تین کام ایسے ہیں کہ ہم ان پر عمل سے بے بس نہ ہو جائیں: امربالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور اسلام کے طور طریقوں کی تعلیم۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۵‘ ص ۲۱۶)
اس وقت دنیا مسلمانوں کی بے بسی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کوئی ہے جو مسلمانوں اور انسانوں کی خوں ریزی کرنے والوں کو معروف کا حکم کرے اور منکر سے روک سکے۔ اُمت مسلمہ کے حکمران تو ظلم کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں الحمدللہ ایسے نفوس اور تنظیمیں موجود ہیں جو نبیؐ کے ارشاد کی تعمیل کر رہی ہیں کہ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو دنیا کو عدل کی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں نبیؐ کے اس ارشاد کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ کرنے کا کام یہی ہے۔ اس کی طرف سارے مسلمانوں کو پکارا جائے اور اسی کے لیے شب و روز انھیں تیار کیا جائے۔
o
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی کنانہ کی مہم پر بھیجا۔ رجب کا مہینہ تھا۔ ہم سوافراد تھے‘ بنی کنانہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے پڑوس میں جہینہ کے لوگ تھے۔ انھوں نے ہمیں پناہ دی۔ پھر ہمارا آپس میں اختلاف ہو گیا۔ کچھ نے کہا کہ قریش کے تجارتی قافلے پر حملہ کیا جائے‘ میں بھی ان میں شامل تھا۔ کچھ نے کہا کہ ہم نبیؐ کے پاس واپس جاتے ہیں اور آپؐ کو صورت حال کی خبر دے کر آپؐ سے ہدایت لیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ ہم یہیں پر انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح ہم تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک گروہ نبیؐ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے آپؐ سے صورت حال کا ذکر کیا۔ آپؐ نے ان سے تفرقے کی تفصیل سنی تو غصے سے آپؐ کا چہرئہ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا تم میرے پاس سے گئے تھے تو مجتمع تھے اور اب واپس آئے ہو تو گروہوں میں بٹ گئے ہو (ہر ایک نے اپنی الگ راہ اپنا لی ہے)۔ تم سے پہلے لوگوں کو گروہ بندی نے ہلاک کیا۔ میں تم پر ایک ایسے شخص کو امیر بناتا ہوں جو تم سے بہتر تو نہیں ہے لیکن بھوک اور پیاس برداشت کرنے میں تم سے آگے ہے۔ پھر ہمارا امیر عبداللہ بن جحش اسدیؓ کو مقرر کیا۔ یہ وہ شخص تھے جنھیں دورِ اسلام میں پہلا امیر بنایا گیا۔ (کنزالعمال‘ احمد ابن ابی شیبہ)
تفرقوں کے نقصانات اور اتحاد کی برکتیں ساری دنیا نے دیکھ لیں۔ آج بھی اتحاد کی برکت سامنے آگئی ہے۔ تفرقے کی خبر سن کر نبی کریمؐ کا غصے میں آجانا تفرقہ کی ہولناکی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ نبیؐ کا ایک ارشاد ہے: الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب (مسنداحمد‘ ج ۴‘ ص ۲۷۸‘ کنزالعمال‘ ج ۷‘ ص ۵۵۸)‘ اجتماعیت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب۔
o
حضرت انس بن مالک انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ: ہم غار میں تھے۔ میں نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا۔ وہ ہمارے سروں پر آپہنچے تھے۔ تب میں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پائوں پر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ابوبکر! آپ کو ان دو کے بارے میں کیا خطرہ ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ (بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)
اللہ تعالیٰ جو چاہیں وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ ساری دنیا اپنا سارا زوراورتمام وسائل لگا دے تب بھی اللہ کے فیصلے اور اس کے نفاذ کو نہیں روک سکتی۔ کفر اور ظلم نے بارہا ایمان والوں کا گھیرائو کیا۔ ایمان والے اسباب سے تہی دست تھے لیکن (دوسری طرف) اللہ کی ذات ان کی حامی و ناصر تھی۔ اس نے اپنی طاقت سے کفروظلم کے گھیرے کو توڑ دیا اور وہ ایمان والوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ پس اسی کی طرف رجوع‘ اسی پر توکل کامیابی کی راہ ہے۔
o
بیٹے کے جرم میں اس کے والد کو نہیں قتل کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ)
