا ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ کاموں کو گرفت میں لانے اور نظامِ زندگی کو استوار کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تعلیمی و تربیتی ادارے جابجا ایسے کورس لاتے ہیں کہ جو وقت بچانے‘ پیداوار بڑھانے‘ وقت تقسیم کرنے اور منصوبہ بنانے کے سلسلے میں اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح گھڑی ساز‘ کیلنڈر اور ڈائری کے شائع کرنے والے وقت کے لحاظ سے ماضی کو ریکارڈ کرنے اور مستقبل میں جھانکنے کے لیے نت نئے الیکٹرانک طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ وقت دیکھنا ایک ایسا شعار بن چکا ہے کہ گو ہزاروں اور لاکھوں روپے کی گھڑی زیب تن ہوتی ہے--- لیکن وقت کی سمجھ بوجھ‘ اس کی نزاکت کا احساس‘ اس کے تقاضوں کا شعور ناپید ہے۔ وقت کو گھڑی کی دو سوئیوں کی گرفت میں لاکر اور سیکنڈ کو لاکھوں حصوں میں تقسیم کرنے کی صلاحیت پیدا کرکے سائنس دان اس وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے وقت کو فتح کرلیا ہے۔
وقت کے اصول و مبادی اس سطحی سے مشاہدے‘ تجربے اور تعلق کی زد میں نہیں آسکتے ہیں جو عمومی طور پر انسان کا لیل و نہار کی گردش سے ہوتا ہے۔ فہمِ وقت کا سائنسی‘ مذہبی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور معاشی پہلوئوں سے انفرادی و اجتماعی زندگی سے متعلق فکر اور عمل دونوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ نظریات کی کش مکش وقت کے متعلق رویوں کو جنم دیتی ہے کیونکہ زندگی کی قوت اور قدر وقت سے وابستہ ہے۔ چھٹی اتوار کی ہو یا جمعہ یا ہفتہ کی--- حال ہی میں اٹھنے والی اس بحث میں مختلف رویوں کی جھلک نظر آئی۔ نئی صدی اور نئی ہزاروی کے آغاز کے موقع پر ‘ عیسوی و ہجری کیلنڈر کے اختیار کرنے پر یہ بحث ہوتی ہے۔ دفتری اوقات کے تعین اور کاموں کے آغاز و اختتام کو طے کرتے ہوئے بھی نظریاتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔وقت محض ایک گھڑی میں نظرآنے والا وقت نہیں ہے بلکہ عقائد کے مجموعے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ مختلف اقوام اور علاقے کے افراد کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں نظریات‘ثبات و تغیر کے بارے میں آرا‘ پیدایش اور موت کے بارے میں سوچ‘ زندگی کے واقعات جو تجربے اور مشاہدے میںآتے ہیں‘ ان کے حوالے سے وقت کے بارے میں تاثرات شامل ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے زیرنظرمضمون میں پہلے مروجہ فکر کا‘ جو مغربی تہذیب اور جدید سائنسی تحقیقات کی مرہونِ منت ہے‘جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد آیندہ اسلامی تصورات کو پیش کیا جائے گا۔ عالمیت (Globalization) کا ایک ہدف وقت کا محاذ بھی ہے۔ ایک وقت‘ ایک اندازِ وقت‘ ایک فکرِ وقت‘ ایک طریقۂ وقت کے ذریعے اُس عالمی تنوع کو سمونا آسان تر ہوجاتا ہے جو مطلوب ہے۔
گذشتہ دو عشروں میں وقت‘ وقت کے سیاق و سباق‘ اس کی ابتدا اور انتہا‘ اس کا سکڑائو اور پھیلائو‘ اس کی مختلف حالتوں‘ اس کے مرکز اور اس کی سرحدیں‘ رفتار اور بلندی کے اس پر اثرات‘ مادہ اور روشنی کی لہروں کے ساتھ وقت کا ارتکاز‘ انسانی عقل اور شعور میں‘ اس کے جسم کے پورے نظام میں وقت کا نظام‘ معاشرے کی اٹھان اور اس لحاظ سے وقت کے بارے میں عقائد اور رویے‘ حاکمیت‘ ثقافت‘ تاریخ‘ تعلیم ان تمام امور و معاملات میں وقت کی مداخلت‘ انسانی زندگی میں وقت کا جبر‘ انسان کی وقت کو سمیٹنے‘ پھیلانے‘ مختلف خطوں کے وقت میں ربط کو بڑھانے کے سلسلے میں دل چسپی بڑھ گئی ہے۔
پتھرکے زمانے سے لے کر آج تک‘ جب کہ تہذیب و تمدن اطلاعاتی ٹکنالوجی کہ جس کا ایک اہم کام وقت کو گرفت میں لانا ہے‘ انسان کی فطری نوعیت کی بنیادی ضروریات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لیکن وقت کے بارے میں اس کے شعور‘ تجربے‘ مشاہدے میں بہت بڑا فرق دیکھا گیا ہے۔ وقت کے بارے میں اس وقت سائنسی نظریات کا خلاصہ یہ ہے:
۱- ہم کسی بھی صورت میں حال کے وقت کو نہیں پا سکتے ہیں۔ ہم وقت کو روشنی کی لہر کے ذریعے اور دماغ میں اعصاب کے عمل کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ جو وقت ہم جانتے ہیں اور جو وقت عملاً ہوتا ہے اس میں فرق ہوتا ہے۔ جس کو ہم وقت کہتے ہیں وہ عملاً گزر گیا ہوتا ہے۔
۲- حرکت اور بلندی کی صورت میں وقت ساکت اور سطحی حالت میں وقت سے مختلف ہوتا ہے۔ حرکت وقت کی رفتار کو سست بنا دیتی ہے۔ بلندی وقت گزرنے کی رفتار کو تیز بنا دیتی ہے۔ وقت کی کیفیت ہر جگہ ایک نہیں ہے۔ مختلف دائروں میں وقت کی مختلف لہریں بیک وقت سرگرم عمل ہیں۔
۳- وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مرہم ہے۔ زخم خواہ جسم پر لگیں یا جذبات پر‘ وقت کے ساتھ مندمل ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت ایک ضربِ کاری ہے۔ یہ آبادی کو اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ انسان کو بوڑھا کر کے مار دیتا ہے۔ اس کے جبر سے کسی کو قرار یا بچائو نہیں۔ وقت کے اندر ملیامیٹ کرنے‘ اور نشوونما دینے‘ دونوں کی صلاحیت موجود ہے‘ یعنی اگر کوئی اور سبب نہ بھی ہو تو وہ تبدیلی کا بڑا سبب ہے۔ یہ خاموشی سے اپنا کام کرتا ہے اور ہر شے کو اس کی انتہا اور فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ اس سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ وقت کا ایک مرکز ہے‘ اس کی مختلف سمتیں ہیں‘ مختلف انداز اور طریقے ہیں۔
۴- وقت کبھی کسی کو کافی نہیں ہوا ہے۔ گزرا ہوا وقت ایک لمحے کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ آنے والا وقت تو ظاہر ہے کہ ابھی آیا ہی نہیںہے۔ یہ کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے۔ ہاں‘ انسانی شعور ڈرامائی لمحات میں کسی واقعے کو اچانک اور کسی توقع کے باوجود نہ ہونے والے واقعہ کو موت سے زیادہ تکلیف دہ انتظار کی صورت دے دیتا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے۔ اکثر کو یہ خبر نہیںہوتی ہے کہ یہ کہاں گیا ہے۔
۵- وقت وہ کرنسی ہے جس کو خرچ کر کے انسان کسی جانب توجہ دے سکتا ہے۔ یہ وہ شے ہے کہ جو انمول ہے‘ بلاقیمت ہے‘ فطری اور پیدایشی ہے۔ یکساں حالت سے گزرنے والے افراد کا بھی وقت یکساں نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ توجہات‘ شعور کی حرکت‘ ذہن اور قلب کا ردعمل مختلف ہوتا ہے اور اس سے وقت کا تاثر بھی مختلف بنتا ہے۔ جس طرح اگر سب کے پاس ۱۰۰روپے ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب برابر ہیں۔ کسی کے لیے ۱۰۰ روپے زیادہ ہیں توکسی کے لیے کم۔ اسی طرح وقت اگر شے ہے تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کے پاس ایک معیار کی ہو۔ وقت کا معیار (quality) مختلف صورتوں میں اور مختلف انسانوں میں مختلف ہو سکتاہے۔
۶- یقین‘ حرکت اور حافظہ یہ تین صلاحیتیں وقت کے فانی اثرات کو کم کرنے اور ان کو مثبت رُخ میں ڈھالنے کے لیے انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔ حرکت اور عملِ پیہم کے ذریعے گزرنے والے وقت کو ضائع ہونے کے بجائے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ طبیعیاتی نوعیت کی تحقیقات بھی یہ بتاتی ہیں کہ تیزرفتاری اور انتہائی تیزرفتاری کا اثر ہوتا ہے--- اسی طرح حافظہ شعور کی دنیا میں ٹھہرائو کا کام کرتا ہے۔ حافظہ مستقل شناخت اور پہچان قائم کرتا ہے۔ انسانی رویے اور سلوک کو مستقل یکساں انداز سے ڈھال کر وقت کی تبدیلی کے باوجود تبدیل ہونے نہیں دیتا۔ بعض جن چیزوں پر انسان قائل ہو کر یقین کرلیتا ہے وہ وقت کے دھارے میں بہہ نہیں جاتیں بلکہ استقامت اور استقلال فراہم کرتی ہیں۔ وقت کا توڑ یقین اور ایمان‘ حرکت اور عمل‘ حافظہ اور شناخت کے اندر پوشیدہ ہے۔
۷- انسان مٹی سے بنا ہے لیکن وقت میں رہتا ہے۔ مٹی اور وقت ان دونوں کی خصوصیات میں کئی اقدار مشترک ہیں اور کئی مختلف بھی۔ مٹی کو ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے لیکن وقت کو عمل ہی سے گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔ مٹی میں بیج بویا جاتا ہے تو وہ زندگی کو جنم دیتی ہے اور پھر مردہ ہو جاتی ہے نئی زندگی پانے کے لیے۔ وقت میں بھی بیج بویا جا سکتا ہے اور نئی صبح اور نئی شام آتی ہے۔ مٹی ہی انسان کو وہ کچھ دیتی ہے کہ جو اس کی بقا اور ارتقا کے لیے ضروری ہے۔ وقت ہی کے ذریعے بقا اور ارتقا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انسان مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وقت انسان کو تمام تر مواقع و امکانات دے کربالآخر اپنا رشتہ کاٹ لیتا ہے۔ گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔
۸- وقت ایک وسیلہ ہے جو واقعے کو ماضی سے مستقبل کی جانب منتقل کرتا ہے۔ ماضی کہ جو جلد غائب ہوا چاہتا ہے اور مستقبل کہ جو جلد ماضی بن جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب بہائو ہے کہ جو ماضی بعید کو ماضی قریب میں‘ یعنی حال سے بالکل متصل منتقل کرتاہے۔ جو کچھ پیچھے ہوا اور جو کچھ آگے آنے والا ہے اس میں رابطہ قائم کرتا ہے۔
۹- فاصلے کی وقت پر برتری ختم ہو چکی ہے۔ پہلے فاصلہ سے وقت ناپا جاتا تھا‘ اب وقت سے فاصلہ ناپا جاتا ہے۔ فاصلے کو کم سے کم تر وقت میں عبور کرنا یا خاص حد تک غیرموثر‘غیر اہم‘ یا غیرمتعلق بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ فاصلے وقت میں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وقت کے فرق کی وجہ سے کام میں جو فرق آتا تھا وہ بھی کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بڑے فاصلے کے ہوتے ہوئے قریب ہوکر‘ مل جل کر کام کرنا‘وقت کے گزرنے کے ساتھ ممکن ہے۔ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ نے یہ سہولت پیدا کر دی ہے۔
۱۰- وقت کی اقسام‘ اس کی سرحدیں اور اس کے بہائوکی مختلف صورتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وقت کی سب سے کم پیمایش ایک سیکنڈ کے دسویں حصہ کا مزید ۴۳ گنا کم حصہ ہے۔ ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے میں سے ایک حصے کا بھی ایک ارب حصہ اس وقت پیمایش کی صلاحیت کے اندر ہے۔ ایک ایٹمی ذرہ اپنے مالیکیول (molecule) میں ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے کے اندر دھڑکتا ہے۔ ایک کیمرہ عموماً ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں تصویر کا مکمل نقش بنا لیتا ہے۔
ایک سیکنڈ میں زمین اپنے پورے حجم کے ساتھ گیند کی طرح سورج کے گرد ۳۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیتی ہے‘ جب کہ سورج اپنے نظامِ شمسی (galaxy) میں ایک سیکنڈ کے اندر ۲۷۴ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ آنکھ جھپکنے میں ایک سیکنڈ کا دسواں حصہ لیتی ہے۔ انسانی کان بھی اتنے ہی عرصے میں آواز اور اس کی بازگشت کے درمیان فرق کر لیتا ہے۔
