انسانی زندگی ایک کل ہے جس کے مختلف اجزا ہیں‘ ایک وحدت ہے جس کے مختلف پہلو ہیں: مادی اور روحانی‘ انفرادی اور اجتماعی‘ اخلاقی اور معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی۔ اسلام کی نظر میں زندگی کے یہ سارے پہلو توجہ کے طالب ہیں اور عنایت کے مستحق ہیں۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر خیر کی ترقی بذاتہ مقصودہے‘ اور پوری زندگی کی تکمیل بحیثیت کل مطلوب ہے۔ اسلام نہ تنہا مادی ترقی چاہتا ہے‘ نہ تنہا روحانی طاقت‘ نہ صرف نفس کا تزکیہ اسے مطلوب ہے اور نہ صرف معاشرے کی تعمیر‘ نہ محض عبادات میں انہماک اس کے پیش نظر ہے‘ نہ محض اخلاق کی تحسین‘ نہ تنہا معاشی فلاح و بہبود عزیز ہے اور نہ صرف سیاسی عدل و انصاف۔ اسلام تمام شعبہ ہاے زندگی کی تکمیل اور یوں زندگی کی بحیثیت کل ترقی چاہتا ہے۔
ہماری تاریخ میں کبھی فلسفہ‘ کبھی تصوف‘ کبھی ذاتی میلان اور کبھی بعض روایات کے زیراثر صرف علم و عرفان کو غایت زندگی قرار دیا گیا ہے‘ کبھی ذات الٰہی میں فنا اور استغراق کو مقصود بتایا گیا ہے اور کبھی ذکروعبادت کو حاصل دین کہا گیا ہے۔ یہ سارے تصورات ناقص اور یک طرفہ ہیں۔
اسلام کو پوری زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل مطلوب ہے۔ اس حقیقت کا اظہار شریعت اسلامی کے تمام ممتاز شارحین اور حکما نے کیا ہے جن میں حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، فقیہ اندلس ابواسحاق شاطبیؒ، عزالدینؒ ابن عبدالسلام اور شاہ ولی ؒ اللہ شامل ہیں۔ میں یہاں صرف علامہ شاطبیؒ کا قول نقل کروں گا۔ فرمایا:
الاحکام الشرعیہ انما شرعت لجلب المصالح او درء المفاسد ‘ وھی مسبباتھا قطعاً (الموافقات فی اصول الشریعۃ‘ ابواسحاق الشاطبی ‘تصحیح شیخ عبداللہ دراز‘ المکہ التجارید‘ مصر‘بدون‘ سنہ ‘ ج ۱‘ ص ۱۹۵) شریعت کے احکام مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ یقینا یہی چیزیں ان کی تشریع کا سبب ہیں۔
اعنی بالمصالح ما یرجع الی قیام حیوۃ الانسان وتمام عیشہ ونیلہ ما تقتضیہ اوصافہ الشھوانیہ والعقلیۃ علی الاطلاق حتی یکون منعما علی الاطلاق (ایضاً‘ ج ۲‘ ص ۲۵) مصالح سے میری مراد وہ ساری چیزیںہیں جن سے انسانی زندگی کا قیام اور اس کی تکمیل عبارت ہے‘ جن سے انسان کے تمام جسمانی اور عقلی مقاصد پورے ہوتے ہیں اور انسان ہر اعتبار سے خوش اور کامیاب ہوتا ہے۔
زندگی کی ہمہ جہت تکمیل کے مقصد کے پیش نظر شریعت نے زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لیے اہداف مقرر کیے ہیں۔ ان میں سے بعض اہداف کی تحصیل لازمی اور ضروری قرار دی ہے‘ یہ فرض و واجب ہیں۔ اور بعض کو پسندیدہ کہا ہے اور ان کے حصول کی ترغیب دی ہے‘ یہ مستحب اور مندوب ہیں۔ پھر ان میں کون زیادہ اہم ہے‘ کون کم اہم اور کس کو کس پر ترجیح حاصل ہے‘ اس کی مختلف انداز سے وضاحت بھی شریعت نے کر دی ہے۔ اس کام کو نہ ہماری عقل پر چھوڑا ہے‘ نہ ہماری پسند اور میلان طبع پر‘ اور نہ کسی کے کشف و الہام ہی پر۔
شریعت کے مقرر کردہ لازمی اہداف کی تکمیل اور پسندیدہ و مستحب اہداف کی بیش از بیش تحصیل اور اس کاوش میں ان ترجیحات کا لحاظ جن کی نشان دہی شریعت نے کر دی ہے وہ عبادت جامعہ ہے جسے خالق نے ہماری تخلیق کی غایت قرار دیا ہے‘ فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذّٰریٰت ۵۱: ۵۶) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیداکیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس عبادت جامعہ کا ایک اہم جز معروف عبادات ہیں۔ دوسرے تمام اجزا کی طرح عبادات بھی بذات خود مقصود ہیں۔ نماز ہو یا روزہ‘ ذکر ہو یا تلاوت‘ حج ہو یا قربانی‘ یہ ساری عبادتیں فی نفسہ مطلوب ہیں۔ بلاشبہہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی اصلاح و تعمیر میں ان کا اہم کردار ہے‘ لیکن یہ ان کی ثانوی حیثیت ہے۔ اولاً واصلاً یہ بذاتِ خود مقصود و مطلوب ہیں۔ یہی ان کی اصل حقیقت ہے۔ دوسرے مقاصد کے حصول میں ان کی افادیت ان کی اصل حقیقت نہیں ہے۔