جرم کی سزا مجرم کو دی جائے‘ یہی عدل کا تقاضا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا عدل سے محروم تھی۔ جرم کی سزا مجرم کے خاندان اور اس کے حلیفوں تک کو ملتی تھی۔ ایک آدمی کے بدلے ہزاروں انسان قتل ہوجاتے تھے۔ آج دنیا نورِ اسلام سے محروم ہے تو پھر وہی اندھیر نگری ہے۔ ایک یا چند انسانوں کی مخالفت کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کہ نبیؐ اور خلفاے راشدین نے اسلام کے عادلانہ اصول کو اپنایا۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو ایک مجوسی نے شہید کیا اور اس نے خودکشی کرلی۔ لیکن خود حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ کے مجوسیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ مدینہ میں کسی مجوسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔
o
حضرت ابوہریرہؓ ’’ابین‘‘ جو ان کی برادری کا گائوں تھا‘ تشریف لے گئے۔ ان کے ہاں تنور کے پہلے تائو کی پکی ہوئی روٹیاں لائی گئیں (اس میں تائو اعتدال پر ہوتا ہے اور اس کی روٹی نرم ہوتی ہے)‘ تو حضرت ابوہریرہؓ رو پڑے اور کہا کہ رسولؐ اللہ نے یہ روٹی دیکھی بھی نہ تھی۔ (ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا احساس آدمی کو خوشی کے آنسو رُلاتا ہے۔ یہ احساس بیدار ہو تو انسان اپنے ماضی کو بھی یاد رکھتا ہے۔ عسرت کی گھڑیاں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ آسانیوں کے زمانے کی قدروقیمت یاد آجاتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ کی یہی شان تھی‘ وہ اپنی عسرت کی گھڑیوں کو یاد رکھتے تھے اور اس سے زیادہ نبیؐ کی تکالیف کو یاد کرتے تھے۔ وہ آپؐ کی تکالیف کو یاد کر کے رو پڑتے تھے۔ نعمتوں کی فراوانی ان میں تکبر کے بجائے تواضع پیدا کرتی تھی۔ رونا اسی کی علامت ہے۔
o
اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں بھٹک جائوں یا پھسل جائوں یا ظلم کروں یا ظلم کا نشانہ بنوں یا لڑائی جھگڑا کروں یا مجھ سے لڑائی جھگڑا کیا جائے۔ (ابن ماجہ)
انسان کو کس قسم کی فکرمندی لاحق ہونی چاہیے اس دعا سے اس کی رہنمائی ملتی ہے۔ گمراہی‘ ظلم‘ لڑائی جھگڑے ہی تو وہ برائیاں ہیں جن کی تباہی سے پوری دنیا دوچار ہے۔ انسان کو جہاں یہ فکر کرنی چاہیے کہ اسے امن ملے‘ اس کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کوئی اسے ظلم کا نشانہ نہ بنائے‘ وہیں اسے یہ بھی احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی کے امن و امان کو تباہ نہ کرے‘ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کسی کو ظلم کا نشانہ نہ بنائے۔ اپنی فکر تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مومن دوسروں کی فکر بھی کرتا ہے۔ اپنے ساتھ معاشرے کو بھی امن و سکون دینا اس کی سیرت اور اس کا دین ہے۔
o
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک سائل آیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس سے پوچھا کہ تم کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دیتے ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں! پھر پوچھا: رمضان کا روزہ رکھتے ہو؟ (شاید رمضان کا سوال اس لیے کیا کہ مہینہ رمضان کا ہو)۔ اس نے جواب ہاںمیں دیا۔ اس کے بعد کہا کہ تم نے سوال کیا ہے اور سائل کا حق ہوتا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ ہم پر تمھارا حق ہے کہ ہم صلۂ رحمی کریں۔ اس کے بعد اسے کپڑا دیا اور پھر کہا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑے پہناتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے جب تک اس کے جسم پر کپڑے کا کوئی ٹکڑا موجود ہو‘‘ ۔ (ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جواثر حضرت ابن عباسؓ نے لیا‘ اگر وہی اثر ہر صاحب ثروت اور اہل خیر پر ہو تو معاشرے میں شاید ہی کوئی شخص بھوکا اور ننگا رہ جائے ۔ایسی صورت حال میں فقرا اور مساکین‘ مال داروں کے ساتھ حسد اور بغض کے بجائے ان سے محبت کریں گے۔ ان کے مال اور عزت کے لیے خطرہ بننے کی بجائے ان کی حفاظت کرنے لگیں گے۔ ایک ہم آہنگ معاشرہ تشکیل پائے گا۔