جو عظیم الشان مقصد ہمارے سامنے ہے اور جن زبردست طاقتوں کے مقابلے میں ہم کو اُٹھ کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہے اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم میں صبر ہو تدبر ہو اور معاملہ فہمی ہو اور اتنا مضبوط ارادہ موجود ہو جس سے ہم دور رس نتائج کے لیے لگا تار ان تھک سعی کر سکیں۔ بے صبری کے ساتھ جلدی جلدی نتائج برآمد کرنے کے لیے بہت سے ایسے سطحی کام کیے جا سکتے ہیں جن سے ایک وقتی ہلچل برپا ہو جائے ، لیکن اس کا کوئی حاصل اس کے سوا نہیں ہے کہ کچھ دنوں تک فضا میں شور رہے اور پھر ایک صدمے کے ساتھ سارا کام اس طرح برباد ہو کہ مد تہائے دراز تک دوبارہ اس کا نام لینے کی بھی کوئی ہمت نہ کرسکے۔ یہ چیز جن لوگوں کو مطلوب ہے ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہمیں پریشان کرنے کے بجائے ہو ہم سے الگ ہو جائیں اور آزادی کے ساتھ جو ہنگامہ برپا کرنا چائیں کریں۔ مگر جو لوگ اس مقصد کے لیے واقعی کوئی صحیح کام کرنا چاہتے ہیں انہیں شوق فضول سے مجتنب ہو کر معمار کے سے صبر کی عادت ڈالنی چاہیے جو تعمیر شروع کرنے سے پہلے سامان تعمیر جمع کرتا ہے ، پھر دیوار اُٹھانے سے پہلے بنیادیں کھودنے اور ان کو مضبوطی کے ساتھ بھرنے میں کافی وقت اور محنت صرف کرتا ہے ، پھر ایک ایک اینٹ چنتا ہے اور جب تک این کو مستحکم نہیں کر لیتا دوسر ی اینٹ کو ہاتھ نہیں لگا تا ۔ جس معمار میں اتنا صبر نہیں ہے اور جو بنیاد کھودنے سے پہلے چھت ڈالنا چاہتا ہے اس کے لیے کا م کا صحیح میدان زمین نہیں بلکہ ہوا ہے۔ (,,اشارات ،، ابوالاعلیٰ مودودی ، ترجمان القرآن، جلد ۱۳۶۲ھ اپریل ۱۹۴۳ ئ، ص ۷۳،۷۴)