قرآن و حدیث کی تصریحات کی روشنی میں نماز ایک طرف اللہ رب العزت کی حمدوثنا‘ تسبیح و تقدیس‘ تکبیروتعظیم ہے‘ دوسری طرف انسان کی اپنی بندگی کا اثبات‘ عجزونیازمندی کا اظہار‘ رکوع و سجود ہے‘ تیسری طرف رب کے کلام کی تلاوت‘ اس کے احکامات کا استحضار‘ اس کی اطاعت کا محور‘ اس سے رہنمائی اور مدد کی درخواست‘ اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دعا ہے۔
یہی نماز کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے فحش و منکرسے روکنا‘ اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا‘ اطاعت کا خوگر بنانا‘ اجتماعیت کا احساس بیدار کرنا وغیرہ‘یہ نماز کے فوائد ہیں۔ ان سب کی حیثیت ثانوی ہے۔ کسی چیز کی اصل حقیقت اور غایت اور اس کے ذیلی فوائد میں جو فرق ہوتا ہے وہی فرق یہاں بھی کرنا چاہیے۔ قرآن نے اس فرق کی نشان دہی اس طرح فرمائی ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُط (العنکبوت ۲۹: ۴۵) بے شک نماز فحش اور منکر سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو‘ تمھارے اوپر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے۔ توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناخوشی سے بچنے اور اس کے احکامات بجا لانے کا نام ہے۔ روزہ انسان کے لیے بھوکا‘ پیاسا اور جنسی عمل سے دُور رہنے کی مشق اور ضبطِ نفس کی غیرمعمولی تربیت ہے۔ مگر یہ مشق اور یہ تربیت بذاتِ خود مقصود نہیں‘ مقصود تقویٰ ہے۔ تقویٰ کی تفصیل قرآن مجید میں مختلف مقامات پر آئی ہے‘ جیسے البقرہ ۱ تا ۴ اور ۱۷۷‘ آل عمران ۱۳۳ تا ۱۳۵‘ اللیل ۱۷ تا ۲۱ وغیرہ۔ ان آیات کی روشنی میں تقویٰ اس عبادت جامعہ کی انجام دہی کا ایک اسٹیج ہے جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ معروف عبادات میں سے نماز‘ تلاوت قرآن‘ اور ذکر روزے کے اول اجزا ہیں۔ روزے میں انھی کی کثرت ہوتی ہے ‘ اور انھی پر بیشتر قوت صرف ہوتی ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور اس کے احکامات بجا لانا‘ خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک‘ ہمدردی اور مواساۃ‘ ان ساری چیزوں کا نمبر بعد میں آتا ہے‘ اگرچہ کہ یہ دونوں اجزا‘ ربانی اور انسانی روزے کی حقیقت میں شامل ہیں اور بذاتہ مطلوب ہیں۔
خدا کا ذکر نماز اور روزے میں محصور نہیں ہے۔ قرآن نے کھڑے‘ بیٹھے اور لیٹے ذکر کی تلقین کی ہے اور دو بار ذکرکثیر کی ترغیب دی ہے(الاحزاب ۳۳:۳۵‘ ۴۱)۔ اللہ کے رسولؐ نے بتایا ہے کہ صبح و شام‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے‘ گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے‘ مسجد میں قدم رکھتے اور باہر جاتے‘ لباس زیب تن کرتے وغیرہ وغیرہ مختلف اوقات اور مواقع پر اللہ تعالیٰ کو کیسے یاد کیا جائے‘ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی وحدانیت کا اثبات کیسے کیا جائے‘ اس کی تسبیح و تقدیس کس طرح کی جائے‘ تکبیر و تعظیم کے لیے کیا الفاظ ادا کیے جائیں۔ اس کی نعمتوں پر شکر‘ آزمایشوں پر صبر‘ اس کے عذاب سے پناہ‘ اس کی مدد کی طلب‘ اور اس سے معافی کی درخواست کس ڈھنگ سے کی جائے‘ ان ہی ساری چیزوں کا اہتمام وہ ’’ذکرکثیر‘‘ ہے جس کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔
عبادات بذاتِ خود مقصود اور مطلوب ہیں‘ اب تک کی گفتگو اس موضوع پر تھی۔ اب عبادات کے دوسرے پہلو‘ یعنی دین کے دوسرے مقاصد کے حصول میں ان سے کیا مدد ملتی ہے‘ اس پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
نماز اور خاص طور پر تہجد کی نمازاللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط بنانے میں بے حد موثر ہے۔ خدا کے ساتھ اخلاص‘ محبت‘ اعتماد اور بھروسے کی کیفیت پروان چڑھانے‘ نتائج اور انجام کو اللہ کے حوالے کر کے دین کی اشاعت اور اس کی اقامت میں ہمہ تن لگ جانے کے لیے انسان کو تیار کرنے میں تہجد کی نماز کا کردار غیرمعمولی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو کارِ رسالت کی گراں قدر ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیاری کا جو پروگرام تجویز کیا اس میں قیام لیل سرفہرست تھا۔ فرمایا:
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلاً o اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا o وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً o رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًاo (المزمل ۷۳:۶-۹) درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر ہے۔ اور قرآن ٹھیک ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ دن کے اوقات میں تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں‘ لہٰذا اسی کو اپنا سرپرست بنا لو۔
بنی اسرائیل نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرنے‘ راست روی‘ اظہار حق‘ اقامت صلوٰۃ‘ ایتاء الزکوٰۃ‘ امر بالمعروف ونھی عن المنکرکی بھاری ذمہ داری ادا کرنے میں رب سے مدد طلب کرنے کی صورت انھیں یہ بتائی گئی:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o (البقرہ ۲:۴۵) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر عاجزی کرنے والے بندوںکے لیے نہیں۔
تحویل قبلہ کی اجازت نے صحابہؓ کی اسلامی جماعت کو ایک علیحدہ تشخص عطا کیا۔ اس نعمت کے ساتھ ایک دوسری بڑی نعمت کی بشارت بھی انھیں دی گئی۔ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمھارے دین کی تکمیل بھی فرما دے گا۔ اولاً نعمت کا شکر ادا کرنے اور دوسرے نعمت عالیہ کے لیے اپنے کو تیار کرنے کے لیے یہ ہدایت دی گئی:
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲: ۱۵۲-۱۵۳) مجھے یاد کیا کرو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ میرے انعامات کا شکر ادا کرو‘ ناشکری مت کرو۔ اے ایمان لانے والو! نماز اور صبر سے مدد چاہو۔ بے شک اللہ صابرین کے ساتھ ہوتا ہے۔
عبادات کا اسلامی زندگی میں کیا مقام ہونا چاہیے‘ اس کا صحیح جواب نبی کریمؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کی سیرت ہی میں ملتا ہے۔ جہاں تک حضورؐ کا تعلق ہے یہ معلوم ہے کہ آپؐ پنج گانہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا پابندی سے اہتمام فرماتے۔ ابتدا میں رات کا بیشتر حصہ قیام میں گزرتا حتیٰ کہ پائوں سوج جاتے۔ بعد میں مصروفیات بڑھیں تو آٹھ اور دس رکعتیں پڑھنے لگے۔ طلوع آفتاب کے بعدضحی کی نماز اور مغرب کے کچھ دیر بعد چند رکعتیں پڑھتے۔ ضحی کی نماز کی تو قریبی اصحاب کو تاکید فرماتے۔
