بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سپریم کورٹ نے انتخابات اور جمہوریت کی مکمل بحالی کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوجی دخل اندازی کے جواز (validation) کی فراہمی (۱۲ مئی ۲۰۰۰ئ) کے موقع پر تین سال کی جو مہلت دی تھی وہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو گئی۔ قومی اسمبلی نومبر میں‘ صوبائی اسمبلیاں دسمبر میں اور سینیٹ ۱۲ مارچ کو معرضِ وجود میں آیا ۔ اس طرح فوجی اقدام کے ۴۱ ماہ اور سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت کے پانچ ماہ بعد دستور اور اس کے بنیادی ادارے (organs) اللہ اللہ کر کے بحال ہوئے۔ مگر یہ بحالی اس طرح ہوئی ہے کہ صدر کے انتخاب کے لیے دستور نے جو واحد طریقہ متعین کیاہے اس کے برعکس ایک نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعہ جنرل صاحب بزعمِ خود صدر بن گئے اور پھر سپریم کورٹ کے کندھوں پر زبردستی سوار ہو کر اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے کے قطعاً برعکس انھوں نے ایل ایف او کے ذریعے دستور میں ایسی بنیادی ترامیم کا آمرانہ انداز میں اعلان کر ڈالا جس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور کا حلیہ بگڑ گیا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ جو پارلیمانی جمہوریت سے عبارت تھا تہ و بالا ہو گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر اب دعویٰ ہے کہ محض فردِواحد کے فرمان کے ذریعے ایل ایف او آپ سے آپ دستور کا حصہ بن گیا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں جو کش مکش برپا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کی ایک سرتاسر غیرآئینی ‘ غیر جمہوری اور غیراخلاقی پوزیشن کے بارے میں ہٹ دھرمی اور ضد ہے۔
ہم اس امر کا بلاتکلف اعتراف کرتے ہیں کہ ایک فوجی آمریت سے جمہوری نظام کی طرف مراجعت کی اپنی نزاکتیں اور الجھنیں ہیں جن سے بڑی تدبیر اور افہام و تفہیم کے عمل سے ہی نمٹا جا سکتاہے۔ ملک کی تمام ہی سیاسی قوتوں نے تصادم کی جگہ ایک تدریجی اور قانونی طریقے سے جمہوریت کی بحالی کے راستے کو قبول کیا ہے اور اس میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی گوارا کیا ہے جو عام حالات میں روا نہیں رکھی جا سکتی تھیں۔ انتخابات کے انعقاد اور قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے قیام اور مرکز اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کے برسرِاقتدارآجانے کے باوجود بحالیِ جمہوریت کا مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں ملک میں شدید بے چینی ہے اور ملک کے باہر ہمارے عزت و وقار پر تاریک سائے ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔
ان حالات میں پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا ہے‘ وہ بہت مناسب اور بروقت ہے اور یہ بھی خوش آیند ہے کہ خاصے پس و پیش اور ردّ و کد کے بعد حزبِ اقتدار نے بھی گفت و شنید کے ذریعے اختلاف کے حل پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دونوں حالات کا تقاضا ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات اور حزبی ترجیحات سے بالا ہو کر‘ مذاکرات کے ذریعے دلیل اور اصولوں کی روشنی میں بنیادی اختلافی امور کو طے کریں‘ تاکہ اس طرح ملک حقیقی جمہوری راستے پر گامزن ہو۔ دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی حاکمیت اس ملک کے اور تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وقتی مصلحتوں سے بالا ہو کر اس مسئلے کا حل ضروری ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ لیگل فریم ورک آرڈر اور دستور میں ترمیم کے مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور اصول‘ حق و انصاف اور ملک و ملّت کے مفاد میں اس مسئلے کو دلیل کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ محض دھونس اور ہٹ دھرمی حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں‘ اصلاح کا نہیں!
سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۳ء تک کے زمانے کی دستوری اور قانونی حیثیت کو متعین کیا جائے۔ ہمارے ملک میں دستور بننے کے بعد‘ چار بار فوجی حکمرانی کے ادوار آئے ہیں۔ ان میں پہلے دو یعنی جنرل ایوب کا مارشل لا اور جنرل یحییٰ کا مارشل لا جوہری اعتبار سے دوسرے دو یعنی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور سے مختلف تھے۔ جنرل ایوب نے ۱۹۵۶ء کے دستور کو منسوخ کر دیا اور خود ایک نیا دستور ملک پر مسلط کیا۔ جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کے دستور کو منسوخ کر دیا اور ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے نیا انتخاب کرایا اور ایک نئے نظام کے قیام کی راہ پیدا کی۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس اسمبلی نے بنایا جو جنرل یحییٰ کے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے وجود میں آئی تھی لیکن ۱۹۷۱ء کے سانحے کی روشنی میں اس اسمبلی اور اس وقت کی قیادت نے ایک بڑا دانش مندانہ اقدام کیا اور وہ یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور محض اکثریت کی بنیاد پر مرتب و مدون نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک قومی اتفاق رائے (national concensus) کی دستاویز بنایاگیا۔ اس کی بنیاد قرارداد مقاصد تھی جو تحریک پاکستان کے مقاصد اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی اُمنگوں کی مظہر تھی۔ اس دستور کی تین بنیادیں ہیں یعنی اسلام‘ پارلیمانی نظام اور ریاست کا وفاقی کردار۔ بلاشبہ یہ بھی ایک انسانوں کی تیار کردہ دستاویز ہے اور اس میں تبدیلی اور تجربات کی روشنی میں اصلاح و تغیر کی گنجایش ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کو قوم کے ہر طبقۂ خیال کی تائید حاصل ہے اور جس پر اس ملک کا شیرازہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں‘ اور دونوں مواقع پر سپریم کورٹ کے واضح اعلان کے مطابق ان ادوار میں دستور صرف جزوی طور پر معطل (in abeyance) رہا ہے اور ایمرجنسی اور عبوری دستوری انتظام کے باوجود ۱۹۷۳ء کا دستور ہی بالاتر قانون قرار پایا ہے اور آخرالذکر دونوں ادوار کو ایک قسم کا دستوری انحراف (constitutional deviation) تصور کیا گیا ہے۔ نصرت بھٹوبنام چیف آف آرمی اسٹاف (پی ایل ڈی ۱۹۷۷‘ ایس سی ۶۵۷) میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یہی تھا کہ:
نتیجتاً جو صحیح قانونی صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔
عمل دستور کو اٹھا پھینکنے کے بجائے دستوری انحراف کی نوعیت کا تھا۔
یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔
یہ ایسی صورت نہیں ہے کہ جہاں پرانا قانونی نظام مکمل طور پر دبا دیا گیا ہو یا تباہ کر دیا گیا ہوبلکہ عارضی مدت کے لیے دستوری انحراف کی صورت ہے تاکہ چیف ایگزیکٹو اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کر سکے۔
سپریم کورٹ نے ان مقاصد کی تحدید بھی واضح الفاظ میں جنرل پرویز مشرف کے ۱۳ اور ۱۷اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بیانات کی صورت میں کر دی۔ نیز یہ وضاحت بھی کر دی کہ اس عبوری دور میں بھی نظامِ حکومت ۱۹۷۳ء کے دستور کے قریب قریب چلایا جائے گا‘ اور اگر کسی مشکل کو رفع کرنے کے لیے کوئی ترمیم دستور میں ضروری سمجھی گئی تو وہ بھی لازماً ایسی ہوگی جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہ کرے‘ بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرے‘ عدالتوں کے نظام کو کمزور نہ کرے اور فوجی حکومت کے تمام اقدامات اور احکام عدالتی جائزے (judicial review) کے حق کے تابع ہوں۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فوجی حکومت کا دور بھی نہ صرف یہ کہ دستور سے مستغنی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ اسے دستور کے مکمل احیا پر بھی منتج ہونا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا یہ زمانہ ۱۹۷۳ء کے دستور سے انحراف کے عبوری دور کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی طرف مراجعت کے