کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ایک بڑے سائن بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہے: ’’پاکستان: سرمایہ کاروں کی جنت‘‘۔ اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے لیکن اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس جنت کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد امریکہ سے اربوں ڈالر نکالے گئے۔ وہاں مسلم سرمایہ کاروں کا ناطقہ بند کیا گیا تو اکثرافراد متبادل مواقع کی تلاش میں امریکہ چھوڑگئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے حقیقی جنت بنایا جا سکتا تھا۔ عرب سرمایہ کاروں کو خصوصی ترغیب دلائی جاتی‘ انھیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پاکستان لا کر سہولتیں فراہم کی جاتیں تو پاکستان کی تعمیروترقی میں ان کا کردار یقینی تھا‘ لیکن عملاً کیا ہوا؟
افغانستان پر حملے کے دوران غیرملکی پاکستان آتے ویسے ہی گھبراتے تھے کہ جنگ زدہ علاقے میں پائوں بھی رکھا تو شاید موت کی وادی سے واسطہ پیش آئے گا۔ لیکن پھر ایف بی آئی کے دھڑا دھڑ چھاپوں اور خود حکومت ِ پاکستان کی طرف سے امریکی انتظامیہ کا دل جیتنے کی خام خیالی نے پاکستان کے تمام عرب دوستوں کو اس سے دُور کر دیا۔اب عالم یہ ہے کہ کسی عرب شہری کے سامنے نام لیں کہ آپ پاکستان آئیں تو وہ فوراً جواب دیتا ہے ’’کیا میں نے القاعدہ کی فہرست میں نام لکھوانا ہے؟‘‘ کئی عرب باشندے ایسے بھی ملے ہیں کہ کبھی تعلیم یا تجارت کے لیے آئے توپاسپورٹ پر پاکستانی ویزا لگ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ویزے یا پاکستان میں داخلے کی مہر کی وجہ سے ہمیں اپنے ملک میں اور مغربی ممالک میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں ہم اگر صرف ایئرپورٹ پر بورڈ لگا کر پاکستان کو سرمایہ کاری کی جنت ثابت کرنا چاہیں یا لاہور ٹرمینل کا افتتاح کرتے ہوئے صدرمملکت سرمایہ کاری کی دعوت دیں تو نتائج کا صفر ہونا یقینی ہے۔اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں اپنے دوستوں کا اعتماد بحال کیا جائے‘ انھیں تحفظ دیا جائے اور سرمایہ کاری کے لیے مواقع کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔
عالم یہ ہے کہ نہ صرف عرب باشندوں پر آئے دن دھاوا بولا جاتا ہے بلکہ خود پاکستانی عوام کو ان سے نتھی کیا جا رہا ہے۔ اور اب افراد ہی نہیں اس ضمن میں جماعتوں کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ گذشتہ ماہ خالد الشیخ کی گرفتاری کے بعد اہم حکومتی کارپردازان انھیں جماعت اسلامی پاکستان سے نتھی کرتے رہے حالانکہ حکومت ہی نہیں امریکہ بھی جانتا ہے کہ جماعت کا طریق کار اور راستہ کیا ہے۔ کسی حکومتی نمایندے نے اس موقع پر یہ نہیں سوچا کہ اس تہمت کے نتائج کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ جماعت تو الحمدللہ ہمیشہ اس طرح کے تہمتی طوفانوں سے سرخرو ہو کر نکلی ہے لیکن کیا یہ الزام لگاکر حکومت نے ان بھارتی اور صہیونی ایجنسیوں کی اس مہم کو تقویت نہیں دی جو عالمی ذرائع ابلاغ میں مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ ’’پاکستان کے تمام اسلام پسند عناصر دہشت گردی کو ترویج دیتے ہیں‘‘۔کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر ہم ہندو صہیونی لابی کی اس مہم کو مضبوط کرنے میں ارادی یا غیر ارادی طور پر شریک ہوگئے تو ان کے پروپیگنڈے کے اس عنصر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ’’پاکستان کی روگ آرمی دہشت گردی کی پشت پناہی کرتی ہے‘‘۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈا صرف کارگل کے معرکے کے حوالے سے ہی نہیں اب بھی کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے جماعت اسلامی یا اسلام پسندوں کے خلاف کی جانے والی یہ مہم صرف پاکستان ہی تک محدود نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اسی نہج پر دینی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یمن کے معروف عالم دین اور قرآن و سائنس کے عنوان سے خصوصی شغف رکھنے والے تحریکی رہنما کے متعلق گذشتہ دنوں لاس اینجلس ٹائمز میں الزام لگایا گیا کہ یمنی ساحلوں پر تباہ ہونے والے امریکی بحری جہاز ’’کول‘‘ پر حملہ ان کی شہ پر کیا گیا۔ کئی خلیجی ریاستوں میں اس طرح کی فضا بنائی گئی کہ یہاں القاعدہ سے متعلق افراد کا بڑی تعداد میں سراغ ملا ہے اور مارچ کے دوسرے نصف میں ان کے خلاف بڑی کارروائی کی جائے گی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ فضا عراق پر امریکی جارحیت پر ممکنہ ردعمل کو روکنے کے لیے پیدا کی گئی۔
عالمی پروپیگنڈے اور ہندو صہیونی الزامات کو تو پہلے بھی کسی نے پرکاہ کی حیثیت نہیں دی‘ لیکن اگر باڑھ بھی کھیت کو کھانے لگے‘ ’’پاکستان: سرمایہ کاروں کی جنت‘‘ کے امین خود اسے جہنم ثابت کرنے پر کمر کس لیں‘ تو خاکم بدہن ‘پھر دشمن سکھ کی نیند سو جائیں ہم خود ہی اپنی دشمنی کے لیے کافی ہیں۔