میں نماز کے بہت سے اسرار کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اور کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ساری خطائیں‘ اگلی اور پچھلی معاف کر دی ہیں۔ آپؐ اس قدر طویل نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ فرمایا: ’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں‘‘ (صحیح مسلم‘ باب اکتار الاعمال والاجتہاد فی العبادۃ‘ حدیث ۲۸۲۰)
آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی اور بے شمار نعمتیں کی تھیں آپؐ اس طرح ان کا شکر ادا کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ (ابرٰھیم ۱۴: ۷) اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور دوں گا۔
نمازوں کے علاوہ حضور صبح و شام ‘ مختلف حالات اور مختلف مواقع کے ذکر کا اہتمام فرماتے۔ خود کرتے اور دوسروں کو ترغیب دیتے۔ زندگی کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت اوراس کے کلمے کے اعلاء میں صرف ہوتا‘ لیکن اس کے باوجود یہ احساس آپؐ کو ہمیشہ رہتا کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکا۔ چنانچہ دن میں سو سو بار استغفار فرماتے۔ آخری دنوں میں تو سجدہ کی حالت میں بھی تسبیحات کے ساتھ بار بار معافی مانگتے (کتاب التفسیر‘ حدیث ۴۹۶۸)۔ جب قرآن کی وہ آیات پڑھتے یا سنتے جن میں رسالت کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کا ذکر ہے تو آنکھیں اشکبارہو جاتیں (الطبقات الکبریٰ‘ ابن سعد‘ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت‘ ۱۹۹۲ئ‘ ص ۲۶۱-۲۶۲)۔ راہِ خدا کی تکلیفیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو نماز کا سہارا لیتے۔ فرماتے: ’’نماز میں میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے‘‘۔ (سنن النسائی‘ کتاب عشرۃ النسائ‘ حدیث ۳۹۴۹)
آپؐ کے اصحاب کا حال مختلف نہیں تھا‘ حضرت ابوبکرؓ کو لیجیے۔ آپ راتوں میں دیر تک قیام کرتے‘ جب قرآن کی تلاوت کرتے تو گریہ طاری ہو جاتا۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ہرا بھرا درخت دیکھتے تو کہتے کاش اس جیسا ہوتا کہ جواب دہی نہ کرنی پڑتی (خلفاے راشدین‘ معین الدین ندوی‘ دارالمصنفین‘ اعظم گڑھ‘ ۱۹۵۴ئ‘ ج ۱‘ ص ۸۸)۔
ایک روز رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ آج تم میں سے روزہ سے کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: آج کس نے جنازے کی مشایعت کی؟ کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں جو زبان گویا ہوئی وہ حضرت ابوبکرؓ کی تھی۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کی ہوں وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘ (مسلم‘ کتاب فضائل الصحابہ‘ باب فضائل ابی بکر‘ حدیث ۱۰۲۸)۔ خلیفہ ہونے کے بعد بھی یہ معمولات جاری رہے‘ اگرچہ مصروفیات کی وجہ سے ان میں کمی آگئی۔آپ کی سیرت کے اس انتہائی مختصر تذکرے میں بھی زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہے۔
عہدرسالتؐ اور عہدصحابہؓ اور کئی صدیوں بعد تک اہل کمال کی توجہ شریعت کے ظاہری اعمال کی بجاآوری پر تھی‘ دوسری چیزوں پر نہیں۔ ان کا احسان یہ تھا کہ نماز اور روزہ‘ ذکروتلاوت‘ اور حج ادا کریں‘ صدقہ دیں اور جہاد کریں۔ ان میں سے کسی نے بھی ایک لمحے کے لیے مراقبہ نہیں کیا۔ اذکار اور اعمال کے علاوہ کسی اور طریقے سے اللہ کو یاد نہیں کیا۔ ان کے محققین نماز و ذکر میں خدا سے مناجات کا لطف اٹھاتے‘ تلاوت کے دوران اپنا محاسبہ کرتے‘ غیراللہ سے تعلق ختم کرنے اور بخل سے نجات پانے کے لیے زکوٰۃ دیتے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔
ان میں سے کسی نے چیخ نہیں ماری‘ نہ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی‘ نہ کسی سے غیرمعمولی حرکات سرزد ہوئیں‘ اور نہ نظمات کا صدور ہوا۔ تجلی اور استقار جیسی کیفیات سے وہ بالکل ناآشنا تھے۔ صرف جنت کے طلب گار اور جہنم سے خائف تھے۔ کشف و کرامت‘ خوارق عادات‘ سکرو و غلبات ان کے یہاں پائے نہیں جاتے۔ اگر کوئی چیز ظاہر بھی ہوئی تو اتفاقیہ ہوئی۔ قصد و ارادے کی پیداوار نہیں تھی کہ ذاتی ملکہ سے صادر ہو۔ اگر ان میں سے کسی نے کہا: ’’طبیب ہی نے تو مجھے بیمار کر ڈالا ہے‘‘ تو وہ ایسا ہے جیسے کہ عام آدمی کو کسی چیز میں بصیرت حاصل ہو جائے۔ یہ تھے احوال اس طبقے کے ۔(ھمعات‘ شاہ ولی اللہ‘ تصحیح نورالحق علوی و غلام مصطفی قاسمی‘ شاہ ولی اللہ اکیڈمی‘ حیدر آباد‘ پاکستان‘ ۱۹۶۴ئ‘ ص ۱۶-۱۷)
صحابہؓ کے سلوک کی یہ تصویر مکمل ہو جائے گی اگر اس کے ساتھ اقامت دین کے لیے ان کی جدوجہد‘ اس راہ کی تکالیف اور آزمایشوں میں ان کی استقامت‘ رجوع الی اللہ اور انابت‘ بندگانِ خدا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ان کی کوشش‘ معیشت اور سیاست کو شریعت کا پابند کرنے اور خلق خدا کی خوشی اور خوش حالی کے لیے یہ جامع سلوک صحابہؓ کے بعد بھی ایک دو صدی تک معمول تھا۔ بعد میں دھیرے دھیرے تبدیلیاں ہونے لگیں۔ کچھ چیزیں دوسری قوموں سے لی گئیں‘ اور کچھ تجربات خود کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی روحانیت وجود میں آئی۔ نمازوں کی بے حد کثرت ہوئی‘ مسلسل روزے رکھے گئے۔ ذکر کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے‘ اور ان میں ایسا انہماک ہوا کہ دین کے دوسرے پہلو آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ شروع میں ان کی طرف توجہ نہیں ہوئی‘ بعد میں انھیں اعتنا کے قابل نہیں سمجھا گیا۔نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت ہی اصل دین اور سارا دین قرار پائے۔ دین کے دوسرے شعبے خاص طور پر جن کا تعلق دین کے اجتماعی نظام اور دنیا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے سے ہے وہ دین نہیں دنیا شمار ہونے لگے اور ان کے لیے جدوجہد دین داری نہیں دنیا پرستی قرار پائی۔
گذشتہ صدی میں اسلام کے احیا کی جو تحریکیں برعظیم پاک و ہند‘ ممالک عربیہ‘ اور اسلامی دنیا کے دوسرے حصوں میں اٹھی ہیں‘ انھوں نے دین کے اس محدود اور یک طرفہ تصور پر تنقید کی۔ دین کے اجتماعی پہلو کی اہمیت بتائی۔ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کو اسلامی خطوط پر کیسے استوار کیا جائے‘ اس کی وضاحت کی‘ اور دین کے اس حصے کے قیام کی کوشش کو اسلامی زندگی میں جو اہمیت حاصل ہے اسے اجاگر کیا اور اس طرح شریعت کے اصل مقاصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے اُمت کو منظم اور متحرک کیا۔ البتہ اس امر کا ادراک اور احتساب بھی ضروری ہے کہ احیاے دین اور اقامتِ شریعت کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے فرد اور اجتماع دونوں کو تیار کرنے کے لیے جس درجے کے تزکیے‘ کردار سازی‘ تعلق باللہ اور فکرِآخرت کی ضرورت ہے اور اسلام کے احیا کی اس کوشش میں عبادات کو جو مقام ملنا چاہیے وہ کہاں تک حاصل کیا جاسکا؟ نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت‘ سب بذاتہ مقصود ہیں‘ یہ تصور صحیح معنی میں کہاں تک ہماری زندگیوں میں رچ بس سکا‘ اسلامی زندگی میں انھیں جو جگہ ملنی چاہیے وہ مطلوبہ حد تک ملی یا اس میں کچھ کمی رہ گئی؟---یہ سوال اٹھا کر اور تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس پر غور کی دعوت دیتے ہوئے میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق عمل کی دعا کرتا ہوں۔