سوا کوئی دوسری سمت اختیار کرنے کا مجاز نہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور کا ہم ماضی میں بھی جائزہ لے چکے ہیں اور آیندہ بھی اس پر نقدواحتساب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت دستوری مسئلے کے پس منظر میں ہم ان کے تین اقدامات پر توجہ کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی چیز ۳۰ اپریل ۲۰۰۲ء کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے دستور کے طے کردہ طریق کار کے خلاف اور صدر کے لیے دستور کی متعین کردہ شرائط کے علی الرغم‘ قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کی تاریخ سے ۵ سال کے لیے صدر بن جانے کا اقدام ہے۔ اول تو جس طرح صدر رفیق تارڑ صاحب کو رخصت کیا گیا اور صدارت پر قبضہ کیا گیا ‘وہ بجائے خود نہایت معیوب تھا لیکن رہی سہی کسر اپریل ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے پوری ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کی جو کچھ بھی اخلاقی پوزیشن تھی وہ اس طرح پارہ پارہ ہو گئی اور وہ بھی ذاتی اقتدار کے جویا سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ ریفرنڈم میں جس طرح اور جس پیمانے پر دھاندلی کی گئی اس نے ملک کے اور خود ان کے وقار کو خاک میں ملا دیا۔ اس ریفرنڈم کو ملک اور ملک کے باہر ہر کسی نے ایک عظیم فراڈ سمجھا اور جمہوریت کی بحالی کے سفر کے لیے اسے ایک نہایت منفی اقدام قرار دیا۔
ہم اس مرحلے پر ان سوالات میں جانا پسند نہیں کریں گے اور ان کو مناسب وقت پر مناسب فورم میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔
ایسے مشکوک و مشتبہ ریفرنڈم کا تاج پہن کر جنرل پرویز مشرف نے دوسری جسارت یہ کی کہ اپنے تین سالہ دور کے اختتام سے تین ماہ قبل لیگل فریم ورک آرڈر کی شکل میں دستور پر ۲۹ ترامیم کا تیشہ چلا ڈالا جس نے دستور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ان ترامیم کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو ان کو تین حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے۔ چند چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے مقاصد اور روح سے مطابقت رکھتی ہیں اور مناسب مشورے کے ساتھ انھیں دستور میں ترمیم کے جائز طریقے کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ووٹر کی عمر‘ اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد میں اضافہ جیسی نوعیت کی ترامیم کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ترامیم ایسی ہیں جن پر بحث و گفتگو کے ذریعے اور مناسب رد و بدل کے بعد قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے مگر کچھ نہایت بنیادی چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح سے کلی طور پر متصادم ہیں اور جنھیں کسی صورت میں بھی اپنی موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں بنیادی امور یہ ہیں:
۱- مخلوط انتخاب کا اصول جو نظریہ پاکستان کی ضد ہے۔ اس پر مستزاد ایک طرف اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے مخلوط انتخاب کا اجرا اور دوسری طرف ان کے لیے مخصوص نشستوں کا تعین جو ان کو دوہرا ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ اگر اقلیتیں اپنے جداگانہ تشخص کی قائل ہی نہیں اور مجموعی دھارے سے ہی سیاست میں شرکت کرنا چاہتی ہیں توپھر نشستوں کی تعین کے کیا معنی؟
۲- صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جن کے نتیجے میں پارلیمانی نظام ایک طرح سے صدارتی نظام میں تبدیل ہو گیا ہے اور سیاسی نظام ایک قسم کی ثنویت (diarchy) کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کے اختیارات پر شب خون کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تصادم کا دروازہ کھولنے کا باعث ہوگا۔