ایک سیکنڈ کا عرصہ کارخانۂ قدرت میں ایک خاصا طویل عرصہ ہے۔ انسان کا دل ایک بار دھڑکنے کے لیے اتنا وقت لے لیتا ہے۔ چاند کی روشنی ۳.۱ سیکنڈ میں زمین تک پہنچتی ہے۔ زمین ایک دن میں مکمل گھوم جاتی ہے اور ایک سال میں سورج کے گرد پورا چکر لگاتی ہے۔ ایک سال میں سمندر کی اوسط سطح ۵.۲-۱ملی لیٹربڑھ جاتی ہے۔ ایک سال میں امریکہ اور یورپ جن خطہ ء ارض پر مشتمل ہیں ان کا فاصلہ تین سینٹی میٹر بڑھ جاتا ہے۔
بہت کم انسان ۱۰۰ سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں لیکن ایک بڑا کچھوا تقریباً ۱۷۷ سال زندہ رہتا ہے۔ سی ڈی کی جو compact disk اب ریکارڈ رکھنے کے کام آتی ہے تقریباً ۲۰۰ سال تک ریکارڈ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اگر ۱۰ لاکھ سال تک روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو بھی قریب ترین دوسری کہکشاں تک نصف سفر بھی مکمل نہیں ہوگا۔
اس کائنات میں جو عمل برپا ہیں ان کی عمومی مدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کو بننے کے بعد ٹھنڈا ہونے میں صرف ایک ارب سال لگے تھے۔ اس عرصے میں سمندر وجود میں آئے‘ نباتات کا آغاز ہوا‘ یعنی زمین میں بعض عمل ایسے ہیں کہ جن کے لیے ایک سیکنڈ بھی بہت طویل عرصہ ہے‘ جب کہ بعض اربوں سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔
اس روداد کا مختصر حوالہ صرف اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ یہ اندازہ ہو کہ وقت کے کتنے قسم کے دائرے بیک وقت گردش میں ہیں اور ایک سیکنڈ کے اربوں حصے کا معاملہ ہو یا کھربوں سالوں کا‘ یہ ساری گھڑیاں باہم پیوست ہیں۔ اس کا احاطہ کرنا یقینا آسان نہیں۔ انسان نے ابھی اس کا ابتدائی اندازہ لگایا ہے۔ اس کا مکمل حساب شاید اس کی حدود سے باہر ہے۔
۱۱- جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وقت تبدیل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اشیا کی ہیئت بھی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن اس انداز سے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ وقت کی تعمیر سے متعلق عمل میں حیرت انگیز باقاعدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ زمین کی رفتار اور اس کا سورج کے گرد گھومنا--- یہ بڑی بڑی اشیا کا معاملہ ہے۔ لیکن ان میں سال بہ سال بھی ایک سیکنڈ کے دسویں حصے کا فرق تک نہیں آتا ہے۔ انتہائی باریکی کے ساتھ یہ اور اس طرح کے بہت سارے دوسرے عمل جاری ہیں اور ہزاروں لاکھوں سال سے اپنے طریق پر استوار ہیں۔
ایک جانب چھوٹے سے چھوٹے عمل سے لے کر بڑے سے بڑے عمل کے درمیان ربط اور تعلق نظر آتا ہے۔ دوسری جانب اس ربط کے معمولات میں‘ یعنی اجتماعی طور پر بھی انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے جس کے برقرار رکھنے میں انسان کا عمل و ارادہ شامل نہیں---! اس نظام میں کوئی خلل یا فرق واقع نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس کے اسلوب میں کوئی کمی یا نقص بھی نظر نہیں آتا ہے۔
۱۲- یقینا یہ تمام باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ کوئی ہے جو وقت کا خالق ہے‘ اس کی تنظیم کر رہا ہے‘ اس کے اصول بناتا ہے‘ ان احکامات کو باریک سے باریک اور بڑے سے بڑے معاملے میں نافذالعمل کرتا ہے۔
وقت نہ صرف خالق کائنات کے وجود کا بلکہ توحید کا شاید سب سے بڑا ثبوت ہے۔ رات اور دن کا آنا اور جانا اور آسمان پر ستاروں کی رونق اگر ان دونوں پر غور کیا جائے تو جو اسرار کھلتے ہیں وہ ایک ایسی ذات کے وجود پر دلالت کرتے ہیں کہ جو یکتا ہے اور حی و قیوم ہے‘ جو وقت کو خوب صورتی سے ترتیب دیے ہوئے ہے‘ تاہم خود اس کے خول سے باہر ہے۔ جو فانی وقت کا مرکز رجوع ہے اور جو وقت کا نظم و نسق اس کی تمام تر نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے۔
مضمون کے اس حصے میں مغربی تہذیب کے وقت اور اس کے شعور کے بارے میں کردار پر روشنی ڈالی جائے گی۔ تاریخی طور پر مغربی فکر کے وقت کے بارے میں نظریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ مغرب نے وقت کے حقیقی تصور کو اپنے مہلک مفادات کے تابع بنا دیا ہے۔ مغرب کا تصور وقت کے بارے میں مغرب کے زندگی کے بارے میں تصورات ہی کا شاخسانہ ہے۔
مغرب نے انسانی زندگی کو خود ساختہ سیمابی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کا انسان اپنے آپ کو وقت کے شدید دبائو میں محسوس کرتا ہے۔ سکون اور راحت کے حصول میں ساری زندگی گنوا دیتا ہے اور پھر بھی اس سے محروم رہتا ہے۔ اس اضطراب اور بے چینی میں ساری دنیا اس لیے نقصان اُٹھا رہی ہے کہ وقت کو وہی سمجھ لیا گیا ہے کہ جو گھڑی اور کیلنڈر بتاتا ہے‘ اور یہ سوچتے ہوئے کہ یہی زندگی بس اصل زندگی ہے۔
افراد‘ اداروں‘ قوموں کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کما لینے اور حاصل کرنے کے لیے وقف ہو جائیں۔ ایک وقت میں کئی کام کرنے کی صلاحیت ایک اچھی صلاحیت ہے جس کا بروے کار لایا جانا ضروری ہے۔ یہ صلاحیت باعث ِ خیر بھی ہے۔ لیکن اس وقت کے استعمال کا مقصد صحیح نہ ہو ‘ جو وقت کو اس کے اصل نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو زندگی کے بے معنی ہو کر خلا سے پُر ہو جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ طمع اور لالچ‘ حرص اور اَمَل (خواہش) نے ایک ایسی بھاگ دوڑ میں گھما دیا ہے کہ جو وقت کی مہلت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔
۱- وقت کو حصوں میں تقسیم کرنا اور مختلف اوقات کی مناسبت کے لحاظ سے اجتماعی کاموں کو ترتیب دینا یقینا ایک مفید کام ہے۔ بدنظمی‘ غیریقینی ابہام‘ من مانی اور شک کا خاتمہ اوقات پر اتفاق کرنے سے ہو سکتا ہے۔ مغرب میں St. Benedict نے تمام راہبوں کو پہلی مرتبہ عبادت‘ کام اور آرام کے لیے مخصوص اوقات کرکے ان کو سختی سے پابند کیا۔ اس طرح لوگ جو عموماً پہلے قدرتی اوقات جو سورج اور چاند کی حرکات سے وابستہ تھے‘ سے بے نیاز ہوگئے اور ایک انسان کے بنائے ہوئے اوقات کے پابندہوگئے۔ انسان کو قدرتی اوقات کے نظام سے لاتعلق کر کے اپنے بنائے ہوئے نظام الاوقات کا پابند بنانے کا نسخہ بالآخر بازار اور تجارت کی سرگرمیوں پر بھی نافذ ہونے لگا۔ یہ تبدیلی ۱۵۰۰ سال قبل آئی۔ رفتہ رفتہ پورا تعلیمی نظام بھی اس تصور کے مطابق ڈھال دیا گیا۔ آج کوئی اس کے بارے میں سوال یا شک نہیں کرتا ہے۔ متفرق نوعیت کے نظام الاوقات جو کارخانۂ قدرت میں چل رہے ہیں ان کے ساتھ وحدت کے بجائے گھڑی کو‘ جو عبادت گاہوں‘ چوراہوں‘ تجارتی عمارات پر بالعموم نصب کی جاتی ہے‘ آلہ بنا لیا گیا۔ انسان کی زندگی گھڑی کی طرح مشینی نوعیت کی ہوگئی۔ مشینی دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مشینی وقت کا تصور رائج کیا گیا۔
۲- زندگی بجائے خود ایک گھڑی ہے۔ ایک مقرر میعاد اور طے شدہ مہلت ہے۔ گھڑی کی سوئی کو چلتے رہنا ہے لیکن قلب کا گھنٹہ گھر کس وقت دھڑکنا بند کر دے‘ اس کا کوئی پتا نہیں۔ زندگی کا وقت غیریقینی ہے۔ یہ بات وقت کو گھڑی کی سوئیوں تک محدود کر دینے سے عملاً فراموش ہوگئی۔مشینی وقت کا مرکز و محور معاش اور کام بن گیا ہے۔ وقت کو عددی لحاظ سے ناپنا تولنا یہ اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس کے نتیجے میں وقت کا مادّی تصور غالب آگیا۔ گھڑی جیسے وقت کو بناکر دے رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ خیال عام ہوگیا کہ وقت پر حکمرانی انسان کی ہے۔ نتیجتاًانسان کا اپنا وقت رہ گیا‘ نہ زندگی اس کی اپنی ٹھہری۔
وقت زندگی کا محتاج ہے۔ مغرب نے اس ترتیب کو اُلٹ دیا ہے اور اس طرح انسان کو اس کے سب سے قیمتی اثاثے پر حق ملکیت سے محروم کر دیا اور زندگی کے اہم ترین موڑ موت سے بے پروا کر دیا۔ وقت کے اصل مفہوم کے لحاظ سے ذمہ داری کا شعور بھی اسی لحاظ سے تبدیل ہوگیا۔
۳- انسان کو اس کے خالق سے دُور لے جانے‘ خالقِ وقت کے دیے ہوئے تقاضوں اور قدرتی ربط اور فطری خول سے ذہنی طور پر باہر نکالنے کے عمل کی ساری کوشش تعلیمی نظام کے ذریعے ہوتی ہے۔ تربیت و تزکیہ‘ تعمیرونشوونما کے فطری عمل کے اُوپر اسکولوں کی صورت میں مصنوعی عمل کو جس تصور کے ساتھ مسلط کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو ایک گھڑی کا کل پرزہ ہی سمجھتا ہے۔ وہ اس زندگی کی مہلت عمل میں ہمیشہ کی زندگی کا سودا کرنے کے بجائے اس مہلت عمل ہی کو انتہا اور آخری سمجھ کر صنعتی میدان کے لیے اپنے آپ کو کارآمد بنانے کے لیے خود کو حوالے کر دیتا ہے۔ انسان کلاس روم کے وقت سے سالہا سال کے بعد جب باہر نکلتا ہے تو دفتر اور کاروبار کے وقت میں بغیر کسی مشکل کے گم ہو جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ طالب علم کے سیکھنے کی متوقع رفتار‘ ماضی کی کارکردگی اور دوسروں کی کارکردگی کے لحاظ سے مستقبل کے بارے میں پیش بینی کا سہولت آمیز طریقہ اختیار کرنے سے انسان کی اندرونی دنیا بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کی خودی اور اس کے اپنے بارے میں تصور کی کوئی اہمیت اس کی نظر میں نہیں رہ جاتی۔ وہ مسلسل خارج کے ساتھ اپنے اندرون کو دبانے ‘ اور ہم آہنگ بنانا سیکھ جاتا ہے۔
۴- روشن خیالی (Enlightenment) کے دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عقل اور دلیل کے غلبے کے آغاز کا دور ہے۔ سائنسی طرزِفکر اور تجرباتی تحقیقات کے ذریعے حقائق معلوم کرنے کا دور یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس عرصے میں یہ کلیہ قائم ہو گیا کہ وقت کے ساتھ بتدریج ترقی ہی ہوگی‘ یعنی وقت ترقی کا ضامن ٹھہر گیا۔ آیندہ آنے والی کل میں انسانی تمدن اور تہذیب بہتر شکل میں ہوگی۔ اس طرح افکار کی قبولیت کے لیے جدید اور قدیم کا معیار قائم کیا گیا۔ جو نظریہ قدیم ہے وہ جدید کے مقابلے میں محض قدیم ہونے کی بنا پر قابلِ قبول نہیں ٹھہرتا--- اور جو جدید ہے وہ خواہ صحیح نہیں ہو‘ قابلِ قبول ہو جاتا ہے۔اس طرح جدیدیت (modernism) کے دور اور فلسفے کا آغاز ہوا۔ اِدھر وقت کے بارے میں مادی نظریات نے انسانی تاریخ کے بھی مادی کش مکش کی بنیاد پر ارتقا کا نظریہ دیا۔ تاریخ کہ جو رہنمائی کے لیے اہم ذریعہ ہے اس طرح اپنا اصل مقام کھو دیتی ہے۔
ظاہر ہے کہ خدا کی دی ہوئی رہنمائی سے بے غرض ہو کر انسان اگر اپنی کوشش سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے گا تو وہ ہر آنے والے کل میں پہلے تسلیم شدہ حقائق کو مسترد بھی کرتا جائے گا۔ وقت کے اُوپر یہ اعتبار کہ وہ بالآخر صحیح اور ترقی کی جانب لے جائے گا بہت بڑا دھوکا ثابت ہوا ہے۔ Logical positivism اور بتدریج ترقی (incremental progress) کے اصول کا اطلاق طبیعیاتی نوعیت کی تحقیقات میں یوں مفید ہے کہ انسان مرحلہ بہ مرحلہ ہی تجربات و مشاہدات کا دائرہ وسیع اور گہرا کر سکتا ہے۔ آج کا کیا ہوا کام ہی کل کے لیے بنیاد فراہم کرسکتا ہے لیکن اس نظریے کا اطلاق زندگی کے تصورات اور نظامِ زندگی اور تہذیب کے اصول و مبادی کے دائرے میں کامیاب نہیں رہا۔ معارفِ حق تو ایک طرف‘ حقیقت سے بھی صحیح تعارف نہ ہو سکا۔ ایک خبر کی جگہ دوسری خبر لے لیتی ہے۔ تحقیقی میدان میں آج شک اور گمان کا غلبہ ہے۔ کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ جس سے معلوم ہو جانے والی بات پر سب اتفاق کریں کہ یہ یقینا صحیح اور سچ ہوگی۔
۵- جس تہذیب کا انجن ٹکنالوجی ہے اس میں ’’نئے‘‘ کا ہونا‘ نئے کا پیدا کرنا‘ نئے کا پسند کیا جانا‘ نئے کو ترجیح دینا اور اس کے ساتھ پرانے کو بدل دینا‘ پرانے کو مسترد کرنا‘ پرانے کو کم تر جاننا بھی‘ ایک خاصہ ہے۔ صارفین کا مستقل مطالبہ ہوتا ہے کہ نیا ماڈل‘ نیا تصور‘ نیا طریقہ استعمال میں لایا جائے۔ نئے کو بہتر اور اعلیٰ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جو چیز پہلے سے ٹھیک کام دے رہی ہے اس کو حقیر اور بے کار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لباس‘ سواری‘ ثقافتی طریقہ‘ خاندانی روایات‘ اخلاقیات بھی ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ اقدار جن سے بھلائی وابستہ ہے صرف اس لیے نہیں اپنائی جاتی ہیں کہ وہ پرانی ہیں اور پرانی بات یقینا دقیانوسی ہے۔ وہ لباس کہ جو ابھی ٹھیک کام دے رہا ہے صرف اس لیے قابل زینت نہیں ٹھہرتا ہے کہ اب تراش خراش تبدیل ہو گئی ہے۔
وقت کے گزرنے کو صنعت نے کاروبار کو بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی معیشت کی بنیاد پڑ گئی ہے جس کا اگر غور سے دیکھا جائے تو اصل کام مستقل فائدے کے بجاے عارضی فائدے اور بالآخر وہ اشیا بنانا ہیں جو ضائع ہو جاتی ہیں‘ جن کو بے وقعت ہو جانا ہے۔ مقصد بتایا جاتا ہے کہ value پیدا کرنا ہے ‘ جب کہ نتیجہ waste پیدا کرنا ہے۔
جب نئے اور پرانے کی بحث کا اطلاق معاشرے کے اُوپر کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ نسلی تفاوت (generation gap) اور بچوں کے والدین کو خبطی سمجھنے کی صورت میں نکلتا ہے۔
۶- وقت کے تین مرحلے ہیں: ماضی‘ مستقبل اور حال۔ ان تینوں میں سے مغربی تہذیب اصل اہمیت آج‘ ابھی‘ اسی وقت‘ اسی لمحے کو دیتی ہے‘ یعنی حال میں بھی وہ فوری حال کو حال بعید یا مستقبل قریب کے مقابلے میں قابل ترجیح سمجھتی ہے۔ اس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ کام کرنے کے لیے اس لمحے کو جو ابھی گزر رہا ہے بڑی اہمیت ہے۔ جب تک کہ آج اور اسی وقت کوئی قدم نہ اٹھایا جائے گا کل بھی کچھ نہ ہوگا۔ آج کی آسانی‘ اس وقت کی کشادگی‘ اس لمحے کی مسرت‘ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش‘ اور آج کا ہاتھ کو لگتا ہوا فائدہ اس کی اہمیت کل سے یا کسی عہد سے یا کسی اخلاقی پابندی سے یا کسی اور وجہ سے مؤخر کرنے سے زیادہ ہے۔ اس طرح کل جو پیش آنے والا ہے اس سے آنکھیں بند کر کے آج کو بہتر بنانے کی کوشش حاوی ہوگئی ہے۔
فوری خواہش کے اثرات کردار پر گہرے ہوتے ہیں۔ نفسانی جبلت اور دنیاوی رغبتوں کی غلامی کا یہ انداز جرائم اور ظلم کے راستے پر لے جاتا ہے۔ انسان اپنی اولاد کو قتل کر دیتا ہے کہ میرا رزق کم ہو جائے گا‘اپنے والدین سے رشتہ توڑ لیتا ہے کہ یہ میری راحت میں کمی کا باعث ہوں گے۔
آج اور اس وقت کی طلب نے فوری (instantaneous) رجحان کو فروغ دیا ہے۔ ہر چیز تیار حالت میں ملے۔ اس کے باعث رفتار کے حصول کی اور اس کو بڑھانے کی کوشش ہوئی تاکہ جہاں پہنچنا ہو‘ جو کام کرنا ہو وہ فوراً ہوسکے۔ رفتار میں اضافے کے نتیجے میں وقت کا دبائو کم ہونے کی توقع کبھی پوری نہ ہوئی بلکہ زندگی کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا۔ جس سے نمٹنے کے لیے خودکاری (automation) اور سبک رفتاری (acceleration)کی ٹکنالوجی آئی۔ عصرِحاضر میں انسانی تمدن کے ارتقا میں ٹکنالوجی کا بہت بڑا کردار ہے۔ انسانی معاشرہ اس کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات میں آج گرفتار ہے۔
۷- زیادہ سے زیادہ پیداوار اور کم سے کم وسائل کی جستجو کوئی بُری بات نہیں۔ اس کے نتیجے میں وسائل ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ وقت کم صرف ہوتا ہے‘ اخراجات کم ہوتے ہیں لیکن اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کی قیمت لگ گئی۔ وقت خود قیمتی ہوگیا۔ وقت دولت اور کرنسی کی طرح کی حیثیت اختیار کرگیا۔ پیسہ وقت کا قائم مقام بن گیا۔ قوت کا ایک اظہار اس وقت کی خرید و فروخت اور سودے سے ہونے لگا۔ جہاں بس چلا وہاں غلام بنا کر‘ زنجیروں میں جکڑ کر اور رنگ و نسل کی تفریق کرتے ہوئے وقت کو پیداوار کے لیے زبردستی حاصل کیا گیا۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام میں وقت پر تسلط قائم کیا گیا۔ وقت دینے کو زندگی دینے کے برابر سمجھ لیا گیا۔ جس سے کچھ وقت لینے کا سودا ہوا ‘ اس کی پوری زندگی کو بھی ساتھ ہی قابل تصرف سمجھ لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مغرب میں ٹریڈ یونین کے ہنگامے ہوتے تھے تو مزدور فیکٹری کی گھڑی ضرور توڑ دیتے تھے‘ اس لیے کہ وہ استحصال کی علامت تھی۔ وہ حاکم کے حق میں اور محکوم کے خلاف فیصلہ دیتی تھی۔
۸- مغرب نے وقت کے ساتھ ہم آہنگی (time culture) کا تصور اُجاگر کیا ہے تاکہ پھیلتی ہوئی اجتماعی زندگی کو باندھا جائے۔ اس سے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تصور اور شوق ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی معمولات منظم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی تصور ملکیتی وقت‘ یعنی (property time) یا اپنے وقت (self time) کا تھا تو وہ بتدریج سکڑتا چلاگیا۔ قوت کے مراکز ادارے اور افراد کا منشا وقت کے بارے میں بھی حاوی ہو گیا۔ کچھ لوگوں کے پاس وقت زیادہ ہے اور کچھ کے پاس کم۔ کچھ کو محسوس ہوتاہے کہ وقت ان سے چھینا جا رہا ہے‘ جب کہ کچھ حسب منشا لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ غریبوں کے حصے میں انتظار اور پھر امید اور مایوسی ہی آئی۔ کمزور کام کے لیے انتظار کرتا رہتا ہے‘ بہتری کی توقع رکھتا ہے اور وقت کو گزارنے کا بندوبست کرتاہے۔ اِدھر امیر اور بااختیار کا وقت بھی اس طرح مختلف مطالبوں کے شکنجے میں پھنسا ہوا رہتا ہے کہ وہ ساری زندگی self time کے حصول اور اضافے کی کوشش میں سارا وقت گنوا دیتا ہے۔
۹- میڈیا ٹکنالوجی اسکرین کی مدد سے نشریاتی رابطوں (broadcasting networks) کے تعاون سے ایک جانب شعور اور تاثرات میں یکسانیت اور کسی واقعے اور خبر کے بیک وقت مشاہدے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس سے اثرونفوذ کی راہیں تو بڑھ گئیں لیکن ہم آہنگی کا ایک غلط تاثر قائم ہو گیا۔ ایک وقت میں مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے افراد کے درمیان یکسانیت پیدا کرنے کے لیے ان کو مشترکہ طور پر کسی عمل میں شریک ہونے کا موقع وقت کے اختلاف‘ فاصلوں کی نوعیت کو زائل کر دیتا ہے۔ عالمیت کو تقویت پہنچانے کے لیے یہ ہم آہنگی کا سراب (illusion of simultaneity) اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وقت کو سمیٹنا (time compactness) اور اختلافِ وقت کے نتیجے میں شعور و احساس کے اختلاف کے امکان کو کم کرنا جدید کاروباری کوششوں کا اہم مرکز ہے۔ ایک وقت میں دنیا بھر سے کروڑوں افراد کسی ایک جگہ ہونے والے میچ یا جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وقت میں جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دائرہ کار بڑھ گیا ہے۔ جو پہلے فاصلے کی وجہ سے متعلق نہ تھے وہ بھی براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ (فہمِ وقت کے اسلامی تصورات پر تحریر آیندہ پیش کی جائے گی)