اپریل ۲۰۰۳

فہرست مضامین

تعلیم اور سامراجی یلغار

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۰۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

سامراجی قوتوں نے ہمیشہ اور دنیا کے ہر حصے میں تعلیم کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ‘اس لیے کہ جسم پر قبضہ تو فوج اور مالی قوت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر دل و دماغ اور فکروخیال کو صرف تعلیم ہی کے ذریعے پابند سلاسل کرنا ممکن ہے۔ استعمار کے جدید دور میں تعلیم کی اس قوت کو سیکولر تہذیب کے علم برداروں نے بھی استعمال کیا ہے اور مغربی تہذیب نے اپنے تمام سیکولر دعاوی کے علی الرغم اسے مذہب اور مشن کی چھتری تلے استعمال کیا ہے۔ عیسائی مشنری تحریک اور ان کے تعلیمی اداروں کا یہ کردار اب تاریخی حقائق اور ناقابل انکار شواہد سے ثابت ہے۔ خود مغربی جامعات میں دسیوں تحقیقی مقالے اس موضوع پر لکھے جا چکے ہیںاور مذہبی اور فکری تحریکوں کی اعلیٰ قیادت بھی اس کے اعتراف پر مجبور ہوئی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں سوئٹزرلینڈ میں شمباسی (Chambasy) کے مقام پر جو کرسچن مسلم مشاورت ہوئی تھی اور جس کے داعی ورلڈ کانگریس آف چرچز جنیوا اور اسلامک فائونڈیشن لسٹر تھے اور خود راقم کو اس کا شریک صدر نشین ہونے کا شرف حاصل ہے‘ اس کے اعلامیے میں اس حقیقت کا اعتراف چوٹی کی عیسائی مشنری قیادت نے ان الفاظ میں کیا تھا:

مسیحی شرکا اپنے مسلمان بھائیوں سے ان زیادتیوں پر ہمدردی کا اعلان کرتے ہیں جو مسلم دنیا کے ساتھ نوآبادکاروں اور ان کے شرکاے جرم کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ کانفرنس آگاہ ہے کہ مسلم عیسائی تعلقات بے اعتمادی‘ شبہات اور خوف سے متاثر ہوئے ہیں۔ اپنی مشترکہ بھلائی کے لیے تعاون کرنے کے بجائے مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے سے اجنبی اور علیحدہ رہے ہیں۔ استعمار کی ایک صدی کے بعد جس کے دوران بہت سی مشنریوں نے جانتے بوجھتے یا لاعلمی میں نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کی خدمت کی‘ مسلمان عیسائیوں سے تعاون میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں جن سے وہ اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے آلۂ کار کے طور پر لڑے۔ گو کہ ان تعلقات میں نیا ورق اُلٹنے کا وقت یقینا آگیا ہے‘ مسلمان اب بھی قدم اٹھاتے ہوئے رکتے ہیں کیونکہ مسیحی اداروں کے بارے میں ان کے خدشات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سی مسیحی مشنری خدمات کو آج بھی ناپسندیدہ محرکات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی جہالت ‘ تعلیم‘ صحت‘ ثقافتی اور معاشرتی خدمات کی ضرورت‘ مسلمانوں کے سیاسی بحران اور دبائو‘ ان کی معاشی محتاجی‘ سیاسی تقسیم‘ عمومی کمزوری اور زدپذیری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدس تبلیغ کے علاوہ دوسرے مقاصد کی خاطرمشنری خدمات انجام دی ہیں‘ یعنی مذہب کی کشش کے علاوہ دوسری وجوہات سے عیسائی آبادی میں اضافہ کرنا۔ ان میں سے بعض خدمات کے بارے میں حال ہی میں معلوم ہونے والی اس بات نے کہ ان کے رابطے بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں سے ہیں‘ پہلے سے موجود خراب صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کانفرنس ان خدمات کے اس طرح کے غلط استعمال کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ (کانفرنس کی روداد‘ جلد Lxv ‘ اکتوبر ۱۹۷۶ئ)