۳- پارلیمنٹ اور کابینہ سے بالا ایک نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام جس کا سربراہ صدر ہوگا اور جس میں جوائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہ شریک ہوں گے۔ اسے ہزار مشاورتی ادارہ ہی کہا جائے یہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا واضح راستہ ہے جو افواجِ پاکستان کے دستور میں طے کردہ رول کے منافی اور پارلیمانی نظام کو خاکی نظام میں بدلنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس ادارے کو ایک دستوری ادارہ بناکر پارلیمانی نظام کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔
۴- سب سے زیادہ خطرناک تجویز جنرل پرویز مشرف کو بیک وقت صدر اور بری فوج کا سربراہ رکھنا ہے جس سے بحالیِ جمہوریت اور سول حکمرانی کا پورا تصور ہی پراگندا ہو جاتا ہے۔ یہ قانون اور معقولیت ہر دو اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ جس ملک کا سربراہ فوج کا حاضرسروس افسر ہو اسے جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ دستور فوج کے ہر افسر سے یہ حلف لیتاہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہیں ہوگا۔ صدر دستور کی حفاظت اور اطاعت کا حلف لیتا ہے اور صرف سیاست ہی اس کا کیریر ہوتا ہے اور چیف آف اسٹاف کے لیے سیاست میں آنا ایک دستوری جرم ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ پھر یہ فوج کے ساتھ بھی زیادتی ہے جسے ایک ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے۔ نیز فوج کا سربراہ تین سال کے لیے مقرر ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے تین سال ۲۰۰۱ء میں پورے کرچکے ہیں‘ خود ہی اپنی مدت میں غیرمعینہ اضافہ کرچکے ہیں اور اب صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے مزید پانچ سال تک فوجی وردی اور صدارت کی خلعت دونوں کو زیب تن کرنے پر مصر ہیں۔ پھر مسلح افواج کے درمیان‘ جو تین افواج سے عبارت ہے‘ یہ امتیازی رجحان کو پرورش دینے کا ذریعہ ہوگی۔ تینوں افواج کے سربراہ صدر مملکت کے ماتحت ہیں جو سپریم کمانڈر ہے۔ اس انتظام میں بری فوج کے سربراہ کو ایک ایسی فوقیت حاصل ہو جاتی ہے جو دفاعی نظام کے لیے کسی اعتبار سے بھی مفید قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ بری فوج کا سربراہ‘ صدر‘ وزیردفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہے اور گریڈ ۲۲ کے افسرکے برابر ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف بحیثیت صدر‘وزیر دفاع اور سیکرٹری دفاع کے اعلیٰ افسر ہیں اور بحیثیت بری فوج کے سربراہ ان کے ماتحت اور ان کے سامنے جواب دہ ہیں۔تعجب ہے کہ وہ اس کی غیرمعقولیت کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں؟
بنیادی اور مرکزی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ بحیثیت صدر مملکت وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو صدر‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور صدر کا حلقہ انتخاب قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ بحیثیت صدر ان کا حلقہ یہ سیاسی ادارے ہیں۔ جب کہ بری فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا ابتدائی حلقہ فوج بن جاتی ہے۔ وہ دو کشتیوں میں سوار رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں ایک حلقے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جناب محمدخان جونیجو نے وزیراعظم بننے کے بعد صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آج پھر یہی مسئلہ درپیش ہے۔ جنرل پرویز مشرف فوجی حکومت اور اس کے دورِاقتدار کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور صدارت اور پارلیمان پر فوج کا سایہ بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔
فوج کا جو مقام ہے وہ سرآنکھوں پر۔ اس کی جو ضروریات ہیں ان کا پورا کرنا قوم اور پارلیمنٹ کا فرض ہے۔ سلامتی کے معاملات میں اس کا مشورہ اور اس کے وژن سے استفادہ بھی ایک قومی ضرورت ہے۔ اور فوج کا ہر سیاسی تنازع سے بالا ہو کر پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور ہونا بھی اس کی دفاعی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب بجا لیکن اس سے آگے بڑھ کر فوجی وردی کے ساتھ صدارت‘ نیشنل سیکورٹی کونسل میں فوجی صدر اور سربراہانِ افواج کی شرکت‘ اور قومی صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جو انتظامیہ کا اصل سربراہ اسے بنادیں‘ یہ پارلیمانی اور جمہوری نظام میں ممکن نہیں۔ یا قومی حکومت ہوگی یا جمہوریت--- فوجی جمہوریت ایک تضاد اور مسلسل فساد کا ذریعہ ہوگی‘ ملک کے لیے خیروفلاح اور دستوری پارلیمانی جمہوریت کی کوئی شکل نہیں ہو سکتی۔
جنرل پرویز مشرف‘ فوج کی قیادت اور پارلیمنٹ تینوں کو اسی بنیادی سوال کا ایمان داری سے جواب دینا ہے اور دونوں میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے۔ ورنہ دستوری حکومت اور اچھی حکومت اور عوام کی بالادستی محض ایک خواب رہیں گے اور قوم اور اربابِ اقتدار میں مسلسل کش مکش اور تصادم کی صورت رہے گی۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کی تیسری جسارت ان کی اور ان کے مشیروں کی دیدہ دلیری کا بھی شاہکار ہے اور وہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ایل ایف او محض ان کے فرمان سے دستور کا آپ سے آپ حصہ بن گیا۔ یہ جسارت توجنرل ضیاء الحق نے بھی نہیں کی تھی۔ انھوں نے بھی اپنے Revival of Constitutional Orderکو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں ۳۴ دن بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کی شکل میں اسے منظور کرایا۔
دستوری اعتبار سے اگر ان کی فوجی حکمرانی کا دور صرف ایک دستوری انحراف (constitutional deviation) کا دور ہے اور وہ ایک قانونی نظام کی جگہ دوسرا قانونی نظام نہیں لا رہے (جیساکہ حقیقت ہے‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی واضح ہے) تو پھر دستور کا آپ سے آپ حصہ بن جانے کی بات دراصل دستور کے خلاف ایک کاری وار کی حیثیت رکھتا ہے جو دستور کی دفعہ ۶ کے مطابق دستور کی تخریب (subversion) کے مترادف ہے۔ دستور میں ترمیم صرف دستور کے ترمیم کے طریقے کے مطابق ہی ہو سکتی ہے جو دفعہ ۲۳۸ اور ۲۳۹ میں مرقوم ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا دستوری اور قانونی طریقہ نہیں۔
سپریم کورٹ کے ۱۲ مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے سے جس اختیار کے حاصل کرنے کی بات کی جا رہی ہے‘ اس میں کوئی وزن نہیں۔ سپریم کورٹ خود دستور میں ترمیم نہیں کر سکتی اور جو ادارہ خود قانون سازی کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دوسرے کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت واضح ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ اسمبلی اور سینیٹ موجود نہیں ہے جو دستور میں ترمیم کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ ریاست کے نظام کو چلانا ضروری ہے اس لیے نظریہ ضرورت کے تحت اگر دستوری انحراف کے اس دور میں کوئی حقیقی مشکل آتی ہے تو اس کی حد تک فوجی حکمران ترمیم کرسکتا ہے لیکن دستور کے ڈھانچے‘ بنیادی حقوق‘ عدالت کے مقام اور عدالتی جائزے کے اختیار کو ہاتھ لگائے بغیر۔ اور گویہ بات ۱۲ مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں نہیں کہی گئی لیکن یہ ایک دستوری مسلمہ ہے اور خود پاکستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ خواہ ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے مارشل لا کا دور ہو یا ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دستوری انحراف والی فوجی حکومت کا--- ان تمام ادوار میں جو بھی قوانین لاگو کیے گئے ہیں بحالیِ جمہوریت کے بعد دستور میں ان کو indemnity (تحفظ) دیے بغیر ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ دستور میں دفعہ ۲۶۹‘ ۲۷۰ اور ۲۷۰‘ اے باقاعدہ دستور کی تدوین یا دستور کی ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے جادوگروں نے دستور پر حملہ آور ہو کر بزور شمشیر اپنی ترامیم کو دستور کا حصہ بنانے کی جسارت کی ہے جو دستور کے ساتھ دراز دستی کی شرمناک مثال ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش غلام محمد صاحب نے بھی ۱۹۵۴ء میں کی تھی لیکن فیڈرل کورٹ نے جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں اسے غیرقانونی قرار دیا تھا اور ان کے دستوریہ توڑنے کے اقدام کو سندِجواز فراہم کرنے کے باوجود ان کے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ فردِواحدایک نیا دستوری‘ یا قانونی نظام‘ حتیٰ کہ کوئی بھی نیا قانون ملک پر مسلط کر سکتا ہے۔ یہ صرف دستورساز اسمبلی اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق قانون سازی کرے۔ اور اگر دستوری انحراف کے دور میں بہ صورت مجبوری اور ضرورت کچھ قانون سازی کی بھی جاتی ہے تو اسے سندِجواز صرف اس وقت مل سکتی ہے جب نئی دستوریہ /مقننہ ان قوانین کو قبول کر کے انھیں تحفظ (indemnity) دے دے۔ یہ قانون کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور فیڈرل کورٹ نے Usif Patel vs. The Crown میں اس اصول کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
گورنر جنرل دستورساز اسمبلی کے قانون کی منظوری دے سکتا ہے‘ یا روک سکتا ہے لیکن وہ خود دستورساز اسمبلی نہیں ہے اور اس کی غیرموجودگی میں وہ ان اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو اسے کبھی حاصل نہ تھے اور نہ اسمبلی کے اختیارات سنبھالنے کا دعویٰ کر سکتا ہے (پی ایل ڈی ۱۹۵۵‘ فیڈرل کورٹ ۳۸۷‘ ص ۳۹۲)۔
حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے تھی کہ ایک دوسرے نمایندہ ادارے کو وجود میں لائے جو دستورساز اسمبلی کے اختیارات استعمال کرے تاکہ تمام بلاجواز قوانین کو نیا ادارہ فوراً جواز دے سکے۔ ایسا طریق کار دستوری روایت کے مطابق ہونا چاہیے جو پیش آمدہ ایسی صورت کے لیے ہے۔
فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے ریفرنس کے جواب میں بھی اسی پوزیشن کو ایک بار پھر واضح کیا اور گورنر جنرل مجبور ہوا کہ نئی دستورساز اسمبلی لائی جائے اور وہ اس دور کے قوانین کو سندِجواز دے۔ جسٹس منیر نے ریفرنس کے جواب میں جو بات کہی اور جس کی فیڈرل کورٹ کے تمام ججوں نے تائید کی وہ یہ ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم صرف جسٹس منیر کی رائے پر اکتفا کرتے ہیں:
That the free exercise of a discretionary or prerogative power at a critical juncture is essential to the executive Government of every civilised country, the indispensable condition being that the exercise of that power is always subject to the legislative authority of parliament, to be exercised ex post facto..........
The emergency legislative power, however, cannot extend to matters which are not the product of the necessity, as for instance changes in the constitution which are not directly referable to the emergency.
کسی نازک بحران میں ہر مہذب ملک میں حکومت کا انتظام چلانے کے لیے صواب دیدی یا خصوصی اختیارات کا آزادانہ استعمال ضروری ہے‘ لیکن اس لازمی شرط کے ساتھ کہ ان اختیارات کا استعمال ہمیشہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارکے مشروط ہوگا جو بعد از وقت استعمال کیا جائے۔… قانون سازی کے ہنگامی اختیار کو ان معاملات تک توسیع نہیں دی جا سکتی جو ضرورت کی پیداوار نہیں‘ مثلاً دستور میں تبدیلیاںجو ہنگامی حالات سے براہِ راست متعلق نہیں۔ (ایضاً‘ ص ۴۸۵-۴۸۶)
عدالت عالیہ کے ان واضح احکامات اور دستور کی دفعہ ۲۶۹-۲۷۰ اور۲۷۰-اے کی روشنی میں ایل ایف او کے خود بخود یا فردِواحد کے فرمان سے دستور کا حصہ بن جانے کا دعویٰ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ جنرل صاحب اور حزبِ اقتدار کے لیے ایک ہی قانونی اور اخلاقی راستہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ انھیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں اس لیے حزبِ اختلاف سے مذاکرات کے ذریعے دستوری ترامیم کا پیکج تیار کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے جو چیزیں قابلِ قبول ہیں انھیں دستور کا حصہ بنا لیں اور جن چیزوں پر اتفاق رائے نہیں ہو سکتا ان سے دست بردار ہو جائیں تاکہ قوم اور پارلیمنٹ کے تصادم سے بچیں اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔
یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ کے انتخابات ان ترامیم کے تحت ہوئے ہیںاس لیے حزبِ اختلاف نے ایل ایف او کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ بات دستوری اور سیاسی روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ جب بھی ایک فوجی نظام سے کوئی ملک اور قوم ایک دستوری اور جمہوری نظام کی طرف مراجعت کرتی ہے تو عبوری دور میں کسی نہ کسی ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہی یہ کام ہوتا ہے۔ لیکن جب دستوری ادارے وجود میں آجاتے ہیں تو پھر وہ بعد از وقت (ex post facto) ان اقدامات کو سندِجواز دیتے ہیں۔ محض ان پر عمل سے ان کو جواز نہیں مل جاتا۔
قانون اور سیاسی تجربہ دونوں اس بارے میں بہت واضح ہیں۔ شریعت کے بھی اضطرار کے اصول سے اسی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ مجبوری کے عالم میں ایک حرام چیز بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن رغبت اور طلب کے بغیر اور صرف حدِ ضرورت تک۔ ضرورت کے ختم ہوتے ہی اس کے استعمال کا جواز ختم ہو جاتا ہے اور مقدار ضرورت و حاجت سے تجاوز ناقابلِ قبول ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌُ رَّحِیْمٌ o (پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیراس کے کہ وہ حدِضرورت سے تجاوز کرے تو یقینا تمھارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ الانعام ۶:۱۴۵)
ہمیں توقع ہے کہ اگر ہمارے اربابِ اقتدار ان گزارشات پر دیانت اور کھلے دل و دماغ سے غور کریں گے تو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے اور پارلیمنٹ کے ذریعے تمام متعلقہ امور پر بحث و گفتگو کے ذریعے قابلِ قبول ترمیمات کے ذریعے دستوری تنازع کا حل نکال لیں گے۔
ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت دستوری مسئلے کے علاوہ پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے دو دوسرے بڑے اہم مسائل ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک ملک کی سیاسی اور معاشی آزادی کا تحفظ اور دنیا میں واحد سوپرپاور کی بالادستی کا جو سامراجی نظام قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے پس منظر میں اپنی آزادی اور حاکمیت کا تحفظ اور ایسی خارجہ پالیسی کی تشکیل جو ہماری اور تمام کمزور اقوام خصوصیت سے مسلم ممالک کی آزادی اور خودمختاری کی ضامن ہو سکے اور دنیا ایک نئے سامراجی دور کے عذاب اور آزمایش سے بچ سکے اور یک قطبی نظام کی جگہ ایک کثیر قطبی نظام (multi polar system) وجود میں آسکے جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف اور برابری کی بنیادوں پر قوموں کے درمیان معاملات طے ہوسکیں۔
دوسرا مسئلہ ملک کے اندرونی مسائل کا ہے جن میں امن و امان‘ جان و مال و آبرو کا تحفظ اور عوام کی معاشی مشکلات اور مسائل کا حل ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے‘ قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ ملکی پیداوار اور پیداآوری دونوں کی حالت غیرتسلی بخش ہے۔
ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ۲۰۰۲ء کی رپورٹوں کی رو سے ۱۹۸۹ء میں آبادی کا صرف ۱۲ فی صد غربت کی سطح سے نیچے تھا (یعنی ایک ڈالر یومیہ آمدنی) جب کہ یہ تعداد ۱۹۹۷ء میں ۳۱ فی صد ہوگئی اور اب ۲۰۰۱ء میں ۳۸-۳۷ فی صد کے قریب ہے۔ قحط اور فاقہ کشی اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں موت اور خودکشی کی نوبت آگئی ہے۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم بھی روز افزوں ہے جس سے معاشی ظلم اور بے اطمینانی کا طوفان ہی نہیں اُمنڈ رہا بلکہ معاشرتی اور ثقافتی تصادم کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ سارے مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی اور اقتدار کو عوام کی خدمت اور ان کی آرزوئوں کے مطابق معاشرے اور معیشت کی تشکیل کے لیے متحرک ہونا ہے۔ ان بیرونی و قدرتی مسائل کے حل کے لیے قومی یک جہتی اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکومت اور سیاسی جماعتیں سب کی آزمایش اس میں ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے کس طرح عہدہ برا ہوتی ہیں۔