ہم نے اس حقیقت کا اعادہ اس لیے ضروری سمجھا کہ سامراج اپنے نئے دور میں‘ جس میں اب امریکہ ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے‘ ایک بار پھر مشنری تعلیمی اداروں اور این جی اوز کی چھتری تلے مغرب کی تہذیبی یلغار کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں بالخصوص اور افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں بالعموم ایک نئے جارحانہ اقدام کا آغاز کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک محاذ این جی اوز نے سنبھالا ہے تو دوسری طرف عیسائی مشنری ادارے تعلیم کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں۔ ایف سی کالج لاہور اور اس کے متعلقہ اداروں کو امریکہ کے پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کیا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس ناپاک مہم میں عیسائی مشنری اداروں کے پڑھے ہوئے سول اور فوجی افسران ایک نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایف سی کالج ایک مثالی معاملہ (test case) ہے۔ حکومت نے امریکی اثرات‘ اور ملک کے ذہنی غلامی کے شکار اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کی چالوں کا شکار ہو کر اس اہم تعلیمی ادارے کو چرچ کو واپس کر دیا ہے جس نے اس کے لیے امریکہ سے نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔  اس ادارے کو نج کاری کے نام پر مشنری طاقتوں کو سونپا جا رہا ہے جو صاف اعلان کر رہے ہیں کہ جلد اس ادارے کی مکمل نج کاری ہوجائے گی اور اسے قومی تعلیمی دھارے سے نکال کر مارکیٹ کے نام پر فیسوں کے نئے نظام کے ذریعے اشرافیہ اور دولت مند طبقوں کی اولاد کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ایف سی کالج ہی وہ ادارہ ہے جس کے ایک سابق پرنسپل سے انگریزی حکومت کے دور میں جب اس ادارے کے مشنری سربراہ اورمالیات فراہم کرنے والے نے سوال کیا کہ ہم نے اس ادارے پر اتنا سرمایہ اور اتنا وقت صرف کیا ہے‘ بتائو تم نے کتنے طلبہ کو عیسائی بنایا تو اس پرنسپل کا جواب (جو آج تاریخ کا حصہ اور ملّت اسلامیہ پاکستان کے لیے ایک تازیانہ ہے) یہ تھا: ’’مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ کتنے طلبہ کو ہم نے عیسائی بنایا؟ یہ پوچھو کہ کتنوں کو اسلام پر قائم نہیں رہنے دیا۔ ہم نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو اب اسلام سے وفادار نہیں رہی اور یہی ہماری محنتوں کا حاصل اور ہماری اصل کامیابی ہے‘‘۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے غلط کام کیے لیکن جن چند اچھے کاموں کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے ان میں دستور ۱۹۷۳ء کو ایک متفقہ دستاویز بنانے اور نیوکلیر استعداد کے لیے ڈٹ جانے کے ساتھ عیسائی مشنری تعلیمی اداروں کو قومی دھارے میں لانا اور استعماری چھتری کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ ایف سی کالج کو بھی دوسرے مشنری تعلیمی اداروں کی طرح قومی تحویل میں لیا گیا اور اس طرح یہ سامراجی چوکیاں ختم ہو گئیں۔ افسوس کہ پچھلے دو فوجی حکمرانوںکے ادوار میں بیرونی اثرات کے تحت ان اداروں کو بار بار سابق مشنری قوتوں کی تحویل میں دینے کی کوشش ہوئی اور بالآخر اب ایف سی کالج کو پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کرنے سے اس خطرناک کھیل کو عمل کا جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اس تہذیبی حملے اور مفاد پرست طبقے کے جاں گسل وار کے خلاف سینہ سپرہوگئے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں کھا کر بھی اس خطرناک کھیل کو روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن محض ان کو ہدیہ تبریک پیش کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کا ساتھ دینا اور اسے ایک قومی قرارداد کی شکل دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم ملک کی تمام دینی اور محب وطن قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ گربہ کشتن روزاول کے اصول پر اس رجعت قہقہری کو رکوانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ خود اس پر ناخوش ہیں مگر ’’اُوپروالوں‘‘ کے اشاروں پر یہ کچھ ہونے دے رہے ہیں اور خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سب اس خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے اور اس کے آگے سدسکندری بننے کی تحریک میں سرگرم ہوں اور ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ کو تنہا نہ چھوڑیں۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور ایک بڑی سازش کا حصہ۔ یہی موقع ہے کہ اس کو ناکام بنا دیا جائے اورایف سی کالج اور ایسے تمام اداروں کو قومی تعلیمی دھارے کا حصہ رکھا جائے اور ان کے تعلیمی معیار اور تعلیمی سہولتوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں ترقی دینے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم صاحب ایک طرف تو نظریہ پاکستان اور حب الوطنی پر مبنی مشترک تعلیمی نصاب کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ۳۰ سال سے قومی دھارے کا حصہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو محض باہر والوں یا اُوپر والوں کے اشاروں پر عالمی سامراجی اور تہذیبی فوج کشی کا نشانہ بننے کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہیں۔ اسے برداشت کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہوگا     ؎ 

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا